خالدہ حسین، ایک خاموش فطانت۔ تحریر: ناصر عباس نیّر (ترجمہ: اسد فاطمی)

 In ترجمہ, یاد نگاری

وہ کسی سیاسی، سماجی، ادبی، یہاں تک کہ فیمینسٹ تحریک تک کا حصہ نہیں تھيں- خالدہ حسین کی زندگی میں کوئی چکا چوند نہیں تھی لیکن انکی فکشن حدود و قیود سے بہت آگے تھی-

عظیم روحیں پرواز کر جاتی ہیں، اور ان کے ساتھ بندھی ہوئی ہماری حقیقت بھی ہم سے رخصت چاہتی ہے۔ مایا اینجلو

11 جنوری 2019 کی سرد، بے مہر صبح ایک عظیم روح ہمیں چھوڑ کر اپنے ابدی ٹھکانے کی طرف پدھار گئی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خالدہ حسین کی شخصیت کے ساتھ بندھی ہوئی ہماری حقیقت ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہو گئی۔ البتہ اتنا سا دلاسا تو ہے کہ انہوں نے اپنے چھ افسانوی مجموعوں اور ناولوں کی شکل میں جو حقیقت ہمارے لیے تخلیق کی تھی، وہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں اُنکی عظیم اور دردمند روح کی یاد دلاتی رہے گی۔

خالدہ حسین کی زندگی، اُنکی تحاریر کے سوا، ایسی کوئی چکا چوندھ نہیں تھی۔ ایک رواقی تیاگی کی طرح، خاموشی اور گوشہ نشینی میں بیٹھی، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وہ سب حاصل کر لیا تھا جو روح کی عظمت سے عبارت ہے۔ وہ 18 جولائی، 1938 کو لاہور میں پیدا ہوئيں، شادی کے بعد اسلام آباد اور پھر کراچی منتقل ہوئيں اور پھر اسلام آباد لوٹ آئيں جہاں وہ اپنی آخری سانس تک مقیم رہيں۔

ان کی زندگی میں ایک چھوٹا سا لیکن غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے جب وہ تقریباً پندرہ سال کے لیے لکھنا لکھانا معطل کر دیتی ہيں۔ اس بدنام ادبی قلم بستگی کو پدرسری سماجوں میں ایک شادی شدہ خاتون کی زندگی سے وابستہ فرسودگی سے جوڑا جا سکتا ہے، ليکن خالدہ نے ايسا کُچھ نہ کيا- انہوں نے کوئی خودنوشت نہیں لکھی اور نہ ہی کسی سیاسی، سماجی، ادبی یا فیمنسٹ تحریک سے تعلق رکھا۔ وہ ادبی اجتماعات سے الگ تھلگ رہنے کی عادی تھيں- انہوں نے کبھی کسی چھوٹے یا بڑے مسئلے پر اپنا مؤقف نہیں دیا، اسی ليے انہيں کسی تنازعے کا بھی سامنا نہیں رہا۔ ان کے بارے میں ایسا کوئی شور و غل سننے میں نہیں آتا جو کہ بیشتر فیمینسٹ ادیباؤں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔ واحد واقعہ جس سے وہ آنکھ نہیں چرا سکتی تھيں، وہ ان کے نوعمر بیٹے کی موت تھی جس نے اُنہيں بکھیر کر رکھ دیا تھا۔

خالدہ حسین کی کہانیاں عمومی فیمینسٹ خیالیوں سے تہی ہیں۔ اگرچہ ان کے افسانے ذات کے تاریک گوشوں کی کھوج اور تفتیش کے گرد گھومتے ہیں، وہ خود کو کسی فیمینسٹ گرد و پیش میں رکھ کے نہیں دیکھتی تھيں۔ وہ نسائیت سے شعوری طور پر دامن نہیں بچاتی؛ بلکہ وہ ایک بےصنف انسانی ذات کے ناز اٹھاتی معلوم ہوتی ہيں۔ اس طرح سے وہ اپنی متقدمین اور معاصر ادیباؤں سے ممیّز راستے پر گامزن نظر آتی ہيں۔

ایسا لگتا ہے کہ وہ انسانی وجود میں ایک ایسے ’براعظم ‘ کے وجود پر زور دیتی ہے جس پر صنف پہ مبنی شناختوں اور قیود کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کے مردانہ اور زنانہ کردار اس ’ براعظم ‘ کو دریافت کرتے، وہاں سکونت اختيار کرتے، سانس لیتے، اس کے گرد و پیش کو جذب کرتے ہیں تاکہ وہ ایک ’ ناقابل پیمائش ‘ تناظر سے اپنے آس پاس کی ہر شے کی تفتیش کر سکیں۔ ان کے سبھی چھ افسانوی مجموعے – پہچان (1981)، دروازہ (1984)، مصروف عورت (1989)، ہیں خواب میں ہنوز (1995)، میں یہاں ہوں (2005) اور جینے کی پابندی (2017) – اور ایک ناول کاغذی گھاٹ (2005) انسانی ذات کی کتھا سناتے ہیں۔

ایک طرح سے، وہ نئے اردو افسانے، جس کا آغاز 1960ء کی دہائی کے اوائل میں ہوا، کی طرف مائل ہوئيں۔ نیا اردو افسانہ، جس کا ظہور بیسویں صدی کے اوائلی عشروں میں سماجی اور سماج‌ وادی حقیقت پسندی کے خلاف بغاوت کے ساتھ ہوا، جو 1930ء کی دہائی میں ترقی پسند تحریک کے ظہور سے اپنے عروج کو پہنچا، اور کچھ مستثنیات کے ساتھ 1950ء کے عشرے تک جاری رہا۔ نیا اردو افسانہ، جسے علامتی افسانے کے نام سے بھی متعارف کرایا گیا، اس شخص کی ’منقسم، برگشتہ ذات‘ کی عکاسی کرنے کی غرض سے کہانی سنانے کی نئی تکنیکوں کو برتنے اور تجربہ کرنے پر مائل تھا، جو ایک طرف تو ایک شہری، صنعتی اور جبر کا شکار معاشرے میں رہ رہا ہے اور دوسری طرف ہجرت، شکست و ریخت اور نقل مکانی کا شکار ہے۔

وجودی ادیبوں، نئے نفسیاتی تصورات اور دنیا کی دیومالاؤں کے مطالعے کی بدولت نئے اردو افسانے کے ادیبوں کو اپنے بیانیہ اسلوب، پلاٹ، کردار بندی اور بست و بند کی صناعی میں مدد ملی۔ سطحی طور پر، یہ غیر سیاسی لگتا تھا لیکن اپنی تہہ میں، اس کا لب و لہجہ سیاسی ہی تھا۔

خالدہ حسین کی شروع شروع کی کہانیوں میں ہمیں انتظار حسین کے اسلوب کی کچھ واضح چھاپ ملتی ہے۔ یہ جادوئی حقیقت نگاری کا، خود اپنی ہی طرح کا ایک روپ تھا، اور اخلاقی و روحانی بحران کے مقابل ایک مستقل جدوجہد بھی تھا۔ جلد ہی وہ خود اپنا ایک راستہ ڈھونڈ کر اس پر چل نکليں۔ ان کے بہترین فنپاروں میں سے ایک ’ سواری ‘ ، ایک ايسی لکھاری کی کہانی ہے جو خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کے دیکھنے کی اپنی عادت سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب رہتی ہے۔ اس کہانی میں – تین نامعلوم آدمیوں، چھکڑے، صبح کے دھندلکے، دریائے راوی کے پل اور ایک انوکھی بُو – کی تصویر کشی کی گئی ہے جو پھر بہت سے معناؤں سے لبریز ہو گئی ہے۔

ان کا افسانہ حدوں کو مٹاتا ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے آپ واقعات کے بیان اور احساسات کے اظہار کے درمیان فرق نہیں کر پائیں گے۔ واقعات اور احساسات کے درمیان کا فرق بھی دھندلا ہے۔ یہ محض، ایک دوسرے سے جداگانہ دو دنیاؤں کا بازیچہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک وجودی لمحے کی تخلیق کا ایک طریقہ ہے جس میں ذات اور معاشرے، عقلیت اور تحت الشعور، حقیقت نگاری اور فراواقعیت کے درمیان ایک ملی بھگت رونما ہوتی ہے۔ ملی بھگت، جی ہاں۔ ذہن اور جسم، سادہ حسی ادراک اور ’ خالص عقلی علم ‘ کے درمیان دیرینہ چشمک، اور اشیاء اور الفاظ کے درمیان اولین تقسیم کہانی کے بیشتر خیالیے تشکیل دیتے ہیں۔

ان کی کہانیوں کی سب سے نمایاں خاصیت یہ ہے کہ ان میں بڑے، بنیادی انسانی سوالوں کو زندگی کے چھوٹے، سادہ اور عامیانہ واقعات کے ذریعے نبھایا گیا ہے۔ اس طرح وہ بقاء کے بنیادی انسانی مسئلے کو فانی، شکستنی اشیاء کے ذریعے سامنے لاتی ہيں-

ڈاکٹر محمد اجمل نے ان کی کہانیوں میں ’ داخلی خارجیت ‘ کی عین نشاندہی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ معروضی دنیا سے دامن نہیں بچاتيں؛ اس کی بجائے وہ اسے اپنی موضوعی دنیا یا وجود کے ذریعے گرفت میں لاتی ہيں- ان کا تصورِ وجود کسی فلسفیانہ نظریے پر مبنی معلوم نہیں ہوتا۔ ان کے لیے وجود وہ ہے جس کا ہمیں کسی خاص لمحے کے دوران، عام زندگی، روزمرہ واقعات، معمول کی، روزمرہ اشیا میں سامنا ہوتا ہے۔ چونکہ انکے افسانوں کے کرداروں اور ان کے ردعملوں کو سنبھالنے کے لیے انہیں گھیرے ہوئے کوئی سیاسی یا سماجی ہنگامے نہیں ہیں، سو انکی کہانیاں واضح طور پر سادگی بھری اور سیدھی سادی ہیں۔

در حقیقت اُنکی فکشن ہماری خارجی دنیا کی اس مرکزیت کی مرکزشکنی کرتی ہے جو پیوستہ طور پر دوسروں کا گھڑا ہوا، انسانی ذات، انسانی آرزؤں، انسانی ذات کے معتبر تجربے سے بالکل کٹا ہوا ہوتا ہے۔ انسانی وجود اشیاء، دوستوں دشمنوں، روزمرہ کے معمولی وقوعات اور زمانی رَو کی باڑھ میں گِھرا ہوا ہے۔ ’ زوال پسند عورت ‘ کی راوی ایک مکھی کی موت پر ماتمی ہے اور مکھی اور اپنے آپ کے درمیان کے وجودی فرق پر دکھ کے ساتھ غور کرتی ہے، البتہ ایک ایسا نکتہ بہرحال موجود ہے جہاں ایک مکھی اور نوع انسان کی منزل ایک ہو جاتی ہے۔ شہر کا قاضی انکے خلاف ایک فرد جرم جاری کرتا ہے کيونکہ، جبکہ ایک قومی بحران چل رہا تھا، وہ اس وقت ایک مکھی کے بارے میں سوچ رہی تھيں۔ یہاں، خالدہ اپنے ناقدوں کا جواب دیتی بھی نظر آتی ہيں, اور یہ اس بات کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ ایک معمولی مخلوق کی موت پر سوچ بچار ہم سب کے مقدر کا – چاہے بڑی مخلوقات ہوں کہ چھوٹی – کچا چٹھا کھول سکتی ہے-

چھوٹی چھوٹی، عامیانہ سی چیزوں کا وجودی طور پر بڑے، اساسی معنوں کا حامل بن جانا، خالدہ حسین کے فکشن کا طرۂ امتیاز ہے۔ چند کہانیوں میں وہ عظیم معنوں کی ترسیل کے لیے روزمرہ چیزوں کا علامتی اظہار کرتی ہيں؛ دوسری کچھ کہانیوں میں، وہ ایک خالص افسانوی گردوپیش تخلیق کرتی ہيں جو لوگوں اور چیزوں کے مابین ایسے ربط میں ڈوبا ہوتا ہے جو آشنایانہ بھی ہوتا ہے اور بے مہر بھی۔ ’ مصروف عورت ‘ اور ’ آدھی عورت ‘ کو اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کہانیوں کی عورت ایک ایسی عورت کی نمائندہ نہیں ہے جو پدرسری نظام کی ستائی ہوئی ہے، بلکہ وہ ہے جو مردانہ نسائیت اور نسائی مردانگی، تشخص اور حقیقی شخصیت، عظیم مثالیوں اور معمولی حقیقی ادراک کے بیچ تقسیم کی ماری ہے۔ ان کے مرکزی کردار (عورت ہوں یا مرد) ہمہ وقت کسی ’ مقام یا زمینے ‘ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جہاں وہ اپنی سچی، حقیقی اور مجرد ذات کے ساتھ سکونت اختیار کر سکیں، لیکن وہ ناکام رہتے ہیں۔

میں یہاں ہوں، دروازہ اور جینے کی پابندی میں، ان کے مرکزی کردار ذات کے حصے بخرے ہو جانے کے مستقل تجربے سے گزرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرار، کوئی رہائی، کوئی واحد حقیقت، حقیقت کا کوئی واحد نسخہ اور کوئی ’ مقام ‘ نہیں ہے۔ وہ کسی دوزخ کا حوالہ نہیں دیتں، بلکہ وہ یہ کہتی معلوم ہوتی ہيں کہ ہم ایک زندان جیسے مکان میں اپنی منقسم ذات کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔

کچھ کہانیوں میں، خالدہ حسین ذرا پیچیدہ انداز میں چیزوں کے عامیانہ پن سے بہت آگے نکل جاتی ہيں۔ ’ ہزار پایہ ‘ کے مرکزی کردار اور راوی کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اشیاء حقیقی ہوتی ہیں جبکہ ان کے اسماء ایک دوئی کا سبب بنتے ہیں۔ وہ ان تمام اشیاء کے اسماء اکٹھے کرنے لگتی ہے جن سے کبھی بھی اس کا پالا پڑا ہو۔ جب وہ تمام اسماء کے ناموں کا اندراج مکمل کر پاتی ہے، اسے یہ جان کر دھچکا لگتا ہے کہ وہ اس کے حافظے سے مٹ گئے ہیں۔ وہ اصل میں کس جگہ موجود ہیں؟ اس کے حافظے میں یا کاغذ پر؟ اپنی شَیئیت میں یا اپنے اسماء میں؟ اشیاء کے وجود کا دوہرا کردار اسے بھونچکا دیتا ہے؛ وہ جو پہلے ہی ایک سرطانی مرض میں مبتلا ہے، اشیاء کے عامیانہ پن کا ان کے مفہومِ محض، مطلق، کھرے، پراسرار، معتبر معنوں کے عوض سودا کر لیتی ہے۔

یہی خیالیہ نسبتاً کم پیچیدہ ڈھنگ میں سہی ’ جینے کی پابندی ‘ میں ایک بار پھر سامنے آتا ہے۔ مفہومِ محض کی تلاش میں فکشن لکھنے کے مابعد جدید انداز کی جھلک ملتی ہے۔

ماخذ: The News on Sunday

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search