ستار نواز ولایت حسین خان: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود

 In تاثرات
نوٹ:    مذکورہ مضمون سب سے پہلے   مجلہ فنون ، لاہور (شمارہ مسلسل  124، 2005) میں شائع ہوا ۔ بعد ازاں   ’’ مقالات مسعود: برصغیر کی موسیقی پر تعارفی اور تحقیقی مقالات ‘‘ (جلد اول)  میں شامل ہوا ۔ ہم جناب ڈاکٹر محمد اطہر مسعود  صاحب کے ممنون ہیں کہ انہوں نے  اس مضمون کی آن لائن اشاعت کے لیے اجازت مرحمت فرمائی ۔

برصغیر کی موسیقی میں سازوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ گویّے کے ساتھ سنگت کے علاوہ ہر ساز کی اپنی انفرادی حیثیت بھی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ ساز  پھونک والا ہے یا تار والا ، اس کی بنیاد سُر پر ہے یا لَے  پر ، اگر اسے صحیح طریقے سے سُر کیا گیا ہو اوربجانے والا گُنی ہو تو موسیقی کا سحر دو آتشہ ہو جاتا ہے ۔ ساز اور سازندے کے ایسے باہمی روابط کی بہترین مثال ستار نواز ولایت حسین خان ہے ۔

فن موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہمارے اکثر فنکار مالی آسودگی کا رونا روتے پائے جاتے ہیں اور کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے ۔ ولایت حسین خان بھی اگرچہ منھ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے  تاہم انھوں نے اپنی زندگی میں دونوں انتہائیں دیکھیں ۔ ایک وقت ایسا  بھی تھا کہ وہ بھوک سے نڈھال ہونے کے باعث ایک کنسرٹ پر نہ جا سکے اور دوسری طرف یہ بھی کہ امپالا اور مرسڈیز سے کم گاڑی میں سفر نہیں کیا۔  1960ء کی دہائی میں موصوف انگلستان میں ہونے والے ایک کنسرٹ کا اعزازیہ پانچ ہزار برطانوی پاؤنڈ وصول کرتے تھے ۔

شاہانہ ٹھاٹھ  باٹھ سے زندگی گزارنے والے، سرکاری اعزازات کو ٹھکرانے اور فنِ ستار نوازی میں گائیکی انگ کے بانی اور خاتم استاد ولایت حسین خان کی وفات (ممبئی ، 13 مارچ 2004ء) پر سرکاری تو درکنار فنون ِ لطیفہ سے متعلق غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی مکمل خاموشی ہمارے معاشرے کی بے حسی اور موسیقی سے عدم دلچسپی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ بھارت میں چھپنے والے صفِ اوّل کے جریدے  ’’ فرنٹ لائن ‘‘ (شمارہ 7، جلد 21، 27 مارچ تا 19 اپریل 2004ء) میں پرتھودت کا تعزیتی مضمون بعنوان  Khan   of   Grace  اس حوالے سے خاصے کی چیز ہے ۔ فاضل مضمون نگار بجا طور پر شاکی ہیں کہ ولایت حسین خان کے انتقال کی خبر پاکستان اور بھارت کے درمیان کراچی میں ہونے والے ایک روزہ کرکٹ میچ میں بھارت کی فتح کی خبروں اور اس حوالے سے چھپنے والے مبارکباد کے پیغامات کی بھرمار کے باعث ایک دن بعد اخبارات میں جگہ پا سکی ۔

پاکستان میں خان صاحب کی وفات کے حوالے سے  جو چند اخباری شذرے سامنے آئےان میں  ممتاز صحافی عرفان حسین کا کالم بعنوان Not   by   bread   alone  (روزنامہ ڈان، لاہور، 8 مئی  2004ء) وطن عزیز میں بالعموم فنون ِ لطیفہ اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی کی صورتحال کا نوحہ ہے ۔ عرفان حسین کے بقول :

’’ کسی غیرملکی مہمان کے یہ پوچھنے پر کہ شام کو اگر وہ کسی (میوزک) کنسرٹ پر جانا چاہے تو کہاں جائے، میری خفّت ناقابل بیان ہوتی ہے ۔ (دنیا بھر میں ) کراچی سے کہیں چھوٹے شہروں میں موسیقی کے پروگرام باقاعدگی سے سارا سال جاری رہتے ہیں لیکن بارہ ملین آبادی کا یہ شہر ایک بھی کنسرٹ ہال یا مستقل تھیٹر چلائے رکھنے سے قاصر ہے ۔ حکومتی بے اعتنائی کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال طبقۂ امراء کی طرف سے فنون ِ لطیفہ کی عدم سرپرستی کی بھی عکاس ہے ۔ ذوقِ سلیم سے عاری شہر کے اکثر خوشحال لوگ دراصل نودولتیے ہیں جو محل نما کوٹھیوں اور چمچماتی کاروں کے ذریعے اپنی دولت کی نمائش کرنا پسند کرتے ہیں ۔ کلاسیکی موسیقی کی ترویج اور موسیقاروں کی سرپرستی ان کے لیے ایک بے معنی چیز ہے ‘‘ ۔

ولایت خان مرحوم کا شمار اُن خوش قسمت فنکاروں میں ہوتا ہے جو عین عالمِ شباب میں شہرت کے بامِ عروج تک پہنچے ۔ ان کی وفات بلاشبہ برصغیر کی موسیقی میں کبھی  پُر نہ ہونے والا خلا ہے ۔ ولایت خان صاحب کے نمایاں شاگردوں میں ان کے بیٹے شجاعت حسین خان کے علاوہ کلیانی رائے، کاشی ناتھ مکر جی اور اروند پاریکھ کے نام اہم ہیں ۔

نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنے فعال فنی کیریئر میں خان صاحب نے بیرونی ممالک کے متعدد دورے کیے اور ملکی و غیرملکی صحافیوں کو سینکڑوں انٹرویو دیے ۔ تاہم 1969ء  میں ان کے قیامِ لندن کے دوران لیا گیا ایک انٹرویو ایسا ہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں پر کھل کر بات کی ۔ یہ انٹرویو اختر ریاض الدین[1]نے لیا تھا جو روزنامہ  ’’ پاکستان ٹائمز ‘‘ لاہور میں مورخہ 10 اگست 1969ء کو شائع ہوا ۔ ذیل میں اسی انٹرویو کا ملخص ترجمہ پیش خدمت ہے :

’’ کل تک ولایت خان سے میرا تعلق صرف لانگ پلے ریکارڈز کی حد تک محدود تھا ۔ وہ بھی اُس وقت جب میں کلاسیکی موسیقی سننے کو بے تاب ہو رہی ہوں ۔ جبکہ آج ولایت حسین خان میرے سامنے ایک کھلی کتاب ہے ۔ مجھے یقین نہ تھا کہ صرف تیس منٹ کے لیے طے شدہ یہ ملاقات بغیر کسی وقفے کے سات گھنٹے تک جاری رہے گی اور میں پچھلی دو دہائیوں میں سامنے آنے والے برصغیر کے عظیم ترین ستار نواز کی یک طرفہ گفتگو کا لطف اٹھاتی رہوں گی ‘‘ ۔

ملکی اور غیرملکی قدردانوں سے بے مثال دادوتحسین پا چکنے کے کافی عرصہ بعد ولایت خان کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے ’’ پدم بھوشن ‘‘ عطا کیے جانے کا اعلان ہمارے مخصوص معاشرتی حالات کے پیش نظر کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ خوشی کا مقام تو یہ تھا کہ خاں صاحب نے یہ اعزاز وصول کرنے سے انکار کر دیا جس پر انھیں ژاں پال سارتر کا یہ برقیہ موصول ہوا : ’’ مبارک ہو! آج کے بعد میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں کیونکہ اب میں اکیلا نہیں ‘‘ ۔

’’ آپ نے اتنا بڑا اعزازقبول کرنے سے  کیوں انکار کر دیا؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ ظاہر ہے بھئی جب حکومت نے موسیقی سے وابستہ اتنے بڑے اساتذہ مثلاً استاد دبیر خاں  جو دھرپدیوں میں نایک کا مقام رکھتے ہیں ، بسیط خاں جنھوں نے پچاس سال تک طبلہ بجایا، سکھایا اور بالآخر نابینا ہو گئے ۔ اسی طرح صادق علی خاں بین کار کو ، جو کچھ عرصہ پہلے گمنامی کی موت مر گئے ، نظر انداز کیا تو میں سمجھتا ہوں مجھے زیب نہیں دیتا ایسی حکومت سے کوئی ایوارڈ حاصل کروں ۔ لیکن پلیزاسے میری جانبداری یا سیاسی وابستگی پر محمول نہ کیجیے گا ‘‘ ۔

اس مختصر سی جذباتی گفتگو کے نتیجے میں خاں صاحب کی پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہو چکے تھے جنھیں میں کسی بھی طرح محض لندن کے مرطوب موسم کا تحفہ قرار نہیں دے سکتی ! حیرت انگیز روانی سے انگریزی زبان میں گفتگو کے دوران کہیں کہیں کرخنداری لہجے میں خاں صاحب کی اُردو چاندی کے اگالدانوں اور گھڑی گھڑی عطر پاشی والی محفلوں کی یاد دلا رہی تھی ۔

ولایت خاں پیدائشی نہیں بلکہ مزاجاً ارسٹوکریٹ ہیں ۔محض ولایت خاں کا نام لیجیے اور ذہن میں بیش قیمت کشمیری دوشالہ اوڑھے ، ہیرے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے ایک شخص کی تصویر ابھرتی ہے ۔ چوالیس سالہ خاں صاحب کے پچیس سال شہرت کے بامِ عروج پر گزرے ہیں ۔ اُن کے اپنے بقول لوگ ولایت خاں کو ایک ساٹھ سالہ باریش بزرگ سمجھتے ہیں ۔

اس انٹرویو کے دوران مجھے یوں لگا جیسےخاں صاحب پوری پاکستانی قوم سے مخاطب ہیں: ’’ بھئی وہاں جا کر سب کو بتا دینا کہ مجھے ایک ایسے ملک کا ویز ا دینے سے انکار کیا گیا جو ہمیشہ میرے دل کے قریب ہے ۔ کابل میں ایک احمق سفارت کار نے، جو درۂ خیبر سے متعلق کچھ معلومات کے لیے مجھے استعمال کرنا چاہتا تھا ، مجھے چوری چھپے واہگہ بارڈر پار کروانے کی پیشکش کی تھی ! بالائے ستم یہ کہ موصوف نے، جس کا اپنا نام بھی ولایت حسین خان ہی تھا ، میری جاسوسی کے لیے ایک مسلح گارڈ کو میری مرسڈیز میں بٹھا دیا ۔ یہ مسلح گارڈ بھی ولایت خان نامی تھا ۔ مجھے کیا معلوم تھا دنیا اتنے ولایت خانوں سے بھری پڑی ہے ! ‘‘ خاں صاحب نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا ۔

ڈرامائی انداز میں بار بار پہلو بدلنے کے باوجود خاں صاحب مجموعی طور پر زندگی سے مطمئن اور خوش باش نظر آتے ہیں ۔ اُن کی گفتگو بھی اُن کے محبوب ساز پر اُن کی پرفارمنس کی مانند ہے ۔ کبھی دھیمی لَے میں الاپ ، کبھی مدھ لَے میں جوڑ اور کبھی درت لَے کی سرمستی میں جھالے کی خوبصورتی ۔

میرا پہلا سوال خاں صاحب کے پورے نام کے حوالے سے تھا ۔ کہنے لگے : ’’ ہاں ! ریکارڈنگ کمپنیوں نے ریکارڈوں پر میرا نام محض ولایت خاں لکھ دیا ۔ اصولاً اِسے یوں ہونا چاہیے  تھا : ’ خان صاحب ولایت حسین خاں ‘ ‘‘ ۔ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں انہوں نے بتایا : ’’ بھئی ہم تو خانہ بدوش لوگ ہیں ۔ گوری پور (سابقہ مشرقی پاکستان) میں پیدا ہوئے، دہلی میں پلے بڑھے اور کلکتہ میں شادی ہوئی ۔ میرے دادا کا تعلق مالوہ سے تھا جب کہ دادی پنجاب سے تھیں  ۔ اب اس کھچڑی سے آپ کیا سمجھے؟ لیکن یہ ضرور لکھیے گا کہ میں بھٹیالی (ایک بنگالی لوک دھن) بھی اسی مہارت سے بجا سکتا ہوں جس طرح سے پہاڑی یا کجری ۔

اگرچہ میں دس سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا  لیکن اس وقت تک میرے والد استاد عنایت حسین خاں نے جو خود بھی ستار نوازی میں لیجنڈ کا درجہ رکھتے تھے ، مجھے ستار کے ابتدائی اسباق کی مشق شروع کروا دی تھی ۔ انگلیوں کا توازن ، نشست و برخاست اور مختلف زاویوں سے ستار پکڑنا اور بجانا ۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھنٹوں یا دنوں کے حساب سے نہیں بلکہ ہمہ وقت ریاض ؛ یہ سب چیزیں میرے والد نے ابتدائی دور میں ہی مجھے سکھا دی تھیں ۔ ریاض میں تسلسل کا یہ عالم تھا کہ اکثر مجھے ہوش نہ رہتا کہ میں نے شام کے وقت ستار بجانا شروع کیا تھا یا دن میں ۔ ستار ملانا ہی دراصل وہ سبق تھا جو میں نے پانچ سال کی عمر تک اپنے والد کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا ۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ میں نے پانچ سال کی عمر میں ستار سیکھنا شروع کیا ‘‘ ۔

’’ میری پہلی پرفارمنس کلکتہ میں ہوئی جب میری عمر صرف سات سال تھی ۔ اور آپ جانتے ہیں طبلے پر میرے ساتھ کون تھا؟ احمد جان تھرکوا ! مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے والد پہلی رَو میں بیٹھے گھبراہٹ میں اپنی ٹھوڑی کھجلا رہے تھے ۔ اتنا عظیم فنکار جو اپنی پرفارمنس کے موقع پر کبھی نروس نہ ہوا تھا ، نوآموز بیٹے کی پہلی پرفارمنس پر گھبراہٹ کا شکار تھا ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میرے والد نے ہی مجھے سٹیج پرفارمنس کے آداب سے آگاہ کیا ۔ آپ جانتے ہیں کہ پبلک کے سامنے سٹیج پر تھوڑی سی اداکاری  بھی کرنا پڑتی ہے ۔ میرے خیال میں ہر سازندے کے لیے بھاؤ اور مدرا( رقص کی اصطلاحات) جاننا بہت ضروری ہے ۔ میں تو حاضرین سے بھی اپنے لیے اِسی احترام کی توقع کرتا ہوں جو اُن کے لیے میرے دل میں ہوتا ہے ۔ ابھی تک تو قسمت کی دیوی مجھ پر مہربان رہی ہے لیکن یاد رکھیے اگر سامعین میں مجھے ہلکا سا گنوار پن بھی محسوس ہو تو میں سٹیج سے اٹھ جانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتا ۔ ابھی کچھ روز پہلے وی آنا کے ایک اوپیرا سنگر نے مجھے بتایا کہ اُسے حاضرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے گھٹنوں کے بل جھک کر التجا کرنا پڑی ۔ یہ ہے آرٹ کو حد سے زیادہ کمرشلائز کرنے کا نتیجہ! ‘‘

حد درجہ انا پرست لیکن ایک مہذب اور دلآویز شخصیت کے مالک ولایت خاں فن کی دنیا میں اپنے مقام و مرتبے سے آگاہ ہونے کے باوجود کسی نفسیاتی کمپلیکس کا شکار نہیں ۔ اُن کی شخصیت عام انسانوں کی طرح تکبر، وضعداری اور حقیقت پسندی کا امتزاج ہے ۔ تاہم کبھی کبھار متلوّن مزاجی کا مظاہرہ شاید فنِ موسیقی سے اُن کی وابستگی کی دین ہے جس کا بے کراں پھیلاؤ فنکار کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے  ۔

’’ حضور! چھ پشت پہلے میرا تعلق اکبر ِ اعظم کے سنہری دور سے جا ملتا ہے ۔ میرے پردادا  صاحب داد خاں ، جو سُر بہار کے موجد بھی تھے  کی عزت افزائی کے لیے انھیں ایک ایسے تخت پر بٹھایا گیا جس پر سوا لاکھ روپے بچھے  ہوئے تھے ۔ یہ حیدرآباد کا واقعہ ہے ۔ لیکن اُن کے پوتے یعنی میرے والد نے جب وفات پائی تو میں کوڑی کوڑی کا محتاج تھا ۔ کئی دن فاقہ کشی میں گزرتے ۔ بلکہ ایک بار تو بھوک کے مارے حالت غیر ہو جانے کے باعث میں پرفارم بھی نہ کر سکا ۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ محض خوشحالی جوہرِ قابل کو جنم نہیں دے سکتی ۔ بچپن میں معاشی عدم تحفظ نے مجھے آئندہ زندگی میں آگے بڑھنے اور دولت کمانے کا آہنی ارادہ بخشا ۔

’’ اپنے  کیریئر کے دوران  منتظمین سے اکثر میرا جھگڑا بھی ہوا لیکن میں کیا کروں؟ مجھے اپنے بچوں کو بھوکا تو نہیں مارنا ۔ اگرچہ اب مجھے دولت کی کوئی پروا نہیں کیونکہ میں نے اپنے بڑھاپے کے لیے کافی جمع کر لیا ہے لیکن یقین کیجیے کہ میں مناسب وقت پر فن ِ موسیقی سے ریٹائر ہو جاؤں گا ، ان شاء اللہ ! میں ’’ بھریا میلہ ‘‘ چھوڑنا چاہتا ہوں ۔ میں جانتا ہوں مجھے کب سٹیج کو الوداع کہنا ہے ‘‘ ۔

اِس موقع پر خاں صاحب نے لحظہ بھر توقف کرتے ہوئے کلائی گھڑی پر نظر ڈالی ۔ آٹھ بج چکنے کے بعد بھی سورج کی روشنی برقرار تھی ۔ ’’ ایک تو یہ مسئلہ ہے، اس ملک میں انسان کتنے بجے شام کا آغاز کرے ۔ چلیے آئیے   ! ‘‘ مبہوت کر دینے والے حسن کی مالک کیٹرینا نامی ایک پرتگالی خاتون کافی دیر سے کمرے کے  ایک گوشے میں خاموش بیٹھی تھی ۔ یہ بھی اپنے گرو سے عقیدت کا ایک اظہار تھا ! نگران فرشتے کے فرائض انجام دینے والے نسیم صہبائی ، جو خود تو الکحل سے مکمل پرہیز کرتے ہیں ، اُس شام جام بنا بنا کر پیش  کرتے رہے ؛ خاں صاحب اور کیٹرینا کے لئے سکاچ وہسکی اور میرے لیے دودھ!

میر ا اگلا سوال خاں صاحب کی شخصیت کی تعمیر میں نمایاں ترین اثر رکھنے والی ہستی کے بارے میں تھا ۔  مجھے یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی : ’’ میری ماں! نہ معلوم (نجانے) اُن کی رہنمائی اور دعاؤں کے بغیر آج میں کہاں ہوتا یا یوں کہیے  کیا ہوتا؟ میری ماں نے شروع ہی سے میرے فنی کیریئر پر عقابی نظر رکھی اور کسی ایسے عنصر کو میری زندگی کا حصہ نہ بننے دیا جو میرے فن کے لیے نقصان دہ ہو ۔ اماں بی کی مجھ پر ہمہ وقت نگرانی نے میری شخصیت پر گہرا اثرا چھوڑا ۔ اُن کے صبر اور تحمل مزاجی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بعض اوقات وہ اپنے ہٹ دھرم اور جھگڑالو بیٹے کو نصیحت کرنے کے لیے مہینوں مناسب وقت کا انتظار کرتیں ۔ گائیکی کی طرف میرے بڑھتے ہوئے میلان کو واپس ستار کی سمت لانے کا کریڈٹ بھی انھی کو جاتا ہے ورنہ میں تو کلاسیکی گائیکی کو بطور کیریئر اپنانے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا ۔ بلکہ ایک بار تو بحث کے دوران میں یہ کہنے کی گستاخی بھی کر بیٹھا کہ آپ میرے گانے سے اتنا حسد کیوں کرتی ہیں؟ وہ بولیں : ’’ ہاں میں تمہارے گانے سے جلتی ہوں ۔ اور میں اِس میں حق بجانب ہوں کیوں کہ میں تمہیں اپنے والد کے بجائے تمہارے والد کا جانشین دیکھنا چاہتی ہوں ‘‘ ۔ دراصل اماں بی کا تعلق کلاسیکی گویوں کے ایک نامور گھرانے سے تھا ‘‘ [2]۔

’’ آپ کی اپنی نظر میں فنِ موسیقی کے حوالے سے آپ کی انفرادیت کیا ہے؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ گائیکی انگ۔۔۔ اور کیا! میں وہ پہلا ستار نواز ہوں جس نے ستار بجانے سے پہلے گا کر سُروں کے اتار چڑھاؤ کو واضح کرنے کی طرح ڈالی ‘‘ ۔ خاں صاحب نے وضاحت کی  اور مجھے گذشتہ ماہ شائقین سے کھچا کھچ بھرے رائل البرٹ ہال میں خاں صاحب کا بجایا ہوا پیلو یاد آ گیا جس کی ایسی متنوع ادائیگی پر حاضرین نے بے ساختہ کھڑے ہو کر داد دی تھی ۔

اماں بی کے ذکر پر واپس آتے ہوئے خاں صاحب نے اعتراف کیا کہ انھی کی بدولت وہ زندگی کے حقیقی رُخ سے آشنا ہوئے۔ ’’ پے درپے کامیابیوں نے مجھے بڑی حد تک مغرور بنا دیا تھا ۔ ایک ماہ میں اوسطاً چودہ پروگرام ، یہ تھا میرے عروج کا آغاز! لوگ میرے پاؤں چھوتے ، میری گاڑی پر پھول نچھاور کرتے ۔ اپنے سامعین کے لیے میری حیثیت فی الواقعہ ایک ساحر کی تھی جو کسی بھی لمحے اُن کا موڈ بدلنے پر قادر تھا ۔

’’ ایک رات اماں بی اچانک میرے کمرے میں آئیں اور حسب ِمعمول نرم لہجے میں یوں گویا ہوئیں: ’’ تم نے انسانوں کے دل تو جیت لیے ، اب اُس کی نظروں میں بھی اچھا بن کر دکھاؤ جو سب انسانوں کا مالک ہے ‘‘ ۔ خاں صاحب کی آواز بھّرا گئی ۔ ’’ اِن الفاظ  نے گویا میری ستار کا گلا گھونٹ دیا ۔ اگلے نو ماہ تک مجھے یوں محسوس ہوا کہ کتنے ہی بچھو مجھے مسلسل ڈنک مار رہے ہیں ۔ میں اپنے حواس کھو بیٹھا  کسی پل چین نہ پاتا بظاہر عشق حقیقی کا دعویدار بن کر ہر لمحہ بچھوؤں سے ڈسواتے رہنا میرے بس میں نہ تھا۔۔۔۔ ‘‘

اس موقع پر خاں صاحب کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ۔ میں نے اُن آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر اپنی نوٹ بُک  بند کر دی اور انھیں غور سے تکنے لگی ۔ اگر یہ شخص موسیقار نہ ہوتا تو تھیٹر میں بڑا نام کماتا ۔ ولایت خاں صاحب کی شخصیت میں ڈرامہ کا عنصر پیدائشی ہے ۔ وہ بولے، ’’ ترکِ دنیا میرے لیے ناممکن تھا ۔ اطمینان ِ قلب کے لیے طویل ریاضت کے نتیجے میں مجھے دو ہی چیزیں ملیں: ایک عجز و انکسار اور دوسرے بے آزاری ۔ میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ میں  ایک بار پھر خود کو پالنے میں لیٹا انگوٹھا چوستا ہوا بچہ تصور کرتا ہو جو اپنے مالکِ حقیقی سے توجہ کا طالب ہے ‘‘ ۔

اور سچی بات یہ ہے کہ خاں صاحب واقعی کئی لحاظ سے بڑے معصوم بھی ہیں ۔ فیسٹول ہال والے کنسرٹ کے اختتام پر میں نے یونہی پوچھ لیا : ’’ آئیوری  (Ivory) کی نئی فلم میں ’ گرو ‘ کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘ ‘ ’’ ہاں بھئی ۔۔۔ وہ تو یوں ہے جیسے میری زندگی ہی کی کہانی ہو ‘‘ ۔ وہ بولے ۔ ایک ایسی فلم کے بارے میں جو واقعی اُن کی زندگی کے واقعات سے گہری مماثلت رکھتی  ہے ، ان خیالات کو اُن کی سادہ دلی یا بھولپن کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے بھارت میں اُن کے معاصرین نے بھی اس فلم سے خوب لطف اٹھایا ہو گا ۔

’’ اچھا یہ بتائیے بھارتی صحافیوں میں کوئی موسیقی کا جینوئن نقاد بھی ہے یا نہیں؟ ‘‘ وہ بولے : ’’ ایک بھی نہیں ۔ وہ سب جاہل اور سازشی ہیں ۔ فنکار کی خامیاں اجاگر کرنے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ۔ میں تو اپنے متعلق اخباری تراشے پرفارمنس کے وقت اپنے پاس رکھتا ہوں اور عین اُس وقت جب حاضرین مجھے بے پناہ داد سے نواز رہے ہوں ، اُنھیں نمونۃ ً  چند ایک تراشے پڑھ کر سُنا بھی دیتا ہوں ! ‘‘

اپنے نقادوں کا ذکر کرتے ہوئے خاں صاحب اتنے جذباتی ہو گئے کہ اُن کا خوبصورت کڑھائی والا کُرتا پان کی پیک کی چھینٹوں سے اٹ گیا ۔ معاً وہ باتھ روم میں جا کر اسے دھو آئے اور بولے : ’’ میری بیوی ایسی بے احتیاطی پر مجھے کبھی معاف نہ کرتی ‘‘ ۔ نو بجنے والے تھے اور ابھی میرے نصف سے زیادہ سوال باقی تھے تاہم میں نے اجازت چاہی ۔ ’’ آپ آج ہمارے ساتھ کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتیں ‘‘ ۔ خاں صاحب کا حکم  سر آنکھوں پر!

اسی موقع پر خاں صاحب نے عوام کے ذوق کی تربیت کے لیے بھارت میں ایک آرٹ سرکل کے قیام کے حوالے سے اپنی کوششوں پر تفصیل سے بات کی ۔ ’’ اگرچہ دہلی میں شعراء ، گویّوں ، سازندوں ، مصوروں ، مجسمہ سازوں اور نقادوں وغیرہ پر مشتمل ایک آرٹ سرکل پہلے سے موجود ہے تاہم میرا مقصد جینوئن لوگوں ، جن میں فنون لطیفہ کے نقاد اور شائقین دونوں شامل ہوں ، پر مشتمل ایک آرٹ سرکل کا قیام ہے ۔ میں فنونِ لطیفہ کے باہمی ملاپ سے ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا چاہتا ہوں جس میں آپ کسی راگ کو دیکھ سکیں اور تصویر کو سُن سکیں ۔ حواسِ خمسہ محض اپنے روایتی استعمال تک محدود نہ ہوں ۔ کلچر کا صحیح مصرف تو یہی ہے کہ حواسِ خمسہ فنون ِ لطیفہ کے باہمی امتزاج سے جنم لینے والی کیفیت کو بجا طور پر محسوس کر سکیں ۔ اُردو کے ایک معروف شاعر نے اپنے کلام میں ’’ شہنائی کی جھنکار ‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ اب آپ ہی بتائیے اگر فنونِ لطیفہ کے حوالے سے موصوف کی تربیت درست انداز میں ہوئی ہوتی تو انھیں ’’ گونج ‘‘ اور ’’ جھنکار ‘‘ کا فرق معلوم ہوتا ۔ اسی لیے میری خواہش ہے کہ معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے میں فنونِ لطیفہ کی تفہیم کا ذوق پروان چڑھے ‘‘ ۔

’’ پاکستانی فنکاروں کے لیے کوئی پیغام؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ وہ بولے: ’’ ہاں !انھیں یہ بتا دیجیے کہ میں اُن کا بڑا فین ہوں لیکن انھیں چاہیے کہ اپنی حکومت یا دوسرے ملک کی میزبان تنظیم کی باقاعدہ سپانسرشپ کے بغیر غیرممالک میں پرفارم نہ کریں ۔ یورپ اور امریکہ میں متعدد ایسے (پاکستانی ) فنکاروں سے میری ملاقات ہوئی جو ایسی بے احتیاطیوں کے باعث وہاں خوار ہو رہے تھے ۔۔۔ اور ہاں نزاکت سلامت کو میرا خصوصی سلام پہنچائیے گا ۔ بھارت میں اُن کی بے پناہ پذیرائی کی جاتی ہے لیکن نہ معلوم لندن آ کر وہ JAZZ  والوں کے ساتھ مل کر کیوں پرفارم کر دیتے ہیں؟ ہمارے روی شنکر نے بھی ستار کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا اور نتیجتاً ستار کی وقعت پہلے سے کہیں کم ہو گئی ہے ‘‘ ۔

دس بج چکے تھے ۔ خاں صاحب نے کھانا لگوانے کے لیے کہا اور اس دوران خود بھی کچن کے کئی چکر لگائے ۔ کھانے پینے کے بے انتہا شوقین ولایت خاں صاحب دنیا بھر کے کھانوں پر بھی گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں ۔ میں نے خصوصیت سے یہ بات نوٹ کی کہ اعلیٰ برانڈ کے فرانسیسی سگریٹ پھونکتے ہوئے جب ولایت حاں اپنے ماضی کی یادیں تازہ کر رہے تھے تو پس منظر میں ایک عجیب سماں تھا ۔ اُن کے لاتعداد پرستاروں کی ، جن میں وکیل ، طالبعلم ، بی بی سی والے ، ڈپلومیٹ اور نجانے کون کون سے لوگ شامل تھے ، آمد جاری تھی ۔ لوگ آ کر بڑے مؤدبانہ انداز میں خاں صاحب سے ہاتھ ملاتے اور رسمی احوال پُرسی کر کے کچھ دیر بعد رخصت ہو جاتے ۔ کوئی بنارسی پان کا تحفہ نذر کرتا ، کوئی لکھنؤ کا سپیشل قوام پیش کرتا اور کوئی ہیتھرو ایئرپورٹ سے عمدہ شراب لے کر سیدھا یہیں چلا آ رہا تھا ۔

خاں صاحب سے میری اِس طویل نشست کے دوران ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ اگرچہ اس عرصے میں نسیم صہبائی نے اُنھیں مسلسل موصول ہونے والی فون کالز سے بچائے رکھا لیکن ایک بار  وہ بھی ہار مان گئے ۔ نسیم نے ریسیور اٹھایا ہی تھا کہ ایک نسوانی آواز چلائی : پرنسس زبیدہ آف رام پور کل شام سے لاپتہ ہیں ۔ انھیں خاں صاحب سے بات کرتے ہوئے دیکھا ۔۔۔ بیچارے خاں صاحب نے دوڑتے ہوئے جا کر نسیم صہبائی سے ریسیور چھینا اور کان سے لگایا ہی تھا کہ دوسری طرف سے ایک قہقہہ گونجا : ’’ آپ سے بات کرنے کا بس یہی ایک طریقہ تھا! ‘‘ میرے خیال میں کسی بھی بڑے فنکار کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہی رہتے ہیں ۔

ولایت خاں کی شخصیت ایک خوبصورت گلدستے کی مانند ہے ۔ ستار نوازی کا امام ، ہندی اور اردو کا شاعر، بیک وقت پانچ زبانوں پر دسترس رکھنے والا ، لاجواب گویّا اور سب سے بڑھ کر ایک باذوق اور نفیس آدمی ۔ ان کے استاد آرزو لکھنوی شاکی ہیں کہ ایک اُبھرتا ہوا شاعر موسیقی کی نذر ہو گیا ۔ تیزی سے مٹتے ہوئے مسلم کلچر کی ایک قابل ِ ذکر نشانی ولایت خاں صاحب مغرب میں بھی اُسی اطمینان سے قیام پذیر ہیں جیسا کہ وہ اپنے ملک میں تھے ۔ کتنے اعزاز کی بات ہے کہ وہ دنیا کے پہلے سولو پرفارمر ہیں جنھیں پچھلے ہفتے ویسٹ منسٹر ایبے  میں پرفارم کرنے کی دعوت دی گئی ۔

اگر مجھے ظاہری علامات کے حوالہ سے خاں صاحب کا غائبانہ تعارف کروانے کے لیے کہا جائے  تو میرا بیان یوں ہو گا : بنگالی معیار کے مطابق درمیانہ اور پنجابی معیار کے مطابق چھوٹا قد ، گول چہرہ ، ایل پی ریکارڈوں پر چھپنے والی تصویر سے کہیں کم سیاہ رنگت اور ہر دم متحرک موٹی موٹی آنکھیں ۔ آپ کی متناسب موٹائی کی ترشی ہوئی انگلیاں گفتگو کے دوران بھی اُتنی ہی معنی خیزی سے حرکت کرتی ہیں جتنا کہ پرفارمنس کے دوران ۔ آدھی زندگی تقسیم ِ ہند سے پہلے اور آدھی بعد ازاں گزار چکنے والے ولایت خاں صاحب اپنی زندگی کے دونوں ادوار کا موازنہ یوں کرتے ہیں: ’’ اپنے ہی ملک میں اجنبیت کا احساس! یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے آپ یقیناً ناآشنا ہوں گی ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے  جیسے میرا کچھ بھی نہیں ۔ شملہ میں ماہِ رمضان کے دوران مسجد میں تراویح پڑھنے والا میں اکیلا آدمی ہوتا ہوں ‘‘ ۔

’’ آپ نے رہنے کے لیے شملہ ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ وہ بولے: ’’ شور اور ہنگامے سے بچنے کے لیے بھئی ۔۔۔ اور کیا؟ معاشرتی زندگی کے تقاضے بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے اور بطور ایک پروفیشنل موسیقار میں اپنے ریاض کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا ۔ اور یوں بھی پہاڑ ہمیشہ سے میری کمزوری رہا ہے ۔ پہاڑی ماحول میرے اعصاب کو آسودہ کرتا ہے ‘‘ ۔ یہ ’’ پری محل ‘‘ میں نے مہاراجہ جبل[3] سے خریدا ہے اور یہاں میں اپنی فیملی اور فن دونوں کو مناسب وقت دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میرے تین بچوں میں سے سب سے بڑا شجاعت بھی ستار میں دلچسپی رکھتا ہے اور ماشاء اللہ دس برس کی عمر میں کافی ہونہار ہے ‘‘ ۔ خاں صاحب اپنی بنگالی بیوی موہنی کو بھی کسی لمحے نہیں بھولتے جس کا ذکر اُن کی گفتگو میں اکثر وبیشتر در آتا ہے ۔

یادِ ماضی میں کھوئے ہوئے ولایت خاں صاحب کو میں نے ایک بار پھر اپنے سوالات میں الجھانے کی کوشش کی ۔ ’’ مغربی ممالک کی طرف اپنے فنکاروں کے حد سے زیادہ  جھکاؤ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ‘‘   خاں صاحب اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے : ’’ بدقسمتی سے کسی فنکار کے بیرون ممالک جا کر پرفارم کرنے کو برتری کا معیار سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر فنکار کسی مغربی ملک میں جا کر کسی یونیورسٹی سے منسلک ہو جانے کا خواہشمند ہے ۔ گویّوں میں سے صرف امیر خان کو کینیڈا میں نسبتاً لمبے عرصے کا ایک کنٹریکٹ ملا تھا جو شاید حال ہی میں ختم ہوا ہے ۔ روی شنکر اور علی اکبر خاں بھی کافی مدت ہوئی شوبز کے مرکزی دھارے سے باہر ہیں ۔ اپنے ہم وطنوں کو یوں نظر انداز کرنا میرے خیال میں اُن کی توہین کے مترادف ہے ۔ برا نہ مانیے گا اگر میں کہوں کہ ایک دن یہ ہم وطن ایسے فنکاروں کو بھول کر اُن کی بے التفاتی کا انتقام لیں گے ۔ رام گوپال کو ہی لیجیے ۔ انڈیا میں اب اُسے کون جانتا ہے ۔ میرے خیال میں ایسے فنکار خود غرض اور لالچی بلکہ یوں کہیے کہ لفٹ مانگ مانگ کر سفر کرنے والے بے مایہ مسافر ہیں! ہم اپنی موسیقی کیوں ایکسپورٹ کریں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم پہلے اپنے لاکھوں ہم وطنوں کو اس کے ذائقے سے آشناکریں ؟ مثال کے طور پر مجھے دیکھیے ۔ بیرون ملک مجھے فی کنسرٹ پانچ ہزار پاؤنڈ ملتے ہیں جب کہ اپنے ملک میں مَیں اس سے کہیں زیادہ کماتا ہوں ۔ اور یہ ہپّی ۔۔ بھئی یہ تو روی شنکر اور یوگی مہارشی کو ہی مبارک ہوں ! وہ جتنے چاہیں بھنگ کے لڈو کھائیں اور جتنی چاہیں پاپ ٹھمریاں سنیں ۔ میرے بس میں ہو تو ہپیوں کی ہندوستان آمد پر پابندی لگا دوں ۔ آپ خود ملاحظہ کر لیجیے ، یہ وبا بنارس سے کھٹمنڈو تک پھیل چکی ہے! ‘ ‘

’’ کہا جاتا ہے کہ راجوں مہاراجوں کی زیرِ سرپرستی موسیقی کی نشوونما بہتر تھی ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘‘ میرے اِس سوال پر خاں صاحب نے بڑی قطعیت سے کہا: ’’ نہیں ، بالکل نہیں ۔ کم از کم میں تو کسی بھی صورت میں راجوں مہاراجوں کی غلامی نہیں کر سکتا کہ جب وہ حکم دیں میں اُن کے لیے ستار بجاؤں ۔ اگرچہ سبھی فنون لطیفہ بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے متاثر ہوئے ہیں لیکن میری رائے میں اچھی موسیقی کسی بھی دور میں نہیں مر سکتی ۔ موسیقی کے پاس ایک ایسی لافانی قوت ہے جو اِسے کبھی مرنے نہ دے گی ۔ میں سمجھتا ہوں میرا فن محض چند راجواڑوں تک محدود رہنے کی بجائے ہندوستان کے ہر گوشے میں پہنچ رہا ہے ‘‘۔

’’ ماس میڈیا اور پا پ میوزک کی یلغار کو آپ کلاسیکی موسیقی کے لیے کس حد تک خطرہ سمجھتے ہیں ؟ ‘‘ اِس بارے میں بھی خاں صاحب کے خیالات بڑے واضح تھے : ’’ میں تو ذرائع ابلاغ کی اِس تیز رفتار ترقی پر بڑا خوش ہوں ۔ اِن کی بدولت ذہن متحرک رہتا ہے ۔ ہر روز بیسیوں نئے خیالات سوچ کا حصہ بنتے ہیں ۔ سچ پوچھیے تو یہی نت نئے خیالات کلاسکس کو خوبصورتی اور بقائے دوام بخشتے ہیں ‘‘ ۔

میرے خیال میں ہماری موسیقی محض تفریح طبع کے لیے اختراع کی جانے والی نئی اصناف کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ علی اکبر خاں کا ’’چندرنندن‘‘ اور آرکسٹرا کے حوالے سے روی شنکر کی جدتیں اِس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ خاں صاحب سے میرا اگلا سوال اِسی حوالے سے تھا : ’ ‘’ پچھلے کنسرٹ میں آپ نے ایک راگ ’ چاندنی کلیان ‘ پیش کیا تھا ۔کیا یہ راگ آپ کی اپنی اختراع ہے ؟ ‘‘ خاں صاحب نے وضاحت کی : ’’ جی ہاں ! میں نے ایمن کے نکھاد کو بنیاد بنا کرنَٹ اور چاندنی کیدارا کو ملا دیا ۔ ویسے میں ذاتی طور پر راگوں کے ایسے ادغام کے حق میں نہیں ۔ بالخصوص اگر کوئی نوآموز یا دوسرے درجے کا فنکار اِس نوع کے تجربات کرے تو صورت حال بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے ۔ نیز موسیقی کی تھیوری پر بحث کرنے والے مکاتب فکر کو بال کی کھال اُتارنے کے لیے کافی مواد مل جاتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ پہلے چار لاکھ چوراسی ہزار راگ راگنیوں کی تعلیم مکمل کریں اور پھر نئے راگ اختراع کرنے کی توجہ کریں ‘‘ [4]۔

’’ اگر آپ کو منتظمین کی طرف سے صرف تین راگ بجانے کی فرمائش کی جائے تو آپ کا انتخاب کون سے راگ ہوں گے؟ ‘‘ وہ بولے : ’’ ایسا کرنا میرے لیے خاصا مشکل ہو گا کیونکہ ہر ٹھاٹھ میں سے مجھے کم از کم دو راگ بہت پسند ہیں ۔ لیکن میں یہ عرض کر دوں  کہ اُن راگوں میں سے ایک بھیرویں ضرور ہو گی ! ‘‘ انھوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا : ’’ آپ نے میرا حال میں ریلیز ہونے والا درباری کانہڑے والا ایل پی سنا ہے ؟ میرے خیال میں تاحال یہ میری بہترین ریکارڈنگ ہے ۔ حالانکہ سٹوڈیو کا مصنوعی ماحول میری طبیعت سے لگا نہیں کھاتا ‘‘ ۔

خاں صاحب کا  موڈ خوشگوار دیکھتے ہوئے میں نے یہ پوچھنے کی جسارت کر ہی لی کہ وہ خود کو موسیقی کے میدان میں کہاں تصور کرتے ہیں؟ کیا ابھی کسی برتر مقام پر پہنچنا باقی ہے  ؟ اِس پر انھوں نے فرمایا :’’ کچھ عرصہ پہلے تک میں نے خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیا تھا (نعوذ باللہ ) ۔ روزانہ چودہ گھنٹے ریاض کرنے کے بعد میں خود کو حاضرین کا موڈ بدلنے پر قادر سمجھتا تھا ۔ ستار میری بندوق تھی جس سے میں کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا تھا ۔ لیکن اب میں  جانے کیوں نروس ہو جاتا ہوں ۔ یہ خوف دامنگیر رہتا ہے کہ کہیں کوئی غلط سُر نہ لگ جائے ۔ یقین کیجیے میں یہ سب کچھ اپنی عاجزی کے اظہار کے لیے نہیں کہہ رہا ۔ جب میں پرانے اساتذہ کی ریکارڈنگ سنتا ہوں تو مجھے  اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے ۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں میرا میدان بہت وسیع ہے ۔ مجھے مزید آگے بڑھنا ہے ‘‘ ۔

’’ موسیقی کی آفاقیت  کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘ خاں صاحب نے کہا: ’’ بالکل ! میں تو سو فیصد اِس کے حق میں ہوں ۔ میں کسی زمانے میں چینی موسیقی کا مذاق اڑایا کرتا تھا ۔ لیکن جب  میں نے پیکنگ  میں کچھ چائنیز سمفنیاں سُنیں تو یقین کیجیے میں حیرا ن رہ گیا ۔ ہماری اپنی موسیقی بظاہر غیر ملکیوں کے لیے ناقابل فہم معلوم ہوتی ہے لیکن میں نے خود پیرس سے ماسکو اور ٹوکیو سے جوہانسبرگ تک سامعین کو اِسی سے مسحور کیا ہے ‘‘ ۔

’’ ستار کی ایجاد کے حوالے سے جاری بحث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میرا اگلا سوال تحقیقی اور تاریخی نوعیت کا تھا ۔ وہ بولے:’’ اِس  میں تو کوئی شک نہیں کہ امیر  خسرو ’ سہ تار ‘ نامی ساز کے موجد تھے ۔ تاہم ستار کی موجودہ شکل گزشتہ صدیوں میں ہونے والی متعدد تبدیلیوں کی مرہون ِ منّت ہے ۔ میں اپنے اس دعوے کے حق میں امیر خسرو کی اپنی اور اُن پر لکھی ہوئی متعدد کتب بطور حوالہ پیش کر سکتا ہوں ۔ خدا کے فضل سے پری محل میں میری ذاتی لائبریری میں کتابوں کا ایک عمدہ ذخیرہ ہے ‘‘ ۔ ’’ گویا آپ کے خیال میں ستار، وینا کا تسلسل نہیں ہے ؟ ‘‘ میں نے بات آگے بڑھائی ۔ ’’ بھئی اس طرح تو آپ بیچاری ستار کو عہد نامۂ قدیم کے دور میں پائے جانے والے ساز Lute سے بھی ملا دیں گے ۔ ۔۔ نہیں نہیں ، ایسا قطعاً نہیں ۔ امیر خسرو نے  نہ صرف ستار بلکہ طبلہ اور شہنائی بھی ایجاد کیے ۔ انھوں نے موسیقی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ۔ میں اُن کے ترتیب دیے ہوئے کئی خیال بھی ستار پر بجا سکتا ہوں ‘‘ [5]۔

رسمی انٹرویو  تو کافی دیر پہلے ختم ہو چکا تھا ۔ ہلکے ہلکے سرو ر کے باعث خاں صاحب کی گفتگو سیاست اور تصوّف جیسے اَن مِل اور بے جوڑ موضوعات کا بیک وقت احاطہ کر رہی تھی : ’’ معاف کیجیے گا مرار جی یہاں نہیں ہیں ۔ انھوں نے مجھ سے کچھ چیزوں کا وعدہ کیا تھا ۔ جانسن اور ورلڈ بنک کے اُکسانے پر پر انھوں نے ہندوستان میں روپے کی قیمت میں کمی کر دی ۔۔ ‘‘ خاں صاحب کی ایسی گفتگو سے شہ پا کر میں نے اُن کی سیاسی وابستگی کے بارے میں سوال داغ دیا ۔ وہ بولے : ’’ دیکھیے ! میں ایک غیرسیاسی فنکار ہوں ۔ روس اور چین دونوں ملکوں نے مجھے خوش آمدید کہا لیکن اپنے ملک کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ مغربی بنگال کی حکومت کو موجودہ صورت حال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ اور ہاں !اس سے یہ بالکل  نہ سمجھ لیجیے گا کہ میں کوئی کمیونسٹ ہوں ۔۔۔۔ ویسے میں کمیونسٹ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ میں آسائش پسند ہوں ۔ ساتھ ہی یہ کہ میں ایک سرمایہ دار بھی نہیں کہلا سکتا ۔ میرے تمام شوق انتہائی مہنگے ہیں:مثلاً امپالا گاڑیاں ، ہیرے جواہرات ، وسیع و عریض کوٹھیاں ؛ کمیونزم کی زبان میں یہ سب غیرپیداواری اخراجات ہیں ۔ ایک دفعہ لندن  میں مَیں نے ایک ضیافت کی جس کا خرچ سترہ سو پاؤنڈ تھا ۔ ٹیکس کی دہری ادائیگی بھی انسان کو فضول خرچ بنا تی ہے ۔ جب مجھے یہاں بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے اور دہلی میں بھی تو پھر میں کیوں اپنی ذاتی زندگی اور آسائشوں کی قربانی دوں؟ کچھ عرصہ پیشتر میری متعددد رخواستوں کے جواب میں بالآ خر حکومت نے مجھے بیرون ملک میں ہونے والی آمدنی پر ٹیکس میں پچیس فیصد چھوٹ دے دی ہے ‘‘ ۔

آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی اور خاں صاحب ہشاش بشاش صبح کی بلبل کی مانند چہک رہے تھے ۔ مجھے نسیم صہبائی پر ترس آ رہا تھا کیونکہ وہ ایک ملازمت پیشہ آدمی ہے جبکہ ولایت خاں صاحب کبھی پوری رات نہیں سوتے ۔ وہ بے خوابی کے پرانے اور لاعلاج مریض ہیں ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھنا ، سگریٹ پینا اور پھر کوئی دھن گنگناتے ہوئے کچھ دیر کے لیے سو جانا اُن کا معمول ہے ۔

گفتگو جاری رکھتے ہوئے خاں صاحب نے تلاشِ حق کے لیے اپنی طویل ریاضت کا ذکر کیا جو بالآخر ایک مرشد سے اُن کی ملاقات پر منتج ہوئی تھی : ’’ مدتوں تک صوفیاء کی درگاہوں پر حاضری دینے کے بعد آخر کار مجھے میرے مرشد مل گئے (جن کے ذکر پر انھو ں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ، اپنی انگلیوں کو چوما اور ماتھے سے لگایا) ۔ میرے مرشد حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی لڑی میں سے ہیں ۔ اُن کا قیا م کابل میں ہے ۔ وجیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جوان بھی ہیں ۔ جب وہ مجھے اپنے حلقۂ ارادت میں لینے پر رضامند ہوئے تو ’ عرق ‘ لانے کا حکم دیا ۔ مجھے یہ دیکھ کر نہایت حیرانی ہوئی کہ اُن کے حکم کی تعمیل میں وہسکی پیش کی گئی[6] ۔ جب میں نے اسے اپنے گلاس میں انڈیلا اور چکھا تو یقین کیجیے وہ دودھ بن گئی ۔ پنجتن پاک کی قسم! یہ  کوئی واہمہ یا فریب ِ نظر نہ تھا ۔ میں نے بوتل دیکھی تو جینوئن سکاچ وہسکی تھی ۔ میں نے حیران ہو کر اپنے مرشد کی جانب دیکھا ۔ وہ مسکرائے اور کہا، ’ اگر تم اسے شعبدہ بازی سمجھتے ہو تو میرے پاس اس طرح کے اور کرتب بھی ہیں ۔ لیکن تصوف ایک بالکل الگ چیز ہے ۔ میرے مرشد ہی میری زندگی کا واحد سہارا ہیں ‘ ۔

اِس وقت رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا ۔ میں نے اس آخری سوال کے ساتھ خان صاحب سے اجازت چاہی ۔ ’’ انسان کے چاند پر جانے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘‘ خاں صاحب کا جواب بڑا دلچسپ تھا : ’’ میں اب کبھی چاندنی کیدارا یا چندر بدن سارنگ نہیں بجا سکوں گا ۔ انسان کے چاند پر پہنچ جانے سے چاند کے ساتھ میرا رومانس جاتا رہا ‘‘۔

حواشی

1۔       اختر ریاض الدین اردو اور انگریزی کی مصنفہ ہیں ۔ دونوں زبانوں میں آپ کا انداز ِ تحریر شگفتہ ، رواں اور معلوماتی ہے ۔ اردو میں ان کی دو کتابیں  ’ سات سمندر پار ‘ اور ’ دھنک پر قدم ‘ شائع  ہو چکی ہیں ۔ مؤخر الذکر آدم جی ادبی ایوارڈ یافتہ ہے ۔ علاوہ ازیں  مختلف اخبارات و جرائد میں اُن کی دلچسپ تحریریں اکثر نظرنواز ہوتی رہتی ہیں ۔ ولایت حسین خاں صاحب کا انٹرویو انگریزی نثر کا عمدہ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی سے اُن کی گہری دلچسپی کا غماز بھی ہے ۔

2۔       ولایت خاں کے نانا بندے حسن کا شمار اپنے دور کے اہم گویّوں میں ہوتا تھا ۔ اُن کے بیٹے زندہ حسن بھی گائیک تھے ۔ ولایت خاں صاحب نے اپنے والد کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک اِن حضرات سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔ علاوہ ازیں  بیسیویں صدی کے عظیم خیال گائیک استاد امیر خاں (1912ء تا 1974ء )بھی ولایت حسین خاں کے بہنوئی تھے ۔ گائیکی سے ولایت خاں کی حددرجہ دلچسپی انھی عوامل کی مرہون ِ منت ہے ۔

3۔       جبل (Jabbal) شملہ کے مشرق میں سرمور اور  رامپور (ہماچل پردیش) کے درمیان راٹھوڑ راجپوتوں کی ایک چھوٹی سی ریاست (یا راجواڑہ ) تھا  جس کے حکمرانوں کو توپوں کی سلامی کا استحقاق حاصل نہ تھا ۔ یہ راجا اور رانا کہلاتے تھے ۔ ان کے لیے مہاراجا کا لقب لانا لفظ کا غلط استعمال ہے ۔ [ریاست جبل سے متعلق ان معلومات کی فراہمی کے لیے راقم جناب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا ممنون ہے]۔

4۔       یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ خاں صاحب موصوف نے چاندنی کلیان کے علاوہ بھی چند راگ ایجاد کیے ۔ مثلاً  ولایت خانی کانہڑا ، لکشمی کانہڑا ، کلاونتی وغیرہ ۔ راگوں کی ایجاد کے حوالے سے ولایت خان صاحب کے خیالات اور اُن کے فن پر غیرجانبدارانہ تبصرے کے لیے ملاحظہ ہو:

Chetan   Karnani,   Listening   to   Hindustani   Music,  Orient   Longman,  Bombay, 1976, P. 72 – 73

5۔       امیر خسرو سے نہ صرف ستار بلکہ طبلہ اور شہنائی کی ایجاد بھی منسوب کرنے کے حوالے سے تاحال ولایت خاں صاحب کی طرف سے کوئی سند ریکارڈ پر نہیں ۔ یہ خالصتاً ایک علمی و تاریخی بحث اورتحقیق طلب مسئلہ ہے ۔ راقم کی رائے میں ولایت خاں جیسے مصروف پرفارمر کے لیے ایسا دعویٰ کرنا تو آسان تھا لیکن اس حوالے سے کوئی مستند شہادت پیش کرنا شاید اُن کے بس کی بات نہیں تھی ۔

6۔       ’’ عرق ‘‘ کی فرمائش کے جواب میں وہسکی دیے جانے پر ولایت خاں صاحب کی حیرانی فارسی زبان سے ان کی واجبی شناسائی کے باعث تھی ۔ دراصل ایران اور افغانستان میں شراب کے لیے مستعمل الفاظ میں ایک لفظ ’’ عرق ‘‘ بھی ہے ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search