فاؤسٹ (حصہ دوم: تیسرا باب)

 In ترجمہ

اِدھر تو مارگریٹ اپنے نئے ہیجان کو عبادت میں تسکین دینے کی کوشش کر رہی تھی اور اُدھر اس کی ماں پر بھی ایک غیرمتوقع واقعہ کی وجہ سے اِس سے بھی زیادہ ہیجانی کیفیت طاری ہو رہی تھی ۔

وہ کھڑکی کے قریب اپنے کام میں منہمک بیٹھی تھی ، ایک لمبا چوڑا نوجوان فوجی لمبی لمبی ڈگیں بھرتا(قدم اٹھاتا) بازار میں سے آ رہا تھا ۔  اُس کے پہلو میں ایک بڑی سی تلوار تھی اور چمڑے کے سینہ بند کی وجہ سے دیوکی طرح سینہ تنا ہوا تھا ۔ ماں نے دیکھا کہ باغیچے کی روش پر آدمی کیا ، ایک پہاڑ کا پہاڑ چلا آتا ہے  ۔ اور پھر دروازہ زور سے کھلا اور ایک گرج دار آواز سنائی دی ۔ دیکھاتو اس کے سامنے ویلنٹین اس طرح کھڑا ہے کہ ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں اور خوشی سے آنکھیں چمک  رہی ہیں ۔

’’چھٹی ، اماں ! چھٹی ۔ ہوہو!‘‘۔

’’ویلنٹین ! میرے بچے!‘‘۔   ماں کے منہ سے گھٹی ہوئی آواز میں یہ الفاظ نکلے اور ان میں خوشی ، تعجب ، محبت اور سکون سب ہی کچھ تھا ۔

ایک ہی  چھلانگ میں اُس نے اپنی ماں کو گود میں اٹھا لیا تھا اور اِتنا اونچا کیا کہ چھت سے سر لگا دیا ۔

’’ارے اماں ، واللہ! تم تو وزن میں کچھ کم ہوتی جا رہی ہو‘‘۔ یہ کہہ  کر اس نے ماں کو زمین پر ٹِکا دیا اور خوب ہنسا ۔

’’میرا بچہ ! میرا ننھا بچہ !‘‘۔ اُس نے غمناک مسکراہٹ  سے  کہا۔ ’’ میرے اللہ نے مجھے ایسٹر کا کیسا اچھا تحفہ بھیجا ہے‘‘۔

’’اماں ، پورے تین ہفتے تمہارے اور مارگریٹ کے ساتھ گزریں گے ۔ میری خوبصورت مارگریٹ کہاں ہے وہ ؟‘‘

’’وہ تو گرجا گئی  ہوئی ہے ایسٹر کی عبادت کے لیے ۔ بس اب آتی ہی ہو گی‘‘۔

’’آہ ! کوئی چیز میرے یہاں چُبھ رہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ سینہ بند میں ڈالا اور کھینچ تان کر کوئی چیز نکالی ۔ پھر اپنی بڑی ساری مٹھی ماں کے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر کھولی تو اس میں ایک سونے کا بروچ تھا ۔

’’یہ بڑی دور سے آیا ہے اماں ،  برانڈ نبرگ سے۔ اور میرے ساتھ ساتھ اس پر بھی عجیب عجیب واقعات گزرے ہیں‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر کچھ بھولی  ہوئی باتوں کی یاد اُبھر آئی ۔

تھوڑی دیر تک دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ ویلنٹین اپنے  واقعات و سانحات سناتا رہا اور شہر میں جو اُس کے دوست تھے ان کے حالات پوچھتا رہا ۔

اتنے  میں باغیچے کے دروازے کا کھٹکا کھلنے کی آواز سنائی دی اور انہوں نے مارگریٹ   کے بھاگ کے آنے کی آواز سنی ۔

اُس کی ماں بولی :- ’’آج  یہ مارگریٹ  کو کیا ہو گیا ؟ یہ تو جب کبھی بھی گرجا سے واپس آتی ہے تو ہمیشہ مجھے دور ہی سے آواز دیتی ہے ۔ شاید آج اُس کا جی کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ تم یہیں رہو ، ویلنٹین ۔ میں اس کے پاس سے ہو کر آتی ہوں‘‘۔

مارگریٹ   اپنے کمرے میں پہنچ کر کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور اپنی کھڑکی میں سے باہر کی طرف اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے کوئی خواب  دیکھتا ہو ۔ مگر آج اس کے خیالات کچھ اور ہی تھے ۔ وہ نہیں تھے جن میں وہ پہلے کھوئی سی رہتی تھی ۔ صبح جو واقعہ پیش آیا تھا اُس کی وجہ سے اُس کے خیالات میں ہیجان تھا ۔ دل میں نئے نئے خیالات کا طوفان تھا ۔ یہ خیالات بڑے عجیب و غریب تھے مگر یہ اُن سے خائف تھی ۔ عبادت کے دوران میں اس نے کوشش کی تھی کہ اُس شہزادے (وہ اسے اپنے دل میں یہی کہتی تھی ) کے خیال  کو دل میں نہ آنے دے مگر اس کوشش میں وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔ گرجا سے نکلنے کے بعد اُسے پھر وہ باہر نظر آیا تھا اور وہ اس کے قریب سے شرماتی ہوئی جلدی جلدی گزر گئی تھی ۔ گھر آتے ہوئے چلنے میں وہ دوڑنے لگتی تھی اور یہ خیال دلنشیں ہو رہا تھا کہ شہزادہ اور اس کا ساتھی اس کا تعاقب کر رہے ہیں ۔ کھڑکی میں سے ڈرتے ڈرتے اُس نے جھانک کر دیکھا  مگر جب نیچے اُسے کوئی نظر نہ آیا تو اطمینان کے ساتھ ایک طرح کی مایوسی بھی محسوس  کی ۔

ماں کمرے میں آئی تو مارگریٹ سیدھی اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ سر جُھک گیا گویا کوئی شرمناک بات اُس کے چہرے پر دیکھی جا سکتی تھی ۔

ماں نے محبت سےپوچھا:-’’ مارگریٹ   میری بچی ، تجھے کوئی دُکھ درد تو نہیں ہے؟‘‘۔

اُس نے شرما کر مسکراتے ہوئے جواب دیا :- ’’اماں ، کچھ عجیب خلجان سا طبیعت میں اس وقت ہے ۔ جاتا رہے گا‘‘۔

’’اچھا تو نیچے آ جلدی ۔ تجھے گود میں لینے کے لیے ایک مرد کھڑا ہے‘‘۔

یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔

مارگریٹ  کو دھکا سا لگا اور تعجب سے چونک پڑی ۔ اُس کے ذہن میں ’’شہزادے‘‘ ہی کا تصور تھا اور وہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے لرزتی کانپتی سیڑھیوں پر سے اُترنے لگی اور سوچنے لگی کہ اگر شہزادہ ہی ہوا تو اسے دیکھ کر بھاگ جائے گی ۔ جب دروازہ کھلا اور خوشی کی آواز سن کر اپنے بھائی کو دیکھا تو ایک لمحہ کے لیے وہ بھونچکی سی ہو گئی اور تعجب سے اسے اس طرح گھورنے لگی جیسے کسی امید کے یک لخت مٹ جانے پر کوئی دیکھے ۔ پھر وہ خوشی سے چیختی اپنے بھائی کی طرف دوڑی ۔

’’ویلنٹین ! میرے پیارے بھائی !‘‘۔

بھائی نے بہن کو گلے لگایا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بڑے سے بھورے ریچھ کی آغوش میں کوئی پھول ہے ۔ پھر اپنے سے جدا کر کے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑا کر دیا اور اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگا اور ہنس کر بولا :- ’’واللہ ! تو نے وہ جادو کا سیب کھا لیا ہے جس سے حسن بڑھتا ہے ۔ یاد  ہے نہ تجھے  وہ سیب جس کی کہانی میں  جھٹپن (کم عمری)  میں سنایا کرتا تھا ۔ اماں ، روڈا میں اس سے خوبصورت لڑکی تو کوئی اور ہو گی نہیں ۔ اب جلدی ہی اس سے شادی رچانے کے خواہشمند پیدا ہو جائیں گے‘‘۔

مارگریٹ   کا چہرہ شرم و حیا سے تمتمانے لگا ۔ اتنے میں اس کے بھائی نے ایک چاندی کی زنجیر اس کی کلائی میں ڈال دی ۔ اس میں ایک ننھا سا صلیب آویزاں تھا ۔ اِس تحفے کو دیکھ کر مارگریٹ   خوشی سے چیخنے لگی :- ’’بھائی ، آپ کس قدر مہربان ہیں ۔ میں اِسے ہمیشہ پہنے رہوں گی اور جب آپ چلے جائیں گے تو اِسے دیکھ کر آپ کی یاد تازہ ہوتی رہے گی ۔ بھائی ویلنٹین ، آپ ہمارے ساتھ کتنے دنوں تک رہیں گے ؟‘‘۔

’’تین ہفتے تک ۔ لیکن ننھی بہن ، ان تین ہفتوں میں ہم  خوب خوشیاں منائیں گے ۔ اور ایسی خوشیاں کہ اِن دنوں کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھیں گے‘‘۔

اس کے بعد ہی ایک حقارت آمیز قہقہے کی آواز بازار میں سنائی دی ، گویا اس کے جواب ہی میں یہ قہقہہ  لگایا گیا تھا ۔ اور کھڑکی  میں ہی انہوں نے انہی دونوں نوواردوں کو جاتے دیکھا ۔ یہ قہقہہ اس نے لگایا تھا جس کا لباس سیاہ تھا ۔

ویلنٹین کو گھر آئے ہوئے کوئی دو گھنٹے ہوئے ہوں گے کہ گھر کے پیچھے باغیچے کی آڑ میں فاؤسٹ اور میفسٹو کھڑے چپکے چپکے  باتیں کر رہے تھے ۔

’’اِس چھوکری کو کسی بےوقوف پادری کے لیے چھوڑ ۔ یہ تیرے لائق نہیں ہے ۔ میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تیرے اِس جذبے کا نتیجہ  بُرا نکلے گا ۔ میفسٹو فاؤسٹ کے دل میں یہ بات جما رہا تھا ۔

فاؤسٹ بولا :- ’’یہ کوئی وقتی جذبہ نہیں ہے جو مجھے اُکسا رہا ہے ۔ یہ محبت ہے، سچی محبت ۔ جسے میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اَب محسوس کیا ہے ۔ اِس دنیا میں مجھے سوائے مارگریٹ  کے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘۔

’’نہیں ، یہ نہیں ۔ میں دوسری  عورتیں تیری خواہش پوری کرنے کے لیے تلاش کر سکتا ہوں ، اور وہ عورتیں اِس سے کہیں زیادہ حسین ، لائق اور عقل مند ہوں گی‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میفسٹو اس لڑکی کی دراندازی کی وجہ  سے بہت خائف تھا ۔ گویا اُس کے ارادوں اور تدبیروں میں یہ لڑکی حائل  ہو رہی تھی ۔

فاؤسٹ نے کہا:- ’’میں مارگریٹ  سے محبت کرتا ہوں اور صرف مارگریٹ  سے‘‘۔

’’جی ہاں ، مجھے خوب معلوم ہے‘‘۔ میفسٹو نے ناراضگی سے کہا ۔

’’تو پھر مجھے یہی لڑکی چاہیے ۔ جو حکم میں تجھے دیتا ہوں وہ پورا کر‘‘۔

’’تو نے حکم دیا ہے اور وہ پورا ہو گا ۔ لیکن فاؤسٹ پہلے اپنی  طرف دیکھ کیونکہ یہ تیرے لیے اچھی فال نہیں ہے ۔۔۔۔اور لڑکی  کے لیے بھی‘‘۔

یہ کہہ کر میفسٹو نے اپنے سیاہ چُغہ میں سے ایک برنزی بکس نکالا اور فاؤسٹ کی طرف بڑھایا :- ’’دیکھ‘‘ ۔ اتنا کہہ کر اس نے اُس نے کھٹکا دبایا اور ڈھکنا اچھل کر کھل گیا ۔ اُس  میں ایک سونے کی زنجیر تھی ، سیدھی سادی مگر بڑے نازک کام کی ۔ میفسٹو بولا :- ’’یہ سنہری زنجیر اُسے اور تجھے وابستہ کرے گی ۔  بس ایک دفعہ اس کے گلے میں یہ پڑ جائے تو پھر تم دونوں کے مقسوم اس میں  مقید ہو جائیں گے‘‘۔

میفسٹو نے بکس بند کر کے پھر اپنے چغے میں رکھ لیا ۔ باغیچے میں سے گزر کر گھر کی کھڑکی کے قریب پہنچا ۔ پہلے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہو گیا ۔ اندر آجانے کے بعد سیڑھیوں پر سے چپکے چپکے گزرتا ہوا مارگریٹ  کے کمرے تک پہنچا ۔ وہاں اس کے چھوٹے سے صاف ستھرے بچھونے(بستر) کو دیکھا اور اس کی برف جیسی چادر  کو دیکھ کر پیشانی پر حقارت کی شکنیں پڑ گئیں ۔ اس کے قریب سے گزر کر کھڑکی کے قریب جو سنگھار میز رکھی تھی ، اُس کی دراز کھولی ۔ اتنے میں سامنے مقدس مریم اور بچہ کا چھوٹا سا مجسمہ نظر آیا ۔ میفسٹو کے چہرے پر بَل  پڑ گئے اور اس نے اپنی نظریں ادھر سے پھیر لیں اور اس طرح کترا کر پیچھے ہٹا گویا انتہائی نفرت کی وجہ سے وہ ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔ پھر مجسمہ کی طرف سے پیٹھ کر لی مگر اب بھی بے چین تھا ۔ جھک کر اس نے مارگریٹ کی خاص دراز کھولی اور اُس میں اُس بچی کی عزیز چیزیں دیکھ کر ہنسا ۔ ایک ایک کر کے اس نے سب درازیں کھولیں اور بند کر دیں ۔ سب سے اوپر کی دراز میں اس نے بکس رکھ دیا اور اسے کھلا چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد میفسٹو وہاں سے روانہ ہوا اور چلتے چلتے مقدس مجسمہ کو ایک نظر دوبارہ دیکھا تو چہرے کے خدوخال سے شدید نفرت ٹپکنے لگی ۔

وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ مارگریٹ  اچھلتی کودتی  اپنے کمرے میں داخل ہوئی ۔ آج اس کے جذبات بالکل نرالے تھے ۔ وہ خوش تھی لیکن طبیعت میں خلجان  بھی تھا ۔ بھائی کے غیرمتوقع طور پر آ جانے سے اور خوشیاں منانے کی جو تجویزیں کی گئی تھیں ان کی وجہ سے وہ مسرور تھی ۔ لیکن شہزادے کا خیال آتے ہی طبیعت میں انتشار پیدا ہو جاتا تھا ۔ دل میں امنگ پیدا ہوتی مگر اس کے ساتھ ہی وہم ہو کر رہ جاتی تھی ۔ ابھی باچھیں کِھل رہی ہیں ، ابھی منہ سُت (بجھ) گیا ۔ ابھی روح میں شادابی و تازگی ہے ، ابھی خشکی اور مُردنی ۔

کھڑکی کے قریب وہ اپنی کرسی پر بیٹھنے چلی کہ اس کی نظر ایک دم سے کھلی ہوئی دراز پر پڑی ۔ وہ اُسے بند کرنے کو ہوئی کہ بکس کا کنارا نظر آیا ۔ فوراً ہی اسے باہر نکال کر تعجب سے دیکھنے لگی ۔ اِس کا اُسے یقین تھا کہ جب کمرے میں سے گئی تھی تو دراز بند تھی ۔ شاید بھائی نے متعجب کرنے کے لیے یہ تحفہ رکھ دیا ہو ۔ اُس کی کچھ عادت بھی ایسی ہے یا پھر خالہ مارتھا نے ایسٹر کا تحفہ اس طرح چپکے سے رکھ دیا ہو ۔

لیکن اِس خود استفساری کے دوران میں اُسے کچھ یقین سا  تھا کہ ہو نہ ہو اُس کے شہزادے ہی نے اُسے یہ تحفہ بھیجا ہے گو اُس کے امکان پر غور کرنے کی  اس میں جرات نہ تھی ۔

وہ اِسے کھڑکی کے قریب لے گئی اور اُس کے نقش و نگار کو بڑھتی ہوئی دلچسپی سے دیکھنے لگی ۔

ڈھکنے پر زندگی کا درخت بنایا گیا تھا اور اُس کی ذی حیات ٹہنیاں چاروں طرف پھیل ہوئی تھیں اور ان میں سے بن دیبیوں(جنگلی عورتوں) اور بن مانسوں کے سر اس طرح نکلے ہوئے تھے جیسے جھانک رہے ہوں ۔

مارگریٹ نے بکس کے وزن کا اندازہ ہاتھ سے لگایا اور اس کے ڈھکنے کو کھولنے کی کوشش کی ۔ بکس مضبوطی سے بند تھا ۔ پھر یکایک اس پر خوف طاری ہو گیا اور اُس نے گھبرا کے اسے دراز میں رکھ دیا ۔ اسے اپنے گرد بدی کا اثر محسوس ہوا اور یہ بدی ایسی تھی کہ جو پُراسرار بھی تھی  اور دلکش بھی ۔ مگر وہ کوشش کے باوجود اُس نامعلوم چیز کی پُراسرار دلکشی کو رد نہ کر سکی جو بکس میں بند تھی ۔ اُس نے کھڑکی میں سے باہر دیکھنا شروع  کیا تاکہ راہ گیروں کو دیکھ کر اس کا خیال بٹ جائے  لیکن یہ خیال ایک لمحے کے لیے بھی اُس کے دل سے محو نہ ہوا کہ یہ تحفہ اُسی حسین نوجوان نے بھیجا ہے ۔ یہاں تک کہ بازار کا منظر اُس کے لیے  بالکل بے معنی ہو گیا ۔ روشنی اور زندگی کے دھندلے منظر اس کے ذہن میں ناچنے لگے اور ان سب میں وہ اور شہزادہ  ہر جگہ یکجا نظر آتے تھے اور وہ مسرت انگیز خلجان جو پہلے خفیف تھا اب شدید ہوتا گیا ۔ اُس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور جسم لرز رہا تھا ۔ ایک معصوم شیریں مسکراہٹ لبوں پر تھی ۔

پھر وہ کپکپانے لگی اور جاگتے کے خواب سے چونکی اور پھر دراز کی طرف نظر ڈالی ۔ ٹھٹکی، رکی اور ڈرتے ڈرتے اُس نے پھر بکس کو اٹھا لیا۔ میز پر اُسے رکھا اور جلدی جلدی ہاتھ پھیر کر اُس کھٹکے کو تلاش کرنے لگی جس سے ڈھکنا کھلتا تھا ۔ ایک بن مانس کے سر پر جو انگلی کا دباؤ پڑا تو وہ اپنی جگہ سے ہٹا اور ڈھکنا اچھل کر کھل گیا ۔ سنہری زنجیر اور اس کے دل کی شکل کے آویزے کو دیکھ کر وہ جھجک گئی ۔ اس سے پیشتر اس نے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی جسے دیکھ کر  خوشی سے وہ بے آپے(بے قابو)  ہو گئی ہو ۔ وہ دیر تک اُسے گھورتی رہی ۔ سانس پھولا ہوا تھا ، سینے پر ہاتھ بھنچے ہوئے تھے ، وفورِ مسرت سے یہ کیفیت کہ جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو ۔ بڑی کوشش سے اُس نے اپنا سر پھیرا اور بکس کو بند کر دیا ۔ بے چین ہو کر وہ اپنے چرخے کی طرف آئی اور بے سوچے سمجھے اسے چند بار گھمایا ۔ پھر جیسے کسی نے مجبور کیا ہو ، وہ منہمک چہرے اور چمکتی آنکھوں سے دراز کے پاس گئی اور جلدی سے بکس نکال کر اُسے کھولنے لگی ۔

اُسی وقت سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز سنائی دی ۔ اُس کی ماں داخل ہوئی اور مارگریٹ  نے ڈرے ہوئے بچے کی طرح گھبرا کر جلدی سے بکس کو دراز میں ٹھونس دیا اور تیزی سے پلٹ کر پیچھے ہاتھ کیے کھڑی ہو گئی تاکہ آنے والے کو دیکھ سکے اور دراز کو دھکیل کر بند کر دیا۔

ماں کہنے لگی :- ’’مارگریٹ  ، میری بچی ۔ آج تجھے کیا ہو رہا ہے؟ صبح  کو تو خوش تھی اور گا رہی تھی ، لیکن اب تو خاموش ہے ۔ نہ بولتی ہے ، نہ کھاتی ہے اور آ کر کمرے میں  بند ہو بیٹھی ۔ چل ، ویلنٹن ابھی اپنے دوستوں کے پاس سے واپس آتا ہو گا ۔ مٹھاس اسے بچپن سے بھاتی ہے ۔ چل کر ذرا اُسے چکھ لے ، آ‘‘۔

’’اماں ، بھائی کے ایک دم سے آ جانے کی وجہ سے طبیعت میں ہیجان ہو گیا ، اور ۔۔۔۔ کچھ اور بھی ہے ۔ ذرا میں خالہ مارتھا کو جا کر دیکھ آؤں ۔ جنگل کی ہوا سے طبیعت کو سکون ہو جائے گا‘‘۔ اُس نے رُک رُک کر بات  پوری کی اور ماں نے پریشان ہو کر اس کی طرف دیکھا ۔ پھر مسکرا کر بولی :-’’ ہاں بیٹی ، خوشی سے جاؤ۔ مگر جانے سے پہلے ذرا مٹھاس  چکھتی جاؤ‘‘۔

ماں یہ کہہ کر چلی گئی اور جاتے ہوئے اُس نے پلٹ کر مسکراتے ہوئے دیکھا مگر اس کا دل پریشان تھا ۔

جب وہ چلی گئی تو مارگریٹ   نے جلدی سے دراز میں سے بکس نکالا اور رومال میں لپیٹ لیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنی ماں  سے کوئی بات چھپائی تھی ۔ دھوکہ دینے کا یہ پہلا واقعہ تھا ۔

سیڑھیوں  پر سے دوڑتی ہوئی وہ باغیچے  میں آئی  اور ڈرتے ڈرتے ایک نظر چاروں طرف ڈال کر سیب کے درخت کی ایک مڑی ہوئی ٹہنی پر بکس والا رومال رکھ دیا ۔ پھر وہ گھر میں واپس آ گئی اور اُسے چیٹک(پریشانی) لگی ہوئی تھی کہ بکس اس پُراسرار طریقے  پر کمرے میں آیا کیسے ؟ اور ہیرپھیر کر خیال اُسی نامعلوم شہزادے کی طرف جاتا تھا ۔

چوتھا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search