فاؤسٹ (حصہ دوم: پانچواں باب)

 In ترجمہ

رات کا وقت تھا اور دور سے روڈا  کا شہر اس طرح چمک رہا تھا گویا کوئی کھلونا ہے جس میں روشنی ہو رہی ہے ۔ بازار میں بھیڑ  بالکل نہیں تھی  لیکن بازاروں میں سے گزرنے والے راہگیروں کو سراؤں اور شراب خانوں میں سے گانے اور زور زور سے باتیں کرنے  کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ۔

مارگریٹ کے گھر کے قُرب و جوار میں سناٹا تھا ۔ اس کے کمرۂ خواب میں ایک مدھم روشنی نظر آ رہی تھی  جو کھڑکی میں سے نکل کر تاریکی کو چیرتی ہوئی سامنے والی دیوار پر پڑ رہی تھی ۔ شہر سے تھوڑے فاصلے پر سڑک کی دوسری طرف اندھیرے میں فاؤسٹ کھڑا تھا ۔ انگلیوں میں انگلیاں پھنسی ہوئی تھیں اور پُراشتیاق نگاہوں سے کھڑکی کی طرف تک رہا تھا اور اس سائے کو بڑے اِنہماک سے دیکھ رہا تھا جو کھڑکی کے باریک پردے پر متحرک نظر آ رہا تھا ۔

اِسی سوچ میں وہ ڈوبا ہوا تھا کہ میفسٹو کی آواز اس کے کندھے کے قریب سے سنائی دی اور اِس آواز نے اُس کے خیالات کو درہم برہم کر دیا ۔ فاؤسٹ کو اس کی آواز ایک ناگوار جھنکار معلوم ہوئی ۔

’’تو اب کس بات سے ڈر رہا ہے فاؤسٹ؟ وہ چھوکری خود تجھے روشنی سے آنے کی راہ دکھا رہی ہے‘‘۔

فاؤسٹ نے غصے سے کہا:- ’’ملعون خاموش رہ ۔ یہ نورانی لڑکی اس قدر پاکیزہ ہے کہ تیرے خیالات ہی اس کو ملوث (آلودہ)کر دیں گے ۔ مارگریٹ کو تو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا‘‘۔

میفسٹو ہنسا مگر اس کے ہنسنے میں خوشی کو دخل نہ تھا اور فاؤسٹ کو تیکھی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔ پھر بولا:- ’’ میں اِس چھوکری کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔ وہ تیرے ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن تو بڑا سست چاہنے والا ہے فاؤسٹ، تو تو بہت جلدباز اور ۔۔۔ دل پھینک تھا ۔ تین دن سے تو اِس چھوکری کو جانتا ہے ۔ اُس کی خالہ کے ہاں اُس سے اظہارِ محبت کر چکا ہے اور اب بھی تکے ہی جا تا ہے‘‘۔

فاؤسٹ نے غصہ سے پلٹ کرکہا :- ’’ مارگریٹ میرے لیے مقدس ہے ۔ اس کی معصومیت حصولِ سکون کا ذریعہ ہے ۔ اپنی بدگوئی کو ختم کر ۔ مارگریٹ  میری دلہن بنے گی‘‘۔

’’اوہو! اچھا! کیا تو گرجا میں داخل ہو سکتا ہے ؟ جب پادری تیرے آگے صلیب لائے گا تو کیا تو اس کی تاب لا سکے گا ؟ کیا جتنی بھی وہ قسمیں دے گا اور جتنی بھی مقدس بک بک وہ کرے گا ، اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کر سکے گا اور اس کی دعائیں قبول کر سکے گا ؟ تو کچھ نہیں کر سکتا اور معلوم بھی ہے کہ کب سے نہیں کر سکتا؟‘‘

فاؤسٹ نے شکستہ خاطری سے کہا :- ’’او میفسٹو تو نے کس بری طرح سے مجھے اپنے جال میں پھانسا ہے ! تیرے سارے تحفے اور عطیے  میرے لیے عذاب بن گئے ۔ تیرا دیا ہوا جوانی کا تحفہ ! ملعون جوانی!‘‘۔ فاؤسٹ کے یہ الفاظ دردوکرب کی چیخیں معلوم ہوتے تھے ۔ اُس نے ایک گہری سرد آہ بھری اور اس میں ناامیدی و نامرادی اور روحانی صعب (شدید درد) تھا ۔

’’لیکن میں اپنی مارگریٹ  سے پھر ملوں گا ۔ میں اس کے حیات بخش چہرے کو ایک دفعہ پھر دیکھوں گا ،  شاید آخری بار ۔ میں اسے دیکھوں گا ،  ضرور دیکھوں گا‘‘۔

میفسٹو نے طنز سے تعظیماً جھک کر کہا :- ’’جیسی رائے عالی ہو ۔ اور اس اثناء میں میں اس کے بھائی کو لگائے رہوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہوا ۔

فاؤسٹ آہستہ آہستہ سڑک پر سے گزرا اور اُس کی کھڑکی کو دیکھتا گیا ۔ وہ سرد آہیں بھر رہا تھا اور ہاتھ مل رہا تھا ، ناامیدی و مایوسی سے بھی اور آرزو و پرستش سے بھی ۔

مارگریٹ کا سایہ پھر نظر آیا اور اب کے ذرا زیادہ واضح تھا ۔ پھر پردہ ہٹا اور مارگریٹ نے جھانک کر باہر دیکھا ۔ اُس نے لمبے لمبے سانس لیے اور ستاروں کی طرف خوابناک آنکھوں سے دیکھا ۔

تھوڑے سے تذبذب کے بعد فاؤسٹ چڑھ کر کنگنی (دیوار کی منڈیر)پر پہنچ گیا ۔ اُس نے اپنا سانس تک روک رکھا تھا ۔ مدھم روشنی میں وہ فرشتہ کی طرح کھڑی تھی اور فاؤسٹ دل ہی دل میں اُس کی پرستش کر رہا تھا ۔ مارگریٹ نے خوشی کا ایک لمبا سانس لیا اور پھر کھڑکی بند کرنے کو ہوئی ۔

پھر ایک ہاتھ روشنی میں نمودار ہوا اور محبت سے اس کے ہاتھ پر رکھا گیا ۔ اور اُس نے اپنے محبوب کی ہلکی مؤثر آواز سنی جس میں شیریں الفاظ ادا ہو رہے تھے ۔ تاریکی میں سے یکایک ہاتھ کے نکل آنے سے وہ ڈری نہیں کیونکہ اس کے خیالات کے سلسلہ کی ایک کڑی یہ ہاتھ بھی بن گیا ۔ وہ اپنے عاشق کے خیال میں غرق تھی اور آنکھیں بند کیے وادی کا منظر دوبارہ دیکھ رہی تھی اور یہ منظر وہ تھا جب وہ اپنے آپ کو چُھڑا کر بھاگی تھی اور اس کے عاشق نے اسے پکڑ لیا تھا ۔ اور اس کے بعد خالہ مارتھا کے باغ میں جو ملاقاتیں ہوئی تھیں اُن کی یاد تازہ کر رہی تھی ۔ جب اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو نظر اپنے ہی ہاتھ پر پڑی اور اُس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ اس ہاتھ کو اپنے محبوب کی خاطر چوم لے ۔ اُس نے کہا تھا، ’’پیارے ہاتھ، خوبصورت ہاتھ‘‘۔چندگھنٹے پہلے اُس نے اِسے چوم کر یہ الفاظ کہے تھے ، ’’ وہ ہاتھ جو مایوسی کے تاریک سائے میں سے مجھے نکال کر امید کی روشنی میں لایا ہے‘‘۔ اس کے بعد ایک سچ مچ کا ہاتھ ، خود اس کے محبوب کا ہاتھ اُس کے ہاتھ کو محبت سے تھامے ہوا تھا اور وہ اُس کی پرشوق آنکھوں میں آنکھوں ڈال رہی تھی ۔

فاؤسٹ نے کہا:- ’’ میری پیاری ، تیری آنکھوں کی برکت حاصل کرنے کے لیے میں نے کیسی کیسی آرزو کی ہے !‘‘۔

اُس نے مارگریٹ کی انگلیوں کو چوما ۔

سینے پر ایک ہاتھ رکھے مارگریٹ نے آہستہ سے کہا :- ’’ آہ، فاؤسٹ ! پیارے فاؤسٹ ! میرا دل تمہاری طرف کیسا کھنچ رہا ہے ! تم بولتے ہو تو جواب میں میرا دل گاتا ہے ۔ تم اِس پر سانس لیتے ہو تو یہ دمکنے لگتا ہے ۔ تم پیار کرتے ہو ، یہ پھول جاتا ہے اور میں نیم جان ہو جاتی ہوں ۔ تم میرے دل کو اپنے ہاتھوں سے گرما دیتے ہو ۔ یہ اب ہمیشہ تمہارے قبضے میں رہے گا‘‘۔

فاؤسٹ نے اُس کی ہتھیلی کو چوما اور سچے دل سے بولا:-’’ اور اس ننھے سے ہاتھ میں فاؤسٹ کی جان ہے‘‘۔

ایک چھوٹا سا سانس لے کر اُس نے اپنا ہاتھ بادل ناخواستہ کھینچ لیا اور فاؤسٹ کو خواب آلود آنکھوں سے دیکھا ۔ مارگریٹ کا چہرہ زرد تھا اور سینے میں جذبات کا تلاطم تھا ۔ اُس نے ملائمت سے کھڑکی  بھیڑنی (بندکرنا)شروع کی اور آہ بھر کر بولی :- ’’ شب بخیر پیارے ، خدا حافظ‘‘۔ اور اُس کے کپکپاتے ہاتھ سے استدعا ٹپک رہی تھی کہ وہ اب چلا جائے ۔

پھر فاؤسٹ کے دل میں یہ خوفناک خیال آیا کہ آئندہ وہ اپنی محبوبہ کو کبھی نہ دیکھ سکے گا ۔ چند لمحوں بعد جب یہ کھڑکی بند ہو جائے گی تو ساری روشنی اور نوزائیدہ امیدیں اُس کی روح میں مرجھا جائیں گی ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غارت ہو جائیں گی ۔ اپنی محبوبہ کی آواز اسے ایک بار پھر سننی تھی اور آخری دفعہ اُسے بوسہ دینا تھا تاکہ ابدی محبت کی مہر اُس کے لبوں پر لگ جائے ۔

’’مارگریٹ! مارگریٹ! ٹھہرو مارگریٹ!‘‘۔

فاؤسٹ نے اس طرح یہ الفاظ کہے کہ اُس کی ماں کے کانوں تک اِن کی آواز نہ پہنچے پائے ۔ کھڑکی سے لگ کر اس طرح التجا کی اور بڑی آہستگی سے کھڑکی کو دھکیلا ۔ اس کے اور مارگریٹ کے ہاتھوں کے درمیان  صرف شیشہ حائل تھا ۔ اس کے دباؤ سے کھڑکی آہستہ آہستہ کھلنے لگی اور پھر ایک دم سے کھل گئی ۔

فاؤسٹ نے پُرجذبہ آواز میں کہا :- ’’ مارگریٹ جانے  سے پہلے صرف ایک بوسہ !‘‘۔

مارگریٹ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا گویا وہ اُس کو منع کرنا چاہتی تھی ۔ فاؤسٹ کی اِستدعادل میں اتر جانے والی تھی ، چہرے پر التجا ، آنکھوں میں جذبات کی چمک تھی ۔ اُس نے مارگریٹ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اُسے اپنی طرف کھینچا ۔

فاؤسٹ کی التجا ہزار زبانوں سے طالبِ رحم تھی ۔ مارگریٹ میں انکار کی طاقت نہ رہی ۔ وہ فاؤسٹ کی آغوش میں جذب ہو گئی ۔ آنکھیں بند ، سانس رُکا ہوا ، سرخوشی سے نیم غشی کی حالت تھی ۔

فاؤسٹ بولا :- ’’ خدا حافظ پیاری ۔ اللہ تجھے معصوم اور تیرے دامن کو پاک رکھے‘‘۔

وہ اُسے اپنے سینے سے لگائے رہا اور پیار کیا ۔ اور اِس ایک بوسے میں محبت ، مایوسی اور پرستش سب ہی کچھ تھا ۔ مارگریٹ بے اختیاری میں اُس سے چمٹی ہوئی تھی ۔ اب اُس کی گرفت ہلکی پڑتی گئی یہاں تک کہ فاؤسٹ کے بازوؤں میں بے دم سی ہو کر پڑ گئی ۔ چہرہ زرد اور بے جان معلوم ہوتا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس آخری بوسے میں اُس نے اپنی ساری زندگی دے دی تھی، پھر اس پر بے ہوشی چھا گئی تھی ۔

فاؤسٹ اس کی اِس حالت سے گھبرا سا گیا ۔ کھڑکی میں سے کمرے میں داخل ہو کر وہ اُسے اٹھا کر اس کے معصوم بچھونے(بستر) کی طرف لے چلا اور اُس پر لٹا دیا ۔ جلدی سے پانی لایا اور اس کی پیشانی پر چھینٹا دیا ۔ سر اور ماتھے پر ہاتھ پھیر پھیر کر طرح طرح کی باتیں کہنے لگا ۔ اور اس کی روح میں ایک طرح کی ویرانی سی چھائی جاتی تھی ۔ ذرا جان میں جان آئی ۔ مارگریٹ  کے پپوٹے تھرتھرائے ، لب ہلے ، زرد چہرے پر سرخی کی جھلک دکھائی دی ۔ فاؤسٹ کے دل پر جو بوجھ تھا ، کم ہو گیا ۔ مارگریٹ نے آنکھیں کھول دیں اور اُس کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا دیے ۔

فضا بالکل خاموش تھی اور اس میں صرف اُن خوابناک آوازوں کی دھیمی  بھنبھناہٹ سنائی دے رہی تھی جو کمرے کی کھڑکی میں سے آ رہی تھی ۔

اس کے بعد کھڑکی بند ہو گئی اور پردہ کھنچ گیا ، اور وہ ملگجی روشنی بھی  جو سامنے والی دیوار پر پڑ رہی تھی  یکایک معدوم ہو گئی ۔

میفسٹو کبھی بیکار نہیں رہتا تھا اور فاؤسٹ سے جدا ہونے کے وقت سے اب تک تو بہت مصروف رہا تھا ۔ شہر کے وسط میں اواترنج کا شراب خانہ تھا۔ اُس نے اس شراب اور موسیقی کے مرکز کا رُخ کیا ۔ وہ اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی دھاڑی(نامور) شرابی جھوم کر چلے اور آپ ہی آپ کہتا جا رہا تھا ۔

’’ بس ایک کڑی اور رہ گئی ہے ۔ پھر وہ زنجیر پوری ہو جائے گی جو اُس کی روح کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریکی سے جکڑ دے گی‘‘۔ پھر نہایت نفرت و حقارت سے کہنے لگا :-’’ پھر تو فرشتہ اعظم  میکائیل بھی اِس زنجیر کو اپنی آتشیں تلوار سے نہ کاٹ سکے گا ۔ اس کے بعد اُسے اس شہر سے نکال لے جانا ہے اور اِس ملعون چھوکری سے علیٰحدہ کرنا ہے ۔ فاؤسٹ میں جو نیکی کا عنصر ہے وہ کچلا جا چکا ہو گا ۔ اس طرح میں نور کی قوتوں سے اپنی شرط جیت جاؤں گا‘‘۔

اواترنج کا شراب خانہ دور دور مشہور تھا  اور لوگ جوق در جوق وہاں آتے تھے ۔ وہ مسافر جو عمدہ شراب ، گندے اور فحش گیت پسند کرتے تھے اور جنہیں لڑنا جھگڑنا اور مارپیٹ ناپسند نہیں ہوتی تھی ، وہ شہر سے رُخصت ہونے سے پہلے اس شراب خانے میں ضرور آتے تھے ۔ طالب علم بھی یہاں آتے تھے اور فوجی اور گالی گلوچ کے عادی کام پیشہ لوگ یہاں جمع ہوتے تھے اور شراب خوری کی مقدار کے لحاظ سے ایک دوسرے کو سند دیتے تھے ۔ یہ شراب خانہ دراصل ایک اونچی چھت کا تہ خانہ تھا اور دیواروں کے سہارے سہارے شراب کے اونچے اونچے پیپے رکھے تھے ۔ ان میں سے بعض تو بارہ بارہ فٹ اونچے تھے ۔ خالی پیپے میزوں کا کام دیتے تھے اور بھدے اسٹول یا بے ڈول لکڑی کی نشستیں بیٹھنے کے کام آتی تھیں ، گو یہاں کے اکثر آنے والے اِسے زیادہ پسند کرتے تھے کہ پیپوں سے کمر لگا کر زمین پر  دراز ہو جائیں اور پاؤں ان اسٹولوں یا کرسیوں پر رکھ لیں ۔ اِسی حالت میں گھٹنوں پر کہنیاں ٹِکائے یہ لوگ رائے زنی کرتے تھے اور بحثیں کرتے تھے فلسفے پر ، سیاسیات پر ، مذہبیات اور دنیا بھر کے علوم و فنون پر ، یا پھر مسافروں کو قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے ، اپنے عشق و محبت کے معرکے بیان کرتے ، آوازے کستے ، فحش مذاق کرتے یا بدگوئی میں لگے رہتے ۔ کبھی کبھی ان میں سے کوئی گانے لگتا اور باقی سب بھی خواہ مخواہ اِسے پسند کرتے اور سب کے سب مل کر اس کی ٹیپ اٹھاتے تو گویا قیامت کا شور مچ جاتا جو دور دور تک گونجتا سنائی دیتا ۔

میفسٹو یہاں عین اُس وقت داخل ہوا جب ایک طالب علم پیپے پر کھڑا اپنا فضول گیت ختم کر رہا تھا ۔ یہ گویا اپنے ہی ساتھیوں میں سے ایک پرطعن تھا ۔ میفسٹو کے کان میں اس کے آخری الفاظ پڑے :-

’’نصف شب کو آہستہ سے کنڈی کھول

تیرا عاشق جاگ رہا ہے کنڈی کھول ،

صبح ہوتے آہستہ سے کر لے بند‘‘

گیت ختم ہوا تو قہقہوں کا شور بپا ہوا  ۔ ایک دیوزاد فوجی نے ٹھٹھا مار کر کہا:- ’’ ہاہاہا  ۔ خوب ہاتھ مارا۔ خوب ہاتھ مارا فروش ! یہ تجھ پہ ہوا سیبل ۔ اچھا تو یہ تُو تھا سیبل کہ رات بھر باغ  میں کھڑا رہا اور وہ بڈھا ڈڑھیل(داڑھی والا) اندر اُس کے ساتھ مزے اڑاتا رہا ۔ اور پھر تیرے ہی پیسے سے ۔ ہو! ہو! ہو!‘‘۔

سیبل ایک موجی جیوڑا (آزاد منش) سا طالب علم تھا ۔ غمناک چہرے میں عاشقانہ طبیعت پوشیدہ رکھتا تھا ۔ فوجی سے کہنے لگا:- ’’ آہ، ویلنٹین ! بعض پیدا ہی دولت مند ہوتے ہیں کہ ان سے دولت چھین لی جاتی ہے ۔ لیکن خدا اِن سب عورتوں کو غارت کرے ۔ مردوں کے لیے یہ ایک عذاب ہیں ۔ علاوہ تمہاری خوبصورت بہن مارگریٹ کے‘‘۔

اِتنے میں گانے کی ایک گرج دار آواز سنائی دی ۔ یہ کسی سلیقے سے گانے والے کی آواز تھی ، گہری اور متاثر کرنے والی ۔ چھت سے ٹکرا کر یہ آواز گونجنے لگی اور خالی پیپوں میں اِس کا ارتعاش ہونے لگا ۔ سب نے پلٹ کر گانے والے کی طرف دیکھا ۔ یہ ایک زبردست ہاتھ پاؤں کا مرد تھا ۔ جسم پر ایک لمبا سیاہ چغہ تھا اور سر پر سیاہ ٹوپی میں ایک لمبا سرخ پر لہرا رہا تھا ۔ شراب کے سب سے اونچے پیپے پر کھڑا تھا اور اس کا پَر چھت سے ٹکرا رہا تھا ۔ یہ ایک مذاقیہ گیت گا رہا تھا اور جب کوئی بند ختم ہوتا تھا تو سارے مجمع کے قہقہے سنائی دیتے تھے ۔ یہ ایک بیانیہ گیت تھا جس میں ایک مضحکہ میز مکھی کی کہانی سنائی گئی تھی  کہ اِس مکھی پر کوئی بادشاہ مہربان ہو گیا اور وہ شاہی لباس زیبِ تن کر کے دربار میں جایا کرتی تھی اور پھر اس مکھی کے وہ کارنامے بیان کیے گیے تھے جو شاہی بیگمات کے ساتھ اسے پیش آئے تھی  ۔ جب اُس کی ٹیپ آئی تو سب نے مل کر بڑی خوش دلی سے اُسے اٹھایا:-

’’اور جب وہ ہم کو کاٹتی ہیں

ہم ان کو اڑاتے ، مارتے ہیں‘‘

گیت ختم ہوا اور ابھی اُس کی گونج باقی تھی کہ تحسین و آفریں کے نعروں کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور سارا شراب خانہ گونج اٹھا ۔

گانے والے نے اُسی بلندی پر سے جھک کر نیچے دیکھا اور اس کے ہاتھ میں جو شراب کا پیالہ تھا  بڑھا کر بولا :- ’’کاش ایسی مکھی روڈا میں کبھی نہ آئے ورنہ جو لڑکیاں میں نے اس شہر میں دیکھی ہیں ان کے لیے غم کرنے کا زمانہ آ جائے گا‘‘۔

اتنا کہہ کر وہ چُپکا ہوا اور جس طرح کوئی کسی کا جامِ صحت پیتا ہے ، اپنا پیالہ اٹھا کر بولا :- ’’روڈا کی سب سے حسین لڑکی کے لیے‘‘۔

سب نے مل کر خوشی خوشی جامِ صحت نوش کیا اور سیبل نے ویلنٹین سے کہا :-’’ لو ، یہ تو تمہاری بہن مارگریٹ ہی ہوئی‘‘۔ اور بہت سی آوازوں نے اس رائے پر صاد کیا :-  ’’ ہاں ، یہ تو ہے ہی “۔ پھر ایک شور اٹھا :- ’’مارگریٹ  کا جامِ صحت ۔ مارگریٹ کا جامِ صحت‘‘۔

گانے والے نے وہیں سے چیخ کر کہا :- ’’ تو مارگریٹ کا جامِ صحت اور اُن سب لڑکیوں کا جامِ صحت میں پیتا ہوں جو عشاق کو قبول کرتی ہیں۔ کیونکہ نیکی اور حسن کا میل مشکل ہے ۔ مارگریٹ اور اس کے سب عزیزوں کا جامِ صحت‘‘۔

تھوڑی دیر تک ویلنٹین کی موٹی عقل میں اس بولنے والے کا مقصد نہ آیا ۔ پھر غصہ کی خوفناک چنگھاڑ کے ساتھ اس نے اپنے قریب والوں کو اِس طرح ہٹا دیا گویا وہ سب بچے تھے اور اپنی لمبی تلوار سونت کر اس شخص کی طرف جھپٹا  جس نے اِ س بے رحمی سے اس کی عزیز بہن کی معصومیت پر حملہ کیا تھا ۔ اُچھل کر وہ چند اونچے پیپوں پر پہنچا اور وہاں سے اوپر چھلانگ لگانے کےلیے تیار ہوا ۔ تلوار تُلی ہوئی تھی کہ اچھلتے ہی بھرپور ہاتھ بھی پڑ جائے ۔ للکار کر بولا ، ’’شیطان !‘‘۔

’’شیطان؟ یہ تو مجھے کہتا ہے ۔ اور میں تجھے کہتا ہوں ۔۔۔ بیوقوف ، میں نے توسچی بات کہی تھی ۔ جلدی کر بے وقوف ۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کا عاشق کمرے سے سٹک جائے‘‘۔

ویلنٹین دبکا،  وزن تولا اور اُس کے زبردست مضبوط جسم کی مچھلیاں اُبھری ہوئی ایسی معلوم ہوتیں تھیں کہ جیسے کوئی پتھر کا عظیم الشان مجسمہ کھڑا ہو ۔ چہرے کے پٹھے کھنچے ہوئے تھے ۔ اُس کی آنکھیں بھنچ کر چھوٹی ہو گئی تھیں اور منہ سے خونخواری ہویدا تھی ۔ اس نے چھلانگ لگائی۔ تلوار آگے چمکی اور بایاں ہاتھ پیچھے اڑا

میفسٹو نے ایک زوردار قہقہہ لگایا :- ’’ ایک اور اچھلنے والی مکھی ، بے ڈنک کی مکھی ۔ خون کی پیاسی مکھی ، لے یہ رہا خون تیرے لیے‘‘۔

ویلنٹین ابھی ہوا میں معلق ہی تھا کہ میفسٹو نے اس پر اپنا پیالہ الٹ دیا ۔

ایسا معلوم ہوا کہ ویلنٹین گویا کسی ربڑ کی دیوار سے ٹکرایا جو اس کی اور اس کے حریف کے درمیان حائل تھی ۔ اس کے سر نے اس طرح جھٹکا کھایا جیسے کسی نے اس پر ضرب لگائی ہو اور اس کی تلوار اور ہاتھ پاؤں اس نظر  نہ آنے والی دیوار سے ٹکرا کر پھیل گئے ۔ پھر سرخ شراب اُس پر گری اور فورا ً ہی ایک شعلے نے اُسے ملفوف کر لیا اور اُس کی لپٹ   چھت  تک  پہنچ رہی تھی ۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں   اور ایک چٹاخہ(چٹاخ کی آواز) ایسا سنائی دیا کہ ان کے کان بھی کچھ دیر کے لیے گنگ ہو گئے ۔

ویلنٹین اس طرح گرا جیسے مٹر کا دانہ  دیوار  سے ٹکرا کر اچٹتا (گر جاتا) ہے ۔ تھوڑی دیر تک سب حواس باختہ رہے ۔ گِرے ہوئے فوجی کے گرد ڈرے ہوئے لوگوں کی بھیڑ لگنی شروع ہوئی ۔ اتنے میں ویلنٹین اٹھ بیٹھا اور چارووں طرف تعجب سے دیکھنے لگا ۔ اُس کی نظروں کے سامنے وہ اونچا سا پیپا تھا ۔ زور سے چیختا ہوا وہ اچھل  کر اٹھا لیکن اس کے غصے کا شکار غائب ہو چکا تھا ۔

مارگریٹ کے کمرۂ خواب کی روشنی گل ہوجانے کے بہت دیر بعد تک میفسٹو اُس کی کھڑکی کو کھڑا تکتا رہا ۔ بازار کے دوسرے سرے پر اُس نے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنی ۔ باغ میں سے گزرتا ہوا وہ لپک کر گھر کی پشت پر آیا ۔  نیچے کے کمرے میں ماں سوتی تھی ۔ اُس نے اپنے ہاتھ کھڑکی کے داسے پر رکھے ۔ پھر آگے جھک کر اُس نے بڑے زور سے پھونک ماری ۔

کھڑکی کے پٹ زور سے کھلے اور کمرے میں آندھی کا فراٹا گونجنے لگا ۔ اُس نے پھر ایک پھونک ماری ۔ پردہ پھٹ کر نیچے گر گیا اور پلنگ کے پردے پھٹ پھٹ کر لٹک گئے ۔ بڑھیا ماں گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور گرتی پڑتی کھڑکی کے قریب پہنچی کہ ایکا ایکی جو آندھی اٹھی ہے اُسے کھڑکی بند کر کے کمرے  میں گھسنے سے روکے۔  لیکن جونہی وہ کھڑکی کے سامنے پہنچی ایک اور  جھونکا کمرے میں گھسا اور دروازہ بھی کھل گیا ۔ وہ پلٹ کر دروازے کی طرف دوڑی تاکہ اُسے بند کرے مگر کھلے ہوئے دروازے میں سے وہ اس طرح اُڑی چلی گئی جیسے کوئی کاغذ کا پُرزہ ہو ۔

برآمدے میں آندھی کا زور ذرا کم تھا ۔ یہاں ذرا سی دیر کھڑی ہانپتی رہی ۔ پھر کپکپاتے ہاتھوں سے چقماق ڈھونڈا اور تیل میں بھیگی ہوئی چھوٹی سی مشعل روشن کی ۔ اسے ہوا سے بچاتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھی تاکہ بیٹی کے کمرے میں پہنچے ۔ دروازے پر کھٹکا(کنڈی)ٹٹولا اور جلدی سے اُسے گھما کر کمرے میں داخل ہوئی اور اطمینان کا سانس لیا ۔

تھوڑی دیر تک وہ مارگریٹ  کے پلنگ کی طرف حیرت و پریشانی سے دیکھتی رہی ۔ سامنے مارگریٹ  کا زرد اور رحم طلب چہرہ نظر آرہا تھا ۔ وہ اٹھی بیٹھی تھی اور اس کے قریب ایک نوجوان لیٹا ہوا تھا ۔ پھر بڑھیا کے ہاتھ سے مشعل چھوٹ گئی ۔ رونے کی ایک گھٹی ہوئی چیخ سنائی دی اور اس کے بعد رونے کی طویل سُبکی ۔ یہ ایسی آواز تھی جیسے کسی کی روح رو رہی ہو ۔ کوئی تباہ و برباد ہو گیا ہو ، اُجڑ گیا ہو ۔ وہ لڑکھڑا کر واپس چلی ، گری اور اس کا سر برآمدے کی دیوار سے ٹکرایا ۔

مارگریٹ  نے ایک چیخ ماری اور جلدی سے اپنی ماں کے قریب پہنچ کر اُس کا سر اٹھایا۔ فاؤسٹ کمرے کے بیچ  میں کھڑا تھا اور اُس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا ۔ چشم زدن میں وہ فردوس کی نغمہ زا (سہانی )بلندیوں سے جہنم کی اتھا ہ گہرائیوں میں پھینک دیا گیا تھا ۔ اُس کے کان میں ایک تحکم آمیز آواز آئی :- ’’ بھاگ بھاگ فاؤسٹ ۔ جلدی بھاگ ۔ تیری محبوبہ مارگریٹ  کے لیے خطرہ ہے ۔ اس کا بھائی نیچے آ پہنچا ہے ۔ بھاگ‘‘۔

فاؤسٹ ایک لمحہ کے لیے مذبذب ہوا ۔ پھر برآمدے سے ہوتا ہوا بھاگا اور سیڑھیوں  پر سے اُتر کر باغیچہ میں آیا ۔ اسکی ٹوپی غائب تھی اور چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔

اُس نے ایک بھیانک للکار سُنی اور پلٹ کر جو دیکھا تو نکڑ پر سے ایک خوفناک دیوزاد انسان اس پر جھپٹتا ہوا نظر آیا ۔ یہ ویلنٹین تھا جو تلوار سونتے اُس کی طرف لپک رہا تھا ۔ چہرے پر صرف ایک جذبہ تھا اور یہ جذبہ تھا قتل کا ۔ فاؤسٹ نے  پھرتی سے اپنی تلوار کھینچی اور بمشکل تمام اُس کے پہلے وار کو روکا اور بولا :- ’’ ٹھہرو ۔ میں تم  سے نہیں لڑوں گا ۔ تم مجھے زخمی نہیں کر سکتے اور میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘‘۔

’’ ابے چوہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے نقصان پہنچائے گا ! لے یہ رہا زہر تیرے لیے‘‘۔

بیل کی طرح ڈکراکر ویلنٹین نے کہا اور جھونکنے کا ایک زبردست ہاتھ دیا ۔ فاؤسٹ اسے پھر بچا گیا لیکن اس میں اس قدر شدت تھی کہ اُسے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ ویلنٹین کی تلوار اس کے دل کے آس پاس تڑپ رہی تھی ۔ فاؤسٹ کلائی کی ہوشیار جنبشوں سے اپنی تلوار سے اس طرح بچاؤ کر رہا تھا کہ ویلنٹین کی تلوار کبھی تو اس کے سر کے قریب سے اور کبھی ران کے قریب سے بال بال بچ جاتی تھی ۔ لیکن ویلنٹین کی بھاری ضربیں روکتے روکتے وہ تھک چلا تھا ۔ ویلنٹین کی ہر ضرب رد کرنے کے بعد فاؤسٹ کے لیے موقع ہوتا تھا کہ اپنے حریف کے کوئی مہلک زخم لگائے مگر اِس کا اُس نے ارادہ ہی نہیں کیا ۔ یکایک ویلنٹین پیچھے کی طرف اچھلا اور پھر ایک دم سے آگے چھلانگ لگا کر  آیااور زمین پر اس طرح گرا جیسے کسی کا پاؤں پھسل جائے ۔ سیدھا پاؤں آگے کو پھیلا ہوا تھا ، گھٹنا خمیدہ تھا ۔ بایاں پاؤں پیچھے سیدھا پھیلا ہوا تھا اور بایاں ہاتھ زمین پر ٹکا ہوا تھا ۔ اس حرکت کے ساتھ ہی فاؤسٹ کے گلے کی طرف تلوار کا وار کیا ۔ یہ پینترا ایسا تھا کہ جو شازونادر ہی کسی کو آتا تھا ۔ ویلنٹین نے ایک ہسپانوی تلوار باز سے یہ داؤ سیکھا  تھا ۔ اس میں درمیانی فاصلہ بہت کم رہ جاتا تھا اور اِس کا توڑ صرف اسی وقت ممکن تھا جب  حریف  پہلے ہی سے اس کے لیے تیار ہو۔  فاؤسٹ  نے بڑٰ ی پھرتی سے پیچھے اچھل کر اِس وار کی تندی کو کم کیا لیکن بچتے بچتے بھی اس کی ٹھوڑی کے نیچے ایک خاصا لمبا زخم پڑ گیا ۔ ایسے خوفناک تلوار باز سے محض بچاؤ کرتے رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا ۔ فاؤسٹ  نے بھی وار پر وار کرنا شروع کیا تاکہ ویلنٹین کو تھکا دے یا اس کے ہاتھ سے تلوار گرا  دے ۔

’’مار ، مار فاؤسٹ ۔ مار‘‘۔

اُسے میفسٹو کی آواز سنائی دی ۔ اور ویلنٹین کے پیچھے وہ اس طرح کھڑا نظر آیا کہ چہرے سے بدی اور خونخواری ٹپک رہی تھی  ۔ فاؤسٹ کے حملوں نے ویلنٹین کو پیچھے ہٹانا شروع کیا ۔

فاؤسٹ نے چیخ کر کہا – ’’ اپنی تلوار روکو ۔ میں تمہارا خون نہیں بہاؤں گا‘‘ ۔

میفسٹو نے پھر آواز دی :- ’’ مار ، فاؤسٹ ۔ مار‘‘۔

اِتنا کہہ کر اُس نے اپنی تلوار کھینچی ۔ اس کا سرا پکڑ کر کمان کی صورت میں اُسے خم دیا اور اس طرح مسکرا کر جیسے کوئی منہ چڑاتا ہو اور نہایت بے توجہی  سے تلوار سیدھی کر ویلنٹین کی پیٹھ میں گھونپ دی ۔

ویلنٹین گر پڑا اور میفسٹو جلدی سے اُس پر جھک کر کھڑا ہو گیا اور بولا:- ’’ بھاگ  فاؤسٹ ، بھاگ ۔۔ تو نے اُسے مار ڈالا ۔ جلدی ۔ گشت والے اب آتے ہی ہوں گے‘‘۔

لیکن فاؤسٹ بھونچکا کھڑا تھا ۔ کبھی گھبرا کر اپنے چاروں طرف دیکھتا تھا ، کبھی اپنے قدموں میں ویلنٹین کو پڑے دیکھتا تھا اور کبھی اُس مدھم روشنی کی طرف جو مکان میں دکھائی دے رہی تھی ۔

میفسٹو نے ایک نظر فاؤسٹ کی طرف دیکھا ۔ پھر بازار کی طرف دوڑا اور منہ پر ہاتھ لگا کر چیختا گیا ، ’’ قتل ! قتل !‘‘۔

کھڑکیاں زور زور سے کھلیں ۔ شب خوابی کی ٹوپیاں پہنے لوگ اُن میں سے جھانکنے لگے ۔ گھبرائی ہوئی تیز تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں ، ’’ کہاں ؟ کب؟ کس طرح ؟‘‘

اس کا جواب وہی خوفناک آواز تھی جو بار بار گونج رہی تھی :- ’’ قتل ، قتل ، خون ، خون ! دوڑو ، دوڑو ! قاتل بھاگ رہا ہے ، دوڑو‘‘۔

اُلٹے سیدھے کپڑے پہنے لوگ گھروں سے نکل نکل کر بھاگے ۔ بعض کے ہاتھوں میں لالٹینیں تھیں اور میفسٹو کی آواز ان کی رہنمائی کر رہی تھی:-’’ اِدھر ، ادھر ۔ جلدی ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قاتل بچ کر نکل جائے‘‘۔

میفسٹو تیز دوڑ کر فاؤسٹ کے پاس پہنچا اور اُس کا ہاتھ گھسیٹ کر بولا :- ’’ بھاگ ! بھاگ! دیکھ اُن کے قریب آنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ میں اس شہر میں تجھے بچا نہ سکوں گا ، کیونکہ تو نے خون کیا ہے‘‘۔

فاؤسٹ نے اپنی محبوبہ کے گھر پر آخری حسرت ناک نظر ڈالی اور بڑی دل سوزی سے آواز دی ، ’’مارگریٹ ، مارگریٹ‘‘۔

میفسٹو نے چپکے سے کہا :- ’’ اگر تو یہاں ٹھہرے گا تو اُس پر اور مصیبت پڑے گی ۔ جلدی کر ابھی ، ورنہ سمجھ لے کہ تو پکڑا گیا اور کبھی اسے نہ دیکھ سکے گا‘‘۔

اتنا کہہ کر فاؤسٹ کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور رات کی تاریکی میں بھاگ کر وہ روپوش ہو گیا ۔

ویلنٹین کے گرد حواس باختہ مردوں اور چند عورتوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ سب کے سب نیم برہنہ تھے ۔ بعض صرف ایک لمبا لبادہ پہنے تھے اور سب کچھ غائب ۔ جلدی میں جو چیز جس کے ہاتھ لگی  ، لے دوڑا ۔ کسی کے ہاتھ میں لکڑی تھی ، کسی کے کچھ ، کسی کے کچھ ۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ہوا کیا ہے اور وہ کون تھا جو قتل قتل کی آواز لگا رہا تھا جسے سُن کر وہ اپنے بچھونے چھوڑ چھوڑ کر بھاگ آئے تھے لیکن ایک بات کا علم انہیں ضرور تھا ۔ اور وہ یہ کہ باغیچے میں ایک دیوزاد آدمی یا تو مرا پڑا تھا یا دم توڑ رہا تھا ۔ اس کے پہلو میں خون کا ایک چقر (چشمہ)تھا ۔ اس میں سے جتنا زمین میں جذب ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ سینے اور پیٹھ میں سے بہہ بہہ کر جمع ہو رہا تھا ۔

ایک نوجوان نے جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی آگے بڑھ کر اس کو سر اٹھایا اور بولا :- ’’ارے ، یہ تو ویلنٹین ہے ۔ اور لو دیکھو کسی نے اس کے سینے میں خنجر بھونکا ہے‘‘۔ پھر اُس نے پیٹھ پر کپڑے ٹٹولے جو خون سے لت پت ہو رہے تھے اور بولا:- ’’نہیں ، یہ تو کسی نے تلوار بھونکی ہے ۔ قاتل نے پیچھے سے وار کیا ہے اور تلوار سینے میں سے پار ہو گئی ہے‘‘۔

دروازہ پر شوروغل سن کر مارگریٹ گھر سے باہر نکل آئی ۔ اس کے چہرے پر ایسی زردی کھنڈی ہوئی تھی کہ دیکھے سے خوف آتا تھا اور اس کی آنکھیں اس طرح پھٹی ہوئی تھیں جیسے کسی دیوانے کی ہوں ۔ وہ کانپ رہی تھی اور جب اُس نے دیکھا کہ ایک بھیڑ کسی کو گھیرے ہوئے نیچے کی طرف دیکھ رہی ہے تو وہ بری طرح لرزنے لگی اور خوف و غم سے ہاتھ ملنے لگے اور اسکے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ ابھی ابھی جو حادثہ اس پر گزرا تھا وہ اس قدر دہشت ناک تھا کہ اگر وہ اس پر نہ بیتا ہوتا تو یہی کہتی کہ اس کے بعد زندہ رہنا کیسے ممکن ہے ! جب وہ اپنے عاشق سے ہم آغوش تھی  دروازے کا ایک دم سے کھُلنا ، اس کی ماں کا کمرے میں بجھتی ہوئی روشنی کو لے کر داخل ہونا اور پھر اس کو دیکھ کر ماں کی دردناک چیخ ، لڑکھڑا کر واپس جانے کی کوشش  میں گرنا اور سر کا دیوار سے ٹکرانا ۔ سب کچھ اس نے دیکھا تھا ۔ مارگریٹ نے دوڑ کر ماں کا سر اٹھایا اور بڑی التجا سے اُسے آواز دی تھی لیکن ماں کی آواز پھر اُسے سننی نصیب نہیں ہوئی ۔ نہ تو وہ محبت سے بولی اور نہ خفگی سے کچھ کہا ۔ ماں کی آنکھ نے نہ تو شفقت سے اُس کی طرف دیکھا اور نہ ناراضگی سے ۔ مدھم روشنی میں اُس نے جو کچھ دیکھا، اُس سے گویا ماں پر بجلی گر پڑی ۔ ایک لمحہ میں اس کے سارے سیدھے سادے خیالات ، گھر کی مسرتیں ، مارگریٹ  پر جو اُسے ناز تھا ، زندگی بھر اُس کے جو اصول اور عقائد تھے ، سب غارت ہو گئے تھے ۔ موت نے گویا اس پر ترس کھایا تھا کہ اُس کی زندگی چھین لی تھی ۔۔۔ وہ زندگی جو اگر اب باقی رہتی تو موت سے بدتر ہوتی ۔

شروع شروع میں مارگریٹ سمجھ بھی نہیں سکی کہ کیا ہو گیا ، لیکن جب اس کے ہیجان زدہ ذہن میں صداقت آشکارہ ہوئی تو خوف سے اُس کی چیخ نکل گئی اور وہ گھٹنوں ہی پر جھکی جھکی ماں سے محبت و التجا کے ساتھ طرح طرح کے وعدے وعید کرتی رہی ۔ پھر گھر کے باہر شوروغل سنائی دیا لیکن اس کے لیے یہ بالکل بے معنی تھا ۔ پھر یہ شور اُسے رونے کی چیخیں معلوم ہونے لگا اور اس کے اپنے سانحۂ اندوہ کا ایک جزو محسوس ہوا ۔ ’’قتل‘‘ کا لفظ ہر آواز میں گونج رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ خود اُس کے اندر کوئی آواز چیخ کریہی لفظ دہرا رہی  ہے اور اُسے اس کا مجرم قرار دے رہی ہے کہ اپنی ماں کو ابدی سکوت میں دفن کر دے ۔

بڑھتے ہوئے شور نے آخرکار اُس کے احساس کے بند دروازے کو کھٹکھٹایا ۔ ایک خوفناک خیال ایک دم سے اُس کے معطل متخیلہ میں آیا ۔ غم  و اندوہ ! ہر طرف غم و اندوہ ! اُس کی ماں ۔۔۔۔ خود، اور اب شاید ۔۔۔۔۔۔ اُس کا عاشق ۔ ماں کے پہلو میں سے بڑی مشکل سے اٹھی اور گھسٹ کر زینے تک پہنچی ۔ اُس پر سے گرتی پڑتی اٹر کر نیچے باغیچہ میں پہنچی ۔

مجمع کو نیچے پیروں کی طرف کسی چیز کی طرف تکتے دیکھ کر اُسے غش آنے لگا ۔ پھر چیخ مار کر وہ مجمع میں گھس گئی اور دھکا پیل کر کے کسی نہ کسی طرح بیچ میں پہنچی اور خون میں لتھڑے ہوئے دیوزاد نوجوان  پر ’’بھائی ، پیارے بھائی‘‘ کہتی  ہوئی گر پڑی ۔

جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو بھائی کا منہ تکتے پایا ۔ اُس کی آنکھیں کھلیں ، محبت اور تعجب کی نظروں سے بہن کی طرف دیکھا ۔ یقیناً یہ سب  کچھ ایک بھیانک خواب تھا ۔ بے معنی خواب ، جو وہ اُسے سنائے گا اور پھر دونوں بہن بھائی اس خواب پر بھی اُسی طرح ہنسیں گے جس طرح اور بہت سی بیوقوفی کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے ۔ نہیں ، وہ پورا خواب بہن کو نہیں سنائے گا ! نہیں ، سیاہ لباس والے شیطان نے اُس کی بہن کے متعلق جو کچھ کہا تھا اُس کا ذکر نہ کرے گا اور نہ اُس کے ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے گرد یہ بھیڑ کیسی لگ رہی ہے ۔۔۔ اور یہ پیٹھ اور سینے میں درد کیسا ۔۔۔۔؟ یہاں وہ کیوں ۔۔۔۔۔؟ ایک دم سے اُس کی یادداشت کارفرما ہو گئی اور اپنی تمام تر خوفناکی کے ساتھ ۔

اُس نے درد سے چیخ کر کہا :- ’’مجھے ہاتھ مت لگا ۔ تیرے عاشق نے میرے جسم کو مار ڈالا مگر تو نے اس سے بھی زیادہ گہرا زخم پہنچایا ہے‘‘۔

مارگریٹ سرگوشی کی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ سکی :- ’’آہ ! بھائی ویلنٹین ۔ میرے بھائی !‘‘۔

وہ نفرت سے مارگریٹ  کو ہٹا کر بولا اور اب کے اُس کی آواز اور بھی نحیف تھی ۔ سِسک سِسک کر بولا :- ’’چاندی کی وہ زنجیر جو میں نے تجھے دی تھی ۔۔۔ تیری کلائی میں جو پہنائی تھی ۔۔۔ جس میں یسوع کی صلیب لگی ہے ۔۔۔ روڈا کی سب سے نیک اور معصوم لڑکی کے لیے ! کیا تو اسے پہنے گی ؟ ہمیشہ پہنے گی جیسا کہ تو نے کہا تھا ؟ اپنے بڑے بھائی کی یاد میں جس کو تو نے قتل کر دیا  ہے؟‘‘

’’نہیں ۔ اچھی خالہ! نہیں ، ایسا نہ کہو‘‘۔ مارگریٹ  نے ایک دلدوز چیخ مار کر کہا اور جلدی سے سیدھی کھڑی ہو دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا۔

ویلنٹین نے اپنے بھاری پپوٹے آہستہ آہستہ پہلی مرتبہ کھولے اور اُس کی طرف رحم آمیز نگاہ سے دیکھ کر شدتِ تکلیف سے سانس لیا اور کہا :- ’’میرے جھڑکنے کی آواز تو آئندہ  کبھی نہیں سنے گی ۔ لیکن کیا میری ننھی غمزدہ ماں سے تو اپنی نیلی معصوم آنکھیں چار کر سکے گی ؟‘‘

ایک گھٹی ہوئی چیخ کے ساتھ مارگریٹ  بھیڑ کو چیرتی ہوئی اندھا دھند اپنے گھر کی طرف افتاں و خیزاں چلی ۔ مجمع میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پیدا ہوئی اور اس میں غیظ و غضب کا جزو بھی شامل تھا ۔

ویلنٹین  پھر بولا لیکن بڑی کوشش سے رُک رُک کر :- ’’میرے جنازے کی نماز پڑھوانا ۔ پھر اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو سب بیسواؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ شکنجہ‘‘۔  اتنا کہہ کر انتہائی دردو تکلیف سے اپنا ہاتھ  تھوڑا سا اٹھا یا اور بولا، ’’مجھے میری تلوار دو‘‘۔

لاٹھی والے نوجوان نے جلدی سے اُس کی تلوار پہلو میں رکھ دیا ور اُس کے قبضے پر ویلنٹین کی مٹھی بھنچ گئی ۔ تھوڑی دیر تک تلوار اُس کے پہلو میں اِس طرح کھڑی رہی کہ قبضہ زمین پر ٹِکا ہوا تھا ۔

ویلنٹین کی سسکتی ہوئی آواز سنائی دی :- ’’سپاہیانہ موت نہیں ۔۔۔ مگر اپنی تلوار کے ساتھ ۔۔‘‘

پھر اُس کا منکا  ڈھلک گیا اور تلوار ایک جھنکار کے ساتھ زمین پر آ رہی ۔

چھٹا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search