منجمد لائبریری۔ تحریر: عثمان سہیل

 In یاد نگاری

لگ بھگ رُبع صدی  قبل  کم علم ہیلے کالج پنجاب یونیورسٹی سے  فارغ التحصیل ہوا تھا۔ طالب علمانہ دور کا بیشتر وقت نیوکیمپس میں نہر  کے بائیں کنارے یعنی ہاسٹل میں بسر کیا گیا۔ اس کی وجہ آپ بالکل جائز طور پر ہماری علم سے بےرغبتی سمجھ سکتے ہیں۔ ہم علم کے کبھی حریص نہ رہے تھے (اورہنوز نہیں  ہیں) اور  اس ضمن میں ہماری تعلیم پر معمور چند اساتذہ نے بھی ہمارا برابر کا ساتھ دیا۔ یہ وہ  تھے جو معلمانہ سرگرمی میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے تھے جتنے ہم علم کے طالب تھے۔ گویا جانبین میں باہم لحاظ کی وضع داری کا عنصر بدرجہ اُولٰی کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ چند ایک  وہ بھی تھے جو درس دینے تو پابندی سے آتے تھے مگر ان کی  معلمانہ استعداد ہماری طالبعلمانہ استعداد کی ہم پلہ تھی۔ بقیہ کے متعلق ہم وثوق سے اس لیے کچھ نہیں کہ سکتے ازبسکہ ان کی اور ہماری کلاس روم میں بیک وقت موجودگی کا حادثہ پیش نہ آسکا۔ یہ نہ سمجھیے کہ غیر حاضری پر کاروائی نہ ہوتی تھی۔ سالانہ امتحانات سے قبل شوریدہ سروں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے تھے،  وہ تمام شوریدہ سر جو باقاعدگی سے کمرہ جماعت میں بیٹھتے تھے ان پر زیادہ جرمانہ عائد ہوتا۔ اس کی ممکنہ توجیہہ یہی ہوسکتی ہے کہ کامرس کالج میں باریک کاروباری نکتہ سمجھانا مقصود تھا کہ کمرہ جماعت میں  بجلی و دیگر مدات میں جو کثیر مصارف ہوتے تھے  اس کے صارف یہی تھے چنانچہ وصولیابی بھی انہیں سے  ہوگی۔  تعلیمی سال کے اختتام پر ہمارے ایک ڈے سکالر دوست  جو حاضری میں بہت باقاعدہ تھے  جرمانہ کا واؤچر ہاتھ میں لیے  سخت پریشان نظر آئے۔ وہ  والدین  کی اس امر پر بازپرسی سے  ڈر  رہے تھے کہ گھر سے پڑھنے کے بہانے نکل کر کہاں مٹرگشتی کرتے رہے ۔

سال دوئم کا نتیجہ ہمارے لیے ایک عدد فوری اور ایک عدد دور رس نتیجہ کا حامل رہا۔  دو مضامین کا نتیجہ ممتحن حضرات کی طرف سے یونیورسٹی کو  تاخیر سے موصول ہوا۔ اس سبب ہمارے نتیجہ میں RL لکھا جانا تھا  تاہم ٹائپسٹ کی مستعدی سے ہمارے نام کے سامنے  UMC RL  ٹائپ ہوگیا  حالانکہ ناجائز ذرائع استعمال کرنے کا کیس قطار میں ہم سے پہلے بیٹھے امیدوار پر بنا تھا۔ اس نے غالبا تصحیح کی کوشش کی تھی تاہم ندامت کایہ داغ ہرچند کہ نہ رہا ہر چند کہ رہا۔ اخبار میں نتائج کی فہرست میں اپنا رول نمبر نہ پا کر کالج سے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کلرک نے یہ مژدہ جان لیوا  سنایا ساتھ ہی میرے تحیر بھرے استفسار پر ملامت کرنے لگا ”نقلاں ماردیاں پھڑے جاندے او تے کہندے او ایہہ کی ہویا“۔ نتیجہ نکلنے  کا دن  کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ یادش بخیر وہ شامِ  غم انارکلی بازار کے داخلی مقام پر واقع مثلث نما قطعہ سرسبز پر بیٹھ کر ڈن ہل کی ”پوری“ نصف ڈبیا ہوا میں مرغولے بنا کر اڑا کر منائی گئی۔ اُس سےاگلی شام کسی مہربان نے اپنے اندرونی ذرائع  بروئے کار لاتے ہوئے سیکریسی برانچ سے معلومات بہم پہنچا کر اس ڈرامہ کا ڈراپ سین کیا۔ قارئین، اس نتیجہ کا نتیجہ نہایت دُور رس ثابت ہوا۔ تاحال ہماری ڈگری کے ہم تک پہنچنے میں یونیورسٹی بیوروکریسی کے ترتیب دئیے گئے  گنجلک دفتری ضوابط رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہم ہر پانچ سات برس بعد بازیافت کی مہم پر نکلتے ہیں جو امتحانی برانچ اور ہیلے کالج کے مابین دائروی استدلال کی مانند گول گول گھومتی نتیجہ پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔

گذشتہ برس آخری کوشش کے دوران ایک بار پھر سے ہیلے کالج جانا ہوا۔ لائبریری کا دروازہ کھلا پا کر اندر سے دیکھنے کا تجسس ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں تمامتر سالخوردہ کُتب  بشمول انکم ٹیکس قوانین مجریہ ۱۹۹۲ کے مطابق ترتیب دی گئی کتاب ٹھیک اسی ترتیب جمی ہوئی تھیں جیسا کہ رُبع صدی قبل ہم دیکھا کیے۔ عینک کے عدسے صاف کیے جانے کے باوجود کسی کتاب یا مجلہ کو چھوئے جانے کے آثار ہویدا نہ تھے۔ یوں لگا جیسے لائبریری میں وقت مُنجمد ہوگیا ہو یا   یہاں نیوٹن کا انسانی ادراک سے ماورا مطلق زمان و مکاں کارفرما ہو۔

اس تفصیل کے بعد ان دوست احباب کی یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ  میں عاجزی کے ظاہری اظہار کے لیے خود کو کم علم لکھتا ہوں۔

Recommended Posts
Comments

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search