اصغر صاحب۔ تحریر: سجاد خالد

 In تاثرات

میری شاعری یا مضامین پر مشتمل کوئی کتاب کیوں نہیں چھپی۔ اس لیے کہ شعر یا مضمون سننے اور سنانے والا ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ شخص جسے اپنا یا کسی کا شعر سنا کر یہ یقین رہتا ہے کہ مجھ سے بہتر درجے میں سمجھا ہو گا۔ وہ بتاتا ہے کہ ” سجاد صاحب ! میں تو اس شعر کے اثر سے نکل نہیں پایا… سجاد صاحب! میں تو اس دن سے اس کی سُوئنگ میں ہوں “ ۔ 

ہال روڈ اور میکلوڈ روڈ جہاں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، وہاں تکون جیسا مختصر سا علاقہ ہے۔ اس کے درمیان چھوٹا سا ایک باغ بھی ہے جس کے نام سے یہ یہ تکون پہچانی جاتی ہے۔ اسے پٹیالہ گراؤنڈ کہتے ہیں۔ ہال روڈ کی جانب الیکٹرانکس کے سامان کی دکانیں ہیں جہاں ٹی وی، فریج اور واشنگ مشینوں کے شو روم ہیں، میکلوڈ کی طرف تقسیم سے پہلے کی یادگار ایک ہی عمارت ہے جسے کوتھالیہ بلڈنگ کہتے ہیں جبکہ تکون کے تیسرے خط پر غزالی مسجد کے ساتھ دفاتر پر مشتمل عمارتیں ہیں۔ ان عمارتوں میں سے ایک کا نام مشہور صحافی اور ادیب جناب عنایت اللہ سے منسوب ’ مکتبۂ داستان ‘ تھا جہاں سے ماہنامہ ’ حکایت ‘ نکلتا اور چھپتا تھا۔ نواز شریف صاحب کے سمدھی اسحٰق ڈار کا دفتر بھی حکایت سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔

بات ہو رہی تھی کوتھالیہ بلڈنگ کی۔ انیس سو چھیاسی تھا اور میں پہلی بار اس میں داخل ہوا تو گویا یہ علاقہ میرے اندر رہائش پذیر ہو گیا۔ دو ہزار پانچ  میں جب یہ جگہ چھوڑی تو یہاں ملنے والے لوگ میرے ساتھ تھے۔ میں نے اپنا ڈیزائن سٹوڈیو فردوس مارکیٹ گلبرگ میں اداکار محمد علی کی رہائش گاہ سے متصل ایک عمارت میں منتقل کر دیا۔ اس بار ایک تبدیلی یا ترقی یہ رہی کہ دفتر نسبتاً کھلے علاقے میں واقع تھا، عمارت نئی تھی اور پراڈکٹ فوٹوگرافی کا سٹوڈیو بھی بنا لیا تھا۔ فوٹوگرافی نیشنل کالج آف آرثس میں گرافک ڈیزائن سیکھتے ہوئے میرا میجر سبجیکٹ تھا، مجھے اس کا شوق بھی بہت تھا لیکن سٹوڈیو بنانے کی وجہ تھے اصغر صاحب۔

اصغر صاحب کا دفتر  ’ رسل اینڈ ایلے ‘ کوتھالیہ بلڈنگ کی پہلی منزل پر  ذوالفقار صاحب کے دفتر کے ساتھ واقع تھا۔ ذوالفقار صاحب این سی اے میں مجھ سے ایک برس سینئر تھے۔ آپ نے کمرشل آرٹ اور ڈیزائن معروف آرٹسٹ مغل صاحب سے دس برس کی شاگردی کے دوران سیکھا تھا اور کوتھالیہ بلڈنگ میں استاد کی اجازت سے سٹوڈیو بنایا۔ نصابی کتب میں نشانِ حیدر پانے والے شہداء کی تصاویر بنانے والے بیلنس پبلسٹی کے روحِ رواں مشہور مصور سلیم صاحب حافظ یوسف سدیدی اور اکرام الحق شاہ صاحب کے دوست تھے اور ذوالفقار صاحب سدیدی صاحب سے نستعلیق کی اصلاح لیتے تھے۔ ان کے والد جناب محمد یوسف چودھری حافظ صاحب کے بہترین تلامذہ میں شمار ہوتے تھے۔ حافظ صاحب سے مکمل خطِ ثلث، خطِ کوفی اور نقاشی کا کام سبقاً سبقاً شاید اسی شاگرد نے سیکھا تھا۔ نستعلیق کی اصلاح بھی حافظ صاحب سے لیتے رہے۔  میں نے خطِ نسخ، ثلث، رقعہ اور کوفی کی اصلاح چودھری صاحب ہی سے لی۔ یہ دفتر پہلے سلیم صاحب کے سٹوڈیو کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ انہیں اپنے کام کے لیے وسیع تر جگہ کی تلاش تھی جو اسی عمارت کی تیسری منزل پر اگلے بلاک میں مل گئی۔ یوں یہ دفتر شاید انیس سو چوراسی میں ذوالفقار صاحب نے ابنِ یوسف کمیونیکیشن کے نام سے بنایا۔

دو ہزار پانچ میں دفتر سے قریب تر گھر تلاش کرنے نکلا تو سوچا دفتر سے قربت اتنی اہم نہیں جتنی کسی دوست سے نزدیک ہونا۔ سو ایسی جگہ گھر تلاش کیا جو سمن آباد میں اصغر صاحب کے گھر سے چند منٹ کی پیدل مسافت پر تھا اور موٹر سائیکل پر جائیں تو دفتر سے پندرہ منٹ کی دوری تھی۔ میں اس علاقے میں ساڑھے سات برس رہا۔ اس عرصے میں دو دوستوں کی رہائش کے درمیان میرا گھر تھا۔ سعید اختر ابراہیم اور محمد اصغر صاحب۔ سعید اختر ابراہیم اور محمد اصغر صاحب ایک فلاحی تنظیم ’ سدھار ‘ میں کولیگ تھے۔ مذہب اور روایات پر دونوں میں اکثر ٹھن جاتی تو دفتر کے لوگ آئے دن کے دنگل کا خوب لطف اٹھاتے۔ 

ایک طرف اصغر صاحب تھے جو بہت خوبصورت تہذیبی وجود رکھتے تھے اور فطری ذہانت بھی خدا نے وافر عطاء کی تھی۔ خود اردو اور پنجابی میں رچی ہوئی رواں شاعری کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیشہ ور فوٹوگرافر تھے جسے پورٹریٹس میں کمال مہارت حاصل تھی۔ اساتذہ کے اشعار درست تفہیم کے ساتھ ان کے حافظے میں یوں محفوظ تھے کہ بات ابھی سامنے والے کے منہ میں ہوتی اور برمحل شعر سن کر حیران ہو جاتا۔ ادھر سعید صاحب نوجوانی میں مودودی صاحب سے متاثر ہو کر جماعت کا لٹریچر پڑھ چکے تھے اور چند برس میں مذہب بیزار ہو کر بائیں بازو کے سنجیدہ کارکن بن چکے تھے۔ اس پر مستزاد اداکاری، صداکاری، شاعری، افسانے اور آرٹ سے ایک زندہ تعلق۔

دنگل کے دوران اصغر صاحب کبھی کبھی میرا ذکر کر دیتے اور سعید صاحب سے کہتے کہ مذہب اور فلسفے وغیرہ پر آپ کی کُشتی سجاد خالد سے کسی دن کرواؤں گا۔ سعید صاحب مذہبی لوگوں سے نالاں تھے سو اس معاملے میں زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ دوسرا ان کا خیال تھا کہ اس ملاقات سے کچھ خاص حاصل نہیں ہونے کا۔ ادھر مجھ سے ملاقات کے دوران اصغر صاحب اپنے کولیگ کا ذکر کرتے اور کہتے کہ کسی دن آپ کے دفتر انہیں لے کر آؤں گا۔

سو وہ دن بھی آیا جب اصغر صاحب کے ہمراہ مترنم آواز، کھلتی رنگت، بے تکلف اور دانشورانہ انداز کے حامل سعید صاحب تشریف لے آئے۔ مجھے مناظرانہ گفتگو اور طرزِ استدلال پسند نہیں البتہ سعید صاحب چائے آنے تک بہت سے متنازع قضیے چھیڑ چکے تھے۔ یہ تو اب یاد نہیں کہ کیا باتیں تھیں لیکن ان پر میں اپنا قدرتی ردعمل کچھ نہ کچھ دیتا رہا۔ نتیجہ اصغر صاحب کی توقع کے برعکس نکلا کہ سعید صاحب اور میں ایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگے۔ شاید دونوں کو یہ محسوس ہوا کہ ہم خیال دوستوں سے اس قدر سیکھنے کا موقع نہیں ملے گا جتنا مختلف الخیال  لوگوں سے مل سکتا ہے۔

اصغر صاحب کو جو جیون ساتھی ملیں وہ غیر معمولی ظرف اور سلیقے کا مرقع خاتون ہیں۔ میں اور ذوالفقار صاحب اکثر  ان کے گھر چلے جاتے۔ ایک کمرے پر مشتمل پہلی منزل پر یہ فلیٹ جس قرینے سے سجا ہوتا تھا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں ضرورت اور آسائش کی ہر چیز میسر تھی اور محبت سے بڑی آسائش کا کوئی تصور میرے ذہن میں تو موجود نہیں۔ زندگی کے بہترین کھانے یہیں کھائے اور بہترین انگریزی اور ہندی فلمیں یہیں دیکھیں۔ بہت سے دوستوں سے یہاں تعارف ہوا جو آج تک حلقۂ احباب میں شامل ہیں۔ یہیں اصغر صاحب کے بھائی الماس صاحب سے ملاقات ہوئی جو اردو اور پنجابی کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی فیاض صاحب سے  بھی ملاقات ہوتی جو سب بھائیوں کی نسبت بلند قامت تھے۔ فیاض صاحب بہت کم بات کرتے اور زیادہ وقت بھائی کے دوستوں کی گفتگو کو رشک سے سنتے دکھائی دیتے۔

یہ لوگ بٹالہ سے ہجرت کر کے لاہور آئے اور گوالمنڈی میں آباد ہو گئے۔ اگر لکھنؤ کے بانکے مشہور ہیں تو لاہور کے زندہ دلان بھی اپنی اداؤں میں انوکھے ہیں۔ یہ لوگ وسیع المشرب، خوش  پوش و خوش خوراک، دلیر، ذہین اور وفادار ہیں۔ ان کے حافظے اچھے ہیں جن میں لوک شاعری اور حکیمانہ اقوال گویا کندہ کیے گئے ہیں۔ ان کے ہاں منافقت لائق نفرت اور یار پر مر مٹنا سب سے بڑی قدر ہے۔ اصغر صاحب ان اوصاف کی زندہ تصویر تھے۔ زندگی نے کون سا کڑا امتحان ہے جو ان سے نہ لیا ہو۔ وہ ہر امتحان سے ہیرو کی طرح نبرد آزما ہوئے۔

گیارہ برس پہلے انہیں معلوم ہوا کہ دونوں گردے کام نہیں کر رہے۔ اتنے عرصے سے ہفتے میں تین ڈائلاسس کروانا اور موت کو شکست دینا خدا کی خاص مہربانی تھی جو ہمت کی صورت شاملِ حال تھی۔ اس بیماری کے دوران ان کے گھر میں شعر و سخن کی محفلیں باقاعدگی سے جاری رہیں۔ پچھلے ڈیڑھ دو برس میں دو چار بار مجھے یہ اعزاز حاصل ہؤا کہ اصغر صاحب اور ان کی اہلیہ تین چار دن کے لیے میرے گھر تشریف لائے۔ ایسے میں سعید صاحب بھی پہنچ جاتے تو خوب محفل جمتی۔ اصغر صاحب کی بیگم سے میں اکثر کہتا ہوں کہ اعلی انسانی اوصاف کے اعتراف میں اگر کوئی دنیوی تمغہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے آپ کو ملتا۔  میں ان کے آنے سے پہلے پسندیدہ اشعار اور مضامین ترتیب دے رکھتا اور ان کے پسندیدہ گیت تلاش کر رکھتا تھا۔ ہر شعر اور  مضمون بآوازِ بلند دونوں کو سنانا پروگرام کا حصہ ہوتا۔ ’میرے چند اساتذہ ‘ , ’ھلال پینٹر ‘ اور ’میاں خالد محمود ‘ ۔۔۔ یہ تینوں اور نجانے کون کون سے تحاریر وہ بارہا فرمائش کر کے مجھ سے سُن چکے تھے۔ آخری بار میں نے انہیں نصیر ترابی مرحوم کی تحریر ’تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا ‘ سنوائی تھی۔ 

چند برس سے میری صحت اچھی نہیں رہی سو گھر سے نکلنا بہت کم ہو گیا ہے اس پر مستزاد اٹھارہ بیس کلومیٹر کا فاصلہ۔ رہا فون ۔۔۔ تو میں دوستوں کو بہت کم فون کرتا ہوں۔ یہ ذمہ داری سو فیصد ان کی ہے کہ اپنا حال سنائیں اور مناسب سمجھیں تو مجھ سے میرے احوال بھی پوچھ لیں۔ قریبی دوست جانتے ہیں کہ ایسا کسی بے اعتنائی یا گرمجوشی میں کمی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ بقول منیر نیازی، ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں “ ۔ 

تین ہفتے پہلے جب ایک نیند آور دوا لے کر وہ سوئے تو صبح جگانے پر اٹھے نہیں۔ ابھی دو روز ہوئے تھے کہ اصغر صاحب سے فون پر مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ قریب بیس گھنٹے ہسپتال میں بیہوش پڑے رہے۔ میں نے بڑے مان سے اس دوران قریب جا کر کہا ”اصغر صاحب دیکھیں ۔۔۔ میں سجاد ہوں، آپ کہتے ہیں کہ تم آتے نہیں “ ۔۔۔ لیکن آنکھیں بند رہیں، لب خاموش رہے ۔۔  اگلی صبح روح نے زخموں بھرے جسم کو خیر باد کہا۔

ان کی نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آیا تو جسم سے زیادہ روح تھکی ہوئی تھی۔ بے چینی میں یہ تحریر لکھنے بیٹھ گیا۔ فون میں رابطہ نمبر کے ساتھ دو ہزار پانچ میں کھینچی گئی ان کی تصویر بار بار نکال کر دیکھتا اور اگلے لمحے دھندلا جاتی۔  جیسے جیسے لکھتا گیا، چین اور بے چینی جگہیں بدلتے رہے۔

ان کا شعری مجموعہ ’ آشفتہ سری ‘ ایک دوست نے بڑی محبت سے شائع کروایا۔ ان کے گھر میں میرے ہاتھ سے لکھا ان کا ایک شعر فریم میں لگا آویزاں ہے:


شہرِ بیداد ! تو گواہی دے/ہم نے کس کس کو نہیں چاہا تھا/اور اس بے طرح کی چاہت پر/تو نے ہم کو نہیں سراہا تھا

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search