اشفاق احمد – امجد شاکر

 In یاد نگاری

اشفاق احمد کے بارے میں یادوں کا سرا پکڑ کر پیچھے کی طرف چلتا ہوں تو تلقین شاہ پھر داود لوہار اور پھر ٹی۔وی ڈراموں والے اشفاق یاد آتے ہیں۔1979ء کے زمانے میں انھوں نے ایک ڈرامے میں کسی افسر کو افسری چھوڑتے اور سندھ کے کسی مدرسے میں داخلہ لیتے دکھایا تھا۔انہوں نے پہلی بار بتایا تھا کہ مولوی اُن کا ہیرو ہے۔یہ وہی زمانہ تھا جب افغان جہاد شروع ہوا تھا۔اس زمانے میں مولوی امریکا کا ہیرو بھی تھا اور حکومتِ وقت کابھی۔ضیاء الحق آمرِ وقت تھا اور مولوی کو ہیرو بنا کر افغان جہاد کی آگ میں جھونک رہا تھا۔امریکی سفیر اسلام زندہ باد کا نعرہ لگا رہا تھا اور اشفاق احمد مولوی کو ہیرو کہہ رہا تھا۔امریکہ،ضیاءالحق اور اشفاق احمد تینوں مولوی کو اپنا ہیرو کہہ رہے تھے۔تینوں نے یہ بات چھپا رکھی تھی کہ آخری منزل پر کیا ہو گا۔مجھے ایک مجمع باز کا مجمع یاد آیا جس نے ڈبیا میں ایک سانپ بند کر رکھا تھا۔وہ بتاتا تھاکہ سانپ ڈبیا سے نکلے گا،ماچس کی تیلیوں کو پھونک مارے گا اور انھیں آگ لگ جاۓ گی،مگر ہوا یہ کہ میں بار بار سارا مجمع سنا کیا۔سانپ نے نہ نکلنا تھا نہ نکلا،نہ اُس نے پھونک ماری اور نہ تیلیوں کو آگ لگی۔اس آخری Episode کو دیکھنے کے لیے ہم نے بہت سے مجمع دیکھے۔ضیاء الحق کا دور دیکھا امریکا کا واحد سپر پاور بننے تک کا دور دیکھا۔اشفاق احمد کا زاویہ دیکھا۔کسی نے مولوی کو آخر تک اپنا ہیرو نہ بناۓ رکھا۔مولوی بیچارہ یونہی ایک خاص دور میں ایک خاص ضرورت کے لیے ہیرو بنا۔اُس وقت مجھے اشفاق کچھ سمجھ میں نہ آیا۔یوں لگا جیسے وہ اُردو سائنس بورڈ کا چیئرمین ہو کر رہ گیا ہے۔اب اُس کا      Outerselfتلقین شاہ اُس کے Innerself ہدایت اللہ سے نہ کہتا تھا: “تیں ترقی نہیں کرنی۔”اب ہدایت اللہ ترقی کر سکتا تھا اور اُس نے یقیناً ترقی کی۔ایک پروگرام زاویہ میں اشفاق نے بتایا کہ اُس نے 22گریڈ حاصل کیا تھا۔ہدایت اللہ نے مولوی کو ہیرو مان لیا۔اس لیے اس کی ضرورت تھی۔اب ترقی کونسی دور ہو سکتی تھی۔

اشفاق احمد کا مولوی کو ہیرو کہنا کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آیا۔انتظار حسین کو بھی نہیں جو بہت سے تضادات حل کر سکتا ہے۔جو حضرت علی اصغر کی شہادت اور بالے سورما کی شہادت میں تعلق دریافت کر سکتا ہے،مگر اسے داؤ جی ،بابے اور مُلّا میں ثنویت ہی دکھائی دی۔اُس نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا:

“اب یہ تو نہیں ہو سکتاکہ آپ مولوی مُلّا سے بھی معاملہ رکھیں اور داؤجی کے درشن کی بھی توقع رکھیں۔”

ماخذ : روایت (خاکے)

سنِ اشاعت :۲۰۱۴

ناشر : سانجھ

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search