ہُو کا عالم۔ شاعر: ڈاکٹر ہدایت اللہ (تبصرہ: عائشہ شیخ)

 In تنقید

”ہُو کا عالم“ ڈاکٹر ہدایت اللہ صاحب کا مجموعہِ کلام ہے ۔ اول شاعری کا مجموعہ، ایک عجیب سر مست سا عنوان ،ملکوتی سا سرورق ، ایک ناواقف سے شاعر کا کلام لیکن تحفے میں ملی کتاب!
ایک عجیب پراسرار سا تحفہ تھا جس کا احساس سرورق کو محسوس کرتے ہی ہو گیا۔ کتاب کھولی تو شاعر نے گویا پوری داستانِ حیات ایک ، فقط ایک ہی شعر میں سمو رکھی تھی ۔
بلا کا شور تھا باہر ہمارے
مگر اک ہو کا عالم دل کے اندر

اگلے ہی صفحے پراسی ایک شعر کی تفسیر کی صورت ایک نظم پر نگاہ پڑی ۔

زندگی وہ جہاد ہے جس میں
ہم نے غازی کوئی نہیں دیکھا
سب نے جبراً یہ جنگ لڑنی ہے
سب نے لازم شہید ہونا ہے

اس نظم کو پڑھنے کے بعد آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ کچھ اشعار، کچھ نظمیں بسا اوقات فقط ایک ہی مصرعہ یا ایک جملہ ہی ، محض پڑھ کر آگے بڑھ جانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ قاری پر ایک وجد سا طاری کر دیتا ہے ۔ کئی روز تک لمحہ بہ لمحہ روح کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ ایک سحر کا سا عالم محسوس ہوتا ہے اپنے گردو پیش ! سو کتاب بند کر کے ایک طرف رکھ دی۔ نظم کی پرتیں ذہن کے نہاں خانوں میں خودبخود کھلتی چلی گئیں، زندگی کی بے ثباتی کا احساس اور بھی گہرا ہوتا چلا گیا۔ بس یہیں پر جبرو قدر کی سب ہی گتھیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
کچھ روز بعد پھر سے مجموعہ کلام کھولا ، کتاب کیا تھی گویا شاعر کی ذاتی بیاض تھی جس میں شاعر نے اپنی تمام تر زندگی ، اپنے نہایت ذاتی تجربات ،خیالات ،احساسات، نظریات اور پھر ان نظریات کی ہئیت ، قبولیت و رد ، اپنے گردوپیش ہونے والے واقعات غرضیکہ اپنی قلبی واردات سے لے کراپنی زندگی کے تلخ و شیریں احساسات تک کو نہایت خوبصورتی اور مہارت سے منظوم صورت دے رکھی تھی ۔ انھوں نے کارزار ہستی کو دیکھا تو اپنی آنکھ سے لیکن عیاں ہزار ہا پہلوؤں سے کیا۔ یوں اپنے ایک ایک شعر کو نت نئی وسعتوں، نو رنگ امکانات اور کئی کئی جہات سے روشناس کیا لیکن پھر بھی ہر شعر میں قاری کو شاعر کی ذات کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے ۔

لکھتا رہا ہے آج ہدایت جو حالِ دل
قاصد کے ہاتھ آپ ہی مکتوب ہو گیا

ذاتی بیاض کہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کتاب بظاہر تو دو ادوار میں منقسم ہے ، دور اول 1982 سے 1988 تک کا ہے جبکہ دوسرا دور 1989 سے 2020 تک کا ہے ، لیکن کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ایک شاعر اور اس کا تخیل کس طرح بلندی کی جانب مائل بہ پرواز ہوتے ہیں ۔ محض شاعر ہی نہیں بلکہ معاشرے کا ہر فرد کس طرح ذہنی و جذباتی ارتقاء کی منازل طے کرتا ہے ۔
اس کے باوجود ہر شعر اجتماعیت کا نہیں بلکہ ہدایت اللہ صاحب کی انفرادی شخصیت کا عکاس ہے ۔ یوں ایک ایسے حساس انسان کا خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے جو زندگی کو ہاتھوں ہاتھ لینے کا قائل ہے۔ گردش افلاک سے بالکل بےگانہ، جس کے لیے اہمیت صرف انسان کی ہے ، اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ۔ جس کی زندگی میں مسرت کے پرکیف لمحات بھی ہیں اور یاسیت و الم کے گہرے سائے بھی ۔ نا امیدی کی اماوس بھی ہے اور ایک روشن صبح کی امید بھی ۔ جو جنگلوں اور بیابانوں میں کھوکر راستہ تلاش کرتا ہے ۔ جس کے لیے تصوف ایک بحربیکراں ہے ۔ جس کے لیے حقیقت کا ادراک ہی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ جو انسانی خامیوں سے مبرا نہیں۔ جو ہار جاتا ہے ، تھک جاتا ہے ، گرتا ہے اور پھر سنبھلتا ہے ، اور پھر سے اپنے سفر پر رواں دواں ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے منزل سے زیادہ راستہ اہمیت کاحامل ہے ۔

کبھی سر بہ سجدہ ہوا تھا دل ، کبھی ہر قدم پہ قیام تھا
کہ وہ راستہ ترے شہر کا سبھی راستوں کا امام تھا

کبھی درد طول فراق تھا ، کبھی دکھ کہ وصل ہے مختصر
رہ عشق میں تو سکون کا کوئی ایک پل بھی حرام تھا

جسے خود سری کا غرور تھا، جو خود آگہی کا ظہور تھا
وہی دل گدائے رہ طلب تری اک نظر کا غلام تھا

نہ تو ہم سفر سے امید تھی، نہ ہی راہبر پہ یقین تھا
ترے شہر کے سب ہی راستوں کا عجیب سا ہی نظام تھا

مجھے ”کن“ کہا تو میں ہو گیا، ”فیکون“ میں ہی کمال تھا
میں اسیرِ عہدِ ”الست“ ہوں ، کہ ”بلیٰ“ مرا ہی کلام تھا

ترے نام سے جو الگ ہوا تو بنا ہدایت بے نوا
کہ ازل کے شہر وجود میں ترا نام ہی مرا نام تھا

یہ مجموعہ کلام خود آگہی کے سفر کی داستان ہے جہاں کوہِ طور پر پہنچنے کے بعد بھی تہی دامنی کا احساس دامن گیر رہتا ہے کہ طور کا نظارہ اور تجلیات کا پرتو،انسان کی خودبینی و خود شناسی سے مشروط ہے، اور اس کے لیے طور کے سفر کی ضرورت ہی نہیں۔ محض اپنے اندر جھانک کر دل کی آواز کو سن لینا ہی بہت ہے ۔ دل کی یہی آواز اس کے اندر ہو کے عالم میں ارتعاش پیدا کرتی ہے ۔ یوں خود آگہی سےعشق حقیقی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ وہ عشق نہیں جو ایک صوفی کو ہوا کرتا ہے بلکہ وہ عشق جو جذب اور سرمستی کے عالم میں ایک طالبِ حقیقت کو ہوتا ہے ۔ جو تصوف کے بحر بیکراں کو بہت پیچھے چھوڑ کر اپنی ہی ذات میں عشق حقیقی کی لو روشن کرتا ہے، تشکیک کے بت توڑتا ہے، تھک جاتا ہے، رک جاتا ہے اور پھر بے اختیار عشق حقیقی میں مجاز کے رنگ کی ضد پکڑ لیتا ہے ۔

بہت آسان ہو جائے
یہ الجھن دور ہوجائے
ہمارا کام بن جائے
اگر عشق حقیقی میں
مجازی رنگ آ جائے
ہمیں بھی چاہنے کا ڈھنگ آ جائے

لیکن پھر تشکیک کے ایک اور بت کو توڑتے ہوئے طالب حق کی نظر محض ایک تصور ذات پر مرکوز ہو جاتی ہے ۔

نظر اٹھا کر نہ دیکھ ظالم ، اٹھی نظر توگیا نظارہ
نظر جھکا لے ، نظر جما لے ، ترے ہی اندر وہ دلکشی ہے

ظلوم ہم ہیں، جہول ہم ہیں، وگرنہ ہرسو تیرا ہی چہرہ
انا کی بستی کا نور ہے تو ، ہمارے اندر ہی تیرگی ہے

مری یہ موہوم ذات یارب ! ، اور اس کی ساری محبتیں بھی
تری محبت نہ ہو جو غالب ، کہانی ساری یہ ان کہی ہے

ہو کے اس عالم میں بار بار عقل اور دل کا موازنہ ملتا ہے ۔ کبھی تو دونوں باہم بر سر پیکار نظر آتے ہیں، کبھی دل کی حکمرانی عقل کو مغلوب کر دیتی ہے اور کبھی عقل ہزار ہا سوالات کھڑے کر کے دل کو تماشاگاہ بنا دیتی ہے ۔ یوں رزم گاہِ حیات میں ان دونوں کی معرکہ آرائی جاری رہتی ہے ۔ یہی شاعر کا سفر ہے۔

سنتا رہا جو عقل کی محجوب ہو گیا
دل کی نظر سے دیکھا تو محبوب ہوگیا

دل کے معاملات پہ غالب کبھی نہ تھا
پھر یوں ہوا کہ عقل سے مغلوب ہو گیا

شاعری کی یہ بیاض ایک انسان کے شخصی ارتقاء کے گھٹتے ،بڑھتے سایوں کا گوشوارہ ہے جس میں معاشرہ کسی طور نظر انداز نہیں ہوا۔ سیاست کی بند گلیوں کا تذکرہ ، محلاتی سازشوں کا اشارہ، عوام کی بے بسی کا نظارہ، ایک عام انسان کی اپنے حقوق اور وجود سے لاعلمی کا نوحہ ، دنیائے علم و عمل میں انسان کے ایک متحرک کردار کی ادائیگی، جہد مسلسل کی تحریک سب ہی ان کی نظموں اور غزلیات کے موضوع ہیں ۔ اس ضمن میں ان کی نظمیں دعا دل کی تسلی ، سر سلامت ہو تو جھکا کیوں ہو، زندگی، ابھی کچھ وقت باقی ہے ، ساز اور بہت سی غزلیات ادب کا شاہکار ہیں۔ شاعری کے اس مرقع میں بیسیوں قصے ہیں سنانے کے لیے لیکن پھر بھی ایک سناٹا اور ہو کا عالم طاری ہے ۔
وہی صوفی ، وہی مرد قلندر
جو دیکھے قطرہِ دل میں سمندر
بلا کا شور چاہے چار سو ہو
مگر اک ہو کا عالم دل کے اندر

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search