کلنک: ایک ہندی کہانی ۔ ترجمہ: قیصر شہزاد

 In افسانہ, ترجمہ
(نوٹ: یہ کاوش جان نائیہارڈٹ  کی کتاب ’’INDIAN   TALES   AND   OTHERS‘‘ میں شامل کہانی ’’THE   MARK   OF   SHAME‘‘ کا آزاد ترجمہ ہے ۔از قیصر شہزاد)

پرانے زمانے کا قصہ ہے کہ کسی گاؤں میں دو بھائی سیہا اور اشنیدا رہا کرتے تھے۔ ان دونو ں کی شونگا سابا نامی ایک شخص سے سخت دشمنی تھی اور اس کے ساتھ وہ طرح طرح کی بدسلوکیاں کیا کرتے۔
ایک رات کسی کےمار دیئے جانے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ مقتول کوئی اور نہیں بلکہ اشنیدا تھا۔
دن چڑھنے تک گاؤں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ قاتل شونگا سابا ہے اور یہ بات غلط بھی نہ تھی۔
اس روز سارادن وہ اپنے ڈیرے پر چپ چاپ بیٹھا رہا تھا۔ اگر کسی نے اس بات کرنے کی کوشش کی بھی تو جواب دینے کی بجائے وہ کسی بیمار بھیڑئیے کی مانند بھدے سے اندازمیں اپنا منہ اٹھا کر غرادیا۔
اگلی صبح ایک جتھہ شکار کے لیے نکلا۔ ارنے بھینسوں کے شکار کا زمانہ آچکاتھا اس لیے سارا قبیلہ شکار کے راستے پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ جب شکاری لوٹے تو ان کی آنکھیں کسی خوفزدہ ہرنی جیسی ہوچکی تھیں۔ ان کی کہانی سن کرسارا گاؤں دہشت زدہ ہو گیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ان شکاریوں نے تین ہرنوں پر تیر چلائے جو بالکل نشانے پرلگنے کے بعد ہرنوں کے جسموں سےآر پار ہوگئے۔۔۔ تیروں پر خون کا قطرہ تک نہ تھا۔ پھر وہ ہرن ایک دم بھیڑئیے بن کر تیزی سے بھاگتے ہوئے غائب ہو گئے۔
سیانوں کو اس واقعے کے پیچھے قحط کی چاپ سنائی دی۔ وہ پرانے زمانوں کو یاد کرنے لگے کہ قتل کی واردات کے بعد کس طرح شکار غائب ہوجایا کرتا تھا۔ یہ سب مقتول کی بھٹکتی روح کے کارن ہوا کرتا ہے۔ سیانے بوڑھے یہ باتیں کررہے تھے ۔اور بوڑھیاں ان کی تائید میں سرہلائے جاتی تھیں کہ انہیں بھی یہ سب یاد تھا۔
خوف کی عملداری اتنی مکمل تھی کہ کسی میں کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔ سورج ڈھلتے سمے سب لوگ سردار کی ٹی پی میں اکٹھے ہوئے ۔ بڈھے گہری سوچوں میں گم تھے۔ پائپ پینے یا باتیں کرنے کا تو سوال ہی نہیں ۔ بس وہ سب چپ چاپ بیٹھے کانپ رہے تھے۔وادی میں ٹیلوں سے لمبے لمبے سائے رینگ رہے تھے لیکن وقت بھورا او ر گرمی کا تھا۔
جھٹپٹا ہوا تو ایک سردار نے سرگوشی کی: ’’یوں کرتے ہیں کہ کسی واچوبے {پروہت} کو مضبوط ہتھیار دے کر واپس بھیجتے ہیں ،اگر وہ آدھی رات تک چلتا جائے تو ہمارے پیچھے آتی بدروح سے اس کا سامنا ہوجائے گا۔ وہ اس بدروح کو فنا کرسکتا ہے۔ ہماری نجات کی یہی ایک صورت سمجھ میں آتی ہے کہ قحط اسی روح کے جلو میں آیا کرتا ہے اور اپنے ساتھ بچوں کا بلکنا اور بہت سے سوکھے بدن لایا کرتا ہے۔‘‘
واچوبے ہتھیار لے کر اپنی مہم پر روانہ ہوگیا۔ وہ واپسی کے راستے پر ناک کی سیدھ میں چلتا جاتا تھا، سب لوگ اسے جاتا دیکھتے رہے اور ان کی نظریں اس کی پشت پر جمی رہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اندھیرے کی دیوار کے پیچھے غائب ہوگیا۔ بلاؤں کے ساتھ آتی روح کے مقابلے کی خاطر واچوبے دم لیے بغیر مسلسل چلتا گیا۔
خیمے میں اسی سردار کی سرگوشی پھر سے سنائی دی۔ اس روز آگ نہیں جلائی گئی تھی کیونکہ ایک مہیب حملہ آور سے سب ڈر ے ہوئے تھے اورسمجھتے تھے کہ ان کی سلامتی اندھیرے میں ہی ہے۔
سردار نے کہا: ’’قاتل سامنے آجائے‘‘ چنانچہ ایک آدمی جا کر اسے لے آیا۔
اب وہ لوگوں کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ اگرچہ وہ دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اس کی موجود گی سبھی کو اپنا احساس دلا رہی تھی۔ ایک سسکتی ہوئی آواز بلند ہوئی:’’ میں ، شونگا سابا ، حاضر ہوں۔ میں ہی قاتل ہوں۔ تم لوگوں نے کبھی صرف ایک مکھی کے کاٹ لینے پر غضبناک ہوکر اپنے سینگوں سے زمین کا سینہ چاک کردینے والے بھینسے کو دیکھا ہے؟ میری کیفیت اس روز کچھ ایسی ہی تھی۔جس طرح گرما کی لمبی راتوں کی تاریکی میں طوفان آتا ہے، اپنے غیظ و غضب سےبہتیری تباہی برپا کرنے کے بعد صبح تک نام و نشا ن تک چھوڑے بغیر غائب ہوجاتا ہے، میرے ساتھ بھی بالکل یوں ہی ہوا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں اشنیدا کو کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہوں لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ میں نے اپنے آپ کو بھی قتل کررہاہوں۔ میرے اندر کوئی چیز مر چکی ہے۔
اس لیے اب میں بھی ویسا ہی کروں گا جو مجھ سے پہلے دوسرے کرتے آئے ہیں۔ مجھے سزا قبول ہے۔‘‘
لوگوں نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تو نہیں لیکن وہ سب جان چکےتھے کہ وہ جا چکا ہے۔
اس رات بچوں کے علاوہ کوئی سو نہ سکا تھا۔
اپنی ٹی پی میں پہنچ کر شونگا سابا روایات کے سب تقاضے پورے کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے اپنے بال کاٹ ڈالے ، لبادہ نوچ پھینکا، اپنی پیشانی خاک آلود کرلی۔پھر اپنے آنسوؤں میں مٹی گوندھ کر کلنک کا ٹیکہ لگالیا۔ اس کے بعد اپنی ٹی پی کی چوٹی میں بنے سورا خ سے ، جہاں سے دھواں اوپر کو اٹھا کرتا ہے، کئی برسوں کی آگ سے کالی بھجنگ ہوچکی ایک دھجی پھاڑ کر اپنے کاندھو ں پر باندھ لی۔ یہ اس کا لبادہء رسوائی تھا!
پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بالکل تنہا رہنے کے لیےاس نے اپنے علاقے کی حدود سے باہرایک خیمہ گاڑلیا۔ اب ریت کی رو سے چار گرمیاں اور چار سردیاں اسے یونہی گزارنا تھیں ۔
پہلی صبح ہوئی تو قبیلے کے پڑاؤ سے اس کی بیوی پانی اور بھنا ہوا گوشت لے کر آئی۔ وہ روتی بلکتی آئی تھی لیکن شونگا سابا نے نہ تو آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور نہ ہی اس سے کوئی بات کی ۔ آنسوؤں اور مٹی کا آمیزہ اس کے چہرے کی زینت تھی اور اس کی پیشانی خاک آلود تھی۔نشانِ رسوائی ، سیاہ دھجی اس کے کاندھو ں پر تھی، ا س کے حلق میں گولا سا پھنسا تھا لیکن پانی سے وہ اسے نگل نہ پایا، اسے خالی پن کا احساس بھی بہت تھا لیکن گوشت سے وہ اسے پر نہ کرسکا۔ اس نے جیسے ہی خوب بھنے ہوئے گوشت کا ٹکڑا کاٹا اس میں سے خون بہنے لگا ۔اس سے بالکل کھایا نہ گیا کیوں کہ اب وہ کسی زخم کی مانند دکھائی دینے لگا تھا۔
یہ معاملہ نمٹانے کے بعد قبیلہ ایک بار پھر شکار کی تلاش میں روانہ ہوگیا۔ وہ لوگ ہر قیمت ارنے بھینسوں کا سراغ لگانا چاہتے تھےکیونکہ باقی ماندہ خوراک بہت کم رہ گئی تھی ۔ ایک تیر کی مار جتنا فاصلہ رکھ کر شونگا سابا بھی ان کے پیچھے چلنے لگا روایات کا تقاضا یہی تھا۔ لیکن راستہ جدھر کو بھی مڑا، کسی وادی سے بھینسوں کے سموں کی دھمک نہ سنائی دی نہ ہی ان کے دوڑنے سے اٹھتا گرد کا کوئی طوفان ہی دیکھنے کو ملا۔
گاؤں کی بوڑھی عورتیں پرانے زمانے کے قحط یاد کرنے لگیں۔دن بھری کی مشقتوں کے بعد آنے والے جھٹپٹے میں خیموں کی طنابیں گاڑتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔
صبح بوڑھے اپنی چمکتی آنکھوں پر ہاتھو ں کے چھجے بنائے روشن فاصلوں میں گھورنے لگے۔ ان کی آنکھوں یوں دمک رہی تھیں گویا وہ کسی جنگ میں حصہ لینے آئے ہوں۔ پسینے میں شرابور اور تھکن سے چُور اپنی بھوکی نگاہوں سے وہ فاصلوں کو نگلتے رہے۔
فربہ توندیں کمر سے لگ گئیں۔ برے دن آچکے تھے۔
قاتل یہ سب دیکھ رہا تھا۔ بھوک اس کے بھی ہمراہ تھی۔ لیکن بھوک مٹانے کی خواہش سے کہیں زیادہ طاقتور ایک اورشے بھی اس کے ساتھ ساتھ تھی: تنہائی!
راتوں کو اسے اپنا کلنک کسی غصیلے خنجر کی کاٹ جیسا لگتا اور اس کے کاندھوں پر کالک لگی دھجی گویا بھڑکتی آگ کا شعلہ بن چکی تھی۔
ایک رات اسے ان سوچوں نے گھیر لیا:’’ بھوک اور مصیبت کے یہ دن میری قو م کو صرف میری وجہ سے دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ ماں میری پیدائش پر اسی لیے تو کراہی تھی۔ آنکھ کھولنے سے پہلے ہی مجھے بھیڑیوں کی خوراک بن جانا چاہیے تھا۔ مجھے یہا ں سےکہیں دور چلے جانا چاہیے کیونکہ میری نحوست میرے ساتھ چلتی ہے۔ شکار تک لے جانے والا یہ راستہ میرے قدموں سے مصیبت مارا بنتا جارہاہے۔ میری بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوچکے۔ میں بہت دور چلا جاؤں گا اور اجنبی ٹیلوں اور وادیوں میں بسی کسی اور قوم کے ہاں سکون پانے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘ اسی رات کے اندھیرے میں وہ چل پڑا۔ رات بھر ویرانوں میں بھٹکتا رہا۔ قحط کے مارے وہ تو پہلے ہی بہت دبلا پتلا ہوچکا تھا اور اس سفر نے اسے مزید لاغر کردیا۔
لیکن اپنی ساری ہمت اکٹھی کرکے اس نے اپنا چہرہ اٹھایا اور ہاتھ سورج کی جانب بلند کیے روحِ عظیم سے التجا کرنے لگا: ’’واکنڈا! میں مصیبت میں ہوں اور میری وجہ سے میری قوم بھی مصیبت کا شکار ہے۔ مجھے اچھے راستے پر چلنے کی ہمت دے۔‘‘
اس کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے سورج کو ڈھانپ لیا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی روشن پیشانی پر اچانک کلنک کا ٹیکہ لگ گیا ہو! اس نے اپنا چہرہ گھاس میں چھپا لیا کہ کلنک اسے دکھا ئِی نہ دے۔ جوں جوں دن گزرتا گیا بھوک کی ٹیسیں بڑھتی گئیں ۔ اپنے چہرے کو سورج سے چھپاتے ہوئے وہ اٹھا اور ویرانو ں میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ شام کو اپنے تیر کمان سے اس نے ایک خرگوش شکار کیا، تیر لگتے ہی خرگوش اچھلا اور اس کے منہ سے ایسی آواز برآمد ہوئی جیسے کسی سوتے آدمی کو خنجر سے گہرا گھاؤلگا دیا گیا ہو۔ ۔ یہ آواز سن کر شونگا سابا اسے وہیں چھوڑ کر چل دیا کیونکہ کہ اچانک اپنے اندر اسے کسی عجیب سے درد کا احساس ہونے لگا تھا۔
اس کے ماتھے کا کلنک مسلسل جل رہا تھا اور سیاہ دھجی اس کے کاندھوں پر بھاری بھرکم بوجھ بن گئی تھی۔ پھر اسے جنگلی شلجم دکھائی دیے جن سے اس نے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کی۔ کم ازکم وہ چیخ تو نہیں سکتے تھے اور نہ ہی ان سے خون بہنے کا امکان تھا۔ اس کے بعد اسے نیند نے آلیا۔ ۔۔۔۔ لیکن سکون اس سے روٹھا ہی رہا۔ جب اس کا جسم نیند کی آغوش میں تھا تب اس کی روح مسلسل اشنیدا کو قتل کرتی رہی۔
اگلی صبح کی روشنی اس نے اپنی وحشت زدہ آنکھوں سے دیکھی۔
جنگلی شلجموں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ خودسے ہمکلام ہوا: ’’میں پونکا قبیلے کی طرف جاکران کی منت سماجت کروں گا ،شاید وہ مجھے قبول کرلیں۔‘‘
سارا دن وہ چلتا رہا، اگلے دن بھی اور اس سے اگلے دن بھی۔ وہ بہت تیزی سے محوِ سفر تھا لیکن دو اور مسافر اس سے کہیں زیادہ تیز نکلے: قحط اور اس کے جرم کی داستان! دنیا میں کوئی شے ان دونوں سے تیز رفتار نہیں۔ یہ دونوں مسافر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک کے بعد دوسرا مرغزار قطع کرتے رہے۔
بہت چلنے کے بعد شونگا سابا آخرکار ایک ٹیلے کی چوٹی پر پہنچا اور بھوکی آنکھوں سے پرلی جانب وادی میں واقع پونکا گاؤں کو دیکھنے لگا۔
یہ وہ سمے تھا جب بڈھا دن لمبے لمبے سائے پھینکنے لگتا ہے۔
پھیلے آسمان کے پسِ منظر میں وہ بہت مہین سا کھڑا تھا۔ اس کے کاندھو ں سے بندھی دھجی پھڑپھڑا رہی تھی ۔۔
لیکن گاؤں پر دیکھتے ہی دیکھتے موت کا سا سناٹ چھا گیا، بچوں کی آوازیں گھٹ کر رہ گئیں اور لوگ غائب ہوگئے۔یہ سب دیکھ کر شونگا سابا خوف وحیرت کا مجسمہ بن گیا ۔ جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو رکتے قدموں سے وہ خشک ٹیلے سے اترنے لگا۔ گاؤں میں داخل ہونے پر اسے یوں لگا گویا اس نے کسی قبرستان میں قدم رکھ دیئے ہوں!
گاؤں کے وسط میں پہنچ کر وہ دونوں ہاتھ اٹھا کرفریاد کرنے لگا۔ اس کی فریاد ویرانوں میں چلتی کسی خشک ہوا کی مانند گاؤں میں پھیل گئی۔لیکن اس کے جواب میں بس اتنا ہوا کہ ایک خیمے سےکسی بڈھےنے سر باہر نکال کربھاری آواز میں اس سے کہہ دیا :’’چلے جاؤ، قحط کے نقیب، چلے جاؤ یہاں سے!‘‘
اس پر شونگا سابا جھکے سر کے ساتھ واپس چل پڑا ۔
اس کے کندھے بھی کسی نادیدہ بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ وہ بہت دور تک چلتا گیا یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ اسی رات کے سائے تھکا ہارا اور ٹوٹا پھوٹا سا وجود لیے سونے کےلیے زمین پر لیٹ گیا۔ اس کا سر درد سے بوجھل تھا اور کالک لگی دھجی بھی کسی دہکتے انگارے سے کم نہ تھی۔ تاریکی میں وہ ایک بار پھردھیرے دھیرے پکار نے لگا: ’’واکنڈا!سکون کی تلاش میں مَیں بڑے کشٹ اٹھاچکا ، میں نے بہت لمبا سفر طے کیا، لیکن میری آمد کی خبر سنتے ہی سکون فرار ہوجاتا ہے۔ مجھے اچھائی کا راستہ دکھادے۔‘‘
دن کی روشنی پھیلی تو اس نے جنگلی شلجم ڈھونڈ کر پیٹ بھرا اور پھر مردہ نرسلوں سے گھری ایک تنگ سی ندی سے اپنی پیاس بجھا کر وہ پھر کسی انجانی منزل کی جانب چل دیا۔
’’سکون اس دنیا میں کہیں نہیں ۔ سکون تو صرف روحوں کی دنیا میں ہی مل سکتا ہے، لیکن مجھے کیا معلوم روحوں کی دنیا کو کون سا راستہ جاتا ہے‘‘ اس نے سوچا۔
وہ دن بہت گرم تھا ۔ چراگاہ گرمی میں تپ رہی تھی، کیڑے مکوڑے بھنبھنا رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا خشک گھاس پر کسی پیاسی روح کی طرح آہیں بھرتی منڈلا رہی تھی۔ دور ٹیلے کسی رقیق چربی کی جھیل میں تیرتے محسوس ہورہے تھے۔ وہ کمزور، بھوکے اور بخارزدہ دکھائی دیتے تھے۔ ان کے دونوں اطراف خشک مٹی سن رسیدہ زخموں کی مانند بکھررہی تھی ۔
اسی گرمی اور بھنبھناہٹ کے درمیان شونگا سابا کی آہیں بھی سنی جاسکتی تھیں۔ اس کے قدم بھاری پڑ رہے تھے۔
وہ مرنا چاہتاتھا ، صرف مرنا!
جب دن بلند ترین ٹیلوں کی چوٹیوں سے گزر چکا تو زیرِ زمین اچانک ایک اتھل پتھل مچ گئی۔ یوں لگتا تھا گویا بہت سے بھینسے ایک ساتھ بھاگ رہے ہوں۔ بہت غضبنا ک آواز تھی وہ۔ پھر یکایک ایک بالکل سیاہ بادل نے آسمان کو ڈھانپ لیا۔ اس بادل میں بجلیاں کوند رہی تھیں۔اب آسمان کسی بخارزدہ آنکھ کی مانند لگ رہا تھا جسے بادل نے پپوٹے کی طرح ڈھک دیا ہو۔ مرغزاروں نے گویا سانسیں روک لیں اور بادل پھیلتا گیا اور اس میں سے شعلے نکلنے لگے۔ لیکن اس کے بعد پھر سے سناٹا چھا گیا۔
اس خاموشی کو جنگی نعروں اور طبلِ جنگ کی آوازوں نے گویا بے شمار خنجروں سے چیرا ۔یہ آوازیں سن کر شونگا سابا ٹیلے کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ اسے نیچے وادی میں بے شمار سورما مصروفِ جنگ دکھائی دئیے۔ گرز بلند ہوتے اور دشمن کے سر پر برستے دکھائی دے رہے تھے اور تیروں کی سرسراہٹ بھی سنی جاسکتی تھی ۔
اس منظر نے شونگا سابا کو سرشار کردیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی دلی تمنا پوری ہونے کا وقت آن پہنچا۔اس سرخوشی نے اسے ازسرِ نو جوان اور طاقتور بنا دیا۔ وہ موت کو گلے لگانے اورگلے میں پڑے رسوائِی کے طوق سے نجات حاصل کرنے ٹیلے سے نیچے وادی کی جانب بھاگنے لگا۔
لیکن اس کی خوش زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔اس پر کسی کی نظر پڑتے ہی لڑتے جتھوں نے اچانک جنگی نعرے بند کردیے، گرز برسنے موقوف ہوگئے اور تیروں نے اڑنا چھوڑ دیا۔جنگجو اسے یوں دیکھنے لگے گویا کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ ایک کھردری سی چیخ فضا میں بلند ہوئی:’’قحط کا نقیب!قحط کا نقیب!‘‘ مشترکہ خوف سے دہشت زدہ تمام جنگجو بھاگ کھڑے ہوئے۔
پھر وادی میں طوفان آگیا جس نے شونگا سابا کو آگ اور پانی میں ڈبودیا۔
طوفان گرجتا ، چلاتا رہا، اس کے گرد بھڑکتا رہا، لیکن اس آدمی نے بالکل حرکت نہ کی۔
موت بھی اس سے بھاگ گئی تھی!
طوفان تھمنے اور کسی نئے درد کی مانند خاموشی لوٹ آنے کے بعد اٹھاتو اس نے خونی سورج کو بھاپ چھوڑتے ٹیلوں کے پیچھے منہ چھپاتے دیکھا۔
پاس ہی ایک لاش پڑی تھی۔ یہ تیر لگنے سے مرنے والا کوئی آدمی تھا ۔تیر کے پر اس کے سینے سے باہر ہوا میں پھڑپھڑا رہے تھے ۔ اس کے چہرے پر اذیت جم چکی تھی اور بے جان ہاتھوں نے گیلی گھاس کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ تنہا آدمی دیر تک مردے کو گھورتا اور گہری سوچوں میں گم رہا : ’’مُدوں تک کو درد محسوس ہوتا ہے اور وہ رحمدل دھرتی ماتا سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ دیکھو تو سہی، کیسے اس مردے نے گھاس کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ رکھا ہے۔ موت مجھ سے بھاگتی ہے اس لیے میں اب زندہ رہوں گا اور اپنے راستے پر چلتا رہوں گا۔ درد و الم سبھی راستوں پر ملتے ہیں۔ واکنڈا کی مرضی یہی معلوم ہوتی ہے کہ میں زندگی کا بوجھ اٹھائے پھرتا رہوں۔‘‘
اس نے لاش کا لبادہ اتار کر خود پہن لیا کہ اب وہ اس کی محتاج نہ تھی۔ کالک لگی دھجی اس نے اتار پھینکی اور ایک سبک رفتا ر ندی سے پانی لے کر ماتھے سے کلنک بھی دھوڈالا اور آنسوؤں سے گندھی مٹی کا نشان بھی۔ پھر وہ خود سے کہنے لگا: ’’اب میں پورے قد سے کھڑا ہوکر چل سکتا ہوں کہ اب میرے ماتھے سے رسوائی کا داغ ختم ہوچکا ہے۔مجھے اوٹو قبیلے کی طرف جانا چاہیے ۔ شاید وہ لوگ مجھے قبول کرلیں۔ کیا اپنی بہتری کی تلاش آدمی کا حق نہیں؟‘‘
جب وہ اوٹو قبیلے میں پہنچا تو وہاں خوشیا ں منائی جارہی تھی اور ضیافتیں اڑائی جارہی تھی کیونکہ شکار مل گیا تھا اور قحط کا زمانہ جاچکا تھا ۔
اس نے دور سے ضیافتوں کے الاؤ دہکتے دیکھے اور ابلتی کیتلیوں کی خوشبو اس کے نتھنوں تک پہنچی۔ یہ بہت گھریلو سی مہک تھی۔ وہ بلیوں اچھلتے دل کے ساتھ گاؤں میں داخل ہوا او ر سیدھا ضیافت میں پہنچا تو الاؤ کے گرد بیٹھے دیہات حیرت سے پوچھنے لگے : ’’اندھیری رات سے نکل کر چلاآنے والا یہ تنہا مسافر کون ہے؟‘‘۔ شونگا سابا نے جواب دیا: ’’ آنے والا تنہا دکھائی تو ضرور دیتا ہے لیکن وہ بے شمار کہانیا ں اپنے ساتھ لایا ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر انہوں نے اسے بٹھالیا کہ داستان گوئی اور ضیافت کی خوب جمتی ہے۔
بھنا گوشت گردش میں تھا، کیتلیاں ابل رہی تھیں اور انگارے چٹخ چٹخ کر نیلے پڑے جارہے تھے۔ اس عالم میں شونگا سابا اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی ، لوگ سمٹ کر اس کے قریب آتے اور آگے کی جانب جھکتے گئے۔ ان کی سانسیں بوجھل ہورہی تھیں اور ان سب کی آنکھیں اس کی پیشانی پر مرکوز تھیں۔ یہ کہانی ایسے سورما کی تھی جو لاتعداد مصیبتیں اٹھا چکا تھا۔ اور یہ کہانی لگتی بھی بالکل سچی تھی کہ اس کے الفاظ میں درد بھی بھرا تھا، طبلِ جنگ کی گھن گرج بھی، رات کی تاریکی میں بلند ہوتے عورتوں کے بین بھی، کمانوں کی غراہٹ بھی اور سموں کی آوازیں بھی۔ داستان گو نے جوں ہی دمکتا چہرہ اٹھا یا تو اسے کہانی کی دہشت سے خوفزدہ اور چٹختے انگاروں کی نیلی روشنی میں چمکتی آنکھیں اپنی پیشانی پرمرکوز دکھائی دیں۔وہ حیران ہوگیا کہ یہ لوگ آخر کس چیز کو گھور رہے ہیں ؟ اسےفورا ہی جواب بھی مل گیا: کلنک!
وہ چھلانگ لگاکر ایک دم کھڑا ہوا اور کسی زخمی ہرنی کی مانند چلادیا: ’’یہ کلنک کا ٹیکہ دھلا نہیں؟‘‘ پھر اپنے ہاتھو ں سے پیشانی کو چھپا ئے بھیڑ کو چیرتا ہوا تاریکی میں فرار ہوگیا۔
اپنا پیچھا کرنے والی نادیدہ ہستی سے جب دور جاچکا تواس نے خود کو مرغزار میں زمین پر گرالیا اور روحِ عظیم سے فریاد کرنے لگا۔ ’’واکنڈا! میں اس داغ کو پانی سے بھی دھوچکا لیکن مجھے اس سے چھٹکار ا حاصل نہیں ہوسکا۔ کیا میرا مقدر یہی ٹھہرا ہے کہ میں بھیڑیے کی طرح ویرانوں کو اپنی چیخ و پکار سےمعمور کرتا رہوں۔ مجھے اپنے گھرکی یاد ستاتی ہے۔ میں اپنے بچوں کی ہنسی سننے کو ترس گیا ہوں۔ پاک ہونا چاہتا ہوں میں ۔ مجھے راستہ دے!‘‘ شب بھر اس کے الفاظ اندھیروں کو ٹٹول ٹٹول کر واکنڈا کو ڈھونڈتے رہے۔ سورج طلو ع ہوا تو اس کی آوارگی کا ازسرِ نو آغاز ہوگیا۔ کئی روشن دن گزر جانے کے بعد مرغزاروں کو جاڑے نے آلیا۔ برفباری ہونےلگی۔ تنہا بھٹکتے مسافر کو اپنے لوگوں کے الاؤ یاد آنے لگے۔
تھکے ہارے پاؤں اس کی دلی تمنا کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے وہ اپنے گھر کے راستے پر چل دیا!
اپنے گاؤں وہ پہنچ تو گیا لیکن وہاں اسے کوئی خوش آمدید کہنے والا نہ تھا۔ اس لیے گاؤں کے باہر ایک خالی خیمے میں اس نے اپنے لیے آگ جلالی ۔اس آگ سے اس کے جسم کا کانپنا تو ختم نہ ہوا لیکن جاڑے بہرحال گزرگئے۔ پھر ایک روز افسردہ چہرہ لیے اس کی عورت آئی اور پہلے کی طرح اس کے لیے کھانا اور پانی لائی۔ ا س نے کھا پی لیا لیکن اس کی بھوک برقرار رہی ۔
راتوں کو وہ لوگوں کے گھرو ں میں دہکتے الاؤ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتا۔ اسے تمنا تھی کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ سکے اور ہنسی مذاق میں شریک ہوسکے کہ اب قحط کے دن گزر چکے تھے اور ہرطرف خوشی کا دور دورہ تھا۔
کئی بار مقتول کا بھائی سیہا اس کے خیمے میں آتا اور اپنے آتشیں جملوں اور طنز کے کوڑوں سے اس کا دل خونم خون کرجاتا ۔ لیکن اس نے کبھی جواب نہ دیا۔
اتنی تکلیفوں اٹھانے کے بعد اب وہ دانا بن چکا تھا۔
لیکن بہرحال سیہا کی یہ حرکت بڑوں کے بنائے قانون کی سخت خلاف ورزی تھی ، جسے لوگ ناقابلِ برداشت سمجھتے تھے۔ چنانچہ ایک روز اسے گرفتار کرکےگاؤں کے وسط میں لکڑی کے ایک کھمبے سے باندھ دیاگیا ۔ اسے ہرن کے سینگوں سے بنے کوڑے مارنے کے لیے کچھ لوگ بلا لیے گئے۔
لیکن پھر ایک عجیب وغریب بات ایسی ہوئی جس کی کہانی بڑے بوڑھے آج تک سناتے ہیں ۔
شونگا سابا اپنے ڈیرے سے کسی تیر کی طرح نکل کر کھمبے سے بندھے اورسزا کے منتظر سیہا کے سامنے ایستادہ ہوگیا۔
’’سیہا کو کھول دو اور اس کی جگہ مجھے باندھ دو۔ بے شمار تکلیفیں اٹھانے کے بعد میں جان چکا ہوں کہ جرم میرے علاوہ کسی اور کا نہیں۔‘‘ اس نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
بوڑھے اور سیانے انگشت بدنداں رہ گئے ۔ بہت دیر سوچ میں گم رہنے کے بعد انہوں نے حکم دیا: ’’جیسا یہ کہہ رہا ہے ، ویسا ہی کرو۔‘‘ اور اسے باندھ دیا گیا
تمام کوڑے اس نے اپنی پیٹھ پر خندہ پیشانی سے برداشت کیے، نہ تو اس کے منہ سے آہ نکلی اور نہ ہی اس کے چہرے پر تکلیف کے کوئی آثار دکھائی دیئے ۔ کوڑے کھاتے ہوئے اس نے ہجوم میں سے سیہا کا چہرہ تلاشنے کی کوشش کی اور وہ اسے نظر آگیا، اب سیہا کے چہرے سے نفرت کی سختی ختم ہوچکی تھی۔
اور پھر اچانک، اسے کوڑے لگنے کے دوران ہی، شونگا سابا کا چہرہ ایک عجیب و غریب اور چندھیا دینے والی روشنی سے جگمگانے لگا۔ اس نور کو دیکھ کر کوڑے مارے والوں کے ہاتھ کانپ اٹھے۔ یہ بہت ہی عجیب روشنی تھی۔
اچانک چھاجانے والے سناٹے کو شونگا سابا کی نرم آواز نے ہی توڑا: ’’آخر کار مجھے کلنک کے ٹیکے سے نجات حاصل ہوہی گئی۔ میرے بچوں کو میرے پاس لاؤکہ میرا چہرہ دیکھ سکیں۔ میری بیوی کو بلاؤ کہ خوشی کے گیت گائے۔ مجھے بالآخر سکون مل گیا اور ، آنسوؤں میں گندھی مٹی سے لگا داغ بھی جاتا رہا۔۔۔
پتہ نہیں کیسے!”

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search