غزل  کی تاریخ  اور گائیکی ۔ علی عدنان (مترجم: کبیر علی)

 In ترجمہ

اردو اور فارسی شاعری کا سب سے مقبول اظہار غزل کی شکل میں ہوا ہے جو شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی کی صنف کے طور پہ بھی  اتنی ہی  مقبول ہے۔ غزل کی جڑیں ساتویں صدی کے عرب میں ملتی  ہیں  اور رومی  و  حافظ ایسے فارسی شعرا کی بدولت   اسے تیرھویں چودھویں صدی میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ ہندوستانی شعرا نے اٹھارویں صدی میں اردو اور فارسی غزل لکھنا شروع کی۔

نظم کا یہ نام  ایک عربی لفظ ’’غزل‘‘ کے مرہون منت ہے جس کا مطلب ’’خوبصورت نوجوان  خاتون سے گفتگو کرنا‘‘ ہے۔ اسلام کی آمد سے بہت پہلے عرب میں غزل کا آغاز ہوا۔  یہ عربی صنف ’’قصیدہ‘‘ سے نکلی ہے جو کہ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ نسیب، راحیل اور تیسرے حصے میں شاعری کی کوئی بھی معیاری شکل۔ (1)  نسیب ، قصیدے کا تعارفی حصہ ہوتا تھا  جس میں ماضی کی یادوں، رومانس اور    فراق کا تذکرہ شامل ہوتا تھا۔  راحیل میں  زمانہء حال  کی تنہائی اور اکیلے پن کا بیان ہوتا تھا۔  قصیدے کے تیسرے حصے میں اپنے حکمران، قبیلے  اور اخلاق کا فخریہ اظہار شامل ہوتا تھا۔  نسیب نے غزل کی شکل اختیار کی  جو   محبت،  تمنائے وصل اور  فراق  ایسے جذبات کے شاعرانہ اظہار کا وسیلہ بنی۔ اس نے خود کو قصیدے سے الگ گیا اور بنو امیہ کے دورِ خلافت میں ایک آزاد اور اہم صنفِ شعر کے طور پہ خود کو منوایا۔  غزل کا یہ ارتقاء  تیسرے دورِ خلافت یعنی  عباسی خلافت تک جاری رہا۔

ابتدائی دنوں میں غزل کے چار مرکزی موضوعات ہوا کرتے تھے۔  اُدھاری (پیار )، حِسی (جسمانی )  محبت ، مد ھکر(ہم جنسی محبت)، تمہیدی (کسی دوسری شعری صنف کے  تعارف  کے لیے  غزل کے اشعار)

عباسی دور میں غزل  فارس تک پھیل گئی  اور فارسی بولنے والوں میں مقبول ہونے لگی۔ تیرھویں صدی تک غزل  فارسی زبان کی سب سے اہم شعری صنف کا درجہ حاصل کر  چکی  تھی اور اسکی سب سے بڑی وجہ تصوف کا پھیلاؤ تھا۔  رومانوی  محبت اور  اشتیاقِ وصل  کے موضوع  پہ لکھے گئے اشعار  کو  عشقِ حقیقی  اور وصالِ خدا  سے  منسلک  کردیا جاتا تھا۔ اسی دور میں غزل ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ امیر خسرو غزل لکھنے اور اسے مقبول بنانے والے اولین جنوب ایشیائی شاعروں میں سے ہیں۔ ولی دکنی کو پہلا باقاعدہ شاعر گردانا جاتا ہے کہ جس نے اردو میں غزل لکھی اور اپنا دیوان مرتب کیا۔ جہاں تک ہیئت کی بات ہے تو غزل دو دو مصرعوں کے اشعار پہ مشتمل ہوتی ہے۔ غزل کے اشعار کی تعداد مخصوص نہیں ہے البتہ بالعموم یہ پانچ اور پندرہ کے درمیان رہتی ہے۔  قدیم عربی غزل کے اشعار باہم مربوط ہوتے تھے جسے ’’غزلِ مسلسل‘‘ کہا جاتا تھا تاہم آج کل ایسی غزل شاذ ہی لکھی جاتی ہے۔  اکثر غزلوں میں غزل کا ہر شعر اپنے  موضوع اور فضا میں دوسرے اشعار سے آزاد ہوتا ہے۔ غزل کا سب سے بڑا موضوع ہمیشہ سے محبت اور عشق رہا ہے۔  اسے دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ دنیاوی محبت کو عشقِ مجازی اور خدا سے محبت کو عشقِ حقیقی کہتے ہیں۔  دونوں کی حدِ فاصل  اکثر  مبہم رہتی ہے اور اسے قاری کی تشریح پہ  چھوڑ دیا جاتا ہے۔

غزل کی ساخت میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ غزل کا بنیادی یونٹ شعر (جمع اشعار) ہوتا ہے۔ ہر شعر دو مصرعوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔ ہر شعر کے پہلے مصرعہ کو ’’مصرعہء اولیٰ‘‘ اور دوسرے مصرعے کو ’’مصرعہء ثانی‘‘ کہتے ہیں۔ ہر شعر کے مصرعی ثانی کے آخر میں اور پہلے شعر کے دونوں مصرعوں کے آخر میں  ایک یا زائد الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو بدلتے نہیں ، انھیں ردیف کہتے ہیں۔ ہر شعر میں ردیف سے پہلے والا لفظ قافیہ ہوتا ہے اور اسی پر شعر کے صوتی اثر کا انحصار ہوتا ہے جبکہ ردیف اس عمل میں مدد دیتی ہے۔   غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع کہلاتا ہے ۔ شاعر کا قلمی نام یا تخلص  بھی اکثر مقطع میں شامل ہوتا ہے۔

ایک غزل کے تمام اشعار کا میٹر ایک ہی ہوتا ہے جسے بحر کہا جاتا ہے۔  یہ دراصل ایک خاص ساخت کا نمونہ ہوتا ہے جو بے معنی الفاظ کے امتزاج سے بنتا ہے جنھیں رکن (جمع ارکان) کہتے ہیں اور اسی سے شعر کی طوالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ کل ارکان آٹھ ہیں۔

مُفاعیلُن

مُستَفعِلن

مُس تفعِ لُن

فاعِلا تُن

فاعِ لا تُن

مفعولا تُ

مفاعِلَتُن

مُتَفاعِلن

کل بحریں 19 ہیں۔  بحرِ رجز، بحرِ رمل، بحر بسیط، بحرِ طویل،بحرِ کامل، بحرِمتدارک، بحر ہزج، بحرِ مشاکل، بحرِ مدید، بحرِمتقارب، بحر مجتث، بحرِ مضارع، بحر منسرح، بحرِ وافر، بحرِ قریب، بحرِ سریع، بحرِ خفیف، بحرِ جدید اور بحرِ مقتضب۔ ان تمام بحور کو دو نیم مصرعوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے سوائے بحرِ رجز کے جو سہ ٹکڑی ہوتی ہے۔ بحر، قافیہ اور ردیف سے غزل کا عروضی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے جسے  ’’زمین‘‘  کہتے ہیں۔   غزل کے تمام اشعار ایک ہی زمین میں کہے جاتے ہیں۔  ابتدائی عربی غزل میں موجودہ غزل کے تمام اوصاف شامل نہ تھے۔ فارسی غزل نے اس میں پانچ خواص کا اضافہ کیا۔ ردیف کا استعمال، مطلع کا تصور، غزل کے  اشعار کا  ایک دوسرے سے آزاد ہونا اور مقطع میں تخلص کا استعمال۔ پانچویں  تبدیلی یہ کی کہ اس بات کی اجازت دی   کہ دو مصرعوں کو جوڑنے سے  لازمی طور پہ  ایک جملہ بننا ضروری نہیں۔ (عربی غزل میں  یہ ضروری تھا)   غزل کو اس کی مخصوص ساخت اور  فضا کی وجہ سے   گانا بہت آسان ہے۔ غزل گانے کا تاریخی ثبوت بارھویں صدی سے ملنا شروع ہوتا ہے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی میں  جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی کی غزل گانے والوں میں مقبول ہوئی۔

ہندوستان میں غزل گانے کی روایت امیر خسرو نے قائم کی۔ ہندو پاک کی کلاسیکل موسیقی میں بندھی ہوئی دھن کو بندش کہتے ہیں جو کسی مخصوص راگ اور تال میں ترتیب دی جاتی ہے۔ بندش کا پہلا حصہ استھائی اور دوسرا انترہ کہلاتا ہے۔  غزل گائیکی میں مطلع استھائی کے طور پہ استعمال ہوتا ہے اور باقی اشعار انترے کے طور پہ گائے جاتے ہیں۔  اس ترتیب سے گانے والے کو آسانی اور سہولت رہتی ہے۔ غزل گائیکی میں ایسے  مقبول راگوں کا استعمال کیا جاتا ہے کہ جن میں گاتے  سمے ہر  طرح کے جذبات کا اظہار کرنے میں گائیک کو سہولت رہے۔ ان راگوں میں بھرویں، کافی، کھماج، پہاڑی اور پیلو شامل ہیں۔ اکثر غزلیں چھ ، سات یا آٹھ ماترے کے تال میں بٹھائی جاتی ہیں جنھیں بالترتیب دادر، روپک اور کہروا کہا جاتا ہے۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر  کی غزلیں گانے میں سات ماترے کے تال (روپک ) کا استعمال اس قدر عام  ہے کہ روپک تال کی ایک شکل ’’مغلئی‘‘ وجود میں آئی جو اسی طرز کی غزلیں گانے میں استعمال ہوتی ہے۔

تاریخ میں جن غزل گانے والوں کا سراغ ملتا ہے ان میں مہر افروز اور نصرت خاتون سب سے پہلی ہیں ۔ یہ دونوں خواتین خلجی دربار میں امیر خسرو کی غزلیں گایا کرتی تھیں ۔ خلجی بادشاہت کے دوسرے خلیفہ سلطان علاؤالدین خلجی کے بیس سالہ دور میں ان دونوں خاتون گائیکوں کا شہرہ تھا۔  غزل کو ہندوستانی سنگیت کی ایک صنف کا درجہ دینے کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔  غزل کے بہ طور صنف ِموسیقی مقبولیت حاصل کرنے کے چار اہم اسباب ہیں۔

پارسی تھیئٹر کا قیام

لکھنؤ کے درباروں میں شہرت

دخترانِ بام (طوائفوں)  کے بدلتے ہوئے حالات

ریکارڈنگ کمپنیوں کی آمد

1853سے 1869 تک پارسی کمیونٹی نے برصغیر میں 20 سے زائد ڈرامہ کمپنیاں بنائیں۔ پارسی ناٹک منڈلی، زروسترین تھیٹریکل کلب، وکٹوریہ ناٹک منڈلی، ناٹک اتجک کمپنی، ملکہ وکٹوریہ تھیئٹریکل کمپنی اور الفریڈ ناٹک منڈلی اس زمانے کی مشہور ڈرامہ کمپنیاں تھیں۔ وہ بنیادی طور پہ چار زبانوں میں کھیل دکھاتی تھیں۔ اردو، ہندوستانی، گجراتی اور انگریزی۔ موسیقی، پارسی تھیئٹر کا لازمی جزو تھا۔غزل، ان کمپنیوں کے خزانہءموسیقی  کا اہم حصہ تھی۔پاری تھیئٹر کی مقبولیت نے  غزل کی بہ طور صنفِ موسیقی مقبولیت میں براہِ راست حصہ ڈالا۔ ڈرامہ کمپنیوں کی کامیابی سے دیگر علاقائی زبانوں مثلا جدید گجراتی تھیئٹر، مراٹھی تھیئٹر، ہندی تھیئٹر اور پھر ہندی سینما کی ترقی ہوئی۔ آہستہ آہستہ غزل نے ہندوستانی تھیئٹر اور سینما میں اپنی جگہ بنا لی۔

نواب واجد علی شاہ ’’باغ، اور ہندوستان کی ملکہ‘‘ کہلانے والے صوبے اودھ کے دسویں اور آخری نواب تھے۔ نواب فنونِ لطیفہ کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ خود ایک شاعر، ڈرامہ نگار،میرِرقص  اور ماہر رقاص تھے۔  انھوں نے اختر پیا کے قلمی نام سے شاعری کے دو مجموعے حسنِ اختر اور دیوانِ اختر لکھے۔ اودھ اور ہندوستان کے بعض دیگر علاقوں میں ان کی غزلیں بہت مقبول تھیں۔ شاہ کتھک رقص میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ انیسویں صدی کے آغاز کا کتھک ، رقص کی ایک سادہ شکل ہوا کرتا تھا۔ ابھی یہ   بندادین اور کالکا پرساد مہاراج کی بدولت  ایک  مفصل مکتب فکر میں نہیں ڈھلا تھا۔ ان دنوں کتھک کے خزینے میں کمپوز دھنیں، توڑوں اور ٹکڑوں کی تعداد محدود تھی اور کتھک کی بنیادی توجہ داستان گوئی پر مرکوز تھی۔ یہ رقص جمالیاتی طور پہ فرحت بخش اور شاندار ضرور تھا مگر  تہہ دار اور پیچیدہ نہیں تھا۔ نواب واجد علی شاہ نے کتھک میں غزل کو شامل کرکے اس صنفِ رقص کو ترقی دی۔اس کے درباری رقاص اسی کی لکھی ہوئی غزلوں پہ کتھک پیش کرتے تھے۔ درباری موسیقار سند پیا اور قادر پیا نے کتھک کے لیے غزلیں کمپوز کیں ،یہ فنکاراس سے قبل سینکڑوں بندش کی ٹھمریاں کمپوز کرکے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اس طرح لکھنؤ کی سرزمین غزل کی آبیاری کرنے لگی جہاں یہ رقص کی سنگت میں گائی جاتی تھی۔

مغل ہندوستان میں طوائفوں  کی اہم اور اکثر قابلِ احترام جگہ رہی ہے۔ انھیں  دس سے زیادہ اقسام میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ بیسوا، دیوداسی، ڈومنی، کنچنی، کنجری، کسبی، نوچی، پَتُریا، رنڈی اور طوائف۔ بیسوا بنیادی طور پہ سیکس ورکرہوتی تھی جو اپنے چاہنے والوں کے ساتھ  طویل مدتی معاہدے اور متعہ (عارضی شادی) کیا کرتی تھیں۔  ایک دیوداسی ایسی خاتون ہوتی تھی جس نے اپنے ساری زندگی کسی بت، دیوی  یا  مندر کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہو۔اسے کسی سے شادی کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور وہ اکثر جنسی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔ ایک ڈومنی مرد وں اور خواتین ہر دو  کے لیے گانا گا کر زندگی گزارتی تھی اور اس کا تعلق نسل در نسل گانے والوں سے ہوتا تھا۔  کنجری نچلے طبقے کی طوائف ہوتی تھی اور اس کی  تعلیم اور فنونِ لطیفہ میں تربیت  نہایت معمولی ہوتی تھی ۔کنچنی ایسی سیکس ورکر تھی جس کی خدمات گھنٹے یا روزانہ کی بنیاد پہ حاصل کی جا سکتی تھیں۔  کسبی ایک طوائف ہوتی تھی جس کا تعلق سیکس ورکر خاندان سے ہوتا تھا۔  نوچی اس کمسن لڑکی کو کہتے تھے جو تربیت کے لیے کسی ماہر طوائف  کے پاس ہوتی تھی۔ اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ کنواری ہو گی۔ پَتُریا ایسی خاتون ہوتی تھی جو اپنی گزر بسر کے لیے مردوں کا دل بہلاتی تھی۔  رنڈی ایسی طوائف ہوتی تھی جس کا  تعلق کسی جسم فروش  خاندان سے  نہیں ہوتا تھا، لہذا وہ کسبی سے کم درجے کی سمجھی جاتی تھی۔

طوائف کا درجہ سب سے اوپر ہوتا تھا۔وہ  گانے ، رقص، اداکاری، شاعری، ادب اور کھانا پکانے ایسے کئی فنون کی ماہر ہوتی تھی۔ پڑھی لکھی، کئی زبانوں پہ مہارت رکھنے والی اور تہذیب و شائستگی میں کامل  ہوتی تھی۔ طوائفوں کی دو اقسام ہوتی تھیں۔ گھرانے دار طوائف اور  عام طوائف۔ گھرانے دار طوائف ، طوائفوں کے اونچے خاندان سے ہوتی تھی ۔ وہ  بادشاہوں، راجاؤں اور طبقہء بالا کے لیے  مخصوص ہوتی تھی۔ ایک عام طوائف چونکہ  طوائفوں  کے قابلِ احترام خاندان  کی فرد نہیں ہوتی تھی پس  گھرانے دار طوائفوں  کی سی عزت  نہ پاتی تھی۔ اس کے تعلق داروں میں شیخ (تاجر)، گجر(چرواہے)، جاٹ (زمیندار) اور قاضی ( افسر اور افسرِ شاہی کے افراد) برادری سے تعلق رکھنے والے مرد اور کچھ نو دولتیئے شامل ہوتے تھے۔

1869ء میں نہرِ سویز کے کھلنے سے  ہندوستان میں  عیسائی مبلغین آنا شروع ہوئے۔ انھوں نے فوری طور پہ خود کو ہندوستانی اخلاقیات کے محافظ کے عہدے پہ فائز کر لیا اور  طوائفوں اور ان  کے پیشے  کو شدید حقارت  سے رد کرنے لگے۔ان عیسائی مبلغین نے ہر طبقے کی طوائفوں  کو ایک ہی  طرح کی نفرت اور ناپسندیدگی سے دیکھا۔ انھوں نے  طوائفوں کے پیشے کو عیسائیت۔مخالف، غیر اخلاقی اور  قابلِ مذمت قرار دیا۔  برطانوی راج کے  افسران ،جو اب تک طوائفوں کے سرپرست رہے تھے، کو کہا گیا کہ وہ طوائفوں  کے ناچ میں  جانے اور ان  کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کریں۔طوائفوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ  اپنی خدمات پر   عزت  و احترام   کی ملمع کاری کے لیے  نئی سرگرمیوں کا آغاز کریں :جن  میں غزلیں  کہنے، کمپوز کرنے اور انھیں  گانے کا کام  شامل تھا۔ ملکہ جان بنار س والی اور  ماہ لقا بیگم نے  اپنی اپنی شاعری کے  مجموعے ترتیب دیے  جو  بالترتیب ’’مخزنِ الفتِ ملکہ‘‘ اور ’’گلزارِ ماہ لقا‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس ماحول میں غزلیں کہنے،  پڑھنے اور  گانے کو فروغ ملا اور  طوائفوں نے  مشاعروں    اور    غزل گائیکی کی محافل میں   شرکت شروع کر دی۔

انیسویں صدی  کے   آخر میں گراموں فون  اور  فونو گراف کی آمد سے  موسیقی  لوگوں کے گھروں میں پہنچنے لگی۔ابتدائی زمانے  میں  ریکارڈنگ کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ (تقریبا تین منٹ)موسیقی  کی کلاسیکی اصناف  کی بہ نسبت  غزل  کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ لہذا  غزل نے گراموفون اور  فونو گراف کی آمد سے فائدہ اٹھایا۔

ہندوستانی  موسیقی کی پہلی کمرشل ریکارڈنگ لندن میں  فریڈرک ویلیم گائزبرگ نے 1899-1898 میں سات انچ کی یک رُخی    ڈِسک پر کی  ۔لندن ریکارڈنگز  کے نام سے  معروف  اس ادارے نے  مرزا اسد اللہ غالبؔ، حافظؔ شیرازی اور  ظہیرؔ فریابی کی غزلوں  کو شامل کیا۔ فریڈرک ویلیم   1902ء میں  جارج ڈلنٹ  کے ہمراہ  ہندوستان آیا اور  کلکتہ میں سات انچ  کے 216 اور دس انچ کے 336 ریکارڈز   بنائے۔ ان ریکارڈز میں غزلوں  کی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ گوہر جان نے  دو نومبر 1902ء میں  راگ جوگیا ریکارڈ کروایا اور   ہندوستان کی سب سے پہلے  ریکارڈ کی جانے والی مغنیہ  بنیں۔ بہت جلد ان کے ریکارڈہندوستان اور  بہت سے دیگر ممالک  میں  مقبول ہو گئے۔ ان کی گائی ہوئی  پانچ غزلیں  اس  زمانے    کی مقبول ترین غزلیں   تھیں۔

٭یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

٭اے دردِ دل کسی دن ہونا  جدا نہ ہم سے

٭دلِ ناکام کی حسرت نہ جیتے جی کبھی نکلی

٭میرے دردِ جگر کی خبر ہی نہیں

٭شبِ وصال جو  ہم نے لپٹ کے پیار کیا

بیسویں صدی کے اوائل میں  گائیکوں  کی ایک بہت  بڑی تعداد نے  غزلیں ریکارڈ کروائیں۔ ملک میں گراموفونز کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ   یہ صنف بھی   مقبول ہوتی گئی۔ اس زمانے  کی مقبول ترین چیزوں میں  بہت سی غزلیں بھی تھیں جو ہندوستان بھر   سے مختلف گائیکوں نے ریکارڈ کروائی تھیں۔

٭کیا لطف زندگی کا ( اعظم بائی پسال آف کولھاپور)

٭باغ میں کوچہء جاناں ( فضل حسین خاں آف لاہور)

٭جفائیں کرتے جاتے ہیں (اللہ بندی  آف جے پور)

٭یہ نہ تھی ہماری قسمت (گوہر جان آف  آگرہ)

٭یوں کرنا جبینِ شوق  مری (امام بندی آف  دہلی)

٭منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی (جنکی بائی آف الہ آباد)

٭فنا کا جام اے ساقی تو بھر دے  (محمودہ جان آف میرٹھ)

٭ہم نے دیکھیں نہ سنیں ( ملکہ جان آف آگرہ)

٭ پی کے ہم تو چلے ( زہرہ بائی آف آگرہ)

غزل گانے کا سلیقہ ابھینے کہلاتا ہے اور  غزل گائکی کا  لازمی جزو ہے۔ فنونِ لطیفہ پر   ہندوستان کی سب سے قدیم دستیاب کتاب   بھرت مُنی کی ’’ناٹیا شاستر‘‘ میں ابھینے کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: انگِک ابھینے، وَاچک ابھینے، آہاری ابھینے اور  ساتوِک  ابھینے۔  ابھینے کی  یہ چاروں اقسام  غزل گائیکی  کے مختلف انداز سمجھنے کے لیے  ضروری ہیں۔

انگِک ابھینے  سے مراد جسم کے مختلف  حصوں کو حرکت دینا ہے۔ ہستک یعنی ہاتھوں کی حرکت اور  مکھج ابھینے یعنی  چہرے کے تاثرات دونوں انگک ابھینے  سے تعلق رکھتے ہیں۔  واچک  ابھینے  کا تعلق آواز سے  ہے۔ آہاری ابھینے  سے مراد لباس، زیور،  سرخی و غازہ، سٹیج  کی سجاوٹ اور اسی قبیل کی دیگر چیزوں  کا استعمال ہے۔ ساتوِک ابھینے سے مراد روحانی، جذباتی، ماورائی اور مابعدالطبیعاتی  احوال کا اظہار ہے۔

آج ہندو پاک میں  غزل شاعری اور موسیقی  کی  سب سے مقبول صنف ہے۔ بہت سے گائیک اسے طرح طرح کے انداز سے گاتے ہیں۔  غزل گائکی  کے زیادہ معروف انداز یہ ہیں:

٭پارسی تھیٹر   کے انداز کی غزل

٭راگ  کی بنیاد پہ  غزل گائیکی

٭ ٹھمری  انگ

٭گیت  انگ

٭مجرا انگ

٭قوالی انگ

٭ مشاعروں میں  ترنم  سے غزل پڑھنے کا انداز

انگک، واچک اور اہاری  کا استعمال  پارسی تھیٹر کے طرز کی غزل گائیکی میں ہوتا ہے۔  اس میں شاعری بالعموم  رنگین،جذباتی اور  سادہ  ہوتی ہے اور  عشقِ مجازی پہ زور ہوتا ہے۔  اس انداز میں  مشرقی اور مغربی سازوں پہ مشتمل بڑے آرکیسٹرا کا  استعمال  بھی کیا جاتا ہے۔   راگ بھیم پلاسی اور  کہروہ تال میں طاہرہ سید کی ’’اب وہ یہ کہہ رہے ہیں میری مان جائیے‘‘ پارسی تھیٹر  انگ  کی غزل  کی مثال ہے۔

راگ  پہ بنیاد رکھنے والی  غزل گائیکی میں   صرف واچک  ابھینے کا استعمال کیا جاتا ہے۔  متعلقہ راگ  پر ایک سوچی سمجھی اور   کڑی توجہ  دی جاتی ہے۔  طرح طرح  کی آمد کی چیزیں   لانا اس انداز کا امتیازی نشان  ہے۔اس انداز میں عام طور  پہ   قدیم ، پیچیدہ اور مشکل شاعری  گائی جاتی ہے۔  اس انداز میں  عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی ہر دو طرح  کے موضوعات کی غزلیں  گائی جاتی ہیں۔ سنگت کے لیے بہت تھوڑے   اور بالعموم مشرقی ساز استعمال کیے جاتے ہیں۔ راگ ایمن اور  دادرا تال میں مہدی حسن کی ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘‘ راگ مرکز غزل کی مثال ہے۔

ٹھمری انگ کی  غزلوں میں ابھینے کی  تین  اقسام  یعنی  انگِک، واچک اور  آہاری کا استعمال   ہوتا ہے۔عشقِ مجازی پہ زور دینے والی  روایتی شاعری  بالعموم  استعمال کی جاتی ہے۔  گائیک کے پاس  خوب سہولت ہوتی ہے کہ وہ  ایک مرکزی  راگ  کے ساتھ ساتھ دیگر راگوں  کا بھی استعمال کرے۔  اس انداز کی غزل گائیکی  کی سنگت میں بھی مشرقی سازوں کا استعمال ہوتا ہے۔راگ بھیرویں اور  دادرا تال میں  استاد برکت علی خاں کی ’’دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے‘‘ ٹھمری انگ کی غزل کی  مثال ہے۔

مجرا انگ  کی غزل  گائیکی میں ابھینے کی چاروں  اقسام کا استعمال ہوتا ہے۔ اس انگ میں عشق ِ مجازی پہ زور دینے والی روایتی  رومانوی شاعری کا استعمال ہوتا ہے۔ مشرقی ساز استعمال ہوتے ہیں۔ بالعموم ہر شعر کا پہلا مصرع تال کے بغیر  گایا جاتا ہے اور اس میں  آمد کی حرکات بھی لی جاتی ہیں۔ تال  کا استعمال دوسرا مصرع گاتے ہوئے ہوتا ہے اور اس دوران آمد کی حرکات سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس اندازِ کی غزل گائیکی میں  مرکزی راگ  کی  اثر پذیری میں اضافے کے لیے کئی دیگر راگ بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ راگ مدھ مارسارنگ اور کہروہ تال میں ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کی ’’ہونے کو تو کیا ہُوا نہیں ہے‘‘ مجرا انگ کی  بہترین مثال ہے۔

قوال حضرات غزل گاتے ہوئے   اکثر  ساتوِک ابھینے  کو استعمال کرتے ہیں۔ قوالی انگ کی غزل گائیکی میں ہارمونیم، ڈھولک اور  طبلے کی سنگت ہوتی ہے۔ اس انگ میں ایسی شاعری استعمال ہوتی ہے جس میں  عشقِ  حقیقی اور  عشقِ مجازی کی حدود بہت مبہم ہوں۔ قوال  غزل گاتے ہوئے،صوفیا اور دیگر  شعراء کے کلام کو شامل کرتے  ہیں جسے گِرہ   لگانا کہتے ہیں۔ اس انگ کی غزل  گائیکی میں  آمد کی بہت ساری   چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں۔ راگ جونپوری  اور کہروہ تال میں  فرید ایاز  قوال کی   غزل ’’سجدہ کر کے قدمِ یار پہ قربان ہونا‘‘ قوالی  انگ کی غزل  گائیکی کی مثال ہے۔

شاعروں کی بہت بڑی تعداد اپنی غزلیں ترنم سے سنانا پسند کرتی ہے۔ اس دوران  کسی ساز کا استعمال نہیں کیا جاتا اور  صرف واچک ابھینے  کو استعمال کیا جاتا ہے۔  زہرہ نگاہ، سرور بارہ بنکوی اور حفیظ جالندھری  ترنم سے غزلیں سنانے کے لیے معروف ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان نے   غزل گائیکی میں مہارت رکھنے والے  بہت سے گلوکار  پیدا کیے ہیں۔ انھیں چار گروہوں میں تقسیم  کیا جا سکتا ہے۔

٭متقدمین:

اختری بائی فیض آبادی، استاد برکت علی خاں، گوہر جان، عنایت بائی ڈھیرو والی، جُتھیکا رائے، کملا جھریا، کندن لال سیگل، ملکہ پکھراج، ماسٹر مدن اور مختار بیگم۔

٭ متاخرین:

آشا بھوسلے، سی۔ایچ آتما، کجن بیگم، کانن دیوی، خورشید  بانو، لتا منگیشکر، محمد رفیع، منیر حسین، منور سلطانہ، نسیم بیگم، نور جہاں،  پنکج ملک، راج کماری، سلیم رضا، طلعت محمود اور زاہدہ پروین

٭ ،مقبولین:

عابدہ پروین، امجد پرویز، اسد امانت علی خاں، استاد امانت علی خاں، بلقیس  خانم، اعجاز حسین حضروی، اعجاز قیصر، فریدہ خانم، فدا حسین، غلام عباس، غلام علی، حبیب ولی محمد، حامد علی خاں، حسین بخش  گلو، اقبال بانو، مہدی حسن، مہناز، منی بیگم، ناہید اختر، نئیرہ نور، پرویز مہدی، رونا لیلیٰ،شاہدہ پروین، شوکت علی، طاہرہ سید، تصور خانم اور ٹینا ثانی۔

٭مجددین (2):

احمد حسین، انوپ جلوٹا، بھوپندر سنگھ، چھایا گنگولی، چترا سنگھ، فریحہ پرویز، ہری ہرن، جگجیت سنگھ، متالی سنگھ، محمد حسین، نصرت فتح علی خاں، پنکج اداس، راحت فتح علی خاں اور طلعت عزیز۔

بڑے غزل گائیکوں میں استاد برکت علی خاں، ملکہ پکھراج، اختری بائی فیض آبادی، نور جہاں، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، غلام علی، منی بیگم، جگجیت سنگھ ، نصرت فتح علی خاں اور نئیرہ نور شامل ہیں۔

غزل  کی پشت پر  پندرہ سو سال کی تابناک تاریخ ہے  اور آج یہ  اردو شاعری کی  سب سے مقبول صنف ہے۔ یہ ہندو پاک میں موسیقی کی بھی سب سے  قابلِ لحاظ اور معروف صنف ہے۔ غزل ، شاعری کو  ادا کرنے کی صنف ہے اور اس کا صحیح لطف تبھی آتا ہے جب اسے مہارت،  احساس آمیزی، سمجھ داری، علم اور  قابلیت کے ساتھ  گایا جائے۔ غزل کی مقبولیت  پندرہ صدیوں میں  ختم نہیں  ہوئی۔ غزل کے ارتقاء کا سلسلہ جاری ہے اور موسیقی اور شاعری ہر دو کی صنف کے طور پہ اس کا مستقبل  روشن ہے۔

حواشی:

(1) قصیدے کا پہلا جزو تشبیب یا نسیب کہلاتا ہے لیکن  مضمون میں بیان  کردہ دوسرے دو اجزاء  یعنی راحیل اور  شاعری  کی  کوئی معروف شکل  کا حوالہ  تلاش کے باوجود نہیں ملا۔ لہذا احتیاطاً یہاں قصیدے کے چار معروف اجزاء کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ کچھ یوں ہیں۔  تشبیب، گریز، مدح اور دعائیہ

(2)مجددین کا لفظ بہت بھاری بھر کم ہے اور میری دانست میں  مذکورہ فنکاروں کے لیے درست نہیں۔  لیکن  چونکہ  ان  چاروں گروہوں کے  انگریزی عناوین کا ا ردو ترجمہ خود مصنف ہی  کے ایک لیکچر سے لیا گیا ہے اس لیے  اس ترجمے کو جوں کا توں رکھا گیا ہے۔

 

 

ماخذ: ڈیلی ٹائمز

Recommended Posts
Comments
  • عثمان سہیل
    جواب دیں

    بہت اعلی اور بھڑیا مضمون کا بہترین ترجمہ۔ مترجم نے حق ادا کر دیا ہے۔

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search