الاھگان انتقام۔ تحریر: ایس کلس (ترجمہ: عاصم بخشی)

 In ترجمہ

تعارف
کیا اورستس فیوریوں کے غضب سے بچ پائے گا یا نہیں؟ ان کا لقمہ بنے گا، فرار میں کامیاب ہو گا یا پھر کوئی تیسرا نتیجہ بھی ممکن ہے؟ مثلثیات کے تیسرے ناٹک کے ناظرین اتریوس کے گھرانے سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس کے بڑوں نے اپنے بچوں کو قتل کیا اور ماں باپ کو زہر کھلا دیا، چچوں تایوں کا قتل کیا، سسرالیوں کو مارا اور جنگوں کا آغاز کیا۔ اس خاندان کے سب سے بڑے لڑاکے آگامامنون اور منیلوس تھے جنہوں نے ٹروجان کی جنگ شروع کی۔ آگامامنون جنگ سے واپس لوٹا تو اس کی بیوی کلیتم نسترا اور اس کے عاشق نے اس کا قتل کیا۔ یہ پہلے ناٹک کا اختتام تھا۔ دوسرے ناٹک کا آغاز اس کے چند سال بعد اورستس کی گھر واپسی سے ہوتا ہے جو واپس لوٹ کر اپنی بہن الکترا کے ساتھ اپنی ماں اور اس کے ساتھی کا قتل کرتا ہے۔ دوسرے ناٹک کے انجام پر اورستس اپالو کے مندر میں پناہ لینے کے لیے فرار ہوتا ہے اور فیوری دیویاں اس کے تعاقب میں ہیں۔ اس سلسلے کا تیسر ا اور آخری ناٹک اپنے دلچسپ واقعات کے ساتھ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں شامل طویل بیانات تھیٹر کی تاریخ کے مضبوط ترین مکالموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
یومینیڈیس، فیوری دیویاں یا الاھگان ِ انتقام کا مرکزی مضمون نظریۂ عدل ہے اور انتقام کے موضوع کو اپنے فیصلہ کن انجام کی طرف لے جانے کے ذریعے ایس کلس بالواسطہ اس مضمون ہی سے جڑے کچھ ثقافتی عوامل کی وضاحت کرتا ہے۔ انجام کی طرف بڑھنے سے پہلے اہم ہے کہ مختلف مناظر سے منسلک مقامات کا مختصر پس منظر بیان کر دیا جائے۔ تیسرے اور آخری ناٹک میں یہ مقامات اہم ہیں کیوں کہ انتقام اور عدل و انصاف کا مبحث قدیم یونانی تاریخ و ثقافت سے باہم گنجلک ہے۔ پہلا مقام یعنی ناٹک کا آغاز ڈیلفی میں اپالو کا مندر ہے۔ دیومالائی تاریخ میں ڈیلفی کی اہمیت مرکز ی نوعیت کی ہے۔ قصہ یوں ہے کہ زیوس نے مشرق و مغرب کی انتہاؤں سے عقابوں کے ایک جوڑے کو اڑایا اور دعویٰ کیا کہ وہ جس مقام پر ملیں گے وہی دنیا کا مرکز ہو گا۔ وہ اڑتے اڑتے ڈیلفی میں اومفالس نامی چٹان یعنی دنیا کی ناف پر ایک دوسرے سے جا ملے۔ یہاں موجود اپالو کا مندر یونانی دنیا کا اہم ترین مقام ٹھہرا۔ لہٰذا سچائی، پیشین گوئی ، شاعری اور چارہ گری کا دیوتا اپالو اس ناٹک کا ایک اہم کردار ہے۔ دوسرا مقام ایتھنز کا قلب آکروپولس ہے جس کے بازو میں قدیم یونانی ناظرین یہ ناٹک دیکھتے ہوئے ضرور براجمان رہے ہوں۔ تیسرا اور سب سے اہم مقام ایریوپاگس نامی ایک اور بلند چٹان ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو ریاستی عد ل کے نظام سے منسلک تھی اور ایس کلس کے اس ناٹک کے ناظرین نے ضرور اس جگہ کو اپنے نئے قانونی نظام کے تناظر میں دیکھا ہوگا۔
واقعات تو آپ پڑھ ہی لیں گے لیکن اتنا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس ناٹک کا مرکز ایک عدالتی مقدمہ ہے ۔ بالکل ویسا ہی مقدمہ جیسے ہم آج کل کی فلموں میں دیکھتے ہیں۔ یعنی ملزم ، وکیل صفائی ، استغاثہ اور جیوری وغیرہ جیسے سب لوازمات اس عدالتی مقدمے میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ایک طرف ذاتی انتقام در انتقام پر مبنی قدیم نظامِ عدل ہے تو دوسری طرف شہری عدل کا وہ جدید نظام جو ایس کلس کے اس ناٹک سے چند سال پہلے ہی وضع کیا گیا او ر ایریو پاگس کی چٹان علامتی طورپر اس نئے نظام سے منسلک ہو گئی۔ اس لحاظ سے ان تینوں ناٹکوں کا مرکزی خیال انہی دونوں نظام ہائے عدل کا باہمی الجھاؤ یا ٹکراؤ ہے۔ جہاں فیوری دیویاں یا الاھگانِ انتقام قدیم روایتِ عدل کی قوتیں ہیں وہیں یہ اونچی اور پتھریلی چٹان نئے نظامِ عدل کی علامت ہے۔ آئیے ناٹک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

(فیوریاں اورستس کا تعاقب کرتے کرتے ڈیلفی میں اپالو کے مندر تک آن پہنچی ہیں۔ صبح کا وقت ہے۔ پجارن بابِ عظیم پر نمودار ہوتی ہے اوراپنی مناجات پیش کرتی ہے۔)

پائتھیا
میری دعاؤں میں ،
اول:
دھرتی سے دعا کرتی ہوں—پیشین گوئی کی ماں۔
پھرتیمیس سے —دھرتی کی طیطانی بیٹی،
جس کی تھی یہ ہاتفہ ۔
پھرفوبہ سے—دھرتی ہی کی ایک اور بیٹی۔
تیمیس اس ہاتفی تخت تک پہنچی،
پھر اسے بخش دیا فوبہ کو۔
اپالو کی فوبہ ۔
اس کی تخت نشینی کا جلوس
اتنا ہی طویل تھا جتنی زمین کی چوڑائی۔
اَن چھوئے جنگل سے گزرتی زائرین کی شاہراہ کو پامال ہو گئی۔
راجا اور پرجا کی نگاہوں میں مکرم، اپالو۔
سپوتِ خداوند ۔ پھر خداوند ہی نے عطا کیے اپالو کو
ذہن اور زبان
کہ انسانیت سے خدا کی سچائی بیان کرے۔
کھول کر رکھ دے کل کہ آج کی گتھی سلجھے،
جہاں انسانیت اکٹھی ہوتی ہے آنکھیں بند کیے،
ایک بند دروازے پر۔
یہ سب مقدم ہیں میری دعاؤں میں ۔
پھر آتی ہے ایتھینا ،
اور غار کی پَن دیویاں
دیونیسوس کی،
جس کے پاس تھیں اس کی داسیاں،
مہاراجہ پینتھیس کا شکار کرنے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے،
جیسے شکاری کتے خرگوش پر لپکتے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں۔
پھر آیا ڈیلفی کا دریا۔
پھر پوسائدن ، جس کے سمندر دھرتی کو اپنی آغوش میں لیے ہیں۔
آخر میں زیوس، سب کا باپو۔

(ناظرین کی طرف مڑتے ہوئے)

اب میں اپنی جگہ لیتی ہوں
خدا کی سانس میں۔
بس آج کو لانے دو
کسی بھی دن سے زیادہ رحمتیں۔

وہ یونانی جو پوچھنے آئے ہیں
ہاتف سے ایک سوال :
نکالنے دو انہیں فال ۔
سانس لیتا ہے اپالو مجھ میں تو میں بولتی ہوں۔

(پجارن دروازوں سے اندر چلی جاتی ہے اور لمحے بھر میں پھر ظاہر ہوتے ہی گھٹنوں پر گر جاتی ہے جیسے کسی نادیدہ قوت کے زیرِ اثر ہو )

ایک ہیبت ناک خواب!
نہیں وہ کوئی خواب نہ تھا۔
میں بمشکل کھڑی ہو سکتی ہوں ۔
تھامو مجھے ۔
یہ کوئی خواب نہ تھا۔
ہائے، ایک بڑھیا عورت کے لیے یہ بہت زیادہ ہے—
میں ایک بچے سے بھی زیادہ کمزور ہوں۔
میں چلی اندر
مندر کی طرف۔
مندر میں سوالیوں کی چادریں لٹکی ہیں۔ ۔
یہ دھرتی کے مرکز میں واقع چٹان کے بیچ ہے۔
اومفالوس۔ سب چٹانوں میں سب سے مقدس۔
چٹان پر ایک عجیب سا آدمی بیٹھا ہے۔
خون میں ڈوبا ایک آدمی۔
پورا بدن خون سے رنگا،
ہاتھ میں ایک تلوار، وہ بھی خون سے رنگی،
یوں جیسے اس کی گرفت قبضے کو شکنجے میں لیے ہو
اور وہ اسے ڈھیلا نہ کر سکتا ہو۔
آنکھیں گھورتی ہیں ، یوں جیسے وہ پلک نہ جھپک سکتا ہو
یا جھپکنے کی جرأت ہی نہ ہو۔
پھر بھی جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے—
زیتون کے تازہ پتے،
بیچ میں لپٹی ہوئی تازہ اُون کے ساتھ،
اس کے سر پر بندھی ،
اپالو کی نشانی ہے۔
خدوخال ڈراؤنے ۔
اس سے بھی بدتر—بیان سے باہر—
اس کے گرد، پتھر کی بنچوں پر،
سوتی ہوئی عجیب و غریب مخلوق۔
انہیں مہیلائیں کہوں لیکن وہ مہیلائیں نہیں۔
گورگون کی شکل— لیکن گورگون نہیں۔
سیاہ ، اس کالک کے جالوں کی طرح جو چمنی میں لٹکے ہیں،
چمگادڑ کی طرح ، لیکن بے پر۔
ہر ایک کی شکل بہتے پھوڑوں کی سی—
آنکھیں، منہ، پھوڑے۔
بدن سانس باہر پھینکتے
بدبو جیسے سنڈی لگی لاشیں۔
قبائیں لتھڑی ہوئی ، داغ زدہ
اپنے ہی بدن کی بوسیدہ بدبو میں
جو ان سے نکلتی اور پتھروں میں داخل ہو جاتی ہے۔
کون ہیں وہ؟ کیا ہیں وہ؟
کوئی اور شے—غیرانسانی۔
چڑیلیں کسی اور دنیا کی
لعنت زدہ دیوتاؤں اور انسانوں کی۔
اپالو طاقت ور ہے۔
اور یہ اس کا مندر ہے۔
تمام انسانی گندگیاں
اس کی پوتر چھوؤن کی منتظر ہیں۔
پجاری، جوتشی، طبیب—
میں یہ اجنبی اس کے حوالے کرتی ہوں۔

(وہ اندر چلی جاتی ہے۔ مندر کے دروازے کھلتے ہیں اور اپالو اورستس پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہ سنگِ ناف پر دعا ئیہ کلمات کے لیے جھکا ہوا ہے، اردگرد سوتی ہوئی فیوریاں ہیں، پس منظر میں ہرمس منتظر ہے ۔)

اپالو
اورستس، میں تیرے ساتھ ہوں۔
جہاں بھی تو جائے
میں تیرے قدموں کی حفاظت کرتا ،
تیرے دشمنوں کو ناکارہ کرتا ہوں۔
(فیوریوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔)
فیوری دیویاں چپ ہیں۔
یہ ڈائنیں،
سمے کے باہر سے،
خلا کے اندر سے ،
جس کی نموداری
حیران کیے دیتی ہے
دیوتا
اور انسان
اور حیوان کو۔
بدی میں پیدا ہوئیں،
اپنی تاریک،
بدی کی پاتال میں زندہ،
جن سے نفرت کی دیوتاؤں اور انسانوں نے—
وہ سوتی ہیں کچھ دیر کے لیے۔اب تیرے لیے موقع ہے۔
جلدی کر۔ نکل۔جم کے رہنا۔
وہ پہاڑوں میں تیرا شکار کریں گی
اور براعظم کے پار،
ایک سے دوسرے جزیرے تک تیرا پیچھا کریں گی،
ایک سے دوسرے شہر تک۔
جہاں تک زمین پر قدم رکھے جا سکیں، وہ تیرا پیچھا کریں گی۔
کمزور نہ پڑنا۔
دستبردار نہ ہونا
اپنے حصے کےکرب سے—
اٹھانا اس کا بوجھ دولت کی طرح
یونان تک،
ایتھنز، ایتھینا کے شہر تک۔
لے، ایتھینا کی تصویر اپنی آغوش میں لے—
اس کی مدد کی بھیک مانگ۔
اپنا کرب اس کے پیروں میں رکھ دے۔

وہاں تیرا فیصلہ ہو گا
ان آدمیوں سے جنہیں میں یہ کام دوں گا۔
اور وہیں ،
زبان کو شبد عطا کرتے ہوئے،
میں تجھے آزاد کر دوں گا۔
میں نے تجھے حکم دیا اپنی ماں کی جان لینے کا۔
اب میں فال نکالوں گا، جیسے کوئی لاٹری ہو،
تیرے اچھلتے ہوئے شب و روز کی،
تجھے تیرے جرم سے آزاد کرتی ہوئی۔

اورستس
اپالو —تمام دیوتاؤں میں سے تو ہے دیوتا
انصاف کا۔
میں اپنی پوری زندگی وقف کرتا ہوں
تیری راہنمائی
اور تیرے وعدے کے لیے۔

اپالو
سب سے بڑھ کر یہ—کہ اپنا حوصلہ رکھنا
کسی تیز دھار کی طرح مضبوط
جو کبھی نہیں کانپتی
جب اپنا کام کر چکی ہو۔
(ہرمس کو سایوں میں سے پکارتاہے)
ہرمس ، میرے بھائی،
اس کو راہ دکھانا، اس کی حفاظت کرنا۔
یہ مجرم محترم ہے
خداوند کی نگاہوں میں۔

(اپالو اپنے اندرونی حجرے میں چلا جاتا ہے۔ اورستس ہرمس کے پیچھے پیچھے چل دیتا ہے۔ کلیتم نسترا کی روح داخل ہوتی ہے اور سوتی ہوئی فیوریوں کے اوپر منڈلا رہی ہے۔)

کلیتم نسترا کی روح
جاگو! جاگو! جاگو!
تم مجھے بھول رہی ہو۔
تم میرا مقصد نظر انداز کر رہی ہو۔
مرے ہوئے یاد کرنا شروع ہو گئے ہیں
اس آدمی کو جسے میں نے مارا
اور وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔
مجھے پاتال میں بھگاتے چلے جاتے ہیں۔
میرے پیچھے چیختے آتے ہیں:’وہ جا رہی ہے،
آگامامنون کی قاتلہ!
وہ رہی! شیطان کلیتم نسترا!‘
میں لڑکھڑاتی اور شرم سے بھاگتی چلی جاتی ہوں،
حقارت سے تکتے ہیں،
مجھے نرگ کے سارے جتھے۔
دوش دیتے ، الزام لگاتے ، مقدمہ چلاتے ، مجرم گردانتے ہیں
یوں جیسے میرے بیٹے نے مجھے کبھی نہ چھوا ہوا۔
جاگو۔ کام پر نکلو!
دنیاؤں کو پتہ چلنے دو کہ تم کیوں اورستس کا پیچھا کر رہی ہو—
مچاؤشور ۔
دیکھو اس گھاؤ کو جو اس نے لگایا، یہاں میری پسلیوں کے نیچے
جب تلوار کی نوک میری گردن کے پیچھے سےآر پار ہوئی۔
یہ میرے بیٹے کی گھر واپسی کا تحفہ تھا۔
دن کی روشنی گوشت پوست کی دیوار بنا دیتی ہے،
لیکن نیند دھرتی کے آرپار دیکھ سکتی ہے۔
آدھی راتیں یاد کرو
میں نے تمہیں حاضر کیا—
نیازوں اور جلتی ہوئی ضیافتوں سے۔
سب اکارت گیا۔
وہ پھندے سے نکل آیا
جیسے کوئی خرگوش جھاڑی سے—
نکل گیا، تم پر ہنستا ہوا
جب تم خراٹے لیتی سو رہی تھیں۔
تم دھرتی کی طاقتو، میری بات سنو۔
سنو مجھے اپنی نیند میں—
کلیتم نسترا کی جان اس کے اپنے بیٹے نے لی۔
کلیتم نسترا!
وہ زمین کے نیچے سے تم پر چلّا رہی ہے۔

(فیوری دیویوں کی گائک منڈلی نیندمیں کسمساتی ہے۔)

تم کسمساتی ہو—لیکن تمہارا شکار اڑتا ہے۔
اس کے ساتھی پکے ہیں۔
ہر نکڑ پر اس کی مدد کو آتے ہیں—لیکن میرے پڑے سوتے ہیں۔

(گائک منڈلی پھر کسمساتی ہے۔)

جاگو! موت تمہیں واپس لینے کی جلدی میں ہے
اپنے اٹل سکوت کی جانب۔
کیا تم بھول گئی
اورستس کو
جس نے اپنی ماں کی جان لی؟
وہ نکل رہا ہے،
وہ گیا۔

(گائک منڈلی مزید کسمساتی ہے۔)

نیند اور تھکن ایک ساتھ
ان ڈراؤنے واقعات تک کے لیے بہت ہیں۔

گائک منڈلی
پیچھا کرو! جا لو اسے! پکڑ لو!
پیچھا کرو! پیچھا کرو اس کا!

کلیتم نسترا
تم اپنی نیند میں شکار کرتی ہو، کتوں کی طرح،
لیکن تمہارے فرض کا کیا؟
کیا نیند فیوریوں پر قابو پا سکتی ہے؟
کیا تم میرا درد بھول گئی؟
ننگا کردو اس کا ضمیر
تیزاب میں ڈوبے اپنے لفظوں کے کوڑوں سے۔
بہرا کر دو اسے غصے اور لعن طعن کے بھبھوکوں سے
جو تمہاری کوکھوں سے نکلتے ہیں۔
مفلوج کر دو کھوپڑی میں اس کا مغز
مایوسی سے۔
پیچھا کرو اس کا اس کی قبر تک۔

(گائک منڈلی جاگ اٹھتی ہے۔)

فیوری دیویاں
جاگ گئے! جاگ گئے! جاگ گئے!
یہ آواز کیا تھی؟
کیا ہوا؟
اورستس نے ہمارے ساتھ چال چلی۔
ہم زیادہ سو گئیں۔
سادہ لوح گھامڑوں کی طرح—
ہمارا فرض نکل گیا
خواب میں!
دیکھو، اس پتھر پر خون۔
یہاں ہمارے شکار نے کھایا پیا اور آرام کیا
اور ہم پڑی سوتی رہیں ۔
اپالو، تُو ہے تودیوتا
پر تُو نے ایک چال باز کی سی حرکت کی۔
اپنے پرانے اصولوں کو بھلا دیا۔
تُو منکر ہے
پرانی قوتوں کا۔
تو اسے انصاف کہتا ہے
کہ کسی آدمی کو منایا جائے
اس پر کہ اس کی ماں کا قتل ہو جانا ضروری ہے،
پھر اس جرم کی حفاظت کی جائے—
جیسے ماں ہونا
کوئی حادثہ ہو
جسے بھول جانا چاہیے۔
یہ کیسے عدل ہو سکتا ہے؟ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
تو بھول گیا، تو روزِ روشن کا دیوتا،
نیند کی صدا۔
وہ صدا جو مجھے اندر سے کاٹ ڈالتی
اور جھنجھوڑ کر جگا دیتی ہے
جیسے کسی بیل کے پچھواڑے میں لگی ہانک
جب وہ فصل میں جھومتا چلا جا رہا ہو۔
حیف ۔
تو بھول چکا۔
گھپ اندھیرے سے نکلتا اندھا طیش—
حیف۔
خود تقدیر کی دیوی کے بطن سے آتی ایک آواز۔
خاموش ناختم ہونے والی چیخ جو ایک انسان کو نیچے لے آتی ہے۔

یہ ہماری غلطی نہیں۔
نئے دیوتاؤں کو الزام دو
جنہوں نے پرانی طاقتوں کو دفنا دیا
اپنے مندروں کے فرشوں تلے
اور نئے استھانوں سے حکمرانی کی—
خون میں بھیگے استھان ۔
دیکھو اس پتھر کی طرف—
پرانی طاقتوں کی مقدس ترین نشست،
طاقتو ، تم جو ایک زمانے میں اس مندر کی مالک تھیں—
دیکھو تم نے اس کے ساتھ کیا کر دیا۔

اپالو، تو ہو گا جوتشیوں کا دیوتا ،
تُو ہو گا دیوتاؤں میں سب سے دانش مند ہو—
لیکن تو نے قانون توڑے—
قدیم ترین قانون جنہیں
تقدیر نے انسانوں کے جسموں اور دماغوں میں گھسایا۔
تو نے ان کا دعوٰی ردّ کر دیا—اور یہ تو نے کیا
ایک آدمی کی مدد کے لیے

تو تقدیر کی دیوی کا دشمن ہے۔
اور ہمارا بھی۔
تو حفاظت نہیں کرے گا
ایسے مجرم کی،
جو اپنی ماں کا قاتل۔
ایک سراپ، ناقابلِ فرار اور بھاری،
اورستس کے سر میں سما چکا ،
او رجہاں وہ جائے، ساتھ جاتا ہے۔
اس کا سر آہنی پنجرہ ہے
اس سراپ کا۔
جہاں بھی وہ کھڑا ہو یا بیٹھے،
اس کی آنکھیں
ان سلاخوں کے بیچ سے جھانکتی ہیں۔
وہ اس پنجرے میں بند ہے،
آپ اپنا ہی قیدی،
جب تک ایک بدلہ لینے والا نہیں آ جاتا—
اپنی قسم کا ایک ہی ،
حساب بے باک کر دینے والا،
اپنے ہاتھ میں چابی لیے—
یعنی اتریوس کے گھرانے کی وہ ازل سے جاگتی تلوار۔

(اپالو داخل ہوتا ہے۔)

اپالو
اس مندر سے نکلو—تم سب کی سب۔
یہ جگہ پیشین گوئی کے لیے مقدس ہے۔
نکل جاؤ— تم جانتے ہونا میرے تیروں کو،
میرے شعلہ سر نشانے
جو تمہاری انتڑیاں ابال دیں گے
اور تمہارے مونہوں سے باہر نکال دیں گے بدبو دار گلٹیاں
جو تم نے لاشوں سے نگلیں۔
تم یہاں کی نہیں—
یہ دیواریں تمہاری موجودگی سے داغ دار ہیں۔
تمہاری جگہ زندان میں ہے
جو اذیت دینے والوں کے لیے سجایا گیا ہے،
کاٹ پیٹ،
ماراماری کی آماجگاہ،
کٹے پھٹے پاؤں اور بازو،
سولی چڑھے بدن—
یہ ہے تمہاری ضیافت کا ہال کمرہ۔
نکال دی جاتی ہیں جہاں آنکھیں ،
کھینچ لی جاتی ہیں سانس کی نالیاں ،
فرش پر تڑپتے ہیں کلیجے اور آنتیں ،
سر گھما دیے جاتے ہیں کاندھوں پر —
یہ ہے تمہارے مطالعے کی جگہ۔
آرام کمرے میں چیخوں کا حجرہ۔
جس کے لیے قدرت نے تم سے نفرت کی۔
دیکھو خود کو:
پاؤں کے ناخنوں سے
سر کا تاج بنے زہریلے سانپوں تک
تمہارے بارے میں ہر چیز
اس سچائی کی گواہ ہے جو میں نے کہا۔
نکلو۔
ڈھونڈو کسی شیر کا بھنبھوڑا ہوا پنجر
اور سو جاؤ گلی سڑی ہڈیوں کے بیچ—
لے جاؤ ساتھ اپنی زندہ لاشیں
اس مقدس شہر سے۔
نکلو۔ نکلو۔ نکلو۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
اب میں بولتی ہوں۔
اپالو، الزام تم پر ہے
ہر اس چیز کا جو اورستس نے کیا۔
اورستس نے تیری مان لی —
لیکن تو نے کسی کی نہ مانی۔
یہ تیرا ہاتف تھا
جس نے اسے حکم دیا اپنی ماں کی جان لینے کا
اور اسے ایک جرم کے لیے رعایت دی
جو دھرتی کے لیے کرب کا باعث تھا۔

اپالو
میرے ہاتف نے
اسے حکم دیا کہ اپنے باپ کا بدلہ لے۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
اس کے خون میں رنگا
وہ بھاگا آیا تیرے پاس پناہ لینے کے لیے ۔

اپالو
میں نے اسے بتایا
کہ پناہ لے مندر میں بھاگ کر ۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
ہم ہیں اس کی مقدس ساتھی۔
کیوں تو ہمیں دیتا ہے گالی ؟

اپالو
کرتی ہو تم اس مندر کی بے حرمتی ۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
ہمارا یہاں ہونا، اورستس کے ساتھ،
ہماری ذمے داری ہے ۔
آپ اپنی ذمے داری ہیں ہم ۔

اپالو
ایک شاندار ذمے داری!
ایک اعلیٰ ذمے داری!

گائک منڈلی کی سرغنہ
دھرتی کی طرف سے ہمیں سونپی گئی ایک ذمے داری—
ماں کے قاتل پر چڑھائی، اس کا شکار
ان زمینوں سے دور تلک
کہ ہو جائے وہ بدحواس۔

اپالو
ایک بیوی اپنے شوہر کا قتل کر ے تو کون اس کا پیچھا کرتا ہے؟

گائک منڈلی کی سرغنہ
بیوی اور شوہر میں خون کا رشتہ نہیں ہوتا۔
اس کے کیے کو کوئی بھی نام دو
وہ بے حرمتی نہیں۔

اپالو
تو شادی کے مقدس بندھن کو توڑنا
جس پر زیوس اور ہیرا کی مہر ہو،
توڑ ڈالنا اسے
طیش سے بھرپور جذبات میں،
ایک قاتل ہتھیار سے،
بے حرمتی نہیں؟
دولہے کی لاش کو رگید کر ڈال دینا
دھرتی اور آکاش کی رانی کی گود میں،
عظیم افرودیتی،
جو انسانوں کو ان کی عظیم خوشیاں عطا کرتی ہے—
کیا یہ بے حرمتی نہیں؟

مقدس ترین بندھن،
درد کے کسی بھی اندھے لاوے سے زیادہ مقدس
جو زمین سے ابل پڑتا ہے،
انسانوں کے درمیان سب سے مقدس بندھن
شادی کا ہے
جو دو مکمل اجنبیوں کو محبت کے رشتے میں باندھتا ہے،
کہ وہ ایک دوجے کی حفاظت کریں
اور اپنے پیار کو ایک تیسرے میں ڈھال دیں، جو دونوں ہی سے پیار کرتا ہو۔

لیکن تم کسی بندھن کو نہیں پہچانتی
باپ سے،
نہ تو اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان
نہ ہی اس کے اور اس کے بچوں کے درمیان جو اس کا خون ہیں۔
دھرتی بدمست ہاتھی ہو جاتی ہے
جب بیٹا ماں کا خون کرتا ہے۔
لیکن وہی دھرتی بہری ہوتی ہے
جب ماں باپ کی جان لیتی ہے،
اور اس وقت بھی بہری جب بیٹا باپ کا بدلہ لیتا ہے۔
یہ شاید دھرتی کا قانون ہو
لیکن انسانی عدل نہیں۔
صرف ایتھینا، دانش مندی کی عظیم دیوی ہی
اس کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ وہ ہماری صدا ضرور سنے گی۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
میں کبھی اورستس کو نہیں چھوڑوں گی۔

اپالو
نکلو اس کے پیچھے۔ کرو برے سے برا۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
اپالو، تمہارے شبد تک ہماری اجازت کو محدود نہیں کر سکتے۔

اپالو
میں تمہاری اجازت کا تحفہ نہیں لوں گا۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
تم اہم ہو گے شاید آکاش پر،
دیوتاؤں کے دائرے میں سب سے عظیم،
لیکن میں ہمارے اورستس کو سونگھوں گی
اس کے ماں کے خون کی بو سے۔
میں اسے سرے پر لے آؤں گی
اور عدل کا تقاضا کروں گی۔

اپالو
اورستس نے مجھ سے مدد مانگی۔
میں نرگ ، سورگ اور آکاش میں اس کی مدد کروں گا۔
تم دھرتی کے غصے کی بات کرتی ہو۔
لیکن یہ میری ذمے داری ہے—
کہ اورستس کےساتھ کھڑا ہوں۔
اور اگر میں اسے اکیلا چھوڑوں
تو نرگ، سورگ اور دھرتی ہل کر رہ جائیں
ایک افراتفری میں
میرے خلاف طیش کی۔

(اپالو نکل جاتا ہے۔ منظر بدلتا ہے اور اب ہم ایتھنز کے آکروپولس میں ہیں۔ اورستس ہرمس کی معیت میں داخل ہوتا ہے ایتھینا کےمزار پر اس کے قدیم بت کے سامنے تھکا ہارا جھک جاتا ہے۔)

اورستس
زندہ وجاوید ایتھینا!
میری سن لے!
اپالو نے مجھے تیرے مندر کی طرف بھیجا
یہاں ایتھنز میں۔
مجھے کچھ وقت دے ایتھینا۔
میری کہانی آخر تک سن۔
اپنے فیصلے سے میری مدد کر۔
میں مفرور ہوں
لیکن اب ناپاک نہیں رہا۔
کئی قصبوں، کئی شہروں کی گرد
میری انگلیوں سے خون کو مانجھ چکی ہے۔
ان کے پتھروں نے میری شرمندگی کو کند کر دیا ہے۔
ہزاروں خیرمقدمی راہیں
میرے قدموں سے میرے جرم کی غلاظت دھو چکی ہیں۔
میں نے فیوری دیویوں کو تھکا دیا ہے
زمینی راہوں کے جال میں،
پگڈنڈیوں اور راستوں کی بھول بھلیوں میں۔
اب آخرکار میں تیرے مندر پہنچ چکا ۔
اپالو کا وفادار
یہاں کھڑا ہوں تیری پُتلی کے سامنے
اپنا مقدمہ، اپنی امید، اپنی زندگی
تیرے فیصلے کے آگے نثار،
اور یہیں رہوں گا میں
جب تک تو میرا فیصلہ نہیں کر دیتی۔

(فیوری دیویوں کی گائک منڈلی تعاقب کرتی داخل ہوتی ہے لیکن اورستس کو نہیں دیکھ پاتی جو ایتھینا کے بت کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ گائک منڈلی کی سرغنہ قدموں کی نشان دیکھتی ہے)

گائک منڈلی کی سرغنہ
اس کی لکیر خوب چمکتی ہے—
کسی آگ کی پگڈنڈی کی طرح۔
نادیدہ اور خاموش—کُھرا
کسی ناپاک آدمی کا۔
اس کی ماں کی کوکھ کی باس اس کی ایڑیوں سے چپکی ہے
اور تلووں سے پسینہ۔
سپاٹ جیسے کسی زخمی بارہ سنگھے کا خون ٹپکتا راستہ
شکاری کتوں کی ناک میں۔

باربار اس نے ہمیں دھوکا دیا اور بھاگ نکلا۔
باربار ، ہر کونے میں،
دیس دیس کے،
ہم نے اسے سونگھا۔
وہ ہم سے زیادہ دیر مفرور نہیں رہ سکےگا۔
ہم سمندروں کی سطح پر اڑیں، بغیر پروں کے،
اور اونچی چوٹیوں کے بیچ سے گزریں،
اس کے پیچھے بھاگتے ہوئی،
باربار ہم نے اسے پایا،
تھک ہار کرسوتے ہوئے۔
ہم اس کے اردگرد ڈھیر ہو گئیں ،
تھک ہار کر،
اور یہ ایک بارپھر نکل بھاگا،
اور ہمیشہ ہی ہم سے فرار ہوتا رہا۔

اب یہ یہاں ہے۔ کہاں ہے یہ؟
اس نے خود کو کسی کونے کھدرے میں سکیڑ لیا
کسی چمگادڑ کی طرح۔
وہ یہیں ہے،
یہیں کہیں۔
اس کے خوف کی بُو ہوا میں رچی بسی ہے

دیکھو!
وہاں !
وہ رہا،
ماں کا قاتل۔
دروازے کے آگے روک لگاؤ،
پھندا پھینکو ،
اسے بھاگ نکلنے نہ دو۔
ایک بار پھر اس نے پناہ لے لی
ہمارے کوڑوں کے ذائقے سے—اب کی بار
ایک دیوی کے بت سے چپک کر
اور انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے
ان کوڑوں سے مہربان تر
جو اس کے دل کو چیرتے اور اس کی روح پر برستے ہیں،
کوئی امید نہیں اورستس کے لیے۔
اس کی ماں کا خون،
دھرتی کی آواز کے ساتھ،
اسے دھرتی کا مجرم ٹھہراتا ہے—
وہ کبھی اسے مجبور نہیں کر سکتا
کہ اس کے بدن میں واپس چلا جائے۔
اب تو قیمت چکائے گا، اورستس،
اپنے ماں کے خون کی
اپنے خون سے ، جو اسی کا تھا۔
تیری مجرم روح
ہمارے حوالے کرے گی
بدن کے چیتھڑے
جو اس نے تجھے دیے۔
جب تک تو زندہ رہے گا
تیرا بدن ادا کرتا رہے گا
ہمیں یہ قرض۔
تقدیر نے سونپ دیا
ہمیں تیرا بدن—
کہ شکار کیا جائے اور کھایا جائے
جب تک تو ختم نہ ہو جائے۔

کوئی ذی روح
نہیں فرار ہو سکتا
متعین حساب سے
کیوں کہ آسمانوں کے خلاف گناہ،
ماں باپ کے خلاف گناہ،
مہمان کے خلاف گناہ،
گوشت کی قیمت—
بدن کا کرب ہے۔
گوشت کھاجا ہے
دھرتی کے انصاف کا۔

موت انتظار میں بیٹھ جاتی ہے
انسان کے روزوشب پر۔
کوئی فرار نہیں ہو سکتا
دفتر سے
اپنے ہر شبد، ہر خیال کے،
جو موت تک بھرا جاتا ہے۔

اورستس
درد نے مجھے بہت کچھ سکھایا اور سکھائی مجھے
رسومات کی دانش۔
میں جانتا ہوں کب مجھے لب ہلانے کی اجازت ہے
اور کب خاموش رہنا ہے۔
اب مجھے بولنے کا حکم دیا گیا ہے
ایک دانا کے اشارے سے۔
میرے ہاتھوں سے خون دھو دیا گیا ہے۔
پاک کر لیا ہے میں نے خود کو
قتلِ مادر کی پشیمانی سے
اپالو کے مندر پر خون کی قربانیاں دے کر۔
بہت سوں نے میری میزبانی کی ہے
میری موجودگی سے ناپاک ہوئے بغیر۔
اب میں ایتھنز کے شہر سے ملتا ہوں،
مقدس شبدوں کے ساتھ
عظیم دیوی ایتھینا کو پکارتا ہوں
جس کی دانائی ایتھنز پر حکمرانی کرتی ہے۔
پکارتا ہوں میں اسے مدد کے لیے۔
میں،
میرا وطن آرگوس،
اور آرگوس کے سب باسی
اس کے ہوں گے،
اس کے حوالے
ایک مقدس بندھن میں۔
اگر وہ میری مدد کرے۔
جہاں بھی وہ جائے گی،
جہاں بھی اپنے ہونے کا دعوٰی کرے گی
ایک لافانی جرأت اور خوش قسمتی سے
اپنے پجاریوں کی ،
اور بے قابو روح اپنے لشکروں کی،
میں اسے پکارتا ہوں
کہ میرا فیصلہ کرے اور مجھے بچائے۔

گائک منڈلی کی سرغنہ
اپالو تجھے نہیں بچا سکتا۔
ایتھینا تجھے نہیں بچا سکتی۔
دیس سے نکالا ہوا، ہر خوشی سے دھتکارا ہوا،
تو اب صرف زندہ رہ سکتا ہے
ایک ہیولے کی طرح،
جس پر عفریتوں کا قبضہ ہو۔
بربادیوں کا ایک نظارہ
ایک گیلی شریان
کرب کی آگ میں۔
چیخوں کا ایک منہ۔
تو چپ ہے
لیکن تو ہمارا ہے۔
کوئی ضرورت نہیں
کہ تو یہاں کھڑا ہو استھان پر—
جیسے بچھڑے انتظار کرتے ہیں
پجاری کی چھری کا
ہماری دعائیں
لے جاتی ہیں تجھے مچھلی کی طرح جال میں
تیری تقدیر کی طرف۔
فیوریوں کا ارادہ
پختہ ہے،
سورج کی طرح ۔
جیسے سورج کی گرمی، سورج کی تاریکی،
سب محسوس کرتے ہیں، ہر موڑ پر
اپنی تقدیر کے۔

انصاف کچھ نہیں—
سوائے ہمارے کے۔
پاک شخص
آزاد ہے۔
ہمیں اس سے کیا لینا۔
صرف گناہ گار
اپنے خونی ہاتھ چھپاتا ہوا،
سر ڈھانپتا ہوا اپنے خونی ہاتھوں سے،
سزا سناتے ہیں ہم اسے ۔
گھسیٹتے ہیں
اس کے جسم سے باہر
قیمت اس خون کی جو اس نے بہایا۔

رات ہماری ماں ہے۔
ہم اس کی کوکھ میں رہتی ہیں۔
اس کی کوکھ سے باہر ٹپک پڑتی ہیں
ان زندوں کو سزا دینے کے لیے
جو دن کی روشنی میں چلتے پھرتے ہیں۔
اپالو
سوچتا ہے کہ وہ ہمارا شکار چرا سکتا ہے،
وہ نشانہ جو ہمارا ہو چکا ہو۔
لیکن اسے
جس نے جان لی
اپنی ماں کی
ہمیں جواب دینا ہی ہو گا۔

تقدیر نے،
جو ہر اس چیز کو شکل دیتی ہے
جو زمین پر رونما ہو،
ہمیں لگایا
اس کام پر—
کہ نمودار ہوں زخم سے
قتل ہوئی ماں کے
اور جما لیں اپنے پنجے
آنکھوں میں
اس احمق کے
جس نے اندھا وار کیا۔
ہم دوڑائے لےجاتی ہیں اسے
موت کی وادی میں—
اور وہاں ہم سواری کرتی ہیں
ہمیشہ کے لیے اس کی روح پر۔

لافانی دیوتاؤں کا
ہم سے کچھ لینا دینا نہیں۔
وہ ہمارے دسترخوانوں پر
نہیں بیٹھتے۔
سفید قباؤں اور زرق برق چمک میں
مندر کی رسموں کی
ہم نہیں ملیں گی۔
تاریکی سے بنے،
تاریکی اوڑھے،
ہم پرواز کرتی ہیں فضائی راستوں پر
اذیت کے،
ہم آنگن میں لے آتی ہیں جنگ کو ،
جہاں سکون نہیں پاتا دستِ قاتل ،
قائم رہتا ہے جہاں وہ اپنی دیوانگی پر
کسی خاندان کے اندر،
خون اپنوں ہی کا خون بہاتا ہے،
پہنچتی ہیں ہم وہاں،
دھرتی کا فیصلہ لے کر۔

ہماری محنتیں
دیوتاؤں کو اس کام سے آزاد کر دیتی ہیں جو کٹھور ہے۔
زیوس ہم سے نفرت کرتا ہے
گو ہم اس کا کام کرتی ہیں۔
زیوس ہی کے لیے ہم غراتی ہیں!
قاتل کی لکیر کے پیچھے—
یا اس آدمی پر پل پڑتی ہیں، اچانک،
جیسے کوئی درودیوار دھڑام سے زمین بوس ہو جائیں۔
پشیمانی کے جسموں سے
عدل کو چٹخاتی ہیں ہم ۔
پشیمانی ہیں خود ہم —
خون کا خون
جس نے گناہ کیا۔

ایک آدمی اپنی چمک دمک میں
سورج کی طرح ہے۔
لیکن جب کسی ایسے کا خون جس کی اس نے جان لی ہو
اس کے ضمیر پر ٹپکتا ہے
تو وہ ہماری جھالروں کے سیاہ بادلوں میں ڈوب جاتا ہے۔
پھر سر میں دوڑنے والا زندہ خون
بدلے کا ڈھول بن جاتا ہے۔
اس کا اپنا ہاتھ،
خون سے سیاہ،
اس کی آنکھوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔
اس کا دماغ تاریکی میں گھومتا ہے۔
مرےہوؤں کی آوازیں
اس کی آواز کو ڈوبا دیتی ہے جب وہ کراہتا ہے۔

قانون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے
اور ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
اس کے نافذ کرنے والی ہیں۔
ہم سے نفرت کی جاتی ہے۔
لیکن قانون اپنا راستہ نہیں موڑتا یا پھیرتا۔
دوسرے دیوتا روشن ہوا میں رہتے ہیں
تاریکی سے بچ بچ کے
اور اس دشوار راستے سے جس پر ہم زندوں اور مردوں کو ہانک لے جاتی ہیں۔
اعلان کر دیا ہے ہم نے کہ ہم کون ہیں
اور کیا ہیں ہماری ذمہ داریاں ،
تقدیر کی بندگی۔
ہم سے ڈرنا اور ہماری عزت لازم ہے
اور گو ہم سوتی ہیں
دھرتی کی اندھی ترین غاروں میں
پلک جھپکنے میں ہم تمہارے پاس ہیں۔

(ایتھینا داخل ہوتی ہے، ایجس اور نیزے سے لیس۔)

ایتھینا
کس نے مجھے پکارا
ایسی طاقتور آواز سے؟
یہ آواز آئی مجھے سکامندار ندی کے کنارے سے
جہاں سرداروں نے
مجھے زمین دی کہ میں مدد کروں ٹرائے کو تاراج کرنے میں۔
میں ایک لمحے میں ادھر پہنچ گئی،
تیز ہواؤں کو کاٹتی ہوئی۔
اور اب میں حیران پریشان ہوں
یہ سب دیکھ کر۔ کون ہو تم؟
تم جو میری پُتلی سے چپکے ہو
کسی ایسے بچے کی طرح جو ماں سے چمٹا ہو۔

اور تم—مخلوق جس کا نقشہ نہیں باندھا جا سکتا،
زمین کی کسی چیز سے ملتا جلتا
یا دیوتاؤں کے بیچ۔
لیکن مجھے عدل کرنے دو۔
یاد کرنے دو مجھے عقل کی صاف زبان ۔

گائک منڈلی
زیوس کی بیٹی،
سن ہماری بات۔
ہم ہیں قدیم تاریکی کی بیٹیاں۔
دھرتی میں ہماری جگہ بہت گہری ہے۔
انسان ہمیں خود پر لگا سراپ کہتے ہیں۔

ایتھینا
میں جانتی ہوں تمہیں اور جانتی ہوں کہ انسان تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

گائک منڈلی
شاید تم جانتی ہو۔
اب تم ہماری ذمے داریوں کا سنو گی۔

ایتھینا
کھل کے صاف صاف کہو۔

گائک منڈلی
ہم ہر قاتل کا پیچھا کرتی ہیں۔

ایتھینا
کیا تمہارا شکار تم سے فرار ہو سکتا ہے؟

گائک منڈلی
صرف وہاں جہاں خوشی اجنبی ہو۔

ایتھینا
تم اس آدمی کو اس حد سے آگے بھگا رہے ہو۔

گائک منڈلی
اورستس نے جان بوجھ کر اپنی ماں کی جان لی۔

ایتھینا
کیا کسی بڑی قوت نے تو اسے یہ کرنے کا نہیں کہا؟

گائک منڈلی
کون سی قوت انسان کو اتنا پاگل کر سکتی ہے کہ وہ اپنی ماں کا قتل کر دے؟

ایتھینا
کیا یہ ہے تمہارا مقدمہ؟
کون تمہارے خلاف بولتا ہے؟

گائک منڈلی
اسے آزما لو۔ حقائق سن لو۔ پھر فیصلہ کرو۔

ایتھینا
لیکن کیا تم میرا فیصلہ مانو گی؟

گائک منڈلی
ہم تمہارے باپ کے نام اور اس کی عظیم دانائی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

ایتھینا
بولو، اورستس۔
تم میرے انصاف پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ ہے جو تمہیں اتنی دور لے آیا
کہ یہاں گھٹنے ٹیکو،
کسی نصب ہوئے بت کی طرح
میرے بت کے پیروں میں۔
پہلے مجھے بتاؤ،
اپنی دیس کی بابت۔
اپنا نام نسب،
اپنی تاریخ۔
پھر اس الزام کا جواب دو۔
اور صاف صاف کھل کر کہنا۔

اورستس
ایتھینا،
دانش ِخداوندی کی دیوی،
میرے ہاتھ خون سے میلے نہیں ہیں۔
میں یہاں دبک کر بیٹھا نہیں ہوا
کسی جرم سے میلا ہو کر۔
قانون ایک قاتل کو بولنے سے منع کرتا ہے
جب تک ایک پجاری اس پر چھڑک نہ دے
کسی دودھ پیتے جانور کا خون۔
باربار،
دوسرے مندروں میں،
میں اس چھڑکاؤ تلے بیٹھا ہوں۔
تو یہ واضح ہو جائے کہ میں پاک ہوں۔

میں آرگوس میں پیدا ہوا۔
تم میرے باپ کو جانتی ہو—تم اس سے مل گئی تھی
ٹرائے کو تباہ کرنے کے لیے: آگامامنون۔
عظیم بیڑے کا سالار۔
جب وہ گھر آیا
اور لمبی جنگ کی تھکن دھو دھو کر اتار پھینکی
تو میری ماں نے اپنی بانہیں کھولیں
اور اسے ایک جال میں لپیٹ لیا—
پھر اسے مار ڈالا جب وہ تڑپا، بے بسی کے عالم میں، پانی کے اندر۔

میں سالوں کی وطن بدری کے بعد واپس لوٹا۔
جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ مجھے اپنے باپ سے محبت تھی۔
اور اپالو نے مجھے بتایا
کہ میں کس کرب سے گزروں گا اگر ناکام ہوا
اس کے قتل کا بدلہ لینے میں۔
تو میں نے اپنی ماں کو مار ڈالا۔
کیا میں غلط تھا یا صحیح؟
ایتھینا ، تم ہی میرا فیصلہ کرو۔
میں تمہارا فیصلہ مانوں گا۔
گو کہ تم میری موت کا کہہ چکی ہو۔

ایتھینا
یہ مقدمہ کسی انسان کے لیے بہت گہرا ہے۔
نہ ہی مجھے قانون کو بننے دینا چاہیے، ایک ہتھوڑا،
جو بس ایسے ہی دھڑام سے کسی قاتل کے سر پر آن گرے۔
خاص طور پر جب تو میرے مندر میں آیا
ایک سوالی کے طور پر
اپنے جرم سے پورا پورا پاک ہو کر۔
لیکن تجھ پر الزام لگانے والوں کی بات سننی ہو گی۔
اور اگر ان کا مقدمہ ناکام ہوا—تو ان کے غصے کا کیا؟
یہ ہوا میں بنا بگولا ہے، آسمان کو سیاہ کر رہا ہے،
یہ ایتھنز پر کسی طاعون کی طرح گرتا ہے۔
ایتھنز پر ایک سراپ ہے۔
میں کیسے اس دُبدھا کو حل کروں؟
مجھے داناؤں کی ایک پنچایت اکٹھی کرنے دو
شہر کے بڑے بوڑھوں کے بیچ سے۔
وہ ایک ایسی مستقل پنچایت بنے
جو قتل کا فیصلہ کیا کرے۔
ان سے حلف لیا جائے
سچائی اور انصاف کا۔
ان کے ساتھ میری بصیرت بھی شامل ہو گی۔

(وہ نکل جاتی ہے۔)

گائک منڈلی
یہ ایک برا دن ہے۔
اس دن
حق و باطل نے
شکلیں بدل لی ہیں۔
اگر یہ نئی پنچایت، کسی چکر سے
اس قاتل کو بری کر دے،
اس کی مثال ایک نمونہ بن جائے گی—
قاتلوں کے لیے جواز کا۔
ہاتھ دھوتے بچے
اپنے ماں باپ کے خون میں
اورستس کا شکریہ ادا کریں گے
کہ اس نے قانون کا دروازہ کھول دیا
جس سے وہ کسی الزام کے بغیر اندر داخل ہو سکیں۔

فیوریاں سوتی رہیں گے۔
پاپی سکون سے پڑا جمائیاں لیتا رہے گا۔
قاتل آزاد ہو جائے گا
اپنے ضمیر کی خلش سے—
جب کہ شہری اپنے گھروں میں دبکے رہیں گے
گلیوں میں نکلنے سے خوف زدہ،
یا کھڑکیوں سے باہر جھانکنے میں
ایک تاریک مستقبل کی طرف۔
جب مجرم حاوی ہو جائے گا ،
حتمی قوت کےساتھ،
تو بہت دیر ہو جائے گی
ہمیں پکارنے میں۔
ماں باپ کی مرتی ہوئی چیخیں
بہرے کانوں میں پڑیں گی۔
جب تک پنچایت صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہے
اور کوڑھ مغز گھامڑ
بچنے کی ترکیبیں بکتے ہیں
یہ نیا بدمعاش،
یہاں اپنے جواز کے ساتھ،
انہی ماں باپ کو الزام دے گا جنہوں نے اسے قتل کیا۔
اور یہ اس مقدمے کو جیت کر انہیں مجرم ثابت کر دے گا۔

آدمی اچھائی نہیں کر سکتا
بدی کے ممکنہ نتائج کے خوف کے بغیر۔
اگر آدمی کا کیا
فیوریوں کی نگرانی میں نہ ہو
تو وہ ہاتھ کہیں نہیں رکےگا۔
آدمی قانون کے ڈر کے بغیر
آسانی سے قتل کرے گا،
جیسے یہ اس کی فطرت ہو۔
اور شہر قانون کے خوف کے بغیر
اس قاتل کے لیے کھیل کا میدان ہو گا۔

بدی ہے بے قانون آزادی ۔
بدی ہے ظلم وجبر کا قانون ۔
ترازو کا ایک پلڑا ہے آزادی ،
حکمرانی کا آہنی ہاتھ دوسرا—
جہاں یہ توازن سے ہوں تو
میزان خدا کے ہاتھ میں ہے۔
ایک بدی میں ڈوبا دل
برا ہاتھ رکھتا ہے۔
ایک نیک دل کا ہاتھ
نیکی کرتا اورخیر بانٹتا ہے۔
تمام طاقتوں سے بڑھ کر—
انصاف کی پوجا کرو۔
کبھی انصا ف کی دیوی کی توہین نہ کرو
موڑ تروڑ کر اپنی من مانی کے لیے۔
ہر چیز کرنی او رکارن ہے۔
جرم جنم دیتا ہے بربادی کو ۔
آدمی کو اپنے باپ او رماں سے جڑنے دو۔
اسے مہمان کی عزت اور حفاظت کرنے دو۔
جو بھی خیر چاہتا ہے
خوش حال رہے گا اور عزت پائے گا۔
فطرت میں گندھے خیر کو
کسی کا خوف نہیں۔
لیکن وہ آدمی جو اپنا راستہ بناتا ہے
قوانین کے آگے
انصاف کے آگے تن کر—
تباہ و برباد ہو گا۔

وہ سمندر میں پھینکا جائے گا،
طوفان میں کھو جائے گی اس کی آواز۔
سر کھویا ہوا بدمعاشی میں—
خداوند مسکرائے گا
بڑے بڑے شبد اور یہ ساری بک بک
بلبلوں میں اڑتی دیکھ کر
جب تباہی کا بحرِ عظیم
اسے نگل لے گا۔
صرف اس کا نام،
جس پر کوئی رونے والا نہ ہو گا،
کچھ دیر باقی بچے گا
ایک سوال،
ایک خبرداری کے طور پر۔

(ایتھینا بارہ شہریوں کے ساتھ اندر داخل ہوتی ہے۔)

ایتھینا
نقیب—شہر والوں کو جمع کرو:
اپنے نقارے کی ایک گونج کو آسمان کے دروازے کھولنے دو
اور سارے ایتھنز کو ہڑبڑا کر اپنے پیروں پر کھڑا کر دو۔
سب پنچو اور شہریو،
ایتھنز کے باسیو،
خاموشی سے جمع ہو جاؤ۔
تسلیم کرو اسے جو میں نے بنایا
انسانوں کی مدد کے لیے،
کہ عدل نافذ ہو ،
اب اور آنے والے وقتوں کے لیے۔

(اپالو داخل ہوتا ہے۔)

گائک منڈلی
اپالو، اپنے معاملات کو دیکھو۔
اس مقدمے میں تمہیں بات کرنے کا حق نہیں۔
آج تمہاری یہاں موجودگی مداخلت ہے۔

اپالو
میں بات کر سکوں تو اس کا فیصلہ ہو جائے گا،
قانون کے مطابق،
یہ آدمی،
اورستس،
میری مقدس حفاظت میں ہے۔
چونکہ میں نے خنجر کی اس دھار کو حکم دیا
کہ اس کی ماں کو روانہ کرے،
اور چونکہ میں نے
اسے اس جرم سے پاک کیا
اور سارے الزام سے،
میرا ذمہ ہے کہ میں یہ مقدمہ لڑوں۔
ایتھینا ، شروع کرو ۔
اور اپنی دانائی کے مطابق نگرانی کرو۔

ایتھینا (فیوریوں سے)
تم،
فریادی ،
پہلے تم بولو۔
الزام پہلے پورا سنا جائے گا،
اور ساری تفصیل کے ساتھ

گائک منڈلی (اورستس سے)
تمہیں ہر سوال کا صاف صاف جواب دینا ہو گا۔
اور ہمارا پہلا سوال یہ ہے:
کیا تم نے اپنی ماں کو مارا یا نہیں؟

اورستس
میں انکار نہیں کر سکتا۔
میں نے ہی اس کی جان لی۔

گائک منڈلی
تو یہ تھا پہلا دور جو ہم جیت گئیں

اورستس
اتنی جلدی خود پر ناز نہ کرو،
ابھی اور بھی ہے۔

گائک منڈلی
تب بھی: ہمیں بتاؤ تم نے کیسے اسے قتل کیا۔

اورستس
میں نے اس کے دل میں خنجر گھونپا۔

گائک منڈلی
اور کس نے تمہیں اس کام پر مائل کیا؟

اورستس
اپالو۔ وہ میرا گواہ ہے۔
اس کے ہاتف نے مجھے یہ کرنے کا حکم دیا۔

گائک منڈلی
جوتش اور شاعری کے عظیم خدا نے
تمہیں ماں کے قتل پر اکسایا۔ ہوں؟

اورستس
ہاں، اسی نے اور اس دن سے میں اس کی حفاظت میں ہوں۔

گائک منڈلی
تم اور طرح سوچو گے جب یہ عدالت تمہیں سزا دے چکے گی۔

اورستس
وہ مجھ پر سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔ اور میرے مرے ہوئے باپ نے میری مدد کی۔

گائک منڈلی
تم نے مرے ہوؤں کے لیے کام کیا؟ اور اپنی ماں کو مارا۔

اورستس
اس کی پشیمانی دوگنا ہو گئی، جس نے اس کی سزا بھی دو گنا کر دی۔

گائک منڈلی
کیا مطلب ہے تمہارا؟ عدالت کو وضاحت دو۔

اورستس
اس نے اپنے شوہر کو مارا۔ اور اس نے میرے باپ کو مارا ۔

گائک منڈلی
اس کی موت نے ساری قیمت چکائی۔ لیکن تم زندہ ہو۔

اورستس
جب تک وہ زندہ تھی، اپنے شوہر کو مارنے کے بعد
اور میرے باپ کو— تم اور تمہارا انصاف کہاں تھا؟

گائک منڈلی
ہم صرف ان قاتلوں کے لیے ہلتے ہیں جو اپنوں کی جان لیں۔

اورستس
کیا میرا خون میری ماں کا ہے؟

گائک منڈلی
سفاک قاتل!
تم اس کی کوکھ میں بنے،
اس کے خون سے۔
تم کیسے اس خون کا انکار کر سکتے ہو جو تمہاری ماں نے
تمہاری شریانوں کو دیا؟

اورستس
اپالو،
انہیں بتاؤ۔
ثابت کرو کہ میری کرنی،
میرا اس کی جان لینا۔
انصاف تھا۔
ہاں میں نے سے خنجر مارا۔
لیکن کون سے شبد
میرا جواز بن سکتے ہیں؟
واضح کرو،
اپالو، مجھے سکھا کہ
کیسے دفاع کروں اس کا
جو میں نے کیا۔

اپالو
ایتھینا کی عظیم عدالت—
مجھے بولنے دے جوتش کے خدا کے ناتے۔
میرے سارے شبد عدل پر مبنی اور سچے ہیں۔
میرے ہاتف نے
کسی آدمی یا عورت کو کبھی نہیں کہا
یا کسی شہر کو،
ایک بھی شبد
جس پر پہلے خداوند نے مہر نہ لگائی ہو۔
یہی اس کے لیے بھی تھا جو میں نے اورستس کو کہا۔
یہ بھی یاد رکھو،
نہ تو کوئی قسم یا دھرتی کےماتھے پر کوئی شکن
زیوس کی ہاں کے خلاف نہیں جا سکتی۔

گائک منڈلی
کیا تم یہ کہتے ہو کہ زیوس نے
وہ شبد کہے جو تمہارے منہ سے نکلے
اپنے ہاتف کے ذریعے؟
کیا یہ کہتے ہو کہ
کلیتم نسترا نے افی جینیا کو یاد کرتے ہوئے
کچھ نہیں کیا جب اس نے آگامامنون کی جان لی؟
کہ عدل اس کی آواز نہیں سن سکا
جب تک اورستس نے آگامامنون کا بدلہ نہیں لےلیا۔

اپالو
زیوس کے شبد قانون ہیں۔
دو موتیں—
آگامامنون اور کلیتم نسترا کی—
ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
وہ راجا تھا ، خداوند کا بنایا گیا۔
ایک عورت کے ہاتھوں مارا جانا
شاید عزت کا باعث ہوتا،
لیکن صرف لڑائی میں۔
ورنہ وہ مارا گیا ہوتا۔
ایتھینا، تو جو اس معاملے میں فیصلہ کر رہی ہے،
سن اب کہ یہ کیسے ہوا۔
آگامامنون جیت کے واپس لوٹا،
لمبی جنگ سے۔
اس نے دھویا اپنا جنگ سے میلا ہوا جسم
پاکی کے غسل میں۔
کلیتم نسترا وہاں حاضر تھی ، اس صفائی ستھرائی میں ۔
لیکن پھر ، وہ جیسے ہی اس حمام سے نکلا،
ایک پاؤں پانی سے باہر، تو اسی لمحے
اس نے اس کے بدن کے گرد ایک جال پھینکا،
زخمی کر کے پھانس دیا اسے تہوں کے بیچ
اور دھکیلا اسے پیچھے کو۔ لڑکھڑا کر گر پڑا وہ حمام میں۔
اور وہاں، جب وہ ہانپ رہا تھا، پانی میں پڑا
اس نے خنجر آرپار کر دیا۔ تین بار۔
شہریو، اور تم جو پنچایت میں بیٹھے ہو،
تم بارہ جو یہاں اورستس کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہو،
یوں اس کے باپ نے جان دی،
جس کی چشمِ شاہی نے اس وسیع بیڑے کو بھیجا
اور اتنی بڑی فوج کو سمندر پار پہنچایا۔
تو اب تم نے جانا کہ کیسی عورت نے اس کو مارا۔

گائک منڈلی
تمہارا کہنا کہ زیوس صرف باپ کی قدر کرتا ہے۔
پھر بھی زیوس اپنے باپ سے کیسے پیش آتا ہے؟
جب کرونوس بوڑھا ہوا
تو زیوس نے اسے ریشم کے نہیں بلکہ
بیڑیوں کے جال میں کس دیا—
جکڑ دیا اسے اور آختہ کر دیا۔
باپ اتنے قیمتی کب سے ہوئے؟
پنچو، کیا تم سنتے ہو؟

اپالو
غلیظ جادوگرنیو—خلقت کی گندگیو۔
بیڑیاں کھولی جا سکتی ہیں
لیکن خون کو واپس نہیں بلایا جا سکتا
مٹی سے۔
ایک بارزندگی کی شمع بجھی تو واپس نہیں جلایا جا سکتا۔
موت وہ واحد روگ ہے
جس کا زیوس نے کوئی علاج نہیں بنایا۔

گائک منڈلی
اِس کا اُس سے کیا جوڑ؟
صرف یہ سوچو—
کیسے ایک ماں کا قاتل
رہے گا اپنے باپ کے گھر میں، آرگوس کے اندر؟
کیا وہ مذہبی رسموں میں حصہ لے گا؟
کیا وہ چمکیلے پانی سے ضیافتوں میں ہاتھ دھوئے گا؟

اپالو
صبر سے سنو،
کہا جاتا ہے کہ بیٹا ماں کا ہوتا ہے—
لیکن وہ اصل ماں نہیں۔
وہ تو دائی ہے۔
وہ تو گملے کی مٹی کی طرح ہے۔
جس میں تخم پھوٹتا اور پودا پھلتا پھولتا ہے،
بیج وہاں باپ کا لگایا ہوتا ہے۔
اگر بچہ زندہ رہے تو ماں
اسے دودھ پلاتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی رہتی ہے—
جیسے پودا اس وقت تک گملے میں رہتا ہے جب تک پھول نہ نکل آئیں۔
ماں تو وقتی ہے۔
اس کی تو شاید بالکل ہی ضرورت نہ ہو —
جیسا کہ ایتھینا
جو زیوس کے سر سے نکلی
کسی عورت کی مدد گار چھوؤن کے بغیر۔
ایتھینا، میں نے اس آدمی کو تیرے استھان پر سوال کرنے بھیجا۔
میں اور بھی کئی تحفے بھیجوں گا
کہ ایتھنز کی شہرت کو چار چاند لگیں۔
اس سے دوستی کی تو
تُو نے سارے آرگوس سے دوستی کی۔
اس کی نسل کبھی یہ نہیں بھولے گی۔

ایتھینا
پنچوں کی گھڑی آ گئی
کہ پوچھے اپنے ضمیر سے اور فیصلہ کریں۔
کیا سائل اور ملزم کی بات ختم ہو چکی؟

اپالو
میں پنچوں کا فیصلہ مانوں گا۔

ایتھینا
کیا تم پنچوں کو سننے میں خوش ہو
کہ وہ اپنا فیصلہ سنائیں؟

گائک منڈلی
پنچایت سب سن چکی۔
اب جب وہ اپنی پرچیاں ڈال رہے
تو انہیں اپنی قسم یاد کرنے دو۔
اور انہیں یاد کرنے دو دھرتی کے قدیم قانون۔

ایتھینا
ایتھنز کے شہریو!
یہ قتل کا پہلا مقدمہ ہے
جو اس عدالت میں پیش ہوا جو میں لگائی۔
یہ عدالت تمہاری ہے۔
آج سے ہر قتل
اسی پنچایت کے سامنے پیش ہو گا
بارہ ایتھنز والوں کے سامنے
اور یہ ہے وہ جگہ جہاں تم بیٹھو گے،
ایرس کی پہاڑی پر۔
جب ایمزونی ایک فوج کے طور پر آئے
کہ تیسئیس میں ان سے بدلہ لیا جائے
جہاں انہوں نے اپنے خیمے لگائے
اور ایرس کے لیے ایک استھان تعمیر کیا۔
اور اسی لیے اس پتھریلے ٹیلے کا نام پڑا
ایریوپاگس۔
یہاں میرے قوانین نافذ ہوں گے
اٹل دن کی گھڑیوں میں، سالوں کے دنوں میں۔
اورحیرانی، جو دل کو عاجز کر دیتی ہے،
خوف کے ساتھ،
جو حیرانی کا بھائی ہے،
آج کے دن سے
ایتھنز والوں کے فخر کو اپنی حدوں میں رکھے گی۔

جہاں ایک خالص چشمہ گندا ہوتا ہے
ایک غلیظ دھار سے
کوئی آدمی نہیں پیے گا،
یا پی سکے گا زہر کا نشانہ بنے بغیر۔
میں اس چٹان پر کھولتی ہوں
اپنے قوانین کا خالص چشمہ۔
انہیں داغ دار نہ کرو
فائدوں کی کسی مصلحت آمیزی سے۔
حفاظت کرو اس عدالت کی
جو تم سب کی حفاظت کرے گی
کسی بھی آدمی کے ارادے کے سرتوڑ جواز سے
اور غلامی سے۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خوف کی طاقت یاد رکھو
اور عزیز رکھو اسے اپنے قوانین کی راج نگری میں ۔
آدمی جسے نتائج سے ڈرنے کی ضرورت نہ ہو
اپنے کسی بھی کام کے،
لے آتا ہے اپنی بدخوابی کھلے میں،
کھیلنے دیتا ہے ان خوابوں کو سورج تلے،
لیکن آخرکار بننے دیتا ہے وہ ان کو حقیقت
لوگوں کے بیچ، اپنے گھر والوں کے بیچ،
اپنے قبیلے کے بیچ۔
یہ خوف ہے
جو قانون کے سر پر تاج رکھتا ہے تقدیس کے ہیولے کا۔
اس عدالت میں تمہارا ایک قلعہ ہے
جس میں کوئی اور لوگ نہیں—
فرجیا کی سرد شمالی سرحدوں سے لے کر
پیلوپونس کی بیرونی چمکدار چٹانوں تک ۔
میں تمہیں یہ عدالت سونپتی ہوں او ر اسے دعا دیتی ہوں—
قدرت کی طرح ،
جسے خراب نہ کیا جائے۔
قدرت کی طرح ، مقدس،
اور قدرت ہی کی طرح چوکس، غصے میں تیز اور سزا میں بھی،
ایک بے نیند، ہتھیاروں سے لیس، سورما چوکیدار
انسانوں اور ان کے گھروالوں کے امن پر ۔

میں نے کافی بات کر لی
تو ایتھنز میرے شبد یاد رکھے گا۔
اب اپنے دلوں کو اپنی قسموں سے جوڑو
اور فیصلہ کرو۔
ڈالو اپنی اپنی پرچی
قدرت کو اپنا پورا وجود سونپ کر۔
کہہ چکی جو کہنا تھا۔

(وہ پرچیاں ڈالتے ہیں۔)

گائک منڈلی
ہم تمہیں خبردار کرتی ہیں
تمہارے وطن میں مسافر ہیں،
تمہاری مہمان ہیں۔
ڈرو ہمارے غصے سے۔
ڈرو اس سے۔
غصے کے قانون سے ڈرو۔

اپالو
اور تم—مت بھولو
اپنے زیوس کا خوف، جس نے مجھے اکسایا
کہ بات کروں اپنے ہاتف کے ذریعے اورستس سے۔
یاد کرو اپنا خوفِ خداوند۔

گائک منڈلی
قتل کی خونی وارداتوں کا تجھ سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اورستس ہی ناپاک ہے۔
اورستس ہی نے ناپاک کیا تیرے مندر کو۔
تیرا مندر اب ناپاک ہے۔

اپالو
تم بھول رہی ہو کہ
زیوس نے کیسے پاک کیا
قاتلوں میں سے پہلے کو—ایکسیون
کیا زیوس ناپاک تھا؟

گائک منڈلی
تم دیوتا ہو پَر لگے شبدوں کے—
نوکیلے اور کانٹے دار شبدوں کے۔
لیکن اگر ہم یہ مقدمہ ہار گئیں
تو یہ دیس،
اور ایتھنز کا شہر،
تہس نہس ہو جائے گا۔
ہم اسے تباہ کر ڈالیں گی—ایک سراپ سے۔
ایک ایسا سراپ کہ خود زندگی
کرب بن جائے گی، خود زندگی کی شریانیں
اذیت کے آلات ہوں گی۔

اپالو
پرانے دیوتا تم سے نفرت کرتے ہیں
ہم جتنی ہی،
نئے دیوتا تم سے نفرت کرتے ہیں۔
ہم یہ مقدمہ جیتیں گے۔

گائک منڈلی
ایک رشوت کے ساتھ،
یہ شاید ہو سکے،
جیسا کہ ایک بار پہلےہوا،
ادمیتوس کے گھر میں،
تو نے رشوت دی قسمت کی دیوی کو
کہ ایک مردہ عورت کو زندگی واپس لوٹا دے۔

اپالو
ادمیتوس مجھے پوجتا تھا—میرے پاس جواز تھا۔
جرم کوئی نہیں تھا اور ادمیتوس کی ضرورت بہت بڑی۔

گائک منڈلی
تو جوان ہے، ہم بوڑھیاں۔
تیرے خیال میں تو روند کر گزر سکتا ہے۔
جب ہم نے فیصلہ سنا
جس کا لمحہ جلد ہی آنے والا ہے،
کہ ہم ایتھنز سے بدلہ لیں۔

ایتھینا
آخری فیصلہ کن رائے میری ہے۔
تم پنچو،
جب تم سب کی رائے گنی جا چکے گی،
میری رائے اورستس کے حق میں جائے گی۔
کوئی بھی ماں مجھے نہیں جانتی۔
میرے خیال میں ،
اس عورت کی موت جس نے اپنے شوہر کی جان لی
کچھ وزن نہیں رکھتی
اپنے شکار کی موت کے مقابلے میں۔
باپ کے حق، مرد کے حق میں
میری رائے جاتی ہے۔
اگر پنچایت کی آراء برابر ہیں تو
میری رائے اورستس کو بری کرتی ہے۔
لاؤ ڈبے اور پرچیاں گنو۔

اورستس
اے اپالو، فیصلہ کیا ہوگا؟

گائک منڈلی
اے رات ماتا، اے اندھیاری، کیا ہے تیری آواز۔

اورستس
میری ساری زندگی میں ، اس لمحے میں
میری زندگی یا موت کا فیصلہ ہو گا۔
امید یا مایوسی۔

گائک منڈلی
ہمارے لیے—ہماری شہرت زندہ ہو
یا ہماری طاقتیں زائل ہوں
اور ہمارے طیش کو دھرتی پر بکھیر دیا جائے۔

اپالو
رائے دی جا چکی۔
شہریو، دھیان سے گنو۔
تمہاری چھانٹ میں برکت ہے—
جب انصاف خدائی ہو۔
ایک بھی رائے کا نقصان
کسی انسان کی زندگی کو تباہ وبرباد کر سکتا ہے۔
ایک رائے کا اضافہ زندگی کے کھنڈر سے نئی عمارت اٹھا سکتا ہے
اچھی تقدیر والے مستقبل کی طرف۔

(رائے شماری کی جاتی ہے۔ )

ایتھینا
پنچایت برابر میں تقسیم ہے—
ملزم اور مدعی کے بیچ۔
اس لیے میری رائے فیصلہ کرتی ہے۔
اورستس کو بری کیا جاتا ہے۔

اورستس
ایتھینا—
تو نئی بنیاد ہے آگامامنون کے
نئے گھر کی۔
تو نے ایک وطن بدر کو اس کا اپنا گھر دے دیا۔
اب یہ کہا جا سکتا ہے:
اورستس آرگیوی ہے،
اورستس اپنے باپ کے تخت پر جما ہوا ہے
ایتھینا اور اپالو دونوں کی اشیرباد سے،
اور سب کے باپو زیوس کی۔
عظیم زیوس نے میرے مرے ہوئے باپ کو چھڑا لیا
میری ماں کے جرم سے۔
خود خدا وندنے مجھے آزاد کر دیا
ساری پشیمانی سے۔
میں آرگوس واپس لوٹتا ہوں
لیکن اس سے پہلے کہ میں جاؤں، مجھے یہ قسم کھانے دو:
آنے والے سب وقتوں کے لیے، عتیقیہ
آرگوس کا جگری دوست رہےگا۔
کوئی آرگیوی کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے گا
عتیقیہ کے خلاف۔
جو بھی یہ قسم توڑے گا
جس سے میں آرگوس کی سب آنے والی نسلوں کو باندھتا ہوں
میرے سراپ سے تباہ ہو گا۔
میری روح مر کر واپس لوٹے گی
پیش قدمی میں اس کی کمر توڑنے،
جنگ میں اس کا بدن توڑنے کے لیے۔
لیکن وہ سب آرگیوی جو اس قسم کی عزت رکھیں گے
میری دعائیں ان کے لیے۔
اور تمہارے لیے آرگوس کے باسیو،
میں یہ دعا کرتا ہوں:
تمہارے سب دشمن عاجز ہوں۔
تمہارے لیے
’جنگ ‘ اور ’جیت‘ کے شبد
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہوں۔

(اپالو اور اورستس نکل جاتے ہیں۔)

گائک منڈلی
دھرتی الٹ دی گئی ۔
ہمارے قانون بوسیدہ ہو گئے۔
تم جوان دیوتاؤ
جو ہمیں دلیل کے زور پر عدالت سے باہر کرتے ہو،
اور چھین لیتے ہو ہم سے جو ہمارا ہے—
تم حد سے باہر نکلتی مخلوقو!
تم تحقیر کرتے ہو
خون اور دھرتی کی صدا کی۔
اب یہ صدا
اس دیس سے پھوٹے گی کسی عظیم دیوانگی کی طرح،
یہ ناکام ہو گی، جیسے آسمان سے
کوئی قاتل مینہ برس پڑے
پودے اور حیوان اور بچے پر۔
دھرتی کا پورا چہرہ ہی ایک پت روگ ہو گا۔

ہم ایتھنز کے لیے نہیں روئیں گی
جہاں یہ پنچایت
پھلستی زبانوں والی
جس نے عدالت کا ٹھٹھا اڑایا
ایجاد کی گئی۔
ہم نہیں روئیں گی
ایتھنز کی حماقت کے لیے۔
جب تاریکی کی بیٹیاں،
آوازیں خون اور دھرتی کی،
لیتی ہیں اپنا بدلہ۔

ایتھینا
پاکباز بیگمو، میں التجا کرتی ہوں،
اپنا غصے کو لگام دو جب تک میری بات نہ سن لو۔
یہ برابر کی رائے، جس پر انصاف سے پہنچا گیا،
ہرگز تمہاری تحقیر نہیں۔
اورستس کو کیسے نہ بچایا جائے
جب اسے وار کرنے کا حکم دینےوالے عظیم دیوتا نے
زیوس کا ہاتھ ظاہر کر دیا
اجازت نامے پر دستخط کرتا؟
اپنے طیش کو فہم میں یوں داخل ہونے دو
جیسے ڈوبتے سورج کے وقت رنگین بادل
ایک روشن صبح کا وعدہ کرتے ہیں۔
اسے برسنے نہ دو
جیسے بانجھ پن اور کرب برس پڑے
عتیقیہ پر۔
قبول کرو یہ فیصلہ
اور یہاں ایتھنز ، اس بے مثال شہر میں،
تمہارا ایک مستقل گھر ہو گا۔
تم براجمان ہو گی عزت والے تختوں پر
ایک مقدس غار میں اور لو گی
شکر اور عزت کے خراج
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، ہمارے سب لوگوں سے۔

گائک منڈلی
ہمارے پرانے قوانین نئے والوں کے پیروں تلے روندے جا تے ہیں۔
ہمارا قانون دفن ہو چکا، جیسے ٹرائے کی راکھ۔
اس خون کی صدا جسے تم نے دھتکارا،
پتھروں سے چیختی ہے۔
لیکن وہ دفن ہوئی آواز
اٹھے گی بدبودار بخارات کی طرح
اور آن گرے گی اس زمین پر دیوانگی کی طرح
اور کسی وبا کی طرح۔
ہم نہیں روئیں گی۔
جب ہر زندہ مخلوق کی چیخ
عتیقیہ سے سنائی دے گی۔

ایتھینا
تمہیں روندا نہیں گیا، نہ ہی تحقیر کی گئی
تمہاری آواز دفنائی نہیں گئی۔
کوئی وجہ نہیں کہ
تمہارا لافانی طیش
اس دیس کو سزا دے۔
تم انصاف کی دہائی دیتی ہو۔
لیکن خدا میرے واسطے سے بولتا ہے۔
صرف میں، پلاس ایتھینا،
اس کنجی کی مالکن ہوں
جو قفل کھول سکتی ہے زیوس کی کڑکتی بجلیوں کا۔
لیکن کھل کر طاقت دکھانے کا
وقت گزر چکا ہے۔
دلیل سے منانے کا دن،
اپنے طویل تخیل کے ساتھ،
اپنے رحم، اپنی معافی کے ساتھ،
آ چکا ہے۔
غصے میں پھینکا گیا شبد
نرم شبدوں کے جال میں پھانسا جائے گا،
خاموش قوت والے شبد۔
غصیلے منہ کو پوری سنوائی دی جائے گی۔
میں سمجھتی ہوں تمہارا طیش۔
لیکن دشمنی ختم نہیں ہو سکتی۔
خونی ہتھیار کو ایک طرف نہیں سرکایا جا سکتا
جب تک سب اسے سمجھ نہ لیں۔
تم اس کے لیے میرا شکر ادا کرو گے
جب عتیقیہ کی فصلیں
تمہارے استھان پر اپنے پہلے پھل نچھاور کریں گی،
جب شادی اور پیدائش—
دو مقدس روایتیں
جن سے سماج چلائے جاتے ہیں
اپنے لوگوں اور ان کے بیچ بندھنوں کو—
ان کی قربانیاں دو اپنے مندر پر۔

گائک منڈلی
اپالو کی پجارن بخارات سونگھتی ہے
جو اسے خدا تک رسائی دیتے ہیں۔
لیکن ہم سانسوں میں بھرتی ہیں
زندہ خون کے بھپکے۔
وہ ہماری زندگی ہیں، جیسے خون انسان کی زندگی ہے۔
کیا ہم دھرتی کے اندر بند رکھی جا سکتی ہیں،
بے آواز اور بے نام
شبدوں کی اینٹوں سے بنے مندر میں،
دلیل کے ستونوں تلے؟
دھرتی ہماری بے عزتی دیکھتی ہے،
ہمارا غصہ نئے دیوتاؤں کے مندر کے
فرش چٹخا دےگا
اور ہم نہیں روئیں گی
جب ہر زندہ چیز کی عظیم چیخ
عتیقیہ میں گونجے گی۔

ایتھینا
میں سرجھکاتی ہوں
تمہاری بڑی عمر کے آگے،
جو مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔
میں جھکتی ہوں
تمہاری دانائی کے سامنے، جو پھلتی پھولتی ہے
دھرتی کی کوکھ میں پہلی حرکت کے ساتھ،
جو مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔
گو خدا وندِ عظیم نے مجھے بھی عطا کی ہے تھوڑی سی بصیرت۔
لیکن اگر تم نے ایتھنز چھوڑا
تو اپنی غلطی جان لو گی۔
ایتھنز کی عظمت اور شان و شوکت
مشرق میں اٹھتی صبح ہے—
نکلتے ہوئے روشن دن کی پہلی کرن
اس مندر کی دیوار کو چھوتی ہے۔
اگر تم یہاں رہو
اپنے لیے بنائے گئے اس مسکن میں،
تو تمہیں چاہا جائے گا
دھرتی پر کسی بھی جگہ سے زیادہ۔
تمہیں تسلیم کر لیا جائے گا۔
عزت دی جائے گی تمہیں
شادی بیاہ اور بچوں کے پیدا ہونے پر—
یہ خون کے قدیم ترین رشتے،
جن میں اجنبی محبت کے بندھن میں مل جاتے
اور بکھراؤ سے ایک نیا وجود جنم لیتا ہے۔
سب تمہیں سر آنکھوں پر جگہ دیں گے۔

ہمارے نوجوانوں کو پاگل نہ کرو
سل کی رگڑ
اور گھونپتے ہوئے خنجر کے خواب سے۔
نہ پھلاؤ ان کے سینوں کو
خود کو جھونک دینے کے خواب سے
اپنے تمام جسمانی تشدد کے ساتھ
گھمسان کی لڑائی میں۔
نہ خمار دو انہیں
خطرے کے نشے کا —
دشمنوں کا تصور
جسے مسل کر رکھ دینا ہو،
گھاس پھونس کی طرح،
اس سے پہلے کہ وہ آزادی کا مزا چکھیں۔
نہ آگ لگاؤ انہیں
کسی لڑاکے مرغے کے احمق غصے سے
جو ایک جتھے کو دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے
خاندانوں کے ایک شہر کے اندر—
سب کچھ اکارت—
سُن کر کے رکھ دینے والی بے رحم تباہی و بربادی
خانہ جنگی کی۔
خون کی عظیم دیویو
تمہارا گھر یہیں ہے،
ایتھنز میں،
اس شہر میں
جو تمام دیوتاؤں کے بہت قریب ہے۔
اور یہاں تمہارا شمار بھی دیوتاؤں میں ہو گا،
عظیم ترین دیوتاؤں میں،
معزز ترین دیوتاؤں میں۔

گائک منڈلی
ہم صرف شبدوں پر زندہ نہیں رہ سکتیں۔
کچھ ہمیں زندہ نہیں رکھ سکتا
سوائے بھپکوں کے
مرے ہوؤں اور زندوں کے خون کے۔
کچھ خون کو نہیں بدل سکتا۔

ایتھینا
میرے شبد سنو،
جو کبھی اپنی نرمی نہیں چھوڑیں گے۔
تم سب سے پرانے دیوتا ہو۔
تم شکایت نہیں کرو گے
کہ نوجوان دیوتاؤں نے تمہیں دیس نکالا دیا،
بے سروسامانی اور بے گھری میں،
اس وطن سے دور۔
کان دھرو دلیل پر،
اس مقدس مرہم پر
جو خود کو گھائل کر دینے والے غصے کو ٹھیک کر دیتی ہے۔
صبر سے سنو بلیغ بات،
نوش کرو اس کی شیرینی اور چپ رہو۔
یہاں رہو ہمارے ساتھ۔
اگر تم نے میرے شبدوں کا ردّ کر دیا
تو تمہارے پاس جواز کے لیے کوئی دلیل نہ ہو گی
کہ ایتھنز سے بدلہ لو۔
ایتھنز وہ سب تمہیں پیش کرتا ہے جس کی دیوتا امید کر سکتے ہیں،
اس شہر میں تمہاری شہرت کو چار چاند لگے،
اور انصاف کا بول بالا ہوا
کیوں کہ یہ سچائی کی میزبانی کرتا ہے۔

گائک منڈلی
ایتھینا، یہ غار کیا ہے؟

ایتھینا
ایک محبت کی جگہ۔ یہ تمہاری ہے اگر تم چاہو۔

گائک منڈلی
کون سے حقوق اس کے ساتھ آتے ہیں، اگر ہم انہیں قبول کریں؟

ایتھینا
کوئی خاندان تمہاری پشت پناہی کے بغیر نہیں پھلے پھولے گا۔

گائک منڈلی
یہ جگہ، اور یہ طاقت—کیا یہ تمہارا وعدہ ہے؟

ایتھینا
وہ سب جو تمہیں عزت دیں— میری عزت پائیں گے۔

گائک منڈلی
کیا یہ وعدہ قائم رکھا جا سکے گا؟

ایتھینا
ایتھینا
کوئی ایسا وعدہ نہیں کرتی جسے پورا نہ کر سکے۔

گائک منڈلی
تمہارے شبدوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے ہمارا غصہ پگھلا دیا۔

ایتھینا
یہاں ایتھنز میں تم دوستوں کے بیچ ہو۔

گائک منڈلی
آؤ عتیقیہ کو دعا دیں۔ کیسے سایہ کریں اس دیس پر؟

ایتھینا
فتح بھیجو— ندامت کے بغیر۔
دھرتی کو عتیقیہ کے لیے دعا کرنے دو۔
آسمانوں اور سمندروں کو اسے دعا دینے دو۔
ہوا اور سورج کی روشنی کو اسے دعا دینے دو۔
فصلوں اور حیوانوں کو اسے دعا دینے دو
بہتات میں۔
اس میں نوجوان سورما جنم لیں
امن کی حفاظت کے لیے۔
بے خدا جڑ سے نکال پھینکیں جائیں، جو قانون کے خلاف گئے—
ان کی بڑھوتی کو گلا نہ گھونٹنے دے
اچھائی کے پھول کا۔
تمام انصاف پسند شہریوں کی زندگیاں
آغاز سے انجام تک بہیں خراب ہوئے بغیر
عیاریوں یا مکاریوں سے۔
پوری ہوں یہ سب دعائیں،
پھر مجھ پر چھوڑ دو کہ ایتھنز کا نام
اجاگر کروں پوری دنیا میں، اور سب زمانوں میں۔

گائک منڈلی
ہمیں ایتھنز میں رہ کر اس کے لیے دعا کرنے دو،
ایتھینا کا گھر،
زیوس اور ایرس کے ساتھ،
اور یونان کے تمام دیوتاؤں کے ساتھ،
آنے والی تمام صدیوں کے لیے۔
ایتھینا اور ایتھنز کا نام
سب قوموں میں گونجتا رہے۔

ایتھینا
میں ایتھنز میں خیرمقدم کرتی ہوں
ان خوفناک قوتوں کا، یہ اٹل
اور بے لگام
دیویاں، تاریکی کی قوتیں
جو دھرتی سے اٹھیں
انسانوں کے طور طریقے دیکھنے کے لیے۔
آدمی جو انہیں غصہ دلاتا ہے
عذاب میں رہتا ہے۔
اس کے شب وروز ایک لعنت —
اس سے انجان کہ کیوں
چابک کاٹ کر رکھ دیتا ہے
اس کا دل۔
اپنے باپ کی پوشیدہ شرمندگی
ان کے استھانوں پر لا پھینکتی ہے اسے
کہ اس کا فیصلہ کیا جائے۔
اور اپنی معصومیت کی تمام آہ و بکا میں
قیمت کے طور پر اس کی زندگی لے لی جاتی ہے۔

گائک منڈلی
ہم زیادہ دے سکتی ہیں۔
ہم بچا سکتی ہیں
تمہارے باغ بغیچے،
تمہارے جنگل۔
ہم سلامتی عطا کر سکتی ہیں تمہارے گلّوں اور ریوڑوں کو۔
ہم منا سکتی ہیں عظیم چو پان کو
کہ جڑواں بھیڑیں لائے
ہر مادہ سے۔

ایتھینا
ایتھنز—سنو یہ دعائیں جو تحفہ ہیں
ان خوفناک مخلوقوں کا۔
تقدیر کی دیوی کےجلاد وں کو فرق نہیں پڑتا
جنت یا جہنم سے۔
ان کا معاملہ نوعِ انسانی سے ہے
یہاں زمین پر
اور نوعِ انسانی یہ مان کر روتی ہے
کہ وہ دیتےہیں مردوزن کو
وہ جو انہوں نے کمایا، نہ تو کم اور نہ ہی زیادہ:
کچھ کو گیت،
کچھ کو چیخ و پکار۔

گائک منڈلی
میری دعائیں دھرتی کو ہلا دیتی ہیں کہ
وہ چاہے اور حفاظت کرے
مرد کے زندہ تخم
اور عورت کی کوکھ کی۔
میری دعائیں ہلا دیتی ہیں
دھرتی کی تین بیٹیوں کو
جن کی انگلیاں چھو کر رکھ دیتی ہیں
ہر پیدا ہونے والے میں اس کی قسمت۔

ایتھینا
میں خوش ہوتی ہوں سن کر
تمہاری بدلی ہوئی آوازیں۔
تمہاری ہیبت ناک آوازیں
مہربان ہوتےہوئے۔
اور میں شکر ادا کرتی ہوں
منانے کی مقدس طاقت کا
جو بدن میں اٹھتے طوفان کو تھما دیتی ہے۔
منانے میں خدا وندکی موجودگی
بدی کی زہریلی کچلیاں اپنی طرف کھینچتی ہے،
پھلتی ہوئی نفرت کے جال کی گرہیں کھولتی ہے۔
منانے کی لطیف لڑائی میں
اچھائی جیت جاتی ہے اچھائی سے خیر کے ساتھ
اور کسی کو بھی مات نہیں ہوتی۔

گائک منڈلی
کبھی خانہ جنگی کو،
غلط فہمیوں میں سب سے خبیث کو ،
نہ تقسیم کرنے دو ایتھنز۔
نہ تو کوئی امید ہے نہ ہی مستقبل
ایک ایسے دیس کے لیے
جس کا ذہن دو لخت ہو چکا ہو
اور ہر نصف صرف
دوسرے کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہو۔
عطا کر ایتھنز کو ایک واحد ذہن، ایک پورا ذہن،
جیسے دو اجنیوں کی شادی سے
ایک بچہ پیدا ہو۔

ایتھینا
یہ ہولناک مخلوق
دانا ہے۔
اپنی ہیبت ناکی میں
یہ لاتی ہیں ایک بڑی دولت
ایتھنز تک۔
پوجو انہیں اور شکر ادا کرو ان کا۔
یہ مہربانی لوٹائیں گی
مہربانی کے بدلے۔
صرف ایتھنز کو تعمیر ہونے دو
عدل کی بنیادوں پر۔
اور عتیقیہ میں ہر چیز پھلے پھولے گی۔

گائک منڈلی
ایتھنز —ایتھنز کے پیارے—
قدموں کے بیچ بیٹھتے ہیں
زیوس ، خداوندِ عدل کے،
اس کے سب سے پیارے بچے کی طرح۔

ایتھینا
چٹان میں اپنے گھر آؤ،
مشعل جلائے۔
تم پاکباز بیگمو ،
داخل ہو جاؤ غار میں۔
رہو ہمارے ساتھ،
طاقت رکھو دور بھگانے کی،
عتیقیہ سے
ہر بدقسمتی کو۔
ایتھنز کے باسیو،
مہربانوں کو خوش آمدید کہو۔
وہ ہمارے وطن اور شہر کے لیے رحمت ہیں۔
خیر ہو ان کی۔ خیر ہو ۔

گائک منڈلی
اور ہم ان سب کے لیے خیر مانگتی ہیں
جو اس شہر کے باسی ہیں،
جو خداؤں کے ساتھ چلتے ہیں۔
وہ سب جو ہم سے ڈرتے ہیں
اور ہمارا خیرمقدم کرتے ہیں، سب
جن کی دعائیں عاجز ہیں،
ہم تمہیں خیر کی دعا دیتی ہیں۔

ایتھینا
ہم تمہارا شکر ادا کرتے ہیں۔
اب ہم مشعلوں کے ساتھ تمہیں زمین تلے تمہارے گھر میں لے جاتے ہیں۔
جوان دوشیزائیں،
سب سے خوبصورت،
اور بچے،
کھیلتے کودتے،
ہمارے قافلے کو دیتے ہیں،
مشعلوں سے بھی زیادہ روشنی۔
اور بوڑھی عورتیں، کاسنی قبائیں اوڑھے،
ہمارے ساتھ چلتی ہیں۔
دوستوں کو عزت دو۔
جگمگاتے قافلے کو اندر جانے دو۔
ہمارے مہمانوں کو ان کے نئے گھر پہنچاؤ
جہاں وہ انتظام کریں گی
بے بہا دولت، بے بہا خوش قسمتی کا
عتیقیہ کے لیے۔

بے انت تاریکی کی بیٹیو،
اپنے زمین دوز گھر میں داخل ہو۔
تم جو جانتی ہو کہ عزت کیا ہے،
اور وقار کیوں مقدس ہے،
داخل ہو سمجھ بوجھ کے قلعے میں۔
زمین کے اندر،
غار کسی ایسے بے انت مقبرے کی طرح
جہاں قربانیاں دی جاتی ہوں
مذہبی جذبات میں
جو انتساب کے شبدوں کو مقدس بنا دیں۔

ہیبت ناک مہربانو،
اپنی تسکین کی طرف آؤ
مشعلوں کے شعلوں میں
اور ہر شہری کی آواز کو ہو جانے دو،
ایک خیرمقدمی پکار کے ساتھ، مقدس۔

بہاؤ شراب۔
صنوبری ٹہنی کو چٹخنے اور جلنے دو۔
زیوس، سب کا باپ،
ایتھنز کی حفاظت کرتا ہے۔
یوں خداوندِ عظیم اور قسمت کی دیوی، ایک خدائی ملن میں
جڑ کر ایک ہی گوشت پوست میں ڈھلتے ہیں
پوری انسانیت کے —
اور ان کی صدائیں اپنی تقدیس میں یک آواز ہیں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search