نیازآوران۔ تحریر: ایس کلس (ترجمہ :عاصم بخشی)

 In ترجمہ

تعارف
واقعاتی اعتبار سے مثلثیات کے اس دوسرے ناٹک کا موضوع وہ نوجوان نسل ہے جو ٹروجنی جنگ کے بعد بڑی ہوئی۔ بالخصوص یہ سوال کہ کیا یہ نسل بھی اپنے والدین کی طرح سلسلہ ہائے انتقام میں پھنسی رہتی ہے یا اس سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوتی ہے؟ ناٹک کا آغاز آگامامنون کی قبر پر ماتم سے ہوتا ہے جسے قتل ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پہلے ناٹک آگامامنون میں گائک منڈلی آرگوس کے بڑے بوڑھوں پر مشتمل تھی۔ یہ رجعت پسند بڑے بوڑھے طاقت کے گرد گردش کرنے والی قدیم روایات سے جڑے تھے ، لہٰذا ناٹک کے اختتام پر آگامامنون کی موت نے انہیں شدید نفسیاتی دھچکا لگایا۔ نیازآوران میں گائک منڈلی ان لونڈیوں پر مشتمل ہے جو عین اس وقت نیاز اٹھائے منظر میں داخل ہوتی ہیں جب اورستس اور اس کا ساتھی قبر پر کھڑے ہیں۔ سیاہ قباؤں میں ملبوس منڈلی کے آگے آگے اس ناٹک کا ایک اور اہم نسوانی کردار ہے۔ یہ کلیتم نسترا اورآگامامنون کی بیٹی ، یعنی اورستس کی بہن الکترا ہے۔ ایک خاص نشانی کے ذریعے بھائی او ربہن کی ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں انتقام کا منصوبہ بناتےہیں اور دیوتاؤں سے طویل دعائیہ اظہار میں باربار اپنے مرے ہوئے باپ کو پکارتے ہیں۔ الکترا یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ آخر کلیتم نسترا نے آگامامنون کی قبر پر یہ نیاز کیوں بھیجی؟ اب کی بار جو گائک منڈلی واپس لوٹتی ہے تو ایک حیران کن خبر یعنی اسی سوال کا جواب لاتی ہے۔ یہ ایک خواب ہے جس کی تفصیل آپ گائک منڈلی کی زبانی ہی سنیے۔ بالآخر اورستس اپنا انتقام لیتا ہے اور قتلِ مادر کے اس اقدام کی ذمہ داری تقدیر او ردیوتاؤں کو دیتا ہے۔ ناٹک میں گائک منڈلی کا کردار انوکھا ہونے کی وجہ ایک طرف تو خونی یعنی کلیتم نسترا کو سزا ملنے کی حمایت کرنا ہے اور دوسری طرف ایک اور خونی کی تخلیق ہے۔ تینوں ناٹکوں میں شاید یہ واحد مقام ہے جہاں ہم بطور قاری (یا ناظر ) حیران ہوتے ہیں کہ لونڈیوں پر مشتمل گائک منڈلی کیسے ایک دہرے قتل کی حمایت کر سکتی ہے جو رائج بادشاہت کے سراسر خلاف ہو؟ آخر وہ تو خود کلیتم نسترا کی کنیزیں ہیں۔ اگر آپ سن ۴۵۸ قبل مسیح میں یونانی تھیٹر میں بیٹھے ایک ناظر ہوں تو یہ دیکھ کر چونکے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ اس ناٹک کے انجام پر یہ قتل کا منظر کس حد تک پہلے ناٹک سے ملتا جلتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وہاں بھی آخری منظر میں دو قاتل خون میں لتھڑے لاشے کے ساتھ موجود تھے۔ یہاں بھی کم و بیش ویسا ہی منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے۔ اس موقع پر گائک منڈلی کی باتوں سے پھر کسی قدر ابہام کی فضا قائم رہتی ہے۔ کیا اورستس اپنا انتقام لینے میں حق بجانب تھا؟ اگر تھا تو پھر گائک منڈلی کیوں ماتم پر مجبور ہے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر گائک منڈلی کی باتوں سے یہ تاثر کیوں ملتا ہے کہ کلیتم نسترا اور آئگستوس کو اپنے کیے کا حساب دینا ہی تھا؟ یہی وہ ابہام، یہی وہ پہیلی ہے جو قدیم یونانی تخیل کا لازمی جزو ہے۔ آخر کار اورستس کہتا ہے کہ وہ یہاں سے فرار ہو کر ڈیلفی کے اوریکل یعنی اپالو کے مندر میں پناہ لے گا۔ اسی اثناء میں وہ گائک منڈلی کی عورتوں کو دیکھ کر چیخ پڑتا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پاتیں کہ وہ انہیں دیکھ کر کیوں چیخا۔ دراصل وہ ان عورتوں کو نہیں بلکہ ان کے عقب میں کسی اور شے کو دیکھ کر چیخا ہے۔ یہ عفریتوں کا ایک جتھا ہے جو فیوریوں کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان کا حلیہ آپ خود ہی ناٹک میں ملاحظہ کر لیجیے۔ وہ انہیں دیکھ کر الٹے قدموں بھاگتا ہے اور فیوریاں جو اگلے ناٹک کا مرکزی کردار ہیں، اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ ناٹک کی آخری سطروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گائک منڈلی اب یہ راز جان چکی ہے کہ کیا انتقام در انتقام کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہو گا یا نہیں۔
ایس کلس کی مثلثیات کا یہ دوسرا ناٹک کلاسیکی یونانی ڈرامے میں طاقتور نسوانی کرداروں کی ایک مخصوص روایت کو بہت مضبوطی سے آگے بڑھاتا۔ ناٹک کے انجام تک کلیتم نسترا کا لافانی کردار اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو فیوریوں کی شکل میں ایک اورنسوانی مخلوق اسٹیج کا مرکز سنبھال چکی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس ناٹک کا مرکزی خیال ہی ماں کی بددعا ہے۔ آپ اس کنجی کی مدد سے تلاش کرنے کی ضرور کوشش کیجیے کہ ماں کی یہ بددعا ناٹک کے کس فیصلہ کن حصے میں سامنے آتی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ پورا ناٹک ہی کوکھ، چھاتیوں، دودھ اور بچوں کی پیدائش جیسی علامات سے بھرپور ہے۔ کلیتم نسترا کا نسوانی کردار ماں، قاتلہ، بدکار عورت کی منازل طے کرتا ہوا باالآخر مقتول بنتا ہے تو بطور قاری ہمیں کہیں نہ کہیں اس میں مظلومیت کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔ آج فیمنسٹ تھیوری کے نظریہ ساز ہمیں ایس کلس کے ایتھنز میں عورتوں کی زندگی اور یونانی ادب کے ان ادوار کی گرہ کشائی کرتے نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ ان تشریحات پر بحث کا موقع نہیں کیوں کہ فی الوقت تو ہمارا مقصد آپ کے سامنے اس دلچسپ ناٹک کا اردو متن رکھنا ہے۔

(آرگوس کے راج محل کے باہر آتریوس گھرانے کے مقبرۂ عظیم میں آگامامنون کی قبر کا منظر۔ اورستس اور پولادس داخل ہوتے ہیں۔)

اورستس
اے ہرمس، تو جو آتما کا ہاتھ تھامتا ہے
اگلی دنیا میں پہنچنے کے بعد۔
زیوس کے بیٹے، سب دیوتاؤں میں اونچے،
زیوس جو ہر غلط کو صحیح کر دیتا ہے۔
بن جااب اپنے باپ کابیٹا—
سدھار دے میری غلطیوں کو۔
سن لے میری دعا۔
بہت لمبی وطن بدری کے بعد میں گھر لوٹا ہوں
اُس پر حق جتلانے جو میرا ہے۔
اور وہ کرنے جو مجھے کرنا ہی ہے۔
یہ میرے باپُو کی قبر ہے۔
آگامامنون ، وہ عظیم راجا، لیٹا ہے یہاں ۔
ہرمس، میری آہوں کو پہنچا دے اس کی آتما تک ۔

باپُو میں پیش کرتاہوں آپ کواپنے سر کے بال
اتارتے ہوئے یہ پہلا گچھا،
رکھتا ہوں یہاں اپنا بچپن ۔
یہ کٹا دوسرا—
یہ ہے میرا غم، میری آہ وبکا ، میری قسم۔
میں یہ سب تیری قبر پر رکھتا ہوں۔
میں یہاں نہ تھا جب انہوں نے تجھے مارا—
لیکن اب پہنچ چکا ہوں
وہ کرنے جو ضروری ہے۔
کون ہیں یہ مہیلائیں؟
کیا یہ ادھر کو آتی ہیں؟
کالے کپڑوں میں ماتم کرنے والیاں؟
ساتھ لیے موت اور کرب؟
آتی ہیں اس طرف —
ہاتھ میں ایک ایک مرتبان—
یہ یقیناً میرے باپ کی قبر کے لیے نیاز ہو گی،
دھرتی کی زخمی قوتوں کے لیے ایک مرہم۔
اور یہاں اتنی کھلم کھلا
شدتِ غم میں الگ تھلگ ،
میری بہن الکترا۔

زیوس ، اے خداوندِ عظیم،
بدلہ لینے دے مجھے اپنے باپُو کا ،
صرف اتنا کر،
قدم اس طرف بڑھیں تو میری راہنمائی کر۔

آؤ ایک طرف ہو جائیں ، پولادس۔
میں سننا چاہتا ہوں کہ یہ مہیلائیں کیا چاہتی ہیں۔
یوں شاید ہماری جانکاری کچھ اور بڑھے۔

(گائک منڈلی اور الکترا داخل ہوتے ہیں۔)

گائک منڈلی
ہم کلیتم نسترا کے حکم پر آئی ہیں،
کہ راجا آگامامنون کا ماتم کریں۔
لیکن ہمارے اپنے غم نے یہ کام آسان کر دیا ۔
چمڑی پر لگے زخم تازہ ہیں—
سالوں کے کرب سے بھری ہماری زندگیاں
روز روز کی خودکشیاں ۔
بے چارگی اپنے کپڑے اور بدن نوچتی،
روح اپنے درد کا اعلان جسم کو چیر کر کرتی ہے۔

ایک چیخ نے نصف شب کا سکوت توڑا۔
سونے والے جاگے اور ڈ رکے مارے لیٹے رہے ۔
ایک خواب کی ڈکراتی آواز آتی تھی
گھر کے سب کمروں سے ہوتی ہوئی
کلیتم نسترا کے خوابیدہ حلق سے۔
قسمت کی دیوی نے اس کے سوتے ہوئے منہ سے
ہر سننے والے کو بتایا
کہ مرے ہوئے طیش میں ہیں
بدلہ لینے کے لیے
قاتلوں سے۔
تو رانی نے تنگ آ کر دیوتاؤں
اور مرے ہوؤں سے
نکال دیا ہمیں صبح سویرے ۔
کہ بہائیں تیل اور شراب
زمین کی گود میں —
کہ خوش ہو جائے دھرتی ماتا ۔
قیمتی تیل اور قیمتی شراب۔
کلیتم نسترا کے خوف سے ڈگمگاتی
بھاری دل سے اینٹھتی ہوئی۔
میں یہ نیاز پیش کرتے ہوئے ڈرتی ہوں
خون سے
جو سیاہ پتھروں کے نیچے سے ہوکتا ہے۔
کون سے دعائیں اس ہُوک کو دھو سکتی ہیں
یا پھر اس بدبخت راج محل کو
جو اپنے قاتلوں کی بدبُو میں نہایا ہوا ہے،
سورج اور انسانیت کو خوف زدہ کیے ہوئے ہے؟

ایک دفعہ اونچے سر والا آرگوس
اپنی مرضی سے اس راجا کے آگے جھکا
جس نے اس کی جگہ لی تھی۔
لیکن اب مزید نہیں۔
تکریم مٹی میں جذب ہو چکی ،
جیسے کسی ٹوٹے ہوئے پیالے سے شراب نکل جاتی ہے
خوف نے اسے کر ڈالاچکنا چور ۔
دہشت نے اسے کر ڈالا چکنا چور ۔
کسی چیز کی تعریف نہیں کی جاتی
سوائے اس کے کہ نصیب اچھے ہوں اور کام نکالا جائے۔
جو بھی یہ کر سکے پس وہی دیوتا ہے۔
لیکن وہ دوشی
جو اپنا سر اچھی تقدیر میں لپیٹے
ذرا سا اونگھ لیتا ہے
صرف اتنی ہی دیر سہانے سپنے دیکھ سکتا ہے—
جب تک کمان، انصاف،
اور تیر،
اور بدلہ،
اسے چونکا نہ دے۔
و ہ عین وقت پر اٹھتا ہے
کہ ششدر آنکھوں موت آئے۔

جہاں انسان کی صبر کرنے والی ماں،
دھرتی ماتا،
کو زبردستی خون پلایا گیا ہو،
او رباربار زبردستی وہ خون پلایا گیا ہو
جس کا بدلہ نہیں لیا گیا—
تو اس کی گھٹی گھٹی چیخ
ایک شراپ بن جاتی ہے، جس سے نظر چرانا ممکن نہیں
اور نہ ہی ان کی ناکامی کا امکان ہے۔
کسی کنہیا کی ایک بار عزت بکھر جائے
تو اسے دوبارہ سمیٹا نہیں جا سکتا۔
سورگ سے نکلنےوالی ساری خالص ندیاں
اور ایک بار کی دھلائی
کبھی ان ہاتھوں کو نہیں دھوسکتی جو ڈالے گئے ہوں
اس خون میں جس کا بدلہ نہیں لیا گیا۔

خدایا دے دے ہمارا شہر دشمن کو،
لوٹ مار اور قتل و غارت کے لیے۔
ہم جو بچ گئے اپنے پریواروں کے لیے
اب غلام ہیں۔
صرف ہماری ابلتی نفرت ہی
اپنی آزادی قائم رکھتی ہے،
سینے تلے۔
اور اس تخت، اس رانی اور اس کے ساتھی کے
ظلم و ستم کے خلاف ہماری چیخ
قبا کی تہہ سے اپنا ہی گلا گھونٹ لیتی ہے۔

الکترا
مہیلاؤ،
تم جن کے ذمے ہے
گھر کا کام ،
کیوں کہ تم یہاں بھی میرے ساتھ ہو،
اس رسم کے دوران—
مجھے صلاح دو۔
میں کون سی دعائیں مانگوں
ان تمام چڑھاووں کے ساتھ؟
میرے شبد کیسے خوش کر سکتے ہیں
میرے قتل ہوئے باپ کو؟
کیا میں شراب انڈیلوں، یہ پکارتے ہوئے:
’میں یہ تمہاری بیوی، اپنی ماں،
کلیتم نسترا کی طرف سے لائی ہوں،
اور انڈیلتی ہوں ،
ہماری محبت کی قسم کے طور پر؟‘
چاہیے ہو گی اس کے لیے کانسی کی زبان ۔
میں باہر نہیں نکال سکتی تیل،
شراب، دودھ، شہد—
کہ نبھاؤں رسم
اور مرنے والے کے لیے دعا کروں
جب کہ مجھے تو انصاف مانگنا چاہیے۔
یہ زیادہ مناسب ہو گا
اگر میں بہاؤں یہ نیاز خاموشی سے
جیسے بہایا اس نے اپنا خون، اس خاموشی سے ،
جو اس کی آخری چیخ کے بعد طاری ہوئی۔
پھر مجھے چلے جانا چاہیے خاموشی سے
جیسے میں نے پھینک دیا او رچھپا لیا ہو کچھ برا،
پیچھے دیکھے بغیر۔
دوستو، ہم گھر کی بے چارگی میں شریک ہیں،
ایک ایسی نفرت میں شریک ،
جیسے کسی ایک ہی زنجیر کی کڑی ہوں۔
دیوتا ہماری تقدیر سے واقف ہیں—
چاہے ہم غلام ہوں یا آزاد
نہ تو تم اور نہ ہی میں اسے چن سکتے ہیں
یا اس سے بھاگ ہو سکتے ہیں۔
مجھ سے کھل کر بات کرو۔ مشورہ دو۔

گائک منڈلی
اس مقبرے پر جو ہمارے لیے کسی بھی استھان جتنا ہی مقدس ہے،
ہم تمہارے لیے اپنا دل کھول دیں گی اور کچھ نہ چھپائیں گی ۔

الکترا
یہ مقبرہ ہی ہمارا مقدس گواہ ہو۔
کہو اب ۔

گائک منڈلی
شراب ڈالو اور دعا کرو ان کے لیے جن پر تم بھروسہ کر سکتی ہو۔

الکترا
جن پر بھروسہ کر سکتی ہوں؟
میں کس پر بھروسہ کر سکتی ہوں؟

گائک منڈلی
خود پر۔
اور ان سب پر جو آئگستوس سے نفرت کرتے ہیں۔

الکترا
میرے لیے۔ اور تمہارے لیے؟
کیا میں یہ دعا تمہارے لیے کروں؟

گائک منڈلی
تم ہمارے شبدوں کی سچائی جانتی ہو۔
خود فیصلہ کرو۔

الکترا
دوسرا کون ہو سکتا ہے—جس پر میں بھروسہ کر سکوں؟

گائک منڈلی
اورستس کے لیے دعا کرو۔
دور دراز اورستس کے لیے دعا کرو۔

الکترا
اورستس!
ہاں!
اورستس کے لیے۔

گائک منڈلی
اور قاتلوں کے لیے بد دعا—

الکترا
ہاں، بددعا کیا؟
میں قاتلوں کے لیے کیا بد دعا کروں؟
کیا؟

گائک منڈلی
بددعا
کہ کوئی دیوتا یا کوئی آدمی
آ جائے انصاف لے کر۔

الکترا
کہ انصاف کیا جائے،
جرم ثابت کیا جائے،
سزا دی جائے۔

گائک منڈلی
کہ مارد یا جائے!
خون کے بدلے خون۔
اس چیز کی دعا۔

الکترا
کیا خداوند قتل کی دعا سن سکتا ہے؟

گائک منڈلی
بدی کے بدلے بدی انصاف ہے
اور انصاف مقدس ہے۔

الکترا
اے ہرمس، دیوتاؤں کے پیغامبر،
پاتال کے سمت پیما اور راہنما،
اوپر اور نیچے آنے جانے والے ، میری مدد کر۔
بول میرے لیے ،
جگا پاتال کی طاقتوں کو ،
اس گھر کے رکھوالوں کو،
دے انہیں حکم کہ مجھے سنیں،
اور خود زمین کو بلا،
ہماری دھرتی ماتا کو آواز دے
اپنے بطن میں ساری زندگی لیے،
ہر چیز کی ماں ، ہر پودے ، ہر چیز کی دائی،
انسانیت کے نذرانوں سے ہری ہوئی عظیم کوکھ—
التجا کر اس سے کہ میری سنے۔

اور اب میں اپنے مرے ہوئے باپ کو پوتر کرنے کے لیے پانی بہاتی ہوں—
اور بلاتی ہوں اس کی روح ۔
باپو—
اپنے بچوں پر رحم کر۔ رحم کر۔ اورستس پر رحم کر۔
اپنے بیٹے اورستس پر رحم کر، اور اپنی بیٹی پر۔
ہم لاوارث اور بے گھر ہیں،
بدلائے ہوئے اپنی ہی ماں کے ہاتھوں ،
بیچے ہوئے آئگستوس کے بدلے میں ،
لیے ہوئے تمہارے قاتل کی جگہ ۔
میں غلاموں کے بیچ زندہ ہوں۔ میں غلام کی زندگی جی رہی ہوں۔
اورستس کو وطن بدر کر دیا گیا۔
ہم کیسے اپنا گھر واپس لیں گے؟
آئگستوس اور تمہاری رانی ، کلیتم نسترا،
اپنے خزانوں کی شان و شوکت میں چمکتے ہیں
جیسے دو سانپ اک دوجے کے ساتھ کنڈلی مارے
سو رہے ہوں۔
باپو، اورستس کہاں ہے؟
اسے گھر واپس لے آ۔
میری دعا سن لے اور اسے پورا کر۔

میں اپنے لیے بس یہی مانگتی ہوں
کہ اپنی ماں جیسی نہ بنوں—
ہاتھ، دل، سوچیں صاف،
اپنی ماں کی طرح نہیں،
ضمیر صاف،
خون سے سیاہ ہوا نہیں،
جیسے میری ماں کا۔
یہ دعائیں ہمارے لیے ہیں۔

اوراب ہمارے دشمنوں کے لیے—
باپو، اے بدلہ لینے والے ،
اسے ایک تیز دھار کے ساتھ آنے دے
اسی خنجر کی طرح اٹل جو تیرے آرپار ہوا،
اسے یہ ماپ تول کرنے دے،
لمبائی اور چوڑائی،
موت کی ، موت کے لیے،
قتل کےلیے انصاف۔
کیا ہے تیرے قاتلوں کی امید ؟
میری امید تو خنجر ہے اورستس کا ۔
یہ تجھے گالی دیتے
اور اس گالی کو دستے تک اندر گھونپ دیتے ہیں۔
اورستس کا خنجر میرا شراپ ہے۔

باپُو، مجھ پر کرم کر
ان دعاؤں کو سن کر—
پاتال کو اوپر آنے دے،
دیوتاؤں کو آنے دے
انصاف کے لیے۔
میری دعائیں سن جب میں یہ نیاز انڈیلتی ہوں۔
آؤ تم سب میرے ساتھ،
جگانا ہو گا ہمیں مرے ہوؤں کو ۔

گائک منڈلی
آنسوؤں کا سمندر
جو ٹرائے کو دھوتا ہے
اتھاہ گہرا ہے۔
اسے آرگوس کو دھونے دے—
نمک، ٹھنڈا پانی
صاف کرتا ہے خون
آگامامنون کا۔
ہماری چیخیں
اتھاہ گہری ۔
آنکھوں سے باہر آتےہمارے آنسو
اتھاہ گہرے ۔
انہیں بہاؤ آگامامنون کے لیے۔

لاؤ اس کا بدلہ لینے والے کو—
لاؤ فیصلہ کر دینے والے خنجر کو ۔
کہ وہ کاٹ ڈالے اس بھاری
جمی ہوئی
پشیمانی کی رسی کو
جو اس گھر کا گلا گھونٹتی ہے،
چٹخا دینے والی جکڑ
دونوں جسموں کی
جو بندھن میں بندھے ہیں اپنے جرم کے۔
کر ڈالو انہیں علیحدہ علیحدہ ۔

الکترا
پہنچ چکی شراب قبر میں ۔
میرا باپ
پیتا ہے میری انڈیلی گئی نیاز ،
یہ کیا ہے ؟

گائک منڈلی
کیوں اچھلا ہمارا دل جب تم نے یہ اٹھایا؟

الکترا
بالوں کا ایک گچھا—میرے باپ کی قبر پر رکھا ہوا۔

گائک منڈلی
کیا یہ ایک عورت کے بال ہیں یا مرد کے؟
کس نے
انہیں یہاں رکھا؟

الکترا
نظر نہیں آتا کس کے ہیں؟

گائک منڈلی
جانتی ہو تو بتاؤ۔
کس کے ہیں؟

الکترا
آگامامنون کے گھر سے کوئی انہیں پیش نہیں کر سکتا تھا
اگر میں نہ ہوں تو۔

گائک منڈلی
شاید تمہاری ماں ہو—اگر وہ اس کی قاتل نہیں۔

الکترا
رنگ، بافت ، اس کے بارے میں سب کچھ
جب کہ یہ میرے ہاتھ میں ہے—کتنا جانا پہچانا لگتا ہے۔

گائک منڈلی
کیا جانا پہچانا ہے؟ کس کے بال لگتے ہیں یہ؟

الکترا
ہمارے۔ ہمارے خاندان کے۔ میرے۔

گائک منڈلی
اورستس؟

الکترا
بال اس سے ملتے جلتے ہیں۔

گائک منڈلی
اورستس کیسے آرگوس میں قدم رکھ سکتا ہے
کہ اپنے باپ کی قبر پر یہ بالوں کا نذرانہ پیش کرے؟

الکترا
وہ دور سے ماتم کرتا ہے۔ چھپ کر بھیجے ہوں گے۔

گائک منڈلی
اس نے بھیجے ہی ہوں گے۔
اورستس جرأت نہیں کر سکتا
اپنے وطن کی زمین پر کھڑا ہونے کی ،
اپنی خاندانی قبر پر۔
ہم بھی اس کے لیے ماتم کریں گے۔

الکترا
ماتم؟
میں کڑواہٹ اور طیش چاہتی ہوں
جیسے نصف شب میں کوئی چڑھتی موج
میرے اوپر سے گزر جائے۔
جہاں دوسرے اپنے دل میں رحم محسوس کرتے ہیں
میں ایک تلوار کی دھار محسوس کرتی ہوں،
تیز کی ہوئی۔
ان اچانک آتی بڑی لہروں میں سے
جو مجھے بہا لے جاتی ہیں
دو قطرے
ٹپکتے ہیں میری آنکھوں سے
جب میں یہ دیکھتی ہوں۔
آرگوس میں سے کوئی اور اس کا مالک نہیں۔
نہ تو وہ قاتلہ، میری ماں ،
گو کہ وہ اس سے ملتے جلتے ہیں۔
وہ دیوتاؤں پر ہنستی اور اپنے بچوں کو لعنت ملامت کرتی ہے۔
جو بھی ہو میرا دل کسمساتا ہے—
اس خیال سے بیٹھا جاتا ہے
کہ اورستس نے،
جومجھے اس دنیا اور اگلی سے پیارا ہے،
بھیجی ہے یہ بالوں کی لٹ ۔
امید جنت دکھلاتی ہے احمقوں کو ۔
اگر بول سکتی یہ بالوں کی لٹ ،
بتلا سکتی اگر مجھے صاف صاف ،
کہ یہ کلیتم نسترا کی ہے،
تو میں کچل دیتی اسے اپنی ایڑی تلے ۔
اگر یہ مجھے بتلا سکتی
کہ یہ اورستس کے سر سے آئی ہے،
تو یہ میرے لیے خیر کی بات ہوتی اور اس قبر کے لیے بھی،
اور آگامامنون کے لیے عزت و تکریم۔

دیوتا جو ہمیں سنتے ہیں
جانتے ہیں کہ کونسا طوفان
ہماری زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لیے
ہماری راہ کھوٹی کرتا ہے
اپنے تیز جھکڑوں سے ۔
لیکن اگر کوئی مستقبل ہے
تو ایک دیوہیکل درخت بھی پھوٹ سکتا ہے
ایک ننھے سے بیج سے۔

دیکھو!
قدموں کے تازہ نشان۔
گو میں نے یہاں پیر نہیں رکھا، لیکن یہ
بالکل میرے قدموں کے سے ہیں۔
کیا یہ نشان اس بالوں کی لٹ کے ہیں؟
بالوں ہی کی طرح مجھ سے ملتے جلتے۔
ایڑی، تلوا، انگلیاں—
میرے اپنے نقش ذرا بڑے۔
اوہ، مجھے دعا کرنے دو۔
سر درد سے دھمکتا جاتا ہے۔
لگتا ہے میرا دل
پھٹنے والا ہے۔
(اورستس آگے آتا ہے)

اورستس
تمہاری دعائیں سن لی گئیں۔
اب تم فخر سے کہہ سکتی ہو
کہ عظیم دیوتا
سنتے اور جواب دیتے ہیں۔

الکترا
کون ہو تم؟
کون سے بات مان لی دیوتاؤں نے میری ؟

اورستس
تمہاری سب سے پرانی دعا—
اسی لمحے قبول ہوئی۔

الکترا
اگر تم میری خفیہ دعا جانتے ہو،
تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ اس میں کس کا نام ہے ۔

اورستس
تمہارے دل کی ہر دھڑکن ایک ہی نام پکارتی ہے: اورستس

الکترا
یہ دعا اور نام کیسے زیادہ ہو سکتا ہے
ایک دعا اور نام سے ؟

اورستس
یہاں تمہارے سامنے کھڑے ہو کے۔

الکترا
شاید کسی کھلے جال کی طرح۔

اورستس
جال بھی جال میں پھنس چکا ۔

الکترا
نہ کھیلو میرے درد سے ۔

اورستس
ایک ہے تمہارا اور میرا درد ۔

الکترا
اورستس!
کیا میں تمہیں اورستس کہہ رہی ہوں؟

اورستس
تم کتنی دیر کرتی ہو
سچائی دیکھنے میں۔
جہاں یہ کھڑی ہے۔
جب تمہیں یہ بالوں کی لٹ ملی
قبر پر رکھی ہوئی،
ایک لڑکے کی نیاز
اپنے باپ کو،
تو تمہارا دل تقریباً
اچھل پڑا بدن سے باہر
دیکھ کر میرا چہرہ ۔
تم نے میرا نام سنا
گونجتا ہوا فضا میں ۔
جانتی ہو تم میرے قدموں کی نشاں
اب سے بہتر
جانتی ہو میرا چہرہ۔
یہ دیکھو—یہ ہے وہ جگہ
جہاں سے اتری یہ بالوں کی لٹ ۔
تم کٹی ہوئی جگہ دیکھتی ہو۔
دیکھو اس قبا کو—
پہچانتی ہو کیا
ان جانوروں
جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے بنے
اپنی ہی کھڈی پر؟
الکترا، خود پر قابو پاؤ۔
لگامیں ڈالو
اس بے قرار خوشی کی لہر کو
جو تمہارے تن بدن میں دوڑتی ہے
کسی رسی تڑائے گھوڑے کی طرح۔
بہت سے ظالم ہمارے قریب ہیں۔
انہیں کچھ پتہ نہ چلنے دو۔

گائک منڈلی
شہزادے اورستس!
سب سے قیمتی
اپنے باپ کے خزانوں میں۔
اپنے باپ کی نسل کی زندہ جڑ
غم سے گہنائی ہوئی۔
طاقت ور بنو
کہ اپنے باپ کے گھر اور تخت کو واپس لے سکو۔

الکترا
یہ تیرا چہرہ ہے، اورستس۔
میری چاروں خوشیوں کا چہرہ—
جو کچھ باقی بچا میرے باپ کا ،
جو کچھ باقی بچا میری ماں کا— جو بن گئی
میری ماں کی قاتل
جب اس نے قتل کیا میرے باپ کا،
جو کچھ باقی بچا میری بہن کا،
افی جینیا، قربان ہوئی کیسے ہلکے پھلکے
جیسے ہوا کا کوئی جھونکا—
محبت کے تینوں ظروف
انڈیلے گئے تم میں،
میرے چوتھے،
میرے بھائی جو بدلے نہیں—
تمہارے نام نے مجھے
غلامی اور پشیمانی سے آزاد کر دیا ۔
اب خداوند،
اور اس کا انصاف،
تمہیں انعام دے
ہمارے باپ کا بدلہ لینے کا۔

اورستس
زیوس، نیچے دیکھ،
دیکھ ہماری طرف۔
دیکھ جو ہم اب دیکھتے ہیں۔
ہم ہیں عقاب کے بچے،
غم میں ڈوبے ہوئے،
اس تتر بتر ہوئے گھونسلے میں
ایک عقاب کی لاش سے
جو کنڈلیوں میں جکڑی ہے
اس سانپ کی جو ڈس چکا ہے۔
دیکھ تباہیوں بربادیوں نے
کیا حال کیا ہے بے کسوں کا،
بے قوت نوپروازوں کا—
پھر بھی عقاب کی اڑان،
عقاب کا شکار، عقاب کا گھونسلہ، بلند ترین نشیمن
ہمارا ہی ہے۔
دیکھ ہماری طرف، زیوس۔
دیکھ اورستس اور الکترا کی طرف،
یتیم اور بے وطن۔
راجا آگامامنون نے قربانیوں کا ڈھیر لگایا
اور ہماری نیازیں بہائیں
ایک مسلسل ضیافت میں
جو تیرے نام پر دی گئی۔
اگر تو نے ہمارا نام مٹنے دیا
تو وہ ضیافت ختم ہوئی۔
اور جب مر جائیں گے عقاب کے بچے
تو انسان کیسے پڑھیں گے
تیرے اشارےآکاش پر؟
کون تیرے خاموش استھانوں
کی عزت کرے گا؟
جڑ سے اکھاڑ پھینک اس بری بادشاہت کو ۔
آ اس گھرانے کی مدد کو ۔
اٹھا اس گراوٹ سے
ہماری قوت کے شجر کو۔
راجا کی قبر سے
ہماری شان و شوکت کو
پھر ایک نئی زندگی بخش۔

گائک منڈلی
اتنا اونچا نہیں، اتنا اونچا نہیں۔
ہوا ہمہ تن گوش ہے۔
کوئی زبان نہیں
جو بھلا دے
وہ خوشی سے بھرا احساس
جب ایک آدمی کا راز
ہمیں بنا دیتا ہے عجوبہ
ایک ششدر سامع کی صورت —
تو وہ ظالم
اس کا گھونٹ بھر جائیں گے
جسے خداوند، اپنی تمام تر خیر میں،
مجھے سونپے گا، مردہ۔
ان کے بدن سلگیں
اور چٹخیں گے شعلوں میں
کسی چپچپے صنوبر کی طرح۔

اورستس
اپالو کا حکم تقدیر کا لکھا سمجھو
کوئی انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
اپالو کی آواز، اپنے اٹل پن سے
میرے قدموں ،
میرے ذہن،
میرے ہاتھوں کو راہ دکھلاتی ہے
اس ٹکراؤ کی جانب
جو قاتل سے قاتل کا ہے۔
اپالو کی آواز
جما ڈالتی ہے میرے بدن کو
ایک برف کی ڈلی کی صورت
بار بار گنتے ہوئے وہ دہشتیں
جو میری منتظر ہیں
اگر میں ناکام ہوں۔
یا لڑکھڑاؤں
یا ایک طرف پلٹوں
اس مقصد سے:
’خون کے بدلے خون، تمہارا چہرہ تانبے کی طرح تنا ہوا۔‘
ان کا قرض سونے میں نہیں تولا جا سکتا۔
اور اگر میں ناکام ہوں تو ناکامی کی قیمت ادا کروں گا
اپنی زندگی سے۔
اپالو نے مجھے بتایا کہ
انسانوں کو کون سی رسمیں نبھانی چاہیے ہیں
زمین کی روحوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے۔
مجھے بتایا کہ ان کا غضب
انسانوں کے گھروں میں کیا آفت لاتا ہے۔

وہ چھالے جو انسانی خدوخال کو
ایک پیپ زدہ پھوڑے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
سفید پھپھوندی جو ان چھالوں پر لگتی ہے۔
پھر اس نے مجھے بتایا
کہ قتل ہوئے باپ کا بے بدل خون
بے پروا بیٹے کی آنکھوں کے آگے کیا منظر لاتا ہے
فیوری دیویاں، گھنی تاریکی میں سے نکلتی چلی آتی ہیں،
اس خون کے بخارات کے نشے میں،
ان کے تیر تاریکی میں اڑتے چلے آتے ہیں،
دیوانگی کسی جال کی طرح پھیلی ہے،
ان کی راتوں کی دہشتیں کسی سوتے ہوئے کو جگا دیتی ہیں،
ایک گہرائی سے مزید گہرائی میں اس کا شکار کرتی چلی جاتی ہیں،
ایک شہرسے دوسرے شہر تک اس پر برساتی چلی جاتی ہیں
تانبے کی تار کے بنے کوڑے—
خون اور پیپ کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے،
نفرت سے دھتکارے ہوئے جیسے کسی کوڑھی کو
ضیافت سے نکال دیا جائے
یا کسی مقدس حلقے سے۔

اپالو کے ہاتف کی آواز
نے یہ سب کچھ بتلایا۔
اس آدمی کے مرے ہوئے باپ کا غصہ
اسے بھگاتا ہے، اس مفرور مجرم کو
مندر سے اور آتشدان سے ۔
آخر میں
ٹھکرایا ہوا،
دھتکارا ہوا،
تنہا مر جاتا ہے۔
کسی کونے کھدرے میں کوئی سایہ
کسی کیڑے مکوڑے کی پوست کی طرح، خاک میں لٹکی ہوئی،
موت سے حنوط شدہ ۔
کیا میں ہاتف کے بدروحی شبدوں کو سچ مانوں—کیا ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
اگر میں انہیں جھٹلا بھی دوں ، مجھے پھر بھی ان کا کہا ماننا ہو گا۔
میرے مقصد بہت سے اور اٹل ہیں، خدائے عظیم کے واضح حکم سے کافی مختلف۔
میرا سر اپنے باپ کے غم سے پھٹا جاتا ہے، دل کی ہر دھڑکن گرج کر پکارتی ہے ’انتقام!‘
طیش میں نیند نہیں آتی، یہ جانتے ہوئے کہ میری ساری وراثت آئگستوس کے خون سے لتھڑے ہاتھوں میں ہے۔
اور میں سخت شرمندہ ہوں آرگوس کے شرفاء کو دیکھ کر،
جنہوں نے ٹرائے میں اپنی کاروائیوں سے دنیا کو ششدر کر دیا،
پڑے ہیں ایک عورت کے قدموں میں سر جھکائے۔
بلکہ دو عورتوں کے قدموں میں—آئگستوس وہ مادہ بھیڑیا، جو دم اور کان دبائے، غول کی سرغنہ، کلیتم نسترا کے آگے دبکی بیٹھی ہے۔
لیکن کوئی جنس اس کی مدد نہیں کر سکے گی جب میرے سے آمنا سامنا ہو گا۔

گائک منڈلی
قسمت کی تین دیویو—ہماری پکار سنو۔
ہماری دعائیں پوری کرو،
خدا کے ہاتھوں کو ماپنے دو
وہ سب جو ہماری امیدیں مانگتی ہیں،
جب وہ ترازو کے پلڑے اٹھائے گا۔

انصاف کی دیوی ہر چیز کو ترازو میں لے آتی ہے۔
ہر شبد کے بدلے شبد، نفرت کےبدلے نفرت،
ہر قاتل وار کے بدلے ایک قاتل وار،
بے حرمتی کا بدلہ ایک دردناک موت،
تکبر کا بدلہ—ایک ٹوٹی ہوئی گردن۔
کرب میں ڈوبی تین نسلوں نے
اس قانون کی سچائی کو جانچا ہے۔

اورستس
اے باپو،
میں تجھ سے اتنا ہی دور ہوں
جیسے تو زمین کا مرکز ہو،
میرے محبت کے شبد ،
یا میرے ہاتھوں کا پیار بھرا عمل ،
کیسے تجھ تک پہنچ سکتے ہیں،
جہاں تو تاریکی میں پڑا ہے ازل سے؟
میرا کوئی پیار بھرا سانس
تیرے رخسار کو نہیں پا سکتا
کہ اسے چھو سکے۔
تو کیسے سن سکتا ہے
ہمارے روتے دھوتے نوحے ،
ہمارے یاسیت زدہ ماتم
اپنے کانوں میں پڑے ٹنوں سیسے کے آرپار سے؟
تیرے خون کی خاک
کیسے چکھ سکتی ہے ہماری نیاز ؟
تیری کھوپڑی کا چٹخا ہوا خول
کیسے جان سکتا ہے
ہماری محبت کا سچ؟

گائک منڈلی
دکھیارے بچے،
بدن کو چٹ کر جانے والے چتا کے شعلے
روح تک نہیں پہنچ سکتے
قتل ہوئے آدمی کی۔
اس کا غصہ محض آزاد ہوا ہے،
اس کی یاداشت واضح اور مزید کڑوی ہو گئی ۔
پھر اس کے بچوں کا غم زدہ جذبہ
اپنے ابا کا نام پکارتا
ایک تیر کی طرح ہے—
ان کے ماتمی شبد کانٹے او ر پر ہیں
اور ماتم کی رسمیں کمان کی صورت
اس تیر کو پھینکتی ہیں
سیدھے قاتل کے ڈولتے دل میں ۔
اس تیر کی اڑان انصاف ہے۔

الکترا
اے باپو،
اس کمان کو تاننے میں ہماری مدد کر۔ ہماری مدد کر ماتم کرنے میں۔
دھرتی کے آرپار دیکھ، ہم پر نظر ڈال،
اورستس اور الکترا،
ہم تیرے بچے۔
ہمیں غرانے دے
اپنے مقبرے کو کھول ڈال۔
اپنے بچوں کی سن لے،
دونوں یتیم اور دربدر،
اٹھ اور ہمارا ساتھ دے۔
ہر شے کو موت ہے—خاک فراموش کر دی گئی۔
ہم کیسے وہ کرنے کی امید کر سکتے ہیں جو کرنا ہے؟

گائک منڈلی
قدرت بدی کا رخ پلٹ سکتی ہے۔
نوحے خوشی کے شادیانوں میں بدل سکتے ہیں۔
مرے ہوئے راجا کا راج محل ، دہشت کی تاریکی سے،
روشنی میں نہا سکتا ہے،
شان و شوکت کے نور اور ضیافت کی مشعلوں کی روشنی میں
ایک شہزادہ تخت سنبھالتا ہوا۔

اورستس
باپو، اس سے تو بہتر تھا
تُوٹرائے کی فصیل تلے جان دے دیتا۔
کسی بہادر سورما کی تلوار سے لڑتے لڑتے۔
تیری عزت ہماری دولت ہوتی،
تیرا نام ہماری شان
ان سب کے ہونٹوں پر جنہیں ٹرائے یاد ہے۔
تیرا مزار، ایک فوج کے ہاتھوں بنا ہوا،
اس ساحل پر کھڑا ، ایک سمندری علامت ہوتا—
نہ کہ یہ پشیمانی کا ڈھیر۔

گائک منڈلی
تم پاتال میں چمکے ہوتے
ایک نئے ستارے کی طرح۔
تم نے وہاں راج کیا ہوتا
ایک مہاراجہ بہت سے راجوں کے اوپر—
جیسے تم نے زمین پر راج کیا
ایک مہاراجہ راجوں کے اوپر۔

الکترا
بہتر ہے کہ وہ کہیں بھی نہ مرے،
نہ تو سکامندار کے کنارے
ٹرائے کی فصیلوں کے ساتھ پڑی لاشوں کے ساتھ
نہ ہی یہاں، جرم کے پھندے میں
جو ہمارے گھرانے کی دیوانگی ہے۔
قاتل—وہ ہیں
جنہیں مردہ ہونا چاہیے، گلے سڑے
اور زمین تلے۔
کہاں تھا وہ حادثہ
جو دونوں ہی کو منظر سے ہٹا دیتا
بس یونہی چپ چاپ
اس سے پہلے کہ ان کی سازش
ہم سب کو اس خون میں تر گرہ میں پھنسا لے؟

گائک منڈلی
جو ہوا وہ بہرہ ہے
بے چارے فانی انسانوں کی خواہشات سے
خیال خود کو خوشی سے بہلاتا رہتا ہے—
لیکن قدرت اس قابل نہیں
کہ ایک حقیقت بھی بدل سکے۔
خیر جو بھی ہو، تمہاری آوازیں مل جل
ایک بڑا طلسم باندھتی ہیں۔
دھرتی کی قوتیں
تمہارا جذبہ دیکھ کر جوش میں ہیں—
اور وہ نفرت انگیز ظالم بھی
اپنے ہی عمل سے معذور ہو چکا ہے —
ٹوٹا ہوا قانون
ٹوٹے ہوئے ہاتھ پیر کی طرح۔
جلد ہی بچوں کی آوازیں،
کسی برفانی تودے کی طرح اسے جا لیں گی۔

اورستس
پاتال کے دیوتا،
اے رسی لمبی کرنے والے—
کیا ہم نے تجھے جگا دیا
اپنی پکاروں سے؟
نرگ کی تہہ سے
کیا تو اوپر اٹھ کر ہم پر آسرا کرے گا،
اس پوشیدہ مرکز سے
جس کے گرد ہر شے گھومتی ہے؟

گائک منڈلی
ہمیں رونے دھونے دو
کلیتم نسترا کی گھورتی ہوئی لاش پر
آئگستوس کی انتڑیاں نکلے مردے پر،
لگانے دو ہمیں
مسرت کا وہ مقدس قہقہہ ۔
کیوں ہم اس کا گلا گھونٹیں؟
اگر انصاف کی دیوی ہماری امیدوں میں شریک ہے تو،
اگر خداوند اس وحشی طوفان میں سفر کرتا ہے
جو انتقام کے لیے ہمارے دل کو جھنجھوڑ ڈالتا ہے—
انتقام، انتقام، انتقام۔

الکترا
میں ڈر سے کانپ رہی ہوں۔
یقیناً خداوند کبھی نہیں جانے دے گا
ان مجرموں کو بغیر سزا کے؟
وہ باپوں کی عزت کی حفاظت کرتا ہے
اور ماؤں کی۔
وہ بس وار ہی کیوں نہیں کر دیتا؟
دکھا ہمیں وہ انصاف جو سچا انصاف ہے۔

اوہ، اگر صرف تم طاقتو
دھرتی کی اور رات کی ،
اور ہر پوشیدہ چیز کی،
ہماری سن لو۔
ہم بس یہی مانگتے ہیں، اپنی تمام دعاؤں میں،
کہ غلط کو صحیح سے بدل دیا جائے۔

گائک منڈلی
دلیر بنو۔
قتل ہوؤں کا خون
دھرتی پر سے خون کا تقاضا کرتا ہے۔
دیوتاؤں نے یہ قانون بنایا ہے۔
فیوی دیویاں، خون کے لیے چیختی ہوئی،
یوں اوپر اٹھتی ہیں
جیسے گرے ہوئے خون میں سے سڑاند۔
درد درد کو جنم دیتا ہے،
بربادی بربادی کو۔

اورستس
پاتال کے آقاؤ،
تم بددعاؤں کی تاج پوشی کرنے والو،
نظر کرو ہماری طرف۔
ہم آتریوس کے گھرانے کے آخری چیتھڑے—
جن میں سے خالص زندگی کےعلاوہ ہر چیز نکل چکی ہے،
اپنی تقدیر کے تاریک ترین گڑھے میں شب گرفتہ—
تھامو ہمارا ہاتھ ۔
راہ دکھلاؤ ہمیں ۔

گائک منڈلی
جب تمہاری امید ٹوٹتی ہے،
میرا دل کانپ جاتا ہے۔
جب تمہارا حوصلہ بڑھتا ہے،
میرا دل سنبھل جاتا ہے۔

الکترا
مرے ہوؤں کو اٹھانا
اور فضا میں پھیلا دینا—
سنانا انہیں کہانی ہماری ماں کی۔
وہ مسکراتی اور ہمیں چھونا چاہتی ہے۔
میرے بالوں میں میرے باپ کے قتل کی پڑی گرہیں کھولنا چاہتی ہے۔
مادہ بھیڑیا اس بھیڑیے کو دودھ پلاتی ہے
جو اس ہی کی شہ رگ پر لپکےگا۔

گائک منڈلی
جب آگامامنون مرا
تو ہمارا ماتم پُورب سےا ٹھا۔
ہم نے اس کا ماتم کیا، سر پیٹتے، سینہ کوبی کرتے،
جیسے ہم نے اناطولیہ کے گرد آلود میدانوں میں ماتم کیا۔
ہم نے آگامامنون کو ٹرائے کے پھولوں میں لپیٹا،
اور دونوں پر ایک ساتھ ماتم کیا،
جی میں تھا کہ موت آ جائے۔

الکترا
ماں اپنی پتھر آنکھوں سے ،
تو نے اسے دفنایا
پتھروں کے ڈھیر تلے۔
نہ کوئی چتا،
نہ کوئی تقریب۔
ایک لاش جو گڑھے میں ڈال دی گئی
اور اس پر
آنسوؤں کی جگہ پتھر۔

اورستس
اپنے بے لطف ہاتھوں سے اس نے بے توقیری کی
نہ صرف ایک شوہر،
نہ صرف ایک راجا—
بلکہ
ایک باپ
زمین میں پھینکا ہوا، قہقہوں کے شور میں
جیت کے۔
میرے ہاتھ، اس کی طرح بے رحم،
قیمت وصول کریں گے
اس کے دل سے۔
اسے موت آئے گی تو میری زندگی
اپنا مقصد پا لے گی۔

گائک منڈلی
او ربھی کچھ:
اس نے مُثلہ کیا آگامامنون کی لاش کا
جب آتریوس نے ذبح کیے
آئگستوس کے دونوں بھائی۔
اس نے ڈھیر لگایا، اس کے تن پر
ہر اس چیز کا جو اس سے جدا کی جا سکے—
گٹھے کی صورت فتح کی ایک نشانی، ایک علامت
جو جا بیٹھے تمہاری یادوں میں
کہ لگ جائے تمہاری زندگی کو گھن ۔

الکترا
جو انہوں نے اس کے بدن کے ساتھ کیا
وہی میری روح اور دل کے ساتھ کیا۔
مجھے یوں باہر پھینکا
جیسے کوئی مرا ہوا کتا
سورج میں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
اگر آگامامنون کا کٹا ہوا سر سسکیاں لے سکتا،
تو میں اس طرح ہنسی۔
غم سے پاگل۔
جب جب غم کے معنی جاننا چاہو
تو مجھے یاد کرلینا۔

گائک منڈلی
اب اپنے ارادے کو ، اپنے غم کی طرح،
زندگی سے زیادہ مضبوط ہونے دو۔
ماضی زندگی سے زیادہ مضبوط ہے—
کوئی شے اسے نہیں بدل سکتی۔
اب اس اذیت ناک ماضی کو، کسی منجھے ہوئے ہتھیار کی طرح،
اپنا ارادہ بننے دو۔
دلیری سے چیر کر کھول ڈالو
مستقبل کا راز۔
انصاف جو تم لاتی ہو
زندگی سے زیادہ مضبوط ہے۔
اس قوت کو تھام لو۔

اورستس
باپو،
اٹھ اور مجھے اپنی آغوش میں لے۔

الکترا
ہم تیرے ہیں باپو،
ہمیں اپنی آغوش میں لے۔

گائک منڈلی
اٹھ کھڑا ہو،
آگامامنون!

اورستس
تلوار کی دھار کے دیوتا،
میری تلوار کو راستہ دکھا۔
فیصلے کے دیوتا،
یہ فیصلہ کر دے۔

الکترا
دیوتاؤ، دیوتاؤ ، ہمیں انصاف دو۔

گائک منڈلی
جو فیصلہ اتنی دیر ملتوی ہوا
وہ مشکل، تکلیف اور درد سے آتا ہے—
دعا ہماری واحد طاقت ہے۔

اورستس
قتل کا عفریت، قتل پر قتل ،
ہمارے گھر کو اپنا گھر سمجھ بیٹھا ہے—
خون اپنے ہی خون میں خنجر کے وار کرتا ہے، آنکھیں دھواں دھواں ہیں۔

الکترا
حیرت انگیز غم، کرب جو مبہوت کر دے۔

سب یک آواز
کب ہو گا یہ ختم؟
کیسے ہوگا یہ ختم؟

اورستس
یہ زخم جو نچوڑتا ہے ہماری نسل کو
مانگتا ہے ایک مضبوط طبیب ۔
کوئی دوسرا علاج نہیں کر سکتا
اتنی گہرائی میں کٹی شریان کا۔
ہمیں خود میں ہی کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔

الکترا
خون اور ظلم ،
دونوں کی ویسی ہی قیمت ہونی چاہیے۔

سب یک آواز
پاتال کے دیوتاؤ،
ہماری سنو۔

گائک منڈلی
زمین کے دیوتاؤ ،
ہماری سنو۔

اورستس
باپو، اتار دیا گیا تجھے تخت سے
اور یوں ذبح کر دیا گیا جیسے کسی راجا کو آ ج تک نہیں کیا گیا۔
لے لے واپس اپنا تخت اپنے قاتلوں سے ،
عطا کر دے یہ ہمیں۔

الکترا
باپو، مجھے آئگستوس سے بچا۔

اورستس
پھر ماتمی تقریبوں اور یاد میں دی گئی ضیافتوں میں تجھے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،
ورنہ میرے لیے ناکامی—اور تیرے لیے گمنامی۔

الکترا
تیری سب سے شاندار تقریب میری شادی ہو گی۔
یہ مقبرہ میری زندگی کا مندر ہو گا۔

اورستس
اے زمین، اے دھرتی ماں، میری تلوار کو نشانے پر لگا۔

الکترا
پرسیفن، پاتال کی رانی ،
ہمارے قدموں کو راہ دکھلا۔

اورستس
باپو، یاد کر وہ حمام جس میں تو خون خون ہوا۔

الکترا
یاد کر وہ جال کی رسیاں جن میں تو کسی مچھلی کی طرح تڑپا۔

اورستس
تانبا نہیں جس پر آگ میں ضربیں لگی ہوں،
لیکن نازک دھاگے، گندھے ہوئے اور گرہوں میں بندھے
ایک عورت کی انگلیوں سے۔

الکترا
یاد کر،
کسی احمق کی طرح تعمیرشدہ اور ہنسی سے منقش۔

اورستس
یقیناً تجھے اس پشیمانی میں نیند نہیں آئے گی۔

الکترا
باپو!
ہمیں بچا،
اٹھ کھڑا ہو اور ہمیں بچا۔

اورستس
انہیں ہٹانے میں میری مدد کر،
جیسے انہوں نے تجھے ہٹایا۔
یا تو انصاف کی سچائی کی مدد سے
یا پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
اور مجھے ان سے اسی طرح پیش آنے دے جیسے یہ تجھ سے پیش آئے۔

الکترا
ہماری آواز تیری اپنی نسل کی آواز ہے۔
یہ صرف ہمارے ذریعے ہی زندہ ہے۔

اورستس
اپنا آخری بیج زمین پر گر کر سڑنے نہ دے۔
جب تک ہم زندہ ہیں،
تو جو مرا ہوا ہے ، زندہ ہے۔

الکترا
آدمی کے بچے اس کی موت کےجال سے نکل بھاگتے ہیں۔
ان کے جسم اس کے جسم کو چھوڑتے اور اس کی زندگی گزارتے ہیں
واپس زندگی میں، اس کے نام اور شہرت کے ساتھ۔
اس کی یادیں ان کی ہڈیوں میں زندہ رہتی ہیں۔
ان گانٹھوں کی طرح جو مچھیروں کے جال اٹھائے رکھتی ہیں
آدمی کے بچے بھی اس کی زندگی کا جال اٹھاتے ہیں۔
اٹھاتے ہیں اس سارے کچے چٹھے کا بوجھ جو اس نے کمایا۔
بغیر ان کے وہ ڈوب جاتا ہے سمندر کی گہرائیوں میں۔

اورستس
ہم تیری موت کی زبان میں بات کرتے ہیں،
ہماری ضرورت تیری ضرورت ہے۔

گائک منڈلی
شبد اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اگر صرف شبد ہی اسے بجھا سکتے
تو تم کب کے بجھا چکے ہوتے
اس مزار کی شدید پیاس۔
کچھ نہیں رہ جاتا سوائے کرنی کے۔
ہر کوئی کرنی کا منتظر ہے۔
کرنی کرو اور ثابت کر دو کہ دھرتی اور آکاش
صرف کرنی چاہتے ہیں۔
جلدی۔
ابھی۔

اورستس
یہ سچ ہے، کچھ نہیں بچا میرے لیے
اس کے سوا کے اسے کر گزروں۔
پھر بھی میں یہ جاننے کی جستجو میں ہوں
کہ رانی کو کس نے کہا کہ بھیجے
یہ ماتمی جلوس، شراب اور تیل کے ساتھ
اپنے شوہر کی قبر پر۔
اگر شرمندگی ہے،
تو اتنی دیر کیوں؟
یا یہ بچے کھچے ٹکڑے کافی سمجھے گئے
ایسے آسان شکار کے لیے؟
میرا خیال ہے کہ
یہ بچا کھچا تازہ اظہار ہے اس کی جلن کا،
یعنی محض اس کی تھوک کے قطرے۔
کہتے ہیں کہ ایک قاتل کی پوری دولت
چاہے وہ کسی راجدھانی جتنی ہی کیوں نہ ہو،
اس کے اپنے ضمیر کو نہیں خرید سکتی،
یا قدرت کے فیصلے کا سودا نہیں کرسکتی۔
اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے کیا معنی ہیں؟

گائک منڈلی
یہ ہم تمہیں بتا سکتی ہیں ۔
اس ڈراؤنے خواب کے بعد
جس نے اسے بستر کی چادریں پھاڑتے ہوئے نیند سے جاگنے پر مجبور کیا،
اپنی ہی چٹیا پکڑ کر چیختے ہوئے—
اس نے یہ تحفے بھیجے۔

اورستس
کیا اس نے یہ خواب سنایا؟
کیا تم یہ سنا سکتی ہو؟

گائک منڈلی
اس نے بتایا۔
دیکھا کہ وہ بچہ جن رہی ہے۔
لیکن جو کوکھ سے باہر نکلا وہ ایک بڑا سا سانپ تھا۔

اورستس
اور کیا ؟
بس اتنا ہی ؟
کیا اس نے اسے کوئی معنی پہنائے؟

گائک منڈلی
خواب میں اس نے سانپ کو لپیٹا،
کسی بچے کی طرح۔
اسے بانہوں میں جھولا اور چوما۔

اورستس
اس نے کیسے اس بچے کو دودھ پلایا جو بچہ تھا ہی نہیں؟

گائک منڈلی
اپنی چھاتی کھلے ہوئے جبڑوں میں گھسا دی۔

اورستس
یقیناً—پھر تو دانت چھاتی میں دھنس گئے ہوں گے۔

گائک منڈلی
ہاں، اور دودھ کے ساتھ خون بھی نکل آیا۔
سانپ دودھ اور خون سے بنا دہی چباتا رہا۔

اورستس
وہ ٹھیک سمجھی۔
یہ خواب اس کے شوہر کی قبر سے نکلا۔

گائک منڈلی
وہ چیختی ہوئی اٹھی، اپنے پلنگ کی مسہری تھامتے ہوئے۔
پورے راج محل میں مشعلیں جل اٹھیں
جگہ روشنی میں نہا گئی اور وہ بیٹھی سسکیاں لیتی رہی،
اچانک آگامامنون سے دہشت زدہ ہو کر۔

اورستس
ایک اور دعا—دھرتی سے جس نے میرے باپ کی ہڈیوں کو اپنی آغوش میں رکھا ہے۔
مجھے اس ڈراؤنے خواب کے معنی بننے دے۔
میری تلوار کو اس کی تعبیر کرنے دے۔
یہ رینگتا درندہ میری ہی طرح اس کے پیٹ سے نکلا۔
ویسے ہی لپیٹا گیا جیسے میں لپیٹا گیا ہوں،
بچوں کے کپڑوں میں۔
اس کا منہ بند کیا گیا
جیسے میرا کیا گیا،
اس کی دھار مارتی چھاتی سے،
اور سانپ نے اس کا دودھ پیا، جیسے میں نے پیا۔
لیکن اگر اس کا منہ،
اس کے جبڑوں کا شکنجہ،
اس کی چھاتی میں دھنسا،
اور خون کا گھونٹ بھرا
اس کے دل سے،
اور اسے چیخنے پر مجبور کیا
کہ اپنی مسہری توڑ کر باہر نکل جائے—
تو معنی واضح ہیں۔
میں ہی وہ سانپ ہوں۔
میں اپنی ماں کو نہیں چوموں گا۔
جب میں وار کروں گا تو
اس کے بدن میں خون کا ہر قطرہ
ایک جما ہوا لوتھڑا بن جائے گا
کلیتم نسترا کےروپ میں۔
اور جب وہ مسہری سے ٹکرائے گی
تو وہ چیختا ہوا منہ وہیں سخت ہو جائے گا۔
اس کا خواب ہماری تقدیر ہے—اس کی اور میری۔
اسے مرنا ہی ہوگا اور مجھے اس کی جان لینی ہی ہے۔

گائک منڈلی
تمہاری منطق کا مزاج تانبے کا سا ہے۔
تم اپنے دوستوں کو جانتے ہو، بتاؤ ہمیں:
ہم میں سے کس کو کیا کرنا ہو گا؟ ایک واضح منصوبہ۔

اورستس
الکترا، تم واپس راج محل میں جاؤ۔
تمہارا کام کسی بھی شک و شبے کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
سازش نے انہیں تخت پر بٹھایا
اورسازش ہی ان سے تخت لے گی، اسی قیمت پر:
پھر اپالو کے جوتشی کا کہا
سچ ہو گا جیسے وہ ہمیشہ سچ ہوتا ہے۔

اب رہا میرا کام:
میں راج محل کے دروازے پر پہنچوں گا
پولادس کے ساتھ۔
وہاں موجود دربان دو پردیسیوں کو دیکھیں گے
جو فوسسیوں جیسے کپڑے پہنے ہوں گے
لہجے بھی فوسسی ہوں گے—
اور یہ کہیں گے کہ وہ راج محل ایک کام سے آئے ہیں۔
پھر اگر دربان ہمیں کہیں
کہ ہم نے غلط لمحہ چن لیا ہے
اور گھر بند ہے
کسی انہونی کی وجہ سے
توہم وہیں دروازے پر انتظار کریں گے
جب تک گلی سے یہ آواز یں نہ لگیں کہ
’کتنا بے شرم ہے آئگستوس،
کہ اپنا دروازہ مسافروں کے لیے بند کر رکھا ہے۔‘
خیر جیسے تیسے جب ہم
ایک بار راج محل میں گھس جائیں گے
اور اس آئگستوس نام کی مخلوق کو دیکھ لیں گے
میرے باپ کے تخت پر بیٹھے
یا اس سے آمنا سامنا ہو گا
تو وہ لمحہ اس کا آخری ہو گا۔
اس سے پہلے کہ وہ کہہ سکے کہ’تمہارا نام کیا ہے‘
میرا خنجر اس کے دل کے آرپار ہو گا۔
یہ گھر تو ایک جام بھرتا رہاہے
جو یہ قاتل عفریت، سدا کا پیاسا،
خالی کرتا رہا ہے۔
آج اسے اس کا تیسرا
اور آخری خون کا گھونٹ بھرنے دو
جس نے ہم سب کی رگوں میں زہر دوڑا دیا ہے۔

الکترا، ہم پر نظر رکھنا
راج محل میں۔
دیکھنا کوئی ہماری سادہ سی چال
کاتوڑ نہ کر سکے۔
اے عورت ، تو کچھ نہ کہنا۔
بات کرنا تو یوں جیسے کچھ جانتی ہی نہ ہو۔

اور تو ہرمس،
تاریک پگڈنڈیوں کے دیوتا،
میری تلوار کو راہ دکھانا۔
اسے پاتال کو جاتی شاہراہ بنا دینا
ان قاتلوں کے لیے۔

گائک منڈلی
زمین بوتی ہے
ہر پیدا ہونے والی شے میں ،
ایک دہشت۔
سمندر ایک سست رفتار سرد لاوا ہے
چٹ کرجانے والوں کا، ایک دوسرے کو۔

اور سب چھپتے ہیں سورج کے شعلہ برساتے کھلے ہوئے منہ سے
جو اس دھرتی کو نگل لے گا۔
طوفان امڈتے ہیں افق پر
اور انسان کے دل سے،
اس کے غرور اور غضب ناک ارادے سے۔
اور عورت کی کوکھ سے نکلتا ہے
ایک گردباد
جو گھماتا ہے اپنا محبت اور نفرت کا دہرا چہرہ
ایک چکرا دینے والے جوش سے
اور اتار پھینکتا ہے شادی کے بندھن کو ، کسی لباس کی طرح،
اور جھکا دیتا ہے شرم سے نظریں انسانوں اور حیوانوں کی۔

یاد کرو التھایا کو ۔
آتشدان میں جلتی وہ لکڑی بھی
اس لمحے اس لڑکے کی پوری زندگی پکڑے تھی
اس کے پیٹ سے سرک کر نکلا—میلیگر۔
اس نے اٹھائی جلتی ہوئی لکڑی ،
تر کیا اسے
اور سنبھال کر رکھ دیا،
بغیر استعمال کیے،
عزیز رکھا اسے،
جیسے اس نے عزیز رکھا میلیگر کو۔
جب تک وہ اتنا بڑا نہیں ہو گیا کہ
اُس لڑائی میں قتل کر دے اپنے دو بھائیوں کو
جو ہوئی ایک خوبصورت عورت اور ایک مرے ہوئے سؤر پر۔
طیش میں نکلی التھایا کی چیخ میں ٹیڑھ تھی
اپنے بیٹے کی موت کی چیخوں کی
تو اس نے جلا کر راکھ کر دیا اس لکڑی کو—

ایک اور عورت ، اس سے بھی بدتر—
سکولا۔
میگارا کے راجا نسوس کی بیٹی۔
جب مینوس،
کریت کے راجا نے
میگارا کا محاصرہ کیا
تو نسوس نے ذبح کر ڈالا ا س کے سورماؤں کو
بے دریغ ۔
شہر کی فصیلوں تلے، ایک کے بعد اگلے دن،
نسوس پھرتا رہا میدانِ جنگ میں
سینہ تانے
جب تک کہ بالوں کی ایک بھی جامنی لٹ
جو نکل رہی تھی اس کے اس خلا سے
جو پھنسا تھا سفید ایال میں اس کے سرپوش تلے۔
مینوس نے اپنے خیمے سے
محبت کا وعدہ کیا سکولا سے۔
بہلایا پھسلایا اسے ایک سونے کا ہار دے کر
کہ تیز کرے ایک خنجر
اور لے آئے جامنی چوٹی
اپنے سوتے ہوئے باپ کے سر سے۔
اس کی محبت کے وعدے میں وہ ہو گئی پگلی ۔
پھینک دیا سکولا نے اپنے باپ کو لگڑ بھگے کے آگے ،
بے یارومددگار
کسی بھی عام آدمی کی طرح،
ایک ایسی آغوش کے لیے جو اسے تباہ کر دے گی۔

خداوند ان عورتوں سے نفرت کرتا ہے۔
ہماری پوری جنس ہی بے عزت ہوئی
ان عورتوں کے ہاتھوں۔
کوئی آدمی اس کی عزت نہیں کرے گا
جسے دیوتاؤں نے قابلِ نفرت مانا ہو۔

تلوار تنی ہوئی ہے
اس کے دل کے قریب۔
انصاف اسے نشانے پر پہنچاتا ہے۔
کوئی منہ نہیں پھیر سکتا
قدرت کے قوانین سے
جو صحیح اور غلط کے بیچ کھڑے ہیں۔

انصاف وہ آہرن ہے جہاں قسمت کی دیوی
تلوار ڈھالتی ہے۔
قتل کو قتل جنم دیتا ہے۔
ایک زندگی کو زندگی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
بدلہ لینے والا،
صبر او رعیاری کا عفریت،
اس لمحے کا منتظر ہے ،
جو پوری قیمت مانگتا ہے۔

(اورستس راج محل کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔)

نوکر
کون ہے؟ کون ہے؟

اورستس
دروازے پر اجنبی !
دروازے پر مسافر!
اگر آئگستوس کا گھر
کھلے دروازوں کے ساتھ
روایت کا احترام کرتا ہے—
تو ہم اجنبی دستک دیتے ہیں،
ایک خبر کے ساتھ

نوکر
اچھااچھا! بہت ہوا!
تم تو مردوں کو بھی جگا دو گے۔
کہاں سے آئے ہو؟
نام کیا ہیں تمہارے؟

اورستس
اپنے آقا کو بتاؤ کہ دو پردیسی کھڑےہیں دروازے پر
اس خبر کے ساتھ جو وہ جاننا چاہتا ہے،
دودراز کی خبر۔
اور جلدی کرو۔
ہم پہلے ہی دیر سے پہنچے ہیں،
شام ڈھلے کی آخری روشنی میں۔
جلد ہی سب سے مہمان نواز سرائے
مسافروں پر اپنے دروازے بند کرنے والی ہے۔
میری خبر گھر کے مالک تک پہنچنا ضروری ہے،
اگر ایک عورت حاکم نہیں تو۔
اس صورت میں وہی سن لے۔
لیکن آدمی ہو تو اچھا ہے—
پھر میں دو ٹوک بات کر تے ہوئے
سیدھا پیغام پر آ سکتا ہوں۔
یہ بھی ہے کہ میرے پاس موجود اشارے اس قسم کے ہیں
جو پہلے میں کسی آدمی ہی پر کھولنا چاہوں گا۔

(کلیتم نسترا داخل ہوتی ہے)

کلیتم نسترا
اگر یہ خبر اتنی اہم ہے، تو مجھے ہی بتا دو۔
اس گھر کی مہمان نوازی کے
پورے آرگوس میں چرچے ہیں۔
ہر چیز تمہاری ہے—
گرم حمام، ٹھنڈے بستر،
تمہارے منصب کے مطابق خوش آمدید،
اورسب مزے۔
خبر کیا ہے؟

اورستس
فوسس سے آیا ہوں،
ایک تاجر—
آرگوس کی منڈی میں لایا گیا ہوں۔
لیکن تمہارا دروازہ میرا پہلاپڑاؤ ہے۔
راستے میں ایک آدمی سے ملاقات ہوئی،
ستروفیس، جو فوسس ہی سے تھا—
اُس وقت میرے لیے ایک اجنبی۔
جب اس نے میری منزل کا سنا
تو پوچھا کہ کیا میں کوئی خبر لے جانا چاہوں گا
آرگوس کے راجا کے پاس۔
’شاید یہ تمہارے لیے اچھا ہو،‘ اس نے مجھ سے کہا۔
’خبر یہ ہے،
غور سے سنو:
اورستس مر چکا ہے۔
بس یہ پیغام دے دینا،‘ وہ بولا ۔
’اور کہہ دینا کہ اسے روایت کے مطابق چتا دے دی گئی ہے،
تمام ضروری رسومات کے ساتھ،
اور اس کی راکھ ایک تانبے کے برتن میں ہے۔
بتا دینا انہیں یہ۔
اس کا خاندان فیصلہ کر سکتا ہے کہ
کیا اس کی راکھ کوگھر لے جانا
اور اس کے باپ کے مقبرے میں دفنانا ہے،
یا یہیں فوسس میں چھوڑ دینا ہے،
جہاں زمین اس پر کچھ کم مہربان نہیں ہو گی۔‘
یہ ہے میری خبر۔
شاید میرا مخاطب کوئی ایسا ہے
جو سمجھتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
شاید میرے شبدوں کا مطلب میری سمجھ سے زیادہ ہو۔

کلیتم نسترا
آہ!
اس گھرانے کے خون پر لگے شراپ
تو نےآخری قطرے تک اس کا پیچھا کیا۔
کوئی تجھ سے نہیں بچ سکتا۔
ہماری آخری امید بھی دم توڑ گئی اور زندگی کسی ساغر کی طرح چٹخ گئی۔
میں اپنے خزانے چھپا رکھتی ہوں۔
لیکن تو انہیں سونگھ لیتا ،
اور ہوا میں اڑا کر مجھے غم زدہ چھوڑ دیتا ہے۔
اورستس ذہین تھا،
ذہین، نکتہ جو، نکتہ ور—
صرف وہی
بے داغ رہا کہ اس شراپ کا رخ پلٹ سکے۔
اس نے اپنے پاؤں اس دلدل سے باہر ہی رکھے
جو دھرتی کے مرکز کو نگلتی چلی جاتی ہے۔
لیکن شراپ کے چند ہی موسموں کے لیے—
اب فیوری
اس کا نام لکھتی ہے
اس کی اپنی ہی راکھ میں۔

اورستس
معاف کرنا۔
میرے لیے بھی یہ کہیں اچھا ہوتا کہ
میں کوئی خوش خبری لاتا
ایسے اونچے،
ایسی شان و شوکت والے گھر کے لیے۔
پھر میں مزہ چکھتا کھل کے
تمہاری شاہی مہمان نوازی کا۔
لیکن مجھ پر ذمہ داری ہے کہ
وہ خبر پہنچا دوں
جو تمہیں جاننا ضروری ہے—
جتنی بھی کڑوی کیوں نہ ہو۔
تمہارے دروازے تک یہ پہنچانے کے لیے نہ آنا
غلط ہوتا۔
اور تم نے مجھے اتنی سوجھ بوجھ سے خوش آمدید کہا۔

کلیتم نسترا
تم نے وہ سب پا لیا جس کی تمہیں امید تھی۔
اجنبی!
اس گھر کو اپنا ہی سمجھو،
پورے آرام سے رہو۔
جو تم لائے وہی کوئی دوسرا لے آتا۔
دوردیس سے آئے مسافر،
جیسے تم آئے،
اور دور دیس کو جانے والے ،
جیسے تم ،
جو چاہو وہ ہم تمہیں آج شب پیش کر دیں گے۔
دکھاؤ انہیں یہ سب حجرے
ویسے ہی پیش آؤ ان سے جیسے میرے خاندان سے پیش آتے ہو۔
آئگستوس یہ خبر سن لےگا۔
ہمارے مشیر
فیصلہ کرنے میں مدد کریں گے کہ اس کا کیا جائے۔

(وہ اندر چلی جاتی ہے)

گائک منڈلی
عورتیں جسمانی طو ر کمزور ہوتی ہیں۔
لیکن طاقتور ترین اور سب سے لڑاکا مرد بھی،
اپنی ماں سے کمزور ہی ہوتا ہے۔
اب وقت ہے کہ اپنی طاقت اورستس کو دی جائے۔
اے مٹی کے ڈھیر
تو جو آگامامنون پر پڑا ہوا ہے—
غم کے بوجھ کی طرح
جو ظلم کرتا ہے ان پر جو اس کاماتم کرتے ہیں،
ہماری دعا سن لے۔
اورستس کی عیاری میں قوت پھونک۔
اس کی تلوار کو ایک نئی تیزی دے۔
اسے وہ بجلی کی سی سرعت دے جو لمحے بھر میں
زندگی کا فیصلہ کر دیتی ہے۔

(سیلیسا اندر داخل ہوتی ہے)

فوسس سے آیا ہمارا آدمی اپنی موجودگی محسوس کروا رہا ہے۔
یہ سیلیسا ہے، جو کبھی اورستس کی دائی تھی۔
سیلیسا ، تم نے کیا سنا؟ کیا ہوا؟

سیلیسا
رانی چاہتی تھی کہ
آئگستوس پردیسیوں سے یہ خبر سنے۔
اس نے بھیجا کہ میں اسے لے آؤں ۔
اب اس نے خود یہ خبر سن لی
تو اس کا چہرہ اب ایک غم کا نقاب ہے۔
وہ ہمارے لیے تو یہ پہنتی ہے—لیکن اس نقاب کے بیچ
اس کی آنکھیں خوشی سے دمکتی ہیں۔
اس کی دیوانہ وار سسکیاں
دراصل ایک قسم کی نہ رکنے والی ہنسی ہے۔
یہ خبر جو موت کی نوید ہے
آگامامنون کی نسل کے لیے،
اس کے لیے فصلِ بہار ہے۔
یہ سن کر آئگستوس بھی آنسو بہائے گا—

ہاں ہاں، خوشی کے آنسو۔
وہ اپنی کرسی پر گر پڑےگا
اور سر نیچے کرتے ہوئے،
چھپا لے گا ہاتھوں میں اپنا چہرہ
ایک مسرور بے یقینی سے۔
آہ!
آتریوس کی حکمرانی میں
ایک کے بعد دوسری دہشت،
ایک کے بعد دوسرا غم،
میرے بدن سے ایک ایک شریان کھینچ چکا ہے۔
سوچتی تھی کہ ہر احساس سے گزر چکی ہوں۔
سوچتی تھی کچھ بھی برداشت کر سکتی ہوں
بہاؤ میں بہتے کسی پتھر کی طرح۔
لیکن اب—اوہ، اورستس۔
اورستس مر گیا! اورستس!
میں نے اسے اس کی ماں کی کوکھ سے تازہ گود میں لیا،
معطر جیسے پھولوں بھری مٹھی۔
میرا ہی دودھ تھا جو اس نے پیا،
کسی اندھے بلونگڑے کی طرح۔
میرے ہی لیے وہ رویا۔
ایک کے بعد دوسری رات،
اس کی ہر چیز کے لیے ضد مجھے ہی تھکاتی۔
پوری پوری راتیں میں نے اسے اٹھایا،
اپنےبازوؤں میں اطمینان کی نیند سوتے ہوئے جھولایا—
وہ میری زندگی تھا،
اور میں اس کی۔
بچہ تو دونوں طرف سے مجبور ہی ہوتا ہے۔
میں اس کی مجہول رُوں رُوں کے معنی سمجھ لیتی
اس کی دونوں ضرورتوں کے۔
اور جوں جوں وہ بڑھا،
میں اس کی عقل تھی۔
وہ میں تھی جس کے پاس وہ آتا۔
اس کا باپ دُور ٹرائے میں تھا—
میں اورستس کی ہاتفہ تھی۔
میں دھرتی کی اپنی آواز تھی
اورستس کے لیے۔
اور اب مجھے اس آدمی کو لانا ہو گا
جو بمشکل ایک آدمی ہے،
آگامامنون کا قاتل،
کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری سنے—
کہ اورستس مر چکا ہے۔

گائک منڈلی
آئگستوس کیسے خود کو پیش کرے
ان اجنبیوں کے سامنے؟
کیا کوئی ہدایات ہیں؟

سیلیسا
کیا وہ اپنے محافظ کے ساتھ آئے؟
آئگستوس کبھی محافظ کے بغیر ہلتا بھی نہیں۔

گائک منڈلی
نہیں۔ اسے کہو کہ اکیلا آئے۔
اسے بتاؤ کہ یہ آدمی بے ضرر سے تاجر ہیں
جو بہت آسانی سے مبہوت ہو جائیں گے—
بہت آسانی سے انہیں ڈرا کر خاموش کیا جا سکے گا۔
اسے مناؤ کہ انہیں مطمئن کرے۔
اگر وہ پوری کہانی جاننا چاہتا ہے تو اسے کہو کہ
اسے اکیلے آنا ہو گا۔

سیلیسا
کیا تم اتنی فکرمند ہو کہ پوری کہانی سنائی جائے
اورستس کی موت کی؟
ہماری آخری امید کے مرنے کی؟

گائک منڈلی
کیا ہو اگر زیوس کا دستِ عظیم
ساری کہانی ہی بدل دے، ہوا کے جھونکے کی طرح،
کہ وہ دوسری سمت میں چل پڑے؟

سیلیسا
کیسے بدل سکتا ہے؟
اورستس،
ہماری امید،
مر چکی۔

گائک منڈلی
جوتشی کسی چیز پر یقین سے کچھ نہیں کہتے۔

سیلیسا
کیا کوئی اور خبر ہے؟
تم نے کیا سنا؟

گائک منڈلی
جاؤ اور اپنا پیغام پہنچاؤ۔
لے آؤ آئگستوس کہ وہ سن لے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خبر۔
اور دیوتاؤں کا کام چھوڑ دے—دیوتاؤں پر۔

(دائی چلی جاتی ہے۔)

زیوس، اے دیوتاؤں کے دیوتا ،
ہم جس کی بھی دعا کرتے ہیں وہ انصاف ہے۔
اس گھرانے کی بدبختیوں کو
ٹھیک ہونے دے—انصاف کے مطابق
جنہوں نے بھی انصاف کی دعا کی
انہیں آج آرگوس کا تخت دیکھنے دے
کہ وہ کیسے انصاف کی حکمرانی کی طرف لوٹتا ہے۔
آگامامنون کا بیٹا
اپنے راج محل میں کھڑا ہے۔
لے آ اب اس قابلِ نفرت کو
کسی ایسے درندے کی صورت
جو انصاف پر ذبح ہونے جا رہا ہے۔

زیوس، تو نے آگامامنون کو چاہا۔
اس کے بیٹے کے لیے راستہ کھول دے
کہ وہ قاتل تک پہنچے
تیری انصاف کی تلوار کے ساتھ۔

اس گھر کے دیوتاؤ،
وہ فیصلہ اٹھا لو جس نے اسے تاریک رکھا۔
خون کی نشانی صاف کردے
ان اعمال پر سے
جو اس گھر کے لیے ایک لعنت ہیں۔

گہری کھائی کے پروردگار،
اپالو،
اٹھنے دے اس گھر کو
قبر سےاب
اس کے جائز آقا کے
دائیں بازو کی
ایک حرکت سے۔

ہرمس،
مایا کے بیٹے،
اٹھ اور کھڑا ہواورستس کے دائیں کاندھے پر
جیسے ہوا بادبا ن کو بھر دیتی ہے۔
اپنی عیاری کی پھونک سے
اورستس کی زبان کو ہلا
کہ وہ پھینکے شبدوں کا جال ظالم پر
اور آزاد کر دے آرگوس کو۔

مضبوط ہو جا ، اورستس۔
جب تو اپنی تلوار اپنی ماں کے آرپار کرے
تو خود کو بہرا کر لینا
آگامامنون کی موت کی چیخ سے۔
جب وہ چیخ کر کہے، ’اورستس ، میرے بچے‘
تو بند کر لینا اپنے کان
اور چلا کر کہنا،’میں اپنے مارے گئے باپ کی اولاد ہوں۔‘
مار ڈال اور ختم کر دے اس کا کام۔
تیری تلوار تقدیر کا آلہ ہے۔
تجھے الزام نہیں دیا جا سکتا۔
سخت کر لے خود کو اورستس،
کسی منجھی ہوئی ڈھال کی طرح
جس سے گورگون کا چہرہ منعکس ہو۔
ان کے لیے یہ کر جو تیری ذمہ داری ہیں،
انصاف کے لیے،
زندوں اور مُردوں کے لیے جو تیرے ذمے میں ہیں۔
کر ڈال یہ آتریوس کے گھر کی خاطر۔
اس خنجر کے ایک وار کے ساتھ
اکھاڑ پھینک اس لعنت کو جڑ سے—
دشمنی کی اس مضبوط جڑ تک جا پہنچ
جو ہمارے درودیوار میں قاتل پھول کھلاتی ہے۔
توڑ ڈال اس بیج کو
اپنی تلوار سے۔

(آئگستوس داخل ہوتا ہے)

آئگستوس
کہاں ہیں وہ تاجر اپنی اس اندوہناک خبر کے ساتھ
اورستس کے قتل کی؟
یہ شاید ایک افواہ سے زیادہ نہ ہو،
لیکن بے یقینی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
یہ ایک بُرا دن ہے، اگر وہ سچ کہہ رہے ہیں۔
کیا ہم یہ سوچیں کہ اس گھر پر لگا شراپ
اپنے نئے گل کھلا رہا ہے—
اس کے بعد جو پہلے ہی برداشت کےقابل نہیں؟
خطرے کی ہر نئی گھنٹی دل کو خوف سے دہلا دیتی ہے۔
کیا یہ سچ ہے؟
یا بس دیوانگی کی لہر ہے
عورتوں کے بیچ پڑی ایک افراتفری سے جنم لیتی،
ایک ایسی افراتفری جو بھڑکتی اور جلا کر بھسم کر دیتی ہے
خس و خاشاک کی طرح؟
میں کیا سمجھوں؟

گائک منڈلی
ہم نے یہ خبرسن لی۔
لیکن ہمارا غم
اس کی شکل مسخ کر دے گا
چاہے ہم اسے سنانا بھی چاہیں۔
تاجر منتظر ہیں:
ان سے سچائی کا تقاضا کرو—
سادہ اور دو ٹوک۔
آئگستوس
کہاں ہیں یہ؟
مجھے ان کی آواز سننے دو۔
سننے دو مجھے
جو معلوم ہے انہیں
جو اسے جانتے ہیں۔
پہلا سوال سب سے پہلے:’کیا تم وہاں تھے جب وہ مرا؟‘
یا یہ ایک اور افواہ ہے
بازاروں میں سنی سنائی؟
اچھا ہو ان کے لیے اگر یہ مجھے صاف حقیقت بتائیں۔
ان کا معاملہ ایک ایسے شخص سے ہے جو آدمیوں کے بیچ اور شبدوں کی بھول بھلیوں کے بیچ سے جھانک لیتا ہے۔

(آئگستوس اندر چلا جاتا ہے)

گائک منڈلی
زیوس، اے زیوس—
ہونٹ سلے ہوئے
ہم دعا گو ہیں۔
شبد نہیں
دعا کے لیے
کہ اس لمحے،
خنجر سیدھا ہو،
نشانہ بندھے
اور دستہ آرپار ہو
پسلیوں تک۔
آ ج کی شام
یا تو دکھلائے گی
آگامامنون کےاس گھر کا خاتمہ
یا انصاف۔
اب باری ہے
اورستس کی کہ
تقدیر کے لیے عمل میں آئے۔
اپنی تلوار تھامے
دستِ خدا سے۔

(آئگستوس کی چیخ)

گائک منڈلی
یہ کیسی آواز تھی؟ کس کی موت کی چیخ تھی؟
کون ہے اب ہمارا آقا؟
کچھ نہ کہو، کچھ نہ کرو، جب تک ہم جان نہ لیں۔
یا تو بہترین ہو گیا یا پھر بدترین۔
ہماری زندگیوں کا فیصلہ ہو گیا۔

(نوکر اندر داخل ہوتا ہے)

نوکر
آئگستوس مر گیا!
آئگستوس مر گیا!
محافظ کہاں ہیں؟
کیا ہر کوئی بہرا ہو گیا؟
آئگستوس کو قتل کر دیا گیا۔
رانی کہاں ہے؟
کلیتم نسترا کو آگاہ کرو۔
ہیبت ناک قوت کے ساتھ
ایک پاگل نے
آئگستوس کی آنتیں باہر نکال دیں
اور دل نکال پھینکا۔
رانی کو آگاہ کرو۔
کہ خود کو بچائے—

(کلیتم نسترا داندر داخل ہوتی ہے)

کلیتم نسترا
یہ شورشرابا کیسا ہے؟
کیا تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے؟ یہ ایک راج محل ہے—

نوکر
مردے اٹھ کھڑے ہوئے
اور زندوں کو مارتے ہیں۔

کلیتم نسترا
میں جانتی تھی!
آہ!
میں جانتی تھی!
یقین نہیں تھا کہ یہ ممکن ہو گا
لیکن میں جانتی تھی۔
ہم نے عیاری سے مارا—اب عیاری ہمیں مارے گی۔
کوئی مجھے ہتھیار پکڑائے۔
اوہ خدایا، آج فیصلہ ہو جانے دے۔
انتہا ہو جائے
یہ آخری موڑ پر۔

(اورستس داخل ہوتا ہے۔)

اورستس
اس نے قیمت ادا کی۔ اب تمہاری باری ہے۔

کلیتم نسترا
اوہ، میر ی جان!
کیا اتنی قوت تمہاری کوئی مدد نہ کر سکی؟

اورستس
چونکہ یہ تمہاری محبت تھی، تم اسی کے ساتھ سو گی۔
مری ہوئی، لیکن اس مرے ہوئے شخص کے لیے کبھی نہیں مرو گی۔

کلیتم نسترا
اورستس، میرے بچے! اپنی تلوار مجھ پر نہ اٹھاؤ۔
ان چھاتیوں کو دیکھو جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا جب تم بے بس تھے۔
یہ تمہارے پہلے تکیے تھے جب تم بے بس تھے۔

(پلادوس داخل ہوتا ہے۔)

اورستس
پلادوس، کیا کوئی آدمی اپنی ماں کی بھی جان لے سکتا ہے؟
کیا کوئی اس سے بھی برا کر سکتا ہے
کہ اپنی ہی ماں کا قتل کر دے؟
میں کیا کروں؟

پلادوس
اپالو کا قول یاد رکھو۔
ہاتف کے خدا کا حکم مانو۔
انسانیت کی دشمنی قبول کرو
اس کی بجائے کہ قدرت کی حکم عدولی کرو۔

اورستس
دانش مند بات او رصحیح گھڑی پر کی گئی۔
اندر جاؤ۔
ماں، میں اب تمہیں قتل کرنے والا ہوں
تمہارے جانِ من کی لاش پر۔
جب دونوں زندہ تھے تو تم نے اسے میرے باپ پر فوقیت دی۔
اب دونوں مرد ہ ہیں،
تم اپنے سودے میں ساری عمر کے لیے پھنس گئی۔

کلیتم نسترا
میں نے تمہیں تمہاری زندگی دی، اورستس۔
مجھے میری جینے دو۔

اورستس
یہیں اس گھر میں جہاں تم نے میرے باپ کی زندگی چھینی۔

کلیتم نسترا
مجھے دوش نہ دو۔
میں تقدیر کے ہاتھ میں تھی۔

اورستس
اور اب وہی ہاتھ تلوار تھامے ہے۔

کلیتم نسترا
اوہ، میرے بیٹے،
پیدا کرنے والی کا شراپ یاد رکھنا۔

اورستس
ہاں، تم نے مجھے زندگی دی،
پھر یقینی بنایا کہ وہ تباہ و برباد ہو۔
ایک زندگی
بے چارگی، کڑواہٹ اور بے عزتی سے بھری—
اور ابھی بدتر ہونا باقی ہے۔
تمہیں مار چکنے کے بعد۔ یہ تھا تمہارا تحفہ:
تم نے مجھے زندگی دی،
پھر یوں چھوڑ دیا جیسے کوئی لعنت ہو۔

کلیتم نسترا
میں نے تمہیں بچانے کی کوشش کی۔
ہمارے بھروسے کے ساتھی
تمہارے محافظ تھے۔
میں نے اس کا انتظام کیا۔

اورستس
میں تخت کے وارث کے طور پر پیدا ہوا—تم نے ہمارا سودا کیا—
میرا اور میرے تخت دونوں کا۔
کلیتم نسترا
میں نے کیسے تمہارا سودا کیا؟
تم کسی دیوانے کی طرح بولتے ہو۔
کیا تھی تمہاری قیمت؟

اورستس
یہ لاشہ۔
مجھے شرم آتی ہے اس کا نام لیتے۔

کلیتم نسترا
تمہارا باپ اتنا بھی وفادار نہ تھا—کیا بھول گئے؟

اورستس
وہ جنگ میں جدوجہد کر رہا تھا، جب تم — اس کے بستر پر کھیلتی تھی؟

کلیتم نسترا
عورت اپنے آدمی کے بغیر مایوس ہو جاتی ہے۔

اورستس
عورت اپنے مقام اور حفاظت کے لیے مرد کو دیکھتی ہے۔

کلیتم نسترا
کیا تم اپنی ماں کو مار ڈالو گے؟
اورستس
میں تمہیں قتل کروں گا؟
ماں تم پہلے ہی خود کو مار چکی ۔
میں تو بس تمہارے گرتے سمے تلوار اٹھائے ہوں۔

کلیتم نسترا
ان فیوریوں کو یاد رکھنا جو ماں کے خون سے اٹھتی ہیں۔

اورستس
اگر میرا ہاتھ چوک گیا تو میرے باپ کے شراپ کے ساتھ کون زندہ رہے گا؟

کلیتم نسترا
یہ میرا خواب ہے!
یہ ہے وہ سانپ
جو میری کوکھ سے رینگتا ہوا نکلا اور میری چھاتیوں کو کاٹ گیا۔

اورستس
تمہارا خوب کوئی خواب نہیں بلکہ پیش گوئی تھی۔
تمہارا جرم توہین تھی۔
تمہاری سزا بھی ویسی ہی توہین ہو گی۔

(اورستس اپنا خنجر کلیتم نسترا کے سینےمیں گھونپ دیتا ہے۔)

گائک منڈلی
پشیمانی کا دو مونہی عفریت —
لیکن ہمیں ان کا ماتم کرنا ہی ہے۔
ہمارے شہزادے نے خون کا تاج پہنا دیا ہے
دہشت ناک ماضی کو
اپنی جان کی قیمت دے کر
لیکن کم از کم اس نے آرگوس کی امیدوں کو زندہ رکھا اپنی زندگی دے کر۔

فیصلے کی گھڑی نے دیر کی
اس چور کو پکڑنے میں جو ٹرائے سے آیا۔
لیکن آخرکار اس شہر نے قیمت چکانا ہی تھی۔
اس کے سب باسیوں نے وہ قیمت ادا کی۔
فیصلے کی گھڑی نے اس میں بھی دیر کی
کہ آئگستوس کو علیحدہ کرے
کلیتم نسترا کے جوڑ سے —
خیردیر تو ہوئی لیکن اندھیر نہیں۔

چیخو چلاؤ خوشی سے!
چیخو چلاؤ!

بازو جنہوں نے سازش کی تلوار تھامی
جوابی وار کھینچا
قدرت کی بجلیوں کا۔
اور اب یہ دونوں زخمی لاشیں
انصاف کا ایک نیا مینار بناتی ہیں۔

چیخو چلاؤ خوشی سے!
چیخو چلاؤ!

اپالو، گہری غار کا خداوند
پارناسس کے نیچے،
اپنی بجھارت کہہ چکا ہے:
’میرے سچائی کے شبد کو جھوٹ کے عمل میں لپیٹو۔‘
انصاف کی دیوی
اپالو کو جواز دیتی ہے۔
قدرت کے خاکے
انسانوں کو نقوش میں بنُتے ہیں۔
اس کے کرب کو جھکنا ہوگا
خداوندِ غالب کے آگے
صبر سے۔

چیخو چلاؤ خوشی سے!
چیخو چلاؤ!

سمے اپنا دائرہ مکمل کر چکا—
انصاف،
نیا نویلا،
کسی نو جوان شہزادے کی طرح
ان دروازوں سے اندر داخل ہو گا،
راج محل کو روشنی کے لیے کھولتے ہوئے،
کہ خون جمی راکھ صاف ہو،
اور شراپ کی گندگی صاف ہو جائے
درودیوار سے
جہاں یہ عرصے کی جمی ہوئی ہے۔
جو بھی اس گھر کی بات کرےگا
نئی نعمتوں کا ذکر کرے گا—
قسمت کی دیوی کا اپنا راج محل۔

(لاشیں نظر آ جاتی ہیں۔)

اورستس
یہ رہے وہ ظالم۔
یہ ہیں میرے باپ کے قاتل۔
تمہارے راجا آگامامنون کے قاتل۔
اور جو کچھ بھی مجھے میرے باپ سے وراثت میں ملا
انہوں نے لوٹ لیا۔
یہ زندہ تھے تو شریک تھے،
ایک تخت،
ایک بستر
اور آرگوس کی پوری دولت میں۔
اب یہ مرے ہوئے ہیں—
اور صرف موت میں شریک ہیں۔
انہوں نے قسم کھائی—کہ میرے باپ کو پھنسائیں گے
اور اسے ذبح کر ڈالیں گے بے دردی سے۔
انہوں نے ایک اور قسم کھائی—اکھٹے جینے اور مرنے کی
کتنے خوش ہیں یہ!
ان کی ساری قسمیں پوری ہوئیں۔

تم جو مجھے فیصلے کی نظر سے دیکھ رہے ہو—یہ دیکھو۔
یہ ایک لطیف صورتِ حال ہے
جس نے میرے باپ کو بدل کر رکھ دیا
ٹرائے کے فاتح سے —ایک مجبور مچھلی میں۔
اس نے اسے باندھ ڈالا ہزاروں گرہوں میں۔
اسے دکھاؤ۔
ہر ایک کو اسے دیکھنے دو۔
ہر آدمی کو تصور کرنے دو خود کو
اس میں بندھا او رگندھا ہوا۔
تصور کرو کہ ظالم
ہنستے ہیں جب تلوار آر پار ہو اس گرہوں کے جال سے۔
دیکھو اس کی طرف۔
دیکھنے دو اسے باپ کو۔
میرے باپ کو نہیں—سب کے باپ کو
جو دھرتی پر سب کچھ دیکھتا ہے۔
دیکھنے دو اسے میری ماں کا کام ۔
سورج کو اس پر نظر ڈال کر ابکائی کرنے دو۔
میں اس کا فیصلہ چاہتا ہوں
کہ جو بھی میں نے کیا ٹھیک تھا۔
میں اس کو گواہ بنانا چاہتا ہوں
جب مجھ پر مقدمہ چلے اپنی ماں کو قتل کرنے کا۔

مجھ پر آئگستوس کو قتل کرنے کا الزام نہیں۔
اس پر تو میں نے اسی قانون کانفاذ کیا
جو زانیوں پر لگتا ہے۔
لیکن اس کا کیا
جس نے یہ جال بنا
اور قتل کی سازش کی
اس آدمی کی جس کا اکلوتا بیٹا
اس کا اکلوتا بیٹا تھا،
اس کی آنکھوں کا تارا،
گو اب اس نے اسے مار ڈالا؟
اس کا کیا؟
وہ اتنی زہریلی ہے،
بدی کے ناسور سے بھری ہوئی
اگر وہ کوئی سانپ ہوتی تو اسے دانتوں کی ضرورت نہ ہوتی۔
وہ تو چھو کر ہی مار ڈالتا—
ایک چھوؤن اور اس کا نشانہ
پھول جاتا جیسے سورج میں پڑی کوئی لاش،
ایک ناسوردار دہشت۔
اس کی یہ ترکیب کیا ہے؟
ایک خطرناک جانور کے لیے ایک پھندا
یا ایک مردہ شخص کے الجھے ہوئے کپڑے؟
کسی عیار ڈاکو نے شاید یہ باندھا ہو کہ مسافروں پر جا گرے
اور ان کے قتل میں آسانی ہو،
اپنی ہنسی تلے پشیمانی چھپاتا ہوا۔
خدایا ، میرے گھر کو ایسی عورت سے محفوظ رکھ—
بہتر ہے بے اولاد ہی موت آئے۔

گائک منڈلی
ہمیں اس راجا کا ماتم کرنا ہو گا جسے تم نے مار ڈالا،
اور تمہاری جیت پر رونا ہو گا۔
اس کی موت بہت سخت تھی۔
لیکن غلطی کی جڑ ہوتی ہے،
اور یہ اس کا پھول ہے۔

اورستس
کیا وہ ملزم ہے؟ یا معصوم؟
اس خون بھری قبا کو دیکھو، اس کے جوڑ دیکھو—
تم آگامامنون کی قبا پہچانتی ہو؟
یہ آئگستوس کا کام ہے۔ یہاں او ریہاں۔
یہ میرا بھی گواہ ہے۔
دیکھو جہاں خون خشک ہو چکا
اور رنگ دار کپڑے میں جذب ہو چکا۔
میں اپنے باپ کی تعریف کرتا ہوں،
کافی دیر کی خاموشی کے بعد۔
اور چونکہ میں نے کبھی اس کی لاش نہیں دیکھی
میں روتا ہوں کہ کس نے اسے مار ڈالا—
یہ جالوں کی غلیظ کنڈلی۔

جو میری ماں نے کیا میرا کرب ہے
اب اس کی سزا میرا کرب ہے۔
اور میری جیت نے
بنا ڈالی میری بچی کھچی زندگی
ایک کرب۔

گائک منڈلی
کون درد اور تکلیف سے بھاگ سکا ہے؟
کون پہنچ سکا ہے
آغاز سے انجام تک، خوش؟
گمشدہ یا تو ابھی یہاں ہیں
یا آنے والے ہیں۔
وقت اور دیوتاانہیں مسلسل نکال لاتے رہتے ہیں۔

اورستس
میں کسی رتھ پر سوار آدمی کی طرح ہوں
اختیار چھوڑتا ہوا
گھوڑوں پر سے،
نہ جانے کس جانب سرپٹ دوڑتے ہوئے۔
باگوں سے لٹک رہا ہوں
قوت کے بغیر
محض لٹکنے سے زیادہ کچھ نہیں،
دماغ گھومتا ہے،
دل دہشت سے بیٹھا جاتا ہے۔

میں جب تک باہوش اور تمہارے بیچ ہوں
مجھے یہ کہنے دو—
تم جو وفادار ہو مجھے سمجھ جاؤ گے:
اپنی ماں کو مارنا گنا ہ نہیں تھا۔
وہ سر سے پاؤں تک لتھڑی تھی
میرے باپ کے خون میں۔
دیوتاؤں نے اس سے نفرت کی۔
اپالو نے مجھے قوت دی
کہ انصاف کی کرنی کروں۔
خداوندِ عظیم نے مجھے یہ حکم دیا۔
اس کے ہاتف نے یہ واضح کر دیا:
اگر میں نے اپنی ماں کا قتل کیا تو میں مجرم نہیں ہوں گا۔
اور اگر میں نے اسے نہ مارا—
تو میری سزا وہ ہوگی جسے منہ سے کہا نہ جا سکے گا۔
ذہن اس کا تصور نہ کر سکےگا۔

اب مجھے دیکھو۔ان پتوں کی آڑ لیتا ہوا،
چلا جا رہوں دھرتی کے مرکز میں واقع مندر کی طرف—
اپالو کے گھر
جہاں وہ ابدی شعلہ
خدا کے لیے جلتا ہے۔
یہ جگہ میری پناہ گاہ ہے۔
اپالو نے مجھے بتایا
کہ وہاں بھاگ جاؤں اور پناہ لوں
جب میں اپنی ماں کو سزا دے چکا۔
آرگوس کے تمام باسیوں کو،
اب اورآنے والے وقت میں،
میری معصومیت دیکھنے دو۔
میری ماں کی موت لکھی جا چکی تھی
آسمانوں پر
دیوتاؤں کی طرف سے۔
میں تو بس ان کا ماتمی آلہ تھا۔
یاد رکھو یہ،
بتا دو جو مجھے کرنا تھا
ان شبدوں میں۔
اور بتا دینا کہ میں نے کیسے یہ جگہ چھوڑی
ایک بھگوڑے اور وطن بدر آدمی کے طور پر۔

گائک منڈلی
تم خود انصاف ہو۔
تم نے انصاف قائم کیا۔
اس شاندار واقعے کو تاریک نہ کرو
ان افسردہ شبدوں سے۔
اپنی تقدیر سے قوت طلب کرو۔
تم نے آرگوس کو آزاد کرایا،
اپنے وطن کو۔
دونوں شیطان جنہوں نے اس دیس کو دہشت میں مبتلا کر رکھا تھا
تمہارے ہی ہاتھوں مرے۔
تمہیں تو خوشی سے نعرے لگانے چاہیے ہیں۔

اورستس
آہ!
وہاں دیکھو—دیکھو: سرمئی قباؤں والی عورتیں،
گورگونوں کے چہروں والی۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتیں؟
ان کے بدن اور سروں پر سانپ لپٹے ہیں—
وہ آ رہی ہیں۔

گائک منڈلی
ہمارا شہزادہ، اورستس، سب سے وفادار بیٹا
جو کسی باپ کا ہو سکے—
یہ ہے تمہاری جیت کا دن۔
تمہارے سارے دشمن مر چکے ۔
سارا آرگوس تم میں خوش ہے۔
یہ مدہوشی کے سراب ہیں
تمہاری غیرانسانی جدوجہد کے بعد
انسانی دہشتوں میں سب سے عظیم کو شکست دینے کے بعد
تمہارے پاس کچھ ڈرنے کو نہیں۔

اورستس
یہ عورتیں اصل ہیں—روحوں پر چھا جاتی ہیں
انسان کی روح پر۔
یہ تخیل نہیں۔
یہ عفریت نکلے ہیں
میری ماں کے خون سے۔
بھیڑیے ہیں اس کے بدن کے،
اس کی چھاتیوں کے،
اس کی کوکھ کے۔

گائک منڈلی
تم الجھے ہوئے ہو۔
تمہاری معصومیت
خود کو ہی دہشت میں مبتلا کیے رکھتی ہے—
بدروحیں نظر آتی ہیں۔
جب تم اپنے ہاتھوں پر خون دیکھتے ہو۔
یہ فطری ہے۔
اسی لیے ہماری رسم ہے
کہ ہاتھوں کو دھو لیا جائے۔

اورستس
اپالو!
زمین بھر رہی ہے
اس مخلوق سے—
اپالو تم نے مجھے خبردار نہیں کیا!
وہ زمین سے نیچے چھلانگیں مار رہے ہیں،
اپنے بلوں سے نکل کر خون میں بھرے ہوئے۔
آنکھیں پیپ زدہ چھالوں جیسی ،
منہ گلے سڑے زخموں کی طرح،
ان کے کوڑے سائیں سائیں کر کے چٹختے ہوئے۔

گائک منڈلی
جلدی کرو اپالو کے مندر کی طرف—
اپالو تمہیں پاک کر دے گا۔
تمہاری آنکھیں ان منظروں سے صاف کر دے گا۔

اورستس
تم انہیں نہیں دیکھ سکتے لیکن میں انہیں دیکھتا ہوں۔
تم ان کے کوڑے محسوس نہیں کر سکتے لیکن میں کرتا ہوں۔
آہ!

(اورستس نکل جاتا ہے۔)

گائک منڈلی
صرف خداوند ہی اورستس کی مدد کر سکتا ہے۔
خداوند اس کی مدد کرے۔
اس کے اندھے قدموں کو آخرکار لے جائے
امن کی طرف۔
تم نے دیکھا کیسے اس گھر پر لگا پرانا شراپ
تیسرا وار کرتا ہے ،
کڑکتی بجلی کی طرح۔
اور کیسے ہولناک خون بالآخر چھلکتا ہے
اچھے اور معصوم انسان کے ہاتھ سے۔
توئستس کے بچوں کے ذبح ہونے سے اس کا آغاز ہوا۔
پھر آئی کلیتم نسترا کی سازش،
جس نے اپنے راجا شوہر آگامامنون کو خنجر گھونپ دیا،
جب وہ اپنے دشمنوں کا خون دھونے کے لیے کپڑے اتار رہا تھا۔
ایک دیوانگی سے شروعات ہوئی،
بھائی کے خلاف ہو ا بھائی۔
دیوانگی نے اسے دوگنا کر دیا،
شوہر کےخلاف ہوئی بیوی۔
کیا یہ تیسرا وار آخری ہے—بیٹا ماں کے خلاف؟
اورستس کیسے یہ دیوانگی کا دائرہ توڑ سکتا ہے؟

کیا اورستس کا بے چارہ جھلسا ہوا دماغ
تمام عوامل کو سوچ سکتا ہے؟
کیا وہ حل کر سکتا ہے
نا ختم ہونے والا یہ حساب
جو اس شراپ کو لگاتا ہے ایک نسل سے دوسری کو؟
کون ختم کرسکتا ہے اسے؟
کب ختم ہو سکتا ہے یہ ؟
کیسے ختم ہو سکتا ہے یہ؟

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search