مجمع العلوم الاسلامیہ کراچی کا قیام۔ محمد دین جوہر
ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے جامعۃ الرشید کراچی کو ایک تعلیمی چارٹر سے نوازا ہے، اور کسی مذہبی تعلیمی ادارے کے لیے چارٹر کی غالباً یہ پہلی مثال ہے۔ چارٹر کا بنیادی مقصد کسی خاص تعلیمی ادارے کے داخلی امتحانی نظام کو حکومتی توثیق سے قانونی شکل دینا ہے۔ چارٹر کی آخری اور حتمی شکل پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے سے متعین ہوتی ہے۔ چارٹر سے ملنے والی حکومتی اور ریاستی توثیق کسی ادارے سے خاص ہوتی ہے، لیکن ریاست اس توثیق کو ادارے سے باہر کسی طے شدہ علاقۂ عملداری (jurisdiction) تک توسیع دے سکتی ہے۔ ریاست کی زیر نگرانی یا اس کی ترجیحات سے ہم آہنگ جدید تعلیمی نظام میں امتحانات کی حیثیت ایک دُھرے کی ہے جس کے مدار پر باقی تعلیمی امور گھومتے ہیں۔ امتحانات سے آگے استناد اور معاشی وقعت اور ان سے پیچھے نصاب، تدریس اور آموزش وغیرہ امتحانات کی شرط پر از خود متعین ہوتے ہیں۔ چارٹر یافتہ اداروں کو ریاست کے نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے اندر رہتے ہوئے نصاب کے تعین میں یک گونہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ چارٹر کی اصل ادارے کی داخلی تدریسیات اور امتحانات کی سرکاری توثیق ہے لیکن اس میں ایسی دفعات شامل ہو سکتی ہیں جن کے ذریعے سے چارٹر یافتہ ادارہ امتحاناتِ عامہ کا نظام تشکیل دینے کا بھی مجاز ہو اور جس میں جغرافیائی تحدیدات یا تعینات کے ساتھ ادارے کے امتحانی نظام میں باہر کے امیدواران کو بھی شرکت کی اجازت ہو۔ میں ابھی تک عدم دستیابی کی وجہ سے جامعۃ الرشید کراچی کو دیے جانے والے چارٹر کا مطالعہ تو نہیں کر سکا لیکن مجمع العلوم الاسلامیہ کے قیام سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امتحانِ عامہ کی دفعات چارٹر کا حصہ ہیں۔ جامعۃ الرشید کراچی کے چارٹر اور امتحانات عامہ کے مجاز بورڈ کے قیام پر مختلف طرح کے دلچسپ لیکن بالعموم غیرمتعلق رد عمل دیکھنے میں آئے ہیں۔
جدید عہد میں تعلیم عامہ اصلاً ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ سیاسی فیصلہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تعلیم اپنے تصور اور عمل میں ریاست کے فیصلے سے متعین ہوتی ہے یعنی کریکیولم، نصاب، تدریس، آموزش، امتحان، استناد وغیرہ کے ساتھ ساتھ اسکولوں کے قیام، اساتذہ کی بھرتی، معاشی وسائل کی فراہمی اور انتظامی مشینری کی تشکیل ریاست کا اختیار ہے اور اسی کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ چارٹر کے ذریعے ریاست اپنے اس اختیار کو تفویض کر دیتی ہے۔ چارٹر تعلیمی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی بنیاد اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جدید تعلیم تصور اور عمل دونوں میں ریاست کے اختیار سے باہر کوئی معنویت اور حیثیت نہیں رکھتی، اور چارٹر کے ذریعے تعلیمی عمل روزمرہ سرکاری ضوابط کی پابندی سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ جدید سیاسی افکار میں تعلیم کو انسان کے بنیادی حقوق میں شامل رکھا گیا ہے اس لیے جدید تعلیم کے لیے معاشی وسائل کی فراہمی بھی ریاست ہی کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ بچے نے کس عمر میں کیا پڑھنا ہے؟ اور استاد نے کیا اور کیسے پڑھانا ہے؟ اس کا فیصلہ بھی بچے، اس کے والدین، اس کے استاد اور تعلیمی پراسث کے منتظمین کے اختیار سے خارج ہے اور ریاست ہی کا متعین کردہ ہے۔ بچے کی آموزش میں استناد کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس کا ذریعہ امتحانات ہیں۔ امتحانات پورے تعلیمی عمل پر ریاست کے حتمی کنٹرول کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے انعقاد و استناد کا پورا اختیار بھی ریاست کے پاس ہے۔ ریاست تعلیمی امتحان اور اس کے استناد کا اختیار خود استعمال کرتی ہے یا قانون سازی کے ذریعے سے کسی پرائیویٹ ادارے کو مجاز اتھارٹی قرار دے کر یہ اختیار اس کو منتقل کر سکتی ہے جیسا کہ جامعۃ الرشید کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
جدید عہد میں تعلیم عامہ اصلاً ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ سیاسی فیصلہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تعلیم اپنے تصور اور عمل میں ریاست کے فیصلے سے متعین ہوتی ہے۔
ہمہ نوع جدید علوم کی بنیادی پوزیشن نطشے سے مستعار ہے کہ خدا مر چکا ہے یا اسے انسانی بستیوں سے جلا وطن کر دیا گیا ہے، اور اس موقف سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی خلا کو جدید ریاست نے پُر کیا ہے۔ ہمارے مذہبی دانشوروں کی خواہشات کے علی الرغم، سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کو اگر خدا سے منسوب کر دیا جائے تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جدید ریاست عملاً مختارِ کل ہی رہتی ہے۔ ہیگل بھی اپنے قول سے کہ ”جدید ریاست زمین پر خدا کی خوش خرامی ہے“، جدید ریاست کو خدا کی replacement کے طور پر ہی دیکھتا ہے۔ لیکن ہم اس کا مطلب بھی درست نہیں سمجھے اور جدید ریاست کو مذہبی معنوں میں ایک بت قرار دے دیا۔ جدیدیت جس مطلق آزادی کی علمبردار ہے اس میں عبادت بھلے خدا کی ہو بھلے جدید ریاست کی، غلامی کی علامت ہے اور خارج از امکان ہے۔ جدیدیت، ریاست کو عملِ فعال کی منتہائی تشکیل کے طور پر دیکھتی ہے اس لیے اسے مختارِ کل کہا گیا ہے۔ جدید ریاست کا مختار کل ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کے زیر نگیں معاشرے کا کوئی پہلو اس کی سیاسی اور قانونی طاقت سے باہر کوئی وجود نہیں رکھتا اور معاشرے اور فطرت پر اس کی عملداری مکمل ہے۔ اس گزارش کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ انسانی انفس یا آفاق میں کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں رہا جو جدید ریاست کے براہ راست کنٹرول اور غلبے سے باہر ہو۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ کوئی تعلیمی ادارہ ریاستی قانون سے الگ قائم ہو کر خود مختار ہو سکتا ہے محض خام خیالی ہے کیونکہ وہ ریاست کے تحت جاری معاشی نظام اور سیاسی کلچر سے تو پھر بھی کسی طور الگ نہیں رہ سکتا۔ جدید ریاست کے روبرو ایسے تعلیمی ادارے کی خودمختاری کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسے عالمگیر نظام میں دنیا کے اکثر ممالک مثلاً بھوٹان، مالی وغیرہ کی سیاسی خودمختاری کی ہے۔ اس لیے مذہبی اور غیرمذہبی تعلیم کے حوالے سے بنیادی ترین امر یہ ہے کہ ریاست اور تعلیم کی باہمی میکانکس کو دقتِ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
جامعۃ الرشید کے چارٹر اور امتحانی بورڈ پر روایتی مدارس کی طرف سے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن اسے چارٹر کا عطا کیا جانا ایک انتہائی غیرمعمولی اقدام ہے۔ یہ چارٹر اور اس کے نتیجے میں مجمع العلوم الاسلامیہ کا قیام ہمارے ملک میں مذہبی تعلیم کے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دینے کی مکمل صلاحیت اور امکان رکھتا ہے بشرطیکہ اسے اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیت، امتحانی بصیرت اور تدریسی دیانت سے بروئے کار لانے کو یقینی بنا دیا جائے۔ جیسا کہ معروف ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کو ”اسلامی قوانین کے نفاذ کی جدوجہد“ پر بڑا ناز ہے، اور اس مطالبے کو وہ اپنے جوازِ وجود کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ جدید ریاست سے اس نفاذ کا مطالبہ رکھنے والا مذہبی سیاسی ذہن ہی اس چارٹر پر سب سے زیادہ معترض ہے، یعنی دیوبندی سیاسی ذہن۔ یہ ذہن درست طور پر سمجھتا ہے کہ اس چارٹر کا براہ راست نشانہ وہ خود اور اس کا عمل ہے۔ لیکن دیوبندی سیاسی ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جدید ریاست سے مذہبی قانون کا مطالبہ اور اس کا عملی نفاذ اور مذہبی تعلیمی ادارے کو ریاست کے طرف سے قانونی اساس کا فراہم ہونا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یعنی اگر آپ جدید ریاست سے بغلگیر ہیں تو اس پر یہ اعتراض بے معنی ہے کہ وہ بھی آپ سے بغلگیر ہے۔ اس طرح یہ چارٹر مذہبی جماعتوں کی سیاسی جدوجہد کا ہی ایک اَن سوچا نتیجہ ہے اگرچہ اس کا کوئی شعور دیکھنے میں نہیں ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ خوش فہمی رہی ہے کہ ان کے سیاسی عمل کی نسبتیں یک طرفہ ہیں اور یہ سیاسی عمل کی میکانکس سے مکمل بے خبری کی علامت ہے۔ ریاستی طاقت کا دریا اوپر نیچے جس طرف چاہے بہہ سکتا ہے اور جو ”آ بیل مجھے مار“ پکارے اس پر جدید ریاست خاص مہربان ہوتی ہے۔ مذہبی تعلیم کے حوالے سے جو سیاسی اور قانونی امور ظاہر ہو رہے ہیں وہ مذہبی سیاست کا لازمی نتیجہ ہیں۔
دیوبند کے قیام سے اب تک مذہبی تعلیم ریاستی فصیلوں کے اندر یقیناً نہیں تھی، لیکن ان کے سائے میں ضرور تھی کیونکہ جدید دنیا میں ریاستی فصیلوں کے باہر صرف سائے ہی ہوتے ہیں۔ مذہبی تعلیم کا ریاست کے براہ راست کنٹرول میں نہ ہونا بھی ریاست ہی کے فیصلے سے ممکن ہوتا ہے، اور ریاستی فصیلوں سے باہر جو سائے ہیں انہیں ہماری مذہبی دانش بے خبری میں خود مختاری اور تعلیمی آزادی خیال کرتی آئی ہے۔ یہ امر حد درجہ معنی خیز ہے کہ برطانوی حکومتِ ہند نے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو براہ راست اپنے اختیار میں نہیں لیا حالانکہ جنگ آزادی سے قبل سنہ ۱۸۲۴ء میں وہ مدرسہ غازی الدین کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے دہلی عربک کالج بنا کر ایک کامیاب تجربہ کر چکی تھی اور مشہور مستشرق الایوئیس اسپرنگر کو اس کا پہلا پرنسپل مقرر کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومتِ ہند کو مذہبی تعلیم قومیانے کی ضرورت اس لیے نہ تھی کہ اس نے برصغیر کے استعماری معاشرے میں مذہبی تعلیم کے ایک قابل تقلید نمونے کو کامیابی سے کھڑا کر کے دکھا دیا تھا اور جس کے ہوتے ہوئے روایتی تعلیمی عمل کے باقی رہنے کا امکان ہی ختم ہو گیا تھا، کیونکہ مابعد جنگِ آزادی مذہبی تعلیم کا آوا یہی تبدیل شدہ مدرسہ ہے۔
مابعد جنگِ آزادی مذہبی تعلیم میں جدیدیت کی دروں کاری کا عمل وجودی نوعیت کا تھا، شعوری نہیں تھا کیونکہ جدید تعلیم کے تیز تر اور ہمہ گیر پھیلاؤ نے غیر جدیدیت کی گنجائش کو نہایت محدود کر دیا تھا۔ لہٰذا، ہمعصر سیاسی طاقت اور حکومت سے دیوبند کے کسی بھی طرح کے تعلق کا کھوج لگانے سے یہ امر کہیں زیادہ اہم ہے کہ اس کی لا تعلقی اور اس لا تعلقی کی نوعیت کو زیر بحث لایا جائے۔ دیوبند کی یہ لاتعلقی کسی اختیار کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ سیاسی جبر سے پھوٹی تھی جس نے آگے چل کر مسلمانوں میں ایک تہذیبی حالتِ انکار کو جنم دیا جس سے نکلنا آج بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہو پا رہا۔ یہ لاتعلقی صرف ریاست سے نہیں تھی بلکہ جدیدیت کے تمام مظاہر سے تھی، اور جدید تعلیم کے بالمقابل یہ عملی صورت میں بھی ظاہر ہوئی۔ یہ لاتعلقی جدید تاریخ کے تمام مؤثرات کے روبرو تھی، اس میں جدید افکار، جدید کلچر، جدید معیشت وغیرہ سب شامل تھے۔ یہ لاتعلقی جس آخری عمل میں ظاہر ہوئی وہ معاشی نوعیت کا تھا، یعنی مذہبی تعلیم سے بننے والا انسان جدید معاشرے کے معاشی مؤثرات سے بھی مکمل غیرمتعلق ہوتا چلا گیا اور افراد کی ایک بہت بڑی تعداد معاشی اعتبار سے قطعی غیر اہم ہو گئی اور لاتعلقی فرد کو دست نگری تک لے آئی۔ اس عمل نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو نہایت افسوسناک طریقے پر متاثر کیا اور وہ ایک طرح کی no man’s land کے بھوت باسی بن کر رہ گئے۔ دیوبند سے شروع ہونے والی ہمعصر دنیا سے لاتعلقی اپنے نموئی عمل میں جس معاشی disenfranchisement میں ظاہر ہوئی وہ انسانی، اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ آخر وہ کون سی مذہبی اور انسانی دلیل ہے جس کی بنیاد پر ہم انسانوں کی معاشی عمل میں شرکت کی عدم استعداد کو مذہبی تعلیم کا جزو اعظم بنا سکتے ہیں؟ اس پس منظر میں جامعۃ الرشید کو چارٹر کا ملنا نہایت مستحسن پیشرفت ہے۔
قیام پاکستان کے بعد مذہبی تعلیم کو جس قدر آزادی حاصل رہی ہے اس سے بڑے بڑے تہذیبی مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اگر بصیرت سے کام لیا جاتا تو پوری قومی تعلیم ہمارے علما کے قبضے میں آ سکتی تھی۔ لیکن گزشتہ چوہتر سال اس موقعے کے ضائع ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے مذہبی تعلیمی اداروں کو غیر معمولی وسائل اور سیاسی اثر و رسوخ حاصل رہا ہے اور اس کو استعمال کرتے ہوئے اہم مذہبی اداروں کو چارٹر کے ذریعے جامعات بنایا جا سکتا تھا اور امتحانی بورڈ بھی قائم کیے جا سکتے تھے۔ دیوبند اور علی گڑھ ہماری مذہبی اور تہذیبی ضرورتوں کو کماحقہ پورا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے اہل دانش کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک ایسے ادارے کا تصور سامنے لاتے جو ماضی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو اور جدید عہد کا سامنا کرنے کی قوت رکھتا ہو۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ ہم ہدایت سے مؤید نظری علوم کے ذریعے جدید تعلیم اور جدیدیت کی کوئی ثقہ تنقید سامنے لانے میں کامیاب ہو جاتے۔ ایسا نہیں ہو سکا اور مذہبی نظری علوم کی عدم موجودگی میں مذہبی تعلیم کا جدیدیت کی شرائط پر ریاستی ترجیحات کے مطابق ڈھل جانا اس کی تقدیر ہے اور صرف سیاست بازی کے ذریعے اس سے نہیں بچا جا سکتا۔
میری نظر میں جامعۃ الرشید کو چارٹر کا ملنا پاکستان میں ایک عہد کا خاتمہ اور نئے عہد کا آغاز ہے۔ مجھے ارباب جامعۃ الرشید میں سے محترم مفتی محمد صاحب کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس گفتگو کی کوئی سطح تو نہیں تھی لیکن اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ چارٹر کو مذہبی تعلیم سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل کے ایک حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ احوالِ شیخ چلّی چونکہ مسلم ذہن اور شخصیت کا جزو اعظم ہیں اس لیے چارٹر سے احیا کی امیدیں وابستہ کرنا بھی روحانی اور عملی طور پر مفید ہو گا تاکہ کچھ مصروفیت بنی رہے۔ تہذیب کا احیا چارٹروں سے نہیں ہوا کرتا، چارٹر تہذیب کا ہرکارہ ہوتا ہے۔ ریاست کریانہ فروش کو بھی کاروبار کرنے کے لیے لائسنس عطا کرتی ہے۔ اس لائسنس اور چارٹر کی وجودی سطح ایک ہوتی ہے۔ لیکن اگر فراست ہو تو اس چارٹر سے جو گنجائش ملتی ہے اور جو امکانات پیدا ہوتے ہیں ان کو بروئے کار لا کر خدمت کے بڑے کام ضرور سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔ چارٹر کے ہوتے ہوئے ایسے علمی وسائل بھی بہم پہنچائے جا سکتے ہیں جو آگے چل کر تہذیب کے دفاع میں کھپ سکیں لیکن ہمارے موجودہ حالات میں اس کا امکان بہت کم ہے۔
بین الاقوامی طور مخاصمانہ حالات کی وجہ سے پاکستانی حکومت کو جلدی ہے ورنہ اہل نظر سے یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ ہمارے مدارس معیشت، کلچر اور جدید تعلیم کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہے اور تیزی سے سکول بن رہے ہیں۔ اس عمل میں مذہبی تعلیم بھی جدیدیت کی شرائط پر ڈھل رہی ہے۔ یہ کہنا محض خوش فہمی ہے کہ چارٹر کی وجہ سے مذہبی تعلیم سیکولر ہو جائے گی کیونکہ سیکولرزم کی ایجنسی صرف ریاست نہیں ہے بلکہ معیشت اور کلچر بھی اس کے طاقتور عامل ہیں۔ سیکولرزم مسلم معاشروں میں اب ایک خودکار عمل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے فعال عملی مؤثرات کا سامنا کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے ان پر مذہبی طبقات اور جدید ریاست متفق اور مطمئن ہیں، اور وہ ہے مذہبی نظری علوم کی موت۔ دیوبند سے جامعۃ الرشید تک قائم ہونے والے ادارے مذہبی نظری علوم کی موت پر نہ صرف متفق چلے آتے ہیں بلکہ اس کی تجہیز، تکفین اور تدفین کے بعد قل خوانی پر ماکولات و مشروبات کے تقسیمی نزاع میں مصروف ہیں۔ مذہبی طبقات کی شدید فرقہ واریت، انتشار اور آپا دھاپی میں حکومت کی طرف سے چارٹر کا جاری ہونا ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
“حوالِ شیخ چلّی چونکہ مسلم ذہن اور شخصیت کا جزو اعظم ہیں”
Subhan Allah
پوری تحریر کا مدار چارٹر ایوارڈ ہونے پر ہے۔ جس کو فاضل مضمون نگار نے بقول خود دیکھا پڑھا نہیں۔
جبکہ ابھی تک خود جامعۃ الرشید سمیت دیگر 8 اداروں یا مجمع العلوم الاسلامیہ سمیت دیگر 9 نئے بورڈز نے چارٹر کا شاید دعویٰ نہیں کیا۔
تاہم اگر یہ یونیورسٹی چارٹر ہے تو واقعی قابل تحسین ہے۔
لیکن ایچ ای سی کے مطابق تمام نئے پرانے وفاق اور مدرسوں کی فائنل منتھی ڈگری شھادۃ العالمیہ ہی ہے۔جو خود ایم اے تو نہیں البتہ ایم اے عربی اسلامیات کا معادلہ برائے تدریس وتعلیم فقط کارآمد ہے۔