علم کیشی بطور مزاحمت: وائل حلاق سے ایک مصاحبہ (مصاحبہ کار: عمر عبدالغفار، ترجمہ: محمد بھٹی)
[وائل حلاق کا یہ مصاحبہ ” اسلامک لاء بلاگ “ پر ٢١ جنوری ٢٠٢١ کو تحریری شکل میں شائع ہوا۔ اس مصاحبے میں اسلامی علوم و قانون بابت اپنائے گئے مختلف اندازِ نظر،ان کے نقائص اور ان نقائص کی درستی کے طریقۂِ کار پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ایڈورڈ سعید کی تفہیمِ استشراق و استعمار کو بھی اجمالاً زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے اردو خواں احباب کے لئے مصاحبے کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔جو انگریزی متن پڑھنا چاہیں، ان کے لئے آخر میں ربط مہیا کر دیا گیا ہے۔]
سوال:اسلامی قانون کے شعبہ میں آپ کا عمل دخل محققین کے اندازِ نظر اور اسلوبِ کار میں ڈرامائی تبدیلیوں کا موجب ہوا ہے۔ ماضی پر نگاہِ اعتنا ڈالتے ہوئے بتائیے کہ آپ اپنی کس کاوش کو سب سے اہم گردانتے ہیں اور اس شعبہ میں مزید کیا بدلاؤ درکار ہے؟
وائل حلاق:گو کہ جب کوئی شخص چار دہائیوں کے دورانیے میں متعدد کتب اور مضامین حیطۂ تحریر میں لاتا ہے تو ان سب کی غرض و غایت کا باہم مماثل ہونا مستبعد ہے تاہم میرا علمی منصوبہ مجموعی طور پر ایک طرح کی مزاحمت ہے۔اسے تنقید کا ایک جاری و ساری منصوبہ کہا جا سکتا ہے(تنقید اور نکتہ چینی میں فرق روا رکھا جائے)۔ جب 1978_یہ وہ سال ہے جب میں نے انگریزی زبان میں مطالعہ کا آغاز کیا_میں اسلام بابت یورپی امریکی گفتمان سے میرا براہ راست پالا پڑا تو جلد ہی مجھ پر یہ عیاں ہوا کہ مغرب میں اسلام کی تصویر کشی نہایت منفی انداز میں کی جا رہی ہے۔ مجھ پر یہ انکشاف جوزف شاخت (Joseph Schacht) کے مطالعہ سے ہوا،یہ پہلا یورپی صاحبِ علم تھا جس کو میں نے پڑھا۔ شریعت سے متعلق یورپی امریکی تحریروں میں تقریباً کوئی بھی ایسی نہ تھی جو مجھے معقول لگی ہو۔ حتی کہ یہ علمی کارنامے معمولی سوجھ بوجھ کے معیار سے بھی فروتر تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری علم کیشی (Scholarship) کا مطمح نظر مغربی تحقیقات میں بالعموم اسلام اور بالخصوص شریعت بارے روا رکھے گئے دوہرے طرزِ عمل اور سیاسی گھپلے کو آشکار کرنا ہے۔ اس شعبہ میں مزید کیا کچھ بدلا جانا چاہیے؟اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ بہت کچھ۔ گو کہ نوخیز محققین جدیدیت کے پیدا کردہ بحران اور ہمیں درپیش حیرت ناک دبدھے سے خوب آگاہ ہیں نیز یہ پچھلی نسل کے علی الرغم خاصے فہمیدہ نظریہ ساز اور تجزیہ کار ثابت ہوئے ہیں تاہم ابھی بھی ذہنی سادگی اور بھولپن کی کئی پریشان کن مثالیں موجود ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں سب سے زیادہ اضطراب آور بات یہ ہے کہ ذہنی بھولپن کا شکار ان محققین میں اچھی بھلی تعداد مسلم پسِ منظر سے وابستہ تحقیق کاروں کی ہے۔ یہ لوگ عموماً اپنے تحقیقی کاموں میں جدیدیت زدہ استشراقی روش کو اپناتے ہیں،یا پھر اس لبرل بصیرت کو بروئے کار لاتے ہیں،جس کے دنیا پر اثرات کو یہ لوگ ہنوز سمجھ نہیں پائے۔علاوہ ازیں،ایک بہت بڑا طبقہ_جو اپنی تعداد اور اثر انگیزی میں روز افزوں ہے_ایسا ہے جو نہایت کڈھب انداز میں تاریخ کو قومیانے کے عمل میں جُتا ہوا ہے۔کسی اور طبقے کا نام لئے بغیر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ان دونوں طبقات کو تنقید اور خود احتسابی کی ضرورت ہے،یعنی شعبہ کی داخلی تنقید ناگزیر ہے مبادا کہ کوئی ادبی تنقید نگار یا شعبۂِ بشریات سے تعلق رکھنے والا کوئی ” اجنبی شخص “ آئے اور ہمیں یہ بتائے کہ ہم قافلۂ علم سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اس شعبہ کو ابھی خود کی علمی تاریخ پر غور کرنا ہو گا،غالب قوت کی ظالمانہ اَشکال سے اس علم کے گٹھ جوڑ کو جانچنا ہو گا اور اس کی گہری نظری بنیادوں کو پرکھنا ہو گا۔
سوال:آپ نے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ ہمیں خورد تاریخیت(micro history) کے سخت گیر طریقہ کار کو تیاگتے ہوئے اپنے منصوبہ جات کو مستند نظری چوکھٹوں میں سمونا چاہیے: ”تحقیقی منصوبہ جات کا جواز دراصل ان وسیع و عمومی سوالات پر بِنا کرتا ہے جو وسیع تر فلسفیانہ و نظری ملاحظات سے جِلا پاتے ہیں “ [1] سوال یہ ہے کہ ہم کسی تحقیقی منصوبے کے نظری و فکری ملاحظات کو کیونکر آنک سکتے ہیں جبکہ تحقیق کار حاضر و موجود سوالات،تناظرات اور مسائل سے گہرا متاثر ہو۔مثال کے طور پر آپ نے جو یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ قاہرہ میں چودھویں صدی کے دوران،قانونی معاملات میں سلطانی عمل دخل بڑھنے لگا تھا۔ کیا ہم بطور جدیدیت گزیدہ محققین،جو قانون میں انتظامیہ کی مداخلت سے پریشان اور خوف زدہ ہیں،اس روایت کی کوئی ایسی تفہیم کر سکتے ہیں جو ان (حاضر و موجود) اندیشوں کے اختلاط سے مبرا ہو۔ کیا یہ طرزِ عمل ہمارے لئے مددگار ہو گا؟ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کو ہمارے تحقیقی سوالات کا بنیاد گذار ہونا چاہیے؟
وائل حلاق:لمحۂ موجود اور اس کی پیدا کردہ حالت سے کوئی مفر نہیں ہے۔ تاریخ نگاری میں غیر جانب داری اور معروضیت برتنے کا ہر دعوی محض ایک سراب ہے،جو کسی سادہ لوح اور ذہنی ناسمجھ کو ہی مطمئن کر سکتا ہے،بالخصوص ان لوگوں کو جو نظری صلاحیت سے عاری اور فلسفیانہ عمق سے یکسر محروم ہوں۔لیکن یہاں مجھے مزید وضاحت کرنے دیجئے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسے بھولے اور سادہ لوگ ذہین اور چالاک نہیں ہوتے۔ ہم نے انیسویں صدی کے دوسرے حصے سے بیسویں صدی کے پہلے حصے تک کئی بہترین اور ہمہ دان قسم کے اہل علم کو دیکھا ہے،جن میں پیٹرکا کرون اور اس جیسے کئی اور شامل ہیں۔ یہ لوگ بلا کے ذہین مگر بصیرت و فراست سے تہی دامن تھے۔ مختصر یہ کہ بصیرت و فراست کو ذہانت کے ساتھ خلط نہ کیا جائے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے،وہ نظری و علمی فراست ہے،یعنی بڑے سوال اٹھانے کی صلاحیت،اگرچہ ہمارا موضوعِ تحریر نہایت کہتر ہی کیوں نہ ہو۔ اس ساری بحث میں،یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ حال کی تاریخ سے ورے کوئی تاریخ نہیں ہے۔ حاضر و موجود علمیات سے فرار کا ادعا اس دعوی کے مترادف ہے کہ ایک جسم بہ یک آن دو جگہوں پر موجود ہو سکتا ہے۔سو اگر ہم ظالمانہ استعماری علم کیشی کی جواز کاری اور پردہ پوشی کے لئے استعمال ہوتے رہنے والے معروضیت کے اس ملمع کو اتار پھینکتے ہیں تو علم کیشی کو اپنائے رکھنے کے لئے ہم سب کو اپنے اپنے انفرادی میلانات اور وجوہات کو زیرِ غور لانا ہو گا۔ہمیں خود سے یہ نہایت اہم جینیاتی سوال کرنا ہو گا اور اسے پے در پے دہرانا ہو گا کہ ” میں اس شعبہ سے کیوں وابستہ ہوں؟ کیا میری یہ وابستگی معقول اور تسلی بخش وجوہات پر مبنی ہے؟ جن لوگوں کی رائے کو میں اہمیت دیتا ہوں،کیا وہ بھی اس معاملے کو یونہی دیکھتے ہیں جیسے میں دیکھتا ہوں؟ میری یہ وابستگی انسانی حالت کی بہتری میں کس طرح معاون ہو سکتی ہے؟ کیا میں اپنے ذاتی مفادات سے ہٹ کر انسانی فلاح کے لئے کوئی کردار ادا کر رہا ہوں؟ کیا میں اپنی سوچ کے مضمرات سے واقف ہوں؟نیز میرا شعبہ جس منہجی گفتمان ( paradigmatic discourse ) کو قبول کر رہا ہے،کیا میں اس کے مضمرات سے آگاہ ہوں؟ “ حالیہ علمی سرگرمی،ان قدیم نسل پرستانہ اور قوم پرستانہ علمی اوضاع سے باہر نہیں آ پائی جسے یورپ انیسویں صدی میں معرضِ شہود میں لایا تھا اور تاحال بڑے پیمانے پر اسے پھیلا رہا ہے۔ یہاں تک کہ نوخیز مسلمان دانشور بھی اپنے قوم پرستانہ جذبات کو رو بہ عمل لا کر اسی بیمار علم کیشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ مثلا حیرت انگیز عدالتی نظام کے حامل خطے کے طور پر وہ مصر کا ایک قوم پرستانہ تصور پیش کرتے ہیں۔یہی قوم پرستانہ رویہ وہ دیگر مخصوص خطوں،خصوصا ایران و عرب وغیرہ کے ساتھ،غیر معمولی علمی و فلسفیانہ آب و تاب کو نتھی کرتے ہوئے اپناتے ہیں۔ یہ ضرر رساں رویہ صرف ان چند اوپری معاملات میں ہی منحصر نہیں،یہ شعور کی ان زیریں لہروں تک سرایت کرتا ہے جو انسان کو یہ بتاتی ہیں کہ تاریخی بیانیوں کو کس زاویۂ نگاہ سے دیکھنا ہے اور کیسے انہیں دوبارہ پیدا کرنا ہے۔ یہ سب ایک تمہیدی نوعیت کا پسِ منظر ہے،جس کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ بعد ازیں عنانِ توجہ کو زیادہ اہم مسائل کی طرف مبذول کرنا چاہیے۔ جیسے ” میں نے تحقیق کے لئے یہی موضوع کیوں منتخب کیا؟ “، ” حقیقی دنیا کے مسائل کے حل میں یہ موضوع کس قدر کارآمد ہے؟ “، ” اگر میں چودہویں صدی کے مصری قانون میں سلطان کے عمل دخل کا مطالعہ کرتا ہوں تو وہ کیا نظری معاییر ہیں جن کی رعایت تاریخِ حال کے معیار پر پورا اترنے کے لئے ضروری ہے؟ “ ۔ پھر کسی بھی محقق کے لئے ان نظری معاییر سے متعلق یہ بنیادی سوالات اٹھانے ضروری ہیں: ” وہ کیا تصوراتی اور نظری زبان ہے جو مجھے اپنے اس کام میں برتنی چاہیے؟ “، ” میں عصرِ رواں کے ” دستوری علم “ کو اس ماضی کے ساتھ کیونکر مربوط کر سکتا ہوں جو یہ زبان نہیں بولتا تھا “ ۔ اگر کہا جائے کہ ماضی ” دستوری “ ہیئتوں اور اعمال کو اخلاقی زاویۂ نظر سے جانچتا تھا تو میں خود سے یہ اساسی سوال ضرور کروں گا کہ ” کیا میں اس نظامِ اخلاق کے تمام مضمرات کو سمجھتا ہوں؟ “ اور اگر میں اس کی سمجھ رکھتا ہوں اور یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اپنے منصوبہ کو جاری رکھوں تو اگلا وسیع تر اور پیچیدہ تر سوال یہ ہو گا کہ ” کیا میں اپنے عہد اور اس کے اخلاقی،علمیاتی اور دیگر بحرانات سے واقف ہوں؟ “، ” کیا میں خرد افروزی(Enlightenment) کے اخلاقی مخمصے سے آگاہ ہوں؟ “، ” کیا میں آزاد معقول ارادے جیسے تصورات کی جینیاتی اغراض اور ان کے مرتب کردہ سماجی،معاشی اور سیاسی اثرات کی سوجھ بوجھ رکھتا ہوں؟ “ یعنی وہ اثرات جو بحیثیت تاریخ نگار ہماری موضوعی تشکیل پر مرتب ہوتے ہیں۔ ” کیا میں جانتا ہوں کہ ” قانون کی حکمرانی “ کا اصل مطلب کیا ہے؟کیا میں اس بات کی سدھ بدھ رکھتا ہوں کہ قانون کی حکمرانی کا جدید تصور اور خرد افروزی کے نقش کردہ نظریات حریت،ارادہ،عقل اور ریاست وغیرہ باہم مربوط ہیں؟ “، ” کیا میں ’قانون کی حکمرانی‘ کے اس مخصوص تصور سے ماقبل کی تاریخ کا ادراک رکھتا ہوں؟“ اور ”وہ ماقبل تاریخ،اسلامی ’دستوری‘ تاریخ کے حوالے سے قرآن اور دیگر ذیلی متون کے میرے مطالعہ پر کیسے اثرات مرتب کر سکتی ہے؟“۔ بلاشبہ یہاں کئی اور سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں اور اٹھائے جانے چاہییں،مگر شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ” میرا مطالعۂ تاریخ مجھے میری ذات،میرے سماج اور میرے عہد کے بارے میں کیسی آگہی مہیا کرتا ہے؟ “ ۔ یقیناً میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ تاریخ کا سارا علم ہی ہمارے لئے کارآمد ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ استشراق نے نہایت معمولی توقعات کے سہارے،اپنا پورا عرصۂ حیات بے کار یا تباہ کن علم کے تعاقب میں صرف کیا ہے۔ میں جو بات سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تاریخ میں کچھ چیزیں نہایت لاتاریخی(ahistorical) ہیں اور ہر زمان و مکان سے وابستہ ہیں، اور بلاشہ اخلاقیات بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ کسی بھی مقدار کی سائنسی عقلیت پسندی،انسانی ذہن کے اخلاقی چوکھٹے کے بغیر ہمیں بچا نہیں سکتی۔ آج ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سائنسی عقل اتنی ہی جان لیوا اور ہلاکت خیز ہے جتنی کہ مہربان اور رحم پرور۔ صرف اخلاقیات کا دید بان ہی اسے اول الذکر سبھاؤ سے روک سکتا ہے۔
سوال:اسلامی قانون بابت آپ کا تجزیہ بسا اوقات ساختیاتی،پسِ ساختیاتی حتی کہ ماحولیاتی نظریات تک سے کسبِ فیض کرتا ہے۔آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ” غیر “ کے پیدا کردہ متون کی تفہیم میں استشراق کے ” ذیلی شعبہ ہائے علم “ (auxiliary disciplines)،جیسے لسان شناسی(philology) اور مخطوط شناسی(codicology) نہایت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ انسانیات(Humanities) کے دیگر ذیلی شعبہ جات کے تنقیدی طرز ہائے نظر اسلامی قانون کے مطالعہ میں کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں؟
حلاق:ہمیں یاد ہے کہ ایڈورڈ سعید نے اسلامی علوم کے شعبے کی حالتِ زار کچھ یوں بیان کی ہے کہ یہ ادب،فلسفہ اور سماجی علوم جیسے نہایت عظیم الشان تعلیمی شعبہ جات سے بہت پیچھے مارے مارے پھر رہے ہیں۔اس کی بات صائب تھی تاہم اس نے اس ظاہرے(phenomenon) کی کوئی معقول توجیہ پیش نہیں کی۔اب ایک شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسلامی علوم میں سے شریعت_وسیع تر طور میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ اخلاقیات اور اخلاقی-قانونی ظاہرہ اس میں سما جاتے ہیں_بھی اسی منصب اور حیثیت کی حامل ہے جس حیثیت پر دیگر تعلیمی شعبہ جات کے بالمقابل اسلامی علوم براجمان ہیں۔ یہ پہلو ایڈورڈ سعید سے اوجھل رہا ہے،کیونکہ اس نے قانونی استشراق کے مطالعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میری مراد یہ ہے کہ اگر استعمار،استشراق کے ساتھ گتھا ہوا ہے تو ” قانون “ تو استعمار کا نہایت مرکزی منصوبہ تھا۔قانون ہی وہ ذریعہ تھا جس کی وساطت سے طاقت نے اپنے اہداف کی استعمار کاری کی اور انہیں ایک نیا روپ بخشا۔اور یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر نام نہاد ” اسلامی قانون “ کا مطالعہ تعلیمی اور علمی طور پر نہایت پس ماندہ ہے۔قانون سیاسی طاقت یا استعمار،اور اگر ایک لفظ میں سمویا جائے تو Schmittian political کا خانہ زاد اور خود ساختہ ہوتا ہے۔گزارش ہے کہ مطالعۂ قانون جس قدر نظری ہوتا جاتا ہے اس قدر یہ تنقیدی نوعیت اختیار کرتا ہے،یعنی خود اپنی اور دوسرے کی جانچ کرتا ہے۔ہمارا شعبہ تاحال خود شعوری سے ہی تہی ہے اور زعمِ پارسائی میں مبتلا ہے۔ بنا بریں کسی بیرونی علمی غارت گری کا شکار بننے کو تیار بیٹھا ہے۔[حیف کہ بہتیرے لوگ اب تک اس سوچ سے چمٹے بیٹھے ہیں کہ جدیدیت کا نقاد،بنسبت غیرِ نقاد کے،کم معروضی انداز فکر کا حامل ہوتا ہے۔گویا جدیدیت کو ہدفِ تنقید نہ بنانا کم توہماتی اور ” نظریاتی “ ہونے کی علامت ہے]۔ ” اسلامی قانون “ کے مطالعہ سے پیشتر فلسفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونا ضروری ہے۔ فلسفہ سے میری مراد اسلامی اور یورپی دونوں ہیں۔ایشیا کے الہیاتی فکر و فن اور یوروپ کا خرد افروز فلسفہ،دونوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔شریعت کے مطالعہ سے پیشتر اور زبان شناسی کی تیاری کے پہلو بہ پہلو،کسی بھی شخص کے لئے جدید قانون کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔یہ تفہیم قانون کے تعلیمی اداروں کے طرز پر نہیں،بلکہ تنقیدی نگاہ سے ہونی چاہیے اور اس انداز نظر سے ہونی چاہیے جو مابعد استعماری،پس ساختیاتی اور لاطینی امریکی مفکرین اور فلسفیوں نے اپنایا ہے۔الغرض قانون کے مطالعہ کے لئے خود کا مطالعہ ضروری ہے، جو خود کی مسئلہ سازی (problematization) کو مستلزم ہے۔
سوال:آپ نے اسلامی قانون کے تاریخی مطالعہ کے لئے کیسا اندازِ نظر اپنایا ہے،اور کیوں؟نیز اس بابت بھی ہمیں اپنی بصیرت سے نوازیے کہ آپ کے طرزِ نظر کی تشکیل میں کیا کیا محرکات کارفرما رہے ہیں اور یہ طرزِ نظر آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران کیسے کیسے ارتقا پذیر ہوتا رہا؟
حلاق:میرا علمی کام اپنے آغاز میں ایڈورڈ سعید کے ڈھب پر تھا۔اسلام اور عرب،افریقی،فارسی،ترک اور دیگر مسلمانوں کی متعصبانہ تصویر کشی اور تاریخی خرد برد کے نقاد کے طور پر میں نے کام کا آغاز کیا۔مگر بیسوی صدی کی آخری دہائی کے اواخر میں مجھے اس اندازِ نظر سے عدمِ اطمینان ہونے لگا اور یہ احساس ہونے لگا کہ سعیدی تنقید نگاری میں کوئی ناگزیر شے غائب ہے۔یہ بے چینی_بلکہ طلسم ربائی-مجھے ان گہرے عوامل کے مطالعہ تک لے گئی جو قانون کی بنیادوں کو استحکام بخشتے ہیں،جن پر تعلیمی شعبہ جات کی نیو اٹھائی جاتی ہے۔اب میرے لئے کونیات اور کونیاتی تفہیم کی نئی اشکال بھی اسی قدر دلچسپی کا باعث تھیں جس قدر مابعد الطبیعات اور وجودیات۔ہمارا تصورِ فطرت اور بنابریں تصور ذات،اب میری دل چسپی کا سب سے اولین محور تھا۔میں اب علم کی ان شکلوں کی بھی آگہی چاہتا تھا جو نہایت جداگانہ طور پر دنیا میں وجود کی تفہیم کرتی تھیں،جیسے ماقبل جدید کا تصور دنیا اور ہمارا جدید تصور دنیا۔گزارش ہے کہ جب میں لفظ ” جدید “ کا تکلم کرتا ہوں تو یقینا اس سے میری مراد محض کوئی عارضی دورانیہ نہیں بلکہ،علمیات کی ایک خاص نوعیت ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ میں اپنے کارِ علم بابت مزید چوکنا ہوتا گیا،اپنے فلسفیانہ فریضہ اور(بطور محقق) اپنی غایتِ وجود کے بارے میں مختلف سوالات اٹھانے لگا۔کوئی بھی بامعنی علمی سرگرمی ایسی ہی تیاری سے ممکن ہے۔آپ کو اپنے درونِ ذات کی طرف متوجہ ہو کر ایک ماوراء تاریخ سوال-جو اپنی نہاد میں Foucauldian ہے-اٹھانا ناگزیر ہے۔یہ سوال ہمہ وقتی ہے اور اسے ہماری ہمہ قسم کی تحقیقی سرگرمیوں کا ساتھی ہونا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ ہم کون ہیں؟ہم کیا بن چکے ہیں؟کیسے؟کیوں؟۔شریعت کا مطالعہ،کسی بھی قانون کا مطالعہ،تمام تر سماجی علوم اور انسانیات کا مطالعہ اسی سوال سے شروع اور اسی پر اختتام پذیر ہونا چاہیے۔عقلی،روحانی اور اخلاقی مشاغل کی لامتناہی اور مکمل دنیا تعمیر کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔
https://islamiclaw.blog/2021/01/21/an-interview-with-wael-hallaq/