تمہارے نام کی گھنٹی بجی تو یوں لگا جیسے۔ شاعر: عاصم بخشی

 In نظم

قیصر شہزاد سے


تمہارے نام کی گھنٹی بجی تو یوں لگا جیسے
زمانہ تازیانے کی طرح برسا رہا ہو
لمحۂ موجود اس دل پر
کہ جیسے ہاتھ میں پکڑا ہوا یہ فون
کوئی برف کی سل ہو کہ
جس میں منجمد یادوں کے کچھ لمحے
تسلسل سے
کسی سیال مادے کی طرح لحظہ بہ لحظہ
درد کی لو پر پگھلتے ہوں
سنا ہے زندگی اک چیستانِ وقت ہے قیصر!
خبر ہو گی تمہیں
آخر کو تم نے
اس نگر کے گنجلک رستوں کی
مجھ سے بھی زیادہ خاک چھانی ہے
کہ میں تو بس حقیقت کو کبھی لفظوں کی گردش میں
کبھی ہندسوں کی بندش میں
سماتے ہار جاتا ہوں
خبر ہو گی تمہیں کہ
تم تو ٹھہرے شہریارِ فکر
فہمِ ہست کی اقلیم کے قیصر
حقیقت کیا اسی لامعنویت کے سمندر کو کسی معنی کے کوزے میں سما دینے کا قصہ ہے؟
ابھی پچھلے برس کی بات ہے ہم نے
رَسَل کے بعد ہیشل کو پکارا تھا
کہ شاید آگہی کے دو الگ رستوں میں کوئی تو ہمارا ہو!
وہ دن جب ہم نے اک اتوار
اپنے کنجِ تنہائی کے اُس سرسبز کوچے میں
اکٹھے خواب دیکھا تھا
ہماری ’مشرقی‘ آنکھوں میں ’مغرب‘ کی چمک
کچھ ایسے اتری تھی
کہ جیسے سر سے لیکر پاؤں تک
ہم مشرق و مغرب کے بحرِ فکر کا تنہا کنارہ ہوں
وہ دن جب ہم نے لفظوں میں بُنا تھا
یہ سنہرا ریشمی قضیہ:
’’حقیقت دائرہ ہے اور ہم اس دائرے کے حاشیے پر اس طرح غلطاں کہ سارے راستے بس ایک ہی مرکز کو جاتے ہیں‘‘
وہ دن جب تم نے مجھ کو لفظ کے درپن میں
کچھ نادیدہ منظر دیکھنے کا فن سکھایا تھا
مجھے لفظوں کی پوشاکیں الٹنا
حرف کی بخیہ گری پہلے نہ آتی تھی
جہانِ برق میں گزرے
وہ سارے ان گنت لمحے
یہ دنیا جس میں آوازیں، تبسم، رنج، آنسو، راحتیں،
سارے ہی رشتے
برق تازی سے
ہوا کے دوش پر چلتے خلا میں کھو سے جاتے ہیں
تمہارے نام کی گھنٹی بجی تو وقت جیسے رک گیا قیصر
مجھے ایسے لگا میں شورشِ آلام سے
لمحوں کے اس ہنگام سے
باہر کھڑا منظر کو تکتا ہوں
میں کہنا چاہتا تھا عمر لگ جائے تمہیں میری
مگر یہ پچھلی پیڑھی کی عجب سی شاعرانہ، منفعل باتیں
ہمیں زیبا نہیں دیتیں
کہ ہم تو فلسفی ہیں
ہم کو ایسے پیش پا افتادہ
فرسودہ خیالوں سے عجب وحشت سی ہوتی ہے
دعا نکلی تو تھی دل سے
مگر پھر سوچتا ہوں گر خدا موجود ہے
تو اُس حریمِ کبریا کو
گفتنی، ناگفتنی لفظوں کی کیا حاجت
اسے (اچھی طرح) معلوم ہے وہ دائرہ ہے
اور
’’ہم اس دائرے کے حاشیے پر اس طرح غلطاں کہ سارے راستے بس ایک ہی مرکز کو جاتے ہیں‘‘
اسے معلوم ہے ہم
(مشرق و مغرب کے بحرِ فکر کے تنہا کنارے)
المیہ سازی پہ مرتے ہیں
ابھی تو ہم نے ہیگل پر نئی باتیں بھی کرنی ہیں
سنا ہے وہ بھی نطشے کی طرح انسان کو تسکین سے مرنے نہیں دیتا؟
اسے معلوم ہے ہم
نظریہ سازی پہ مرتے ہیں
کہ ہم نے ٹیری ایگلٹن کے خاکوں کی مدد سے اگلے ہفتے
کچھ نئے منظر بنانے تھے
خدا موجود ہے
تو جانتا ہو گا کہ تم نے
پچھلے ہفتے ووڈ ہاؤس کے کئی ناول خریدے تھے
ابھی تو حافظ و رومی کے دیوانوں کے کتنے دور باقی ہیں
ابھی تو ہم نے منطق میں نئے دعوے بھی کرنے ہیں
کہ ہم تو منطقی ہیں
ہم کو چارہ گر کا تیشہ بھی
بس اک قضیہ سا لگتا ہے
ابھی مرکز سے پہلے
حاشیے پر جانے کتنی منزلیں
اک ساتھ اپنے ان گنت قدموں نے سر کرنی
نگاہوں میں اترنی ہیں
ابھی تو آخری منزل میں کافی وقت باقی ہے۔۔۔۔


(عاصؔم بخشی ۔ ۱۳ دسمبر ۲۰۱۵)

Recommended Posts
Comments
  • جواد عالم
    جواب دیں

    خوبصورت کلام اور خوبصورت انتخاب!

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search