ڈاکٹریٹ کے طلباء کو صرف سپیشلسٹ مت بنایئے بلکہ غوروفکر کی تربیت بھی دیجئے: گنڈولا بوش (ترجمہ: شاہد نسیم)

 In ترجمہ
نوٹ:    ڈاکٹر گنڈولا بوش، امریکہ کی     جان ہاپکنس یونیورسٹی کے شعبہ خوردبینی حیاتیات (مائیکروبیالوجی)  سے بطور سینئر سائنس دان  وابستہ ہیں اور     R3  Center  for  Innovation  in Science  Education   کے بانی  ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔ان کی تحقیقی دلچسپی کے دائرے میں سائنس و صحت  سے متعلقہ  بین الکلیاتی تعلیمی   پروگرامز کی پرداخت ، نگرانی اور تجزیہ  شامل ہیں ۔  ان کے بقول ، “R3″پروگرام   دراصل   کڑے ضابطے پر مبنی تحقیقی  عمل ، یکساں سائنسی نتائج کے بارہا حصول، اور سائنس دانوں کی معاشرتی ذمہ داری جیسی    تین  جہات پر مبنی ہے  ۔  15ء فروری 2018ء کو  معروف رسالے “فطرت” (Nature) میں ان کا مضمون ” Train  PhD  students  to  be  thinkers  not  just  specialists” کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ڈاکٹر گنڈولا بوش کے مطابق ڈاکٹریٹ کا  بیشتر نصاب  طلباء  کو  تنقیدی   سوچ  کو بروئے کار لانے والے فرد  کی بجائے ایک  محدود دائرے  میں مقید  محقق بنانے کا خواہاں ہے   ۔ انکے خیال میں اس  طرزعمل  کو بدلا جا سکتا ہے اور اسے اب بدلنا چاہیے ۔  ہمارے فاضل دوست جناب شاہد نسیم  نے جائزہ کے قارئین کے لیے اس مختصر مضمون کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ۔ اصل مضمون کو اس لنک سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

معمل (لیبارٹری ) کو درکار مفید افراد سبک رفتاری سے پیدا کرنے کے پیشِ نظر  طبی حیاتیات ( بائیومیڈیکل  سائنس ) کے علوم میں ڈاکٹریٹ سے متعلقہ  بیشتر شعبوں نے اپنے مضامین کو مختصر کر دیا ہے۔ اس اختصار نے وسیع تر پس منظر میں طبی حیاتیات کی تحقیق کے مواقع کو گھٹا دیا ہے۔ نتیجتاً ، ڈاکٹریٹ  کے بیشتر نصاب سے معاشرے کو درکار  بڑے مفکرین اور مسائل کا تخلیقی حل تلاش کرنے والے افراد کی  پرورش اور حوصلہ افزائی کے امکانات قلیل ہیں ۔

اس کا مطلب  ہے کہ طلباء کوخوردبینی  جانداروں  (مائیکروبس) کے حیاتیاتی مدارج کے بارے میں   تمام تر تفاصیل   مگر سائنسی طرزِ حیات  کے بارے میں کم واقفیت دی جاتی ہے  ۔ ان کو اس امر کی تعلیم  بے حد ضروری ہے کہ اغلاط کیسے واقع  ہو سکتی  ہیں ۔ زیرِ تربیت لوگوں کو ناقص حقیقی تحقیق سے اخذ کردہ مثالوں (case  studies) کی  چھان بین کرنی  چاہیے  ، یا پھر  ادب میں پائے جانے والی منطقی نقائص /مغالطوں کو تلاش کرنے کے لیے  بین الکلیاتی موضوعات  کے حامل سراغ رسانی پر مبنی پہیلیوں کو استعمال کرنا چاہیے ۔ ان سب سے بڑھ کر لازم ہے کہ طلباء کو سائنسی عمل کو اس کی اصلی حقیقت کے مطابق ہی دکھانا چاہیے یعنی  اس کی حدود و قیود ، نیز ممکنہ خطرات  کے ساتھ۔۔ مزید یہ کہ ناگہانی دریافتوں اور مضحکہ خیز حماقتوں جیسے واقعات پر مبنی سائنسی عمل کی تفریحی جہت کو اجاگر کرنا چاہیے ۔

راقم الحروف ،میری لینڈ امریکہ میں واقع  جان ہاپکنس یونیورسٹی بالٹی مور میں  ٹھیک اسی  خلا  کو   بھرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں ایک جدید   گریجویٹ سائنس پروگرام دوسرے سال میں داخل ہونے کو ہے  ۔ماہر خوردبینی حیاتیات ( مائیکرو بیالوجسٹ ) آرٹرو کیساڈویل  (Arture  Casadevall)اور راقم الحروف نے  2015ء کے اوائل سے ہی فلسفے کے مضمون، یا غور و فکر کی اہمیت،  کو ڈاکٹریٹ میں واپس لانے کی ضرورت کے پیشِ نظر اس شعبے کو سدھارنے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔  ہم  اپنے  اس پروگرام (کاوش) کو R3″ ” کہتے ہیں   جس سے مراد  لی جاتی ہے  کہ ہمارے طلباء اپنے تجربات کے خاکوں (ڈیزائن ) اور   عملی  طریقہ کار میں کڑے ضابطوں کے اطلاق(rigorous) ؛ اپنے کام کو معاشرتی ذمہ داری کی عینک سے دیکھنے ؛  تنقیدی  فکر سے کام لینے (responsibility)اوراپنے کام کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے بارے میں سیکھتے ہیں ۔  لہذا اپنے تجربات کو باربار دہرانے کے عمل (reproducibility) کو بہتر بناتے ہیں   ۔  انہی خطوط پرمتعارف ہونے والے مخصوص  مضامین (   کورسز )  کے بارے  میں آگاہی  رکھنے کے باوجود  ہم  نسبتاً زیادہ جامع اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں۔

گریجویٹ لیول پر ہماری پیش کش   دوسروں سے قدرے مختلف ہے  ۔ ہماری مشقیں / سوالنامے  تنقیدی سوچ پر مبنی    ہیں جن کے ذریعے طلباء   ایک میوزیکل بینڈ سے متعلق نیویارک ٹائمز کے  مضمون  “Big  Sugar”  میں استدلال کی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہیں نیز ‘نیویارکر ‘ اخبار میں سرجن اتل گوانڈے (Atul  Gawande) کے مضمون بعنوان “سائنس پر بداعتمادی “(The  Mistrust  of  Science)میں ان کے پیش کردہ دلائل کے اخلاقی مضمرات کی چھان بین کرتے ہیں۔   ہمارے مضامین    قطعی/پختہ  تحقیق ، سائنسی  کلیت ،  منطق  اور ریاضیاتی و کمپیوٹر پروگرامنگ کی مہار ت میں  بنیاد اور   طلباء کے لیبارٹری اور فیلڈ ورک سے متعلقہ کام کے مابین امتزاج پید ا کرتے ہیں ۔  مثال کے طور پر ،  متعدی زکام (انفلوئنزا) کے وائرس کا مطالعہ کرنے والے   ، اس مرض میں مبتلا حقیقی مریضوں کے اعداد وشمار کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اطلاقی شماریات کے چیلنجز کے ساتھ نبردآزما ہوتے ہیں ۔

ایک نئے نصابِ تعلیم کا آغاز  حمایتی پیدا کرنے سے ہوتا ہے ۔ لازم ہے کہ طلباء اور اساتذہ دونوں    ہی کو   مروجہ  راستہ سے ہٹنے   میں قدروقیمت   نظر آئے ۔  ہم  نے  ان منطقوں، جہاں طلباء اور اساتذہ دونوں نے اپنی تربیت میں  موجود ادھورے پن  کو محسوس کیا، کی شناخت کے لیے غیررسمی انٹرویوز اور فوکس گروپس  کو استعمال کیا ۔ درج ذیل موضوعات کی تکرار ہوئی:   معمل (لیبارٹری) میں شماریاتی آزمائشوں کے اندر نظری علم کا اطلاق نہ کر سکنے کی اہلیت ، تجربات کے دوران موزوں ضابطوں کے انتخاب میں بارہا سرزد ہونے والی  اغلاط ،  اور عوام الناس کے سامنے   اپنی تحقیق کی توضیح و تشریح  میں قابلِ ذکر ناکامی ۔

جان ہاپکنس کے شعبۂ علم الحیات (life-sciences)میں ساتھی اساتذہ کو اپنے پروگرام سے متعارف کروانا نسبتاً بہت زیادہ حساس معاملہ تھا ۔ راقم الحروف ، اس اکثریتی رائے پر متوحش تھی کہ سائنس کے ثمرات  کا زیادہ تر دارومدار تنقیدی   سوچ کی بجائے رٹے رٹائے علم پر ہے ۔ اہم محققین کی ایک کثیر تعداد اس بات پر نالاں تھی کہ طلباء تعلیم کی  ادنیٰ روایتی اشکال پر زیادہ توجہ دے رہے تھے ۔ ان سے مدد حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ کافی (coffee) پر کی جانے والی گپ شپ تھا : لیبارٹریوں کے سربراہان کے خدشات  کی تفہیم کی غرض سے ہم ان سے بارہا ملے۔

ہم ایک بالکل نئے تجرباتی  پروگرام  کے ساتھ طلباء کی کارکردگی  کا مواد فراہم  نہیں کر سکتے تھے ،  البتہ ساتھی  اساتذہ  کے شکوک و شبہات پر بات ہو سکتی تھی ۔ بعض ساتھی   فکر مند تھے  کہ طلباء کو    اخلاقیات ، علمیات اور کمیتی مہارتوں کے بین الکلیاتی مضامین پڑھنے کی بدولت  ،  اختصاصی مواد کے حامل تھوڑے مضامین  پڑھنے کو ملیں گے ۔ بالخصوص ، وہ پریشان تھے  کہ مجوزہ  “R3”  پروگرام کے سبب طلباء کو اپنی ڈگری کے حصول میں زیادہ وقت لگ سکتا تھا    نیز اپنے متعلقہ مضامین  میں ادھورے علم کی بدولت   لیبارٹری میں ان کی افادیت نسبتاً کم ہو جائے گی ۔

ہمارا مقدمہ  اس امکان پر تھا کہ   بہتر تنقیدی فکر اور اختصاصی  دائرے میں لازمی  مضامین کی   کم تعداد شاید  طلباء کو نسبتاً زیادہ کارآمد  اور کارگر بنا پائے ۔   ہم نے اس نئے نظام کو استعمال کرنے اور اس امر کی باضابطہ آزمائشوں میں حصہ ڈالنے کے لیے  بہت سے پروفیسر حضرات کو آمادہ کیا کہ آیا  مجوزہ  R3  کے مضامین  طلباء کی کارکردگی میں فرق ڈالتے ہیں یا نہیں۔

اب تک ہم پانچ نئے مضامین کو نئے سرے سے مرتب کر چکے ہیں اور تقریباً درجن بھر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے پچاسی (85) طلباء کو  ان مضامین میں داخلہ دے چکے ہیں ۔  یہ مضامین  ، سائنسی عمل کے دوران ہونے والی اغلاط اور بے ضابطگیوں  کی تشریح پر مشتمل ہیں اور طلباء کو سکھاتے ہیں کہ سائنسی ادب کا باریک  بینی سے تجزیہ کیسے ہوتا ہے ۔ ایک بین الکلیاتی سلسلہ ، سائنس کے بارے میں وسیع  اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔  ہمارے طلباء  تحقیقی پیش رفت کے معاشرتی نتائج پر غور وفکر کرنا سیکھتے ہیں جیسا کہ   نطفے (سپرم)  اور انڈوں میں جینیاتی  تبدیلی کرنے کی صلاحیت ۔

سائنسی اقلیم کے بڑے منظرنامے سے متعلقہ مسائل کے بارے میں مباحث  ، طلباء کو سائنس کی حدودوقیود  پر سوچ بچار کی ترغیب دیتے ہیں ،  جب کہ  سائنسی صلاحیت اس تقابل میں سرگرم رہتی   ہے کہ اخلاقی نقطہ نظر سے سائنس دانوں کو کیا کرنا چاہیے ۔ علاوہ ازیں ، ہم پیشہ وارانہ مہارتوں خصوصاً  مؤثر  فن تقریر ، تعلیم اور تربیت کے ذریعے قائدانہ صلاحیتوں  کے ضمن میں سیمینار اور تربیتی اجتماعات (ورک شاپس) کا انعقاد کرتے ہیں۔

ہمارے پروگرام کے نتائج پر بحث کرنا ابھی قبل از وقت ہے ۔ تاہم  زیرِ تربیت  لوگ  بارہا اس بات پر اصرار کر چکے ہے کہ ایک  وسیع ترتناظر کا حصول مفید ثابت ہوا ہے ۔ ہم مستقبل میں   ایسی معلومات اکٹھی کریں گے جن سے دریافت ہو پائے  کہ R3 نے ہمارے طلباء  کے انتخاب  برائے پیشہ اور ان کی کامیابیوں  پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں ۔

ہمیں یقین ہے  کہ  وسیع تناظر  میں تعلیم یافتہ محققین  ، سائنسی کاموں کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور غوروفکر سے انجام دیں گے جس کے نتیجے میں  دیگر سائنس دان اور معاشرہ  بڑے پیمانے پر   ایک بہتر اور معقول دنیا کے لیے اس (مجوزہ) طریقہ کار پر انحصار کر سکیں گے  ۔ سائنس کو نہ صرف اپنے آپ کو درست کرنے میں بلکہ اپنی ذات میں بہتری لانے کی خاطر جدوجہد کرنی چاہیے۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search