اندوہ ۔ مدثر بشیر (مترجم: زاہد نبی)

 In ترجمہ

تیزی سے گذرتی لوکل بسوں، مسافر ویگنوں، بڑی بڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے اڑتی دھول نے چوک کے چاروں اور کی دوہری سڑکوں کی درمیانی روشوں اور کناروں پر ایستادہ ٹریفک سگنلز کے رنگ اڑا کر رکھ دیے تھے۔لال بتی نارنجی، زرداشارہ سفیدی مائل جبکہ ہرامٹیالی رنگت اختیار کر چکا تھا۔زندگی کی اس تیزرفتاری سے تھوڑا دورسڑک کنارے بوڑھے برگد تلے چادر بچھائے سلیم اپنا دھنداجمائے بیٹھاتھا۔اپنے اڈے پروہ اپنا آپ یوں پسارے ہوئے تھا جیسے شہزادہ سلیم جمنا کے دوش پر ہو اوروہاں پانیوں کی بجائے گاڑیوں کا ریلا بہہ رہا ہو۔چادر پر نیم، کیکر، شہتوت، سکھ چین، دھریک، ون اور پیلو کی مسواکیں اور کچھ جڑیں ایک ترتیب سے سجائی گئی تھیں،علاوہ ازیں چند ملفوف مسواکیں بھی اس آرائش کا حصہ تھیں جن کی تحریم و تکریم کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ وہ ارضِ مقدس سے لائی گئی تھیں۔ غرضیکہ سلیم کی دوکان پرایک روپے سے پچیس روپے تک کی مسواکیں موجود تھیں۔وہ وقتاََ فوقتاََ فراغت کے اوقات میں دانتری یا چھری سے ان کی تراش خراش کرتا رہتا ۔اگر کبھی کوئی ممی ڈیڈی طرز کا گاہک آجاتا تو وہ مسواک کے ایک سرے کوہاون دستے میں کُوٹ کر نرم کر دیتا ۔سلیم کا باپ شہر کے نواح میں واقع ایک زرعی فارم پر منشی تھا۔شہتوت، سکھ چین، کیکر اور دھریک کی مسواکیں وہ فارم سے لے آتا تھا، باقی ماندہ موسمی مسواکیں پہنچانا بابا لطیف کی ذمہ داری تھی۔بِکری شروع ہوتی تووہ پہلے اڈے کے اخراجات نکالتا، بیس روپے بابا لطیف کے اور سو روپے اپنے باپ کے رکھتا اور پھر اس کے بعد جو کمائی ہوتی اسے اپنی جیب میں ڈالتا۔لڑکپن میں اس کے باپ نے اسے لاکھ مارا پیٹا کہ یہ کم از کم میٹرک تو کر لے لیکن یہ تھا کہ ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنا وقت کھیلوں میں برباد کرتا رہا۔چھٹی جماعت میں سکول سے بھاگا تو باپ نے پہلے موٹر سائیکل مرمت کے کام پر ڈالا، وہاں استادمکینک سے توں تکار کر کے چھوڑآیا۔پھرتو ایک سلسلہ ہی چل نکلاسلیم کبھی کسی درزی کے پاس ہوتاتو کبھی راج مستریوں کے کام پر،کبھی سنیاروں کی شاگردی میں دھکے کھاتا تو کبھی خرادیے کے اڈے پر۔یہ سلسلہ رکتا بھی کیسے کہ وہ ٹھہرا ذات کا آزاد پنچھی ،کسی کی ماتحتی میں کسب کرنا اس کی گٹھی میں ہی نہیں تھا۔ یوں ہی پھرتے پھراتے آخر ایک دن مسواکیں بیچنے کے دھندے پر آبیٹھا۔اس میں اس کا جی لگ گیا کہ یہاں اپنا کاروبار تھا اور اپنا وقت،اپنا دن تھا اور اپنی کمائی، نہ کسی کی پابندی تھی اور نہ کسی کی مداخلت۔
پچھلے کئی سالوں سے وہ یہاں اپنا اڈا چلا رہا تھااور بڑی اور پُر ہجوم سڑک پر ہونے کے سبب یہ خوب چل رہا تھا۔لوگ جانتے تھے کہ بوڑھ تلے مسواکیں سارا سال دستیاب رہتی ہیں اس لئے گاہکی کم نہ پڑتی۔اڈے سے کچھ فاصلے پر لڑکیوں کا ایک کالج تھا۔ حسین وجمیل طالبات نت نئے فیشن کے ملبوسات میں روزانہ وہاں سے گذرتیں ،بعض اس کے قریب جوس چاٹ کی دوکان پرکچھ کھانے پینے کے بہانے کسی کاانتظار کرتیں اور دوکاندار کی آمدن بڑھاتیں اورکچھ لڑکیاں اپنے پریتم کی موٹرسائیکل کو اڑن کھٹولا جان کر اس پر اڑتی پھرتیں۔یہ نظارہ وہ کم وبیش روزانہ ہی دیکھتا لیکن کبھی اس کے من میں نہ آئی کہ اگر وہ بھی پڑھ لکھ جاتا تو آج اس کے پیچھے بھی کوئی خوبصورت دوشیزہ ہوتی۔ اپنے ہم عمروں کی طرح وہ بھی مکڈونلڈ اورکے ایف سی وغیرہ سے کھلی باچھوں کے ساتھ برگر کھاتا اورپھر باہر نکل کر بائے بائے ، ٹاٹاکے ساتھ رخصت ہوتا۔لیکن اس کے لئے تو گانٹھیں تراش کر مسواکوں کو سیدھا کرنا اور انھیں بیچنا ہی سب کچھ تھا۔وہ ایک ایسا کِشن تھا جس کے چوگرد گوپیاں تھیں لیکن اک دوجے کی موجودگی سے بے خبر۔
نمازِ فجر کے لئے آنے والے نمازیوں کی خدمت کے پیشِ نظر اسے منہ اندھیرے ہی اڈے پر آنا پڑتا تھا۔ ایک صبح اس کا واسطہ یکسر نئے منظر سے پڑا۔ چوک میں اشاروں کی نئی بتیاں لگ چکی تھیں، سڑک کو نہلادھلا کر صاف ستھرا کر دیا گیا تھااورہر طرف بڑے بڑے بینر آویزاں تھے جن پر حکمرانوں کی شان میں قصیدے درج تھے۔غریب عوام کو روزگار کی فراہمی اور ٹریفک کے بے ہنگم بہاؤ میں بہتری کے لئے نئی پولیس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ٹریفک پولیس کے پرانے اہلکاروں کو شہر سے باہر ان کے آبائی علاقوں کے قرب و جوار میں تعینات کر کے ان کی جگہ نئے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔صبح سویرے بڑی بڑی گاڑیوں نے دورے کیے، سڑک کنارے نیلی پیلی چھتریاں لگائی گئیں۔ اعلیٰ درجے کے افسران کے ہمراہ صوبائی وزیر بھی آیا اور جدیدکیمروں سے لیس بہت سے کیمرہ مین بھی۔اگلے دن کے اخبارات ان خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ ایک اخبار کی ایک تصویر کے کونے میں ذرا سی جھلک سلیم کی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اخبار کا وہ ٹکڑا اس نے اپنے پاس سنبھال لیااوراپنے دوستوں کے علاوہ گاہکوں کو بھی دکھاتا رہا۔
ایک ہفتے کے بعد وہاں دو نوجوان پولیس اہلکارآئے ، ان کے ساتھ ایک زنانہ اہلکار بھی تھی جو دن بھرساتھی اہلکاروں کے شانہ بشانہ ٹریفک روکتی اور چلاتی رہی اور شام ڈھلے سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔ سلیم اپنے گھر لوٹاتو محلے میں خوب ڈھنڈوراپیٹا کہ انگریزی فلموں کی طرح اب ہمارے ملک میں بھی لڑکیاں پولیس میں آ گئی ہیں، یہاں تک کہ اِس ڈھنڈورے سے متاثر ہو کراس کے کچھ دوست بھی اگلی صبح اڈے پر آگئے۔پہلے تو وہ سلیم کاتمسخر اڑاتے رہے جیسے انھیں اس کی بات پر اعتبار نہیں لیکن جب عین آٹھ بجے خاتون اہلکار کا دیدار ہوا تو انھیں یقین کرنا پڑا۔گذشتہ روز کے برعکس آج اس نے اپنے بال ٹوپی میں سمیٹنے کی بجائے شانوں پر کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ اس کی ٹوپی سے پیچھے کولہراتی دراز زلفیں دیکھ کر سلیم کو گدگدی سی ہوئی اور وہ شرما سا گیا۔اس کے دوست کبھی اس کی طرف تکتے تو کبھی خاتون اہلکار کی طرف، اور جب وہ کسی گاڑی کو روکتی یا اس کا چالان کاٹتی تو بغلوں میں منہ دے کر ہنسنے لگتے یا ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر۔ ’’ یار چھیمے یہاں سے اور لڑکیاں بھی تو گذرتی ہیں، تو نے کبھی ان کی طرف تو دھیان نہیں دیا‘‘ ایک دوست نے سلیم کی رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے استفسار کیا۔ ’’ دھیان تو میں نے اس کی طرف بھی نہیں دیا، اوروہ لڑکیاں پولیس والی تو نہیں ہیں نا‘‘
’’ لڑکیوں کے پولیس میں ہونے سے کیا ہوتا ہے، عورتیں تو تھانے میں بھی بیٹھی ہوتی ہیں‘‘
’’ اچھا…. تو تمہیں وہ نہیں یاد ،جب ہم چاچے کرم دین کا ملاحظہ کروانے کے لئے گئے تھے،دیکھا تھا وہاں، کتنی ہٹیاں کٹیاں پہلوان ٹائپ پولیس والیاں تھیں، انھوں نے کتنے چرغے اڑا ڈالے تھے، ایک ایک جنی نے تین تین چرغے کھائے تھے اور ساتھ چار چار بوتلیں بھی چڑھا لی تھیں‘‘
’’ بات توٹھیک ہے تمہاری، یہ ان سے بہت مختلف ہے‘‘
’’ پستول تو اس نے بھی ناف کی بائیں جانب ہی لگایا ہوا ہے‘‘
’’یاریہ تو سرکار کے حکم کے مطابق ہے، لیکن تم نے کبھی اُن پولیس والیوں کو پھینٹی لگاتے دیکھا ہے؟ مردوں جیسے تو ہاتھ ہیں اُن کے، توبہ توبہ کروا دیتی ہیں،مگر یار اس پولیس والی کی تو بات ہی اور ہے، دیکھو ذرا…چلتی کیسے ہے اور ہنستی کیسے ہے‘‘
’’ لو جی…. اپنا چھیما تو سودائی ہو گیا ہے‘‘ ایک دوست نے سلیم کو چھیڑنے کے لئے اس کے سامنے زنانہ چال کی نقل کرتے ہوئے کہا۔
زنانہ پولیس اہلکار کے متعارف ہونے کے بعد اس کے دوست اسے چھیما یا سودائی کہہ کر پکارتے تووہ ان پر آنکھیں نکالنے لگتا۔ جب کوئی لال بتی کو نظر اندازکرکے گذرتا یاموٹرسائیکل سوارلڑکے اس خاتون اہلکارکو دیکھ کر ہنستے یا پھر آپس کی گپ شپ میں اس پر الٹے سیدھے جملے کستے تو برگد کے پیڑ تلے بیٹھے سلیم کا د ل چاہتا کہ ان کا سر پھاڑ دے۔لیکن ایسا ممکن نہیں تھا، سووہ من ہی من میں کڑھتا رہتا۔ ایک روز اس نے اپنی ماں سے کہہ کر انگریزی طرز کا لباس سلوایا۔اب وہ ہر دوسرے تیسرے دن شیو کروانے لگا تھا۔اس سے پیشتروہ اپنا اڈا کبھی نہیں چھوڑتا تھا لیکن اب وہ مسواکیں اشارے پر کھڑی گاڑیوں کوبھی فراہم کرنے لگا تھا۔اڈے پر بچھی دری تلے پڑی رقم کی فکربھی اس نے چھوڑ دی تھی۔اب اسے بس ایک ہی خواہش تھی اور وہ یہ کہ وہ خاتون پولیس اہلکارایک نظر اس کی جانب دیکھے، لیکن وہ تھی کہ کبھی سلیم کی طرف نہ دیکھتی اورہمہ وقت اپنے کام میں مشغول رہتی ۔ کبھی وائرلیس پر کال کرنے میں محو ہوتی تو کبھی کسی گاڑی والے کو جرمانہ کرنے میں مصروف۔گرمی کے پیشِ نظر اس نے پانی کی بوتل کسی کونے میں ٹکائی ہوتی ، تپش میں شدت کے وقت سلیم کا دل چاہتا کہ وہ اسے قریبی دوکان سے جوس لا دے لیکن ہمت نہ کر پاتااور یہ خیال اس کے دل سے نکل کر ذہن تک محدود رہتا۔
ایک دن گاڑی میں سوار دو لڑکوں نے اس سے دس کے قریب مسواکیں لیں، سلیم پیسوں کا حساب لگانے لگا، پینتالیس روپے بن رہے تھے، وہ انھیں بتانے ہی والا تھا کہ ایک لڑکے نے خاتون اہلکارکی جانب دیکھ کر جملہ اچھالا۔ ’’ یار… کاش یہ کبھی ہمارا بھی چالان کاٹے‘‘ دونوں لڑکے قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔سلیم نے سنا تو سارا سودا ان سے واپس لے لیا۔ لڑکوں نے کافی دیر بحث کی، بہتیرا مغز کھپایا لیکن وہ نہ مانا۔یہاں تک کہ وہ لڑکے اسے پاگل قرار دے کر چل دیے۔
سلیم کی حالت دیوانوں کی سی ہو گئی تھی۔ جس روز وہ خاتون اہلکار کسی بزرگ عورت کو سڑک پار کرواتی ، بچوں کی انگلی تھام کر ٹریفک روک دیتی یا کسی بڑی گاڑی والے کو جرمانہ کرتی، وہ اپنی ماں اور یاروں کے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کرتااور کئی کئی گھنٹے اس کے بارے میں بھاشن دیتا۔اگر کبھی کسی روز وہ پولیس والی بھولے سے چھٹی کر بیٹھتی تو وہ سارا دن کاٹنے کو دوڑتا رہتا، کبھی کسی سے لڑتا، کبھی کسی سے الجھتا۔
وہ برسہا برس سے یومِ آزادی کے موقع پرکاروبار بند رکھتاتھالیکن اِس سال اُس نے چھٹی نہیں کی اور اپنے یاروں کے ہمراہ اڈے پر آگیا۔
’’ یار… اس کے ہاتھوں پر دستانے کتنے جچتے ہیں ، اس کے ہاتھ تو شائد ان دستانوں سے بھی زیادہ سفید ہوں گے‘‘
’’ چھیمے یار… اس کے ساتھی پولیس والوں نے بھی تو پہنے ہوئے ہیں‘‘
’’ ان کو بھی جچ رہے ہیں‘‘ ایک لڑکا ازراہِ تفنن بولا۔
’’ یار یہ لڑکیاں شادی کے بعد بھی نوکری جاری رکھیں گی‘‘
’’ اور چھوڑ دیں گی کیا…. اوئے پاگلا…. ان کے والدین جانیں یا ان کے شوہر، ہمیں کیا‘‘
’’ یار… شادی کے بعد ان کی وردیاں بدل جاتی ہوں گی‘‘ سلیم کسی گہری سوچ میں گم بول رہا تھا۔
’’ وہ کیوں بقراط جی، اب کچھ نیا سوچ لیا کیا؟‘‘
’’یار…. شادی کے بعد وردیاں بڑی ہو جائیں گی، کیونکہ بچے ہو جائیں گے اور پھر کپڑے تو کھلے…..‘‘ سلیم کو شرم آ گئی، اس نے نگاہیں جھکا لیں اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ سلیم باؤ …. ہوش کر یار، ان کی تو شادیاں بھی بڑے افسروں سے ہوتی ہیں اور وہ کوئی اتنی جلدی بچہ تھوڑی لیتے ہیں، وہ تو کہتے ہیں ابھی انجوائے کرنے کے دن ہیں اور ویسے بھی، یہ باتیں ہمارے سوچنے کی نہیں‘‘
’’ اس نے کبھی تجھے غور سے دیکھا بھی ہے؟ مجھے تو نہیں لگتا‘‘ ایک اور لڑکے نے لقمہ دیا۔
’’ یار اس کا دیکھنا ضروری نہیں، بس میرا اس کو دیکھنا ضروری ہے‘‘ سلیم نے آہ بھری۔
’’ اِس کاتو اب خدا ہی حافظ ہے‘‘ لڑکوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیزنظروں سے دیکھااور گھر کی راہ لی۔
سلیم کو اب پچھتاوہ سا رہنے لگا کہ کاش وہ بھی پڑھ لکھ جاتا تو آج پولیس والے دوسرے لڑکوں کی طرح اس کے قریب کھڑا ہوتا، ہنس ہنس کے باتیں کرتا، اس کے ساتھ مل کے سٹہ کھاتا، قلفی میں حصے داری کرتا ۔حد تویہ تھی کہ اس کی تمام ترسوچوں کا محور ایک ایسی لڑکی تھی جس کا وہ نام تک نہیں جانتا تھا۔اس پولیس والی کے سبب اس نے کسی کو اپنے اڈے پر بٹھانا بھی چھوڑ دیاتھاوگرنہ کبھی کبھار چاچا لطیف یا اس کا باپ بھی اس کی جگہ سنبھال لیتے تھے۔اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، اس کی سوچوں، خیالوں، سپنوں اور خوابوں میں بس ایک وہی نیلی وردی میں ملبوس ٹریفک پولیس کی زنانہ اہلکار ہوتی۔وہ اس قدر گہرائی سے مشاہدہ کرتاکہ اسے اس کے آنے جانے کے اوقات کے علاوہ لپ اسٹک ، موبائل، کلپ، عینک وغیرہ کے رنگ اور ڈیزائین کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کا دورانیہ بھی ازبر ہوتا۔
ایک صبح سلیم نے دیکھا کہ اس کی جگہ نئی لڑکی چوک میں کھڑی ٹریفک پولیس کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہے۔یہ بھی اسی کی طرح اونچی لمبی اور جوان تھی لیکن یہ وہ نہیں تھی….۔یونہی ایک ہفتہ گذر گیا۔ سلیم کا دل چاہا کہ اس کے ساتھی پولیس والے سے اس کا پوچھے مگر ہمت نہ کر پایا۔ ایک بے کلی تھی جو ہمہ وقت اسے گھیرے ہوئے تھی چنانچہ اب وہ سگریٹ بھی پینے لگا تھا۔ اسی کی فکر تھی جو ہر لمحہ اس کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی ۔ وہ سوچتا ’’خدا کرے وہ ٹھیک ہو، اس کے عزیزو اقارب ٹھیک ہوں،کہیں اس کاتبادلہ نہ ہو گیا ہو، نوکری نہ چھوڑ گئی ہو، اس کی شادی….. یہاں پہنچ کر اس کا ذہن جواب دے جاتااور پچھلے خیال کی طرف لوٹنے سے بھی قاصر ہو تا۔ان تمام دنوں میں گئے وقت کے مناظر اور قصے ہی اس کا سہارا تھے۔یہ تمام دن ….جنھیں تمام ہونے میں 35دن لگ گئے۔ پورے 35دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گئی ، دوسری لڑکی کو کہیں اور بھجوا دیا گیا۔وہ سارا دن بس اسے ہی دیکھتا رہا جیسے غیر حاضری کے دنوں کی کسر ایک ہی روز میں پوری کرنا چاہتا ہو۔کچھ بھی تو نہ بدلا تھا، وہی مسکراہٹ، وہی چال، وہی ڈھال۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیاکہ سب کچھ ٹھیک تھا۔
دو دن بعدرمضان کا مہینہ آ رہا تھا، مسواکوں کی فروخت کئی گنا بڑھنے کی توقع تھی۔ اس ماہ کے دوران وہ اپنے کسی یار دوست کی مدد لیتا تھا تاکہ کاروبار سنبھالنے میں آسانی رہے۔شام کے وقت وہ انہی سوچوں میں گم اڈا پھیلانے کے لئے چادر کی پیمائش اور مسواکوں کاجائزہ لینے میں مصروف تھاکہ اس کی نظر اس پر پڑی،وہ ایک موٹر کارمیں بیٹھ رہی تھی جبکہ سرکاری گاڑی جو اسے گھر لے جانے پر مامور تھی، وہیں ایک طرف کھڑی تھی۔سلیم حیرت سے دونوں گاڑیوں کو تکنے لگا، اسی اثنا ء میں اسے وہ موٹر کار اپنی جانب آتی دکھائی دی۔وہ دم بخود کھڑا دیکھ رہا تھا کہ کار اس کے قریب آ کر رک گئی۔کار میں سے آواز آئی ’’ دو کیکر کی اور دو سکھ چین کی مسواکیں دینا‘‘
اس نے پہلے باراتنے نزدیک سے اس کی آواز سنی تھی اور اس باراس کا مخاطب بھی کوئی اور نہیں، وہ خود تھا۔ دل سینے میں یوں دھڑکا جیسے ابھی ہتھیلی پر آجائے گا۔
’’ جی‘‘ سلیم کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔
’’ میں نے کہا تھا نا کہ اس اشارے پر سارا دن مسواکیں ملتی ہیں‘‘ پولیس والی کا لہجہ جتانے والا تھا۔
’’ جی بیگم صاحبہ، آپ نے درست فرمایا تھا‘‘ کار میں اس کے ساتھ بیٹھے شخص نے ناز اٹھانے کے اندازمیں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ یہ لیں بی بی جی‘‘ سلیم نے مسواکیں چن کر اس کے ہاتھ میں تھمادیں۔
’’ کتنے پیسے؟‘‘
’’ نہیں جی،آپ سے کیا پیسے لینا، آپ بھی تو سارا دن میرے ساتھ یہیں گذارتی ہیں‘‘
’’ نہیں…. پھر بھی‘‘
’’ اگلی بار آئیں گی تو لے لوں گا، پہلی بار تو آئی ہیں آپ میرے اڈے پر‘‘ سلیم واپس اپنے اڈے پر آ بیٹھا ، موٹرکار آگے بڑھ گئی۔
اڈے پر بیٹھ کروہ دانتری سے مسواکیں تراشنے لگاجو اس کے آنسوؤں سے تر ہوتی جارہی تھیں۔ اس کی آہیں اور سسکیاں ایک ہوئی جاتی تھیں لیکن ان کی آوازگاڑیوں کے شورتلے دب چکی تھی اور اس کی آنکھوں کا پانی سڑک کی دھول ہو چکاتھا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search