شعور انسانی پر استعمار کی لسانی تاخت: وا تھیونگو نگوگی (ترجمہ: محمد بھٹی)

 In ترجمہ
پیش نظر مضمون معروف کینیائی لیکھک اور ناول نگار وا تھیونگو نگوگی کی کتاب ’’Decolonising  The  Mind  ‘‘ سے اخذ کردہ ایک مضمون کا آزاد ترجمہ ہے۔مضمون میں فاضل مصنف نے استعماری تعلیم گاہوں میں مقامی روایات،اقدار اور ثقافتوں کی بذریعہ زبان نسل کشی کے اسباب و عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔مضمون کا عنوان مترجم کا تجویز کردہ ہے۔

 

میرا جنم ایک کثیر الافراد  دیہی کنبے میں ہوا جو میرے والد،انکی چار عدد بیگمات اور لگ بھگ اٹھائیس بچوں پر مشتمل تھا۔میرا تعلق،جیسا کہ ان دنوں سب ہی کا ہوا کرتا تھا،ایک وسیع و عریض خاندان اور سماج سے تھا۔

گیکیو(ایک مقامی زبان) کاشتکاری ہی کی طرح ہمارے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ہم درون و بیرونِ خانہ یہی زبان بولا کرتے تھے۔آگ سینکتے ہوئے قصہ گوئی میں بِتائے گئے حسین جھٹپٹوں کی مہک آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ  یادوں کے آنگن کو مشکبار کرتی ہے۔یہ قصے کہانیاں عموماً بڑے بچوں کو سنایا کرتے تھے تاہم یہ سرگرمی اپنے دامن میں ہر سِن کے افراد کے لئے برابر سامانِ دلچسپی لیے ہوئے تھی۔اگلے روز ہم وہ کہانیاں ان بچوں کے روبرو دہراتے جو یورپی اور افریقی زمینداروں کے کھیتوں میں پھول،چائے کی پتیاں یا کافی کے دانے چننے میں مشغول ہوتے تھے۔

یہ تمام کہانیاں گیکیو زبان میں سنائی جاتی تھیں۔علاوہ ازیں ان کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ ان کے تمام نمایاں کردار جانوروں کو سونپے گئے تھے۔نحیف اور ٹھنگنا مگر تخلیقی فراست اور چابک دستی سے بھرپور ایک خرگوش ہمارا ہیرو تھا۔شیر،تیندوے اور لگڑ بھگے ایسے شکاری درندوں کے مدِ مقابل اس کی جدوجہد پر فریفتہ ہو کر ہم خود کو اس میں تلاشتے تھے۔گویا اس کی فتح ہماری ہی فتح تھی۔ہم نے اس خرگوش سے یہ سبق لیا کہ ظاہرا ناتواں دکھائی دینے والا پیکر کیسے ایک قوی پیکر کو مات دے سکتا ہے۔جھڑی،خشک سالی،چلچلاتی دھوپ اور باد صرصر جیسی قدرتی آفات کے رو بہ رو ان جانوروں کی مزاحمت خاصی جاذبِ اعتناء تھی۔یہی رزم آرائی اکثر اوقات انہیں باہمی تعاون کی صورتیں تلاش کرنے پر آمادہ کرتی تھی۔بایں ہمہ ہمیں ان کی ایک دوجے کے خلاف کی جانے والی پلٹ جھپٹ میں بھی خاصی دلچسپی تھی،بالخصوص شکاری درندوں اور شکار کے درمیان وقوع پذیر جھڑپیں ہمیں خوب مرغوب تھیں۔قدرت اور دوسرے جانوروں کے خلاف ان کی یہ داستانوی پیکاریں، انسانوں کی حقیقی زندگی میں رونما ہونے والی مزاحمتی سرگرمیوں کا پرتو محسوس ہوتی تھیں۔

ایسا نہیں تھا کہ ہم نے انسانی کرداروں پر مشتمل کہانیوں سے پہلو تہی کر رکھی تھی،انسان مرکز داستانوں میں دو قسم کے کردار نمایاں تھے:

1۔جرات آزمائی،دردمندی،رحم دلی،زشت بیزاری اور بندہ پروری جیسی صفات حمیدہ کے حامل راست باز انسان

2۔طمع آفرینی،خودغرضی،مطلب براری،فساد جوئی سے لبریز نفاق پرور اور انسان دشمن،انسان

باہمی تعاون،حتمی سماجی خیر کے طور پر مستقل موضوعِ داستان تھا۔یہی حتمی خیر بھوت پریت اور شکاری عفریت کے خلاف انسانوں اور جانوروں کو متحد کر سکتی تھی جیسا کہ ایک کہانی میں بیان ہوا کہ کیسے ایک فاختہ کو تخم ارنڈی کھلا کر اس آہن گر کی تلاش کو بھیجا گیا کہ جس کی حاملہ بیوی کو دو مونہے آدم خود عفریت سے خطرہ لاحق تھا جبکہ وہ آہن گر اپنے گھر سے کوسوں دور اپنے کام کاج میں مشغول تھا۔

ہمارے یہاں ماہر اور اناڑی،ہر دو قسم کے داستان گو پائے جاتے تھے۔اچھا داستان گو ایک ہی کہانی یوں بارہا سنا سکتا تھا کہ وہ کہانی سامعین کو ہر مرتبہ ایسے تازہ اور آب دار محسوس ہو گویا پہلی بار پردہ سماعت سے ٹکرائی ہے۔اسی طرح وہ کسی دوسرے قصہ گو کی کہانی کو بھی مزید پرلطف اور سنسنی خیز بنا سکتا تھا۔طاق اور اناڑی داستان گو میں فرق دراصل الفاظ و تماثیل کے استعمال اور مختلف آہنگ پیدا کرنے کے لئے اپنائے گئے صوتی زیر و بم میں تھا۔

بنا بریں ہم نے لفظوں کو ان کے معانی اور لطیف و دقیق معنوی امتیازات کے لئے اہمیت دینا سیکھا۔زبان محض لفظوں کی مالا نہیں تھی بلکہ متبادر و لغوی معانی کے پہلو بہ پہلو اچھی خاصی تجویزی قوت کی حامل بھی تھی۔زبان کی اس سحر انگیز تجویزی قوت سے ہم خوب محظوظ ہوتے اور پہیلیوں،کہاوتوں،ہجوں کی الٹ پھیر اور بے معنی مگر لے دار الفاظ پر مشتمل مختلف لفظی کھیلوں نے ہماری اس لطف اندوزی کو دوچند کر دیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے اپنی زبان کی موسیقی اور لے داری خوب دھیان سے سیکھ لی تھی۔اس زبان نے مختلف تماثیل اور علامات کے ذریعے ہمیں جہاں بینی کا ایک تناظر اور چوکھٹا فراہم کر دیا تھا تاہم وہ اپنی ذات میں بھی ایک نوع کی خوبصورتی پنہاں رکھتی تھی۔اس وقت گھر اور کھیت ہمارے لیے پیش ابتدائی مدرسہ کی حیثیت رکھتے تھے تاہم اس ساری گفتگو میں جو چیز غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ خواہ ہماری شام کی تعلیمی نشستیں ہوں، معاشرتی گفت و شنید ہو یا پھر کھیتوں میں کام کاج کے دوران ہونے والی گپ شپ،ان سب سرگرمیوں میں ایک ہی زبان برتی جاتی تھی۔

لیکن پھر یوں ہوا کہ میرا داخلہ ایک نوآبادیاتی سکول میں ہوجانے سے یکا یک یہ لسانی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔اب میری تعلیمی زبان میری ثقافتی زبان نہیں تھی اور میری ثقافتی زبان میری تعلیمی زبان نہیں تھی۔میں پہلے پہل کماندرہ(kamaandura) نامی ایک مشنری ادارے میں داخل ہوا  بعد ازاں ایک دوسرے مشنری ادارے مانگو(maanguu) میں داخل کروا دیا گیا جو آزاد گیکیو  میں چار سو پھیلے ہوئے قوم پرستوں اور  karinga  schools association نامی ایک تنظیم کے زیر انتظام تھا۔تاہم تاحال ہماری تعلیمی زبان گیکیو ہی تھی۔مجھے گیکیو زبان ہی میں مضمون نگاری کے صلہ میں زندگی کا پہلا انعام ملا تھا۔ اسکول کے ابتدائی چار برس میری تعلیمی اور مادری زبان ایک ہی رہی۔

1952 میں کینیا میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی قوم پرستوں کے زیر انتظام تمام اسکولز استعماری حکومت نے انگریزوں کی سرکردگی میں چلنے والے ضلعی تعلیمی وفاقوں کے حوالے کر دیے۔یوں میری رسمی تعلیم کی زبان انگریزی ہو گئی۔کینیا میں انگریزی اب دوسری زبانوں کی مانند کوئی عام زبان نہ رہی تھی بلکہ اسے ایک امتیازی شانِ تقدس حاصل ہو گئی لہذا ہر کس و ناکس کے لئے لازم تھا کہ اس کے رو بہ رو کورنش بجا لاتے ہوئے سرِ نیاز خم کر دے۔

چنانچہ اسکول کے قرب و جوار میں گیکیو بولتے ہوئے پکڑے جانا باعثِ عار جرم قرار پایا اور ’’مجرم‘‘ کے لئے جسمانی سزائیں تجویز ہوئیں۔یا تو اس کے برہنہ چوتڑوں پر تین سے پانچ بید برسائے جاتے یا پھر اسے اپنے گلے میں ایسی لوح لٹکانے پر مجبور کیا جاتا جس پر ’’میں احمق ہوں،میں گدھا ہوں‘‘ جیسے جملے کندہ ہوتے۔بسا اوقات مجرموں پر بھاری بھرکم جرمانہ عائد کر دیا جاتا جو وہ بمشکل ہی چُکا پاتے۔مجرموں کو پکڑنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اساتذہ کی طرف سے دن کے آغاز ہی میں ایک بٹن کسی ایک طالب علم کو تھما دیا جاتا تھا اور اسے اس بات کا پابند بنایا جاتا کہ وہ یہ مخصوص بٹن اُس طالب علم کے حوالے کرے گا جو مادری زبان بولتا ہوا دکھائی دے۔دن کے اختتام پر حاملِ بٹن طالب علم کو بتانا ہوتا تھا کہ اسے یہ بٹن کس نے تھمایا تھا لہذا یکے بعد دیگرے اس دن کے تمام مجرمین نمودار ہو جاتے۔اس ساری تفتیشی سرگرمی سے بچے شکاریوں میں تبدیل ہو گئے اور انہیں اپنے ہی لوگوں سے غدر و خیانت سکھلائی جانے لگی اور اس غدر و خیانت میں پوشیدہ منافع کی اہمیت بتلائی جانے لگی۔

البتہ انگریزی کے متعلق انتظامیہ کا رویہ بالکل برعکس تھا۔انگریزی بول چال یا مضمون نگاری میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے والے طلبہ کو شرفِ پذیرائی بخشا جاتا اور انہیں خوب خوب انعامات اور مراعات سے نوازا جاتا۔انگریزی میں کارہائے نمایاں کی انجام دہی گویا خود کو بااثر و چنیدہ بنانے کے مترادف تھا۔سائنس،آرٹس بلکہ تمام تعلیمی شعبہ جات میں ذہانت اور قابلیت ماپنے کا حتمی مقیاس انگریزی تھی۔ تعلیمی زینے پر چڑھنے والے کسی بھی بچے کی ترقی میں انگریزی کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی۔

استعمار کا تعلیمی نظام،جیسا کہ آپ جانتے ہیں،اپنے نسلی تعصبات کے پہلو بہ پہلو مخروطی ساخت کا حامل بھی تھا۔وہ کچھ یوں کہ اس کی بنیاد(ابتدائی سکول) کشادہ، وسطی حصہ(ثانوی سکول) قدرے تنگ اور بالائی حصہ(یونیورسٹی) مزید تنگنائی کا حامل تھا۔ابتدائی سکول کے طلبہ کا ثانوی سکول کے لئے انتخاب بذریعہ امتحانات عمل میں لایا جاتا تھا۔ہمارے دور میں اس امتحانی عمل کو ابتدائی افریقی امتحانات کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا،جس میں ایک طالب علم کے لیے ریاضی سے لے کر مطالعہ فطرت تک کے چھ مضامین میں پاس ہونا ضروری تھا۔تمام سوالیہ پرچہ جات انگریزی میں ہوتے تھے۔انگریزی میں ناکام ہونے والا طالب علم امتحانات پاس نہیں کر سکتا تھا خواہ دیگر مضامین میں اس نے کتنی ہی شاندار کارگردگی کیوں نہ دکھائی ہو۔مجھے یاد ہے سن 1954 میں میرے ایک ہم جماعت نے تمام مضامین میں امتیازی حیثیت حاصل کی مگر انگریزی میں ناکامی کی وجہ سے اسے مجموعی طور پر ناکام قرار دیا گیا۔چنانچہ اس نے پڑھائی ترک کی اور ایک بس کمپنی میں کنڈکٹری کرنے لگا۔اس کے برعکس تمام مضامین میں فقط اوسط درجے کے نمبرز لینے کے باوجود صرف انگریزی میں اچھے نمبروں کی وجہ سے مجھے الائنس ہائی سکول نامی ادارے میں داخلہ مل گیا جو کہ استعماری کینیا میں افریقی باشندوں کی تعلیم کے لئے قائم کردہ ایک ممتاز تعلیمی ادارہ تھا۔مکیریرے(Makerere) نامی یونیورسٹی کالج میں داخلہ کے لئے بھی کچھ ایسی ہی شرائط تھیں۔ہر اس طالب علم کے لئے انڈر گریجویٹس والا سرخ چوغہ پہننا لازم تھا جو انگریزی میں نمایاں نمبر __ پاسنگ بھی نہیں __ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہو۔یعنی اس مخروطی نظام میں جو جگہ سب سے ذیادہ خواہش کردہ تھی وہ اسی کو میسر تھی جو انگریزی میں نمایاں حیثیت کا حامل ہو۔استعمار کے منتخب کردہ اس پرشکوہ مقام تک رسائی کا واحد نسخہ اکسیر انگریزی تھا۔

اب ادبیات کا معیار بھی صرف غالب و متسلط زبان ہی طے کرتی تھی دراں حالیکہ اس غلبہ و تسلط کو مسلسل افزونی بھی بخشی جا رہی تھی۔کینیائی لوک کہانیوں اور گیتوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ابتدائی درجات میں اب میں ڈکنز(Dickens)، سٹیونسن(Stevenson) اور ہیگارڈ(Rider  Haggard) کو پڑھتا تھا۔دنیائے تخیل میں شیر،چیتے اور خرگوش کی بجائے اب میرے رفیقِ طریق جم ہاکنز،اولیور ٹوسٹ اور ٹام براون تھے۔ثانوی درجات میں رائڈر ہیگارڈ،جون بُچن،ایلن پیٹن،کیپٹن ڈبلیو ای جونز کے پہلو بہ پہلو سکاٹ اور جی بی شاہ پڑھنے کو ملے۔مکیریرے یونیورسٹی میں مَیں نے چاوسر سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ تک کو پڑھا اور ساتھ میں گراہم گرین کی جھلک بھی نظر نواز ہوئی۔

زبان و ادب ہمیں ہم ہی سے دور اور غیروں کے قریب کر رہے تھے۔وہ ہمیں کشاں کشاں ہماری دنیا سے کسی دوسری دنیا کی طرف لیے جا رہے تھے۔

آخر یہ نوآبادیاتی نظام ہم کینیائی بچوں کے ساتھ کر کیا رہا تھا؟مقامی زبان و ادب کی نظاماتی سرکوبی اور انگریزی زبان و ادب کے ارتفاع کے کیا انتاجات برآمد ہوئے؟ جواب ارزانی سے پیشتر، زبان کی انسانی تجربات،ثقافت اور شعورِ حقیقت سے نسبتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

کوئی بھی زبان دوگانہ حیثیات کی حامل ہوتی ہے۔

1۔وسیلہ ابلاغ

2۔حاملِ ثقافت

مثلا آپ انگریزی ہی کو لے لیجئے۔یہ برطانیہ میں بھی بولی جاتی ہے اور سویڈن و ڈنمارک میں بھی لیکن سویڈن اور ڈنمارک کے باشندوں کے لئے یہ محض غیر اسکینڈیائی لوگوں سے بات چیت کا ایک ذریعہ ہے۔یہ ان کی تہذیب و ثقافت کی بارگِیر نہیں ہے۔لیکن اہلِ برطانیہ،بالخصوص انگریزوں کے لئے یہی انگریزی زبان غیر منفک طور پر آلہ ابلاغ ہونے کے ساتھ ساتھ حاملِ تہذیب و ثقافت اور بارگیرِ تاریخ بھی ہے۔یا پھر مشرقی اور وسطی افریقہ میں بولی جانے والی سواحلی زبان کو لیجئے۔یہ وسیع پیمانے پر مختلف قومیتوں میں وسیلہ ابلاغ کے طور پر مستعمل ہے،لیکن یہ ان میں سے بہت سی قومیتوں کی تاریخ و ثقافت کی باربردار نہیں ہے۔البتہ کینیا اور تنزانیہ کے بعض حصوں،بالخصوص زنجبار میں سواحلی غیرمنفک طور پر دونوں حیثیتوں کی حامل ہے۔یعنی جن باشندوں کی یہ مادری زبان ہے ان کے لئے یہ آلہ ابلاغ بھی ہے اور ان کی تہذیب و ثقافت کی باربردار بھی ہے۔

بحیثیت ابلاغ کوئی بھی زبان تین پہلووں یا اجزاء کی حامل ہوتی ہے۔پہلا پہلو وہی ہے جسے کارل مارکس نے حقیقی زندگی کی زبان کہا ہے،جو پورے تصورِ لسان کی بنیادہے اور لسان کے منشاءِ انتزاع اور اس کے ارتقاء کی اساس ہے۔زبان کا یہ بنیادی و جوہری پہلو یا جزء وہ رشتے ہیں جن میں لوگ دورانِ کام کاج ایک دوسرے سے بندھتے ہیں،وہ سابقے اور تعلقات ہیں جو کسی بھی انسانی سماجی تفاعل کے دوران،مال و دولت یا وسائلِ حیات مثلا کھانا،کپڑا اور گھر بناتے ہوئے آپس میں قائم کیے جاتے ہیں۔ایک انسانی سماج اپنی تاریخی ہستی کا آغاز پیداکاری  میں باہم متعاون سماج کے طور پر کرتا ہے۔پیداکاری میں یہ تعاون تقسیمِ کار کے ذریعے قائم ہوتا ہے جس میں سے سب سے سادہ تقسیم گھر میں مرد،عورت اور بچے کی تقسیم ہے۔اس سے قدرے پیچیدہ تقسیم ہائے کار وہ ہیں جو پیداکاری کے مختلف شعبہ جات کے مابین واقع ہوتی ہیں جیسے شکار کرنے والے، پھل توڑنے اور اکٹھے کرنے والے یا دھاتوں کی کانوں میں کام کرنے والے وغیرہ۔پھر سب سے پیچیدہ تقسیم کار آتی ہے،یہ ان لوگوں کے درمیان واقع ہوتی ہے جو مثلا آج کل ان جدید کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں کہ جہاں ایک ہی مصنوع مثلا قمیص یا جوتا کئی ایک دماغوں اور ہاتھوں کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔(گزارش ہے کہ)پیداکاری تعاون کا نام ہے،ابلاغ سے عبارت ہے،زبان کو کہتے ہیں۔پیداکاری انسانی تعلقات کا اظہار ہے اور انسان ہی کے ساتھ خاص ہے۔

بحیثیت ابلاغ زبان کا دوسرا پہلو نطق و تقریر ہے اور یہ حقیقی زندگی کی زبان کی ناقل ہے۔اور وہ زبان پیداکاری کا ابلاغ(انسانی تعلقات) ہے۔لفظی علامات اس ابلاغ کے پرتو ہیں یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ وسائلِ حیات کی پیداکاری واسطے قائم کردہ انسانی تعلقات کے پرتو بھی ہیں اور مددگار بھی۔زبان،لفظی علامات کے ایک نظام کے طور پر پیداکاری کو ممکن بناتی ہے کیونکہ لفظِ منطوق کو انسانوں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں وہی حیثیت حاصل ہے جو فطرت اور انسان کے تعلقات میں ہاتھ کو حاصل ہے۔جس طرح ہاتھ مختلف آلات کی مدد سے انسان اور فطرت کے درمیان واسطہ بن کر حقیقی زندگی کی زبان تشکیل دیتا ہے بعینہ اسی طرح منطوق الفاظ انسانوں کے مابین واسطہ بن کر نطق و تقریر کی زبان تشکیل دیتے ہیں۔

تیسرا پہلو مکتوب یا تحریری علامات ہیں۔مکتوب،منطوق ہی کی نقل کرتا ہے۔جہاں زبان بحیثیت ابلاغ کے اول دو پہلو یعنی ابلاغ بذریعہ ہاتھ اور ابلاغ بذریعہ منطوق تاریخی طور پر کم و بیش بہ یک آن ارتقاء پذیر ہوئے ہیں وہیں زبان کا یہ تیسرا پہلو یعنی مکتوب،تاریخی کینوس پر خاصی تاخیر سے نموپذیر ہوا ہے۔(عرض ہے کہ)کتابت آوازوں کو مرئی علامات کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے،عام ازیں کہ وہ ریوڑ میں نمبر بتانے کے لئے گڈریوں کے مابین استعمال ہونے والی سادہ گِرہ ہو،کینیا کے کیکویو قبیلہ کے شاعروں اور گویوں کے درمیان مستعمل فرضی علامات ہوں یا پھر حروف و اشکال کی کتابت پر مبنی سب سے پیچیدہ نظامِ کتابت جو آج دنیا میں مروج ہے۔

اکثر معاشروں میں ایک ہی زبان مکتوب بھی ہوتی ہے اور منطوق بھی ہوتی ہے۔گویا مکتوب و منطوق دونوں ایک دوسرے کے لئے بیان کنندہ ہوتے ہیں۔صفحے پر ثبت الفاظ دوسرے کو پڑھ کر سنائے جا سکتے ہیں اور سامع اُسی زبان کی صورت میں ان کا ادراک کر سکتا ہے جسے وہ بچپن سے بولتا آیا ہے۔ایسے معاشرے میں ایک بچے کے لئے زبان بحیثیت ابلاغ کے تینوں پہلووں کے مابین وسیع یگانگت و وحدت پائی جاتی ہے۔فطرت اور دیگر انسانوں کے ساتھ اس بچے کے تعامل کا اظہار ایسی مکتوب و منطوق علامات و نشانات میں ہوتا ہے جو کہ اسی انسانی تعامل و تفاعل کا نتیجہ و پرتو ہیں۔بچے کی قوتِ مدرکہ اس کی تجرباتی زندگی کی زبان سے ہی مربوط ہوتی ہے۔

انسانوں کے مابین ہونے والا ابلاغ ارتقاء پذیر ثقافت کی بنیاد بھی ہے۔تلونات،مخصوص طریقہ کار،حرکات و سکنات اور وزن و آہنگ میں یکسانیت کے حامل اعمال کی یکساں نوعیت کے ماحول میں پیہم انجام دہی سے عادات و اطوار اور تجربات و علم ظہور پاتے ہیں۔بعد ازاں یہ تجربات آنے والی نسلوں کو سونپ دیے جاتے ہیں اور پھر یہی تجربات فطرت اور خود انسانوں پر وقوع پذیر انسانی افعال کی موروثی بنیاد بن جاتے ہیں۔اس تمام سلسلہ ہائے عمل کے ضمن میں ایک تدریجی ارتکازِ اقدار پایا جاتا ہے۔یہ مرتکز اقدار شدہ شدہ ایسے بدیہی حقائق کا روپ دھار لیتی ہیں جو خیر و شر،خوب و زشت،حسن و قبح،بہادری و بزدلی،سخاوت و بخل جیسے تصورات پر حَکم ہوتے ہیں۔وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور یہی سب کچھ ایسا طریقِ حیات بن جاتا ہے جو دیگر طرق ہائے حیات سے جدا ہوتا ہے۔نتیجتا ایک نمایاں ثقافت و تاریخ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ثقافت انہی اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کو روحانی عدسوں کے ایسے مجموعہ کے طور پر مجسم کرتی ہے جس میں انسان خود کو اور جہاں میں اپنے مقام کو دیکھتے ہیں۔اقدار انسانی شناخت کی بنیاد ہیں اور نوعِ انسانی کے افراد کی حیثیت سے کسی بھی انسانی سماج میں پائے جانے والے احساسِ خصوصیت کی اساس ہیں۔گویا زبان اس شناخت اور احساسِ خصوصیت کی باربرداری کرتی ہے۔زبان بحیثیتِ ثقافت تاریخی دائرے میں لوگوں کے تجربات کا مجموعی حافظہ ہے۔ثقافت کو زبان سے جدا کرنا کارِ دارد ہے کیوں کہ زبان ہی تو ہے جو ثقافت کی پیدائش،نشو و نما،بنت اور نسل در نسل اس کے انتقال کو ممکن بناتی ہے۔

بحیثیت ایک ثقافت کے بھی زبان کے تین اہم پہلو ہیں۔ثقافت تاریخ کی پیداوار ہے جو جوابا اسی میں منعکس ہوتی ہے۔بالفاظ دیگر معاش کی تخلیق اور اس پر قابو پانے کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے دوران انسانوں کے مابین واقع ہونے والے ابلاغ کی پیداوار اور پرتو کا نام ثقافت ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ثقافت تاریخ کا انعکاسِ محض ہو،زبان بطور ثقافت حقیقی دنیا کی تصویر سازی کرتی ہے لیکن یہ بات سراسر امکانی ہے کہ وہ اس فطرتی دنیا کی تصویر سازی درست طور پر کرتی ہے یا نہیں۔لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ زبان کا یہ دوسرا پہلو گویا بچے کے شعور میں ایک تصویر ساز ایجنٹ کی حیثیت رکھتا ہے،ہمارا مکمل تصورِ ذات،انفرادی اور مجموعی طور پر انہی تصاویر و تماثیل پر مبنی ہے۔ان تصاویر و تماثیل کا فطرت کے رو بہ رو برپا انسانی مزاحمت کی حقیقت کے عین مطابق ہونا بھی ممکن ہے اور اسکے برعکس ہونا بھی ممکن ہے۔دنیا کا مقابلہ کرنے کی ہماری طاقت کا انحصار اسی بات پر ہے کہ وہ تماثیل و تصاویر کیسے اس دنیا کے مطابق یا برعکس ہیں اور ہماری جدوجہد کی حقیقت کو وہ کیسے واضح یا مسخ کرتی ہیں۔گویا زبان بحیثیت ایک ثقافت میرے اور میری ذات کے درمیان نیز میرے اور دیگر لوگوں کے درمیان اور اسی طرح میرے اور فطرت کے درمیان ایک پُل اور واسطہ ہے۔یہی بات ہمیں زبان بحیثیت ثقافت کے تیسرے پہلو کی طرف زمام کاری پہ مجبور کرتی ہے۔ثقافت دنیا و حقیقت کی انہی تصاویر و تماثیل کو زبانِ منطوق و مکتوب کی مخصوص نوع کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔(گزارش ہے کہ) اصوات کو بغرضِ افہام و تفہیم ایک خاص آہنگ میں مرتب کرنے کی صلاحیت خود میں ایک آفاقیت کی شان رکھتی ہے۔بالفاظ دیگر انسانوں میں صلاحیتِ نطق آفاقی ہے اور یہی زبان کی آفاقیت کی دلیل ہے۔یہ آفاقیت اس آفاقیت کے مماثل ہے جو فطرت اور دیگر انسانوں کے مدمقابل برپا انسانی مزاحمت میں پائی جاتی ہے۔تاہم اس آفاقیت کے باوجود مخصوص اصوات و الفاظ،جملوں میں برتی جانے والی ترتیبِ الفاظ، مخصوص اسالیب یا صرفی و نحوی قوانین کی بنا پر ہر زبان دوسری زبان سے ممتاز بھی ہوتی ہے۔لہذا ایک مخصوص سماج کی ثقافت و تاریخ کی ترسیل اسی مخصوص سماج کی مخصوص زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ادبیات اور لوک کہانیاں ہی وہ اہم وسیلہ ہیں جس کے ذریعے ایک مخصوص زبان دنیا کی اُن تماثیل و تصاویر کا اظہار کرتی ہے جن کا ظرف وہ ثقافت ہوتی ہے جس کی بارکَشی زبان کرتی ہے۔

معلوم ہوا کہ زبان بحیثیتِ ابلاغ اور زبان بحیثیتِ ثقافت ایک دوسرے کی پیداوار ہیں۔جہاں ابلاغ ثقافت کو پیدا کرتا ہے وہیں ثقافت اس ابلاغ کا ایک ذریعہ و وسیلہ ہوتی ہے۔زبان ثقافت کو خود میں سموئے ہوتی ہے جبکہ ثقافت ادبیات و لوک ادب کے ذریعے ان اقدار کو خود میں سموئے ہوتی ہے جن کے ذریعے ہم شعور ذات اور تصور جہاں کشید کرتے ہیں۔پھر لوگوں کا یہی شعورِ ذات ان کی سماج بینی پر اثرانداز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زبان ہم سے غیر منفک نہیں ہو سکتی کیونکہ بنی نوع انسان کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ایک مخصوص ہیئت و صفات،مخصوص تاریخ اور دنیا کے ساتھ ایک مخصوص بندھن بھی رکھتے ہیں۔

آمدم برسر مطلب! سوال یہ تھا کہ غیر ملکی زبان کی استعماری تنفیذ ہم بچوں کے ساتھ کیا کر رہی تھی؟

گزارش ہے کہ استعمار کا اصل مقصد لوگوں کے مال کو اپنے تسلط میں لینا تھا۔یعنی لوگوں کی پیداکاری،پیداکاری کا طریقہ کار اور اس کی تقسیم ویسے ہی ہو جیسے استعمار طے کرے۔بالفاظ دیگر وہ حقیقی زندگی کی زبان کے تمام دائرہ ہائے کار پر قابض ہونا چاہتا تھا۔استعمار نے فتوحات اور بعد ازاں سیاسی آمریتوں کے ذریعے مال کی سماجی پیداوار پر اپنی گرفت مضبوط کی۔لیکن استعمار کا سب سے اہم مغلوب خطہ مستعمر کی شعوری و ذہنی کائنات تھی۔استعمار کی سب سے اہم فتح یہ ہے کہ اس نے اپنی ثقافت کے جبری نفاذ کے ذریعے لوگوں کے شعور ذات اور تصور جہاں کو تبدیل کر دیا۔معاشی و سیاسی تسلط کبھی بھی شعور پر قابض ہوئے بنا مستحکم نہیں ہو سکتا اور لوگوں کی ثقافت پر تسلط دراصل ان کے معرِّفِ ذات شعور ہی پر تسلط ہے۔

متذکرہ بالا استعماری سرگرمی دو پہلووں پر مشتمل تھا۔پہلا پہلو یا پہلی جہت محکوم اقوام کی ثقافت،مذہب،تاریخ،جغرافیہ،تعلیم،لوک ادب اور لٹریچیر کی تباہ کاری یا دانستہ کم قدری تھی جبکہ دوسری جہت استعماری زبان کا شعوری ارتفاع تھا کیونکہ مستعمَر کی ذہنی کائنات پر غلبہ اس کی زبان پر استعماری زبان کو غالب کیے بنا ممکن نہ تھا۔

زبان کے ابلاغی پہلو کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نطق و کتابت کے میدان میں مقامی زبانوں کو مغلوب کر دینا افریقی بچوں اور انکی ماں بولی کے تینوں پہلووں کے درمیان پائی جانے والی یگانگت کو فنا کے گھاٹ اتار رہا تھا۔نئی زبان بحیثیت ابلاغ ایک ’’مخصوص زندگی کی حقیقی زبان‘‘ کی پیداوار و پرتو تھی،یہ کبھی بھی مقامی سماج کی حقیقی زندگی کا اظہار نہیں بن سکتی تھی۔اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کیوں ہمیں اوپری اوپری اور بدیسی محسوس ہوتی ہے،کیوں یہ ’’ان کی‘‘ پیدوار دکھتی ہے اور ’’ہماری‘‘ نہیں لگتی۔لفظ missile اپنے اندر ایک اجنبیت اور بے گانگی لیے ہوتا تھا تاآنکہ مجھے اس کے گیکیو مترادف ngurukuhi کا علم ہوا اور اس نے یکسر الگ قسم کا تاثر قائم کیا۔استعماری تعلیم کے زیر اثر مستعمر بچے کے لئے پڑھنا اور سیکھنا جذباتی لگاو سے بھرپور تجربہ نہیں بلکہ محض ایک دماغی سرگرمی بن کر رہ گئی تھی۔

نئی نافذ کردہ زبانیں کبھی بھی مادری زبان کی حیثیتِ نطقی کو مکمل طور پر زائل نہیں کر سکتی تھیں البتہ ان کے غلبہ کی اثر افرینی نے زبان بحیثیت ابلاغ کے تیسرے پہلو یعنی کتابت کو خوب خوب متاثر کیا۔افریقی بچے کی رسمی تعلیم کی زبان بدیسی تھی،اس کی کتابوں کی زبان بدیسی تھی،اس کی تصور گر زبان بدیسی تھی،اس کی سوچ و فکر نے بدیسی زبان کا روپ دھار لیا تھا۔اسکول میں بچے کی تربیت کے لئے برتی جانے والی مکتوبہ زبان(حتی کہ اسکول کی حدود میں بولی جانے والی زبان بھی) اس زبان سے مکمل مختلف تھی جو وہ گھر میں بولتا تھا۔بچے کی کتابی دنیا اور تربیتی زبان کا اس کی گھریلو اور سماجی دنیا سے کوئی واسطہ نہ تھا۔مستعمر بچے کی زبان میں پائی جانے والی سہ جہتی ہم آہنگی اور یگانگت ناقابل تنسیخ حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی۔نتیجتا بچے کی قوت مدرکہ اس کے قدرتی سماجی ماحول سے مکمل طور پر منفک ہو چکی تھی،اس صورتحال کو ہم استعماری انفکاکیت کا عنوان بھی دے سکتے ہیں۔بورژوازی یورپ کو مرکز کائنات باور کرواتی تاریخ،جغرافیہ اور موسیقی کی تعلیم اس انفکاکیت و مزید بڑھاوا دینے میں مشغول تھی۔

اگر استعماری زبان کو بہ طور حاملِ ثقافت دیکھا جائے تو بچے کی اپنے اصیل ماحول سے یہ علیحدگی اور انفکاکیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ پیش ازیں عرض کیا کہ ثقافت مخصوص سماج کی تاریخ کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ جوابا اسی تاریخ میں متجلی ہوتی ہے لہذا یہ کہنا بجا ہے کہ استعماری زبان کی تنفیذ کے ذریعے افریقی بچے کو ایک ایسی ثقافت کی کگار پر بے آسرا چھوڑا جا رہا تھا جو اس بچے کے لئے مکمل طور پر اجنبی و بدیسی تھی۔اس بچے کو مجبور کر دیا گیا تھا کہ خود کو دیکھنے کے لئے وہ اپنی ذات کے کینوس سے باہر جا کھڑا ہو۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ نسلی و طبقاتی تعصب،جنس اور سیاست جیسے موضوعات پر مشتمل،ادبِ اطفال میں لکھی گئی بوب ڈکسن کی ایک تصنیف کا نام ’’Catching  Them  Young‘‘ تھا۔مذکورہ عنوان میں مشمولاتِ کتاب کے علی الرغم،مستعمر بچے کے متعلق استعماری عزائم کی عکاسی کہیں ذیادہ حقیقت رس تھی کیونکہ بچوں کی لوحِ خاطر پر جبرا نقش کردہ تصور جہاں کو محو کرنا اگر ممکن بھی ہو،تو بھی اس کے لئے برس ہا برس درکار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہوا ثقافت محض دنیا کی تصویر گری نہیں کرتی بلکہ ان تصاویر کے ذریعے بچے پر یہ شرط بھی عائد کرتی ہے کہ  وہ دنیا کو ایک مخصوص تناظر میں دیکھے،بنا بریں ایک مستعمر بچے کو بھی استعماری زبان و ثقافت کے فراہم کردہ تناظر میں ہی جہاں بینی  پر مجبور کیا گیا۔چونکہ ان تصاویر کی ترسیل عموم لوک ادب اور لٹریچر ہی کے ذریعے ہوتی ہے لہذا اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ مستعمر بچہ اب سے استعماری ادبیات کے مہیا کردہ تناظر ہی میں فریضہِ جہاں بینی ادا کرے گا۔اپنی ذات سے باہر قدم زن ہو کر خود کو دیکھنے یا پھر غیر کی نظر سے اپنا مشاہدہ کرنے پر مبنی اس انفکاکی نقطہ نگاہ کو پیش نگاہ رکھا جائے تو یہ بات چنداں اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ درآمد شدہ ادبیات شیکسپیئر،گوئٹے،بالزک،ٹالسٹائی،گورکی اور ڈکنز جیسے نامور ادبا کے انسانیت پرستانہ ادب کو خود میں سموئے ہوئی تھیں۔اصل غور طلب بات یہ ہے کہ اس وسیع آئینہِ تخیل کا مرکز یورپی تاریخ و ثقافت تھی اور باقی ماندہ دنیا اسی مرکز کے فراہم کردہ تناظر سے دیکھی جاتی تھی۔

مستعمَر بچہ اپنی دنیا کی انہی تصاویر کے رو بہ رو کھڑا کر دیا گیا جو مستعمِر کے ادبیاتی نگار خانہ میں بنائی گئی تھیں۔یہ صورتحال نہایت گھبیرتا کی حامل تھی۔اس کے قابلِ گرفت دماغ میں اس کی اپنی مادری زبان کا تصور پستی،حقارت،جسمانی سزا،کند ذہنی،صریح حماقت،کم سوادی اور بربریت کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا۔اپنی زبان کی اس قبیح تصور سازی کو وہ دنیا مزید بڑھاوا دیتی تھی جس میں وہ بچہ ہیگارڈ یا نیکولس مونسرت جیسے نسلی تعصبات کے حامل عباقرہ سے رو بہ رو ہوتا تھا۔دریں باب تہذیبِ مغرب کے چند دیو ہیکل عقلا اور سیاسی اداروں کے بیانات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں جیسے ڈیوڈ ہیوم کا بیان کہ ’’کالے فطرتا گوروں سے کمتر ہوتے ہیں‘‘،تھومس جیفرسن کا اعلانِ پندار کہ ’’کالے ذہنی و جسمانی ہر دو قسم کی جبلی صلاحیتوں میں گوروں سے کہتر ہیں‘‘،یا پھر ہیگل کا اظہارِ حقارت کہ ’’جہاں تک انسانوں کی خودشعوری تاریخ کا تعلق ہے تو افریقہ ایک طفلانہ زمین کے ہم پلہ ہے جو کہ تاحال بھی رات کے تاریک لفافے میں ملفوف ہے‘‘۔اسی طرح ہیگل ہی کا ایک اور تحقیر آمیز بیان ملاحظہ ہو جو کہ افریقہ اور افریقی باشندوں کی متعصبانہ تصویر گری کا منتہائی اظہار ہے:

’’افریقی باشندوں میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو انسانیت سے ہم آہنگ ہو‘‘

الغرض ایک مستعمر بچہ مجبور تھا کہ وہ استعماری زبانوں کی ادبیات میں موجود اس حقارت آمیز و نفرت انگیز مواد کا سامنا کرے اور اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہو سکتا تھا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search