انڈہ، مصنف: اینڈی وئیر (مترجم: شوکت نواز نیازی)

 In افسانہ, ترجمہ

جب تمہاری موت ہوئی تو تم اپنے گھر جا رہے تھے۔ تمہاری کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔ کچھ خاص نہیں لیکن پھر بھی حادثہ مہلک تھا۔ تم اپنے پیچھے بیوی اور دو بچے چھوڑ گئے۔ تمہاری موت تکلیف دہ نہیں تھی۔ ڈاکٹروں نے تمہاری جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن بے سود۔ تمہارا جسم اتنی بری طرح کچلا گیا تھا کہ یقین مانو، اچھا ہی ہوا کہ تم بچ نہ پائے۔

اور اس وقت تمہاری مجھ سے ملاقات ہوئی۔

تم نے پوچھا، ” کیا۔۔۔ کیا ہوا ؟ میں کہاں ہوں ؟ “

”تم مر گئے ہو۔ “ میں نے حقیقت پسندانہ انداز میں کہا۔ بات گھمانے کا کیا فائدہ۔۔۔

” میں نے ایک ٹرک دیکھا تھا۔۔۔ وہ پھسل رہا تھا۔ “

” ہاں۔ “

” میں۔۔۔ مر گیا ہوں ؟ “

” ہاں، لیکن پریشان نہ ہو، سب مرتے ہیں۔ “ میں نے جواب دیا۔

تم نے اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ ہمارے گرد کچھ نہ تھا۔ صرف تم اور میں تھے۔ ” یہ کیا جگہ ہے ؟ “ تم نے پوچھا، ” یہ موت کے بعد کا منظر ہے ؟ “

میں بولا، ” ہاں، تقریباً۔ “

تم نے پوچھا، ” تم خدا ہو ؟ “

میں نے جواب دیا، ” ہاں۔ میں خدا ہوں۔ “

تم بولے، ” میرے بچے۔۔۔ میری بیوی۔۔۔ “

” کیا ہوا انہیں ؟ “

” وہ ٹھیک تو رہیں گے ؟ “

میں بولا، ” مجھے تمہاری یہ بات پسند آئی۔ تم ابھی مرے ہو اور تمہیں اپنے خاندان کی فکر لاحق ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ “

پھر تم نے حیرت سے میری جانب دیکھا۔ تمہیں میں خدا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں تمہیں ایک عام آدمی کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ یا ہو سکتا ہے ایک عام عورت کی طرح۔۔۔ یا شاید کوئی مبہم سی حاکمانہ شکل۔۔۔ خالق کائنات کے بجائے سکول کا کوئی ہیڈ ماسٹر۔۔۔

میں بولا، ” فکر نہ کرو، وہ ٹھیک رہیں گے۔ تمہارے بچے تمہیں ایک بہترین باپ کی صورت میں یاد رکھیں گے۔ وہ ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ تم سے بیزار ہوں جائیں۔ تمہاری بیوی ظاہری طور پر روئے دھوئے گی لیکن دل ہی دل میں خوش ہو گی کہ جان چھوٹی۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہاری شادی یوں بھی شکست و ریخت کا شکار تھی۔ اگر تمہیں اس سے کوئی تسّلی ملتی ہے تو جان لو کہ تمہاری موت پر دل ہی دل میں خوش ہونے پر وہ شدید نادم بھی ہو گی۔ “

تم بولے، ” اوہ۔۔۔ تو اب کیا ہو گا ؟ کیا اب مجھے جنت یا جہنم وغیرہ میں جانا ہو گا ؟ “

” کہیں بھی نہیں۔ اب تمہارا نیا جنم ہو گا۔ “

تم بولے، ” آہ ! یعنی وہ ہندو درست کہتے تھے۔ “

” تمام مذہب اپنی اپنی جگہ پر درست ہوتے ہیں۔ “ میں نے کہا، ” میرے ساتھ چہل قدمی کرو گے ؟ “

تم میرے پیچھے چلنے لگے اور ہم دونوں خلا میں چلتے گئے۔ ” ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ “

” کہیں نہیں۔ “ میں بولا، ” یونہی، چلتے چلتے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ “  

تم نے پوچھا، ” اچھا تو اس سب کا کیا مقصد ہوا ؟ جب میں دوبارہ جنم لوں گا تو کیا میں ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوں گا ؟ جیسے ایک بچہ۔۔۔ یعنی اس زندگی میں میرے تمام تجربات اور جو کچھ میں نے کیا وہ سب بیکار ہو گا۔ “

میں بولا، ” ایسا نہیں ہے ! تمہاری گزشتہ تمام زندگیوں کے تجربات اور علم تمہارے اندر موجود ہے۔ بس تمہیں وہ سب ابھی یاد نہیں ہے۔ “

میں چلتے چلتے رکا اور تمہارے کاندھوں پر ہاتھ رکھ دئے، ” تمہاری روح اتنی شاندار، خوبصورت اور اتنی عظیم الشان ہے کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تم جو کچھ ہو انسانی دماغ اس کا ایک عشر عشیر بھی اپنے اندر سمو نہیں سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تم پانی کے گلاس میں اپنی انگلی ڈالتے ہو کہ دیکھ سکو کہ یہ گرم یا سرد۔ تم اپنا ایک چھوٹا سا حصّہ اس برتن میں ڈالتے ہو اور جب تم اسے باہر نکالتے ہو تو تم وہ تمام تجربات حاصل چکے ہوتے ہو جو یہ حصّہ محسوس کر چکا ہے۔ تم پچھلے 48 سال سے ایک انسان میں موجود تھے اس لئے تم نے اس سے باہر اپنے عظیم شعور کے بقیہ حصّوں میں جھانک کر دیکھا ہی نہیں۔ اگر ہم یہاں کافی دیر تک کھڑے رہیں تو تمہیں سب کچھ یاد آنے لگے گا۔ لیکن ہر زندگی کے درمیانی وقفے میں ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ “

” اچھا تو پھر میں پہلے کتنی مرتبہ نیا جنم لے چکا ہوں ؟ “

” اوہ، بہت مرتبہ۔ بہت زیادہ مرتبہ۔ اور وہ بھی مختلف زندگیوں میں۔ “ میں بولا، ” اور اس مرتبہ تم 540 قبل مسیح کی ایک چینی دیہاتی لڑکی کی صورت میں جنم لو گے۔ “

تم ہڑبڑا گئے، ” کیا مطلب ؟ تم مجھے وقت میں پیچھے بھیج رہے ہو ؟ “

” تکنیکی لحاظ سے ہاں، ایسا ہی ہے۔ دیکھو، تمہاری سمجھ بوجھ کے مطابق وقت صرف تمہاری کائنات میں ہی موجود رہتا ہے۔ لیکن جہاں سے میں آیا ہوں، وہاں معاملات کچھ مختلف ہیں۔ “

تم بولے، ” تم کہاں سے آئے ہو ؟ “

میں نے وضاحت پیش کی، ” میں بھی کہیں سے آیا ہوں۔ کہیں اور سے۔ اور میری طرح اور بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تم جاننا چاہو گے کہ وہاں کیسا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ تم سمجھ نہیں پاؤ گے۔ “

تم قدرے مایوسی سے بولے، ” اوہ۔ لیکن ٹھہرو، اگر میں وقت کے کسی بھی مقام پر دوبارہ جنم لے سکتا ہوں تو کسی نہ کسی وقت میری خود سے مڈبھیڑ بھی تو ہو سکتی تھی۔ “

” بالکل، ایسا اکثر ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ دونوں زندگیاں صرف اپنے اپنے دورانیئے سے آگاہ ہوتی ہیں اس لئے تمہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ “

” تو پھر اس سب کا مقصد کیا ہوا ؟ “

میں نے پوچھا، ” واقعی ؟ کیا تم واقعی سنجیدہ ہو ؟ تم مجھ سے زندگی کا مطلب پوچھ رہے ہو ؟ یہ کافی گھسی پٹی دقیانوسی بات نہیں ہے ؟ “

لیکن تم مصر رہے، ” سوال تو معقول ہے۔ “

میں نے تمہاری آنکھوں میں جھانکا، ” زندگی کا مطلب، وہ وجہ جس کی بنا پر میں نے یہ ساری کائنات تخلیق کی، یہ ہے کہ تم پختگی حاصل کر سکو۔ “

” یعنی بنی نوع انسان ؟ تم ہمیں پختہ بنانا چاہتے ہو ؟ “

” نہیں، صرف تمہیں۔ میں نے یہ ساری کائنات صرف تمہارے لئے تخلیق کی ہے۔ اپنی ہر نئی زندگی کے ساتھ تم پہلے سے زیادہ بلوغت اور زیادہ پختگی حاصل کرتے ہو اور پہلے سے زیادہ بڑی اور عظیم تر فہم و فراست بن جاتے ہو۔ “

” صرف میں ؟ اور باقی سب لوگ؟ “

میں نے کہا، ” باقی کوئی نہیں ہے۔ اس کائنات میں صرف تم ہو اور میں ہوں۔ “

تم خالی نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے۔ ” لیکن وہ دنیا میں سارے لوگ۔۔۔ “

” سب تم ہو۔ وہ سب تمہارے ہی مختلف جسم ہیں۔ “

” کیا مطلب ؟ میں سب ہوں ؟ “

میں نے اس کے کاندھے پر تحسین آمیز انداز میں تھپکی دی اور بولا، ” اب تم سمجھ رہے ہو۔ “

” یعنی آج تک جتنے انسان زندہ رہے وہ میں ہوں ؟ “

” اور وہ بھی جو کبھی بھی زندہ رہیں گے، ہاں۔ “

” یعنی میں ابراہیم لنکن ہوں ؟ “

میں بولا، ” اور تم جان ویلکس بوتھ بھی ہو۔ “

تم بولے، ” میں ہٹلر ہوں ؟ “ اور تم ششدر رہ گئے۔ 

” ہاں ،اور جن لاکھوں کو اس نے مارا وہ بھی تم ہو۔ “

” میں یسوع مسیح ہوں ؟ “

” اور اس کے تمام پیروکار بھی تم ہی ہو۔ “

تم خاموش ہو گئے۔

میں بولا، ” ہر اس وقت جب تم نے کسی سے زیادتی کی، تم خود اپنے ساتھ زیادتی کر رہے تھے۔ رحمدلی کا ہر وہ کام جو تم نے کیا وہ تم اپنے ساتھ کر رہے تھے۔ آج تک یا آج کے بعد کسی بھی انسان کو محسوس ہونے والی خوشی یا غمی خود تم نے محسوس کی ہے۔ “

تم دیر تک سوچتے رہے۔

پھر تم نے پوچھا، ” لیکن کیوں ؟ آخر یہ سب کیوں ؟ “

” اس لئے کہ ایک دن تم بھی مجھ جیسے بن جاؤ گے۔ اس لئے کہ تم بھی یہی کچھ ہو۔ تم بھی میری نسل سے ہو۔ تم میری اولاد ہو۔ “

تم بے یقینی کے عالم میں بول اٹھے، ” کیا ؟ تمہارا مطلب ہے کہ میں خدا ہوں ؟ “

” نہیں۔ ابھی نہیں۔ تم ایک جننین ہو۔ ابھی تمہاری نشوونما ہو رہی ہے۔ جب تم تمام وقتوں میں موجود تمام انسانی زندگیوں کو گزار چکو گے تو اس وقت تم اتنے بڑے ہو جاؤ گے کہ پیدا ہو سکو۔ “

تم بولے، ” یعنی یہ ساری کائنات۔۔۔ یہ سب۔۔۔ “

” ایک انڈہ ہے۔ “ میں نے جواب دیا، ” چلو، اب تمہارا اپنی اگلی زندگی کی جانب جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ “

اور میں نے اسے روانہ کر دیا۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search