خاکہ نویسی کی لت۔ تحریر: سردار عماد رازق
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کچھ احباب جب کسی سے ملتے ہیں تو ملاقات کے تذکیری اور ملاقاتی کے شخصی احوال قلمبند کرنا تقریباً ویسے ہی ضروری خیال کرتے ہیں جیسے سنیپ چیٹ کے صارفین کسی اچھے ریستوران میں کھائے گئے کھانے کی سنیپ بنانا۔ یہ رسمِ خاکہ (و نیم خاکہ) نویسی کچھ ایسی چل نکلی ہے کہ اب کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کب کی گئی کوئی ملاقات زیرِ دامِ رسمِ مذکورہ آ کر قفسِ سوشلستان کی دائمی اسیری میں رہے۔ پھر اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملاقات و ملاقاتی کا کون سا گوشہ دربارِ قلم و قرطاسِ خاکہ نویس میں باریابی پائے، اس کا کُل اختیار اسی کے پاس ہے۔ گویا: ”جو چاہے ’اس‘ کا ’قلمِ‘ کرشمہ ساز کرے“ ۔ یوں تو اس صورتِ حال کے بہت سے خطرناک نتائج نکلتے ہیں لیکن زیر نظر تحریر تحدیداتِ طوالت کے سبب ان میں سے چند ہی کو زیر بیان لانے کی متحمل ہو سکتی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ ایسے حالات میں خاکہ نویسوں سے ملتے ہوئے ہر شخص لگا بندھا رہنے لگے گا کہ مبادا اس کی کوئی حرکت زیرِ عتابِ خاکہ نویس آ جائے۔ اس سے باہمی انسانی تعلق کی جہتِ اظہار پر حرف آئے گا اور ایسی ملاقاتیں ’باادب، باملاحظہ‘ کی تصویر ہو کر رہ جائینگی۔ ذرا سوچیے کہ ہر ہر جملہ تول اور ماپ کر بولنے سے کتنی ہی ’اہم گندی باتیں‘ گفتگو سے حذف ہو جائیں گی، اور کیسے خشکیِ گفتگو ایک لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی۔ مزید یہ کہ بزمِ خاکہ نگاراں میں دوسروں (بالخصوص دانش گردوں) کی چغل خوری بھی ایک مسئلہ بن جائے گی۔ اب خاکہ نویس لکھتے ہوئے یہ تھوڑا سوچتا ہے کہ اس کی لکھت کے قارئین بھی ہو سکتے ہیں؛ اس کے خیال میں تو ڈیکارٹ کے تھاٹ ایکسپیریننٹ کے موافق اس جہانِ رنگ و بو میں بس وہی لائق اعتبار وجود ہے: گویا ”خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ“۔ ایسے میں اسے کیا معلوم، اور اگر معلوم ہو بھی تو کیا پروا، کہ ”کیا نہیں لکھنا؟“۔
اس رسم کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا ہے، اور مستقل میں مزید نکلے گا، کہ خاکہ نویس گفتگو میں معروضی مقام سے شریک ہوتا ہے۔ گاہے وہ ناظر ہو گا تو گاہے سامع، نہیں ہو گا تو بطور موضوع شریکِ گفتگو۔ اب یہ کیسی زیادتی ہے کہ باقی لوگ تو موضوعی شخصی ولولے سے محوِ کلام ہوں اور انھی میں بیٹھا کوئی شخص ان کی لاعلمی میں معروضی ناظر بنا تمام کاروائی لوحِ ذہن پہ مرتسم کر رہا ہو۔ یہ تو تقریباً ویسی ہی صورت حال ہے جیسے کسی اہم دفاعی اجلاس میں کوئی صحافی وزیرِ دفاع کا روپ دھارے بیٹھا ہو۔ ذرا سوچیے کہ ایسے اجلاس اور صحافی کا کیسا عبرت انگیز انجام ہو گا (یا ہونا چاہیے) ؟
ہمارا مشاہدہ ہے کہ خاکہ نویسی ایسی بلائے جاں ہے کہ جو ایک بار اس کا گرفتار ہو پھر یہ ’خاکہ نویسی کی لت‘ پر ہی منتج ہوتی ہے۔ اب نشے کی لت، چوری کی لت، ڈاکے کی لت، عورت کی لت وغیرہ تو پھر بھی کسی قدر قابلِ بیان لتیں ہیں، لیکن ’خاکہ نویسی کی لت‘ کیسی ہی مضحکہ خیز لت ہو گی؟ چلو کسی زہریلے سانپ کا ڈسا تو پانی نہیں مانگتا، اس لت کا شکار تو ’علاج‘ بھی نہ مانگے گا۔ پھر یہ کہ معروضی ناظر بنتے بنتے خاکہ نویسی کی لت کا شکار گفتگو سے alienate ہونے لگے گا اور اس کا انجام سوائے صحافتی سطح کے، اور کیا ہے؟ ہیہات! کیسا ہی برا انجام ہے اور کیسی عبرت آمیز منزل!
اول اول تو مذکورہ لت کے گرفتاران سے لوگ مستقبل کی خوش کن امیدوں کے سہارے میل جول جاری رکھتے ہیں کہ ” آخر آدمی ہیں اور پھر ہمارے دوست بھی، بھلا کب تک اس خانۂ آفت کے مکین رہیں گے؟“ لیکن جوں جوں وقت بیتتا جاتا ہے اور انھیں اپنے تخمینے حسنِ ظن محض معلوم ہونے لگتے ہیں تو پھر ان پر یہ آفاقی حقیقت کھلتی ہے کہ ”جو شخص خاکے لکھنے پر اتر آئے بھلا اس سے بہتری، معاودت اور استرداد کی کیسی امید ؟“ پس ایسے میں لوگ خاکہ نویس سے دور بھاگنے میں ہی اپنی اور اپنی کلاہ کی بالترتیب بھلائی اور بقا جانتے ہیں۔
ہم نہایت دردمندی سے عرض پرداز ہیں کہ جوانانِ ملت کو اس مرضِ بلاخیز سے چھٹکارا دلانے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ اگر یہ لت موجودہ رفتار سے ہی لگتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب انتظار حسین کے قول ”جب سب گدھے ہو جائیں تو کوئی گدھا نہیں رہتا اور سب دانشور ہو جائیں تو کوئی دانشور نہیں رہتا“ کو ”جب سب خاکہ نویس ہو جائیں تو کوئی خاکہ نویس نہیں رہتا“ سے بدلنا پڑے۔ع ” ہر شخص لیے پھرتا ہے اک ’خاکۂ بے تاب‘ “