خبطِ سلاست (تحریر: محمد بھٹی)
ہمارے یہاں علمی مباحث تقریبا نہ ہونے کی وجہ سے ایک عجیب طرح کی نرگسی ذہنیت پروان چڑھ چکی ہے، جو بری طرح زعمِ ہمہ دانی کا شکار ہے اور زعم بھی ایسا کہ شاید و باید۔ بلکہ اب تو ادعا بن کر بڑی بے شرمی سے ابل ابل پڑ رہا ہے۔ یہ مستِ پندار لوگ اک عجب حالتِ انکار میں ہیں۔ کسی بھی علمی تحریر کا ٹھٹھا لگا کر اسے اس لئے مسترد کرتے ہیں کہ علم کی اس قسم کو ان کے دماغ نے نہیں چھوا، سو اسے علم کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہ تو محض مشکل نویسی ہے، جس کی تسہیل سے یہ عقدہ کھلے گا کہ ہمارے ہی خیالات چرا کر، یوں پیش کیے گئے ہیں کہ ہمیں بھی سمجھ نہیں آتے۔ مبتلائے خبطِ سلاست یہ پود عقدہ کشائی کے مابعد کے احوال تو پیشگی جان لیتی ہے مگر علمی بات اس کی سمجھ دانی سے ماورا ہے۔ سو خود کو بہلانے کے لئے اس نے یہ خیال پال رکھا ہے کہ جو بات ہمیں سمجھ نہ آئے وہ ادق نگاری تو کہلا سکتی ہے، علمی نہیں۔ یہ لوگ دراصل نہایت کایاں ہیں۔ کسی بھی علمی مضمون پر ان کا اولین مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ صاحبِ علم نے اگر بات کی ہے تو اب ہمیں چمکار، دلار کے سمجھائے بھی، وگرنہ ہم یہ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ بات علمی نہیں۔
کل خبطِ سلاست، یعنی سلاست کے بے دھڑک استعمال اور بے غل و غش اطلاق پر مندرجہ بالا آڑے ترچھے خیالات سپرد قلم کیے تو بعض احباب اعتراض کناں ہوئے۔ کچھ نے شاید یہ سمجھا کہ میں بے جا ’لفاظی‘ کا پھریرا لہرانے نکلا ہوں، حالانکہ بات ایسی نہیں ہے۔ آج تک اہلِ علم کو پڑھ سن کر جو کچھ سمجھ پایا ہوں، رفعِ ایراد اور ایضاحِ مزید کے لئے عرض کیے دیتا ہوں۔
گزارش یہ ہے کہ علمی تحریر کی اولین شرط ابلاغ نہیں بلکہ فکر و نظر کی مہمیز کاری ہے۔ اگر کوئی تحریر اس پر پورا نہیں اترتی تو وہ کچھ بھی ہو، علمی نہیں ہے۔ علمی کہلانا اسی مضمون کو زیبا اور اسی تحریر کو موزوں ہے جو کشتۂِ غفلت شعور کو بھی حرکت آشنا کر دے۔ ہم نے لفظ ”فکر انگیز“ سن رکھا ہے اور دن رات اس کی جگالی بھی کرتے ہی رہتے ہیں۔ بایں ہمہ اس لفظ کی معنویت ہم سے ایسے ہی کھو چکی ہے جیسے جدید انسان کے انسان ہونے کی معنویت۔ گزارش ہے کہ جدید نظام کا ساختہ و پرداختہ انسان ابلاغ کا خوگر ہے اور تفکر کے نام سے بھاگتا ہے، کیونکہ اسے ’کام‘ بھی تو کرنا ہے۔ یہ محض ایسی بات سننا چاہتا ہے جو فورا سمجھ آ جائے اور جس سے دن بھر کے تھکے ہارے ذہن کو جنبش آشنا نہ ہونا پڑے۔ اس کی نفسیات ٹریفک اشاروں اور کیلنڈر وغیرہ کے طرز پر ڈھل چکی ہے۔ اشارہ سبز ہو یا لال، اسے فورا اس کی معنویت سمجھ آ جاتی ہے اور پل بھر کو بھی کچھ سوچنا نہیں پڑتا۔ بعینہ کیلنڈر میں بھی فوری ابلاغ پایا جاتا ہے اور اس کی فراہم کردہ ’معلومات‘ بھی کسی مزید دماغ سوزی کا تقاضا نہیں کرتیں۔ جدید نظام کا پروردہ انسان علمی بات کو بھی کسی ٹریفک اشارے یا کیلنڈر و جنتری ہی کی طرح ’سلیس‘ اور ’سریع الفہم‘ دیکھنا چاہتا ہے۔ عرض ہے کہ یہ آرزو نہ صرف خام ہے بلکہ علمی پیمانوں پر اس کا دفاع کرنا نری دھونس ہے۔
بعض نکتہ ور احباب نے مخاطبین کی رعایت کے نکتہ کو بھی اچھالا ہے۔ یہ نکتہ اپنے اجمال میں جس قدر دلآویز ہے تفصیل میں اسی قدر مضحکہ خیز ہے۔ جب بات علمی تحریر کی ہوتی ہے تو اس سے مراد علمی تحریر ہی ہوتی ہے اور اس کے مخاطبین صاحبان علم یا شائقینِ علم ہوتے ہیں نہ کہ وقت گزاری کرنے والے لونڈے لپاڑے۔ میری رائے میں یہاں بھی کوتاہی صاحبِ تحریر کی نہیں قاری کی ہے۔ یعنی قاری کسی سائنسی موضوع پر لکھا اعلی سطحی مقالہ تو پڑھنا چاہتا ہے مگر اسے یہ بھی اصرار ہے کہ صاحبِ مقالہ اسے آٹھویں کی سائنس کی کتاب بھی ساتھ ساتھ پڑھائے۔ یعنی وہ چاہتا ہے کہ بلند پایہ علمی متون لکھتے ہوئے ماتن جہاں جہاں منطق کو برتے وہیں پہلو بہ پہلو اسے ’ تیسیر المنطق‘ بھی ازبر کروائے وگرنہ اس کی علمیت مشکوک ٹھہرا دی جائے گی۔ گزارش ہے کہ اس ہٹ دھرم رویے کو تو انسانی کہنا بھی روا نہیں، چہ جائے کہ اسے ’علمی‘ باور کروایا جائے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ جس علم کی اعلی سطحی تحریر قاری کے پیش نظر ہے، بجائے صاحبِ تحریر کو کوسنے یا اس کے علم کو پُننے کے، وہ اپنے شوقِ علم کو بروئے کار لا کر اس علم کی مبادیات سیکھے۔ یوں نہ تو بے جا سبکی اٹھانا پڑے گی اور نہ ہی خفت مٹانے کے لئے مصنف کو دشنام دینے کی نوبت آئے گی۔