برصغیر میں شریعت کی استعمار کاری: وائل حلاق (ترجمہ: محمد بھٹی)

 In ترجمہ
[ملکِ عزیز میں نفاذِ شریعت کے عنوان پر گاہے بہ گاہے بحث و مباحثہ اور جلسہ و جلوس کی بساط بچھائی جاتی ہے جو ہماری ایمانی وابستگی کا اظہاریہ تو ہے مگر مسئلہ کا پائیدار حل قطعا نہیں ہے۔المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کے زیرِ اثر ہمارے ادراک میں شریعت کی موجودگی ایک ایسی قانونی اکائی کی حد تک ہے جسے جدید ریاست کا لے پالک بننے میں کوئی دقت نہیں،بنا بریں ہم کبھی چنگھاڑتے ہوئے تو کبھی بھنبھناتے ہوئے محض ’نفاذ‘ ہی کی بات کرتے ہیں۔طرفہ یہ ہے کہ اس ’نفاذ‘ کے لئے بھی ہم کوئی مضبوط لائحہ عمل تشکیل دینے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ کام ماضی و حال کے سنجیدہ علمی تجزیے کا متقاضی ہے جبکہ ہماری موجودہ علمی ثقافت ایسی کسی بھی سرگرمی کے امکان سے تاحال تہی ہے۔ ہم ماضی کے تجزیہ کا کام نوحہ سے جبکہ درپیش صورتِ حال کی تفہیم نعرہ سے کرنا چاہتے ہیں اور اگر نعرے اور نوحے کے اس ہنگام میں بھولے سے کوئی سنجیدہ سوال ہمارے شعور کے رو بہ رو آن کھڑا ہو تو ہم شعور کے دروازے بھیڑ دینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔پیشِ نگاہ تحریر کولمبیا یونیورسٹی میں قانونِ اسلام کے استاذ وائل حلاق کی کتاب ’’ An      Introduction      to      Islamic      Law ‘‘ کے ساتویں باب کی دوسری فصل ’’ The      British      in      India ‘‘ کا ترجمہ ہے۔مذکورہ فصل میں فاضل مصنف نے برصغیر میں اسلامی شریعت سے روا رکھے گئے استعماری طرزِ عمل اور اس کی اثر آفرینی کا نہایت دقتِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔تحریر جہاں ہمارے ماضی کی سنجیدہ تحلیل کا استقصاء کرتی ہے وہیں درپیش صورتِ حال کی تفہیم کے ابتدائی خطوط بھی ارزاں کرتی ہے۔مترجم]

ہندوستان میں اٹھارویں صدی سے پیشتر اور سلطنت عثمانیہ میں انیسویں صدی کے اوائل تک اسلامی قانون اور مقامی عرف و ریت نے بھرپور راج کیا۔یہ دونوں مدت مدید تک طریقِ زندگی بنے رہے۔مگر سترہویں صدی کے دوران برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کہ جس کا تنہا مقصد کاروباری منافع کا حصول تھا،کے ذریعے ہندوستان میں دراندازی کا آغاز کیا۔ڈیڑھ صدی تک شرق الہند کمپنی شدہ شدہ اپنے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے میں کوشاں رہی۔یہ کوشش ١٧٥٧ میں بارآور ہوئی اور اس نے تقریبا مکمل عسکری غلبہ حاصل کر لیا۔عسکری تسلط کے ساتھ ہی ہندوستان کی معاشی و قانونی استعمار کاری کے وسیع تر منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا گیا۔فرنگی سمجھتے تھے کہ کاروباری اور معاشی عزائم کی برآری مخصوص قانونی نظام کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہے،جو یوں تشکیل دیا گیا ہو کہ آزاد معاشی منڈیوں کو سہارنے اور ان کے ساتھ چلنے میں اسے کوئی دشواری نہ ہو۔بلاشبہ معاشی غلبے کا ڈھب قانون کے میدان ہی میں طے ہوتا ہے۔فرنگی کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ہمہ گیر تسلط قائم کرنے کے لئے ہونے والے اخراجات کو کیونکر کم کیا جائے۔یہی لالچ انہیں قانون کے کردار کو فزوں تر کرنے کی طرف لے گیا۔بلاشہ خوں آشام طاقت کے استعمال کی بجائے قانون کا استعمال اقتصادی طور پر کہیں ذیادہ سودمند تھا۔

بنا بریں قانون ہاتھ میں لیا گیا اور ١٧٧٢ میں وارن ہاسٹنگز(Warren      Hastings) کی بنگال میں بطور گورنر تعیناتی کے ساتھ ہی ہندوستان کی برطانوی طرز کی قانونی ترتیبِ نو کا آغاز کر دیا گیا۔ہاسٹنگز کی بنگال میں تعیناتی کے باعث پہلے پہل یہیں نام نہاد ہاسٹنگز پلان کی تنفیذ ہوئی۔اس پلان میں ایک ایسے قانونی نظام کا تصور پیش کیا گیا تھا جو انتظامیہ کے کئی مراتب و درجات پر مشتمل تھا۔اعلی درجہ محض برطانوی منتظمین کے لئے مختص تھا،دوسرا درجہ  برطانوی ججوں کا تھا جن کو اسلامی قانون کے دائرۂ کار کے تحت آنے والے مسائل میں مقامی قضاۃ اور مفتیان سے رہ نمائی لینا تھی۔اس عدالتی انتظامیہ میں فروتر درجہ ان معمولی حیثیت کے مسلمان ججوں کا تھا جو بنگال،مدراس اور بمبئی کی دیوانی عدالتوں میں قانون کی نظامت کرتے تھے۔اس پلان کی تہہ میں یہ مفروضہ بھی کارفرما تھا کہ مقامی عرف و رواج عدل کی برطانوی ادارہ جاتی ساخت کے ساتھ یک جان ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ساخت قانون کے ’آفاقی‘ معیارات کے تحت بروئے کار آئی ہے۔

مزید براں،ہاسٹنگز نے باج گیروں کو بھی قاضی القضاۃ کا عہدہ سونپ دیا جنہوں نے مسلمانوں پر اسلامی قانون اور ہندوؤں پر ہندو قانون لاگو کیا۔کہا جاتا ہے کہ اسلامی(اور ہندو) قانون کی حیرت انگیز لوچ داری اور قانونی آراء کے بے مثل تنوع نے برطانیہ کی عدالتی انتظامیہ کو ماؤف کر کے رکھ دیا تھا۔قانون کے انہی خواص سے زچ ہو کر برطانیہ نے مقامی ماہرینِ قانون کہ جن کی وفاداری کو ہر موقع پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،کو (قانونی نظام سے) الگ کر دینے کا فیصلہ کیا۔

آکسفورڈ کے ایک روایت دان اور سربرآوردہ مستشرق سر ولیم جونز(١٧٤٦-٩٤) نے اِس قانون سے نمٹنے کے لئے کہ جسے ناقابلِ انضباط سمجھا اور انفرادی قانونی آراء کے بے ہنگم ڈھیر کے طور پر دیکھا جاتا تھا،ہاسٹنگز کو یہ تجویز دی کہ اس کو ’’قانونی ضوابط‘‘ (Codes) کے قالب میں ڈھال دیا جائے یا اس کے اپنے الفاظ میں ’’اسلامی اور ہندو قانون کا مکمل خلاصہ(digest) ‘‘ (1) تیار کیا جائے۔ اسلامی قانون میں ضابطہ بندی کے اس اجنبی نظام کو راہ دینے کی جواز سازی اس دعوی کی بنیاد پر کی گئی کہ یہ قانون غیرمنظم،بے ربط اور الل ٹپ ہے۔چنانچہ فرنگیوں کو درپیش تحدی نے اس سوال کی صورت میں اظہار پایا کہ آخر مقامی سماج کی تفہیم کیسے ہو اور کیونکر انہیں قانونی طور پر ایک ایسے انداز میں منظم کیا جائے جو از روئے معیشت بھی نفع رساں ہو۔جزوی طور پر اسی سوال نے جونز کے اس عزم کی بھی صورت گری کی کہ کیوں نہ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے ’’ جو متعدد قانونی ضوابط کے مقامی شارحین کی کڑی نگرانی بھی کرے۔‘‘ (2)
ہاسٹنگز،جونز کی پیش کردہ تجویز سے خاصا متاثر ہوا۔اس تجویز سے پیشتر ہی اس نے چند ایک روایتی اسلامی قانونی متون کی انگریزی میں ترجمہ کاری کا حکم دے رکھا تھا،جس کا فوری مقصد اسلامی قانون کو برطانوی ججوں کی براہ راست دسترس میں لانا تھا کیونکہ وہ جج قانونی رہ نمائی کرنے والے مقامی مسلم ماہرینِ قانون سے بدظن ہو چکے تھے۔مزید براں فرنگیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ صرف ان چند ایک متون پر تکیہ کرنا فقہی اختلافات کے امکان کو بھی محدود کر دے گا۔ان کے نزدیک فقہی اختلافات مکروہ قانونی تکثیریت کے موجب تھے۔گزارش ہے کہ قانونی متون نہایت مختصر ہونے کے باعث براہ راست قانونی ضوابط قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔

جیسے ہی ترجمہ کاری مکمل ہوئی،اس کا نتیجہ اسلامی قانون کی ضابطہ بندی (Codification) کی صورت میں برآمد ہوا۔یہ منظر چشمِ فلک نے پہلی بار دیکھا تھا۔ترجمہ کاری اور ضابطہ بندی کے اس عمل نے متون کو ان کی عربی زبان کی تعبیری و تشریحی روایت سے بھی منقطع کر دیا۔اس انقطاع کا ایک ہی مطلب تھا کہ اب ان قانونی متون کو اس ڈھب پر کام کرنے سے روک دیا جائے جس پر وہ اب تک رو بہ عمل تھے۔نیز اس سرگرمی کے تین نمایاں پہلو تھے۔اولا، اس عمل کے ذریعے فرنگیوں نے روایتی قانونی نظام میں ذمہ داریاں نبھانے والے بلکہ اس نظام کے روحِ رواں کی حیثیت رکھنے والے مسلمان فقہاء اور مفتیان سے رستگاری پا لی۔ثانیا،اسلامی قانون رفتہ رفتہ ریاستی قانون میں تبدیل ہو گیا،نتیجتا قانونی اور عدالتی خودمختاری کا حامل سماج اساس قانونی شعبہ جدید ریاست کے کارپوریٹ اور منفک از سماج ذیلی ادارے میں تبدیل ہو گیا۔ثالثا،دریں اثنا مقامی قانون کی یوں کایا کلپ کی گئی کہ وہ بعینہ انگریزی قانون نہ بھی بنے تو اس کے جیسا ضرور بن جائے۔

علاوہ بریں،اس ترجمہ کاری مہم کا ایک ثمرہ عرفی قوانین کے استیصال کی صورت میں بھی نمودار ہوا۔عرفی قوانین کے خاتمے کا مقصد ان متنوع اور پیچیدہ قانونی اوضاع کی سادہ کاری یا یکساں سازی تھا جن سے نمٹنا فرنگیوں کے لئے ازبس ضروری تھا۔لہذا اسلامی قانون کو اس کے ایک اہم ستون،یعنی عرفی اور پنچائتی قوانین سے محروم کر دیا گیا۔یہ قوانین اطلاقی سطح پر شریعت کے ساتھ لپٹے ہوئے  تھے۔پس ترجمہ کاری کی اس سرگرمی نے اسلامی شریعت کو نہ صرف اس کی لسانیات پر مبنی تشریحی بنیادوں سے کاٹ دیا بلکہ اسے اس سماجی قالب سے بھی جدا کر دیا جس میں وہ پوری طرح سمائی ہوئی تھی اور جس پر اس کی فعلیت کا دار و مدار تھا۔

برطانوی ججوں کی طرف سے ترجمہ شدہ قوانین کے عملی اطلاق سے جو قانون برآمد ہوا اسے ’’ اینگلو محمڈن لاء‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایک ایسا لقب جو اسلامی قانون پر، اس کے عملی اطلاق میں،مسخ شدہ انگریزی قانونی تناظر کے حاوی ہو جانے کا پتہ دیتا ہے۔ نیز اس بات پر باقاعدہ دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں کہ اینگلو محمڈن لاء نے انگریزی قانونی تصورات پر اسلامی قانون کی چھاپ لگا کر انہیں جبرا نافذ کیا۔ ان تصورات میں عدل،انصاف اور روشن ضمیری کے نہایت موضوعی تصورات شامل ہیں۔

مزید براں،اینگلو محمڈن لاء پر حکمرانی بابت برطانوی تصورات کا اثر بھی کچھ کم نہ تھا۔ یہ تصورات قانون اور جدید ریاست کے باہمی ناتوں سے اخذ کیے گئے تھے۔بطور مثال عرض ہے کہ دو برطانوی گورنروں ہاسٹنگز اور کارن ویلس(Cornwallis) نے دیگر خطوں پر مسلط اپنے معاصرین ہی کی طرح قتل سے متعلقہ شرعی قانون کے مکمل متن کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ یہ قانون مقتول کے قرابت داروں کو بایں طور ماورائے عدالت مراعات فراہم کرتا تھا کہ اس میں ان کو سزا(قصاص،خوں بہا یا معافی)کے لاگو کروانے یا نہ کروانے کا اختیار  دے دیا گیا تھا کہ جیسے وہ مناسب سمجھیں فیصلہ کریں۔جبکہ قرابت داروں کو سونپے گئے اس حق پر تو محض ریاست کا اجارہ تھا،جس کو از روئے تعریف،تشدد برتنے کا جائز حق حاصل ہے۔ظلم و استبداد پر اجارہ داری کی مضبوط ریاستی ثقافت کی غمازی کرتے ہوئے کارن ویلس نے (اسلامی قانون کے خلاف) کچھ یوں دلائل ارزانی کی کہ اسلامی نظامِ قانون میں اکثر اوقات مجرم سزا سے بچ جاتے تھے۔ایسی صورتحال کو کسی ایسے نظام میں گوارا نہیں کیا جا سکتا تھا جسے کارن ویلس یقینا نہایت کارگر ریاستی نظم و ضبط کے طور پر دیکھتا تھا۔اس کی یہ بات ہاسٹنگز کی اسی شکایت کی بازگشت ہے کہ ’’ اسلامی قانون انتہائی بے ہنگم اور غیر موثر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت رحم پرور اصولوں اور خوں ریزی سے کراہت پر مبنی تھا۔ ‘‘ (3)(لطف کی بات یہ ہے کہ ١٩٧٠ کے بعد سے اسلامی شریعت بارے مذکورہ استعماری بیانیہ یکسر پلٹ گیا۔)

چنانچہ ١٧٩٠ سے ١٨٦١ کے دوران جنایات سے متعلقہ اسلامی قانون برطانوی فوجداری قانون سے بدل دیا گیا،اس کے بعد اسلامی فوجداری قانون کی تنفیذ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ایک تاریخ دان دقتِ نظر کا مظاہرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’[ہندوستان میں] برطانوی نظامِ عدل-عملی مشق اور اصول،ہر دو لحاظ سے-اسلامی نظامِ عدل سے بڑھ کر سخت گیر ثابت ہوا۔اس کا رجحان سزائے موت کی طرف کہیں ذیادہ تھا اور سماج اساس تصفیوں سے وہ خاصا نفور تھا۔۔۔۔۔[ایسٹ انڈیا کمپنی] کو [فراہمیِ انصاف سے ذیادہ] عوامی نظم و ضبط سے دلچسپی تھی۔قدیم نظام کے برعکس اپنی تجارت،کاروبار اور حاکمیت بچانے کی خاطر قانون کا مخصوص استعمال اس کا منتہائی مطمح نظر تھا‘‘ (4)

اینگلو محمڈن لاء اور اس کے ترجمہ شدہ متون کے سبب ایک اور اہم تبدیلی،اسلامی قانون کی من حیث المجموع جامد کاری کی صورت میں نمودار ہوئی۔Stare      decisis(عدالتوں کو اس بات کا پابند بنانا کہ وہ اعلی عدالتوں کے گزشتہ غیر متنازع فیصلوں کی پابندی کریں گی) کے نظریے کو اپنانے سے یہ جمود فزوں تر ہو گیا۔عرض ہے کہ یہ نظریہ(ما قبل جدید دور کی) اسلامی روایت میں پنپ سکتا تھا مگر خوش قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔شریعت نے قانونی رائے دہی کا اختیار اور سب سے اہم یہ کہ منصبِ اجتہاد قاضی کی بجائے مفتیان اور فقہاء کو سونپ رکھا تھا۔ہر چند کہ(ماقبل جدید) قاضی بھی قانون کے اتنے ہی عالم تھے جس قدر (جدید) برطانوی جج مگر(اسلامی روایت میں) ان کی اس اہلیت کو قانون ’’سازی‘‘ کے لئے کافی نہ گردانا گیا۔ گزارش ہے کہ لسانیات پر مبنی قانونی تشریح ہی وہ اہم خصوصیت ہے جو اسلامی قانون کو جدید ضابطہ بند قانونی نظاموں سے ممتاز کرتی ہے۔اسی خصوصیت نے اسلامی قانون کو تاجوری عطا کیے رکھی اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ گوناگوں اور بوقلموں ثقافتوں،ذیلی ثقافتوں،مقامی اخلاقیات اور عرفی رواجوں کو خود میں سمو سکے۔جاوا،ملیبار،شام اور  مراکش میں اظہار پانے والے ریت رواج اس کی عمدہ مثال ہیں۔لیکن جہاں تک عدالتی طریقِ کار کا تعلق ہے تو قاضی کو عدالتی نظائر(precedents) کے برطانوی نظریے کے تحت فیصلہ سازی پر مجبور کر کے اسے سابقہ طور پر میسر فقہی آراء کی اس دراز فہرست سے محروم کر دیا گیا جس میں سے وہ کسی ایک رائے کو، مقدمہ میں پیش کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں چنا کرتا تھا۔مقدمات میں متعین شدہ قانون کو لازم ٹھہرا دیے جانے سے،جیسا کہ برطانوی عدالتوں میں ہونے کو تھا،مسلمان مفتیان اور فقہاء کی تواتر کے ساتھ بروئے کار آنے والی تشریحی سرگرمیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ان کی تشریحات قانون اور سماج دونوں سے یکسر لاتعلق ہو کر رہ گئیں۔

اینگلو محمڈن لاء میں نظریۂِ نظائر کو تقدیس کے سنگھاسن پر براجمان کر دینے سے قانونی منابع یکسر تحول پذیر ہو گئے۔اینگلو محمڈن لاء کے قانون دانوں اور ججوں پر یہ لازم ٹھہرا دیا گیا کہ وہ فیصلہ سازی کے لئے منبعِ شریعت کی حیثیت رکھنے والے متون(قرآن و سنت) کی جدلیات اور مخصوص تناظر کے حامل معاشرتی و اخلاقی مقتضیات سے استناد پانے والے فقہی قواعد و مراجع کو تیاگ کر اعلی عدالتوں،اعلی تر عدالتوں اور پھر اس مجلسِ مشاورت(Privy      Council) کے فیصلہ جات کو مد نظر رکھیں جو دہلی یا بمبئی نہیں لندن میں براجتی تھی۔یہ مجلسِ مشاورت استعمار گزیدہ مقامی باشندوں سے نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے منقطع تھی بلکہ ان کے حقیقی مسائل سے بھی یکسر ناآشنا تھی۔

حسبِ توقع،انیسویں صدی کے دوسرے وسط میں،خصوصا ١٨٥٧ کی بغاوت کے عہد ساز اثرات کے بعد،اینگلو محمڈن لاء کے ایک بڑے حصے کو برخاستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ساٹھویں اور سترہویں دہائی نے جہاں غلامی کا خاتمہ دیکھا وہیں اسلامی قانونِ ضابطۂ(Procedural      Law)،قانونِ فوجداری اور قانونِ شہادت کی تنسیخ کا بھی نظارہ کیا۔یہ تمام قوانین،برطانوی مجموعۂ ضوابط کے زائدہ قوانین سے بدل دیے گئے۔صدی کے اواخر تک،عائلی قوانین اور جائے داد کی خرید و فروخت سے متعلقہ کچھ قوانین کے علاوہ تمام تر مقامی قوانین کی فرمانروائی برطانوی قانون نے ہتھیا لی تھی۔تدریجی طور پر متعارف کروائی گئی یہ سب تبدیلیاں دراصل اس برطانوی اضطراب کی تسکین کا بہانہ تھیں جو بالخصوص ١٨٥٧ کے بعد ہندوستانی مقبوضہ جات اور بالعموم ان دیگر برطانوی مقبوضات،جو کمپنی کے عہد سے گزر کر براہ راست لندن کے زیر نگین آ چکے تھے،پر ہمہ گیر تسلط کی خواہش سے ابھرا تھا۔تسکین کا یہ حیلہ گاہے ہنگامی بنیادوں پر بروئے کار لایا گیا تو گاہے اسے معمول کی کارروائی کا درجہ دیا گیا۔اس تمام تر منظر نامے میں،اینگلو محمڈن لاء کی حیثیت معاشی،سیاسی اور قانونی طاقت کے استحکام کے لئے بروئے کار لائی گئی استعماری سرگرمی کے محض ایک عبوری مرحلہ کی تھی۔

1-B.     Cohn,     Colonialism      and      its      Forms      of      Knowledge:      The      British      in      India     (Princeton:      Princeton      University      Press,      1996),     69.

2-ایضا

نیز دیکھیے:R.     S      Khare کی مرتب کردہ کتاب Perspectives      on      islamic      law,     Justice      and      Society     (Lanham,     MD:Rowman      & Littlefield,     1999),     74 میں Michael      Anderson کا مضمون “Legal      Scholarship      and      the      Politics      of      Islam      in      British      India

3-Nicholas      Dirks,     The      Scandal      of      Empire:      India      and      the      Creation      of      Imperial      Britain     (Cambridge,      MA:      Belknap      Press,     2006),     221.

4-ایضا

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search