پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج، جریدہ ’القمر‘، اور ہماری علمی و ثقافتی صورتحال۔ تحریر:کبیر علی

 In تنقید

ہماری  علمی صورتحال (Knowledge               Condition)  اور ثقافتی  صورتحال  (Cultural               Condition)   دونوں  میں  مجھے دلچسپی  رہتی ہے اور اس   دلچسپی کے سبب میں  مختلف اہلِ علم کی فیس بک آئی-ڈیز،  تحریروں،  یوٹیوب چینلز، رسائل، جرائد، ویب گاہوں ،  اور  نالج پالیٹکس     سے کچھ نہ کچھ باخبر رہنے کی کوشش کرتا  ہوں۔ اس عمل  کا ایک   نقصان  یہ ہوتا ہے کہ منہ کا ذائقہ مستقل  خراب  رہتا ہے لیکن بہرحال میں یہ کام ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے  کرتا رہتا ہوں۔  کچھ روز قبل میں  جناب پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج (شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ سرگودھا)  کی فیس بک وال   پہ  موجود تھا جہاں ا ن کی پوسٹوں  کے علاوہ جریدہ ’القمر‘ کے مختلف مقالوں کے لنکس بھی موجود تھے۔ منج صاحب  اس جریدے کے بانی  اور  مدیرِ اعلیٰ ہیں اور یہ  ایچ ای سی سے ’وائی‘ کیٹیگری میں منظور شدہ ہے اورا س میں مقالہ   کی اشاعتی  فیس  مبلغ 35000 روپے ہے۔ منج صاحب نے ”تلاوتِ قرآن میں  الحان،  موسیقی اور  مقامات کی شرعی حیثیت: قائلین و مانعین کے دلائل کا جائزہ“ کے عنوان سے ایک مقالہ شیئر کر رکھا تھا۔ موضوع میں دلچسپی کے باعث میں نے اس  مقالے کا لنک کھولا، اسے ڈاؤنلوڈ کیا اور  پڑھنا شروع کیا۔    ڈیڑھ دو منٹ کے بعد ہی مجھے محسوس ہوا کہ یہ تو  قدسیہ جبین صاحبہ کی تحریر ہے۔ میں نے فوراً  دو سال قبل ”جائزہ“ پر شائع ہونے والا قدسیہ جبین صاحبہ کا مضمون  ”فنِ تلاوت اور مقاماتِ موسیقی“ نکالا اور لیپ ٹاپ اسکرین پہ دونوں  تحریریں بہ یک وقت کھول کر ان کا موازنہ شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں یہ واضح ہو گیا کہ  قدسیہ صاحبہ کا مضمون  سرقہ کر لیا گیا  ہے اور اب  شیر محمد ربانہ اور  ڈاکٹر  فیروز الدین شاہ کھگہ کی سی-وی میں ایک  عدد   تحقیقی  مقالہ  درج ہو چکا ہے۔ کُل اٹھارہ صفحات  کے مقالے میں   قریباًآٹھ صفحات قدسیہ   صاحبہ کے مضمون کے ہو بہو شامل   کر دیے گئے تھے۔  ایک لمحے کے لیے میں  تو سکتے میں  آ گیا لیکن خدا بھلا کرے ہمارے    بزرگوں اور اہلِ علم کا  کہ ان کی عنایات سے  اب سکتوں کی  اتنی مشق ہو گئی ہے کہ لگتا ہے ’سکتہ‘ ہی اب ہمارا مستقل تہذیبی حال ہے۔

قدسیہ جبین صاحبہ کے مذکورہ مضمون کا قصہ کچھ یوں ہے کہ   ان کی ایک پوسٹ   کے ذریعے مجھے  فنِ تلاوت سے  انکی واقفیت  خبر ملی تو میں نے  انباکس میں  ان سے  اس موضوع پر  کسی اچھے انگریزی/اردو مضمون  کی  بابت سوال کیا ۔ انھوں نے میرے سوال کے جواب میں کچھ  باتیں بتائیں، پھر خود انھوں نےبھی  اس  موضوع پہ  تازہ  مطالعہ کیا اور    ایک   فیس بک پوسٹ کی  صورت بننا شروع ہوئی۔  لیکن موضوع مزید پھیلتا چلا گیا اور ایک باقاعدہ مضمون   کی شکل اختیار کر لی۔  مضمون کے کئی مسودے   میں نے دیکھے اور قدسیہ صاحبہ  سے  مزید ترامیم و اضافوں کی  فرمائش کرتا رہا۔   بالآخر یہ مضمون مکمل ہوا اور  اب میں نے  انباکس گفتگو کا ریکارڈ دیکھا ہے تو   میرے پہلے سوال  اور  اس مضمون کی اشاعتی تاریخ میں ٹھیک  تین ماہ  کا  وقفہ ہے۔ الغرض میں اس  مضمون  کے ایک ایک لفظ  سے  واقف ہوں اور  اس سے ایک  خاص  ذاتی تعلق محسوس کرتا ہوں۔    اس مضمون  کے ساتھ ہونے والے سلوک پر میں نے  احتجاجاً ایک پوسٹ لکھی جس کا مقصد  ہماری  علمی و  ثقافتی صورتحال  کی جانب احباب کی توجہ مبذول کروانا تھا  اور  اس عمل  میں  مضمون کے ساتھ   میری  ذاتی نسبت نے مہمیز کا کام کیا۔

میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ ”پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج (مدیرِ اعلیٰ، جریدہ ’القمر‘) کی خدمت میں “ کے عنوان سے لکھی۔ منج صاحب  کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ پوسٹ پہ تشریف لائے ، اپنے تبصرے میں مجھے ”حسد“ میں مبتلا اور ”سیخ پا“ قرار دیا اور قدسیہ صاحبہ  کے مضمون کے کھلے سرقے کا ”کریڈٹ نہ ملنے پر“ افسوس کا اظہار کیا نیز  یہ واضح کیا کہ  ”ان [قدسیہ جبین ] کی  بحث کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کو مکمل حوالے کے ساتھ مقالے میں شامل کیا گیا ہے“۔  اس تبصرے کے تھوڑی دیر بعد انھوں نے اپنی وال پہ ایک  پوسٹ لکھی، جو اَب ڈیلیٹ ہو چکی ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کا عنوان ”ایک نوجوان  قلم کار صاحب  سے گفتگو“ تھا۔ یہ پوسٹ کرنے سے قبل وہ مقالے کو ’القمر‘ کی ویب گاہ سے ہٹا چکے تھے۔ اس پوسٹ میں   انھوں نے   تھوڑی دیر قبل  کے تبصرے سے بالکل  الٹ    موقف اختیار  کرتے ہوئے لکھا: ”ان [قدسیہ جبین] کی تحریر مکمل ہٹا دینے سے بھی  زیرِ بحث مقالے کے مضمون میں ایک  ذرے کا فرق واقع نہیں ہوتا “ ۔   اس سے منج صاحب کی اخلاقی صورتحال  تو واضح ہوتی ہی ہے مگر  مقالہ نگاروں اور مدیر  کی قابلیت  پہ بھی سنگین سوال کھڑا ہوتا ہے کہ  جس ”تحریر [کے] مکمل ہٹا دینے سے زیرِ بحث مقالے کے مضمون میں ایک ذرے کا فرق واقع  نہیں ہوتا “  عین اسی تحریر کے قریباً   آٹھ صفحات  ہوبہو مقالے میں  کیوں شامل کیے گئے تھے؟

پہلا مرحلہ: جارحانہ  طریقے سے  مخاطب کو دبانے  (undermine) کی کوشش کرنا

میری  وال پہ اپنے تبصرے اور پھر اپنی وال پہ  کی گئی پوسٹ میں  منج صاحب   نہایت پُراعتماد نظر آئے ،  مجھے ڈانٹا،  اپنے عمل کو نا صرف درست قرار دیا بلکہ اس کا کریڈٹ نہ ملنے پر اظہارِ افسوس کیا،  مجھے ”حاسد“ قرار دیا ، اور   میری  پوسٹ  کو محض ”گرم خون“ کی کارستانی  پہ محمول کیا۔ منج  صاحب    کسی   مقالے کے کسی  نکتے/نتیجے/ دلیل/اقتباس کے    معروف طریقے سے اندراج (citation)   اور  اسے پورے کا پورا سرقہ کر لینے میں  کوئی فرق روا رکھنے کو تیار نہ تھے  اور سرقے   پر ” کریڈٹ نہ ملنے  پر“ اظہار  افسوس فرماتے رہے۔    اپنی اس پوسٹ میں  وہ   اپنے معمولہ  تصورِ ذات (Self-Perception)   کے ساتھ  بروئے کار آئے جو ان کی ایک سابقہ پوسٹ بعنوان ” سارے پاکستانی سکالرز کی سپرویژن “ میں   تفصیل سے    بیان کیا گیا ہے۔   ان کی یہ پوسٹ  نہایت اہم ہے، لائقِ مطالعہ ہے، اور احتیاطاً اس کا متن  میں نے محفوظ کر لیا ہے۔  اس میں وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے ”سارے پاکستانی سکالرز کی  ریسرچ سپرویژن کا  بار اپنے ناتواں کندھوں پر لے لیا ہے “ جس کا نتیجہ یہ نکلا  کہ ڈاکٹریٹ کے ”بہت سے طلبا نے اعتراف کیا  کہ ہمیں نہ صرف ریسرچ آرٹیکل بلکہ تھیسز لکھنے کی بھی اب سمجھ آئی ہے“ ۔ مزیدیکہ ان  کا فیض صرف طلبا تک ہی محدود نہیں بلکہ ”پروفیسروں“ اور ”باہر کے پوسٹ ڈاکٹریٹوں“ کے مقالوں کی ” اصلاح “ کا ذمہ بھی  منج صاحب نے  لے رکھا ہے۔  گویا منج صاحب اپنے تئیں  ایک ’ریسرچ گُرو‘ پاتے ہیں اور اسی  بلند مقام سے    انھوں  نے مجھ ایسے گمنام نوجوان کو  مخاطب  فرمایا۔

دوسرا مرحلہ: دھوکہ دہی

منج صاحب کی پوسٹ پہ  اکثر احباب نے ، مذکورہ مقالے کو ملاحظہ کیے بغیر  ، محض حسنِ ظن کی بنیاد پر تائیدی  تبصرے کیے لیکن انٹرنیشنل  اسلامک  یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمان  کا سوالیہ تبصرہ کچھ یوں تھا، ” منج صاحب! کیا واقعی اٹھارہ صفحات  کے مقالے میں آٹھ صفحات کا  اقتباس شامل ہے ، چاہے حوالے سمیت ہی ہو؟ “ ۔ تھوڑی  دیر بعد اسلامک یونیورسٹی ہی کے پروفیسر  ڈاکٹر  محمد مشتاق نے اسی سوال کو دہرایا۔  اس سوال  سے  منج صاحب کو شک ہوا کہ کچھ  گڑ بڑ ہو گئی ہے لہذا انھوں نے فوراً اس مقالے  میں سے قدسیہ صاحبہ  کا مضمون  نکالا (اس کا ایک آدھ پیراگراف  رہنے دیا)، اور  باقی ماندہ بحث کو کھینچ کر مقالہ  پھر سے اٹھارہ صفحات کا کر کے  عین اسی سابقہ لنک پر اپلوڈ کر دیا ، اور یہ سارا عمل ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر مکمل بھی ہو گیا (  عام طور پہ اتنی دیر میں  مقالے کے ایک دو پیراگراف لکھنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن  منج صاحب کے اس عمل کے بارے میں  ہم حسنِ ظن کے ساتھ یہی کہہ سکتے ہیں  کہ غالباً  انھوں نے چھ سات صفحات پہلے ہی سے  ٹائپ کروا کر اور    ، اپنے جرنل کے اصولوں کے مطابق ، Double-Blind               Peer               Review  سے  گزار کر  رکھے ہوئے ہوں گے ، جو ضرورت پڑنے پر فوراً مقالے میں شامل کر دیے گئے)۔  قدسیہ صاحبہ کا مضمون مکمل خارج نہ کرنے اور مقالے کو بھرتی شدہ مواد سے پھر سے اٹھارہ صفحے کا کرنے کے پیچھے یہی  بدنیتی شامل تھی کہ  لوگوں  کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہی  نیا ورژن ہی  اصل ورژن ہے۔ منج صاحب نے  استفسار کرنے والوں کو  یہی نیا ورژن فراہم کیا۔  ظاہر ہے جب  لوگوں   کو  قدسیہ صاحبہ کے  مضمون   کی  محض چند سطریں  ہی  مقالے کا  حصہ نظر آئیں تو وہ مطمئن ہو گئے۔ منج صاحب کی اس بددیانتی کو دیکھ کر  میں حیران رہ گیا کہ انھوں نے کس سہولت سے     دو معتبر  پروفیسرز  سمیت کئی احباب کو   دھوکہ دے دیا۔   ان کی اس بددیانتی کو واضح کرنے کے لیے   میں  نے رات گئے ان کی وال پہ ایک تبصرہ لکھا  جسے کئی احباب نے  پڑھ بھی لیا مگر    علی الصبح جب منج صاحب نے وہ تبصرہ دیکھا تو اسے ڈیلیٹ کر دیا۔ وہ تبصرہ میرے پاس محفوظ تھا لہذا میں نے اسے اپنی وال پہ چسپاں کر دیا۔  جامعہ پنجاب  سے وابستہ جناب عاطف حسین  نے وہ تبصرہ نقل کر کے  ڈاکٹر محمد مشتاق  کے ان تبصروں  کے جواب میں چسپاں کر دیا جو وہ منج صاحب کی وال پہ  لکھ چکے تھے۔  اس تبصرے کا جواب  ڈاکٹر  محمد مشتاق صاحب نے یوں دیا:

” قدسیہ صاحبہ کا مقالہ تو میں نے پہلے پڑھا تھا اور وہ بہت ہی اعلی تھا۔ اس مقالے کا جو ورژن مجھے منج صاحب نے دیا، اس پر قدسیہ صاحبہ کے مقالے کی گہری چھاپ تھی، لیکن وہ والی بات نہیں تھی جو کبیر صاحب نے لکھی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جو ورژن مجھے دیا گیا، وہ کچھ اور تھا اور اصل ورژن کچھ اور تھا۔ اصل ورژن کو پڑھ کر تو صاف معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑی بددیانتی تھی۔ ایسے محض ’فیہ ذکرکم‘ سے کیا تلافی ممکن تھی۔ بہت ہی افسوس ناک۔ “

ڈاکٹر صاحب کے  اس  مختصر مگر جامع تبصرے  کے بعد، جس میں ’بددیانتی‘ کا واضح ذکر تھا،  منج صاحب  نے گھٹنے ٹیک دیے۔ اور اسکے بعد ایک دو مختصر تبصرے لکھے جن  سے یہ معلوم ہو گیا کہ اب وہ ” مظلومیت موڈ “ پہ چلے گئے ہیں۔   کچھ ہی منٹ کے بعد انھوں نے  اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کیا اور پھر میری وال پہ موجود اپنے  تبصرے کو بھی ڈیلیٹ کر دیا۔  یہاں افسوس  کی بات یہ ہے کہ  جس پوسٹ پر کئی  معتبر پروفیسرز اور اہلِ علم  نے  اپنی رائے کا اظہار  کر رکھا تھا اسے  ڈیلیٹ کرنے میں  منج صاحب کو شمہ بھر بھی ہچکچاہٹ نہ  ہوئی اور  اس عمل میں انھوں  نے  ان اہلِ علم کا پاس (Regard) رکھنا  ضروری نہ سمجھا۔

تیسرا مرحلہ: بیک ڈور رابطہ  پالیسی  سے  ڈیمج  کنٹرول ،جذباتی بلیک میلنگ ،  اور  مظلومیت

پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے بعد منج صاحب نے بیک ڈور رابطوں  کا آغاز کیا اور کئی لوگوں سے رابطہ  کر کے معاملے کو سنبھالنے  کی تگ و دو  شروع کر دی۔ اس مرحلے میں انھوں نے مجھے بھی ایک  پیغام بھیجا جو اپنی نوعیت کا ایک شاہکار ہے لہذا اسے  ہوبہو درج کر کے اس کا مختصر  تجزیہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کا پیغام یہ تھا:

”سلام۔ کبیر صاحب میں نے اپنی پوسٹ میں اگرچہ آپ کا نام لے کر آپ کو مخاطب نہیں کیا تھا تاہم اس کی وجہ سے یا میرے کمنٹ کی وجہ سے یا آرٹیکل کے حوالے سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی یا آپ کے جذبات مجروح ہوئے تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نے پوسٹ بھی ڈیلیٹ کر دی ہے اور آپ کی وال پر کیا ہوا کمنٹ بھی۔۔ اس پر بھی آپ کو دکھ ہوا ہو تو اس پر بھی معذرت۔۔ آپ سے بھی کوئی مطالبہ نہیں۔۔ آپ بہت ٹیلنٹڈ بچے ہیں۔ اگرچہ دعا دینے کا یارا تو نہیں لیکن پھر بھی دعا ہے کہ اللہ اس زندگی کو آپ کے آئڈیلز کے مطابق بنائے۔۔۔۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔۔۔ میرا نمبر یہ ہے [نمبر] “

ان کے اس پیغام کو اگر  سرسری  نظر سے دیکھیں تو آدمی   آبدیدہ  ہو جاتا ہے لیکن یہ پیغام   جذباتی بلیک میلنگ   کا ایک شاہکار ہے۔  پہلے دو جملوں میں وہ فرما رہے ہیں کہ انھوں نے اپنی پوسٹ، اور میری پوسٹ پہ اپنا  تبصرہ اس لیے ڈیلیٹ کیے ہیں کہ  کہیں میرے جذبات ہی مجروح نہ ہو جائیں (سرقے، بددیانتی  اور دھوکہ دہی  کے بالکل  عیاں  ہو جانے کے بعد انھیں اچانک لوگوں کے ’جذبات‘ کی فکر ہونے لگی چنانچہ  پوسٹ ڈیلیٹ کرنے سے پہلے انھوں نے   جناب عاطف حسین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”ان شاءاللہ آپ کے اور مشتاق بھائی [یہاں ’بھائی‘ کا طرزِ تخاطب بھی قابلِ غور ہے] کے جذبات کا پورا خیال رکھا جائے گا“۔ گویا  مقالہ نگاروں کا سرقہ، جس میں  منج صاحب بھی  شریک  تھے، اور  منج صاحب کی بددیانتی و دھوکہ دہی  کوئی  امرِ واقعہ نہیں  ہیں بلکہ  محض  عاطف حسین، ڈاکٹر محمد مشتاق اور احقر  کے ’جذبات‘ کا جھگڑا ہے) حالانکہ  سبھی احباب دیکھ  چکے ہیں کہ منج صاحب نے  بے بس ہو کر وہ پوسٹ ڈیلیٹ کی اور پھر ’جذبات‘ کا راگ شروع کر دیا۔  پھر اگلے جملوں میں وہ پوسٹ و تبصرہ ڈیلیٹ کرنے پربھی معذرت خواہ ہیں گویا میرے ممکنہ مجروح جذبات کے اندمال  میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کرنے کو تیار نہیں۔ پھر فرماتے ہیں ”آپ سے بھی کوئی مطالبہ نہیں“، یہ جملہ اصل  میں  یوں ہونا چاہیے تھا: ”لیکن آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں“۔ مگر ان کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ  سے پہلے وہ کسی اور کو ایسا ہی پیغام لکھ کر فارغ ہوئے ہیں اور اسی تسلسل میں مجھے بھی ”آپ سے بھی کوئی مطالبہ نہیں“ کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں۔  اپنی پوسٹ اور تبصرے کو میری خاطر ڈیلیٹ کرنے کی اطلاع دینے کے بعد ”آپ سے بھی کوئی مطالبہ نہیں“ کا جملہ محض حسنِ طلب ہے اور مطالبہ بالکل واضح ہے: احقر کو بھی منج صاحب کے جذبات مجروح ہونے کے ڈر سے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دینی چاہیے۔ ”آپ ایک ٹیلنٹڈ بچے ہیں“ میں وہ مجھے ’بچہ‘ قرار دے کر  اپنی بزرگی قائم کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بزرگوں کے احترام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ”اگرچہ دعا دینے کا یارا تو نہیں“ میں وہ بالکل مظلوم  درویش نظر آتے ہیں (اس موقعے پر قاری اگر ہچکیوں سے رونا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا)۔

میری گزارش:

الغرض کسی بھی مرحلے پر منج صاحب نے اصل مدعا   سے معروف طریقوں   سے  معاملہ نہیں فرمایا بلکہ  یوں   ظاہر کیا  گویا  یہ میرا  اور ان کا کوئی ذاتی  جھگٹرا ہے(حالانکہ ذاتی طور پہ وہ مجھے جانتے ہیں اور نہ  میں ان کو) اور  بالترتیب پیشہ ورانہ  نااہلی، سرقے، دھوکہ دہی اور  بددیانتی  کا ارتکاب کرتے چلے گئے۔     میں نے جس مسئلے کی نشاندہی کی تھی  اسی کو  زیرِ بحث ہونا چاہیے تھا  ۔ منج صاحب نے جس طرح سے   اس  مسئلے سے معاملہ فرمایا وہ   ہمارے اکثر اہلِ علم کا آزمودہ  طریقہ ہے اور   نیا  نہیں ہے۔   یہ طریقہ کچھ یوں ہوتا ہے:

  • گفتگو   میں سائل/معترض  اور  مسئول  کے مابین  طاقت کا توازن  سب سے اہم بات  ہوتی ہے۔  یعنی   کیا سائل  طاقت کے  معروف  سماجی، معاشی، ادارہ جاتی  وسائل میں  مسئول  کے ہم پلہ ہے یا نہیں۔  اگر وہ ان  وسائل  کا حامل نہیں تو پھر  اس کی  علمی  ثقاہت کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی  پوزیشن  بھی کمتر    باور کی جاتی ہے اور اسی  بنیاد پر  اس سے معاملہ کیا جاتا ہے  (اور موجودہ  مسئلے میں  یہ عدم توازن بالکل سامنے کی بات ہے یعنی  میں ایک گمنام  نوجوان ہوں جسے  چند ذاتی دوستوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور    جو نہ کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہے، نہ کسی  منظور شدہ جرنل کا مدیر، نہ  کتابوں کا مصنف،  نہ کسی بلند سماجی  مقام کا  حامل، نہ  اہلِ علم کے  کسی بڑے نیٹ ورک کا  حصہ؛ جبکہ  منج صاحب یہ سبھی کچھ ہیں۔  طاقت کا یہ عدم توازن ہی   فیصلہ کن ہے لہذا مدعا پہ بات کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی)۔
  • اصل مدعا پہ بات کرنے کے بجائے   سوال کرنے والے  کی ذات اور   ایجنڈے  وغیرہ   پہ دادِ سخن دینا
  • ابتدا میں  جارحانہ حملہ کرنا
  • جارحانہ حملے کو موثر بنانے کے لیے   دروغ گوئی، دھوکہ دہی، رزمیہ شاعری،  اپنی سابقہ خدمات کی قوالی وغیرہ کا  سہارا لینا
  • اگر معاملہ بالکل ہی ہاتھ سے نکل جائے تو جذباتی بلیک میلنگ پہ اتر آنا،   مظلوم بن جانا، اور ایسی  میلو- ڈرامائی فضا قائم کرنا جس میں  ہر جانب رقت پھیل جائے  ، آنسوؤں  کی دھند میں  اصل مدعا غائب ہو جائے اور لوگوں کو  بزرگوار   کی صحت اور  سلامتی   وغیرہ  کے لالے پڑ جائیں۔

    میری گزارش یہ ہے کہ  منج صاحب اور ان  جیسے  دیگر مدیران ، جو سسٹم کی حرکیات کو استعمال میں لا کر کسی نہ کسی  جریدے کے  مدیر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اصولِ تحقیق کی مبادیات اور  پیشہ ورانہ اخلاقیات   سے باضابطہ آگاہی کی  کوشش کریں۔    پھر بھی اگر  کوئی فاش غلطی سامنے آئے تو  معذرت  و واپسی (Retraction) کے باضابطہ طریقوں کو استعمال میں لائیں  تاکہ   ہمارے جریدوں کی بھی  کچھ ساکھ بن سکے۔  ہاں لیکن ان دونوں کاموں کے  لیے  انسانی ارادہ اور اخلاقی جرات  درکار ہوں گے جو مَیں  یا کوئی اور   شخص  فراہم کرنے سے قاصر ہے!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search