تلخیصِ فاؤسٹ: شاہد احمد دہلوی (مرتب: عاصم رضا)

 In ترجمہ

تعارف (از مرتب)

جرمن شاعر ، ادیب اور مفکر جان وولف کانگ گوئٹے  کی شخصیت ،  کمالِ فن اور اس کے شہرہ آفاق منظوم ڈرامے فاؤسٹ  کی معنویت کے باب میں علامہ اقبال کے  چند تبصرے ملاحظہ فرمائیے:

  • ’’قدرت اس بارے کلی فیصلہ نہ کر پائی کہ افلاطون کو شاعر بنائے یا فلسفی ۔ گوئٹے کے معاملے میں بھی ایسے ہی تذبذب سے دوچار نظر آتی ہے‘‘۔ (افکارِ پریشاں، 108)
  • ’’شیکسپیئر اور گوئٹے دونوں ہی تخلیق کے بارے مشیتِ الہیہ پر سوچ بچار کرتے ہیں ۔ تاہم ان دونوں کے مابین ایک اہم فرق ہے ۔ حقیقت پسند انگریز فرد پر غور کرتا ہے ؛ مثالیت پسند جرمن کل پر ۔ اس کی تصنیف فاؤسٹ صرف بظاہر انفرادی بیان لگتی ہے ۔ درحقیقت، اس کا موضوع انسان بطور معاشرہ ہے‘‘ (افکارِ پریشاں ، 112)
  • ’’انسانی فطرت کے بارے حقیقی معرفت صرف گوئٹے کی بدولت حاصل ہو سکتی ہے‘‘ (افکارِ پریشاں، 126)
  • ’’گوئٹے نے ایک معمولی اسطورہ کو لیا اور پھر اس میں انیسویں صدی کے اجتماعی تجربے کو ہی نہیں بلکہ نسلِ انسانی کے کلی تجربے کو بھر دیا ۔ ایک معمولی اسطورہ کو انسانی مقاصد کے ایک منظم بیان کی صورت میں بدل دینے کا عمل الوہی کاریگری سے کسی طور کم نہیں ہے ۔ یہ عمل اتنا ہی حسین ہے جتنا ایک بے شکل اور منتشر مادے سے ایک خوبصورت کائنات کی تخلیق کا عمل‘‘ (افکارِ پریشاں، 48)

گوئٹے کی تصنیفات میں سے ’’فاؤسٹ‘‘ کے ابتدائی اردو مترجم  کی حیثیت سے سید عابد حسین کا نام معروف ہے ۔ سید عابد حسین صاحب کے بعد 1936ء میں ماہنامہ ساقی کے جنوری تا مارچ 1936ء  کےشماروں میں  جرمن شاعر، ادیب و مفکر جان  وولف  کانگ  گوئٹے  کے شہرہ آفاق منظوم  ڈرامے فاؤسٹ کی تلخیص تین طویل اقساط میں  شائع ہوئی۔  ہماری معلومات کے مطابق، ڈاکٹر سید عابد حسین نے سب سے پہلے 1931ء میں فاؤسٹ کاترجمہ کیا ، تاہم  یہ ترجمہ فاؤسٹ  کے پہلے حصے پر مشتمل تھا ۔ ڈاکٹر  صاحب کے بعد شاہد احمد دہلوی کی تلخیصِ گوئٹے کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ فاؤسٹ کے بارے میں یہ پہلی  مکمل تحریر ابتدائیہ ، حصہ اول و دو م اور اختتامیہ  پر مشتمل ہے ؛ حصہ اول و دوم دونوں  ہی  کو  دس دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے   ۔ مختصراً، ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے ، اردو کے معتبر ادبی جریدے ’’ساقی‘‘ کے مدیر  ، صاحب طرز ادیب  ، مترجم اور فن موسیقی کے دہلی گھرانے کے معروف گائیک  استاد چاند خاں کے شاگرد و ماہر موسیقی ، الغرض کون سی جہت ایسی ہے جہاں شاہد احمد  دہلوی کے نام کا ڈنکا نہیں بجتا۔ان کی  تصانیف میں خاکے ، یادداشتیں ، مضامین ، ناول ، تراجم شامل ہیں ۔   ہم  جناب باقر علی شاہ صاحب کے نہایت ممنون ہیں کہ انہوں نے ماہنامہ ساقی کی 1936ء کی فائل عنایت فرمائی  جس کی بدولت ’’فاؤسٹ‘‘ کی اس تلخیص کو جائزہ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔

ابتدائیہ

حصہ اول

حصہ دوم

اختتامیہ

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search