This     page     can     not     be     displayed ۔ زاہد نبی

 In نظم

مری درخواست اپنے منطقی انجام کو پہنچی

جہاں منظر ابھرنا تھا

وہاں پر شور تصویریں ہیں لفظوں کی

کسی دیوار کی مانند۔۔۔

رستہ روک کر بیٹھی ہوئی مجھ سے یوں گویا ہیں۔۔۔

تم اپنے ربط کا ٹانکا کہیں سے توڑ بیٹھے ہو

کسی کا پاس رکھنا تھا

کوئی اک لفظ بھرنا تھا

کوئی حرفِ مقدم ہے جسے تم چھوڑ بیٹھے ہو

مراسم کا کوئی سا ریشمی زینہ پریشاں ہو گیا شائد

یا ممکن ہے کہ اس کی ڈور میں الجھاؤ آیا ہو

بہت کچھ اور بھی ممکن کی حد میں ہے

مگر چھوڑو ۔۔۔ہوا جو بھی اسے چھوڑو

نہیں کوشش جو واجب ہے وہ کر دیکھو

چلوکھولو۔۔۔

یہی کھڑکی کسی خستہ تعلق کی

اسے پھر سے کوئی تازہ ہدایت دو

سپردِ محویت کر دو نگاہوں کو

کہ شاید اب کوئی منظر رسائی دے

تجھے پھر سے کہیں پر وہ  دکھائی دے

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search