محمد عمر میمن کا افسانہ ’تاریک گلی‘ (تاثرات: انیلہ نورین)
’تاریک گلی‘ عمر میمن کا ایک انتہائی اہم افسانہ ہے۔ اس افسانے کی اہمیت یوں بھی مرکزی ہو جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوی مجموعے کے لیے بھی اس عنوان کا انتخاب کیا۔ یہ افسانوی مجموعہ 1989 میں منظر عام پر آیا۔ اس افسانے میں انھوں نے ایک نوجوان کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کو بیان کرتے ہوئے ایک معصوم بچی کی موت کے ذریعے انسانوں کی بے حسی، ریاکاری اور بے بسی کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ نگار نے رات کی تاریکی میں لوگوں کے چہروں کو بے نقاب کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ رات کی تاریکی نے لوگوں کے بہت سے راز چھپارکھے ہیں۔ اس افسانے میں لوگوں کی ریاکاری کو موضوع بنایا گیا ہے جو خود کو بہت دین دار خیال کرتے ہیں۔ اس افسانے کی کہانی پانچ ماہ کی بچی کی تجہیزوتکفین کے گرد گھومتی ہے۔ افسانے کا راوی جو کہ نوجوان ہے وہ مولوی محمد اظہر بقاء کی پانچ ماہ کی بچی کے نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جاتا ہے مگر جب مولوی صاحب کے ہاں پہنچتا ہے تو وہاں صرف چار لوگ موجود ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے افعال اور اعمال افسانے کے شروع سے آخر تک ایک جیسے رہتے ہیں جو کہ افسانہ کے راوی کو شدید متاثر کر رہے ہیں۔ وہ چاروں لوگ اس معصوم بچی کی میت اور نماز جنازہ کو ایک بوجھ کی طرح جلد ادا کردینے کے حق میں ہیں۔ پورے افسانے میں افسانہ نگار نے موت کے منظرکو اپنی فنی چابکدستی سے بیان کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ”آٹھ بج رہے ہیں، دوپلی والے صاحب نے جواب دیا مولوی صاحب سے کہلا بھیجواؤ جی۔ تولیے والے صاحب بولے ، عشاء کی نماز ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر نماز جنازہ کا وقت کیا دو بجے رات واپسی کے ارادے سے آئے ہو بھائی “۔ افسانہ نگار نے ان چاروں کرداروں دو پلی والے صاحب ، تولیے والے صاحب، سائیں صاحب اور ایک شاگرد پیشہ نوجوان کے رویوں کی جس طرح پورے افسانے میں تصویر کشی کی ہے اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے کردار ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر موجود ہیں۔ یہ چاروں کردار معصوم پھول کی تدفین کرنے کے لیے یہاں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے ہیں اور سگریٹ پینے اور پان کھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ اس کے برعکس افسانے کے راوی کا خیال ہے کہ کہ اگر سگریٹ ہی پینی ہے تو وہاں جانے کا کیا فائدہ۔ میت کی تجہیز و تکفین کے آداب کا ان چاروں کی نسبت راوی زیادہ خیال رکھ رہا ہے۔ بظاہر تو راوی کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے مگر اس کو نماز روزہ میں کوئی خاص دل چسپی نہیں۔ وہ تو نماز جنازہ میں بھی شرکت صرف مولوی صاحب کی وجہ سے کر رہا تھا۔ مگر وہاں جا کر بھی اسے خیال آیا کہ وہ تو ناپاک ہے ”۔۔ معاً اسے خیال آیا کہ وہ پاک نہیں یہاں پہنچنے سے قبل اتنا وقت نہ تھا کہ بالٹی بھر پانی ہی دھڑ پر انڈیل لیتا مگر یہاں کون دیکھنے آیا ہے کہ پاک ہے یا نا پاک؟ باو ضو یا بے وضو“۔ روشن فکر پس منظر کے باوجود اس کردار میں ان چاروں مذہبی کرداروں کی نسبت احترام انسانیت زیادہ ہے۔ وہ اس معصوم بچی کی میت کے سامنے احتراماً کھڑے رہنا چاہتا ہے۔ وہ تو کسی سے گفتگو کرنے کو بھی خلاف آداب سمجھتا ہے اور خود کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے ناپاک جسم کے ساتھ اس معصوم اور پاک روح کے نماز جنازہ میں شرکت کرے۔ وہ تو میت کو لاش کہنے پر بھی راضی نہیں ہوتا کہ اس معصوم پھول، پاک روح کو کوئی لاش کیسے کہہ سکتا ہے۔ افسانے میں یہ نوجوان ایک حساس دل انسان کے روپ میں سامنے آیا ہے جو خود کو اس قابل بھی خیال نہیں کر رہا کہ وہ اس معصوم بچی کی مغفرت کے لیے دعا کرے ، جبکہ باقی تمام کردار اس ننھی جان کو سپرد خاک کرنے کے بعد بڑے فخر کے ساتھ دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ ”پھر سب نے مل کر فاتحہ پڑھی اس نے دانستہ ہاتھ نہ اُٹھائے اور سر جھکائے بے حرکتی اور خاموشی سے کھڑا رہا۔ اسے یقین نہ تھا کہ دعا وعا سے کوئی لمبا چوڑا فرق پڑتا ہو وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ اتنی معصوم سی بچی کے لیے جوار رحمت کی دعا کرنا جب کہ خود اس کا وجود گنا ہوں سے گر انبار ہو، مذاق نہیں تو اور کیا ہے“۔ اس افسانے میں مذہبی پس منظر وا لے چاروں کردار اپنے افعال اور اعمال سے اپنی بے حسی اور ریاکاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جبکہ مولوی صاحب اور افسانے کا راوی ان کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے۔ وہ تمام افسانے میں مولوی کے گھر سے لے کر قبرستان تک ان سب سے الگ تھلگ اپنی سوچ میں غرق سب سے آخر میں ہے اور جب آخر میں اس نے تولیے والے صاحب کے منہ سے یہ تحقیر آمیز الفاظ سنے تو اس کا دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ ”آج مرے کل دوسرا دن! بالشت بھر کی لونڈیا کا کیا غم وم ہو گا۔ کل پوچھو گے تو پھولے جگ بیت چکے ہوں گے؟“ افسانہ نگار نے اپنی فنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس افسانہ میں کرداروں کی مطابقت سے گفتگو کروائی ہے۔ اس افسانہ کا پلاٹ انتہائی سادہ ہے، تمام تر واقعات میں ایک منطقی ربط موجود ہے اور کرداروں کے توسط سے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ افسانے میں کہیں ابہام پیدا نہیں ہوتا انتہائی موثر انداز میں موت کے مناظر کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی لوگوں کی ریاکاری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اگر افسانے کے عنوان کو دیکھا جائے تو اس کا تعلق اس افسانے کے ساتھ گہرا ہے۔ اور افسانہ نگار نے کہانی کی مطابقت سے اس افسانے کا عنوان ”تاریک گلی“ رکھا ہے یعنی افسانے میں موجود تمام کردار سوائے راوی کے تاریکی میں ہے۔ ”گلی تاریک ضرور تھی مگر اس تاریک میں بھی اسے اپنا راستا صاف سمجھائی دے رہا تھا“ افسانے میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا انجام تو آخر موت ہی ہے مگر وہ دن رات یہ سب دیکھنے کے باوجود تاریکی میں ہے وہ اپنے جیسے انسانوں کو سپرد خاک کرنے کے باوجود زندگی کے مزے لینے میں مصروف ہے۔ ان سب میں صرف ایک نوجوان ایسا ہے جیسے تاریکی میں بھی اپنا صحیح راستہ معلوم ہے۔ اور وہ ان کرداروں پر سوائے اظہار افسوس کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اسلوب اور تکنیک کے لحاظ سے بھی محمد عمر میمن کا ایک بھر پور اور متاثر کن افسانہ ہے۔