محمد حسن عسکری۔ ادبی اور فکری سفر(تحریر: عزیز ابن الحسن، تاثرات: سجاد خالد)
میں نے اردو ادب میں تنقید کا کچھ خاص مطالعہ نہیں کیا۔ اس سلسلے میں کبھی شمس الرحمن فاروقی کا کوئی متفرق مضمون پڑھا، کبھی وزیر آغا، سلیم احمد اور شمیم احمد کی کوئی تحریر نظر پڑی اور دو چار مصنفین کی اردو ادب پر تنقید کی کچھ کتابیں سامنے آئیں۔ حالی اور آزاد کے نظریہ ادب اور سرسید کی نثر پر کچھ پڑھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اردو کے ’کلاسیکی‘ ادب پر بھی شوق سے نظر ڈالتا رہا۔ مولوی عبدالحق، ماہر القادری، علیم ناصری، رشید حسن خان اور شان الحق جیسے جید لوگوں کے چیدہ چیدہ مضامین بھی ذہن میں کہیں محفوظ ہیں۔ جس شخص سے میں کسی حد تک متاثر ہوا اس کا نام گیان چند جین ہے جن کی دو تین کتب میرے سامنے رہتی ہیں۔ تنقید کو سنجیدگی سے نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ میں ہر تخلیق کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر تجزیے کا عادی ہو چکا ہوں۔ بالعموم کتابوں کے دیباچے پہلے نہیں پڑھتا۔ شرحِ غالب موجود رہتی ہے لیکن شعر کو براہِ راست قلب پر وارد ہونے دیتا ہوں۔ جہاں پھنس جاؤں، وہاں البتہ مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ استعانت حاصل کرنے کے لیے فرہنگِ اقبال، مطالبِ اقبال اور نوائے سروش ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔اس آوارہ گردی میں محمد حسن عسکری کا نام ہر ایک کو لیتے دیکھا۔ عسکری کے چاہنے والوں کے حلقے سے تو میں طالبِ علمی کے زمانے میں واقف ہو گیا تھا اور پھر غیر محسوس انداز میں روایت اور فن کے تعلق سے میری رائے ان کے مکتبِ فکر سے قریب ہونے لگی۔ اس حلقے سے میرا پہلا تعارف امجد مختار چوہان مرحوم نے کروایا جو صفِ اول کے آرکیٹیکٹ تھے اور اسلامی فنون کی ترویج کے حوالے سے عمر بھر متحرک رہے۔ انہی کے توسط سے سراج منیر صاحب کے حلقے میں شامل ہوا اور یوں سلیم احمد اور حسن عسکری کے ساتھ سلسلہ شاذلیہ سے بھی واقفیت بڑھتی رہی۔ اسی سلسلے کی دو کڑیاں سہیل عمر اور احمد جاوید صاحب بھی تھے۔ احمد جاوید صاحب کی تحاریر اور گفتگو سے مستفید ہونے کا موقع تاحال میسر ہے۔ برادر شاہد اعوان کے توسط سے عزیز ابن الحسن صاحب سے تعارف ہوا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اسی حلقے کی علمی اور تنقیدی روایت کے سنجیدہ ترین وارث اور امین ہیں۔ عزیز صاحب کی نثر نے بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کے لکھے ہوئے خاکوں نے کچھ الگ ہی لطف دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بتاتے ہوئے بھی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کے قلم کی روشنائی کے کچھ قطرے اس حقیر کے لیے بھی صرف ہوئے۔عزیز صاحب نے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کے لیے محمد حسن عسکری کی شخصیت، فن اور منہجِ تنقید کو موضوع بنایا۔ اردو ادب میں تنقید کے رجحانات پر ان کی ایک کتاب میری نظر سے گزر چکی ہے اور اسی حوالے سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادبی اور تحقیقی مجلے ’معیار‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر بھی کچھ برس ہوئے نظر ڈالی تھی۔ چند روز ہوئے یارِ دیرینہ سعید اختر ابراہیم کا فون آیا۔ ادھر ادھر کی باتوں میں عسکری صاحب پر عزیز ابن الحسن صاحب کی تصنیف کا ذکر آ گیا جس پر کوئی تبصرہ سعید صاحب کی نظر سے گزرا تھا اور وہ کتاب دیکھنے کے لیے بے چین ہو گئے۔ میں نے اگلا فون عزیز صاحب کو کھڑکا دیا اور کیا خوبصورت نتیجہ نکلا کہ تین چار روز میں سعید صاحب اور میرے نام کے ساتھ صاحبِ کتاب کے دستخط سے مزین دو نسخے موصول ہو گئے۔ کتاب کے مندرجات بجائے خود عسکری کے ذہنی سفر کی داستان سناتے ہیں۔ جس عرق ریزی سے یہ مرتب ہوئی ہے اس کا کچھ اندازہ عزیز صاحب کی ’ابتدائی باتوں‘ اور فہرست مضامین سے ہو جاتا ہے۔ سرورق پر عنوان کی خطاطی استاد خالد جاوید یوسفی صاحب تلمیذ حافظ محمد یوسف سدیدی رحمہ اللہ کے قلم کا شہکار ہے اور سرورق کی پشت پر عزیز صاحب اور ان کے کام کا مختصر تعارف بھی خاصے کی چیز ہے۔ فلیپ پر شمیم حنفی کی عسکری کے حوالے سے مختصر تحریر بھی چھوڑنے کی نہیں۔ کتاب کے آخر میں ضمیمے کے طور پر عسکری پر وارث میر صاحب کا انتہائی جامع مضمون ہے، جو نایاب ہے۔ ابتدائی باتوں میں عزیز صاحب لکھتے ہیں ”اس کتاب کا بنیادی مقصد عسکری کے تنقیدی تصورات کا تجزیاتی جائزہ لینا نہیں بلکہ ان کے تصورات کی روشنی میں ان کے ذہنی سفر کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس سفر کے دوران خود ہم پر بھی بہت کچھ نیا منکشف ہوا ہے“۔انتساب اور اس کا جواز بھی لائقِ توجہ ہے۔ تخلیق کار کی اہلیہ کے بارے میں تو اقبال کا یہ مصرع پیش کیا جا سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۔
کتاب کا مطالعہ ابھی باقی ہے لیکن اس احساس کے ساتھ کچھ صفحات میں آپ کو شریکِ مطالعہ کر رہا ہوں کہ ممکن ہے مطالعے کے بعد کہیں خیالات کا اظہار کرنا بھول جاؤں یا زندگی وفا نہ کرے۔ دوسری بات یہ کہ جس لمحے کوئی اچھی کتاب موصول ہوتی ہے اس سے حاصل ہونے والی بیخودی و ہشیاری پھر ہاتھ نہیں آتی۔