طبیعی فطرت پر غلبہ: برٹرینڈ رسل (مترجم : انعام الرحمن میاں)

 In ترجمہ
نوٹ: برٹرینڈ رسل کی کتاب ’’ایک بدلتی دنیا کی خاطر نئی امیدیں‘‘ (New-Hopes-for-a-Changing-World) تین حصوں پر مشتمل ہے: انسان اور فطرت ، انسان اور انسان ، انسان بہ نفسہ ۔ زیر نظر تراجم ، رسل کی اس کتا ب کے پہلے حصہ کے دوسرے باب ’’کشمکش کی تین اقسام‘‘(Three-Kinds-of-Conflicts) ، تیسرے باب ’’طبیعی فطرت پر غلبہ‘‘ (Mastery-over-Physical-Nature) اور آٹھویں باب ’’طاقت کی حکمرانی‘‘(The-Rule-of-Force)پر مشتمل ہیں ۔ زیرِ نظر ترجمہ پہلی دفعہ گورنمنٹ زمیندار کالج بھمبر روڈ گجرات کے میگزین ’’شاہین‘‘ 1997-98 اور 1998-99 میں شائع ہوا۔

 

باب سوئم۔ طبیعی فطرت پر غلبہ (Mastery-over-Physical-Nature)

انسان وجود کا حامل ہے جو زمانہ تاریخ کے اعتبار سے طویل اورارضیاتی  ادوار کے اعتبار سے مختصر ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقریباً ایک ملین (دس لاکھ ) برسوں سے موجود ہے ۔ ایسے بھی ہیں ، (مثال کے طور پر آئن سٹائن ) جن کا خیال ہے کہ انسان نے اپنا دور پورا کر لیا ہے اور نسبتاً چند سالوں میں شاندار سائنسی مہارت کے ساتھ وہ خود کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہو گا ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، میں اس انتہائی نقطہ نظر کو اختیار کرنا مشکل سمجھتا ہوں لیکن اگر ہم نے اپنی نوع کی تاریخ کے اس دھندلکے انجام سے بچنا ہے تو یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم انسان کی بحیثیت انسان ، امنگوں کو اہمیت دینا سیکھ لیں الاّ یہ کہ اس  کو یا اس گروہ کے انسانوں کو ۔ کیونکہ یہ انسان بحیثیت  انسان ہی ہے جو خطروں میں گھرا ہوا ہے ، بحیثیت مجموعی اپنی نوع کا سوچنے کی نااہلیت کی وجہ سے ۔ انسان فطرت پر غلبے کے ذریعے بتدریج آزادی کی اس سطح پر پہنچ چکا ہے جس کے لیے وہ ابھی ناکافی بالغ ہے ۔ میرا خیال ہے اسے قائل کیا جائے کہ وہ خودکشی سے پرہیز کرے ۔  یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جوانی کے روشن عہد کو یاد رکھے اور تدریجاً ترقی کو  بھی ، جو اب اچانک خاتمے کے خطرے سے دوچار ہے ۔

ہمارے قدیم بزرگوں کی ابتدائی تاریخ کسی حد تک قیاسی ہے ۔ ان کے ہاں کوئی (یونانی مؤرخ )  ہیروڈوٹس نہیں تھا     جو ہمیں معلومات دینے کا متمنی ہوتا ۔ ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں اس کا ذریعہ کھنڈرات ہیں   جو بہت ہی کم ہیں ، اتفاقاً  دریافت ہوئے اور ان کی تشریحات بھی قیاسی ہیں ۔ لہذا جو بھی کہا جاتا ہے،  مشکوک ہی ہوتا ہے ۔ لیکن ہر وقت اس شک پر زور دینا اُکتا دیتا ہے اور میں اسی لیے خود کو ایک حد تک تصوری آزادی (Imaginative-Freedom) کی اجازت دوں گا تاکہ اپنے اولین ترین انسانی اجداد اور ان کے قریب ترین پیش روؤں کی زندگی کے متعلق اندازہ ہو سکے ۔

انسان درختوں پر رہنے والے بوزنوں (Apes) کی اولاد معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ منطقہ حارہ کے جنگلات میں پرمسرت زندگی بسر کرتے، جب وہ  بھوکے ہوتے ناریل کھاتے ، اگر بھوکے نہ ہوتے تو  انہیں (ناریل ) کو ایک دوسرے پر پھینکتے ۔ وہ دائمی طور پر جمناسٹک کے رسیا تھے اور ان میں ایسی پھرتی تھی جو ہمارے لیے حقیقتاً حیران کن ہے ۔ لیکن اس شجری جنت (Arboreal-Paradise) کے چند ملین سالوں کے بعد ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ناریل کی سپلائی ناکافی ہو گئی ۔ آبادی کا مسئلہ پیدا ہوا،اور دو طریقوں سے اس کا حل نکالا گیا ۔ وہ جو جنگل کے وسط میں رہتے تھے ، انہوں نے ناریل کو اتنے ٹھیک نشانے پر پھینکنا سیکھ لیا کہ وہ حریفوں کو معذور کر سکیں ۔ جس کا بالآخر نتیجہ موت ہوتی  اور آبادی کے پریشر میں کمی کا باعث بنتی ۔ لیکن وہ جو جنگل کے کنارے پر رہتے ، انہوں نے ایک اور طریقہ نکالا ۔ انہوں نے میدانوں کا جائزہ لیا اور دریافت کیا کہ وہ مختلف اقسام کے لذیذ پھل پیدا کرتے ہیں  جو اتنے ہی مزیدار ہیں جتنے کہ ناریل ، اور بتدریج و ہ درختوں سے نیچے اتر آئے اور زیادہ سے زیادہ وقت کھلے میدان میں گزارنے لگے ۔ اس کے فائدے  اور نقصان دونوں تھے ۔ واضح فائدہ یہ تھا کہ وسیع علاقے جو پہلے ان کے لیے ناقابل رسائی تھے ، وہ ان کو مل گئے ۔ دوسرا فائدہ جو آخرکار بہت اہم ثابت ہوا ، یہ تھا کہ کیونکہ ان کو چڑھنے کے لیے بازؤوں اور ہاتھوں کی ضرورت اب نہیں تھی  سو انہوں نے ان کا آزادانہ استعمال بحیثیت اوزار (Tools) کیا ۔ جلد ہی انہوں نے دریافت کر لیا کہ اگر آپ زمین پر رہیں تو پتھر اٹھانا آسان ہے جو کہ ناریل کی نسبت زیادہ  مؤثر میزائل ہے ۔ حتی کہ وہ یہ بھی جان گئے کہ نوکیلے کناروں والے پتھر ، گول کنارے والوں کی نسبت قابل ترجیح ہیں اوربعد ازاں جب  شجری بوزنوں کی افواج نے  اپنے بانی پیش روؤں کی نقل  کرنے کی کوشش کی تو انہیں نوکیلے پتھروں کی بوچھاڑ سے سابقہ پڑ ا، جس کا مناسب جواب ان کے پاس نہ تھا اور زمینی بوزنے (Terrestrial-Apes) ، اسلحہ میں سبقت کی بنا پر بڑی بڑی کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ یہ  سب کچھ تقریبا ً دس ملین (ایک کروڑ ) سال پہلے وقوع پذیر ہوا مگر میں بالکل صحیح  تاریخ (سن )  جاننے کا ادعا  نہیں کروں گا ۔ نو ملین (نوے لاکھ ) برسوں تک یا اس کے لگ بھگ ، ان زمینی بوزنوں نے بتدریج اپنا علاقہ وسیع کیا ۔ جہاں تک شجری بوزنوں کا تعلق ہے ، انہوں نے اپنا تحفظ جمناسٹک کی برتری میں  پایا ۔ زمینی بوزنے ذہانت کے استعمال میں بازی لے گئے ۔ مثال کے طور پر انہوں نے دریافت کیا کہ گھونگھے کے خول (Oyster-Shell) کو ایک پتھر سے کھولا جا سکتا ہے ۔اور رسیلہ نتیجہ ، عالمانہ امتیاز کے لیے پہلا تحفہ تھا ۔ تقریباً نو ملین برسوں کے عرصہ میں  ان بوزنوں میں سے کچھ کے دماغ ، بتدریج اتنی ترقی کر گئے کہ موجودہ دور کے ماہر بشریات انہیں انسان کی قسم  میں  شمار کرتے ہیں یا تقریبا ً بالکل ویسے ہی ۔

ہمارے ابتدائی انسانی اجداد بہت قلیل النوع تھے ۔ وہ غیر یقینی حالات میں رہتے ، موسم کی شدتوں کا سامنا کرتے ، جنگلی  جانوروں کی جارحیت کا شکار ہوتے اور سب سے بڑھ کر ،   خشک سالی کی بنا پر آنے والے قحط   خطرناک تھے ۔ ان کے پاس ہتھیار نہ تھے اور غالباً انہوں نے آگ کے استعمال میں بھی مہارت حاصل نہیں کی تھی اور اگر ان کی کوئی زبان بھی تھی تو یہ چند چیخوں سے زیادہ کچھ نہ تھی ۔ اپنی بقائے ہستی کی خاطر ان کا واحد ہتھیار ذہانت تھی اور ذہانت ایک ہتھیار کے طور پر جتنی طاقتور اب ہو چکی ہے ، اس وقت ایسی طاقت سے بہت دور تھی ۔ ذہانت کی حیاتیاتی افادیت (Biological-Usefullness)کا بیشتر حصہ  تجربہ کو منتقل کرنے کے امکان میں ہے ۔ ایک جانور دوسرے جانور سے سیکھ سکتا ہے جو وہ واقعتاً ہوتا ہوا دیکھتا ہے  لیکن وہ بیان کے ذریعے نہیں سیکھ سکتا ۔ ایک انسان جب اس نے زبان حاصل کر لی ہو ، ایسا کر سکتا ہے [1]۔لہٰذا ایک فرد کی ذہانت پورے قبیلے کی جائداد  بن جاتی ہے اور ایک نسل اگلی نسل کے حوالے کر سکتی ہے ؛  بےشمار مہارتیں  اور کاریگریاں  جو کسی بھی حیوانی نوع (Animal-Species) کی طاقت سے باہر ہیں  کہ وہ منتقل کر سکے ۔ جا نور (منتقل ) کرتے  ہیں ، یہ سچ ہے ۔ اپنے بچوں کو ایک خاص درجے تک تعلیم دیتے ہیں ۔ میں نے ایک باپ اور ماں بگلے (Sea-gull) کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو غوطہ لگانا (Dive)   سکھا رہے ہیں اور بچہ بگلے نے تقریبا ً اسی قسم کی بزدلی کا مظاہرہ کیا ، جیسا کہ انسانی بچہ کرتا ہے ۔ مگر یہ بہت سادہ چیزیں ہیں کہ جانور اس طریقے سے سکھا سکتے ہیں   جبکہ انسان بولنے کی قدرت کی وجہ سے ، کسی بھی چیز کو منتقل کر سکتے ہیں جو وہ خود جانتے ہیں  [2] اور ایسا ہی ہوا جب ہمارے اجداد ذہانت کی ترقی میں ایک خاص سطح تک پہنچ گئے تو ذہانت ، نسل در نسل ، بقا  کے لیے ا ہم عنصر بنتی گئی ۔ یہ سچ ہے کہ یہ بقائی مقاصد کے لیے ناکافی تھا ۔ انسان کی بہت سی نسلیں ختم ہو گئیں۔ انسان کے آثار متحجرہ (Fossil-men) جو کہ ماہر بشریات نے دریافت کئے ہیں ، ان میں سے بہت کم کی بابت یہ خیال ہے کہ وہ ہمارے بزرگ ہیں ۔ جو باقی بچے ، وہ ناکام اور غریب ، بدقسمتی اور ناکافی مطابقت پذیری کی وجہ سے بتدریج ختم ہو گئے ۔ لیکن پہلے انسان کے ظہور کے بعد پانچ سو ہزار سال کے عرصہ میں طبیعی انتخاب (Natural-Selection) وقوع پذیر تھا  اور انسانی دماغ کے سائز میں بتدریج اضافہ ہوا ۔ تقریباً پانچ سو ہزار سال پہلے، (چند ماہرین کے مطابق ) ایسا معلوم ہوتا ہے فطرت فیصلہ کر چکی تھی  کہ  یہ کافی ہو چکا ہے اور اس وقت سے ہم نے مزید ذہانت کو فروغ نہیں دیا۔ یہ سچ ہے  کہ ہم مزید سیکھتے ہیں ، ہم سکول جاتے ہیں ، ہم ورک شاپس میں جاتے ہیں ، ہم حکومت کے دفتروں میں جاتے ہیں اور شماریات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے (اگر ان ماہرین کی بات کا یقین کیا جائے ) کہ پانچ سو ہزار سال پہلے کے بہترین انسان ، اگر انہیں پکڑا گیا ہوتا اور ایک جدید ملک کے سکول میں بھیجا ہوتا تو وہ اتنی ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے جیسا کہ آج کے بچے کرتے ہیں ۔ ان میں جس چیز کی کمی تھی ، وہ اکتسابیت کی تھی نہ کہ پیدائشی لیاقت کی ۔

اگر ہم اپنے عہد کے مہذب انسان سے موازنہ کریں تو اولین انسان کی زندگی میں فائدے  اور نقصان دونوں تھے ۔  آبادی زیادہ نہ تھی۔ وہ مہینوں  گھوم پھر سکتے تھے بغیر اس خوف کے ، کہ کسی اجنبی سے ٹاکرہ ہو جائے ۔ طبعی ضرورتوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ زیادہ ورزش کریں تو ان کے جگر کبھی کبھار خراب ہو جاتے ۔ وہ تقریباً سو افراد پر مشتمل چھوٹے سے قبیلے میں رہتے  جہاں ہر شخص دوسرے کو جانتا تھا اور جہاں اندرونی سطح پر قبیلے میں بحیثیت مجموعی دوستی تھی ۔ بلاشبہ  وقتاً فوقتاً ان کا کسی دوسرے قبیلے سے لڑائی جھگڑا ہو جاتا ، مغلوب ختم ہو جاتے اور فاتح ان کے علاقوں کا الحاق اپنے ساتھ اس احساس کے ساتھ کرتے کہ جنگ بڑی اچھی تفریح ہے ۔ لیکن غالباً شروع میں ایسی جنگیں شاذ ہی تھیں کیونکہ انسان بہت تھوڑے تھے ۔

ہماری پریشانی خوراک رسانی کی تھی ۔ انداز ہ ہے کہ اس وقت ہر انسان کو اپنی بقا ء کے لیے کم از کم دو مربع میل کی ضرورت تھی اور اپنے پاس دو مربع میل ہونے کے باوجود بھی وہ اکثر بھوکا رہتا اور اکثر اس کمی کا شکار ہو کر مر جاتا  ۔

تاہم ، بتدریج انسان اس غیر یقینی صورت حال سے نکلا ۔ شاید پہلا مرحلہ قدیم ہتھیاروں کی ایجاد تھی جس نے اسے اس قابل بنایا کہ جانوروں کو مار کر خوراک حاصل کر سکے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ انسان نے آ گ کا استعمال کس مرحلہ پر سیکھا ۔ شاید بعد میں ، شاید پہلے ۔خیر، جب  بھی یہ مرحلہ آیا ہو ، یہ بہت بڑی نعمت ثابت ہوا ۔ اس نے انہیں اس قابل کیا کہ وہ جنگلی جانوروں کو اپنے سے دور رکھ سکیں ۔ اس سے انہوں نے رات کو گرماہٹ حاصل کی اور آخرکار، شاید اتفاقاً انہوں نے دریافت کر لیا کہ یہ کھانا پکانے  کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے [3]۔

کوئی شبہ نہیں ،یہ تدریجاً شروع ہوا ۔ جانوروں کی کچھ آوازیں ہیں جو سگنل کا کام دیتی ہیں ۔ لیکن بہترین بوزنے بھی ، اگرچہ وہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے بولنے کے قابل ہو ں ، حتی کہ انتہائی خاطر خواہ معلمانہ رہنمائی (Most-Intensive-Professional-Instruction) کے ساتھ بھی الفاظ ادا کرنے کے قابل نہ ہوئے ۔ بولنے کی قدرت کے لیے انسان کا اعلیٰ دماغ ، بین طور پر ایک ضرورت ہے ۔ جب انسان کافی ذہین ہو گئے ، ہمیں فرض کر لینا چاہیے کہ انہوں نے بتدریج اپنی چیخوں کی تعداد میں ، مختلف مقاصد کے لیے اضافہ کر لیا ۔ وہ عظیم دن تھا جب انہوں نے دریافت کر لیا کہ گویائی (Speech) ، بیان (Narrative) کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ تصویری زبان (picture-language) ، بولنے کی زبان (Oral-Language) سے پہلے وجود میں آئی ۔ انسان اپنے غار کی دیوار پر ایک تصویر کھینچ سکتا تھا ، جس سے ظاہر ہو کہ وہ کس سمت گیا تھا یا اسے کس قسم کے شکار کی امید ہے ۔ غالباً تصویری زبان اور بولنے کی زبان  ، ایک ساتھ ہی پروان چڑھتی رہیں  ۔ مجموعی اعتبار سے میں اس طرف مائل ہوں کہ زبان ،انسانوں کی ترقی میں سب سے اہم واحد عنصر کی حامل ہے ۔

دو اہم مرحلے ، تحریری تاریخ کی شروعات سے بہت پہلے نہیں گذرے ۔ پہلا،جانوروں کو پالتو بنانا تھا ۔ دوسرا،  زراعت تھا ۔  زراعت جو کہ مصر اور(عراق کے علاقے )  میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) کی دریائی وادیوں میں شروع ہوئی ،  انسان کی ترقی میں ایسا مرحلہ تھا جس کا موازنہ کسی سے بھی نہیں ہو سکتا تھا ، جب تک ہمارا اپنا مشینی دور نہیں آ گیا ۔ زراعت نے ایسے خطوں میں نوع انسانی کی تعداد میں بے حد اضافہ کو ممکن بنا دیا ، جہاں یہ عمل میں لائی جا سکتی تھی  لیکن پہلے  پہلے  یہ خطے بہت کم تھے ۔ حقیقت میں یہ صرف وہ تھے جہاں فطرت ہر کٹائی کے بعد زمین کو زرخیز بنا دیتی تھی ۔ زراعت کو شدید مدافعت کا سامنا کرنا پڑا ، اسی طرح جیسے رسکنز (Ruskin)اور سیموئیل بٹلر(-Samuel Butler) نے  مشینوں کی مخالفت کی ۔ خانہ نشیں لوگوں کی نسبت جو ایک ہی جگہ قیام کرتے اور زمین کے غلام بنے ہوئے تھے ، بدوی خانہ بدوش خود کو بہت اعلیٰ خیال کرتے ۔ اگرچہ خانہ بدوشوں نے بار بار جنگی فتوحات حاصل کیں ، لیکن اعلیٰ طبقوں نے زرعی غلاموں کے ذریعے جو طبعی آرام و سہولتیں حاصل کیں وہ ہمیشہ رائج اور برقرار رہتیں  نیز  زرعی رقبہ میں بتدریج اضافہ ہو گیا ۔ حتی کہ اب بھی یہ عمل ختم نہیں ہوا لیکن اس سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اہمیت کا حامل نہیں رہا ۔

دوسری بنیادی تکنیکی ترقی ، جو تحریر ی تاریخ میں انسان کے ظہور پر مقدم ہے ، وہ تحریر کی ایجاد تھی ۔ تحریر بھی گویائی کی طر ح بتدریج پروان چڑھی ۔ اس کی ترقی ،  تصویروں کے ذریعے ہوئی لیکن جیسے یہ ایک خاص مرحلے تک پہنچی  ۔ اس نے ریکارڈ رکھنے اور لوگوں کو معلومات منتقل کرنے کو ممکن بنا دیا ، جو اگرچہ اس وقت موجود نہ ہوں جب معلومات دی گئیں ۔

آگ، گویائی ، ہتھیار ، پالتو جانور ، زراعت اور تحریر کی لگاتار ایجادوں اور دریافتوں نے مہذب گروہوں کے وجود کو ممکن بنا دیا ۔ انہوں نے وہ تمام بنیادی سازوسامان مہیا کر دیا جس پر ایک طویل عرصے تک مہذب انسان کی بقا کا انحصار رہا ۔ تقریباً تین سو قبل مسیح   سے  لیکر دو سو سال سے کم عرصہ  پہلے تک ، کوئی ایسی تکنیکی ترقی نہیں ہوئی ، جس کا ان سے مقابلہ کیا جا سکے ۔ اس طویل عرصہ کے دوران انسان کے پاس وقت تھا کہ وہ اپنی تکنیک کا عادی ہو جائے اور اس کی مناسبت سے عقائد اور سیاسی تنظیمیں تشکیل دے ۔ بلاشبہ ، مہذب زندگی کے علاقے میں بے حد توسیع ہوئی ہے ۔ پہلے یہ نیل ، فرات ، دجلہ اور سندھ تک محدود تھی لیکن متذکرہ دور کے اختتام پر اس نے دنیا کے قابل سکونت بہت بڑے حصے کو لپیٹ میں لے لیا ۔ میرا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس عرصہ کے دوران تکنیکی ترقی سرے سے ہوئی ہی نہیں ، ترقی ہوئی تھی حتی کہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل دو ایجادات   بارود اور قطب نما اس دور میں ہوئیں ۔ لیکن  اپنی انقلابی قوت  کے  اعتبار سے  ،ان میں سے کسی کا بھی گویائی ، تحریر اور زراعت کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔

اٹھارویں صدی کے اختتام پر انسان ایک نئے دور میں داخل ہوا جس میں ایک تبدیلی واقع ہوئی جو اتنی ہی بنیادی تھی جتنا کہ زراعت کا اختیار کیا جا نا۔ یقیناً ، میرا مطلب مشینی پیداوار اور سائنس کو صنعت کے لیے استعمال میں لانا   ہے ۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ طبیعی سائنس تقریباً تین سو پچاس سال  سے  ثقافت میں ایک طاقتور عنصر کی حیثیت سے وجود میں آئی ہے ۔ مشینی پیداوار اس سے تقریباً آدھے وقت سے اپنا وجود رکھتی ہے ۔ اس عرصہ کے دوران ، اپنی ایجاد کے وقت سے ہی  اس نے خود کو انتہائی حیران کن انقلابی قوت کے طور پر ثابت کیا ہے ۔ اور یہ انسان کے فطرت کے ساتھ تعلقات میں بلا شرکت غیرے کارگر رہی ہے ۔ لیکن فطرت کے ساتھ انسان کے تعلق کو بالکل بدل کر ، اس نے پرانے توازن کو تباہ کر دیا ہے ، جو انسان  کے دوسرے انسان سے تعلق اور خود اپنے ساتھ تعلق میں موجود تھا ۔ ان دو حلقوں میں یہ جن انقلابات کی متقاضی ہے ، انہیں ابھی وقوع پذیر ہونا ہے ۔ دنیا کے مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے ، یہ حقیقت ہے ۔

وہ مخصوص سرگرمیاں جو انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں ، ان کا انحصار طبیعی فطرت  کی پابندی یا غلامی کو کم کرنے پر ہے۔ جب تک  اسے اپنا تمام وقت خوراک اکٹھا کرنے میں گزارنا پڑتا تھا وہ اپنی توانائی کی کافی مقدار ، جنگ ، سیاست ، الہٰیات یا سائنس کی طرف نہ لگا سکا [4]۔ یہ چیزیں محنت کی بارآوری کی شاخیں ہیں ، ان کا انحصار ایک انسان کی پیداوار کے بہتات کا دوسرے انسان  کی خوراک کے صرف پر ہے ۔ یہ فراوانی جتنی زیادہ ہوتی ہے ، اتنا ہی انسان کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو سیاست ، جنگ ، ثقافت اور ایسی ہی عیاشیوں میں مصروف کر سکے۔

زرعی ثمرآوری  میں اضافہ دو طریقوں سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ یہ ہر ایک  کے حصے میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے یا یہ حصہ داروں کی تعداد میں اضافے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔ موجودہ عہد کے مغربی ممالک کے سوا، مجموعی طور پر  محنت کی بارآوری میں اضافہ ، بنیادی طور پر تعداد میں اضافے کی نذر ہوا ہے ۔ اگر دبستان کرداریت (Behaviorists) کی طرح  ہم نے انسان کی خواہشات کو ، اس کے اعمال کے ذریعے جانچنا ہے تو ہمیں اخذ کر لینا چاہیے کہ وہ زیادہ شوق سے جس چیز کی خواہش رکھتا ہے ، وہ دنیا کی آبادی میں اضافہ ہے ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ، قدیم زمانے میں ہر شخص کے لیے دو مربع میل کا علاقہ تھا ، جس حد تک زمین سپورٹ کر سکے اور صرف وہاں ، جہاں معقول قدرتی زرخیزی تھی ۔ آج کا انگلینڈ ، تقریباً سات سو پچاس مربع میل کی آبادی کی کفالت کر رہا ہے یعنی انسانی ہنرمندی کی ایجاد سے پہلے یہ جتنی کفالت کر سکتا تھا ، اس سے پندرہ سو گنا زیادہ ۔ یقیناً اس کا انحصار بنیادی طور پر صنعت پر ہے ، زراعت پر نہیں ۔ لیکن اگر ہم انڈیا اور پاکستان کو لے لیں جو بنیادی طور پر زرعی ممالک ہیں تو ہم دو سو چوہتر فی مربع میل کی آبادی پاتے ہیں [5]۔  جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، یہ انتہائی نچلی سطح کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے  کہ انڈیا اور پاکستان کے لوگوں نے تہذیب کی تکنیک کے استعمال میں یکسر ترجیح  ، مسرت اور ثقافت میں اضافے سے پہلوتہی کرتے  ہوئے  آبادی میں اضافے کو دی  ہے ۔ اگرچہ موجودہ عہد تک دنیا میں یہ عمومی قاعدہ رہا ہے ۔ترقی کی دوسری اقسام میں بھی سرسری فراوانی رہی ہے ۔ مشینی پیداوار  کے زمانے سے پہلے یہ ممکن رہا ہے کہ آبادی کے ایک حصے کوخوراک  کی پیداوار کی بجائے  دوسرے مقاصد کے لیے الگ رکھا جائے ۔ رئیس اور پادری گزرے ہیں ، بری اور بحری فوجیں رہی ہیں ، فلسفی اور فنکار بھی ہوتے رہے ہیں ، اگرچہ یہ تمام اتنے کم تھے کہ شماریاتی کتب میں ظاہر نہ ہو سکے ۔ فرعون اوربخت نصر(Nebuchadnezzar)، سقراط اور افلاطون ، بدھا اور محمد (ﷺ) ، لیونارڈ و اور پچ ، یہ تمام اس لیے ممکن تھے کہ خوراک پیدا کرنے والے ، جتنی وہ خود کھا سکتے تھے اس سے زیادہ پیدا کر سکے ۔ لیکن جب کوئی ایسا معاشرہ،  جیسا کہ آج کی ریاست ہائے متحدہ  ہے ، کا خیال کرتا ہے تو وہ ایک نیا مظہر پاتا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بہت زیادہ چیزوں سے ، زندگی کی انتہائی ضروریات کے ماسوا بھی   لطف اندوز ہوتی ہے  اور اس کے باوجود آبادی کا بہت بڑا حصہ پیداوار سے منسلک نہیں ہے ،خواہ  زرعی پیداوار ہو یا صنعتی ۔ تمام بچوں کو جب وہ خود کو سنبھالنے کے قابل ہو جاتے ہیں ، تعلیم دی جاتی ہے ۔ مسلح افواج ہیں ، صحافی ہیں اور وہ تمام لوگ جو درسی معاملات سے متعلقہ ہیں ۔ پھر استاد ہیں ، پادری ہیں ، سیاستدان ہیں اور سرکاری عہدے دار ہیں ۔ یہ تمام لوگ قدیم انسان کے نقطہ نظر سے ، تعیش ہیں ۔ لیکن ایک جدید معاشرہ  ان میں سے کم از کم کچھ کے بغیر تو ناممکن ہی ہو گا ۔

فطرت کی غلامی سے آزادی نے ، نظری اعتبار سے انسان کو آزادانہ طور پر اپنے مقاصد کے انتخاب کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ اس حد تک کہ پہلے وقتوں میں کبھی ممکن نہ تھا ۔ میں نے کہا، ’’نظری اعتبار سے‘‘ کیونکہ طویل عرصے کی تربیت اور طبعی  انتخاب  نے انسانی فطرت میں جو تاثیر اور ہیجان داخل کر دیا ہے ، وہ موجودہ طبعی ضروریات سے قطع نظر  انسانی عمل کا تعین کرتا ہے ۔ ایک قوم اپنی تعداد میں اضافے سے جو کچھ بچا سکتی ہے  وہ ایک حد تک اس کی اپنی فلاح کی نذر ہو جاتا ہے ۔

حتی ٰ الوسع ، یہ اپنی توانائیاں دوسرے لوگوں کو ختم کرنے یا ختم کرنے کی تیاری میں یا جنہوں نے ماضی میں دوسروں کو ختم کرنے میں مدد دی ہو ، ان کو معاوضہ دینے میں صرف کر دیتی ہے ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ملک کی مجموعی پیداوار کا تقریباً پانچواں حصہ نئے ہتھیاروں پر خرچ ہوتا ہے ۔ لہٰذا فطرت کی غلامی سے آزادی کسی طور بھی سراسر نعمت نہیں ہے ۔ یہ صرف اس لحاظ سے نعمت ہے کہ انتخاب کی نجی آزادی (Resulting-Liberty-of-Choice) ان سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے کارآمد ہیں ۔ لیکن جہاں تک یہ جھگڑا لوجذبوں کو محض آزاد کرتی ہے ، یہ بالکل کوئی اچھائی نہیں کرتی ۔ بلکہ اس کے بالکل الٹ کرتی ہے ۔ کچھ لوگ صنعت میں ایٹمی توانائی کے استعمال کی بابت عمدہ کہانیاں سناتے ہیں اور اقتصادیات کے بارے میں  بھی ، جو اس کا نتیجہ ہو گا ۔ اگر دنیا سیاسی طور پر ایسی ہی رہتی ہے ، جیسی کہ اب ہے تو ایسی معیشتیں نقصان کے سوا کچھ نہیں کریں گی  وہ انسانی توانائی کے بہت بڑے حصے کو آزاد چھوڑ دیں گی ، باہمی تباہی کے مقصد کے لیے ۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ قدرت پر ہماری نئی فتح و نصرت ، نئی ذمہ داریوں اور نئے فرائض کی حامل ہے ۔ اگر انسان نے اس موافقت سے معذوری کا ثبوت دیا تو سائنس اور سائنسی تکنیک کی تمام تحریک ایک سانحہ ثابت ہو گی اور شاید انسان کو اندھیر نگری میں لے جائے گی ۔ اگر ہم فطرت کے غلام ہوتے تو ہماری ذہنیت غلامانہ ہوتی اور فطرت پر فیصلے چھوڑ دیتے ۔ جواب لازماً ہمارے ہوتے ۔ یہ مشکل ہے کہ جب سے روایتی مذہب اور اخلاقیات کے زیادہ حصے انسان کی ، فطرت کی غلامی سے متاثر ہوئے اور فکر و احساس کے طریق جو ہم نے اپنی ثقافت اور اپنی ابتدائی پرورش سے حاصل کئے ، ان پر قابو پانا مشکل ہے ، حتی کہ جب حالات بھی مطلق طور پر ایک مختلف منظر کا تقاضا کرتے ہوں ۔ میں یہ دعوی ٰ نہیں کر رہا کہ انسان قادر مطلق ہے ۔  اس کے برعکس ، میں اگلے باب میں انسانی اختیار کی حدود پر بات کروں گا ۔ لیکن میں یہ تردد کروں گا کہ اپنے اسلاف کی نسبت ، جدید سائنسی انسان کم محدود ہے ۔ اور ایسی واضح   حدِ فاصل (باؤنڈری ) نہیں کھینچی جا سکتی جس سے پرے ، حدیں رجوع نہ کر سکیں ۔ فطرت کے ان گنت حقائق جو کبھی بے رحم مفروضات تھے اب عمدہ محل ہیں ۔ ریگستان للکار رہے ہیں ، آسڑیلیا کے دریاؤں کو مشرق سے مغرب کی طرف بہایا جا سکتا ہے بجائے مغرب سے مشرق کی طرف  ۔ بہت جلد ممکن ہو جائے گا کہ پہاڑی علاقوں کے ناموزوں حصے مسمار کئے جا سکیں ۔ اور میں یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ ریڈیو ایکٹوٹی (Radioactivity) کے ذریعے قطبی  برف (Polar-Ice) پگھلا دی جائے گی ۔ ایسا چاند کا سفر ممکن ہونے سے پہلے ، زیادہ دیر نہیں لے گا ۔ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مختلف اقسام کے طاعون کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے اور ہم امید کر سکتے ہیں کہ دوسری اقسام کو جلد ہی ختم کر دیں گے ۔ ہمارے خانہ بدوش اجداد، جب رات کو اپنے گلوں اور ریوڑوں کی نگرانی کرتے تو ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور خود کو آسمانی اجسام کی تاثیر سے مغلوب خیال کرتے ۔ ہوا اور طوفان ، خشک سالی اور تپش ، دم دار ستارے اور شہاب ثاقب اور طاعون نے ان کی زندگیوں کو دہشت زدہ بنائے رکھا اور انہوں نے عاجزی کے ذریعے بچنے کی امید کی ۔ جدید انسان طاعون کا مقابلہ عاجزی سے نہیں کرتا ، اس نے پالیا ہے کہ ان کا مقابلہ سائنسی علوم سے کیا جانا چاہیے ۔ حقیقت میں سائنسی علم ذرائع دیتا ہے (جب وہ ذرائع ہوتے ہیں ) انسا ن کے ماسوا دشمن سےلڑنے کا ، لیکن یہ اس انسانی دشمن سے لڑنے کا ذریعہ نہیں بتاتا جو انفرادی روح کا حصہ ہے یا اس سے باہر ہے ۔ انسان کے ، فطرت کے ساتھ مبارزت کے مسائل ، جہاں تک وہ حل ہونے کے قابل ہوں ، طبیعی سائنس کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں ۔ لیکن صرف یہی مسائل نہیں ہیں جن کا انسان کو سامنا ہے ۔ اس کے دیگر مسائل کے لیے دوسرے طریقے ضروری ہیں ۔

 

 

 

[1]                                              (از مترجم) ، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ تجربی انداز تعلیم ، جیسا کہ سائنسی علو م میں رائج ہے ۔ طفولیت ذکاوت کی آئینہ دار ہے لیکن کوئی اہل زبان محض نظری تعلیم سے بھی کسی چیز کی تفہیم حاصل کر سکتا ہے ۔ ہمارے سائنس کے طالب علم بے زبان ہیں ۔ نتیجہ سامنے ہے ۔

[2]                                              (از مترجم)، اسی لیے انسان کو حیوان ِ ناطق بھی کہا جاتا ہے ۔

[3]                                             (از مترجم )، ول ڈیوراں کے مطابق ، دانتوں کی کمزوری تہذیب کی علامتوں میں سے ہے کیونکہ قدیم انسان آگ کے استعمال سے ناواقفیت کی بنا پر کچا گوشت کھاتا تھا ۔ لہذا  اس کے دانت مضبوط تھے ۔ زبان کا سرچشمہ  مکمل طور پر تاریکی میں ہے ۔

[4]                                              (از مترجم) ، موجودہ عہد میں تیسری دنیا اسی مرحلے میں ہے ، اسی لیے سیاست کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ مذہبی توہمات عام ہیں اور سائنسی سپرٹ تو بالکل مفقود ہے ۔

[5]                                              (از مترجم)، یہ کتاب 1951ء میں شائع ہوئی تھی ، اس لیے اعدادو شمار پرانے ہیں ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search