پائی جان تسی بڑے بے وفا او! تحریر: عثمان سہیل

 In مزاح, یاد نگاری

مجہول نے ایک گہری نظر جس میں مایوسی اور نحوست برابر بھری ہوئی تھی راقم الحروف پر ڈالی اور گویا ہوئے، پائی جان تسی بڑے وفا ہو! ھائیں ۔۔۔ یہ سنتے ہی راقم الہٰذا کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا ۔ لگا کلیجہ جیسے حلق میں آگیا ہو ۔ ست ربڑی بال کی طرح دل پسلیوں کے بیچ ٹپے کھانے لگا۔ دل پر ہاتھ رکھا، کلیجہ تھام کر، تھوک نگل کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ اسے میری کمینگیوں کا کیسے پتہ چلا۔ ہم نے تو آج تک ڈائری میں بھی ایسا کوئی اندراج نہیں کیا۔ نیز ” واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں “ ۔

مجہول کی بدولت ایک متھ بریک ہوا تھا۔ زمانہ ماقبل مجہول ہم بھی یہی سمجھتے آرہے تھے کہ ممی ڈیڈی لڑکے شہروں کی پیداوار ہیں لیکن ان سے واسطہ پڑنے پر منکشف ہوا کہ یہ جنس دیہی علاقہ جات میں بھی میسر ہے۔ دبلا پتلا جسم، چہرہ مزید دبلا اور تیل سر کے بالوں سے نچڑتے ہوئے وایا کانوں کی لؤوں سے رات کو تکیے کو کماحقہ سیراب کیا کرتا۔ یہ مجہول تھے۔ ہمارے روم میٹ، جرنلزم کے سٹوڈنٹ اور بقول راوی کچ مج بیان ” ہونا وارد مجہول کا شہر لاہور جو شہروں میں بے بدل و مثل تھا، واسطے کرنے سی ایس ایس کہ عائد ہوا ان پر بوجہ مجسٹریٹی برادرِ کلاں “ ۔ شنید ہے کہ گاؤں میں مجہول کے گھر والے ان کے قریبی کھیتوں میں واقع پبلک ٹائلٹ میں حوائج ضروریہ کے آنے جانے کے اوقات تک پر کڑی نگاہ، جو نگہ سے قدرے زائد ہے، رکھتے تھے مبادا وقت ایسی کمیاب جنس کا زیاں نہ ہو۔۔ ایسے میں یہ بتانا سراسر غیر ضروری ہے کہ ان کو دورانِ بلوغت شریر لڑکوں کی صحبتِ بد سے دور رکھنے واسطے خاص اہتمام برتا گیا تھا۔ مجہول کی قسمت کی ناخوبی دیکھیے کہ تمام تر احتیاط کے باوجود بری صحبت یعنی یونیورسٹی ہوسٹل کی ہماری ڈارمیٹری میں ہمارے ساتھ ایک ہی کمرے مگر الگ الگ چارپائی پر سونے اور جاگنے لگے۔ مجہول کے آنے سے پہلے ہم تین لڑکوں والی ڈارمیٹری کے اکلوتے رہائشی تھے، وہ بھی ان دنوں جب لوگ الاٹمنٹ کے لیے جابجا دھکے کھایا کیے۔ راقم کی اس شامت کا کارن جناب بھٹی تھے جو ازمنہؑ قدیم میں مجہول کے برادرِ بزرگ کے حضور مڈل کلاس میں گوڈائے تلمذ تہ کرچکے تھے۔ کہنے لگے کہ میرے کیوبیکل میں جگہ کم پڑتی ہے سو آپ مجہول کو اپنے پاس ‘داخلِ ڈارمیٹری’ کریں اور منجملہ دیگر امور تربیتِ بد کا اہتمام بھی کیا جاوے۔ ہماری چھٹی حس بھی پھڑکی، عذر بھی پیش کیے گئے تاہم بھٹی نے سب کو عذرِ لنگ جانا، اوور رول کیا اور یہ جا وہ جا۔

ہمارے سالِ اول کے پہلے پرچے (امتحان) کی منحوس رات تھی۔ راقم الحروف بنیان اور شلوار میں ملبوس کرسی سے اگلی منزل یعنی میز پر اکڑوں بیٹھا تجارتی قوانین کے ان بارہ سوالات کو رٹنے میں مشغول تھا جن میں سے آٹھ کا امتحان میں آنا پکا بتایا گیا تھا۔ آپ سے کیا چھپانا۔ بتایا تو دس سوالات کا گیا تھا۔ ازبس کہ طبیعت نہایت محتاط واقع ہوئی ہے، لہٰذا دو سوالات کی بدعت یعنی اپنی طرف سے اضافہ کرلیا گیا۔ حیران کن طور پر اگلے دن مذکورہ دس میں سے آٹھ سوالات، پرچہ سوالات میں من و عن پائے گئے۔ 

اب وقوعہ کی تفصیل پر واپس آتے ہیں۔ یہی کوئی رات دو بجے کا عمل ہوگا کہ اچانک کہیں سے دبی دبی سسکیوں کا شائبہ ہوا جنھوں نے جلد ہی بلند آہنگ گریہ میں تبدیل ہوکر مجھے ایک ہی جست میں حق الیقین کے درجے پر پہنچا دیا۔ اس موقع پر ہونے والے ڈائلاگ ملاحظہ ہوں:

راقم: کیا ہوئے بے؟
مجہول: پائی جان میں نے گھر جانا ہے۔راقم: اس ٹیم؟مجہول: بس پائی جان آپ مجھے ڈونگہ بونگہ کی بس پر بٹھا آئیں۔راقم: اور جو تو راستے میں گم ہوگیا، چنگی ماڑی ہوگئی تو تیری جواب دہی کون کرے گا؟مجہول (سسکیاں لیتے ہوئے): پائی جان فیر۔۔۔۔ فیر مجھے یاور کے پاس چھوڑ آویں۔

یاور بھی ثم ڈونگہ بونگہ حال مکین یونیورسٹی (برابر والا) ہوسٹل تھا۔ رات ڈھائی یا تین بجے اپنے کندھے پر گرے گرے جاتے مجہول کو لیے ہم یاور کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پائے گئے۔ (یہی بوچھ زنانہ ہوتا تو کتنا لطف رہتا۔ ذرا سوچیے) آپ کو پتہ ہی ہے اس ٹیم ستے پڑے بندے کے کیا حالات ہوتے ہیں۔ پووور گائے نے ہڑبڑا کر دروازہ کھولا ہی تھا کہ مجہول دیسی اردو فلموں کی ہیروئین کی طرح چھلانگ مار کربستر پر اوندھے منہ لیٹ کر دھاڑیں مار مار رونے لگے۔ یاور کی سٹپٹائی شکل دیکھ کر ہمیں ترس آگیا۔ قصہ کوتاہ، ہم کسی نہ کسی طرح مجہول کو کھینچ کھانچ واپس لائے اور کمرے میں داخل ہوتے ہی بعینہ جیسے پنجابی فلم کا ولن ھیروئین کو چارپائی پر دھکیلتا ہے، ان کو دھکیلا اور پھر خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے دیسی امیوں وال روایتی تڑی لگا دی کہ ” اب تیری آواز آئی تو سانس پی جاؤں گا “ ۔ بقیہ رات مجہول نے کمبل دانتوں میں بھینچ کر دبی دبی سسکیوں کے ساتھ گزاری۔

اگلی شام مجہول فرمانے لگے: ” پائی جان تسی بڑے بے وفا ہو “ ۔ عرض کیا وجہ تسمیہ بکی جاوے، توکہنے لگے کیونکہ آپ کو اپنی امی اور بہن بھائی بالکل یاد نہیں آتےالٹا یہاں ہاسٹل میں مزے کر رہے ہیں۔———شائد مجہول کو آہ و زاریوں کے لئے ایک عدد عندلیب درکار تھا تاہم ہم اس رول کو نبھانے کیلئے ہرگز تیار نہ تھے۔ اسلئے مجہول کو چند پیار بھرے گوکہ ناگفتنی بول سنا کر ڈھٹائی سے اپنی بیوفائیانہ اندازِ زیست پر فخر سے قہقہے لگائے گئے۔

اعتراف:راقم کے ساتھ اٹھک بیٹھک سے پہلے کئی مردم نا شناسوں کو ہم پر بھی ممی ڈیڈی منڈے کا التباس ہوجایا کرتا تھ۔ا *

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search