ڈاکٹر عبدالسلام سے گفتگو – مصاحبہ کار: شاہد ندیم (مترجم: کبیر علی)
کوئی ساٹھ برس قبل چودھری محمد حسین نامی جھنگ کے سکول استاد اور معمولی زمیندار نے جمعہ کی نماز کے دوران ایک منظر دیکھا۔ جس سے اُس پر منکشف ہوا کہ اس کے ہاں ایک بیٹا ہو گا اور اُس کا نام عبدالسلام ہو گا۔
پیش گوئی کے مطابق اُس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام عبدالسلام رکھا گیا۔ جب پروفیسر سلام نے 1968ء میں ’ایٹم فار پیس پرائز‘ حاصل کیا تو اُن کے والد نے انھیں لکھا،’’ذرا بتاؤ تو وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے تمھارا نام عبدالسلام (سلامتی کا بندہ) رکھوایا۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ تمھیں ایک دوسرے انعام کی آرزو ہے۔ خدا نے چاہا تو وہ بھی تمھیں مل جائے گا۔‘‘
اور پھر چودھری محمد حسین کے بیٹے نے وہ انعام بھی حاصل کیا۔
پروفیسر عبدالسلام سے انٹرویو کے لیے جب میں امپیریل کالج لندن پہنچا تو ان کے دفتر میں ایک اہم آدمی موجود تھا ۔ جان تھامسن نامی یہ شخص اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر تھا اور نیویارک سے فقط اس لیے آیا تھا کہ اپنے والد کو ملنے والے نوبل پرائز کی عکسی نقل کرنے کے عمل کی نگرانی کرسکے۔ یہ نقل امپیریل کالج کے ریکارڈ کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔ پروفیسر سلام خود بھی کسی زمانے میں امپیریل کالج کے طالب علم رہے تھے اور اب پچھلے 20 سال سے اس کالج کے نظری طبیعیات کے شعبہ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بھی 1979ء میں طبیعات میں اپنے شاندار اور تاریخی کام کی وجہ سے ملنے والے اپنے نوبل ایوارڈ کی نقل امپیریل کالج کے ریکارڈ کے لیے تیار کروائی تھی۔ ’’جے۔پی تھامسن کا ایوارڈ تو بہت محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ آپ کا اپنا ایوارڈ کہاں ہے؟‘‘ ، میرے اس سوال پہ پروفیسر سلام مسکرائے۔
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ان کی یہ مسکراہٹ طنزیہ تھی یا اداسی بھری، کیونکہ اسے ان کی تقریبا سفید داڑھی نے چھپا لیا تھا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ میرے بچوں کو اس نقل کے بارے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں ، تاہم پاکستان میں میرے کالج کے طلبا کو کبھی یہ موقع نہیں مل سکا کہ وہ بھی اس ایوارڈ کی نقل کو دیکھ لیں اور فخر کر سکیں۔ مجھ سے کبھی اس کی نقل یا نوبیل کی یادگار کے بارے میں پوچھا ہی نہیں گیا۔‘‘ مجھے معلوم تھا کہ دبیز شیشوں کے پیچھے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا رہی ہیں۔
پروفیسر نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے کیا، کئی سال وہاں پڑھایا اور کالج کی فٹبال ٹیم کے نگران بھی رہے۔ تاہم کالج کو مسلم دنیا اور پاکستان سے سائنس میں پہلا نوبیل پرائز جیتنے والے اپنے سب سے تابندہ طالب علم سے اس طرح کی یادگار حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
یہ انعام جیتنے کے بعد انہیں ساری دنیا سے دعوتیں ملیں، ہر خطے کی جامعات نے انہیں اعزازات سے نوازا ( ان جامعات میں ہندوستان کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، گورونانک یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی بھی شامل تھیں) تاہم ان کی مادرِ علمی کو اس قسم کا کوئی خیال نہ آیا۔
سائنس کے شعبے میں اپنے ملک کا نام سب سے زیادہ روشن کرنے والے آدمی سے بے رحمانہ لاتعلقی اور تعصب فقط اس کی مادرِ علمی تک محدود نہ تھا بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کا ڈاکٹر عبدالسلام کے لیے عمومی رویہ یہی تھا۔ تاریخ ِ سائنس میں انمٹ نقوش چھوڑنے والے عبدالسلام کی طرح کئی دوسرے لوگ بھی ہمارے معاشرے کے سائنسی فکر کے متعلق تعصبات اور عجیب و غریب معیارات کی نذر ہو کے کہیں گم ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن کوئی شے بھی پروفیسر سلام کو متزلزل نہیں کر سکی۔ جنگ عظیم دوم نے انہیں سول سروس میں جانے سے بچا لیا تو گورنمنٹ کالج کے پرنسپل نے اپنی رپورٹ میں یہ اعلان کر کے کہ ’’سلام ایک اچھا استاد نہیں ہے‘‘ انہیں سائنسی تحقیق کے لیے بچا لیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے والا جھنگ کا یہ راجپوت ایک کے بعد ایک اقلیم فتح کرتا رہا ۔ اس نے اپنی عمر کے برسوں سے زیادہ عالمی انعامات جیتے ہیں جن میں ایٹم فار پیس ایوارڈ، یونیسکو آئن سٹائن ایوارڈ، برطانوی شاہی تمغہ، زیک امن ایوراڈ اور کیمبرج سے ہاپکن اور ایڈمز ایوارڈز شامل ہیں۔ انرجی کی چار صورتوں میں سے دو کو ایک ہی ثابت کرنے پہ انہیں نوبیل انعام دیا گیا، جس سے نظری طبیعیات کی دنیا میں انقلاب آ گیا۔ اور اگر ان کی سوچ کے مطابق انرجی کی ان چاروں قوتوں کے ایک ہی ہونے کے ثبوت مل گئے جس کیلئے تجربات جاری ہیں تو ایک اور نوبیل کا امکان روشن ہے اور ان کا نام نیوٹن اور آئن سٹائن کے ساتھ لیا جائے گا۔
شاید ایک عام آدمی یہ سوچے کہ جدید نظری طبیعیات میں اس قدر منہمک آدمی خشک اور غیر دلچسپ ہو گا یا کم از کم اس پہ ہر وقت تحقیق ہی طاری رہتی ہو گی تاہم پروفیسر سلام ایسے نہیں ہیں۔ وہ ترقی پذیر ممالک، خصوصا مسلم ممالک میں سائنسی ترقی کے لیے اور تیسری دنیا کے مسائل کے لیے ایک متحرک اور پرجوش مہم چلائے ہوئے ہیں۔
اٹلی میں 1964 ءسے قائم شدہ ’عالمی مرکز برائے نظری طبیعات‘ ایک منفرد ادارہ ہے پروفیسر سلام اس کے بانی اور تاحال اس کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے میں تیسری دنیا کے طبیعیات دانوں کو مغربی طبیعیات دانوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے اور وہ اپنی تحقیق کو آگے بڑھا تے ہیں۔
وہ ان 17’’داناؤں‘‘ میں بھی شامل ہیں جو امن و انسانیت کی فلاح کے لیے سائنس کے استعمال کو فروغ دینے کے کیلئے اقوامِ متحدہ کے مشیر ہیں۔وہ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں کئی دیگر نمایاں عہدوں پہ بھی فائز رہے ہیں، جہاں انہوں نے تیسری دنیا کا مقدمہ پوری طاقت سے لڑا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے ان کا بیک وقت مضبوط اور کمزور پہلو رہا ہے۔ انہوں نے اپنا سارا اثر و رسوخ اور انعامات سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان میں سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے خرچ کی ہے۔ وہ پہلے نوبیل انعام یافتہ تھے جنہوں نےقبولیت انعام کے وقت کی گئی تقریر کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا۔ اسی طرح وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے اس موقعے پہ اچکن، شلوار، پگڑی اور کھسہ پہنا اور اپنے پوتوں کو اس تقریب میں لائے۔ فاؤنڈیشن کی طرف سے ایک خاتون کو ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا کہ کہیں وہ اپنی ہی ’’تقاریر‘‘ نہ شروع کر دیں۔ اگلی صبح اخبارات جھنگ کے اس عجیب آدمی کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے، تصاویر میں وہ سب سے نمایاں نظر آئے۔ ایک عنوان کچھ یوں تھا، ’’پروفیسر سلام! انعام آپ کا ہوا‘‘۔
شاہد ندیم: پروفیسر سلام! ایک معاشرہ جو سائنسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، ایک انتظامیہ جس کے پاس سائنس کے لیے کوئی روپیہ اور وقت نہیں ہے، افسر شاہی جس کے پاس سائنسدانوں کیلئے توہین کے سوا کچھ نہیں، ایک ایسی تاریخ کہ جس میں صدیوں سے بین الاقوامی اہمیت کا حامل کوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوا، ایسے مخاصمانہ امتزاج سے عبدالسلام کیسے پیدا ہو گیا؟
پروفیسر سلام: میرا نہیں خیال کہ ہمارے ملک یا مسلم دنیا میں جوہرِقابل کی کوئی کمی ہے۔ جب بھی موقع ملا، ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر قوم میں نابغے ہوتے ہیں۔ چینی یا جاپانی قوم کی اجتماعی کوششیں ایک نابغے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستانی ذہانت انفرادی حیثیت میں بہترین ہے۔ میں تو اس (ذہانت) کا موازنہ فرانسیسیوں سے کرتا ہوں اور اسی باعث ورثے میں ملنے والے برطانوی نظام تعلیم سے زیادہ میں فرانسیسی نظام کو ترجیح دیتا ہوں۔ آپ نے افسرِ شاہی کے رویے کا تذکرہ کیا۔ یہ لوگ برطانوی طریقے سے تربیت یافتہ ہیں جس میں وہ ایک سول سرونٹ کو بعض کلاسیکی چیزیں اور کچھ عمومی چیزیں پڑھاتے ہیں اور اسے گھڑ سواری وپیراکی کے چند اسباق دے کر سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی محکمے کو چلانے کے قابل ہو گیا ہے ، آج اگر وہ پولیس کا سربراہ ہے تو کل پلاننگ کمیشن کا سربراہ۔
یہ احمقانہ ہے۔ خود برطانیہ کو دیکھ لیجئے، اسے نالائق افسرِ شا ہی نے تباہ کر دیا ہے اور جرمن و فرانسیسی افسرِ شاہی نے یورپی کمیونٹی میں انہیں بری طرح سے شکست دی ہے۔
میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ افسرِ شاہی پہ اس طرح کی تربیت کا کیا اثر ہوتا ہے۔ جب میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا رہا تھا تو ایک روز میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ سے ملنے گیا ( یہ صاحب اس سے پہلے پولیس کے سربراہ رہ چکے تھے، ہے نا مزے کی بات )۔ ہمیں رہائش کے کچھ مسائل کا سامنا تھا کیونکہ پناہ گیروں کے مسائل کی وجہ سے کوئی گھر میسر نہ تھے۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ اس مسئلے پہ کچھ کرنا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا، ’’ہر کوئی لبِ سڑک سوتا ہے، تم بھی ایسا ہی کرو‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’اپنے بارے بھی کچھ ارشاد کیجئے، آپ کا تو ایک بڑا بنگلہ ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ ،’’وہ میں نے اپنے ذرائع سے تعمیر کروایا ہے‘‘۔ پھر میں نے تجویز دی کہ پلاننگ کمیشن میں سائنسدانون کو بھی منصوبہ سازی کے لیے شامل کرنا چاہیے۔ان کا جواب خرد کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ فرمایا، ’’دیکھو! سائنسدان تو باورچیوں کی طرح ہوتے ہیں، جو آرڈر پہ اشیاء تیار کرتے ہیں۔ میں باورچیوں کو اجازت نہیں دے سکتا کہ سارےگھر کو چلانے لگیں‘‘۔ ہمارے نا خداؤں کے اس طرح کے توہین آمیز رویے کے بعد سائنس کا ایک سکالر کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔ فرانسیسی نظام میں ان کے پاس پولی۔تکنیکی ادارے ہیں جہاں پہ منتخب نوجوانوں کو مختلف میدانوں میں تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اور پھر متعلقہ شعبوں میں نمایاں عہدے دیے جاتے ہیں۔
ندیم: لیکن مسئلہ صرف افسرِ شاہی کا ہی تو نہیں ہے ؟
سلام: درست۔ ہمارے ملک میں سیکھنے اور کسی بھی قسم کے علمی شغل کی کوئی عزت نہیں ہے۔ شرح خواندگی کو دیکھ لیجئے، یہ خطرناک حد تک کم ہے۔ ہمارے جیسے مسائل کا شکار اکثر ممالک سے بہت ہی نیچے ہے۔ چھ سے گیارہ سا ل کی عمر کے بچوں میں شرح خواندگی فقط 45 فیصد ہے حالانکہ ترقی پذیر ممالک کی اوسط 64 فیصد ہے۔ ملائشیا 92، شام 93، الجیریا 73، ہندوستان 66 اور بنگلہ دیش میں 53 فی صد ہے۔
ثانوی درجہ تعلیم میں (یعنی 12 سے 17 سال تک) ہماری شرح خواندگی 13 فیصد ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک کی اوسط 38 فیصد ہے۔ اسی طرح ہماری یونیورسٹی کے درجے کی شرح خواندگی فقط 3 فیصد ہے جبکہ اگر موازنہ کیا جائے تو ترقی پذیر ممالک کی اوسط 9 فیصد ہے۔ فقط حکومت یا افسرِ شاہی یا نوآبادیاتی حکمرانوں کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہم سب اس بے حسی کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے اکثر سیاسی یا سماجی مسائل کا تعلق بھی تعلیم کی کمی کے ساتھ ہے۔
اگر ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں زندہ رہنا ہے تو ہمیں اس رویے کو بدلنا ہو گا۔ یہ ممکن ہے اور بہت ہی تھوڑے عرصے میں ، حتیٰ کہ ایک نسل کے دوران ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی افسرِ شاہی کی پوری روایت فقط ایک سکو ل اور ایک آدمی نے بدل دی تھی یعنی ہارو سکول کے ڈاکٹر آرنلڈ۔ غالبا ولنگٹن نے کہا تھا کہ واٹر لو کی جنگ دراصل ہارو کے میدانوں میں جیتی گئی۔
ندیم: تاہم یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ علم و سائنس ہمیشہ سے مسلمانوں میں اس قدر ناقابلِ التفات نہیں رہے؟
سلام: بے شک ۔ مسلمانوں نے سائنس اور فلسفے کی ترقی میں عظیم خدمات سر انجام دی ہیں اور اس نکتے پر میں کئی مواقع پہ زور دے چکا ہوں، نوبیل انعام کی تقریب میں بھی میں نے یہ نکتہ پیش کیا۔ سارٹن نے اپنی کتاب ’’تاریخِ سائنس‘‘ میں سائنسی کامیابیوں کی داستان کو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ مثال کے طور پہ 400-450 قبل مسیح کے عہد کو افلاطون کا عہد کہا ہے۔ 750-1100 عیسوی کا دور جابر، خوارزمی، رازی، مسعودی، ابوالوفا، بیرونی اور عمر خیام جیسے مسلم سائنسدانوں کی مسلسل ترقیوں کا عہد ہے۔ اور پھر اگلے 250 سال تک یہ اعزاز ابنِ رشد، طوسی اور ابنِ نفیس جیسے مسلم مفکرین کو حاصل رہا۔ لیکن جب اسلام ہندوستان میں آیا تو اسلام میں سائنسی روایت قریب قریب دم توڑ چکی تھی، اور پھر ہمیں وہ ناخواندہ بادشاہ ملتے ہیں جن پہ ہر وقت اپنی شان و شوکت کا خبط سوار رہتا تھا۔
انہوں نے فقط عمارتیں چھوڑی ہیں۔ کسی مسلم بادشاہ نے سکولوں ، کالجوں اور جامعات پہ رقم خرچ نہیں کی۔ وہی رویہ ابھی تک چلا آ رہا ہے۔ آپ نے فوجی افسروں کو انعام میں دیے گئے مربعوں کے بارے میں اکثر سناہو گا، لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ کسی عالمانہ کامیابی پہ کسی کو زمین انعام کے طور پہ ملی ہو؟
ندیم:خوب، لیکن کبھی کبھار لکھاریوں اور دانشوروں کو پلاٹ اور اعزازات ملتے تو رہے ہیں۔
سلام: میں اس قسم کے انعام کی بات نہیں کر رہا۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کو علم کی قدر کرنی ہو گی اور اسے ایک مناسب مقام دینا ہو گا تاکہ نوجوانوں کو ترغیب ملے کہ وہ محقق، دانشور اور سائنسدان بن سکیں۔ ایسے کام کے لیے آپ کو معاشی تحفظ، ذہنی سکون اور معاشرے کی طرف سے حوصلہ افزائی درکار ہوگی۔ وظیفے، انعامات اور اعزازات۔۔۔ان سب کی قدر اس حوصلہ افزائی میں پنہاں ہے جو وہ سائنسی تحقیق کرنے والوں کو فراہم کرتے ہیں۔
جب چالیس سال کی عمر میں امام غزالی کو احساس ہوا کہ کٹڑ مذہبی تربیت ان کے لیے درست راستہ نہیں تو انہوں نے اپنا سب کچھ تج دینے کا فیصلہ کیا، تاہم ان کی واحد پریشانی ان کا خاندان تھا۔ انہوں نے بعد میں لکھا کہ انہیں اپنے بچوں کے لیے انہیں پریشان نہیں ہونا پڑا کیونکہ بصرہ میں ایک عالم کے لیے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کا انتظام کرنا مشکل نہ ہوا کرتا تھا۔ مگر آپ اس ذلت کا تصور کیجئے جو غالب کو وظیفے کے حصول میں نوابوں کے ہاتھوں اٹھانی پڑی۔ اور پھر اقبال کے متعلق سوچیں جنہیں شاید فاقے کرنے پڑتے یا تعلیمی وظیفے کے بغیر کم ازکم وہ یورپ تو ہرگز نہ جا سکتے تھے۔ آج ایک بھی مامون الرشید نہیں ہے۔
ندیم: میں اپنے پہلے سوال کی جانب دوبارہ لوٹوں گا، اس ناامیدی کی حالت میں آپ کس طرح ابھر سکے؟ مجھے اس سوال میں اس لیے بھی دلچسپی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک نظیر قائم کرے جس کی پیروی دوسرے لوگ بھی کر سکیں گے۔
سلام: ذاتی طور پہ میں بہت خوش نصیب تھا کہ میرے والد علم سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں افسرِ شاہی میں جاؤں تاہم جب انہیں محسوس ہوا کہ میں سائنس میں دلچسپی رکھتا ہوں تو انہوں نے ہر طرح سے میری حوصلہ افزائی کی۔
میرے چچا، جو بعد میں میرے سسر بھی بنے، بھی بہت عالم آدمی تھے اور مجھ پہ ان کا گہرا اثر تھا۔ پھر مجھے بہت محنتی اور محبت کرنے والے اساتذہ ملے۔ مجھے آٹھویں جماعت کے ایک استاد مولوی عبدالطیف یاد ہیں۔جب میں نے بہت تھوڑے وقت میں ایک سوال حل کیا تو انہوں نے مجھے ایک پیسہ انعام میں دیا اور نمناک آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ ، ’’اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تمہیں اور بھی دیتا‘‘۔
اسی طرح انگریزی کے استاد شیخ اعجاز احمد تھے جنہوں نے مجھ پر سختی کر کے ، غلط ہجوں کے ساتھ بڑے بڑے الفاظ لکھنے کی میری عادت چھڑوائی ۔ میری خوش بختی کہ بعد میں مجھے کیمبرج جانا نصیب ہوا جو کہ سیکھنے کے لیے ایک مثالی جگہ ہے۔کیمبرج میں محنتی طلبا کی عزت کی جاتی تھی، ان کا مذاق نہیں اڑایا جاتا تھا اور پھر علم کے کئی پہاڑ تھے جو وہاں پڑھایا کرتے تھے۔
متاثر ہونے کے لیے طلبا کے سامنے نیوٹن اور میکس ویل کی عظیم روایات تھیں۔ لوگ سکالرز کس طرح بنتے ہیں؟ اپنے ہم عصروں کے باعث۔ ان کی اندرونی جستجو کو اپنے جیسے دوسروں کے ذریعے ایک راستہ ملتا ہے اور وہ تشکیل پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ علمی ماحول اور اداروں کے قیام پہ زور دیا کرتا ہوں جہاں سکالرز اور سائنسدان ایک دوسرے سے مل سکیں۔
ندیم: تو آپ پاکستان کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں اور آپ نے ابھی تک اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ آپ ایک ایسے مقام پہ تھے جہاں آپ پالیسی اور واقعات پہ اثر انداز ہو سکتے تھے۔
سلام: مجھے زندگی میں دو پریشانیاں لاحق رہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان میں سائنس کا مقام بہت کم تر ہے اور دوسری یہ کہ پوری مسلم دنیا میں سائنس کی حالت نہایت مخدوش ہے۔ ان دونوں پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے میں بساط بھر کوشش کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سائنسدان پیدا کریں اور اس مقصد کے لیے وظیفے، انعامات اور سائنسی انجمنیں ایک معروف طریقہ کار ہے۔ یہ گویا ایک طرح سے پہیہ ایجاد کرنے جیسے عمل ہو گا۔
میں جانتا ہوں کہ مقدار کافی نہیں ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کے پاس مقدار ہو تو کسی نہ کسی مقام پہ معیار کا حصول بھی ممکن ہو جائے گا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی کل 19 جامعات میں صرف 46 ایسے لوگ ہیں جو فزکس میں ڈاکٹریٹ ہیں۔ جبکہ اکیلے لندن امپیریل کالج میں یہ تعداد 150 ہے۔ اسی طرح ساری مسلم دنیا میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے کل 45000 سائنسدان ہیں جبکہ فقط اسرائیل میں یہ تعداد 36000 ہے۔
جب نوبیل انعام ملنے کے بعد مجھے پاکستان مدعو کیا گیا تو میں نے یہ تجویز دی کہ میرے انعام کی رقم اور حکومتی رقم ملا کر ایک ایسا ادارہ بنا دیا جائے جو سائنس کے طلبا کے لیے وظیفے اور انعامات دیا کرے۔ بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ لیکن میں نے آگے بڑھ کر اپنے انعام کی رقم سے ایک انجمن قائم کر دی۔ساٹھ ہزار ڈالرز کافی رقم نہیں ہے تاہم سالانہ 50 طلبا اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال ہم نے ایک ہزار ڈالر کا انعام ایک خاتون طبیعیات دان کو دیا، اس سال یہ انعام شاید ایک ریاضی دان کو دیا جائے۔ اسی طرح جب میں نے ’’ایٹم فار پیس انعام‘‘ حاصل کیا تو اس کی ساری رقم میں نے جھنگ، لاہور اور ساہیوال کے سکولوں اور کالجوں میں تجربہ گاہوں میں بہتری کے لیے وقف کر دی۔ اسی طرح میں نے نتھیا گلی میں طبیعات دانوں کے لیے 1976 میں اپنی طرز کا پہلا اسکول قائم کیا جسے اب بھی اٹامک انرجی کمیشن چلا رہا ہے۔
ندیم: سائنس کے فروغ کے لیے آپ کوئی نیا منصوبہ تجویز کر رہے ہیں؟
سلام: جی ہاں۔ نوبیل انعام یافتہ چینی طبیعیات دان ٹی۔ڈی۔ لی کے آغاز کردہ پروگرام سے میں بہت متاثر ہوا ہوں، یہ صاحب اب امریکی شہری ہیں۔ انہوں نے ایک منصوبہ تجویز کیا کہ چینی حکومت ایک مقابلے کا امتحان منعقد کرے، جس میں امریکی ماہرین کے تیار کردہ پرچوں پر امتحان ہو اور اسطرح امریکہ میں ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے 120 طلبا کا انتخاب کیا جائے۔ انہوں نے 60 امریکی اداروں کو بھی قائل کیاکہ وہ ان طلبا کا امریکہ میں خرچ برداشت کریں۔ یہ منصوبہ پچھلے چار برسوں سے جاری ہے اور کافی کامیاب رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس طرح کا کام پاکستانیوں کے لیے کیوں نہیں ہو سکتا؟ پھر میں نے اس سلسلے میں امریکیوں سے بات کی اور تجویز دی کہ اسی امتحان میں پاکستانی طلبا کو بھی شامل کیا جائے، اگر 120 نہیں تو 12 طلبا ہی امریکہ میں ڈاکٹریٹ کے لیے منتخب کر لیے جائیں۔ ان کا جواب حوصلہ افزا تھا اور اب یہ تجویز حکومت پاکستان کو پیش کر دی گئی ہے۔
ندیم: اسلامی کانفرنس کی قائم کردہ سائنس فاؤنڈیشن کے بارے آپ کا کیا احساس ہے؟
سلام: وہ ایک زبردست آغاز ہے، میں اس سے بہت خوش ہوں۔ دراصل اس کا ابتدائی منصوبہ تو بہت ہی زبردست تھا۔ میں نے بھٹو صاحب کو 1974 میں ہونے والے اجلاس میں آمادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک ارب ڈالر سے ایک فاؤنڈیشن بنا دیں، اجلاس نے اسے منظور کر لیا ، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں کیا گیا۔
پھر 1981 میں جنرل ضیاءالحق اس بات پہ راضی ہو گئے کہ وہ اس معاملے کو طائف کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔ فاؤنڈیشن تو قائم کر دی گئی تاہم اس کی رقم کم کر کے فقط 5 کروڑ ڈالر دی گئی۔ حالانکہ آپ خود مانیں گے کہ مسلم حکومتیں اس سے بہت زیادہ رقم دے سکتی ہیں۔
ندیم: کیا میں آپ سے ایک ذاتی اور شاید حساس سوال پوچھ لوں؟ احمدیوں کے بارے حال ہی میں جو صدارتی آرڈی نینس جاری ہوا، اس کے بارے میں آپ کا ردِ عمل کیا تھا؟
سلام: میں اس کے بارے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میں مکمل طور پہ ششدر رہ گیا۔ جب میں نے یہ خبر سنی تو میں پیرس میں ایک کانفرنس میں موجود تھا۔ ’’اسلام اور مغرب؛ اتفاق و اختلاف‘‘ موضوع تھا۔ مجھے اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل حبیب چٹی نے اسلام کے نقطہ نظر کی نمائندگی کے لیے بلایا تھا، اور میں بہت فخر محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اپنی تقریر کا ایک لفظ بھی تبدیل نہ کیا۔
اس صدارتی حکم نامے سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ میں اپنا کام کرتا رہوں گا اور اسلام و پاکستان سے محبت جاری رکھوں گا۔ میں ایک پاکستانی پیدا ہوا تھا اور ایک پاکستانی ہی مروں گا۔ میرا خمیر یہاں سے اٹھا ہے، میرے آباء و اجداد نے 700 برس قبل اسلام قبول کیا تھا اور قریب 200 سال سے اس سرزمین میں رہ رہے ہیں۔ کوئی مجھے ان حقوق سے محروم نہیں کر سکتا۔
ندیم:کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہاں انرجی کی چار صورتوں میں اتحاد کی جو جستجو نظر آتی ہے اس کی جڑ آپ کا خدائے واحد پہ یقین ہے اور اگر آپ انرجی کی چاروں صورتوں کو ایک ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ انقلاب سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی ہو گا؟
سلام: کسی بھی شخص کی سوچ اس ثقافتی روایت سے پھوٹتی ہے جس میں وہ پروان چڑھا ہوتا ہے۔ میری ثقافتی روایت ’’توحید‘‘ کی تھی اور میری فکر میں تصورِ توحید نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات دلچسپ اور قابلِ غور ہے کہ میرے ساتھ جن دو لوگوں نے نوبیل انعام میں شراکت کی تھی وہ دونوں یہودی تھے ، جو (میری ہی طرح) خدائے واحد کا تصور رکھتے تھے۔ مگر خود سائنس میں بھی یہ کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ کم سے کم قوانین ہوں۔ سٹرکچر چاہے جتنا بھی بڑا یا پیچیدہ ہو مگر قوانین مختصر ہوں۔ مثال کے طور پہ جینیاتی قانون ہی کو لیجئے، جو کہتا ہے کہ تمام انواع میں ایک ہی اصولِ توارث کارفرما ہے۔ اس صدی کی اہم ترین کامیابی چار بنیادی قوتوں کی دریافت تھی یعنی برقی مقناطیسی، کشش ثقل، کمزور نیوکلیائی اور طاقت ور نیو کلیائی قوت۔ ہم نے یہ پیش گوئی کی کہ ان میں سے دو طاقتیں یعنی کمزور نیوکلیائی طاقت اور برقی مقناطیسی طاقت دراصل ایک ہی ہیں۔
یہ بات حال ہی میں جنیوا کی سرن تجربہ گاہ میں ایک شاندار طریقے سے ثابت ہوئی ہے اور مزید تجربے ہو رہے ہیں۔ ڈبلیو اینڈ زیڈ (W&Z) کی تھیوری اب دیگر تھیوریز اور تحقیق کے لیے پسِ منظر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارا اگلا ہدف یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ چاروں طاقتیں دراصل ایک ہی متحد طاقت ہیں۔ لیکن اس میں شاید وقت لگے ، ممکن ہے اسے تجربوں سے ثابت کرنے میں کئی سال بیت جائیں، مجھے امید ہے کہ یہ کام میری زندگی ہی میں ہو جائے گا۔
(یہ انٹرویو ہیرلڈ کے اگست 1984 کے شمارے میں شائع ہو ا تھا، جسے ہیرلڈ نے قندِ مکرر کے طور پہ دوبارہ شائع کیا ہے، اس کے بعض مندرجات سے متاثر ہو کے مجھے اس کا ترجمہ کرنا پڑا۔ نظر ثانی اور قیمتی مشوروں کے لیے جناب عاطف حسین کا شکر گزار ہوں۔)
ماخذ: ہیرلڈ