نیمروز: ایک ہندی کہانی۔ ترجمہ: قیصر شہزاد

 In افسانہ
(نوٹ: یہ کاوش جان نائیہارڈٹ کی کتاب ’’Indian -Tales -and -Others‘‘ میں شامل کہانی ’’The- Look -in -the- Face‘‘ کا آزاد ترجمہ ہے ۔از قیصر شہزاد)

وہ ہفتۂ ضیافت کی ایک شب تھی جب میں اپنے پرانے دوست نیمروز کو ہاتھ سے پکڑ کر ایک کونے میں لے گیا جہاں الاؤ کی روشنی نے سایوں میں نقب نہ لگایا تھا۔ ’’نیمروز، مجھے ایک اور کہانی سناؤ۔‘‘ نیمروز زیرِ لب کچھ بڑبڑایا پھر کوئی جواب دیئے بغیر خاموشی سے پائپ کے کش لینے لگا ۔
’’دیکھو نیمر وز،شاید تم بھول رہے ہو کہ میں اس ضیافت کے لیے کتنا زیادہ گوشت لے کرآیا تھا ۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘  وہ مان گیا اور مقامی بولی میں اپنے مخصوص پروقار انداز میں گویا ہوا  ’’تم میرے اچھےدوست ہو، ہم ایک برتن میں کھاتے رہے ہیں اور ایک ہی پائپ سے تمباکو نوشی کرتے رہے ہیں اور اس کے دھویں کے آر پار ان گنت بار ہماری آنکھیں چار ہوئی ہوں گی۔{تم نے گوشت کا ذکر کیاتو }  میں تمہیں ارنے بھینسے کے گوشت کے بارے میں ایک داستان سناتا ہوں۔‘‘
آہا !شکارکی کہانی۔
’’اور ایک لڑکی کی بھی‘‘
اوہ تو پھر تم ایک عشقیہ داستان سنانے جا رہے ہو؟
’’ایک ایسے آدمی کی بھی جسے میں مارڈالنا چاہتا تھا۔‘‘
تو پھر تم نے اسے مارڈالا؟
’’ہاہا۔ بھائی میرے اگر میں نےہاں یا نہ میں جوا ب دے دیا تو کہانی کیا رہے گی ؟‘‘
ٹھیک ہے نیمروز، لاؤ اپنے پائپ کا کش لگانے دو اور میں صبر کے ساتھ تمہاری کہانی سننے کی پوری کوشش کروں گا۔
نیمروز نے پائپ مجھے تھمایا اور کہانی کہنے لگا۔
اس کی نگاہیں دھویں کے مرغولوں کے پار جوانی تک واپس پہنچادینے والی طویل، بہت طویل راہگز پر مرکوز تھیں ۔
’’یہ کئی جاڑے اور کئی گرمیوں پہلے کا قصہ ہے جب میں نوجوان ہوا کرتا تھا۔ اب تو مجھے سہج سہج چلنا پڑتا ہے اور میرا سر جھکا رہتا ہے لیکن مجھے وہ زمانہ بھی خوب یاد ہے اور اب اس کا تذکرہ کرتے ہوئے میں خود کو پھر سے جوان محسوس کررہا ہوں۔ مجھے اُس الاؤ کی مہک تک محسوس ہورہی ہے جس کے شعلے دھاڑتے ہوئے اوپر کو بلند ہوا کرتے۔ اب کئی سالوں سے وہ سرد ہوچکے اور ان کی راکھ بھِی ادھر ادھر بکھر گئی۔ مجھےقبیلے کے سردار ڈوبا-مونا کی بیٹی پائژا {پھول} کا چہرہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے، کہ میری آنکھیں بوڑھی نہیں ہوئیں۔
ڈوبا-مونا بڑا آدمی تھا۔پائژا دوسری لڑکیوں جیسی نہ تھی۔ وہ ان جیسی ہو بھی نہ سکتی تھی۔وہ ٹی –پی{خیمے} بنانے ، لکڑیا ں اور پانی ڈھو کر لا نے کے لیے پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ وہ نازک ، دبلی پتلی ، بالکل تم گوروں کی بعض عورتوں جیسی خوبصورت تھی۔اس کے چہرے جیسا کوئی اور چہرہ پوری قوم میں کہیں نہ تھا۔ دھرتی پر وہ پاؤں یوں دھرتی گویا جنوب سے آنے والی نرمیلی ہوا کا جھونکا ہو۔ اس کا جسم بیدِ مجنوں جیسا لچکیلا تھا اور اس کی آنکھیں مجھے ستاروں کی سی دکھتیں۔‘‘
یہ فرسودہ تشبیہ سن کر میں اپنی مسکراہٹ دبا نہ سکا۔ لیکن اپنی کہانی میں مگن نیمروز نے مجھے نہیں دیکھا۔اس کی نگاہیں بدستور عمرِ رفتہ تک پھر سے لے جانے والی راہگزر پر جمی تھیں۔
’’اس کا چہر ہ دیکھ لینے کے بعد میں اور کچھ نہ دیکھ پاتا۔ نہ طلوع نہ غروب، نہ چاند نہ ستارے۔ وہ خوبصورت تھی اور میں نوجوان، لیکن غریب نوجوان۔ میرے پاس گنتی کے چند خچر تھے اور وہ قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی۔ اس کے باپ کے خچروں کا ریوڑ تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا کرتا۔ہاں ، میں تنومند تھا اور مجھے گھمنڈ بھِی بہت رہتا۔ لمبی لمبی راتیں میں پائژا کے خواب دیکھنے میں گزارتا۔ ایک روز میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں اسےحاصل کرکے رہوں گااور اس کے حصول کی خاطر تمام قبیلوں کے سارے سورماؤں کو شکست دے دوں گا۔لہذا ایک شام جب دہکتے الاؤ پر گوشت ابالےجارہے تھے، میں بڑے چشمے کی جانب چل دیا اور وہاں لگی قدِ آدم گھاس میں خود کو چھپا لیا۔ میں دیکھ چکا تھا کہ ہر شام پائژا اپنے باپ کے لیے ٹھنڈا تازہ پانی بھرنے وہاں آتی ہے۔ زیادہ بوجھ اٹھا نہ سکنے کےباعث وہ پانی ایک کیتلی میں لے جایا کرتی جو تم لوگوں کے ہاں پہنے جانے والی ٹوپیوں جتنی ہوا کرتی۔ادھر میں گھات لگائے بیٹھا تھا ۔مجھے نہ تو بہتے پانی کی آواز سنائی دے رہی تھی نہ بیدِ مجنوں کے درختوں میں سرسراتی ہوا کی اور نہ ہی کیڑے مکوڑوں کی ۔ کیونکہ میرا دل گا رہا تھا۔ مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ یہ پائژا ہی تھی۔ وہ چشمے پر پانی بھرنے جھکی تو شفاف پانی کی سطح پر اس کے چہرے کا عکس نمودار ہوگیا۔ اب میرے سامنے ایک نہیں دو پائژائیں تھیں اور میرا خما ر بھی دو آتشہ ہوگیا تھا۔ میں گھاس سے نکلا تو اس کی نظر مجھ پر پڑی، اس کی آنکھیں خوف سے پر ہوگئیں۔ کیونکہ میری نگاہوں میں فتحیابی کا عزم بھر ا ہوا تھا ۔ اس نے یکدم کسی ہرنی کی مانند قلانچ بھری اور وادی میں نیچے کی جانب بھاگ پڑی۔ جب میں  بالآخر اسے قابو کر نے میں کامیاب ہوا تو میرا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اسے اپنے بازوں میں اٹھایا تو وہ رونے لگی۔‘‘
نیمروز نے ہاتھ بڑھا کر مجھ سے پائپ لے لیا اور اس کے تیز تیز کش لگانے لگا۔
’’پھر میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو وہاں مجھے وہ دکھائی دیا جو میں نے کہیں نہ دیکھا تھا کبھی نہ دیکھا تھا : ایک نظر جس میں بیک وقت دکھ، کمزوری کا احساس، خوف اور رحم کی التجا تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ آنکھیں ابھی تک بادلوں کی اوٹ سے دمکتے سورج جیسی تھیں۔ اور ان میں مجھ سے کہیں بڑھ کر طاقت بھی تھی۔ چنانچہ میں کمزور پڑگیا اور اس پر میری گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ کچھ لمحے وہ اپنی پھیلی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی۔ مجھے پتہ چلا کہ لکڑیا ں اکٹھی کرنے اور بچے پالنے میں عورتوں کی کمر کیوں ٹوٹ جاتی ہے ۔ اور یہ بھی کہ مردوں کا جنگ پر جانا اور بے غرضی کے کام کرنا کیا چیزممکن بناتی ہے۔ وہ میری کمزور پڑچکی گرفت سے نکل کر بھاگی، اور میں منہ کے بل زمین پر آرہا اور بچوں کی مانند بلک بلک کر رونے لگا۔‘‘
نیمروز نے چند کش لگا کر مجھے پائپ لوٹادیا ۔
’’گورے دوست، تمہیں کبھی اس طرح کی نظر سے دوچار ہونا پڑا؟‘‘ مجھے مغلوب کردینے والی نظرو ں سے دیکھتے ہوئے نیمروز نے پوچھا۔
’میں بہت کم عمر ہوں ،‘ میں نے جواب دیا۔ ’’جب تم نے وہ نگاہ دیکھ لی تو تم بوڑھے ہوجاؤگے کہ جب میں اٹھ کر گاؤں واپس روانہ ہوا تو بڑا ہوچکا تھا ۔ اب میں بڑے سے بڑے سورما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتا تھا، کیونکہ میں ’وہ نگاہ‘ دیکھ چکا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سورج مکھی کے پھول مرنا شروع ہوجاتے ہیں اور ارنے بھینسے کے شکار کا وقت قریب آجاتا ہے۔ چنانچہ سارا قبیلہ شکار پر روانگی کےلیے تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ ایک صبح ہم خچروں پر سوار شکار کی مہم پر روانہ ہوئے۔ تعداد میں ہم اس قدر زیادہ تھے کہ آخری لوگوں کے گاؤں سے نکلنے پر ہراول دستہ جنگلوں کی پہنائیوں میں گم ہوچکا تھا۔ ہم سب ہنستے گاتے چلے جاتے تھے لیکن ہمارے خچر خیموں کی طرف مڑمڑ کر دیکھتے جاتے۔ کئی دن ہم شام {مغرب} کی جانب محوِ سفر رہے۔ مجھے اپنے اندر ایک گیت کی موجودگی کا ہمہ وقت احساس ہوتا رہتا، جب میرے لب خاموش ہوتے تب بھی، کہ میں اپنے خچر کو ہمیشہ پائژا کی سواری کے پاس پاس چلاتا۔ وہ دو خچروں پر تنے کمبلوں سے بنے محمل میں سوار تھی کیونکہ وہ ایک امیر آدمی کی بیٹی تھی۔ میں اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تو وہ بس مسکرا دیتی کہ وہ بڑے چشمے کے پاس میری کمزوری جان چکی تھی۔ کبھی میں پھول چن کر اسے دیتا،جنہیں قبول کرنے سے وہ کبھی انکار نہ کرتی۔
پھر ایک روز کیا ہوا کہ اچانک سیاہ سگ اس کی سواری کی دوسری جانب اپنے خچر کو لے آیا اور ساتھ ساتھ چلنے اور اس کا دل لبھانے کے لیے طرح طرح کی باتیں بگھارنے لگا۔ پائژا کی نظرو ں میں عجیب تاثر ابھر آیا لیکن ویسا نہیں جو مجھے بڑے چشمے کے پاس دکھائی دیا تھا، میں نے بھی دل سے کدورت دھوڈالی اور سیاہ سگ کے ساتھ خوشدلی سے بات چیت کرنے لگا۔ وہ مجھ سے زیادہ وجیہ تھا۔ ہم کئی نیندیں {راتیں} شام کی جانب چلتے گئے ۔ آغازِ سفرمیں چاند دبلا اور چھوٹا سا تھا، لیکن اب یہ مغرب کے قریب آ پہنچا تھا اور ہمارے سفر کے ساتھ بڑھتا چلا گیا تھایہاں تک کہ وہ سفید سورج جیسا دکھائی دینے لگا۔ پھر وہ اچانک ایسا غائب ہوا کہ واپس نہ آیا اور اپنی سیا ہ ٹی پی میں آرام سے سوگیا۔
ٹیلوں کی خاک چھاننے میں ہمارے قدم آبلوں سے بھر گئے تھےلیکن ارنے بھینسوں کا کہیں کوئی نشان دکھائی نہ دیا تھا۔ ساتھ لائی گئی خوراک روز بروز گھٹتی جاتی تھی کہ ہماری پچھلی گرمیاں جنگ میں گزری تھیں۔ ہم نے فتح بھی پائی تھی اور ضیافتیں بھی خوب اڑائی تھیں لیکن شکار بالکل نہ کیا تھا۔
چنانچہ ہم میں سے جو زیادہ طاقتورتھے کمزوروں کے خیال سے انہوں نے گوشت کھانا کم کردیا ۔۔ پائژا کے کمزور پڑتے چہرے کا مجھ پر ایسا اثر تھا کہ میں روزانہ اپنے حصے کا گوشت اس کے ساتھ بانٹ لیا کرتا تھا۔ اسے کھاتا دیکھ کر خوشی سے میرا گانے کو جی چاہتا۔
ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا:’’نیمر وز، قبیلے کے سب لوگ اس قدر پریشان ہیں لیکن تم اکثر گنگناتے پائے جاتے ہو، کیوں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’مجھے اپنےخالی پن کا احساس گانے پر مجبور کرتا ہے‘ پھر اس نے دوسری طرف مڑ کر سیاہ سگ سے پوچھا کہ میرے برعکس وہ کیو ں نہیں گاتا، وہ بولا:’مجھے اپنے خالی پن کا احساس گانے نہیں دیتا‘۔
سارادن مجھے یہی دھڑکا لگا رہتا کہ پائژا ہم دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرچکی ہے اور اپنے ہلکے پن کے باعث مجھے یقین تھا کہ میں کبھی اس کاانتخاب نہیں ہوسکتا۔ ایک شب پڑاؤ کیا تو معلوم ہوا کہ اب قافلے کے پاس صرف مزید تین راتوں تک کا گوشت بچا ہے، اس کے بعد ہم سب خوراک سے محروم ہوجائیں گے۔
خیموں کی طنابیں گاڑتے ہوئے عورتوں نے گانا چھوڑ دیا۔ وہ بھوکی تھیں ۔ہمارے سورما بھی بھوکے اور بچے اپنی ماوں کی پشتوں سے چپکے ننھے بھیڑیوں کی مانند بلکتے رہتے۔ انہیں ملنے والا دودھ بہت رقیق ہوچکا تھا۔ سب خاموش تھے کہ کسی کو بھی بات کرنے کا یارا نہ تھا۔ دہکتے الاؤ کے شعلے آسمان کو اٹھتے اور ٹیلے یوں گونجتے گویا بیل ڈکرا رہے ہوں۔
ایک رات سرداروں کی ٹی پی میں سب سیانے اکٹھے ہوئے اور مل کر بھجن گانے لگے کہ واکنڈا {خدا} انہیں سن کر ہماری مصیبت ٹال دے اور ہمارے لیے شکار بھیج دے۔
وہ بھجن سن کر اپنے خالی پن اور کمزوری کے اندر سے مجھے ایک بڑی طاقت اٹھتی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ بڑوں کے پاس جاکر ان سے کہوں کہ مجھے شکار کی تلاش میں آگے روانہ کردیں۔ پائژا کو فاقوں سے بچانے کی خاطر میں جان پر کھیل کر شکار تک پہنچوں گا ۔میں اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں کو فراموش کرچکا تھا کیوں کہ اس روز میں نے پائژا کو بھوک کی شدت سے بلبلاتے دیکھا تھا۔
پھر میں بڑے خیمے کی جانب گیا اور بڑوں کی مجلس کے بالکل درمیان میں کھڑا ہوگیا۔ اپنی ساری نقاہت کے باوجود بلند آواز سے کہا: ’’مجھے صرف ایک تیزرفتار خچر اور تھوڑا سا گوشت دے دیں میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ضرور شکار دریافت کرلوں گا۔‘‘ بڑے بوڑھے میری بات کو دیوانے کی بڑ سمجھے لیکن ڈوبا مونا نے کہا: ’اس نوجوان کی آنکھوں میں مجھے ایک خاص چمک اور آواز میں عجیب طاقت محسوس ہوتی ہے، یہ جو کچھ مانگتا ہے اسے دے دو ۔ اگر یہ کامیاب رہا تو پائژا بھی اس کی ہوجائے گی، میں خوب جانتا ہوں ان دونوں کے درمیان کچھ ہے۔ میں اسے بہت سے خچروں کا مالک بھی بنادوں گاکہ میرے پاس جانوروں کی کوئی کمی نہیں۔ ‘
یہ الفاظ سن کر میری بھوک اور نقاہت بالکل اڑنچھو ہوگئی۔ مجھے لگا گویا میں ابھی کسی بہت بڑی ضیافت سے اٹھ کر آیا ہوں۔ اگلی صبح میں نے خچر اور گوشت لیا اور شام کی جانب روانہ ہوگیا۔ اب لوگوں نے شکار کی تلاش میں نکلنا بھی چھوڑدیا تھا کہ سفر سے اور زیادہ بھوک لگتی ہے۔ دودن اور دوراتیں میں پائژا کے خواب آنکھوں میں سجائے چلتا گیا، تیسری شام غروبِ آفتا ب کے وقت میں ایک ٹیلے پر رکا اور اپنے خچر کو چرنے کے لیے کھلا چھوڑدیا۔ میں بہت کمزور اور بیمار محسوس کررہاتھا اور میرا خالی پن بھی لوٹ آیا تھا۔ ابھی تک شکار کاکوئی نام و نشان نہ پا سکا تھا۔ میں منہ کے بل زمین پر پڑا کراہ رہا تھا کہ اپنے خالی پن نے مجھے سلادیا۔
میری آنکھ کھلی تو میرے پہلو میں کوئی بیٹھاہوا تھا۔
یہ سیاہ سگ تھاجو رسان سے میرے ساتھ مخاطب تھا: ’’نیمروز، میں تمہارا خیال رکھنے آیا ہوں کیونکہ عمر او ر طاقت دونوں میں تم سے بڑا ہونے کے باعث یہ میرا فرض تھا۔‘‘ میری زبان سے ایک لفظ تک تو نہ نکل سکالیکن میرا دل اس کے لیے کچھ نرم پڑگیا تھا۔ کہ پائژا کے خواب نے مجھے رحمدل بنا دیا تھا۔
’’میں خوب جانتا ہوں کہ نیمروز کس کے خواب آنکھوں میں سجائے ہے، میں اسی لیے اس کی نگرانی کرنے آیا ہوں تاکہ وہ اپنے خواب پورا کرلے۔‘‘ سیاہ سگ کسی عورت کی مانند نرم لہجے میں کہہ رہاتھا۔ نوجوان او ر رحمدل ہونے کے باعث میں نے سیاہ سگ کو ’اس نظر‘ کے متعلق بتایا جو مجھے پائژا کے چہرے پر دکھائی دی تھی ۔ میری زبان سے اس کا تذکرہ سن کر سیاہ سگ ہونٹ کاٹنے اور ٹھنڈی آہ بھرنے لگا۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی ۔ اسی عالم میں میری پھر سے آنکھ لگ گئی۔ جب دوبارہ آنکھ کھلی تو مجھے نہ تو اپنا خچر دکھائی دیا، نہ گوشت۔ سیاہ سگ بھی غائب ہوچکا تھا۔
مجھے ساری بات فورا سمجھ آگئی، اور میں خود کو ایک دم کسی ریچھ کی مانند طاقتور محسوس کرنے لگا۔ وادی میں چھائے سکوت کو میں نے اپنی چیخ وپکار سے شق کردیا۔ غیظ وغضب کے عالم میں میں سورج کی طرف مٹھیاں بھینچ بھینچ کر مکے لہراتا اور سیاہ سگ پر لعنت بھیجتا رہا۔ایک سے دوسرے ٹیلے پر بھٹکتا پھرا اور موٹے موٹے لیکن بے معنی لفظ میرے منہ سے نکلتے رہے۔
رات ہونے سے قبل مجھے ایک مردہ بھیڑیا دکھائی دیا۔ جس پر میں کسی کوے کی مانند جھپٹ پڑا اور اس کے مردار گوشت کو دانتوں سے بھنبھوڑ ڈالا ۔ میں نے اس مردار کو ’سیاہ سگ‘ کا نام دے دیا۔ میں نے بہت سا گوشت کھایا حالانکہ اس سے سڑاند اور بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ پیٹ بھرلینے کے بعد میں نے ایک ندی سے پانی پیا ، جو کیچڑ میں تقریبا گم ہوچکی تھی۔ اس کے بعد میں سوگیا اور پائژا کے خواب دیکھنے لگا ۔۔ جاگا تو نیا دن طلوع ہوچکا تھا۔ ایک اور مردہ بھیڑیا ملنے پر کھانے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا جس کے بعد میں نے اپنے اند ر پھر سے طاقت محسوس کی اور مرغزاروں کی جانب چل دیا۔ شام ہونے کو تھی کہ اچانک مجھے بادلوں کی گرج جیسی آواز سنائی دی ، میں بہت حیران ہوا کہ آسمان پر بادلوں کا نشان تک نہ تھا۔ میں فوراً ایک ٹیلے کی جانب بھاگا کہ اس کی چوٹی سے اندازہ کرسکوں کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ وہاں سے نیچے کی جانب نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ساری کی ساری وادی ارنے بھینسوں سے پر تھی۔ اور وہ چرتے ہوئے آہستہ آہستہ میرے لوگوں کے پڑاؤکی جانب بڑھ رہے تھے۔ میں مڑکر بھاگ پڑا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ خوشی سے چیخ اٹھوں لیکن میں نے زبان بندرکھی کہ مجھے اپنے پڑاؤتک پہنچنے کے لیے اپنی تمام طاقت مجتمع رکھنا تھی۔ میرے پاس کوئی سواری نہ تھی اور یہ کٹھن سفر مجھے دوڑ کر کرنا تھا۔میں دوڑتے دوڑتے کئی بار گرا، کئی بار اٹھا۔ رات آئی ، دن چڑھا، میں بھاگتا گیا۔ اگلی رات آئی تو مجھ میں چلنے تک کی سکت نہ باقی رہی، لہذامیں نے پڑاؤ تک رینگ کر پہنچے کی کوشش کی۔ میں نہیں جانتا کیا ہوا بس اتنا یاد ہے کہ مجھ اچانک ایک چیخ سنائی دی جس کے بعد سارا قبیلہ یکدم حرکت میں آگیا تھا ۔پھر بہت سے ڈراونے خوابوں کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے لوگوں کو ضیافتیں اڑاتے پایا، انہوں نے ارنے بھینسوں کا غول پالیا تھا۔
پھر گاؤں واپسی کے سفر میں مجھے سیاہ سگ کی ساری واردات بتائی گئی۔ اس نے لوگوں کو بتایا تھاکہ میں اسے ایک ٹیلے پر مرا پڑا ملا تھا اور شدید لاغر ہونے کے باعث وہ میری لاش اٹھا کر نہ لاسکا۔ لوگ اس کہانی پر یقین کر بیٹھے اور سیاہ سگ پائژا کو اپنی لچھے دار باتوں سے لبھاتا اور اس کے باپ کے سامنے اپنی بہادری کی ڈینگیں مارتا رہا۔ یہاں تک کہ میں فراموش کردیا گیا تھا۔
لیکن اب میں اپنے لوگوں کی نظر میں بڑا آدمی بن چکا تھا اور سیاہ سگ نظریں اٹھانے کے قابل نہ رہا تھا۔ اسے ہر ایک کی نگاہوں میں اپنے لیے نفرت و حقارت ہی ملتی۔ پہلی برفباری کے آغاز تک ہم اپنے گاؤں پہنچ چکےتھے۔ پائژا میری بیوی بن چکی تھی اور مجھے خچر بھی مل گئے تھے۔ ”
نیمروز نے اپناپائپ بھرنے کے لیے دم لیا۔میں نے کہا، ’’اچھی کہانی تھی ، نیمروز‘‘
نیمروز کچھ دیر سلگتی لکڑیوں کو گھورتا رہا، کہ اب آگ کے شعلے ختم ہوچکے تھے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر گویا ہوا۔
’’لیکن کہانی ابھی ختم کہاں ہوئی ہے۔ پہلی برفباری کے زمانے میں ایک دن پائژا مردہ پائی گئی۔ میرا کلیجہ شق ہوگیا اسے بڑے چشمے کے پاس سیاہ سگ نے مار ڈالا تھا،عین اسی جگہ جہاں میں نے پہلی مرتبہ ’وہ نظر‘ دیکھی تھی، وہیں ، ہاں بالکل وہیں اس نے پائژا کو ماردیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو راتیں میں اس کی لاش کے پاس بیٹھا بچوں کی طرح روتا رہا ۔میرے دوست پاس آکر میرے کانوں میں زہریلی سرگوشیا ں کرتے رہے، ’سیاہ سگ کو مار ڈالو‘، وہ کہتے۔ میں جواب دیتا : ’تم اسے یہاں میرے سامنے لے آؤ تو میں ضرور اسے قتل کردوں گا۔ لیکن میری ٹانگیں اب میرا وزن نہیں سہار سکتیں کہ میں اس کے تعاقب میں جاسکوں ۔‘ ۔
جب بڑے بوڑھے پائژا کو گاؤں کی پچھلی جانب واقع ٹیلے پر دفنا چکے تو گویا میں ایک طویل نیند سے بیدار ہوا۔ میرا سینہ نفرت کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ مجھے ان لوگوں نے میرے خیمے میں بند کردیا اور سیاہ سگ سے بدلہ لینے سے منع کردیا۔ میں بہرحال اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کی بالکل اسی طرح تکا بوٹی کروں جیسے میں نے مردہ بدبودار بھیڑے کی کی تھی۔ مجھے سیاہ سگ کے قتل کے علاوہ اور کچھ نہ سوجھتا تھا۔‘‘
نیمروز جذبات میں آکر ایک دم کھڑا ہوگیا، اس کی مٹھیا ں بھنچی ہوئی تھیں اور آنکھیں ایک برفیلی چمک سے روشن ہوگئیں تھیں۔
جانے بھی دو، نیمروز، یہ سب پرانی باتیں ہیں اور اب ان کی حیثیت کسی داستان سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں نے اس سے کہا۔
’’یہ صرف داستان نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہے۔ یہ سب مجھ پر بیتا ہے۔‘‘ وہ بیٹھ گیا اور اس کی آنکھو ں کی قدرتی نرمی لوٹ آئی۔
’’پھر قدیم روایات کے مطابق سیاہ سگ کو قبیلہ بدر کیے جانے کی گھڑی آپہنچی۔ میں نے اس کا پیچھا کرنے اور اسے مرتے دیکھنے کی ٹھان لی۔
اسے قبیلہ بدر کردیا گیااور میں اس کے تعاقب میں چل پڑا۔شدید ترین سردی کے دن تھے ۔ برف میرے قدموں تلے چٹختی رہی اور میں دن رات سیا ہ سگ کا پیچھا کرتا رہا۔ اسے تعاقب کیے جانے کا احساس دلائے بغیر میں سائے کی طرح اس کے تعاقب میں لمحہ بہ لمحہ اس کے نزدیک ہوتا جارہا تھا۔ اس دوران میں بالکل نہیں سویا اور مسلسل اپنی نظریں اس پر جمائے رکھیں کہ اسے مرتے دیکھنا میری زندگی کی واحد تمنا تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ سونے کے لیے رکا تو میں رینگتا ہوا اس کے پاس گیا اوراس کی خوراک اور ہتھیار اٹھا لایا۔ ‘ اب وہ مارا جائے گا اور اس کی موت کا نظارہ دیکھنے میں وہیں موجود ہوں گا۔ جب سیاہ سگ مرجائے گا تو میں خوشی کے گیت گاؤں گا۔
سرد ، سفید صبح کو میں جھاڑیوں کے اندر اپنے کمبل میں لپٹا پڑا تھا کہ میں نے اسے جاگ کر اپنی چیزوں کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے پایا۔ بہت دیر کوشش کرتے رہنے کے بعد وہ تھک ہار کرویران برفستان میں ایک جانب چل دیا۔ میں آہستگی سے گنگنانے لگا کہ میری تمنا پورے ہونے کا وقت آگیا ۔ مجھے نہ تو سردی کا احساس تھا نہ تھکان ہی محسوس ہورہی تھی۔ شام تک میں سیاہ سگ کے اتنے قریب پہنچ گیا کہ اس کے کراہنے کی آواز سن سکتا تھا۔ اکثر ستاروں کی روشنی میں میں اس کے چہر ے پر نظر ڈالتا اور مجھے اس کا آخری وقت قریب آتا محسوس ہوتا۔ اس کا چہرہ دبلا ہوتا جارہاتھا اور اب وہ اس قدر وجیہہ معلوم نہیں ہوتا تھا جتنا سورج مکھی کے پھول مرجھانے کے دنوں وہ ہوا کرتا تھا۔
میں اسے بآسانی مار سکتا تھالیکن پھر وہ مجھے اپنی موت پر خوشی سے گاتے نہ دیکھ سکتا اور نہ میرے ہنسنے کی آواز اس کے کانوں میں پہنچ پاتی، میں اسے بھوک کمزوری اور سردی سے سسک سسک کر مرتے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں اس ڈرسے گوشت کچا ہی کھاتا رہا کہ آگ جلانے پر کہیں اسے میری خبر نہ ہوجائے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں مل رہا۔ ایک روز میں ٹیلے کی چوٹے پر لیٹا تھا کہ اسے وادی کی جانب رینگتا دیکھا۔ اب میں مزید خاموش نہ رہ سکا: ’سیاہ سگ، یا د کرو تم نے نیم روز کو کس طرح ویرانے میں اس کے زادِ راہ سے محروم کرکے مرنے کے لیے پھینک دیا تھا۔ اب تمہارا بھی ویسا ہی حشر ہونے والا ہے۔‘ وہ کوشش کے باوجود مجھے نہ دیکھ سکا کیونکہ میں نے خود کو چھپا رکھا تھا۔ پھر اس کی مریل آواز مجھ تک پہنچی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’میں تمہیں پہچان گیا، نیمروز، آؤاور مجھے زندگی سے نجات دلا دو۔‘
’نیمروز نے کبھی کسی بیمار یا کسی عورت کو قتل نہیں کیا۔‘ میں نے چلا کر جواب دیا۔ سیاہ سگ ٹیلوں کی جانب لڑکھڑانے لگا اور میں نے پھر سے اس کا تعاقب شروع کردیا۔ اب میرا مقصد پورا ہونے کا وقت قریب آن پہنچا تھا کہ اب سیاہ سگ جان چکا تھا کہ میں اس کے پیچھےہوں اور وہ مرنے والا ہے۔ پھر ایک شام وہ گھڑی آخر کار آگئی جس کے انتظا رمیں میں اتنے دنوں سے تھا۔ سیاہ سگ وادی میں ایک منجمد چشمے کے پاس منہ کے بل گر پڑا۔ اس کی نقاہت کا یہ عالم تھا کہ گرتے ہوئے اس کے منہ سے آواز تک بمشکل نکل سکی۔ اس کے بعد وہ اٹھ نہ سکا۔ میں ٹیلے سے اتر کر اس طرف بھاگا جہاں وہ پڑا تھا۔ پہلے میں خوب قہقہے لگا کر ہنسا۔ پھر میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کے چہرے پر تیکھا پن تھا۔ میں اس کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اس سے کہا: ’اب تم مرجاؤ کہ میں تمہاری موت کا جشن منا سکوں۔‘یہ سن کر اس کا چہرہ ایک دم بدل گیااور بالکل نسوانی چہروں جیسا ہوگیا۔ اس پر ’وہ نظر‘ نمودار ہوگئی، وہ ایک نظر جس میں بیک وقت اداسی ، کمزوری، خوف اور رحم کی التجا تھی۔ مجھے لگا کہ اب وہ چہرہ سیاہ سگ کا نہیں رہا۔ اس پر ’وہ نظر‘ آچکی تھی جو چشمے کے پاس ایک مرتبہ مجھے پائژا کے چہرے پر دکھائی دی تھِی۔
میں نرم پڑگیا۔ میرے سینے میں جاڑا ختم ہوگیا تھا ، بہار آچکی تھی اور برف پگھل رہی تھی۔
میں نے اپنا کمبل اسے اوڑھا دیااور اپنی خوراک اس کے حوالے کردی۔ اس نے مجھے گھورا اور کسی بھیڑیے کی مانند گوشت پر ٹوٹ پڑا۔ جمی ہوئی ندی پر ایک خشک جھاڑی ڈھونڈ کر میں نے آگ جلائی۔ اسے گرمی پہنچائی تو سیاہ سگ کے بدن میں توانائی لوٹنا شروع ہوگئی۔ ساری رات میں اس کی نگہداشت کرتا رہا۔ صبح ہونے پر میں نے اسے کہا: ’میری کمان اور میرا تیر تم لے جاؤ ، سیاہ سگ کہ اب مجھے زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔ جاؤ اور جیتے رہو۔‘ سیاہ سگ چپ رہا لیکن اب اس کی آنکھو ں کے تاثرات بدل گئے تھے۔ میں واپسی کے راستے پر چل پڑا۔ میرے پاس نہ تو کھانے کو گوشت تھا نہ اوڑھنے کو کمبل تھا۔ میں ہتھیاروں سے بھی محروم ہوچکا تھا۔ بس اب میں مرنا چاہتا تھا۔ لیکن میں مرا نہیں۔ جب رات کو تھک ہار کر اور سردی سے تقریبا منجمد ہوکر میں سویا تو کسی نے میرے ارد گرد کمبل لپیٹ دیا اور میرے ارد گرد آگ جلادی۔ صبح آنکھ کھلنے پرمجھے اپنے پاس کھانا رکھا ملا۔ روزانہ یہی ہوتا رہا۔ کئی راتوں کے بعد جب میں ٹوٹا پھوٹا اور ہر امنگ سے خالی بالآخر اپنے گاؤں پہنچا تو دبلے پن سے میری آنکھیں دھنس چکی تھیں۔ اور میری چال میں آہستگی در آئی تھی۔ لوگ مجھے حیرت سے تکا کرتے اور کہتے، ’نیمروز سیاہ سگ کو قتل کرآیا ہے۔‘ ‘‘
پھر نیمروز خاموش ہوگیا اور بہت دیر کچھ کہے بغیر آگ کو گھورتا رہا۔ آخر کار میں نے اسے پوچھا: ’’کیا سیاہ سگ تمہارے نزدیک بزدل تھا؟‘‘
’’یہ تو میں نہیں جانتا ہاں کبھی کبھی میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ کاش میں  اس روز سیاہ سگ کے چہرے پر نگاہ نہ ڈالتا۔‘‘

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search