فاؤسٹ (حصہ اول: پہلاباب)

 In ترجمہ

سولہویں صدی کا آغاز ابھی ہوا  ہی تھا اور سارا یورپ اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ نازک دور میں سے گزر رہا تھا ۔ ہر ملک میں ایک جدید و شدید رو  بیداری کی دوڑ رہی تھی ۔ طباعت کی ایجاد اور یورپ کی ہر زبان میں مترجمین کی کثرت نے کلاسکی ثقافت کے خیرہ کن خزانے اور مشرق کے سائنٹیفک سرمایۂ ذہنی کو سب کے سامنے پیش کر دیا ۔ علم کی تجدید ہوئی اور لوگوں نے زندگی کو ایک نئے تنقیدی زاویہ نگاہ سے دیکھنا شروع کیا ۔ نشاۃ الثانیہ کے دامن میں قرونِ وسطیٰ کے رواجی فلسفہ ، آرٹ اور مذہب کے خلاف بغاوت کے جراثیم نشوونما پا رہے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ ظلم و موت بھی پروان چڑھ رہی تھی ۔ کیونکہ قدیم معتقدات کے رہنما جو نئے خیالات اور جدید تصورات کو کچل ڈالنا چاہتے تھے، خوف اور نفرت سے اپنا آخری وار کرنا چاہتے تھے اور وہ اس طرح کہ آگ اور دیگر آلاتِ تعذیب کی امداد سے انسان کے حافظہ سے جدید معتقدات و رجحانات کو اکھاڑ پھینکیں  یا جلا کر غارت کر دیں ۔

لیکن انسان کو خواہ وہ کتنے  ہی پُرآشوب زمانے میں سانس لیتا ہو ، ان زبردست  قوتوں کا صحیح احساس نہیں ہوتا جو زمانے کا رخ بدل دیتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سیکسنی کے حسین شہر روڈا کی خوش باش آبادی اِن باتوں سے ناواقف تھی اور یہاں کے لوگ اس نئی تحریک کی طرف سے بے پروا تھے جو ان کے باطن میں زور پکڑ رہی تھی ۔

نشاۃ الثانیہ کا تسلط آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے اس شہر پر اسی طرح ہو گیا جیسے عذابِ سیاہ جمع ہوتا رہا اور شہر پر چھا گیا ۔ دُور سے روڈا ایک عجیب چھوٹا سا کھلونا معلوم ہوتا تھا ۔ سرخ سرخ جھکی ہوئی چھتیں جن میں سے دُودکش (چمنیاں)نکلے ہوئے ، سرسبز گھاس کے قطعے ، بازار کے دوراہوں پر اونچے اونچے جھومتے چنار کے درخت ، بل کھائے ہوئے راستے ، نازک نازک مینارے ، صاف ستھرے چوراہے اور کلیساؤں کی ابھری ابھری چھتیں ۔ دُور سے اس شہر کا بڑا دلکش منظر تھا ۔ اس کے پیچھے  تھورنگیا کے سبز رنگ رومانی جنگلات تھے جو ہوا سے جھومتے  ، سرد آہیں بھرتے ، سرگوشیاں کرتے یا دھاڑنے لگتے ۔ اس پس منظر سے روڈا کی خوبصورتی اور بھی نکھر گئی تھی ۔

لیکن دُور سے بھی اب یہ معلوم ہونے لگا تھاکہ کوئی نہ کوئی غیرمعمولی  بات اس شہر میں ہو رہی ہے ۔ وہاں خوب چہل پہل ، رنگینی اور مسرت کی گہماگہمی تھی ۔ گھنٹیاں بج رہی تھیں اور جب ہوا کا رخ ہوتا تھا تو شادیانوں  کی آواز ، آلاتِ موسیقی کی دلنواز صدائیں اور بہت سے آدمیوں کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی ۔

یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ روڈا میں آج خاص چھٹی کا دن تھا ۔ یہ وہ دن تھا جس کا انتظار بدمزاج سے بدمزاج آدمی کو بھی سال بھر سے تھا  اور گزشتہ سال کی خوش فعلیوں کی یاد تازہ کر کے اس سال کے لیے اپنی گرسنگیِ عیش کو بڑھا رہا تھا ۔ آج وہی یومِ مسرت تھا جس کی آس سب لگائے بیٹھے تھے  ۔

روڈا میں آج سالانہ میلا تھا ۔ آس پاس کے گاؤں والے صبح ہی سے جوق در جوق آ رہے تھے ۔ ان کے پاس یا تو بِکری کا مال تھا یا اس میلے میں خرچ کرنے کے لیے روپیہ ، سب کے حوصلے بڑھے ہوئے اور دل بشاش تھے ۔ اس خبر نے بھی کہ ویمر اور التنبرگ میں خوفناک طاعون پھوٹ پڑا  ان کے جذبۂ مسرت کو مضمحل نہیں کیا ۔ کیونکہ ویمر اور التنبرگ یہاں سے کئی میل دور تھے اور سورج چمک رہا تھا اور موسیقی انہیں آواز دے رہی تھی اور حیاتِ سیال جو ان کی رگوں میں اچھل اور تڑپ رہی تھی ان کے کانوں میں کہہ رہی تھی ، ’’تم جوان ہو اور ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘۔

سوائے فقیروں اور کنگلوں کے جو اس میلے میں کھنچے آئے تھے ، باقی اور سب میلے کے عجیب عجیب کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا ۔ ضعیف  مرد اور عورتوں کے کندھوں پر رنگین پھریرے تھے اور بچے پھولوں سے آراستہ تھے ۔ بڈھوں کے رنگین کپڑوں کو نوجوان حقارت سے دیکھتے تھے اور ان پر آوازے کستے تھے ۔ یہ نوجوان اِترا اِترا کر چلتے تھے ۔ ٹانگوں پر رنگین چست لباس تھا اور اپنی خوشنما ٹانگوں پر انہیں بہت ناز تھا ۔ اُوپر کے کپڑے رنگ برنگے تھے ، چپٹی مخملی ٹوپیاں تھیں جن میں رنگے ہوئے پَر خوبصورتی سے لگے تھے یا کسی کسی میں پھول نظر آتے تھے اور یہ پھول وہ ہوتے تھے جو انہوں نے کسی دوشیزہ سے اُچک لیے تھے یا کسی حسینہ نے بطور محبت کی نشانی کے انہیں دیے تھے ۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری آبادی پورا دن عیش وعشرت میں گذارنے پر تُلی ہوئی ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ میلے کے میدان کی طرف مزے مزے سے باتیں کرتے اور ہنستے جا رہے تھے ۔ خوشی کے غل غپاڑے ، مسرت کی چیخوں ، نغموں کے شور اور گھنٹیوں کی آواز وں سے معلوم ہوتا تھا کہ میلہ خوب بھر رہا ہے ۔

شہر اور تھورنگیا کے جنگلوں  کے درمیان جو سرسبز وادی تھی اُس میں یہ میلہ لگتا تھا ۔ وسط میں جھولنے کی کشتیاں تھیں اور اُن کی شکلیں دیوار اور بھوت پریتوں کی سی تھیں یا بڑے بڑے کھپروں (چوڑے پھل والے تیر جیسے منہ )والے اژدہوں کی شبیہ بنائی گئی تھی ۔ پھٹے ہوئے سیاہ حلق ، لال لال نکلی ہوئی زبانیں اور خوفناک آنکھیں ۔ ایک طرف ایک بڑے سے گھیرے میں تماشے تھے ۔ ان میں سے بعض کے منڈوے(سٹیج ) دو منزلہ بھی تھے جو چیڑ کے تختوں کو جوڑ کر بنائے گئے تھے ۔ احاطہ کی دیواریں چمکدار رنگوں کے کینوس کی تھیں اور ان پر بھدی بھدی سی تصویریں بنی ہوئی تھیں ۔ کہیں ننگی لڑکیاں اور اژدہے دکھائے گئے تھے اور کہیں جھولوں کو پرانی وضع کے مطابق سجایا گیا تھا ۔ ہر تماشہ گاہ کے آگے تنگ برآمدہ بنایا گیا تھا جس کا رُخ سیلانیوں کی طرف تھا ۔ اس میں سے اس تماشے کا مالک چیخ چیخ کر ان حیرت ناک کارناموں کا اعلان کرتا تھا جو اندر دکھائے جاتے تھے ۔

انہی برآمدوں میں مسخرے اور ہنستے چُغل (جگت باز) بھی نظر آتے تھے ۔ یہ ناچتے رہتے تھے  یا تماشائیوں پر فقرے چست کرتے تھے یا سیدھے بانسوں پر بغیر کسی سہارے کے چڑھتے اترتے تھے ۔ اور کُبڑے ٹھنگنے ، یا بونے وضع وضع کے لباس پہنے طرح طرح کے منہ بناتے ، ہاتھ مٹکاتے ، ناچتے ، اُچھلتے کودتے ، اور کبھی کبھی نیچے اس طرح گرتے کہ دیکھنے والے سہم جائیں اور گرتے ہی کسی خوبصورت لڑکی پر جھپٹتے ۔ تماشائی اِن کی اس تمسخر انگیز حرکت پر ٹھٹھے لگاتے اور وہ لڑکی گھبراہٹ میں اپنے مرد ساتھی کے سینے سے چمٹ جاتی اور گو اُس کا ساتھی بھی بدہیئت بونے کی جھجک سے بھونچکا سا ہو جاتا تھا لیکن پھر بھی وہ ایک سورما کی طرح اپنی محبوبہ کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہو جاتا تھا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ بہادر ہے اور مصیبت زدہ دوشیزہ اس پر ہر وقت کامل اعتماد کر سکتی ہے ۔

چھوٹی چھوٹی دکانوں میں دکان دار بیٹھے روٹی اور مٹھائی بیچ رہے تھے ۔ انہی کے ساتھ مقدس مقامات کے تبّرکات  ، حُبّ  کے تعویز اور گنڈے، اور پینے کے لیے ہر قسم کی چیزیں بھی موجود تھیں ۔ بکری کا دودھ ، شربت اور بے شمار قسموں کی شراب ۔ میلے کے بیچ میں جہاں جھولے پڑے تھے اس کے قریب اور دلکش چیزیں تھیں ۔ یہیں ایک کٹھ پتلی والا تھا جسے ایک مجمعٔ  کثیر گھیرے کھڑا تھا ۔ یہ ایک کٹھ پتلی نچا رہا تھا جس کے سر کے بال سرخ رنگ کے تھے اور بڑی سی داڑھی تھی ۔یہ خود اس کی شبیہ  بنائی گئی تھی اور عجیب مضحکہ خیز طریقے سے اچھلتی پھرتی تھی ۔ اس کے پاس ہی ایک بڑا سا بھورا ریچھ تھا جو طرح طرح کے کرتب دکھا رہا تھا ۔ تماشائی اسے تعجب سے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اِس جانور میں کوئی بھوت سما گیا ہے ۔ اس مجمع کے پیچھے ایک شہزور نٹ تھا ۔ اس کا لباس سنہرے رنگ کا تھا اور وہ اپنے ایک پھیلے ہوئے ہاتھ پر ایک خوبصورت پھول سے بچے کا جھونک سنبھال رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے رنگین رنگین گیندیں اچھال کر لپک رہا تھا ۔ اس کے گلے  میں ایک سانپ لپٹا ہوا تھا اور ایک بندر اس کے سر پر بیٹھا اس کے بال نوچ رہا تھا اور دیکھنے والوں کی طرف دیکھ کر چیختا اور چلاتا تھا ۔

لیکن اِس ساری گھماگھمی (گہما گہمی ) میں جو رنگ غالب نظر آتا تھا وہ سیکسن لڑکیوں  کا تھا اور ان لڑکیوں  کو خود بھی اس کا احساس تھا ۔ ان کے لباس سادے تھے ۔ اونچی اونچی آستینیں ، چمکدار اور شوخ رنگ کے لباس گو کبھی کبھی سفید لباس بھی اُن میں نظر آ جاتا تھا اور یہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے رنگین چنگاریوں میں آنکھوں کو چندھیا دینے والی ایک تیز سفید چنگاری اُبھر آئی ہے ۔ ان کے بال سَن  (سورج)جیسے تھے یا سنہرے رنگ  کے ، کسی کسی کے سیاہی مائل بال بھی نظر آ جاتے تھے ۔  اُن کی دو دو چوٹیاں گندھی ہوئی تھیں اور ان میں رنگین موباف(جوڑے کی دھجی) پڑے ہوئے تھے ۔ پیشانی پر کسی رنگ کا کساوا (بندھا ہوا رومال)تھا ۔ ان میں سے کئی کے گلوں میں پھولوں کے کنٹھے  (ہار)پڑے  تھے یا سینوں پر پھول لگے تھے ، یہ آزاد منش لڑکیاں نازوپندار کے ساتھ چلتی تھیں اور ان کی آنکھوں کو قرار نہ تھا ۔

روڈا کا یہ میلہ عشق و عاشقی  اور حسن و محبوبی کی معرکہ آرائیوں کے لیے مشہور تھا ۔ ایک نتیجہ اس سالانہ میلے کا یہ تھا کہ بے شمار شادیاں آپس میں ہو جاتی تھیں ۔ اس وجہ سے اِس میلے میں کچھ ایسی کشش تھی کہ میلوں دور سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے ۔

ہر طرف خوشی و خرمی تھی ۔ ہر شخص کے خیالات کا مرکز اِس وقت  صرف وہی تھا جو پیشِ نظر تھا —عیش و نشاط ، دلکشی ، تھیٹر ، خریدوفروخت ، عشق بازی اور محبت بھری نظریں ۔ اِن مسّرتوں میں وہ اس قدر منہمک تھے کہ کسی متنفس نے بھی اُس تبدیلی کو محسوس نہیں کیا  جو موسم میں بتدریج ہو رہی تھی ۔ ہوا کا درجہ حرارت کم ہو گیا تھا ۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی ۔ مشرق سے سیاہ بادل اُٹھے اور آسمان پر چھا گئے تھے اور اب اُن کا دَل اتنا موٹا ہو گیا تھا کہ انہیں دیکھے سے ڈر لگتا تھا ۔

نوجوانوں کے حلقے میں سے دو چمکدار آنکھوں والی لڑکیاں علیحدہ ہو کر ایک طرف کھڑی ہو گئیں ۔ ایک پھٹے حالوں بوڑھا دو تارے پر گتیں بجا رہا تھا اور نوجوان ناچنے میں مصروف تھے ۔ لڑکیاں چپکے سے کھسک آئیں۔

ان میں سے ایک جس کا رنگ گیہواں(گندمی)تھا  ، بولی :- ’’ اِلسا ، تم نے ان دو طالب علموں کی شوخ گفتگو سنی؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ وہ دونوں بہت حسین تھے ، خصوصاً وہ جس کے لمبے لمبے گھونگریالے بال تھے‘‘۔ دوسری نے ذرا ناک بھوں چڑھا کر کہا: -’’ مگر ذرا سوچو تو سہی کہ نوکرانیوں کا پیچھا کرنا ان کے لیے کس قدر شرم ناک ہے ۔ حالانکہ مجھے  یقین ہے کہ اگر وہ چاہتے تو روڈا کی شریف و نجیب ترین لڑکیاں بھی انہیں اپنا ہم جلیس بنانے میں عار نہ کرتیں‘‘۔

یہ لڑکیاں اسی طرح رازدارانہ گفتگو کر رہی تھیں کہ ایک مہین گوش دوز آواز نے انہیں مخاطب کر کے سلسلۂ گفتگو منقطع کر دیا ۔ یہ آواز ایک سوکھی ہوئی چمرخ بڑھیا کی تھی جو ایک چھوٹی سی دکان کے آگے بیٹھی تھی اور اس کا کام یہ تھا کہ فال گوئی کرے اور عشاق کو آنے والی باتیں بتا کر صلاح مشورہ دے ۔ (وہ ) کپکپاتی آواز میں  لڑکیوں سے بولی : -’’آہا  پیاری بچیو! تم اگلے سال سے کس قدر حسین ہو گئیں ۔ کتنی حسین معصوم لڑکیاں ! تمہاری آنکھیں دیکھنے کے بعد کون نوجوان ہے جو اپنے دل پر قابو رکھ سکے ! نہیں نہیں ، تیوری نہ چڑھاؤ —- بوڑھی نیکنام نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جس سے تم ناراض ہو ۔ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو — تعویذ گنڈا ، ٹونا ٹوٹکا ، صلاح مشورہ ، یا جس چیز کی بھی تمہیں ضرورت ہو ، بوڑھی نیکنام تمہارے لیے مہیا کر دے گی‘‘۔

’’چلو چلو ۔ اگاتھا ۔ یہاں سے جلدی چلو‘‘۔ اِلسا نے اپنے ساتھ والی سے کہا ۔ ’’بازار میں ایسی عورت سے باتیں کرتے اگر کوئی مجھے دیکھ لے تو میں مارے شرم کے مر جاؤں‘‘۔ یہ کہہ کر دونوں لڑکیاں اس مجمع کی طرف چل دیں جہاں نٹ اپنے کرتب دکھا رہا تھا ۔

اِلسا نے کہا ۔ ’’یہ سچ ہے کہ اُس نے مجھے میرے ہونے والے عاشق کو گوشت پوست میں دکھایا تھا مگر مجھے تو اس سے ڈر ہی لگتا ہے‘‘۔ اگاتھا نے جواب دیا ۔’’ میں اتنی خوش نصیب نہیں تھی ۔ اس نے شیشے کے گولے میں میرے عاشق کو دیکھا تھا ۔ اسے ایک فوجی نظر آیا، بانکا  سجیلا جوان ۔ اُس وقت سے میں اس کی تلاش میں رہی مگر اب تک وہ مجھے کہیں نہیں ملا ۔ آؤ چلو ، نٹ کا تماشا دیکھیں‘‘۔

بڑھیا کی آواز ان کے عقب میں سنائی دی :- ’’بوڑھی نیکنام کے کان بہت تیز ہیں ۔ شاید تمہارے کان بھی اتنے ہی تیز ہوں ۔ واپس آ کر اس کی بات سن لو ۔ دیکھو ، تم میں سے ایک ایسی ہے جو آئندہ سال مجھے دیکھ نہ سکے گی —— اس کی پیشانی پر ایک سیاہ ستارہ ہے‘‘۔

دونوں لڑکیاں خوف سے پیچھے ہٹ گئیں اور اس بھیڑ میں گھس گئیں جو نٹ کے گرد لگی ہوئی تھی ۔ نٹ قلابازیاں کھا رہا تھا ۔ اس کے مضبوط پٹھے بل کھا رہے تھے اور ا ن میں شاخیں پھوٹتی نظر آ رہی تھیں گویا ان میں ہر جست و خیز کے ساتھ زندگی اچھل رہی ہے ۔

ایک تماشائی نے اپنے ساتھی سے کہا ۔ ’’میں نے اس سے بہتر نٹ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا  لیکن یہ سیکسنی کا باشندہ نہیں ہے‘‘۔

’’ہاں ، میرا خیال ہے کہ اطالوی ہے ۔ دو مہینے ہوئے کہ میں نے اسی کو ویمر میں دیکھا تھا‘‘۔

’’ویمر میں ! سنا ہے کہ وہاں طاعون پھیل رہا ہے‘‘۔

ایک جوان طالب علم جو ان کے قریب کھڑا تھا ، ہنس کر بیچ میں بول اُٹھا ۔ ’’طاعون ! ارے یہ تو ایک افواہ ہے جو پادریوں نے اڑائی ہے ۔ ہمیں کلیسا میں واپس لانے کےلیے انہوں نے یہ چال چلی ہے‘‘۔

اس کے پیچھے ایک گڈریا کھڑا تھا ، وہ بولا ۔ ’’نہیں نہیں ۔ لڑکے ، ایسی چیزوں کا جیسی کہ موت ہے مذاق نہیں اڑایا کرتے ۔ جب میں چھوٹا سا تھا تو میرے دادا ایک دفعہ کے طاعون کا ذکر سنایا کرتے تھے جس سے سارا ملک تباہ ہو گیا تھا ۔ کوئی خاندان ایسا نہ بچا تھا جس میں دو ایک موت کے گھاٹ نہ اترے ہوں ۔ وہ بڑا منحوس زمانہ تھا ۔ خدا پھر وہ وقت ہمیں نہ دکھائے‘‘۔

اِسی وقت یہ ہوا کہ نٹ نے گھاس پر ایک چھوٹی سی دوڑ لگائی اور چھلانگ لگانے کی تیاری کی ۔ سب کے سب پلٹ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ نٹ نے ایک بہت بڑی چھلانگ لگائی ، ہوا میں تین پلٹیاں کھائیں اور بڑی صفائی سے اپنے ہاتھوں کے بل زمین پر آ ٹِکا ۔ پھر عمدگی سے کمان کی طرح الٹی چھلانگ لگائی اور سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ تماشائی واہ واہ کر رہے تھے اور نٹ دونوں  ہاتھوں سے سلام کرتا جا رہا تھا اور مسکرا مسکرا کے ناز سے انہیں دیکھتا جاتا تھا ۔

مجمع میں ہر طرف سے آواز آ رہی تھی ۔ ’’شاباش ، شاباش‘‘۔

لیکن لوگوں کے دیکھتے دیکھتے نٹ کچھ کا کچھ نظر آنے لگا ۔ اس کے سرخ چہرے کا سارا خون ایک دم سے سُت گیا ۔ موت کی طرح اس کے چہرے پر زردی کِھنڈ گئی ۔ آنکھوں میں سیاہ حلقے پڑگئے ۔ دھوئے کپڑے کی طرح سفید پڑ گیا ۔ اس کے گھٹنے کانپ رہے تھے اور وہ  لڑکھڑاکر پیچھے کو ہٹا ۔ پھر بڑی کوشش سے وہ سیدھا کھڑا ہوا ۔ اپنے چاروں طرف متعجب ہو کر اِس طرح دیکھا جیسے کوئی بچہ متحیر ہو کر دیکھتا ہے ۔ ہاتھ پھیلا کر  تین قدم لڑکھڑا کر چلا اور پھر بے جان ڈھیر کی طرح زمین پر لوتھ (کشتہ) ہو گیا ، جیسے کسی نے کلہاڑی سے اُسے ہلاک کر دیا ہو ۔

تماشائیوں میں سے ایک نے نٹ کے سینے پر اپنا کان لگایا ۔ پھر اُٹھ کر کہنے لگا :- ’’اس کا دل رک گیا ۔ یہ تو مردہ ہے‘‘۔

پھر ایکاایکی کسی خیال سے ڈر کر اچھل ایک طرف کو جا کھڑا ہوا اور خوف زدہ ہو کر ہلکی آواز میں بولا ۔ ’’طاعون سے مرا ہے ۔ ہماری بستی میں اپنے ساتھ طاعون لایا ہے‘‘۔

ایک خوف زدہ سرگوشی سارے مجمع میں دوڑ گئی :- ’’طاعون ! کالی بیماری !‘‘

ایک طالب علم نے آگے بڑھ کر کہا ۔ ’’نہیں لوگو، آخری چھلانگ لگانے میں اس غریب نے اتنا زور لگایا کہ اس کا دل پھٹ گیا ۔ یہ طاعون نہیں ہے۔ دیکھو!‘‘ ۔ یہ کہہ کر اس نے نٹ کے سینے  پر سے اس کا سنہرا لباس پھاڑا ۔ پھر وہ اس قدر چونک کے پیچھے ہٹا جیسے کوئی سانپ اس پر جھپٹا ہو ۔ اس کا چہرہ بھی اسی قدر سفید پڑ گیا جتنا کہ مردہ نٹ کا ۔

کیونکہ نٹ کے سینے پر ہیبت کی مہر ثبت ہوئی نظر آئی  ۔ چھوٹے چھوٹے اُودے چٹے (سفید نشان)تھے جن کی تردید میں طالب عالم کی منطق کوئی وکیل پیش نہیں کر سکتی تھی اور نہ کوئی انسان انہیں مٹا سکتا تھا ۔

مجمع چپکے چپکے جلدی سے منتشر ہو گیا ۔ لوگ پلٹ پلٹ کر خائف نظروں سے نٹ کی لاش کو دیکھتے جاتے تھے ۔ نٹ کی طاقت ہمیشہ کے لیے سلب ہو چکی تھی اور اس کی ننھی سی لڑکی جس کا لباس پریوں کا سا تھا اُس کے بے جان سینے پر پڑی چیخیں مار رہی تھی اور بندر اُس کے سر کے پاس بیٹھا قِرقِر کر رہا تھا ۔

میلے کی وادی میں یہ خبرِ بد بجلی کی طرح پھیلتی گئی جیسے کہ سب بُری خبریں جادورفتاری سے پھیلتی ہیں ۔ اِسی اثنا میں ایک مہین اور کرخت آواز نے گھبرائے ہوئے وسیع مجمع کو اپنی طرف ایک لمحہ کے لیے متوجہ کر لیا ۔ یہ آواز گڑبڑ اور شوروغل میں صاف سنائی دی ۔ یہ کرخت آواز بوڑھی نیکنام کی تھی جو اس وقت سیدھی کھڑی تھی اور اس کا ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا تھا :- ’’دیکھو ، اوپر دیکھو !  ابلیس تمہیں اوپر سے دیکھ رہا ہے ۔ دیکھو! — وہ اوپر آسمان  میں تمہارے سروں کے اوپر ابلیس روڈا میں آ گیا ہے۔ یہ وہی ہے ، وہی ہے ، وہی ہے  ، دیکھو! عاشقوں کی طرح اس نے اپنا آغوش سب کے لیے  پھیلا رکھا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور اِس طرح ہنسی جیسے ہچکیاں لے لے کر ہنس رہی ہو ۔

اُن لوگوں کو جنہوں نے ٹھہر کر اس کے ہاتھ کے اشارے کی جانب دیکھا تو انہیں فی الحقیقت ایک بدشگون اور منحوس منظر نظر آیا ۔ ایک سیاہ بادل نے اب سارے آسمان کو جذب کر لیا تھا ۔ اس کے کناروں پر کچھ ایسی سبز روشنی نظر آ رہی تھی جو اہلِ زمین نے  پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ اس بادل کے دونوں طرف سیاہ اُوداہٹ لیے ہوئے بادل کا ایک لمبا ٹکڑا دکھائی دیتا تھا اور یہ ٹکڑے ایسے معلوم ہوتے تھے کہ دو زبردست اور بھیانک ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے بیچ میں ایک چپٹا  اور موٹا سا بادل تھا ۔ اس کی شکل سر جیسی تھی ۔ جس پر دو چھوٹے چھوٹے نکیلے سینگ ابھرے ہوئے تھے ۔ بادل کی شکل تیزی سے بدل گئی ۔ ہاتھ پھیل گئے اور اتنے لمبے ہو گئے گویا روڈا اور اس کے سب کچھ کو اپنے آغوش میں لے لینا چاہتے ہیں ۔

دوسرا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search