محترم جناب زاہد مغل کے ارشادات کا جواب (۳)۔ محمد دین جوہر
میں نے اپنا سابقہ مضمون ”جناب زاہد مغل کے ارشادات مزید کا جواب“ کافی تردد کے بعد شائع کیا تھا تاکہ ایک بات بلاخوف تردید ثابت ہو جائے کہ محترم جناب زاہد مغل ناچیز سے بلا موازنہ نیک اور متقی آدمی ہیں۔ انہوں نے میرے سخت جملوں کا جس حلم، برداشت اور محبت سے جواب دیا ہے مجھے اسی کی توقع تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکی مطلوب ہے، اور علم وقت کے بہاؤ کی جھاگ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں غیرمطلوب ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ملت اسلامیہ کے ہم عصر حالات میں نئے علم کی ضرورت دینی اعتبار سے بھی پیدا ہو گئی ہے، اور اس پر کلام کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ علمی معاملات میں شغف سے کثرت عبادت اور ذکر و اذکار پر لازمی منفی اثر مرتب ہوتا ہے، جو یقیناً تکلیف دہ ہے۔ ممدوح محترم جس طریقے پر مختلف شعبوں میں دین اور دینی شعائر کا علمی دفاع کرتے ہیں وہ نہایت قابلِ قدر کاوش ہے۔ لیکن چونکہ ممدوح محترم علمی اور نظری امور سے کوئی طبعی مناسبت نہیں رکھتے اس لیے اس کا معلوماتی فائدہ ہی ممکن نظر آتا ہے۔ یہ بات میں نے حاشا و کلا ان کی تجہیل کے لیے عرض نہیں کی تھی، بلکہ ان کی علمی مہمات کو دیکھ کر دیانت داری سے کہی ہے۔ اگر ہمارے درمیان یہ گفتگو جاری رہی تو ان کے ارشادات کا یہ پہلو بھی بالکل ظاہر ہو جائے گا۔ میری گزارش تو صرف اتنی ہی تھی کہ مسلمان تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں تو شاہ مدار بننے کی اِن حالات میں کیا دینی ضرورت پیش آ گئی ہے؟
یہاں ایک غیرمتعلق لیکن پس منظر کے طور پر ایک مزید گزارش کرنا ضروری ہے۔ جب جامعہ امدادیہ کے مہتمم محترم مولانا محمد زاہد صاحب کے حوالے سے جناب زاہد مغل صاحب، جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب، جناب متین شاہ صاحب اور جناب عمار خان ناصر صاحب سے اختلاف واقع ہوا، اور جناب زاہد مغل صاحب کی مداخلت سے معاملات سلجھ گئے تو اس کے بعد سے میں نے سوائے عمار خان ناصر صاحب کی پوسٹوں پر کمنٹ کے دیگر احباب کے ارشادات پر کبھی کوئی کمنٹ نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی رائے دی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنی نیازمندی کے اظہار کے لیے لائکس اور تائیدات پیش کرتا رہتا ہوں تاکہ ان کی بڑائی مسلم رہے۔ میں بخوبی آگاہ ہوں کہ فی زمانہ علم اپنی توثیقات دلائل سے نہیں پاتا بلکہ مراکزِ طاقت سے قرب و فاصلہ اس کی ثقاہت کا تعین کرتا ہے، اور یہ امر مذہبی اور غیرمذہبی علم دونوں کے ساتھ عام ہے۔ اگر ہم منقولات سے حاصل شدہ دین کو تھوڑی دیر کے لیے الگ کر دیں، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام جدید دینی تعبیراتی علوم بھی عین اسی طرح nihilistic ہیں جس طرح کہ غیردینی علوم ہیں کیونکہ ان میں جدید طاقت کے ایک بالکل نئے مظہر کی رعایت رکھی گئی ہے جسے public sphere کہا جاتا ہے اور جس میں صحافت اور میڈیا پیدا ہو کر فعال ہوئے ہیں۔ تاریخی مؤثرات انسانی فہم کے سانچوں پر لازماً اثرانداز ہوتے ہیں اور public sphere نے انسانی فہم کے نئے سانچے قائم کیے ہیں اور ہماری مذہبی تعبیرات بھی ان میں fit in ہونے کی کوشش میں پورے دین کو ہی تبدیل کر چکی ہیں۔ یہ سانچے بھی مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں اور اِندراسِ علم میں ایک طاقتور پہلو یہ مسئلہ بھی ہے اگرچہ نئے علم کی پیدائش سے پرانے کی وقعت کا کم ہونا بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ ہمارے ہاں تجدد ”نئے علوم“ کی بہترین مثال ہے اور تجددی تعبیراتِ دین بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ میری یہ گزارش موضوع سے غیرمتعلق ہے لیکن جناب زاہد مغل کے شروع کردہ تازہ مکالمے کے پس منظر کے طور پر ضروری تھی۔
اب ہم ممدوحِ محترم کے تازہ ارشادات کی طرف واپس آتے ہیں جس میں ہمارے درمیان زیر بحث مسئلہ انہی کے الفاظ میں یہ ہے: ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے میں شرعاً کیا غلطی ہے؟“۔ میں ابھی یہی موضوع اور اس کے لازمی متعلقات کو چلانا چاہتا ہوں جبکہ اس عرصے میں وہ کئی نئے موضوع بھی چھیڑ چکے ہیں جو ان کے عدم تحفظ کو ظاہر کرتا ہے۔ میں زیربحث مسئلے کی تنقیح تک دوسرے موضوعات پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ میری پوسٹ پر اپنے نمبر شمار کمنٹ کے علاوہ کسی کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے ایک کمنٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے: ”میرا جوہر صاحب سے بنیادی سوال صرف اتنا ہے کہ جو مقدمہ انہوں نے وضع کیا ہے کانٹ کے فلسفے کے سوا اس کا ماخذ اور کیا ہے؟“ واضح رہے کہ یہ سوال ”بنیادی“ ہے۔ اب یہ ایک بالکل غیرعلمی ذہن کا سوال ہے جو صرف ایس ایچ او کی سطح کی تفتیشی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ہر بندہ جس خیال کا اظہار کر رہا ہوتا ہے وہ اس کا ذاتی خیال ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں سائنسی اور سماجی علوم کی جو بھی صورت حال پیدا ہوئی ہے اس میں کانٹ کی حیثیت مرکزی ہے اور عقل محض کا مقدمہ اتنا معروف ہے کہ جو صرف اخبار وغیرہ پڑھتا ہے وہ بھی اس کو کانٹ کے حوالے سے یقیناً جانتا ہو گا۔ میرے بارے میں یہ سوال کرنا ممدوح محترم کی سادہ لوحی اور جوش ایمانی پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اطلاع دے کہ چوری ہو گئی ہے تو پاکستانی پولیس اسی کو پکڑ کر بٹھا لیتی ہے کہ یہی چور ہے۔ عقل محض کا نام لینے پر ممدوح محترم بھی یہی رویہ سامنے لا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے مخاصم ایک کافر کے علم سے استفادہ کرتے ہیں جس کا نام کانٹ ہے، اور مجھ سے بھی اقبالی بیان کی توقع رکھتے ہیں۔ مجھے اقبالی بیان دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی، اگر پہلے وہ ہمارے سارے متکلمین سے بھی ایسا ہی بیان لے کے رکھ لیں جو ارسطو جیسے کافر کو معلم اول کہتے کہتے اور اس کے پیدا کردہ علم سے بھڑتے بھڑتے دنیا سے چلے گئے، اور ممدوح محترم کے لیے علم الکلام چھوڑ گئے تاکہ وہ اس سے دین کی خدمت کیا کریں! میرا مقصد تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جدید علوم نے مذہبی آدمی کے لیے جو مسائل کھڑے کیے ہیں ان کو زیربحث لانے اور ان کے مہلک اثرات سے بچنے کا کوئی راستہ نکالا جائے، اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم علمی تشکیلات کے جدید وسائل سے واقف ہوں۔ لیکن جناب زاہد مغل صاحب جس طرح روایتی معقولات کو منقولات بنا کر ان کے حوالے دے رہے ہوتے ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دینی عقیدے کو ڈھانے سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ غیب و شہود کا فرق عقیدے میں ’نامعلوم‘ ہے، اور علم میں مطلق ہے، اور اس امتیاز کو جونہی نظرانداز کیا جائے گا وہی صورت حال پیدا ہو گی جس سے ان کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔
گزارش ہے کہ نیوٹنیائی فزکس کی دریافتوں سے جو علم سامنے آیا اور وہ جس میکانکی اور مکمل جبری کائنات پر دلالت کرتا تھا اس میں انسان بطور اخلاقی اور روحانی وجود کوئی جگہ نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ علم انسانی ارادے اور حریت کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہنے دیتا۔ کانٹ نے عقل انسانی یا سائنسی عقل کی جائز تحدیدات قائم کر کے جدید انسان کے لیے یہ جگہ پیدا کی ہے، اور یہ تحدیدات خود عقل کے لیے بھی واجب التسلیم ہیں۔ اس عمل میں اُس نے قدری شعور (axiological consciousness) کو سائنس اور فلسفے میں کارفرما عقل کے تصرفات سے جائز طور پر خارج کر دیا۔ کانٹ کی عقل محض پر تو کوئی اخلاقیات بھی کھڑی نہیں کی جا سکتی، اور اس کے لیے وہ تجربے اور اولیاتِ شعور وغیرہ کو بنیاد بناتا ہے، اور جو اِس وقت زیربحث نہیں۔ میں جو گزارش کرتا چلا آ رہا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ سائنس جو ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ نیچر میں کارفرما توانائی اور حرکت کے مادی قوانین دریافت کرتی ہے اس سے عقیدہ مستدل نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ مغیبات میں سے ہے مادیات میں نہیں ہے۔ عقلِ محض کے ادراک و نتائج میں وحی جیسی چیزیں نہ موجود ہیں اور نہ ممکن ہیں۔ میں کانٹ کے مقدمات کو درست اور علمی دیانت پر مبنی مانتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں وحی بھی عقل سے ثابت کرنی ہے تو اس کے لیے ہمیں عقل کا کوئی نیا اور علمی طور پر ثقہ تصور اور موقف دینا ہو گا جو اس وقت موجود نہیں ہے، اور یہ موقف عقلِ محض کے موقف سے ہیرا پھیری کر کے سامنے نہیں لایا جا سکتا، اس کو صرف رد کر کے ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ میں کانٹ کے عقلِ محض کے تصور کو علمی طور پر درست سمجھتا ہوں، لیکن مذہبی عقیدے کے لیے مہلک سمجھتا ہوں کیونکہ وہ عقل محض کو نہ صرف وحی سے بلکہ کسی بھی طرح کی مابعد الطبیعات سے قطعی غیرمتعلق کر کے ان دائروں میں اس کو مطلق غیرمؤثر کر دیتا ہے۔ کانٹ کے فلسفے کے مطابق اگر عقل کی بات ہو گی تو وحی اور مابعدالطبیعات خارج ہوں گی، اور وحی اور مابعدالطبیعات پر بات ہو گی تو وہ عقلی بات نہیں ہو گی۔ عالمگیر انسانی تہذیب میں یہ صورت حال اب واقعاتی طور پر قائم ہو گئی ہے، اور جناب زاہد مغل صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال میں نے پیدا کی ہے کیونکہ میں نے اس کا ذکر کر دیا ہے۔ یہ ان کی مبلغ عقل ہے اور اس سے وہ ملتِ اسلامیہ کے جو مسائل حل کریں گے ان کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی اور ان کی استعانت کے لیے دعاگو ہیں۔
عرض ہے کہ کانٹ کے موقف کو بیان کرنا ہمیں درپیش مسئلے کو بیان کرنا ہے، اس کی تصویب و تائید کرنا نہیں ہے۔ ہم چونکہ بہت گہری حالت انکار میں ہیں اس لیے سمجھتے ہیں کہ کانٹ کے روبرو ’نہیں‘ اور سائنس کے روبرو ’ہاں‘ کہہ کر یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ علم میں بددیانتی اخلاقیات اور عقیدے دونوں کو کھا جاتی ہے، اور ہم اس وقت پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد دوسرے مرحلے میں ہیں۔ اگر ہم اپنے عقیدے کو کوئی عقلی اساس دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دوسروں کا کیا ہوا کام ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا ہمارے اسلاف کے روایتی علم الکلام کی طرح کوئی نیا کام کرنا ضروری ہو گا۔ ہم عصر دنیا میں ہمیں عقلِ محض اور سائنس میں کارفرما عقل کے تصور کو ثقہ علمی دلائل سے رد کر کے یا بدل کر اس کی جگہ نئے علمی اور ثقہ دلائل کے ساتھ ایسی عقل کا تصور پیش کرنا ہو گا جو وحی کے لیے کوئی گنجائش رکھتی ہو۔ مجھے مسئلے کی نوعیت معلوم ہے، لیکن کانٹ کے موقف کو عقلی اور ثقہ بنیادوں پر رد کرنے کی صلاحیت اور وسائل مجھ میں نہیں ہیں۔ اس لیے میں عقیدہ بلا دلیلِ عقلی مانتا ہوں اور عقل محض کے شب خون سے خبردار رہتا ہوں۔ جبکہ جناب زاہد مغل کو اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ عقل کیا ہوتی ہے اور وہ عقیدے کو منہدم کرنے والے جدید علوم سے بھی واقف نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ روایتی علم الکلام کے غیرمتعلق متون کو ادھر ادھر درج کر دینے سے ان مسائل کا حل ازخود نکل آئے گا۔ لیکن روایتی علم الکلام پر اس قدر ناز کے باوجود وہ سائنسی مادی تجربات کو بھی عقیدے سے متعلق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں اس طرح کی مہمات کا شوق ہے تو کرنے کا اول کام یہ ہے کہ روایتی علم الکلام اور جدید سائنس میں علمی طور پر ثقہ کوئی interface پیدا کر کے دکھائیں۔ روایتی علم الکلام اور جدید فزکس میں وہ کوئی ایک ثقہ علمی نسبت پیدا کر کے دکھا دیں، پھر وہ شوق سے عقیدے اور سائنس کا نکاح کراتے پھریں ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
ہمارے درمیان نزاعی مسئلہ ممدوح محترم ہی کے الفاظ میں مکرر درج ہے: ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے میں شرعاً کیا غلطی ہے؟“ اس میں کیا شک ہے کہ کلاسیکل علم الکلام میں عقیدے پر عقلی استدلال عام بات ہے اور اس کے لیے صفاتِ باری کی بحث کو دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ اب ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنا“ بھی ایک عقلی سرگرمی ہی ہے تو وہ روایتی علم الکلام کی طرح کیوں ممکن نہیں ہے؟ ہمارے ممدوح محترم یہاں الجھے ہوئے ہیں۔ اس میں بہت سیدھی بات یہ ہے کہ کلاسیکل علم الکلام میں عقلی استدلال مابعدِ اثباتِ عقیدہ ہے، ما قبل اثباتِ عقیدہ نہیں ہے۔ جب عقل نے عقیدے کو مان لیا تو اب اس پر عقلی استدلال سے اسے کون روک سکتا ہے؟ لیکن یہ عقلی استدلال شہود سے غیب پر نہیں ہے، اخبار وحی سے عقیدے پر ہے۔ یہ کہنا کہ اس عقل نے استدلال سے عقیدہ قبول کیا ہے اور یہی قبولیتِ اول اس کے عقیدے میں استدلال کی بنیاد ہے سخت نادانی ہے۔ روایتی علم الکلام میں عقیدے پر عقلی استدلال کے بارے میں یہی وہ التباس ہے جو جناب زاہد مغل جیسے جدید مجتہدین کو لاحق ہوا ہے اور وہ عقلِ محض کے سائنسی استشہادات کو عقیدے میں مؤثر کرنا چاہتے ہیں۔ جدید عہد میں ہمارے علمائے جدید نے عقیدے پر جتنا کلام کیا ہے اس میں یہ غلطی علی الاطلاق موجود ہے، اور اب یہ بہت پختہ ہو گئی ہے اور مذہبی عقیدے کے مذہبی شرائط پر باقی رہنے کے امکان کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے اور اب وہ سائنس کی شرائط پر ہی قائم ہے۔ مسلم عقیدے پر توام افتاد تاریخ اور اجتماعی سیاست پر اس سے استشہاد کرنا بھی ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اور نہ زیربحث ہے لیکن اس کی طرف اشارہ ضروری تھا۔ جناب زاہد مغل کے خیال میں روایتی علم الکلام نے سارے ”عقلی مسئلے“ حل کر دیے تھے لہٰذا وہ کلامی متون کا بے دماغانہ اور بے دریغ استعمال فرماتے ہیں۔ ہمیں درپیش مسئلہ یہ ہے کہ کیا عقل محض کے ہوتے ہوئے، اسی کی شرائط پر عقیدہ ممکن ہے؟ جناب زاہد مغل کو خوش فہمی ہے، مجھے کوئی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس میں ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد“ شامل کر دیا جائے تو پھر ممکن ہے۔ میرا موقف ہے کہ یہ عقیدے کی موت ہے، ان کے نزدیک یہ عقیدے کی حیات ہے۔ ہمارا اختلاف کلی ہے اور ادھر ادھر دوڑنے کی بجائے صرف اسی موضوع پر دلائل سے انہیں اپنی بات مکمل کرنی چاہیے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جدید علمی اور فکری مسائل کی روایتی علم الکلام کو ہوا بھی نہیں لگی، اس لیے ان کے سب حوالہ جات بالکل غیرمتعلق ہیں اور اسلاف کی رسوائی کے لیے دیے جا رہے ہیں۔
مَیں عقیدے کے مشمولات کو نہ مجرد کہتا ہوں، نہ ذہنی کہتا ہوں، نہ مادی کہتا ہوں۔ میں انہیں صرف غیبی کہتا ہوں۔ عقیدہ مغیبات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک پر مان لینے کا نام ہے۔
ممدوحِ محترم کا استدلال مماثلتوں سے پیدا ہوتا ہے جیسے کہ ہاتھی کے بھی دو کان ہوتے ہیں اور کتے کے بھی دو کان ہوتے ہیں، دونوں میں کان سر کے پاس ہوتے ہیں اگرچہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، اور ہر دو کے کان سر ہلانے سے بھی ہلتے ہیں اور سر ساکن ہو تو اکیلے کان بھی ہلتے ہیں، لہٰذا یہ ثابت ہو گیا کہ ہر دو کے کان ایک ہی چیز ہیں یعنی کان ہیں، اور اگر کان ایک ہیں تو ہاتھی اور کتا بھی ایک ہی چیز ہوئے۔ اس میں مسئلہ یہ ہے اس ساری ”عقلی“ کارگزاری میں کتے اور ہاتھی کے بدیہی امتیاز کو نہ صرف نظر انداز کر دیا گیا ہے بلکہ اس سے وہ ہمیشہ حالتِ انکار میں چلے آتے ہیں۔ بدیہی اور غیربدیہی امتیازات کو نظرانداز کر کے عقل ہانکتے رہنے کو ہی سوفسطائیت کہتے ہیں، اور جناب کی تحریریں اسی کی عکاس ہوتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ روایتی علم الکلام میں بھی عقلی استدلال ہوتا ہے اور سائنس میں بھی عقلی استدلال ہوتا ہے، لہٰذا ہاتھی اور کتے کے کانوں کی طرح وہ ایک ہی ہے۔ وہ ان معروف استدلالات میں کارفرما تصورِ عقل اور شرائطِ استدلال پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ وہ مماثلتوں کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ وہ کلامی معقول کو مذہبی منقول کی شرط پر پڑھتے اور عمل کرتے ہیں، اور ساتھ ساتھ بزرگوں کی رسوائی کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنا“ اور ”فزکس کے ذریعے فرشتے ثابت کرنا“ ایک ہی قضیہ ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ میں ان کا موقف نہیں سمجھا، اور وہ بھاگ کے کوئی اور مسئلہ پکڑ لیتے ہیں۔ وہ مجھے کیوں دلائل نہیں دیتے کہ یہ ایک مسئلہ نہیں ہے؟ یہ ایک ہی مسئلے کی دو شکلیں ہیں، اور وہ اس کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان میں اختلاف کو ثابت کرنے والے دلائل ان کے پاس نہیں ہیں۔
گزارش ہے کہ میں عقیدے کے مشمولات کو نہ مجرد کہتا ہوں، نہ ذہنی کہتا ہوں، نہ مادی کہتا ہوں۔ میں انہیں صرف غیبی کہتا ہوں۔ عقیدہ مغیبات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک پر مان لینے کا نام ہے۔ مشمولاتِ عقیدہ کے داخلی امتیازات لسانی ہیں اور جن کی حقیقت کو میں نہیں جانتا سوائے اس کے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتا دی۔ اب جناب زاہد مغل کے فرمان کے مطابق ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے“ میں منعوت مغیبات ہی ثابت ہوں گی ناں یا کوئی بھیڑ بکری ثابت ہو گی؟ جبکہ فزکس ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ بدیہی وجود میں کارفرما توانائی اور حرکت کے قوانین ہی کو ثابت کرتی ہے، جن کی شرائط ہستی کلیتاً مادی ہی ہیں۔ وہ ارشاد تو فرمائیں کہ موجوداتِ مادی کا تجربی استشہاد مغیبات پر کس دلیل سے مؤثر ہو گا؟ وہ متنی اچھل کود کی بجائے کوئی دلیل تو لائیں تاکہ ان کے دعوے کی صداقت معلوم ہو۔ فزکس کسی وجود کو ثابت نہیں کرتی بلکہ بدیہی وجود کو ہی کل مان کر اس میں توانائی اور حرکت کے قوانین، مادے کی میکانکس، اور زمان و مکاں کو زیربحث لاتی ہے۔ تو ان سے گزارش ہے کہ وہ ناراض نہ ہوں اور اب وہ ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ عقیدے سے منعوت مغیبات میں موجود فرشتے کی حرکت اور اس پر وارد قوانین حرکت اور ان میں کام کرنے والی حرکی توانائی کو ثابت کر دیں۔ مسلمانوں کا ذہن اس قدر ناکارہ ہے کہ جو چیز ہاتھ میں پکڑی جا سکے وہ صرف اس کو مادی کہتے ہیں اور توانائی، اور شعاعوں وغیرہ کو وہ کوئی روحانی چیز خیال کرتے ہیں۔ ہمارے ممدوح محترم بھی سائنسی استشہاد کے شوقین اس لیے ہیں کہ ان کے زعم میں مادہ پیچھے رہ جائے گا اور توانائی کی شعائیں زمان و مکاں کی حد پار کر لیں گی اور فرشتے کی تصویر کھینچ کر واپس ہماری مشین میں آ جائیں گی۔ کفار بھی بوزون کو God particle اسی لیے کہتے ہیں کہ ان کا تصورِ خدا مادی ہے، اور ہمارے ممدوح محترم سائنسی استشہاد کے شوقین بھی اسی لیے ہیں۔ میں نے ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ فرشتے میں جو چیزیں ”سائنسی طور پر“ مستدل ہو سکتی ہیں ان کی فہرست بھی عرض کر دی ہے، کہ بھلے وہ فرشتہ نہ دکھائیں اس کی میکانکس تو ثابت کریں۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ ابھی رہ گیا ہے کہ اس فرشتے کو لیبارٹری میں لانا پڑے گا تاکہ تمام کفار بھی ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ فرشتے کی توانائی اور قوانین حرکت کو جان سکیں۔ ظاہر ہے کفار تو صرف قوانینِ حرکت اور توانائی پر ہی تجربات کر سکتے ہیں، فرشتہ وہ کہاں سے لائیں گے؟ اس کا آسان حل یہ ہے کہ ہم ایک فرشتہ پکڑ کر رکھ لیں، اور کافروں کی جس جس لیبارٹری میں ضرورت ہو وہاں اس کو لے جایا کریں۔ ہو سکتا ہے اس سے کچھ آمدنی بھی شروع ہو جائے اور عقیدے کا معاشی پروگرام بھی واضح ہو جائے۔ آمر مطلق ضیاء الحق کے دور میں فرشتوں سے توانائی حاصل کرنے کا جو منصوبہ شروع ہوا تھا شاید وہ بھی کچھ آگے بڑھ سکے۔
ہمیں جن جدید تہذیبی اور علمی مسائل کا سامنا ہے ان کا روایتی علم الکلام میں کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے ظہور کے ساتھ ہی روایتی علم الکلام جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، اور بطور علم ہمارے شعور اور ہماری تہذیب کے تمام پہلوؤں سے بالکل ہی غیرمتعلق ہو گیا۔ گزشتہ دو تین سو سال میں روایتی علم الکلام سے سائنسی اور تہذیبی مسائل کو جس طرح ”حل“ کرنے کی کوشش ہوئی ہے، کیا وہ کافی شہادت نہیں ہے؟ روایتی علم الکلام اور سائنس کا کامل ترین interface محترم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی ”ابطالِ گردش زمین“ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اعلیٰ حضرتؒ روایتی علم الکلام میں منتہی تھے اور اسی علمی روایت کے تربیت یافتہ تھے۔ اس interface پر جو نقد سامنے آیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس سے قبل یہی معاملہ ہمیں ”تصفیۃ العقائد“ میں نظر آتا ہے۔ محترم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بھی روایتی علم الکلام میں منتہی تھے۔ ایک طرح سے اعلیٰ حضرتؒ جدید سائنسی علوم سے اور نانوتویؒ جدید سماجی علوم سے تعرض فرما رہے تھے۔ دونوں بزرگوں کے ہاں کلامی طرز استدلال کی deployment منتہیانہ درجے میں سامنے آتی ہے، لیکن بالکل بے سود ہے کیونکہ دونوں بزرگوں کے ہاں زیربحث مسئلے کا ادراک جدید علمی شرائط پر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ علمیات میں تو دونوں حضرات ساتوں آسمان چیر کر آگے بڑھ گئے ہیں اور معلم اول ارسطو اور امام عالی مقام غزالی علیہ الرحمۃ پر بھی فائق نظر آتے ہیں۔ لیکن آدمی حالتِ انکار میں نہ ہو تو سچ یہ ہے کہ دونوں کتابیں ہمارے روایتی علم الکلام کی تدفینِ کامل پر کتبات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی غلیل لہراتا ہوا گھر میں خنداں داخل ہو کر اعلان کرے کہ میں ایف سولہ گرا کر آ رہا ہوں اور ہم سب بے اختیار پکار اٹھیں ”سبحان اللہ“۔ پہلے عقیدہ علم الکلام سے ”عقلاً“ ثابت ہوتا تھا اور جناب زاہد مغل صاحب اب فزکس سے بھی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ تو علم الکلام کی شکست کا اعتراف ہے، کیونکہ اس سے گردش زمین بھی ثابت نہیں ہوتی۔ اب ہر مادی چیز کی میکانکس چونکہ فزکس سے ثابت ہوتی ہے تو انہوں نے سوچا کہ لگے ہاتھوں عقیدہ بھی ثابت کرا لیں۔ اور دیانت داری کا عالم یہ ہے کہ جھنڈا علم الکلام کا اٹھایا ہوا ہے۔ معلوم نہیں وہ کسے دھوکا دے رہے ہیں۔ جناب زاہد مغل صاحب کو غلط فہمی اور خوش فہمی ہو گئی ہے کہ انہیں روایتی علم الکلام اور جدید سائنس ان بزرگوں سے زیادہ معلوم ہے۔ اب بھلا کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ انہوں نے بے وقت کی راگنی چھیڑی ہے، اور یہ اس لیے ہوا ہے کہ ان کی طرح ہمارے اہل علم جب کتاب میں سر دیتے ہیں تو شترمرغ کی طرح ان کا سر سیدھا ریت میں جاتا ہے اور وہاں سے ہمارے سروں میں ڈالنے کے لیے خاک ہی نکال کر لاتے ہیں۔ میں ان کی تحریروں کو غور سے پڑھتا ہوں اور مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ وہ علم کی ایک نئی کیٹیگری بنا رہے ہیں جس کا مطلب ہو گا ”جو علم الکلام کو نہ مانے وہ بھی کافر!“ آج کل اس طرح کی کیٹیگریاں بنانے کا کام زوروں پر ہے۔
میں بار بار یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ جناب زاہد مغل کو علمی اور نظری معاملات سے کوئی طبعی مناسبت نہیں ہے اور وہ نیک دل مذہبی آدمی کی طرح مسلمانوں کی علمی خدمت عقل کے بغیر کرنا چاہتے ہیں، اور وہ یہ کام معقول کو بھی منقول بنا کر سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ بس آموختہ سنانے کے ماہر ہیں جس میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے ماتریدیہ، اشاعرہ اور معتزلہ کا ذکر آئے۔ جب بھی کوئی آدمی مذہب پر بات کرتا ہے تو مولوی صاحب نعرہ لگاتے ہیں کہ ”تم کون ہو؟ دین پر بات کرنے کی سند ہم سے لو!“ اچھا بھئی۔ اب جناب زاہد مغل فرماتے ہیں کہ ”?Who are you“ اور پوچھتے ہیں کہ علم الکلام کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ بھئی میں تو بے نام و نمود آدمی ہوں، اور کچھ اوقات بھی نہیں ہے۔ میں سانسوں کا بھی شمار رکھتا ہوں۔ آپ بڑے لوگ ہیں اور میں بڑے لوگوں کی صحبت سے دور رہتا ہوں۔ لیکن آپ راکھ متن سے سر نکالتے ہی بادلوں میں جو سر دیتے ہو اس پر غمگین رہتا ہوں، اور جدیدیت کی دم سے چیچڑ نکالنے کا جو دھندا آپ نے شروع کر رکھا ہے کبھی دل چاہتا ہے کہ اس کے جبڑے بھی دیکھ لو۔ جہاں تک علم الکلام کی کتابوں کا تعلق ہے تو آپ کے حاصلات دیکھ کر اب افسوس ہوتا ہے کہ جو چند ایک پڑھی ہیں ان کو بھی ہاتھ نہ لگایا ہوتا۔ آپ تو ماتریدیہ، اشاعرہ اور معتزلہ کی مجاوری میں گھلے جاتے ہو، اور یہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے کہ جدید سائنسی علوم کے روبرو مسلم عقیدہ اپنی مادی تشکیل مکمل کر کے فنا ہو چکا ہے، اور آپ کا اٹھایا ہوا سوال ہی اس پر حتمی شہادت ہے۔ آپ کو تو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ عصر حاضر میں مسلم عقیدے پر کیا بیتی ہے تو کیا میں یہ مان لوں کہ آپ کو کتابیں پڑھ کر ماتریدیہ اور اشاعرہ وغیرہ کے مباحث سمجھ آ گئے ہیں؟
جناب زاہد مغل اہم معاملات کیونکر زیربحث لاتے ہیں اس کی مثال عرض کرتا ہوں۔ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ہمارے نزدیک عقل محض اور عقل تسلیم کا فرق ایک جعلی فرق ہے اور اسے بنیاد بنا کر بلا وجہ اور ناسمجھی میں اسلامی علم کلام کی پوری تاریخ کی بیخ کنی کا پراجیکٹ کھڑا کیا جا رہا ہے“۔ اپنی اگلی تحریر میں وہ اس موقف پر نظر ثانی فرماتے ہوئے کہتے ہیں: ”۵۔ آخری بات عقل تسلیم و محض کے فرق پر کہنا چاہوں گا جس کی طرف پہلے بھی آپ کی ایک پوسٹ پر اشارہ کیا تھا لیکن شاید آپ وہ دیکھ نہ سکے۔ یہ صرف ایک اصطلاحی جھگڑا ہے جسے میں بے معنی سمجھتا ہوں کیونکہ عقل محض و تسلیم کے مابین جس اصول پر فرق کیا جاتا ہے وہ مبہم اصول ہے، جس اصول پر ایک عقل کو تسلیم کہا جاتا ہے عقل محض بھی اسی اصول پر عقل تسلیم ہے، بس فرق اتنا ہے کہ دونوں کے تسلیم شدہ حقائق مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ فرق روا رکھنا کم از کم علمی اعتبار سے غیر ضروری ہے، تاہم عملی زندگی میں کسی خلط مبحث سے بچنے کے لیے اگر کوئی اصطلاحات ایجاد کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی جھگڑا نہیں لیکن اسے بڑھا چڑھا کر علمی تصورات کے طور پر بیان کرنا محل نزاع ہے۔“ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ جناب زاہد مغل صاحب اتنے سادہ اور کورے ہیں۔ اگر عقل تسلیم اور عقل محض کا فرق جعلی ہے تو پھر موقف پر نظرثانی کیوں کی ہے؟ اگر اس میں ایجابی تصریحات سے قضیے کو مستدل کر رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں تو پھر وہ فرق جعلی کیوں ہے؟ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کافروں میں عقل ہے اور ہم میں نہیں ہے، یا ہم میں ہے اور کافروں میں نہیں ہے تو علمی گفتگو کا امکان ساقط ہو جاتا ہے۔ علمی گفتگو کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ مخاصمین حاملِ عقل ہیں، لیکن عقل کے دو قطعی مختلف مواقف کے ساتھ ایک ہی طرز استدلال پر شامل گفتگو ہیں۔ جناب زاہد مغل کی عقل انتہائی عروج پر پہنچ جاتی ہے جب وہ اہل جدیدیت سے ہمارے اصطلاحی جھگڑے کو بے معنی فرماتے ہیں۔ میں ان کی عقل پر آفرین کہتا ہوں۔ لیکن ٹھہریے ان کی عقل ابھی ملائے اعلیٰ کی طرف محو پرواز ہے جب وہ فرماتے ہیں ”کیونکہ عقل محض و تسلیم کے مابین جس اصول پر فرق کیا جاتا ہے وہ مبہم اصول ہے، جس اصول پر ایک عقل کو تسلیم کہا جاتا ہے عقل محض بھی اسی اصول پر عقل تسلیم ہے، بس فرق اتنا ہے کہ دونوں کے تسلیم شدہ حقائق مختلف ہیں۔“ تو ہمارا جدیدیت سے نزاع عقل کی اساس پر تسلیم شدہ حقائق کے اختلاف پر ہی تو ہے اور جسے آپ غیر اہم قرار دے رہے ہیں۔ اگر وہ غیر اہم ہیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اہل جدیدیت حقائق کو عقل سے مانتے ہیں اور ہم گھٹنے سے مانتے ہیں۔ کیا ایسا ہی ہے؟ عرض ہے کہ عقل کی دشمنی میں علم الکلام اور جدید سائنس کی گفتگو مفید نہیں ہو سکتی۔ عقل محض اور عقل تسلیم پر ان کے ارشادات کا تجزیہ میں اگلے مضمون میں کروں گا کیونکہ گفتگو پہلے ہی طویل ہو گئی ہے۔ اور میں اگلا ہفتہ سفر کی وجہ سے ذرا تاخیر سے جواب عرض کر سکوں گا۔
آخر میں عرض ہے کہ ہمارے ہاں روایتی علم الکلام اپنی مکمل منہج کے ساتھ ابطالِ گردش زمین اور تصفیۃ العقائد میں جدیدیت کے ساتھ ایک تہذیبی interface پیدا کر چکا ہے، اور جو روایتی مسلم شعور کی شکست فاش میں ظاہر ہوا ہے۔ آپ اگر مسلم شعور کی بازیافت کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں تو آپ کی قیادت میں ہمیں اس میں اردلی کے طور پر کام کرنا بھی قبول ہے، لیکن علمی دیانت اور عقل کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا اور جن کی آپ دشمنی کے درپے ہیں۔ ہمارے یہ دونوں بزرگ ماتریدیہ، اشاعرہ اور معتزلہ سے آپ کی بہ نسبت کہیں زیادہ واقف تھے۔ اب جائز یہ ہے کہ آپ بات وہاں سے آگے بڑھائیں۔ فتح کی جنگ بھی اسی میدان میں لڑی جاتی ہے جہاں آدمی کو شکست ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کی طرح روایتی علم الکلام کی مجاوری کے لیے نعرے لگانے سے بھئی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آپ کو چاہیے کہ روایتی علم الکلام کی بات وہیں سے شروع کریں جہاں ختم ہوئی ہے اور ہم بھی اس میں حاضر ہیں۔