شوق برہنہ پا چلتا تھا – اسد فاطمی
میں ابھی تک عمر کے اس حصے سے باہر نہیں آیا جب پیٹ میں آٹھ پہر بھوک کی جگہ خواہشیں بھڑکتی ہیں اور دسترخوانوں پر گرم کھاجوں کی بجائے خوابوں کی ہفت خواں سجا کر کھائی جاتی ہے۔ لیکن چار سال پہلے کی بات اور تھی، تب خواب پروری کے معاملے میں اپنی حس ذائقہ کچھ زیادہ جوان تھی۔ چودہویں تک یہیں گاؤں کے مضافات میں پڑھے۔ انہی مضافات میں جہاں اس وقت پھر سے موجود ہوں۔ ٹیوب ویل کی ٹمک ٹوہ، بکریوں کے ممیانے اور مرغوں کی بانگ والی پس منظری موسیقی میں؛ زندہ باد و مردہ باد کے نعروں، طلبہ سیاست کے شور و غوغا اور ایک لاحاصل سفر کی یاد تازہ کرنا ایک خوفناک تجربے سے کم نہیں۔ خیر چودہویں تک یہیں پڑھے۔ ماضی مطلق اور ماضی جاری کی افیونی گردانوں سے بیزار ہوئے تو نصاب سے بغاوت کی۔ بزرگوں سے چھپ کر چترالی پڑھنا شروع کیا۔ ایک قتالہ سے عشق فرمایا، شاعری کی، مطالعے میں ہر اس کتاب سے ہمبستر ہوئے؛
ع: کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اگلا پڑاؤ پنجاب یونیورسٹی میں ہوا، سن رکھا تھا کہ یہاں باغیچوں میں پودوں کی جگہ سوال اگتے ہیں اور نل پانی کی بجائے جوابوں کی پھواریاں برساتے ہیں۔ بیچ کی نہر میں اگیان بہتا ہے، راہداریوں میں مرمریں سلوں کی جگہ منطقی دلیلیں طالب علم کی راہ میں پلکیں بچھاتی ہیں۔ میں نے بھی داخلہ لیا اور ہاسٹل سے کمرۂ جماعت تک ریل کی پٹڑی بچھائی، طے کیا کہ اس سے اتروں تو موت آئے۔ آغاز میں حصول علم کی کچھ تکنیکیں ہی سیکھ پائے۔ استاد کے کلام لاتبدیل کو سن کر من و عن ملفوظات کیسے بنائیں، نوٹس نہ بننے کی صورت میں کس دکان سے رعایتی نرخوں پر خریدیے، پچاس صفحے کا ٹرم مقالہ پندرہ منٹ میں کیسے ترتیب دیا جائے، پرچے میں کامیابی کے لیے صرف پانچ تیربہدف سوالات، پھر بھی پرچہ برا ہو جانے کی صورت میں کامیاب ہونے کے متبادل نسخے، فضیلت اسناد اور مدحت استاد کے صحیفے اور سب سے بڑھ کر جامعہ میں رہتے ہوئے منفعت عقبی اور حصول بہشت کے مسنون و منقول اعمال و وظائف۔ ابلاغیات اپنا مضمون تھا، ہر چند کہ نہیں تھا۔ کیونکہ طبعیت کاروباری نہیں تھی، محض صحافیانہ تھی۔ کمرۂ جماعت سے نہیں بن سکی۔ استاد اجلے جوڑے پر بھڑکیلی ٹائی لگائے انگلستانی لہجے سے اپنی دھن میں غیر مانوس موضوعات پر جتا رہتا:
…After arranging your marketing strategy, the 7Ps formula is
…by this, you may earn more for your corporate, you are working for
آخری فقرے کی لایعنیت سے بدک کر خود بخود میری بائیں چھنگلی کھڑی ہو کر بیت الخلاء کی طرف اشارہ کر دیتی اور میں اس بہانے سے کمرۂ جماعت سے بھاگ آتا۔ چائے خانے پر آن بیٹھیے تو دائیں بائیں بیٹھے ہم جماعتوں کے تبصرے؛ ٹرم پیپر، سکالر شپ، کارپوریٹ سٹینڈرڈ، کاروں اور موبائلوں کے نئے ماڈل، سوسنی جوڑے والی ہم جماعت، تبلیغی مشن، شام تحدیث و تذکیر اور ملبوسات و ماکولات پر اجنبی تبصرے دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگیں۔ بیچ پڑ کے موضوع بدلیے، آج اور سماج کی بات شروع کریں تو درجن بھر بید بردار موقع پر پہنچ کر آپ کو اس کفریہ فعل سے باز رکھنے کا اہتمام کر دیں۔ دوڑ بچ کر لائبریری میں پناہ لیں تو شرق و غرب کے عبقری اور صاحبان نظر اپنے عاقلانہ چھری چاقو سے لیس ہو کر دل و دماغ کی چمڑی ادھیڑ لیں۔ قریب بیٹھی کسی پری رو کو دکھڑا سنانے کی جسارت کریں تو غیور فوجدار دل کا حال سنانے اور تن کے زخم دکھانے کو کسی قریبی ہسپتال کی نرس تک پہنچا آئیں۔ یہ وہ فضا تھی جس کا تقریبا تیس برس سے میری یونیورسٹی کے ہر مجھ ایسے طالب علم کو سامنا تھا۔ میں سب سے پہلے جس نتیجے پر پہنچا وہ یہ تھا کہ اگر دماغی صحت عزیز ہے تو کمرۂ جماعت سے دور رہوں۔ دوسرا یہ کہ میں غلط جگہ پر پیدا ہوا، غلط عشروں میں جوان ہوا اور غلط ادارے میں داخل ہوا۔ اگر یہ سب کچھ صحیح تھا تو بلاشبہ میں غلط تھا۔
اپنی اسی غلط فکری کو لیے جامعہ کے چائے خانوں اور چوراہوں پر خون تھوکنا شروع کیا۔ اسی خود آزاری میں خود ایسے ایک دو بدحواس جوانوں سے آشنائی ہوئی، سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہاسٹلوں میں چھپ چھپا کے گرما گرم مباحثے ہونے لگے اور مغائرت کا کربناک احساس کم ہونے لگا۔
جامعہ میں ڈھائی عشروں سے فکر و فن مورد دشنام تھے۔ تعلیم کا مقصد رضائے الہی کے حصول کے علاوہ اگر کچھ تھا تو وہ جہل مطلق تھا، اجتماعی سرگرمی کا ارتکاب گردن زدنی تھا۔ فنون لطیفہ کا قلعہ لشکر غیرت کے ہاتھوں فتح ہو چکا تھا۔ اطلاقی سائنس کا نصاب خطبات مودودی اور بہشتی زیور تھا۔ تحقیق کا لفظ لغت میں تقلید سے بدل دیا گیا تھا۔ منطق کو مردود اور دلیل کو ذلیل کیا جا چکا تھا۔ اگر کہیں دو لوگ مل کر بیٹھتے تو ساتھ میں ایک تیسرا مقدس خبرگیر بھی ضرور آن بیٹھتا۔ غرض ہو کا عالم تھا۔ شاید نومبر 2007ء کی بات ہے۔ ایک نامور قومی کھلاڑی جو کھیل کے میدان میں ملک کی پیشانی روشن کر چکے تھے اور اب قومی سیاست کے رنگ میں بھی کودنے کا اعلان کر چکے تھے، ہماری یونیورسٹی آن دھمکے۔ برسوں سے کسی چہل پہل سے محروم ہزاروں طالب علموں کا ایک جم غفیر قومی کرکٹ ہیرو کو ایک نظر دیکھنے کو ایک جگہ امنڈ آیا۔ ایسا شاید بیس سالوں میں پہلی دفعہ ہوا تھا، طالب علم گھل مل رہے تھے۔ خوش گپیاں ہو رہی تھیں۔ فوجی حکومت پر تنقید اور جمہوریت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ تبدیلی کے نام سے خوف کھانے والے جوان اب اس لفظ کے خوشنما پہلؤوں کو دیکھنے لگے۔ یونیورسٹی میں ’’روحانی پاکیزگی اور قلبی طہارت‘‘ کا دیرینہ محافظ گروہ اپنی مقدس آمریت کے ڈھائی عشروں میں یہاں کسی بھی آزادانہ یا ’’بلا اجازت‘‘ اجتماع سے چڑتا آیا تھا، خبر نہیں کیا ہوا کہ اس ہجوم میں ایک دم نعرۂ تکبیر بلند ہوا، لاٹھیاں چلنے لگیں۔ آئے ہوئے قومی کرکٹر اور نوزائیدہ سیاستدان کے منہ پر طمانچے برسنے لگے، سر پھوٹے، کیمرے ٹوٹے۔ نعرے ہوئے، چیخیں اٹھیں، قمیصیں پھٹیں، آنچل اڑے۔ عمران خان کو دبوچ کر شعبہ طبعیات کی تجربہ گاہ میں کسی خورد بین کے تختے پر لٹا کر تالا کس دیا گیا۔ ہل چل مچی اور کچھ دیر میں یرغمال مہمان کو ایک گاڑی میں ٹھونس کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
غصہ و غم میں نہائے طلبہ کا خیال تھا کہ انتہا ہو چکی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد ہر ذہنی سطح اور ہر سوچ کا طالب علم کلاس چھوڑ کر سڑک پر آگیا۔ ایک کہیں بڑا ہجوم، کم و بیش یونیورسٹی سے وابستہ ہر نوجوان چیختا چلاتا، احتجاجی بین کرتا ہوا، جمعیت کے خلاف اعلانیہ نفرت کا اظہار کرنے سامنے آ گیا۔ ادارے کا ایک طولانی جمود ٹوٹتا ہوا واضح نظر آنے لگا، نفرت و بیزاری کے جو نعرے ابتک بیت الخلاء کے اندرونی کواڑوں پر چھپ چھپا کر لکھے جاتے رہے تھے، سیاہ پوش طالب علم اب بر سرعام ان پر گلا پھاڑ رہے تھے۔ ’’گو جمعیت گو‘‘، ’’جمعیت مردہ باد‘‘ کے آوازے منصورہ کے بڑے بڑے جنگ جؤوں کو پریشان کر رہے تھے۔ وہ پچھلے بیس پچیس سالوں میں ایسی اعلانیہ نفرت کے عادی نہیں رہے تھے۔ جمعیت کے بڑے بڑے ناظمین اور محتسبان جامعہ نے تنظیم کو ہنگامی استعفے پیش کرنے میں عافیت سمجھی۔ بڑے بڑے عمامے زمین پر آ رہے اور پنجاب یونیورسٹی میں قاضی کا راج محل زمین بوس ہوتا صاف نظر آنے لگا۔
یہ وہ وقت تھا کہ ’’تبدیلی‘‘، جس لفظ نے عرصے سے مجھے اور ایسے کئی طالب علموں کو اپنے طلسم میں جکڑا ہوا تھا، لائبریریوں اور ہاسٹلوں کی پناہ گاہوں سے نکلے۔ میدان صاف تھا۔ ایک مربوط تحریک کے لیے ایک منظم تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت تھی۔ مجھے خبر تب ہوئی جب ایک ہاسٹل میں درجن بھر آزاد خیال، سیکولر، سابقہ جمعیت وادی، جمعیت کے مضروبین، عمران خان کے پرستار، سرخے، سبزے اور سفیدیے اکٹھے ہو کر ایک مشترکہ حکمت عملی پر غور کر رہے تھے۔ دو تین دوستوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ایک ڈھیلی ڈھالی لچکدار تنظیم کا اعلان ہوا۔ یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن محض جمعیت سے آزادی کے مشترک مقصد کے تحت چند ہی دنوں میں تین ہزار سے زائد جوانوں کو رکنیت دے چکی تھی۔ ان میں نرم و نازک نفیس پڑھول بچے بھی تھے اور بانکے سجیلے جیالے بھی۔ عمران خان کی پٹائی کے بعد ایک گرما گرم قومی موضوع کے ہاتھ آتے ہی ہمارے شرمیلے میڈیا نے بھی قدرے بے باکی سے جمعیت پر تنقید میں ہماری ہمنوائی کی۔ سفید پوش سول سوسائٹی پیٹھ تھپکنے آن پہونچی۔ اپنا کام تھا دو اور دوستوں کے ہمراہ گرما گرم پریس ریلیز بنا کر سرشام منہ ڈھانپے جا کر قومی اخباروں کو ارسال کرنا اور کل کا انتظار کرنا۔ خبریں چھپتے ہی جیالے جوان پھر سے اکٹھے ہو کر اپنا غصہ نکالتے، کیمرے کے آگے آ آ کر رونی شکلیں بناتے اور دھواں دھار بیان دیتے۔ ملک بھر کے اخبارات، رسائل، ٹی۔وی چینل کے ہاتھ ایک موضوع آگیا یہاں تفصیل کا محل نہیں غرض دھمالیں ہوئیں کہ جمعیت دوڑ دبک گئی۔
ایک منظم ادارے اور ایک ہجوم کے باہم ٹکراؤ میں فیصلہ عددی برتری پر نہیں ہوتا، فیصل اٹل ہے کہ ہجوم بکھر جائے گا اور تنظیم باقی رہے گی۔ یو۔ ایس۔ ایف(USF)، طلبہ کے جس غول کا ہم حصہ تھے، سوائے جمعیت سے آزادی جیسے مقامی اور موضوعی مقصد کے، کسی قسم کی واضح نظریاتی سمت، طرز فکر اور منشور سے لیس نہیں تھی۔ اجلے سفید کپڑے پر ایک نعرہ لکھے اسے علم بنائے ہوئے وہ میدان میں آئی تھی۔۔ ’’عدم تشدد‘‘۔۔ جمعیت جیسی متشدد تنظیم کے ردعمل میں ظاہر ہونے والی اس طلبہ لہر کے لیے بظاہر عدم تشدد کا نعرہ نہایت جاذب نظر تھا، لیکن اس کے بین السطور میں یہ واضح اشارہ تھا کہ ہماری ’’تنظیم‘‘ ایک گھنے برگد پر بیٹھے چڑیوں کے غول سے مشابہہ ہے، جن کے ہم آواز چہچہے فضاء میں صرف ایک کارتوس چلنے کی گونج کے انتظار میں ہیں، گویا سبھی پر تولے شاخ سے فضاء میں اڑ دوڑنے کو تیار ہیں۔ فاختائیں دھماکے سے اڑ تو سکتی ہیں، گولی کا رخ، داغنے والے کی طرف واپس نہیں موڑ سکتیں۔
3 دسمبر 2008 کو معمول کی میٹنگ کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کو ہو لیے۔ رات گئے مسلح جمعیت وادیوں کی گاڑی منصورہ سے نیو کیمپس روانہ ہوئی، ہاسٹل 11 سے باقاعدہ وضو کیا گیا اور نعرۂ تکبیر اور الجہاد کے نعرے داغتے ہوئے ہاسٹل 16 میں ایک مشتبہ کمرے پر دھاوا بول دیا۔ دھاڑ دھاڑ اور تڑ تڑ کی آوازیں آئیں، حملہ آور ہمارے دو احباب کو نیم مردہ چھوڑ کر وہ واپس اپنے مستقر کو روانہ ہوئے۔ اس کے بعد میڈیا اور ابتدائی طبی امداد والے حملہ آور ہوئے۔ ہسپتالوں میں مضروبوں کی عیادت کو گورنر، وزیر اعلی و دیگر سیاسی شخصیات نے دورے کیے، تصویریں چھپیں بالآخر اسد اور مظہر اپاہج ہو کر وہیل چیئر پر سوار اپنی کتابیں سمیٹے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
دو ایک دن اخبارات پر بات چلی۔ موضوع ٹھنڈا ہوا اور ہجوم تتر بتر ہو گیا۔ یو ایس ایف کا عدم متشدد بلبلہ پھٹ چکا تھا اور باقی ماندہ فدائین کو انگلی پر گنا جا سکتا تھا۔ اب دو یا تین سکرین پر بیان دینے والے قائدین باقی تھے، اور ادھر ہم دو یا تین چھپ کر پریس ریلیزیں نشر کرنے والے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی اپنی اپنی بساط جھاڑ کر اپنے کام کاج کو لوٹ گئے تھے۔ طالب علم یکسوئی سے ’’ٹرم مقالات‘‘ کی تیاری میں جت گئے۔ چائے خانوں پر وہی کربناک موضوع واپس لوٹ آئے، مدحت استاد کے عوض نمبروں کے حصول کا مقابلہ پھر سے اپنے سابقہ جوبن پر آگیا، سماجیات اور سیاسیات کے باب ٹھپ ہوئے اور پھر واجبات غسل اور جزویات نحو پر مذاکرے ہونے لگے۔ غرض جمعیت کی حاکمیت اور اس کے پروردہ رویے یونیورسٹی میں پہلے سے غیض و حشم کے ساتھ لوٹ آئے۔
اگلے تین چار مہینے غم غلط کے مہینے تھے۔ سامان لپیٹ کر اکرام کے کمرے میں ہو لیے۔ ربنواز کی صحبت بھی میسر تھی۔ یہ عرصہ موسیقی اور ادق فلسفیانہ بحثوں کا تھا۔ تھک ہار کر گاؤں کا رخ کیا۔ ہفتہ بھر بعد اکرام کا پیغام ملا کہ لاہور پہنچو۔ شکست خوردگی اپنی فکری کوفت کا حل نہیں۔ ارادہ ہے کہ کیڈر پر مبنی بائیں بازو کی نظریاتی طلبہ جماعت کی ابتداء رکھی جائے۔ سنتے ہی بلا توقف لاہور کی راہ لی۔ نصف درجن کے قریب ہم خیال ساتھیوں سے نشست کی اور سامراجی نظام تعلیم کے خلاف مزاحمت اور طلبہ مزدور کسان مشترکہ جدوجہد کے نعروں کے گرد انقلابی طرز کی تنظیم کے قیام کا فیصلہ طے پا گیا۔ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی میں ضیاء الحق عہد میں قائم کی جانے والی یک قطبی مذہبی طلبہ سیاست کے آنے سے قبل، جمہوری طلبہ سیاست کے دور میں ایک ملک گیر، لیکن پنجاب سے معدوم ہو چکا نام سوجھا جو اپنے منشور اور نظریوں میں بالکل ہم جیسا تھا اور اس کی جدوجہد ہمارے لیے سحر انگیز دیو مالا کی طرح تھی۔ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پچاس کی دہائی میں ملک کے سیاسی اور سماجی افق پر طلوع ہوئی تھی اور فکری طور پر تراشیدہ لیکن جواں مرد طلبہ کے اس طوفان نے فوجی حکومتوں کی نجکاریوں، ظالمانہ تعلیمی پالیسیوں، جاہلانہ نصابوں اور طالب علم کی معاشی لوٹ مار کے عفریتوں کو کوڑے کرکٹ کی طرح بہا کر دریا برد کر دیا تھا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیاں عالمی سطح پر تبدیلی، ابھار اور امید کی دہائیاں تھیں۔ این۔ایس۔ایف(NSF) کا قومی سطح پر اس میں ایک گراں قدر حصہ تھا۔ تیسرے مارشل لاء کے بعد اسّی اور نوّے کی دہائی ریاست کے ہاتھوں اس کی سفاکانہ سرکوبی اور کم و بیش معدومی کی دہائیاں تھیں۔ یہ دہائی عالمی سطح پر بھی احیائے استبداد اور مرگ امید کی دہائیاں ہیں۔
آغاز کار کے لیے ہاسٹل میں میرے کمرے کی صفائی کی گئی، کتابوں کو چندے ترتیب سے رکھا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے فرعونی تسلط کی فضاء میں دو عشرے بعد ایک فراموش کر دئیے گئے پرشکوہ رزمیے کو نئے سرے سے ’’نظم‘‘ کرنا ایک چیلنج تھا، تنظیم کا نام لیے بغیر سہ روزہ/ ہفتہ وار سٹڈی سرکل، مباحثوں اور میٹنگز کے ایک پوشیدہ سلسلے سے کام شروع ہوا۔ ارباب جمعیت کو سر شام باقاعدگی سے کمرے کے باہر بیسیوں جوتوں کی موجودگی پر اعتراض گزرا تو اس سٹڈی سرکل کو کیمپس سے باہر ایک ثقافتی تنظیم کے دفتر منتقل کر لیا گیا۔ ان علمی نشستوں میں شرکت کرنے والے طلبہ میں سے بیشتر نے باقاعدہ سے اس سوچ کو اپناتے ہوئے تنظیم میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی۔ یوں کچھ ہی دنوں میں شعبہ ارضیات، عمرانیات، سیاسیات، کلیۂ قانون، ادارۂ تعلیم و تحقیق اور ابلاغیات وغیرہ سے متعدد طلبہ نے نظریاتی پیوستگی کی بنیاد پر این۔ایس۔ایف کی ہمرکابی اختیار کی۔ اس مرحلے پر ذیلی ادارے تشکیل دیئے گئے، اداروں کو منظم تر بنایا گیا، کیڈر پر ارتکاز اور کارکنوں کی تربیت پر پوری توجہ دی گئی، کام کی توسیع کے ساتھ سیاسی افق پر سازگار وقت کا انتظار جاری رہا۔ کسی ایک خاص ادارے کے تناظر میں قائم ہونے کی بجائے قومی سطح پر بڑی تبدیلی کی علمبردار ہونے کی وجہ سے اس تنظیم کا دائرہ پنجاب یونیورسٹی تک محدود نہیں رہا بلکہ لاہور کے دیگر کئی بڑے اداروں میں پھیل گیا۔ اداروں اور افراد کے پاس مشخص ذمہ داریاں تھیں۔ بطور کارکن، تنظیم کی ویب سائٹ کی تعمیر اور میگزین کی ادارت میری ذمہ داریوں میں سے تھے۔ 2009ء کے اواخر میں کم و بیش چھ ماہ کے لگاتار کام کے بعد تنظیم، سیاسیات، فلسفہ، ادب اور تاریخ پر ایک بھرپور ویب سائٹ کا اجراء ہوا۔ مارچ 2010ء میں ماہنامہ ’’دی سٹوڈنٹ‘‘ کا پہلا شمارہ اردو زبان میں ماہ مارچ کی مناسبت سے ’’شہید بھگت سنگھ نمبر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس دوران این۔ایس۔ایف کا طلبہ کتب خانہ آئے روز سیکڑوں اہم فکری و علمی موضوعات پر نادر کتب سے مالا مال ہو رہا تھا۔ تنظیم بے سر و سامانی کے عالم سے نکل کر پہلے گارڈن ٹاؤن اور بعد میں اقبال ٹاؤن میں نہایت موزوں دفتر قائم کر چکی تھی۔ این۔ایس۔ایف لاہور کے کارکنان کے ملک گیر دوروں کی بدولت جنوبی پنجاب کے نو اضلاع، صوبہ سرحد کے دو اضلاع، شہر کوئٹہ، آزاد کشمیر کے دو اضلاع اور سندھ کے تین اضلاع میں تنظیم کے آزاد اور خودمختار یونٹ قائم کر چکی تھی۔ اس کے علاوہ کراچی اور راولپنڈی میں پہلے سے قائم این۔ایس۔ایف ڈھانچوں کے ساتھ ہمکارانہ روابط استوار کیے۔ اس سبک رفتار ترقی اور اپنی واضح انقلابی تناظر کی وجہ سے یہ تنظیم روایتی بائیں بازو کی جماعتوں، یہاں تک کہ سول سوسائٹی اور میڈیا میں آئے روز موضوع گفتگو رہی اور سب کی نظریں اس پر لگنے لگیں۔ اس روز افزوں نیک نامی کے بول ملکوں ملکوں نظریاتی حامیوں تک پہنچے تو یورپ و امریکہ میں موجود مایوس بیٹھے این۔ایس۔ایف کے وہ کارکن جو ضیاء کے تاریک دور میں جلاوطن ہوئے یا ترک وطن کیا اور اب کسی شرار امید کے انتظار میں تھے، نے ہر ممکن معاونت کے وعدے کیے اور فروری میں یورپ میں ان تمام سابق طلبہ کارکنوں نے ایک بیٹھک میں باہمی معاونت کا منظم طریقۂ کار بنانے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کا یہ مختصر سا گروہ مزدوروں کسانوں کی آواز بلند کرنے والے ہر جلوس، ہر جلسے کی ضرورت بن چکا تھا۔ اور بہت کچھ جو ہمارے سیاسی قد سے کہیں بڑھ کر تھا۔ لیکن یہ سب احوال ہماری تنظیم کے ثمرات کی ترتیب صعودی ہے۔ اسی کے متوازی، ایک خط نزولی چپ چاپ، لیکن بجلی کی سی تیزی سے کشش ثقل کے تابع نیچے سے نیچے گر رہا تھا۔
یہ جن دنوں کی باتیں ہیں، تب شاہراہوں پر دھرنوں، طلبہ طاقت کے اظہار اور جلسوں میں طلبہ و مزدور یکجہتی کے مظاہروں کے خواب آور مناظر مدہوش کر دینے والے تھے۔ یوں دکھائی دیتا تھا کہ عروس انقلاب سولہ سنگھار کیے دھرتی کی سیج سجائے ہمارے انتظار میں ہے، بس ابھی وقت آیا کہ جائیں اور اس کا لال گھونگھٹ اٹھائیں، ’’میری جان۔۔!!‘‘ کہہ کر لپٹ جائیں۔ باہر سبھی کامریڈ ’’انترناسیونال‘‘ کی دھن پر ڈھول تاشوں پر دمادم جھمر جھمانے لگیں۔ یہی خمار تھا کہ سولہ پہر کی بھوک لحظہ بھر نہیں لگتی تھی، تن پہ سوکھتا ہوا ماس، اپنا انقلابی سنگھار لگتا تھا، اور لڑکپنے کا پہلا عشق، اپنی گاؤں والی، اپنے جذبوں کی فہرست سے یکسر نفی ہو کر رہ جاتی تھی۔ آٹھوں پہر کرسی پر چپک قلم چلانے یا کی بورڈ دوڑانے کی مشق نے ہی ’’راحت وصل‘‘ کے معنی دھار لیے تھے۔ یہاں تک کہ سیاسی زندگی، طلبہ محاذ سے بڑھ کر جوانوں کی مسلح انقلابی جدوجہد کے عزائم کو پہنچ گئی۔ روایتی بائیں بازو حلقوں میں پہنچ کر یہ راز بھی خبر بلکہ لطیفہ بن گیا۔ بزرگانہ طنز نے اس مہم جوئی سے باز رکھ لیا کہ سرخ پھریرے کی نیو میں پہلے ہی بہت شہید ہیں، حالات ناسازگار ہیں اور مزید شہیدوں کی حاجت نہیں ہے۔
اب تنزل کی بات کرتے ہیں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ 2010ء جون تیئیسویں کو میں صرف ایک بٹوہ جیب میں لیے، بغیر کسی ارادۂ سفر کے لاہور کے ترقی پسند سیاسی افق سے غروب ہو کر اپنے گاؤں لوٹ آیا تھا۔ کوئی دن پہلے، جب ہماری تنظیم ڈھانچے کے اعتبار سے منظم ترین شکل میں تھی۔ ایک دم، چھناکے سے پرزے پرزے ہو گئی۔ پنجاب، پاکستان اور دنیا بھر کے ترقی پسند حلقوں نے ہم سے وابستہ امیدیں ختم کر لیں، اور نسبتا بدتر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خود بھی۔۔۔
ایک فکری اور اخلاقی طور پر انحطاط یافتہ سماج میں ان انحطاط پذیر قدروں سے حتی الوسع غیر رہ کر اپنے مثالی فلسفیانہ اور اخلاقی اصولوں کا ایک جداگانہ و بیگانہ جزیرہ بسا کر اسی میں رہنا لیکن سماج سدھارتا کا بیڑا اٹھا لینا ایسا ہے جیسے ہوابازی کے کامل علم کے مان پر دریا میں ہوائی جہاز اڑانے کی کوشش کرنا۔ فکری اصولوں پر کی جانے والی سیاست میں جہاں سماج کی روایتی قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ سے سمجھوتہ کیا، وہاں ہم میں دراڑیں پڑیں۔ جہاں اصولوں کی رسی تھام کر اس سے انکار کیا، ہم پاش پاش ہوئے۔ ان دونوں اضداد کے درمیان موزوں ترین فیصلے کے لیے دو سو سال کی بزرگی اور مصلحت اندیشی درکار ہے۔ اس معاشرے میں جہاں صدیوں سے سیاست کا منشور، اپنی مونچھ کے تاؤ کو سمجھا جاتا ہے، میں انقلابی سیاست کے مزاج، تنظیم کی تعریف اور فیصلوں کی عمومیت و مرکزیت کے توازن جیسے تصور سمجھانے کے لیے بقراط جتنا مغز چاہیے۔ ایسی قوم جو کسی کلہاڑا بردار ادارے کا کسی جمہوری ادارے سے اقتدار چھیننے پر مٹھائیاں تقسیم کرتی ہو، اس میں جمہوری فیصلوں کو قبول کرنے کا مادہ پیدا کرنے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔
ہمیں شخصیات سے بحث نہیں۔ افراد بہرحال سیاست میں اہم ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں اس بنیاد پر جدوجہد پر کمر باندھی جائے کہ بڑی لہر کے ابھار سے پہلے پختہ، بے لوث اور نظریاتی سازوسامان سے لیس کیڈر کو منظم اداروں کی بھٹی میں پکایا جائے۔ اذھان سے قبائلی طرز فکر اور طرز سیاست کو کھرچ کر روشن دماغ نظریاتی رنگ و روغن سے آراستہ کیا جائے اور قلب لشکر کی تیاری میں، افراد کی عددی کمی کے باوجود، شخصیت کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ کیونکہ اس گروہ کا ہر کارکن، ایک ہزار پیادوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ہم عددی کمی کا شکار رہے، افراد کے سیاسی اعمال و شخصیت پر سمجھوتہ کیا اور کیڈر سازی سے کہیں زیادہ گنتی میں اضافے پر توجہ دی۔ غاروں کے عہد میں رہنے والے اذہان کو اپنا مافی الضمیر سمجھانے کے لیے جس ذخیرۂ الفاظ کی ضرورت ہے اس کو سیکھنے کے لیے اپنی مدلل گرامر کے اوراق یکسر جلانا پڑتے ہیں۔ ایسا کر گزرنا، یا نہ کر پانا، دونوں خود اپنے ہی لیے نقصان آور ہیں۔ جس انحطاط یافتہ زمانے میں ہر سطح کے فرد کا ایک ایک دماغی خلیہ، آمرانہ ثقافت کا وضع کردہ ہو، میں تمام اعمال مدلل اصولوں سے زیادہ پٹھوں اور کلائی کے زور پر سرانجام پاتے ہیں۔ ایسے میں تبدیلی کے علمبردار کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ کارکنانہ برداشت اور اصولوں پر اٹل کاربندی میں سے کس کا انتخاب کرے۔ ہم نے کارکنانہ برداشت کو منتخب کیا اور معدوم ہوئے۔ حالانکہ اس قدر متضاد اور مجنون سماج میں دونوں راستے مہلک ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی سیاسی کارکن ایسا ہو، جس میں ابن سینا جیسا علم و فضل اور حکمت و نظر ہو، ایک درویش کا سا مجاہدہ، بے ریائی اور دریا دلی ہو اور نوری نٹ جیسی مونچھ اور دست و بازو ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں جوہر کبھی بھی کسی بھی شخصیت میں یکجا نہیں ہو سکتے۔ بخدا نہیں ہو سکتے۔
ایک اور بات بھی۔ شاید لینن نے کہا تھا کہ جب تنظیم میں کارکن آتے ہیں تو وسائل بھی ساتھ لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ گنگا بھی الٹی بہتی ہے۔ کسی بھی ارفع سے ارفع ترین مقصد کے لیے ابھرنے والی تحریک کا بھی لوگ تبھی رخ کرتے ہیں، اگر صاحبان تحریک کے کلہوٹ میں کچھ اناج موجود ہو۔ جب سیاسی کام کو کمر باندھی تو اپنے ماہانہ جیب خرچ سے کام شروع کیا۔ گھروں تک معاملے پہنچے تو جیب خرچ بھی بند ہو گئے۔ پھر نظریے کی سچائی پر دلیلیں دے دلا کر تنظیمی ساتھیوں کی جیبیں کترتے رہے۔ کل وقتی کارکن بھی جزوقتی نوکریاں کر کے سیاسی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ سرگرمی اچھی رہی تو فرزندان قوم کا یہ سوال کہ بھئی تمہاری پیٹھ پر کس کا ہاتھ ہے؟؟، کہا ہمارے ساتھ تو خدا بھی نہیں۔ بے نوائے محض ہیں۔ صبح دم کلاسیں پڑھتے ہیں۔ دوپہروں میں سڑکوں پر احتجاجی دھمالیں کرتے ہیں، سہ پہر کو چوراہوں پر گلی ناٹک پرفارم کرتے ہیں۔ شام کو مل بیٹھتے ہیں اور راتوں کو پوسٹروں سے شہر کی دیواریں بھرتے ہیں۔
بری معیشت رویوں کو مسخ کر دیتی ہے اور شخصیتوں پر کائی جما دیتی ہے۔ کارکنوں سے جمع ہونے والی ایک ایک پائی درج ہوتی رہی، سرگرمی پر صرف ہونے والا ایک ایک دھیلا داخل گوشوارہ کیا جاتا۔ پھر بھی فاقوں سے اترے ہوئے چہرے ایک دوسرے پر نحیف انگلیاں اٹھاتے رہے۔ فلاں کرپٹ ہے کہ اس نے فلاں تنظیمی دورے میں بجائے پیدل چلنے کے رکشے کا استعمال کیا۔ فلاں بدعنوان ہے کہ کل شام اسے کنٹین پر کھانے کے ساتھ کولا پیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ آئندہ میٹنگ میں چارج شیٹ پیش ہو گی۔
سیاسی کام پھیلا تو بدیس بیٹھے ملک بدر سابقہ کارکنوں نے کام میں ازخود وسائل کی حد تک حصہ ڈالنے کا ارادہ کیا۔ اب تک عددی کمی کے باعث اٹل اصولوں پر سمجھوتہ کر کے بہت سی آزمودہ قبائلی ذہنیتوں کو تنظیم کا حصہ بنائے رکھا گیا تھا۔ کام کے پھیلاؤ اور چندے کی آہٹ پر وہی سیاسی طفیلیے اٹھ کر تمام جمہوری تنظیمی اداروں سے ماوراء تنظیم کے لاشریک خالق و مالک اور اولی الامر و سالار کے طور پر کارکنوں سے بیعت کا تقاضا کرنے لگے۔ اب ساتھیوں نے دوسرا راستہ چنا۔ افرادی قلت کے پیش نظر غیر تنظیمی سوچوں سے بار بار سمجھوتہ کرنے کی بجائے اصولی موقف کی راہ۔ دستاویزات اور حقائق کی زبان سے، اصول کی لاٹھی سے انہیں سمجھانے سدھارنے کی کوشش۔ یہ وہ فیصلہ کن موقع تھا جب تنظیم کے اندر سے ہی اس کی بساط الٹی گئی۔ این۔ایس۔ایف کے نام سے وابستہ نصف صدی پر محیط جمہوری اور اخلاقی روایت، جاگیردارانہ سیاسی کلچر کے پروردہ ’’شیروں‘‘ کی ایک ہی چنگھاڑ سے گھائل ہو گئی۔ ایسا مظاہرہ ملک کی روایتی چیمہ چٹھہ پارٹیوں میں یقینا روز ہوتا ہوگا لیکن ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے کئی عشروں کے کام پر پانی پھیرنے کے لیے فیصلہ کن وقت پر داغے گئے ایک دو گھونسے ہی کافی ہوتے ہیں۔ ہم نے حد درجہ اخلاقی ریاضت سے تشکیل دی جانے والی جمہوری قدروں کا میت لیا، سوجے ہوئے چہروں کے ساتھ کئی دن اسے حیات آور دوائیں پلائیں۔ لیکن اس تھوڑی سی مدت میں ہم اپنا اور اپنی تنظیم کا سیاسی وقار اور اخلاقی امتیاز تقریبا کھو چکے تھے۔ ہم میں سے زیادہ تر کی طالب علمی کا دور ختم ہوا چاہتا تھا اور اگلی پود کے لیے ہم ایک منظم ڈھانچہ تیار کر چکے تھے۔ اب سب کچھ غارت ہونے کے بعد ہم گزشتہ تین سال میں بنائی ہوئی عمارت بار دگر صفر سے کھڑی کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اسے ہماری کم حوصلگی ہی کہہ لیں، لیکن حالات یہی کہہ رہے تھے کہ اب کرنے کو کچھ نہیں بچا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اپنی یہ تین سالہ سیاسی مشقت تقریبا بے ثمر ہی رہی۔ سیاسی کام کے سماجی اثرات کی تیزی یا سستی مقامی، ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تابع ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں جمعیت واحد و لاشریک تھی اور تعلیمی معاملات میں ’’سب اچھا‘‘ کا نعرہ لگا رہی تھی، اور سب اس پر یقین بھی کر رہے تھے، (اگرچہ مخلوط تعلیم بہرحال انکے ہاں واحد بڑا تعلیمی مسئلہ رہا ہے)۔ قومی سیاسی حوالے سے یہ وقت فوجی حکومت کے اواخر اور نوزائیدہ جمہوریت کے اوائل کے دنوں پر محیط تھا۔ قومی سیاسی خبریں بظاہر نت نئی سنسنی لیکن درحقیقت بھیانک یکسانیت کا شکار تھیں۔ معاشرے کے فکری مزاج پر جان لیوا جاڑا چھایا ہوا تھا۔ بڑی تبدیلی کی امنگیں ٹھٹھر رہی تھیں۔ بایاں بازو پچیس سال سے مردود و مطعون تھا۔ اس لیے ہماری عمروں کی پڑھی لکھی نسل بھی ان اصطلاحوں اور رجحانات سے قطعی ناواقف تھی۔ جو ترقی پسند موجود تھے، ان کے سر سفید ہو چکے تھے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں دانشورانہ مباحثے اور آل مودودی کے لطیفے سننا سنانا ان کی واحد سیاسی سرگرمی رہ گئی تھی۔ جو بچ رہے تھے وہ سول سوسائٹی سے نان و نمک وابستہ کیے ہوئے تھے۔ ترقی پسند روایت کا نسل بہ نسل منطقی تسلسل عنقا تھا۔ ہم میں سے کسی کا باپ دادا ترقی پسند نہیں تھا۔ ہم ایک خودرو پودے کی طرح تھے جو بائیں بازو کی آفت زدہ کیاری میں بوڑھی خشک گھاس کے درمیان لہلہا رہا تھا۔ پرانے ترقی پسند، قومی سیاست میں جن کی رائے کی قومی ذرائع ابلاغ میں اب کوئی وقعت نہیں بچی تھی، ان کے گرما گرم تبصرے اب صرف ترقی پسندوں ہی میں سرگرم رہنے والے گروہوں پر ہاتھ صاف کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہمارا قد ابھی اتنا بڑا نہیں ہو پایا تھا کہ دایاں بازو ہم پر سنگباری کی زحمت کرے۔ لیکن آغاز کار سے ہی ہمیں خود بائیں بازو ہی کے طنز کا سامنا رہا۔ ہر چند کہ کچھ مشفقانہ حوصلہ افزائیاں بھی شامل حال رہیں، لیکن بحیثیت مجموعی یہ دور بائیں بازو کی سرمائی نیند کا زمانہ تھا۔ ایسے دور میں زیادہ سے زیادہ سیاسی کام سے نہایت کم سماجی اثرات و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔
لاہور میں ترقی پسند طلبہ سیاست کو عشروں بعد صفر سے شروع کیا گیا تھا، ساتھ کچھ نہیں تھا۔ لیکن طلبہ سیاست میں قدم قدم پر کئی جیالے آئے اور میری زندگی کے البم پر اپنی موہنی تصویریں چھوڑ گئے۔ اپنی ناکامران سیاسی زندگی پر تمام تر ماتمی خطبے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ لکھتے ہوئے نہایت مسرت اور رشک کا احساس ہوتا ہے کہ اس سب کچھ کے بعد عدنان عطاء، سرمد، علی رضا کھوسہ اور کئی ایسے جوان، نے میرے اور کئی دلبرداشتہ دوستوں کے لاہور چھوڑ دینے کے بعد بکھرے ہوئے پرزوں کو پھر سے جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ میرے آنے سے ماہانہ میگزین محض ایک دو ماہ معطل رہا اور پھر جاری ہو گیا۔ میرا حصہ ایک آدھ تحریر کی حد تک سہی لیکن ساتھ رہا۔ کئی دوست جو ہمارے بعد میں شریک سفر ہوئے تھے، ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ اکرام جو لڑکپنے سے مزدور تحریکوں میں گلا پھاڑتا آیا تھا، یونیورسٹی میں میرا پہلا دوست تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے مہمیز تھے۔ رب نواز کی پڑھی لکھی باتیں میرا دماغ روشن کرتی تھیں۔ قیصرہ، اپنا گھر بار اور تعلیمی کیرئیر سب تیاگ کر ہمارے ساتھ آن ملی تھی۔ اگرچہ یہ میری طرح پسپاء لشکری ہیں۔ قیصرہ اب شریک جدوجہد سے اکرام کی شریک حیات بن چکی ہے۔ میں ایک تیسرے درجے کا سرکاری ملازم ہوں۔ کہنے کو سال یا سوا سال پہلے کی باتیں ہیں، لیکن ان کا قصوں کا ذکر یوں ہوتا ہے جیسے کسی اولڈ ہاؤس میں کچھ ریٹائرڈ فوجی مل بیٹھیں اور مل کر لڑی کسی تین سالہ طولانی جنگ کی غوغا سامانیوں کو یاد کرتے ہوں۔۔۔ مجھ سے لاہور میں گزارے سالوں کے بارے میں اپنی گاؤں والی کے سیدھے سادے سوالوں کا اب تک کوئی جواب نہیں بن پایا ہے۔ بالی وڈ فلم ’’لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘‘ کے بعد میں نے سیکڑوں فلمیں اور بھی دیکھ لی ہیں۔ انقلاب کا سپنا کتابوں سے ہو کر کتابوں میں لوٹ گیا ہے اور میں رات دن سرکاری وردی پہن کر اپنی منگنی کی انگوٹھی خریدنے کے لیے ’’مسلح جدوجہد‘‘ میں مصروف ہوں۔ سیاسی زندگی کی یادداشتوں کو جوشیلے لفظوں سے ایک دلکش اور ھیروئک رزمیے کی شکل بھی دی جا سکتی تھی لیکن پسپائی کے اس اعترافیے کے بغیر میرا یہ بیانیہ ہرگز مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔
سماج میں بڑی تبدیلی وقت نے لانا تھی۔ ہمارے حصے میں تجربوں، نظریوں، مشاہدوں، نتیجوں، لطیفوں، حسرتوں اور یادوں کی ایک دولت آئی، سو اس کی پوٹلی جیسی تیسی ہاتھ آئی، سمیٹ لی۔ ان سالوں میں زندگی کا میٹر پوری رفتار سے دوڑتا رہا، گاؤں میں میلوں ٹھیلوں کی رونقیں بھی بدستور رہیں، کہیں کہیں ڈیوڑھیوں پر اپنا موہوم سا انتظار بھی باقی رہا۔ گاؤں والی کا جمال سال بہ سال ڈھلتا رہا۔ ان ماہ و سال میں گاؤں کے احوال راویوں سے سنتے ہیں کیونکہ ایک عام عادمی فطرتا ناسٹیلجک ہوتا ہی ہے۔ اب تک دو عشق پالے ہیں سو جناب فیض کے بقول:
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔۔
ماخذ: لالٹین
” تعلیم کا مقصد رضائے الہی کے حصول کے علاوہ اگر کچھ تھا تو وہ جہل مطلق تھا”
مفلساں دل سے خداوند تمہارے پہ درود
اسد فاطمی کی یاد میں دوبارہ یہ مضمون ڈھونڈ ڈھانڈ کر پڑھا ۔۔۔ تیسرے درجے کے غیر سرکاری اور غیر ملازم کے اول درجے کے قلم کو ست رنگا سلام جس کی چاشنی ازاربند کی یاد دلاتی ہے۔
البتہ “جمال کا سال بہ سال ڈھل جانا” وہ سانحہ ہے جس کی کوئی تاویل پیش کی بھی جائے تو ھم اسے توپ دم کرنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے ۔ بہرحال اس برہنہ (پا) شوق کا وہ عالم ہے کہ نہ دیکھا جائے اور نہ پڑھا جائے ۔۔۔ بس چاشنی ہے کہ گھٹنوں گھٹنوں بہ رہی ہے ۔