ایک ندیدے فیکٹری مزدور کی آخری نظم: عاصم بخشی
اس نظم کا مرکزی خیال عمومی طور پر چینی الیکٹرانک مصنوعات کی مشہور و معروف فیکٹری ’’فاکس کان‘‘ (Foxconn) میں ۲۰۱۰ سے لے کر ۲۰۱۶ تک ہونے والے ۱۸ خودکشی کے واقعات سے ماخوذ ہے جنہیں عرف عام میں ’’فاکس کان خودکشیاں‘‘ (Foxconn Suicides) کہا جاتا ہے۔ ان واقعات میں چودہ مزدور اپنی جان سے گئے جن میں سے زیادہ نے فیکٹری عمارت کی کسی اونچی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کو الوداع کہا۔ گمان غالب ہے کہ یہ اٹھارہ واقعات وہ ہیں جن کا راز کسی نہ کسی طرح افشا ہو گیا اور شاید اس قسم کے اور بھی کئی واقعات ہوں جو منظر ِعام پر نہ آ سکے ہوں۔ کئی مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس کی وجہ فیکٹری مالکان کا ظالمانہ سلوک، کام کی طویل ساعتیں اور چین میں عمومی طور پر مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ان خودکشیوں میں سب سے زیادہ دلدوز واقعہ چوبیس سالہ شو لیزی کا ہے جس نےستمبر ۲۰۱۴ میں چھت سے چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیا۔ شولیزی کی ذہنی کشمکش اور اضطراب کا پتہ اس کی درجن بھر سادہ و مختصر لیکن وحشت ناک نظموں سے چلتا ہے جو چینی شہر شین زین کے مختلف رسالوں میں شائع ہوئیں۔ میں اپنی زیرِ نظر نظم میں موجود استعاروں اور مرکزی خیال کے لئے شولیزی کا مقروض ہوں بلکہ اگر مان لیا جائے کہ ترجمہ بس دوسری زبان میں پھیلاؤ اور معنی کی تہہ کا اضافہ کرتے ہوئے اصل کیفیات کو برقرار رکھنے کا نام ہے تو یہ شولیزی ہی کے تخیل کا پھیلاؤ ہے جو اس کی ۲۰۱۳ میں لکھی گئی ایک نظم ’’میں نے ایک لوہے کا چاند نگل لیا‘‘ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ نظم کا لفظی ترجمہ کچھ یوں ہے: میں نے لوہے کا ایک چاند نگل لیا/ وہ اسے کیل کہتےہیں/ میں صنعتی اخراج، یہ نوکری کی ٹھکرائی ہوئی عرضیاں نگل چکا ہوں/ مشین پر جھکے ہوئے نوجوان وقت سے پہلے مر جاتے ہیں/ میں شوروغوغا اور تہی دستی نگل چکا ہوں/ پیادہ رو پُل اور زنگ آلود زندگی بھی نگل لی ہے/ اب مزید نہیں نگل سکتا/ نگلا ہوا سب کچھ میرے حلق سے باہر آ رہا ہے/ میرے آباؤ اجداد کی دھرتی پر پھیل رہا ہے/ ایک بے توقیر نظم کی صورت۔
ایک ندیدے فیکٹری مزدور کی آخری نظم
اُفق کے پیالے کو پوری رغبت سے چاٹتے چاٹتے میں کل رات
بے خیالی میں ایک لوہے کا ماہِ تاباں نگل گیا تھا
مرے عقیم النظر رفیقوں کا ماننا ہے کہ میری وحشت اثر خیالی
رہِ بقا پر کہیں مجھے خاک پانہ کر دے
فنا نہ کر دے
اگر مصر ہیں رفیق میرے تو مان لیتے ہیں
استعاروں کو ترک کر کے
پسِ تخیل چھپی حقیقت کو جان لیتے ہیں
کیا تعجب ہے؟
آہنی چاند کو نگلنے کا واقعہ کوئی سانحہ ہے؟
یہ سچ نہیں کیا کہ اس سے پہلے
محافظوں سے نظر بچا کے
میں صنعتی آب رومیں بہتی ہوئی شرابیں بھی پی چکا ہوں؟
سُنا نہیں تم اے رفیقو!
چبا چکا ہوں نہ جانے کتنے لذیذ دفتر میں کاغذوں کے!
فلک نہیں تھا تو‘‘کوزۂ ٹِن’’ کی تہہ میں چپکی ہوئی ستارہ سی میخ ہو گی!
صنوبریں میخ چو سے پک کے گرا ہوا کوئی ننھا میوہ!
نگل چکی ہے مری بصارت
ہزارہا خواب دیدہ منظر
کہ جن میں ہم رقص ہیں مشینیں اور آدمی
اس طرح کہ آدم مشیں میں ضم ہے
مشین آدم میں ڈھل چکی ہے
مری سماعت نے خوب چکھی ہے
پردۂ گوش چاک کرتی
وہ سیٹیوں کی سی سرسراہٹ کہ جس میں
انساں قطار اندر قطار خود کو پھلانگتے
بے زباں مشینوں کے اپنی جانب بڑھے ہوئے دیوتائی ہاتھوں کو چومتے ہیں
نگل چکا ہوں میں اپنی زنگار آرزوئیں،
ہڑپ کئے ہیں
مشیں حمائل رسائیوں، نارسائیوں کے ملے جلےزشت رو تصور
نہ جانے کتنے خیال ،
کتنے ہی خواب،
اب آتشیں ملیدے میں ڈھل کے
میرے شکم کی گہرائی کھوجتے ہیں
مرے رفیقو، معاف کرنا!
دہن بریدہ ہوں،
جسم سے روح تک بھرا ہوں
سو یہ کریہہ الخصال،
مکروہ نظم،
میرے نحیف و خستہ گماں کی باچھوں سے زہر بن کے ٹپک رہی ہے
مجھے اب اک کاسنی قبائے حقیقتِ نم سے
آخری بار ڈھک رہی ہے