حاصل، لاحاصلِ مطالعہ۔ تحریر: ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری

 In تاثرات

سرسی

میڈلین ملر کا ناول سرسی ابھی ختم ہوا۔ یونانی دیوی دیوتاؤں سے متعلق کہانیوں کے بارے میں میری اب تک کی کل معلومات وولفگینگ پیٹرسن کی مشہور فلم ٹروئے سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوجاتی تھیں۔ اس فلم میں بریڈ پِٹ نے ڈیمی گاڈ اکیلییس کا کردار ادا کیا ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد انسانی تاریخ کے عظیم پھیلاؤ کو محسوس کر کے اور اس سے بڑھ کر دیوی دیوتاؤں کی تاریخ کے لامتناہی پھیلاؤ کو فہم کی گرفت سے باہر پا کر تاثرات اور فکر میں ایک آفاقی خوف اور وجودی اینگزائٹی کا جو عنصر شامل ہو کر دیر تک روشنی دیتا رہتا ہے، دیومالائی کہانیوں کے ذوق کا منفرد رنگ شاید وہی ہے۔ گمان ہے کہ اس گہرے خوف کو، جو ایک غضبناک دلکشی بھی اپنے اندر رکھتا ہے، بار بار محسوس کرنے کی طلب میں دیومالائی کہانیاں پڑھی سنی جاتی ہوں گی۔ میڈلین ملر کے مطابق دیوتاؤں کی یہ مجبوری کہ انکو موت نہیں آ سکتی اِن ہستیوں کو ایک ایسی غیر انسانی سنگدلی اور سنگین خود غرضی سے متصف کردیتی ہے جس میں عام انسانوں کے انکی ساٹھ ستر سالہ مختصر زندگی کے اندر پیش آنے والے دکھ اور الم کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ہزاروں سال سے لاکھوں انسانوں کو بلکتے، روتے، مرتے، جیتے اور خوش ہوتے ہوئے دیکھنے والے ان دیوتاؤں کے نزدیک یہ سب کچھ بس آنکھ جھپکنے جیسا ہے۔یونانی ادبیات میں ان تاریخی اساطیری واقعات کی کچھ ویکیپیڈیائی تحقیق کے بعد سمجھ میں یہ آیا ہے کہ ہومر وہ یونانی داستان گو شاعر تھا جس نے اپنے وقت میں، جو آٹھ سو برس قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے، دو طویل رزمیہ نظمیں لکھیں؛ الیاڈ اور اوڈیسی۔ الیاڈ ٹروئے کی جنگ کے بارے میں ہے جس کے اندر ڈیمی گاڈ اکیلیس اگاممنان یونانی کی لشکر کی جانب سے شریک ہوتا ہے اور اپنے محبوب پوٹروکلس کے قتل کے انتقام کے طور پر ٹروئے کے مشہور سپہ سالار سورما شہزادے ہیکٹر کو قتل کر کے اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ اپنی لشکر گاہ میں گھسیٹ لاتا ہے۔ دوسری رزمیہ نظم اوڈیسی، اوڈیسیاس کے ٹروئے کی مہم کے بعد اپنے جزیرے اتھاکا تک واپسی کے سفر کی روداد ہے جو بذات خود مہمات سے بھرپور تھا اور جس میں اسے دس سال کا عرصہ لگا تھا۔ اوڈاسیاس یونانی ایک شاطر بہادر جنگجو ہے اور اگاممنان کے لشکر کی طرف سے سے ٹروئے کو تاراج کرنے میں شامل رہا ہے۔ واپسی کے اس سفر کے دوران اس کی ملاقات ایک جزیرے پر سرسی دیوی سے ہوجاتی ہے۔ میڈلین ملر کے ناول کا مرکزی کردار یہی دیوی ہے۔ سرسی ایک نِمف دیوی ہے اور اپنے والد ہیلیوس/ سورج دیوتا کی حکم عدولی کے بعد اس کے غضب کا شکار ہو کر سزا کے طور پر ایک غیر آباد جزیرے پر کئی سالوں سے محبوس ہے جہاں اپنی واپسی کے سفر میں اوڈیسیاس اترتا ہے۔ دیوتاؤں کی درجہ بندی کے لحاظ سے نِمف، دیوی دیوتاؤں میں سب سے نچلے درجے کے دیوتا ہیں، ہومر اور دیگر شاعروں کی کہانیوں میں ملر کے بقول اِن نمف دیویوں کیساتھ دیوتا ہمیشہ برا سلوک کرتے آئے ہیں۔ اکثر نمف دیویاں دیوتاؤں کے ہوس کا شکار رہتی ہیں یہاں تک کہ آدم زاد بھی ان نمف دیویوں کے اوپر ظلم کرتے ہیں اور انکا جنسی استحصال دیومالائی کہانیوں میں تواتر سے پیش آنے والا ایک عام واقعہ ہے۔ انسان اور نمف دیویوں کے ملاپ سے جو مخلوق پیدا ہوتی ہے انکو ڈیمی گاڈ کا نام دیا جاتا ہے۔ ملر نمف دیویوں کیساتھ رکھے جانے والے اس استحصالی رویے کو فیمن ازم کے جدید نظریات کے زاویے سے دیکھتی ہیں۔ الیاڈ اور اوڈیسی کے ضابطہ تحریر میں آنے کے بعد یہ دونوں رزمیہ نظمیں ہر دور کے تخلیق کاروں کو ان میں بیان ہونے والے کرداروں سے جڑی کہانیاں بُننے پر اکساتی رہی ہیں۔ چنانچہ ورجل کا مشہور انییڈ بیس قبل مسیح میں لاطینی زبان میں لکھا گیا اور شیکسپئر نے سترھویں صدی عیسوی میں اس پر ڈرامہ لکھا اور آج تک ہومر کی ان رزمیہ نظموں میں بیان ہوئے کرداروں پر کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اگاممنان یونانی کی ٹروئے پر لشکر کشی کے مناظر، اکیلیس کے فوق البشر جنگی کارنامے، اکیلیس اور پٹروکلس کی مثالی محبت، ہیکٹر کا موت کو سامنے دیکھ کر بھی اکیلیس کی مبارزت کو قبول کر لینا، شہزادہ پرییس کا ہیلن کیساتھ معاشقہ اور اس کے نتیجے میں چھڑ جانے والی یہ تاریخی جنگ جس کے تاریخی یا اساطیری ہونے کے بارے میں اختلاف چلا آتا ہے، اوڈیسیاس کی جنگ کے خاتمے پر اپنی بیوی اور بچے کے پاس گھر واپسی کا طویل سفر اور راستے میں پیش آنے والی مشکلات، یہ سب پچھلے کم و بیش تین ہزار سالوں سے کہانی کاری کا ایک زرخیز منبع ثابت ہوتا رہا ہے۔ کہانی کار کے طور پر میڈلین ملر بھی اس خزانے کے خوشہ چینوں میں سے ایک ہیں۔اگرچہ محسوس ہوتا ہے کہ فیمن ازم سے مقصدی وابستگی کے سبب ناول کا قد کچھ کم ہوا ہے مگر اس کمی کو بیان ہوئے کرداروں کے اساطیری شکوہ نے بہت حد تک دور کر دیا ہے۔ دوسرے یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سرسی دیوی کے کردار کو فیمن ازم کی تبلیغ کیلئے استعمال کرنے میں میڈلین ملر نے قابل تعریف فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ کو یو ٹیوب پر کسی انٹرویو یا تقریب میں ملر اپنی کتاب سے اکثر اپنا پسندیدہ اقتباس سناتی نظر آجائیں گی، وہ اقتباس انکی دانست میں فیمن ازم کی وکالت اور پدرسریت کے خلاف بغاوت کا ایک شاہکار بیان ہے۔ اس حصے میں سرسی دیوی کا اوڈیسیاس کے سپاہیوں کو جادو کے زور سے سوروں کے اندر تبدیل کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ سپاہی سرسی کا پیش کیا گیا کھانا اور اس کا پیش کیا گیا پانی پینے کے بعد سرسی کو بے یار و مددگار خاتون سمجھ کر اس سے اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کی جبراً کوشش کرتے ہیں۔سرسی کا اولین جرم اس ناول میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے دیوتاؤں کے مروج اصولوں کے برخلاف ایک آدم زاد سے محبت کی تھی اور جادو کے زور سے اپنے محبوب کو آدمی سے دیوتا بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ دیوتا بن جانے کے بعد لیکن اس آدمی کو کوئی اور نمف دیوی پسند آجاتی ہے اور وہ اس کیساتھ شادی کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ سرسی رقابت کی آگ میں جل بھن جاتی ہے اور جادو کے ذریعے اپنی رقیب کو ایک آٹھ سروں والی بلا میں تبدیل کر دیتی ہے۔ وہ بلا چیختے چنگھاڑتے ایک جزیرے کے کسی غار میں پناہ لیتی ہے اور آتے جاتے سمندری مسافروں کو کشتیوں کے اندر سے اچک کر کھا جاتی ہے۔ جزیرے پر محبوس سرسی اور اوڈیسیاس کی ملاقات کو ملر نے ہومر کی اصل کہانی میں دی گئی تفصیلات سے مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ملر کہتی ہیں کہ قدیم یونانی ادب کے اندر خواتین کو کمتر اور بے وقعت ثابت کرنے کی کوشش بہت عام ہے، خاتون کردار کہانی کا مرکز کبھی نہیں ہوتے وہ یا کسی فلاں کی محبوبہ ہے، یا اُس ہیرو کی بیوی یا کسی اور مرد کردار کی بیٹی ہے۔ ملر اس رویے سے بہت شاکی ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس متعصبانہ رویے کو بعد کے مترجمین اور کلاسیک کے سکالرز نے مزید بڑھاوا دیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ملر نے اپنے ناول میں سرسی دیوی کے کردار کو ایسی مہارت کیساتھ پھیلایا اور اپنی فنکارانہ چابکدستی کے ذریعے اس خاتون کردار کو ایسا توانا رنگ بخشا ہے کہ سرسی دیوی اوڈیسی کا مرکزی کردار بن گئی ہے۔ ایک سے زائد انٹرویوز میں ملر نے کہا کہ سرسی دیوی کو ایک طاقتور جادوگرنی کے روپ میں دکھانا جو اپنے سے بلند دیوتاؤں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو چیلنج کر سکے انکا مقصد تھا اور یہ کہ ایسا دکھانے سے کہانی کی روح متاثر نہیں ہوئی۔ ہومر کی اصل نظم ہی میں سرسی دیوی کے کردار میں ملر کو ایسے امکانات کا اشارہ ملتا تھا جس کی روشنی میں انہوں نے سرسی کے کردار کو پھیلا کر مرکزی اہمیت کے قابل بنا دیا۔ یہ بہرحال ماننا پڑتا ہے کہ ملر اپنے مقصد میں کامیاب رہی ہیں اور کامیاب قرار دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقصدیت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کہانی کے کرداروں میں تبدیلی لانے کے باوجود اُس مقصد کو مصنف نے کہانی کے اندر کھل کر سامنے آنے سے روکے رکھا اور قاری کا ادبی ذوق مجروح نہیں ہونے دیا۔ معاصر دنیا کے اندر فیمن ازم کا ایک تحریک بلکہ کہنا چاہئے کہ ایک مذھب کی شکل اختیار کر کے تعلیم یافتہ اذہان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہونا اگرچہ اس ناول کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ رہا ہوگا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب سے اہم وجہ ہے۔ منظر نگاری کی باریکیاں، کردار سازی کی دلچسپ تہہ داریاں اور کہانی کی مجموعی بنت ایسی شاندار ہے کہ یونانی دیومالا سے ناواقف یا سرسری طور پر واقف قاری کیلئے بھی اس میں دلچسپی کا پورا سامان موجود ہے۔ ابتدائی چند صفحات کے بعد کہانی کا دیومالائی ماحول اور مہارت سے ترتیب دیا گیا پلاٹ قاری کو اپنی مکمل گرفت میں لے لیتا ہے۔ ”سرسی“ میڈلین ملر کا دوسرا ناول ہے اور یہ ہومر کی اوڈیسی پر مبنی ہے۔ پہلا ناول ”دی سانگ آف اکیلیس“ ہومر کے الیاڈ پر مبنی ہے۔ وہ کہانی پھر سہی۔

فورٹی رُوولز آف لَوو
مصروفیت کے دوران فراغت کے لمحات کے امکانات دیکھ کر کچھ دن پہلے چند ماہ قبل منگوائی گئی کتابوں میں سے ایلف شفاک کی فورٹی رُوولز آف لَوو کھینچ نکال لے گیا تھا۔ دو دن ساتھ رہی۔ اس کتاب سے امیدیں تھیں مگر انجام کار مایوسی ہوئی۔ تجربہ کم و بیش پالو کوہیلو کا الکیمسٹ پڑھنے جیسا رہا۔ تصوف جسے ہمارے شعراء کسی وقت ”برائے شعر گفتن خوب است“ کہہ گئے تھے، اب جدید مارکیٹ میں ”برائے ناول فروختن خوب است“ بن چکا ہے۔ سستی پراسراریت اور گھٹیا لفاظی کو جا و بے جا ناقابل فہم یعنی بکواس طوالت کیساتھ ایک ہی برتن میں ہلکی آنچ پر دو سو صفحات تک پکاتے رہیں تو ناول نما بیسٹ سیلر بن کر ہاتھوں ہاتھ نکل جاتا ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ خان صاحب نے بھی یہ کتاب ریکمنڈ کی تھی۔ افسوس ہے اگر یہ درست ہے تو۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ شمس تبریز کی تاریخی شخصیت مستند نہیں ورنہ مجھ ایسوں پر توہین شمس کا فتوی اسی پوسٹ ہی میں لگ جاتا۔ شعر اگرچہ ”مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم… تا غلام شمس تبریزے نہ شد“ ہے لیکن یہ عجیب پیراڈاکس ہے کہ تاریخ میں شمس تبریز مولانا روم کے دم سے زندہ ہیں ۔ ایسے ہی تاریخ میں سقراط افلاطون کی وجہ سے زندہ ہیں۔ سقراط کے المشہور ڈائلاگز افلاطون کے قلم سے جاری ہوئے۔ ہلکی آنچ پکائی کے دوران ایک جگہ پہ ایلف شفاک شمس کی زبان سے ایک عدد تقریر کرواتی ہیں جس میں شمس نصیحت کرتے ہیں کہ لوگ شراب نوشی سے بے وجہ روکتے ہیں حالانکہ بڑا جرم انسان کا دل توڑنا ہے انسان کا دل کسی قیمت پر نہیں توڑنا چاہئے الی الآخر.. اُسی پِٹے ہوئے قے آور کلیشے کی جگالی… مگر اس پر بس نہیں…. آگے سنیے ۔ تقریر ہو گئی۔ کہانی میں آگے چل کر شمس کی شادی ایک پندرہ سالہ نوجوان لڑکی جسے مولانا روم کی لے پالک بیٹی بتایا گیا ہے کردی جاتی ہے، اس پر کچھ تاریخی شواہد بھی غالباً ہیں۔ شمس صاحب اس لڑکی سے جس کا نام کیمیا بتایا گیا ہے پہلے فلرٹ اور بعد ازاں نکاح فرماتے ہیں مگر سہاگ کی رات اچانک انکو خیال آتا ہے کہ یہ کام انکے کرنے کا نہیں۔ چنانچہ گھونگھٹ اٹھانے اور کوئی تحفہ دینے کے بعد اس معصوم جان کو مایوس اور تڑپتا چھوڑ کر باہر باغ میں نکل آتے ہیں اور چاندنی رات کے قدرتی مناظر میں خدا کی قدرت کے جلوے دیکھ کر بے تاب ہوتے رہتے ہیں۔ سات آٹھ ماہ گزر جاتے ہیں، یہ کنواری شرمسار صبر کئے رہتی ہے اور جناب الگ کمرے میں اور دور خدا کی محبت میں غرق پڑے رہتے ہیں۔ آخر اس غریب جان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اپنے معصوم دل میں ٹھان لیتی ہے کہ ایک اور بھرپور کوشش کر لینی چاہئے۔ چنانچہ وہ ایک سابقہ طوائف کے پاس جو مولانا کے گھر پہ ہی رہتی ہیں مدد کی درخواست لیکر جاتی ہے۔ اس تائب سابقہ طوائف کی منت سماجت کر کے اس کو منا کر اس کی مدد سے بازار جا کر نئے کپڑے خرید لاتی ہے۔ کئی روز و شب کی محنت اور تیاری کے بعد ایک رات خوب بناؤ سنگھار کر کے خوبصورت کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر جب سارے لوگ سو جاتے ہیں، ہمت کر کے شمس کے کمرے میں پہنچ جاتی ہے۔ شمس صاحب پہلے تو حیران ہوتے ہیں مگر جب یہ معصوم اپنا مقصد گوش گزار کرتی ہے تو جناب کو اپنا پاک مقام یاد آجاتا ہے۔ اپنے اونچے مسند سے اترنا گوارا نہیں فرماتے اور اتنی بے دردی سے اسکو جھڑک دیتے ہیں کہ وہ روتی کانپتی نامراد واپس پلٹ آتی ہے۔ بیمار پڑ جاتی ہے، کئی دن تک اپنے حجرے میں بند رہنے کے بعد اسی غم سے فوت ہوجاتی ہے۔ مصنفہ کی مہربانی ہے ورنہ اگر وہ شمس تبریز سے انسان کا دل نہ توڑنے کی نصیحت والی تقریر اس واقعے کے بعد کروا دیتیں تو ہم کیا بگاڑ لیتے محترمہ کا۔ حقیقت میں شمس تبریز کی اصلیت نامعلوم ہے لیکن اس نامعلوم شخصیت کے فکشنل کردار کے اندر جیسا بھدا رنگ اس خاتون بیسٹ سیلر بنام ایلف شفاک نے بھرا ہے وہ قابل ملامت و پھٹکار اور سخت مایوس کن ہے۔ ایک اور کتاب اسی بد ذوق مصنفہ کی شیلف میں منتظر پڑی ہے مگر اب مزید حوصلہ نہیں۔ خدا جانے کس وجہ سے یہ کتابیں بیسٹ سیلر بن جاتی ہیں۔

لارڈ آف دی فلائز

ایلف شفاک کے فورٹی رولز سے مایوس ہونے کے بعد محترمہ کی دوسری کتاب کو تو خیر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ اگلے روز ساتھ لیجانے کیلئے کسی کتاب کی تلاش میں شیلف کا رخ کیا تو چھوٹے سائز کے کاغذ پر ایک نارنجی رنگ کی کتاب لارڈ آف دی فلائز پر نظر پڑی۔ کتاب کا عنوان کچھ کافکائی میاٹامورفوسس یا انتظار حسینی کایا کلپ کا سا معلوم ہوا۔ منگواتے وقت کا دھندلا سا یاد تھا کہ پرانے وقتوں کا کوئی ناول ہے۔ ولیم گولڈنگ مصنف کا نام، پہلے صفحے پر تاریخ اشاعت دیکھی تو 1954 لکھا تھا، اٹھا لی۔تعارفی صفحہ پڑھ کے معلوم ہوا کہ مصنف نے اپنا یہ پہلا ناول لکھنے کے بعد اکیس پبلشرز کو مسودہ بھیجا اور سب جگہ سے مسترد ہوا بالآخر ایک پبلشر نے کتاب چھاپی اور پھر کتاب اسقدر مشہور ہوئی کہ ملینز کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ چھ سے تیرہ سال کے انگریز لڑکوں کا ایک گروپ کسی سمندری جہاز کے حادثے کے بعد ایک گمنام غیر آباد جزیرے پر پہنچتا ہے، وہ سمندری سفر کیا تھا اور کیوں تھا وغیرہ کی تفصیل موجود نہیں ہے، کہانی جزیرے پر پہنچنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ابتدا میں بچے جنگلی پھل کھاتے، ناچتے گاتے، نہاتے تیرتے اور کھیلتے کودتے رہتے ہیں۔ ایک موٹے چشموں والا موٹا بچہ جس کا نام اسکی جسامت کی وجہ سے ”پِگی“ پڑ گیا ہے ساحل سے ایک بڑی سیپ اٹھا لیتا ہے اور اس میں پھونک مار کر دکھاتا ہے جس سے بڑی اونچی بگل کی سی آواز نکل آتی ہے۔ یہ چشمے والا بچہ جسے ایک نسبتاً سمجھدار کردار دکھایا گیا ہے اپنے ساتھی ایک اور بڑے بچے کو جو جسمانی طور پر سمارٹ اور مضبوط ہوتا ہے وہ سیپ حوالے کر دیتا ہے، اس لڑکے کا نام رالف ہے۔ یہ بچہ وہ سیپ بجا کر سب لڑکوں کو ایک جگہ پر جمع کرتا ہے۔ اس سیپ کی وجہ سے رالف کو ایک طرح کی اتھارٹی حاصل ہو جاتی ہے اور رالف اور پگی سب سے ووٹنگ کروا کر رالف کو لیڈر منتخب کروا لیتے ہیں۔ایک اور لڑکا جیک بھی لیڈرشپ کا امیدوار ہوتا ہے اور رالف کے لیڈر منتخب ہوجانے پر اس سے حسد اور دشمنی پال لیتا ہے۔ پہلی ووٹنگ کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ ایک اونچی پہاڑی پر جا کر آگ جلائی جائے اور مسلسل جلائے رکھنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ دھویں کو دیکھ کر کوئی پاس سے گزرتا ہوا جہاز ان کی مدد کو آجائے اور گروپ ریسکیو کر لیا جائے۔ رالف اور پگی اس ریسکیو والے مسئلے کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔دوسری جانب جیک جنگلی سوروں کے شکار اور گوشت بھون کر کھانے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ نادانی کی وجہ سے بچے زیادہ تر جیک کے ایڈونچرز کی طرف کھنچتے ہیں اور آگ جلائے رکھنے والے کام کو بورنگ جانتے ہیں۔یہاں سے جیک اور رالف کے درمیان ایک منظم رقابت کا آغاز ہوتا ہے۔ جیک کچھ وقت کے بعد اپنا کیمپ بھی جزیرے کی دوسری طرف الگ کر لیتا ہے اور حالات ایک تلخ رخ اختیار کر لیتے ہیں۔انسان کی انفرادی نفسیات کے تنوع اور ان کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والی اجتماع کی حرکیات کے فلسفیانہ تجزیوں پر مبنی اس طرح کی تجرباتی کہانیاں متعدد مشہور اور معروف ہیں۔ یہ کہانی بھی اسی بنیادی موضوع کو دلچسپ انداز میں زیر بحث لاتی ہے اور انسانی اجتماع کے اندر حصول اقتدار کے لئے جنم لینے والے جھگڑوں کی بنیاد پر روا رکھے جانے والی شدت اور غارت گری کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ ابتدائی حصہ کچھ طویل اور بورنگ ہے مگر دو تہائی گزرنے کے بعد مصنف کہانی کو کئی دلچسپ موڑ دیتا اور قاری کو مکمل گرفتار کر لیتا ہے۔ کردار نگاری اچھی ہے اور اہم اور بڑے فلسفیانہ سوالات کو پس منظر میں رکھ کہانی کی بنت میں اس طرح کھپایا گیا ہے کہ مقصدیت سے کہانی کو آلودہ نہیں ہونے دیا گیا۔ اس نوع کے ناولز میں یہی فنکارانہ مہارت ہی اصل کامیابی ہے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search

midlife_crisis_aamirmuneer