میٹرو۔ کہانی کار: اسامہ ثالث انصاری

 In افسانہ

خود سے محو گفتگو میں میٹرو  بس  اسٹیشن پہ ٹہل رہا  تھا۔ وقت ہے کہ گزر ہی نہیں رہا۔ آج اس  سے پہلی ملاقات ہوگی۔ کیا کہوں گا۔جب وہ آئے گی تو کیسے ملوں گا، وہ آتے ہی سلام کرے گی۔ ایسے کئی ملے جلے خیالات آرہے تھے۔ وقت کیسے کٹے، میں نے ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کر دیا۔ کبھی چشمہ اتار کر صاف کرتا ہوں۔ ” آسمانی رنگ کا سوٹ اس پہ سفید ماسک، ٹھیک ہے؟ “ ،  میں نے خود سے سوال کیا اور پھر خود ہی بڑبڑایا ، ” اچھا لگ رہا ہوں۔ “

اب ذہن پہ زور دیتا ہوں ، کیا ہوا تھا؟ دھیان وقت کو پاٹ کر وہیں لوٹ جاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں ۔

 میرے  ارد گرد لوگ آ جا رہے ہیں۔ لڑکیاں شاید یونیورسٹی جا رہی ہیں۔ نیلے رنگ کی جینز پہنے ایک لڑکی بڑے اعتماد کیساتھ تیزی  سے سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ اپنے آس پاس سے غافل، دائیں ہاتھ کی انگلی میں چابیوں کا گُچھا لہراتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ اب وہ ٹوکن مشین کے پاس ہے ٹوکن نکال کر یہ جا وہ جا۔ مجھے اسکا اعتماد گھبراہٹ کی یاد دلا رہا ہے۔ میں وہاں سے ہٹ گیا۔

جھرمٹ میں اکیلا  ہونا تنہائی کی کریہہ صورت ہے۔ میں اسے  بھلانے کی کوشش کرتا ہوں مگر خیال  زقند لگا کر  پھر  اُدھر پہنچ جاتاہے۔ کیا سوچ رہا تھا!

ان رونقوں میں آدمی کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ سب بے دھیانی سے چل رہے ہیں۔ نہیں، یہ بے دھیانی نہیں ہے اور دھیان بھی نہیں ہے! کیسا منظر ہوگا اگر سب لوگ مر جائیں اور میں اکیلا رہ جاؤں، اسٹیشن کے پار والی بڑی سڑک خالی رہ جائے اور خزاں کے اداس جھونکے اشجار کو ننگا کرنے لگیں۔ سڑک پتوں سے بھر جائے گی۔ جب ہوا  زور سے چلے گی  تو پتے  فضا میں گول گول چکر کاٹیں گے۔ دیکھنے والا ” خزاں رسیدہ پتے کی مانند “   دیکھ لے گا۔ زیادہ خزاں رسیدہ پتے ہوا سے تھڑ تھڑ کرتے کواڑوں سے اندر گھروں میں چلے جائیں گے۔ تب دیکھنے والا  ہوا کی سائیں سائیں بھی سن لے گا جو خالی گھروں میں راج کرتی پھرتی ہے۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے میں بے خبری سے   ایسکلیٹر کو ایک نظر دیکھ لیتا ہوں۔ دوسری نظر نے دیکھا کہ وہ  ایسکلیٹر پہ کھڑی رفتہ رفتہ بلند ہو رہی  ہے سر پہ کئی تہوں میں سرمئی اسکارف چڑھایا ہوا، سفید اور ملائم  بیضوی چہرہ۔ پیشانی چھوٹی اور ناک قدرے چوڑا لیکن پھینا بھی نہیں۔ ہنستی تھی تو ناک چہرے پہ چھا جاتا، ایسا ناک جو ہونٹوں کا ساتھی ہو۔ ہونٹ پھیلیں تو ناک بھی پھیلے۔ آپ نے ایسے چہرے دیکھے ہوں گے۔

اس نے مسکرانے میں پہل کر دی۔ چار پانچ سیکنڈز گزرے ہوں گے۔  مجھے نہیں معلوم میں نے اس کی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ کے اشارے کا جواب کیسے دیا۔ شاید میں نے  بھی ہاتھ ہلایا تھا۔ 

”السلام علیکم !  دیکھنا مجھے دیر ہوگئی ۔ اپنا موبائل ہاسٹل بھول گئی تھی۔ جلدی میں وہیں سے ہاسٹل واپس گئی۔ شکر ہے موبائل گم نہیں ہوا۔ آپ کی اور ابو کی کتنی ہی کالز مس گئیں “ اس  طرح بولی گویا ہم کئی گھنٹوں سے ساتھ ہیں اور ساری جھجھک مٹ چکی  ہے۔

  ” خیر ہے “ میں نے جواب دیا۔ ” کیسی ہو؟ “

” میں بالکل ٹھیک۔ آپ کیسے ہیں؟ “

” میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔ تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔ “

” کدھر جانا ہے؟ “

” پاس ہی شاپنگ مال جائیں گے “ ۔

وہ مسلسل مسکرا تی رہی۔ مجھے سمجھ  نہیں آیا کہ کیا بات کروں۔ چند لمحوں میں ہم اسٹیشن کی دوسری طرف سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے۔

” تمہاری یونیورسٹی کی بسیں کتنی پھٹیچر قسم  کی ہیں۔ جیسے  پرانے زمانے کی ہوں۔ “  

” ہاں ! آپ کی یونیورسٹی کی بسیں پیاری  ہیں میں نے دیکھی ہیں۔ ہماری یونیورسٹی کی بسیں بھی پیاری ہیں، آپ نے وہ  نہیں  دیکھیں۔ “

میں نے ہاں میں جواب دیا۔ ” سفر کیسا رہا تمہارا؟ “

” مزے کا “

  ” میں اپنا موبائل ہاسٹل بھول آئی تھی۔ پھر بس میں بیٹھ کر میں نے آپ کو میسج کرنے کے لئے پرس کھولا تو موبائل   نہ پاکر  پریشان ہوگئی ۔ فوراً واپس بھاگی۔ شکر ہے گم نہیں ہوا۔ پتا ہے میرے ابو کی نو کالز مس ہوئیں ۔ پھر میں نے انہیں کال کی تو کہنے لگے تمہاری آواز نہیں آرہی بعد میں فون کرتا ہوں۔ شکر ہے بعد میں انہوں نے کال نہیں کی “ ۔

” اچھا “ ۔ میں نے جواب دیا۔

” دیکھنا میرے ماں باپ کیا سوچیں گے “ ۔

” کیا؟ “

” یہی کہ انہوں نے مجھے پڑھنے بھیجا اور میں  یہاں آپ کے  ساتھ۔۔۔ ویری بیڈ۔۔۔ ہے نا؟ “

” نہیں “ ۔

ہم شاپنگ مال کے قریب پہنچے تو اس  نے کہا  ” میں یہاں ایک دو مرتبہ آئی ہوئی ہوں “ ۔

” اچھا “ ۔

” دیکھنا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے۔ میری تو ہارٹ بیٹ تیز ہے۔ “

” کچھ نہیں ہوتا۔ “

مال میں داخل ہوتے سمے گارڈ نے مجھ سے بیگ مانگا اور پوچھا کہ اس میں لیپ ٹاپ ہے؟ ”ہاں لیپ ٹاپ اور تمام اصل تعلیمی اسناد اسی میں ہیں “ گارڈ نے میرے بیگ کی تینوں زپوں کو پلاسٹک کی  زنجیر نما کسی شے سے لاک کر دیا۔

لیڈی گارڈ نے اُسے کہا کہ میڈم  ماسک لگا لیں۔ وہ مسکرا کر بولی ”اچھا میں لگا لوں گی“ ۔ لیڈی گارڈ  کچھ غصے سے بولی تو اُس نے سکارف سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ لیجیے ماسک بن گیا۔

شاپنگ مال سے مجھے رومال خریدنا تھا جس کے لئے  کافی محنت  کرنا پڑی۔ ” وہ سامنے ہے۔ “ اس نے قدرے دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا۔

چلیں آپ وہ دیکھیں میں بھی تب تک کچھ خرید لیتی ہوں۔   سلیٹی رنگ کا ریشمی رومال مجھے پسند آیا۔ پکڑ کرکیش کاؤنٹر پہنچا جہاں وہ پہلے سے میرا انتظار کر ہی تھی۔ میں نے پیسوں کے لئے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

”سر ان دونوں کا بل ایک ہی بنانا ہے “۔ کیشئر نے پوچھا۔

” جی ہاں “

وہ بگڑ گئی ۔”نہیں نہیں۔ میرا علیحدہ ہے۔ “

پاس کھڑی دو لڑکیاں ہمیں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں بلکہ ہنس رہی تھیں۔ خاصی مضحکہ خیز صورتحال بن  چکی تھی۔

” دیکھیں ابھی  میرا حق نہیں ہے۔ بعد میں لوں گی نا۔ اچھا نا آپ  ناراض نہ ہوں۔ “

باہر نکلے تو سوچنے لگے کہ اب کہاں جائیں؟

” یہ تمہارا  شہر ہے بتاؤ کہاں جایا جا سکتا ہے۔ “ میں نے اس سے پوچھا۔

” میرا شہر نہیں ہے میں بھی تو  یہاں اجنبی ہوں۔ ہاں لیکن  اس وقت تو میرا ہی شہر ہے کیونکہ آپ دوسرے شہر سے آئے ہیں اور میں یہاں پڑھ رہی ہوں۔ “

” اف اللہ ۔ دیکھنا میرے بیگ کی زپ خراب ہوگئی۔ “

” ابھی جو  کلپ  خریدا ہے  وہ لگا لو۔ “

” نہیں میں اسے ایسے ہی ٹھیک کروں گی۔ “

یہ کہہ کر وہ بیگ کے ساتھ مصروف  ہو گئی۔ کبھی بیگ کی زپ صحیح کرنے کی ناکام کوشش کرتی کبھی مجھے دیکھ کر کچھ باتیں کرتی۔ میں بھی ہوں ہاں میں جواب دے رہا تھا۔

ہو گئی صحیح !

” بہت خوب “

اب دوسری طرف سے خراب ہوگئی۔

” کلپ لگا لو یا ہاتھ میں پکڑ لو “ ۔ میں نے اصرار کیا تو وہ زپ  کے ساتھ مصروف رہتے ہوئے چل پڑی۔  بڑی سڑک پہ ہم باتیں کرتے جارہے ہیں ۔وہ لگاتار زپ کے ساتھ مصروف ہے۔

” کیا کھاؤ گی؟ پیزا کھاتے ہیں؟ “

اس نے انکار میں سر ہلایا۔

” وہ سامنے  سے بریانی کھاتے ہیں ۔ وہاں بیٹھنے کی جگہ  بھی مناسب ہوگی۔ “ میں نے ایک  کثیر منزلہ عمارت میں  سانول بریانی کا بورڈ پڑھ کر  کہا۔

  ” ہاں چلتے ہیں۔ “

اندر جا کر میں نے ویٹر سے فیملی ہال کا پوچھا۔ جسکا جواب ویٹر کے بولنے سے پہلے اُس نے کہہ دیا، ” وہ اوپر۔ “

ہال میں خوبصورتی سے آٹھ ٹیبل لگے ہوئے تھے۔ میں  سامنے والے ٹیبل پہ بیٹھنے کے لیے جھکا تو اس نے منع کر دیا کہ یہ دروازے کے بالکل سامنے ہے ۔

  ” تو پھر کدھر بیٹھیں؟ “

” یہاں بیٹھ جائیں؟ “ میں نے ساتھ والے میز کی طرف اشارہ کیا۔

” نہیں وہ سامنے “ اتنا کہہ کر اُس میز کی طرف چل دی۔ رہی سہی خوش فہمی بھی جاتی رہی۔

میں نے اسے چند قدم چلتے اور بیٹھتے دیکھا۔ اس وقت نامعلوم کیفیت نے جکڑا ہوا تھا۔ بیٹھ کر وہ میری طرف دیکھ کرمسکرائی۔ میں بھی بیٹھ گیا۔

چار کرسیوں سے گھرے  ٹیبل پہ منرل واٹر اور  ٹشو بکس رکھا تھا۔   وہ آرام سے پہ بیٹھی  اپنا اسکارف ٹھیک کرنے میں مگن ہوگئی اور میں نے مینو کارڈ دیکھنا شروع کیا۔ متعدد قسم کی بریانیاں دیکھ کر فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہوچکا تو مینیو کارڈ اُس کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر سے بھی  کچھ مختلف نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اتنے میں ویٹر میری جانب لپکا اور میں نے اسے دو سنگل چکن بریانی کا آرڈر کیا۔۔۔

” دیکھنا وہ سامنے ٹیبل پہ ایک کپل بیٹھا ہوا ہے “ ۔ اب کی بار وہ کچھ ہنسی   اور نسبتا اونچی آواز میں تبصرہ کر رہی تھی۔ میں ٹھٹھک کر اسے منع کرتا ہوں جس پہ وہ مزید اٹکھیلیاں   کرتے ہوئے دوسرے ٹیبلز پہ بیٹھے ہوئے مزید دو کپلز دریافت کرتی ہے اور پھر  کچھ اونچی آواز میں دوبارہ ” کپلز “ کہتی ہے۔  اب میں  پریشان ہوچکا تھا۔ پھر گویا ہوئی ” لوگ ہمیں بھی کپل کہتے ہوں گے “ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ لیکن   اس نے مجھے خاطر میں نہ لاتے ہوئے پھر اونچی آواز میں کہا   ” بھاڑ میں جائیں سب کہتے ہیں تو کہتے رہیں ہمیں تو معلوم ہے کہ ہم کپل نہیں ہیں۔ “ میرے پاس  پھر اثبات میں سر ہلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ” ایک  دو تین چار، چار کپل ہیں۔ واؤ”. یہ سن کر میرے ماتھے پہ ندامت اور خوف کے آثار نمایاں ہو چکے ہوں گے۔

خود پہ پریشانی کی کیفیت طاری کرتے ہوئےمجھے اس کو  کچھ ڈانٹنے کے انداز میں تنبیہ کرنا پڑی۔ جسے اس نے  محبت بھری نظروں سے قبول کر لیا۔ بریانی آچکی تھی۔

” میں بڑی ایکسائیٹڈ ہوں “

” میں بھی۔ “

” شادی کے بعد ہم یہاں آیا کریں گے۔ کتنا مزہ آئے گا ۔ ہے نا۔ “

” تمہاری  فرینڈز کیسی ہیں؟ “ میں نے بات کو کسی اور طرف موڑنے کی کوشش کی۔

” دفع کریں انہیں۔ وہ یہاں نہیں ہیں۔ ہم ہیں۔ آپ ہماری باتیں  کریں “ ۔

بریانی کھاتے ہوئے ہم نے ایک دوسرے کو دیکھنے اور آنکھوں آنکھوں میں کچھ  باتیں کرنے کا آغاز کیا ۔ کھانے میں مرچیں زیادہ تھیں۔اسکی آنکھوں میں پانی آ گیا ۔

” مرچیں زیادہ ہیں؟ “ میں نے پوچھا۔

” ہاں “

میں نے پانی ڈال کر دیا۔ اسکا ہاتھ گلاس کی طرف آیا تو میں نے غور سے دیکھا جو میرے حافظے میں جم گیا ہے، مجھے غیر ضروری تفصیلات یاد رہ جاتی ہیں کام کی چیز بھول جاتا ہوں۔ اسکا چہرہ کیسا تھا، اب لکھ رہا ہوں تو یاد نہیں آرہا۔ ہاتھ یاد ہے۔ گورا چٹا ہاتھ۔ انگلیاں لمبی اور ہتھیلیاں چھوٹی۔ ایک ناخن میں کچھ میل تھا اور انگلیوں کے سرے باریک، ایک ہی رگ نظر آئی جو ابھری ہوئی نہیں تھی۔ انگوٹھے کی پشت پہ استری کا نشان۔ خوبصورت ہاتھ تھا۔

” شکریہ “ اس نے پانی پی کر کہا اور  باقی کھانا پیک کرنے کا کہہ دیا۔

” دیکھیں، ہم اپنا اپنا بل ادا کریں گےابھی میرا حق نہیں ہے “

  میں نے بڑی مشکل سے سمجھایا کہ ابھی بِل میں دوں گا باہر جاکر تم  سے لے لوں گا تب جاکر مانی۔

بریانی کھا کر ہم  سیلفیاں بنانے لگے۔ اُس نے  تین چار  سیکنڈز کی چند ویڈیوز بنائیں اور کہا کہ اسے سیلفی لینا پسند نہیں۔ پتہ نہیں لوگ کیسے یہ کام کر لیتے ہیں۔

ہوٹل سے واپسی پہ اس نے پھر ایک بار اپنے بیگ کی زپ کو ٹھیک کرنے کی ٹھانی لیکن میری زہرناک نظروں کا اشارہ سمجھ کر خاموشی سے چل پڑی۔

” آئسکریم کھانی چاہیے؟ “ ، میں  نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔نہیں میں جواب پاکر ہم میٹرو اسٹیشن کی  جانب روانہ ہوگئے۔

” اب تم چلی جاؤ گی؟ “

” نہیں۔ ہاں۔ دیکھنا میری فرینڈز میرا انتظار کر رہی ہیں مجھے وہ پوچھیں گی کہ کہاں گئی تھی۔ میں نا، مال کا بتا کر آئی تھی۔ اور پتا ہے چڑیل(اس نےاپنی سہیلی کو شرارت سے یاد کیا)  نے مجھے بریڈ لانے کا کہا تھا۔ میں اب اسے کیا کہوں گی؟ “

” یونیورسٹی سے خرید لینا۔ “

میرا مشورہ اس نے مان لیا۔ ساتھ چلتے ہوئے ہم بڑا اچھا محسوس کر رہے تھے۔ راستے میں سگریٹ کی امنگ جاگی اور میں نے باتوں باتوں میں سگریٹ کی بات یوں شروع کی ”وہ دیکھو۔ یہ آدمی ہمارے ساتھ ہی باہر نکلا تھا۔ سیدھا سگریٹ کی دوکان پہ جائے گا “ سوچا یہ تھا کہ اگر اس نے برے خیالات کا اظہار کیا تو پتا چل جائے گا کہ سگریٹ پی جا سکتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس نے کہا کہ وہ بھی کبھی کبھار پی لیتی ہے۔

 پاس ہی ایک دکان سے سگریٹ خریدنے لپکا تو اس نے بھرے بازار میں شور مچا دیا ”یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔ واپس آجائیں ۔ میں کہتی ہوں واپس آجائیں۔ “   اپنی انا کی قربانی دینا مجھے کچھ اچھا معلوم نہ ہوا اور میں نے سگریٹ خرید کر خاموشی سے جیب میں ڈال لی۔

” تم نے تو بتایا کہ تم سگریٹ  پیتی ہو پھر مجھے منع کیوں کیا؟ “

” ایک دو بار پی تھی۔ “

” کب؟ “

” بچپن میں ایک دو بار دادا ابو نے مجھے پلائی تھی۔ “

میں جواب سے مطمئن نہ تھا لیکن استفسار کرنا بھی اچھا نہ سمجھا۔

” پتا ہے ابو سگریٹ  پیتے  ہیں۔ میں امی سے کہتی  ہوں کہ سگریٹ سے منع کریں پاپا کو لیکن وہ چپ ہو جاتی ہیں۔ “

” کیسا محسوس ہوا تمہیں؟ “ میں سگریٹ والا موضوع بدل کر  اسے باتوں میں لگانے لگا۔

” بہت اچھا۔ ہم شادی کے بعد ایسے ہی گھوما کریں گے۔ پتہ ہے مجھے کھانا بنانا نہیں آتا اور میں ضدی بھی بہت ہوں۔ مما کی بھی ایک نہیں  چلتی میرے آگے۔ “

   میٹرو کا اسٹیشن آچکا تھا۔ لیکن  ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اگلے اسٹیشن تک پیدل چلنے کا قصد کیا۔ راستے میں اس نے ایک لائیو ویڈیو بنانے کا کہا ۔ دائیں جانب گاڑیوں کا شور، جوعام صورتحال میں  مجھ پہ بہت گراں گزرتا ہے،  مجھے اتنا محسوس نہیں ہوا۔ ویڈیو بنائی، جس میں اس نے مستقبل کے ارادوں کا اظہار کیا۔    میٹروکا اگلا اسٹیشن  آچکا تھا۔ اب اسے الوادع کہنا ہے!۔

ہم ایسکلیٹرپہ ویڈیو بنائیں گے۔ “ اس نے ایک اور فرمائش کی ۔ میں نے جھٹ سے فون نکالا۔ وہ ویڈیو بڑی شاندار  تھی۔ اسٹیشن  پہنچ کر پھر وہ  بیگ کی زپ ٹھیک کرنے میں لگی تھی۔ میں ساتھ  کھڑا  حیرت سے گزشتہ ایک سوا ایک گھنٹے کی بابت سوچ رہا تھا۔ مجھے وہ احساسات یاد آنے لگے جو میرے لیے کسی نئے انسان سے ملنے کے بعد وحشت کی نوید لاتے ہیں ۔

اسٹیشن لیڈی گارڈ نے ہمیں راستے سے ہٹ کر کھڑے ہونے کی تلقین کی جسے ہم نے بہت غصے سے دیکھا اور پھر سے ایسکلیٹر  کے پاس کھڑے ہوگئے۔ وہ برابر اپنے بیگ کی زپ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

” بس یہ ٹھیک کر لوں پھر ہم دو تصاویر بنائیں گے۔ “

” لیڈی گارڈ ہمیں گھور گھور کر قاتلانہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ “

” بھاڑ میں جائے میں اسی سے تصاویر بنانے کو کہوں گی۔ “

زپ کا کام تما م کر کے وہ اجنبی  لیڈی گارڈ سے  مخاطب  ہوئی۔

” آنٹی ہماری تصویر بنا دیں۔ “

” میں نے آپ کو کہا نا یہاں اجازت نہیں ہے آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں؟ نیچے جاکر بنا لیں۔ “

 نیچے اترے تو بھکارن کھڑی تھی۔اس نے بھکارن سے تصاویر بنانے کا کہا۔

” بیٹا مجھے نہیں بنانی آتی۔ “ بھکارن نے جواب دیا۔

میں  نےزچ ہوکر اسے منع کرنیکی کوشش کی لیکن وہ ضد پہ اڑی رہی۔ اس کی خوش قسمتی کہ سامنے سے  ایک طالبہ کو آتے ہوئے دیکھا اور اس نے فورا اس سے تصویر بنانے کی دخواست کی۔

” آپ ذرا قریب ہوجائیں۔ “ لڑکی نے تصویر بناتے  وقت کہا۔

وہ کچھ قریب ہوئی اور یوں یہ الوداعی رسمِ تصویر ادا ہوئی۔

میں نے  پھر سے اسے چھوڑنے کے لئے اسٹیشن کی طرف رخ کیا اور  ایسکلیٹر   کی مدد سے ہم اوپر پہنچے۔

جاتے ہوئے اس نے مجھے ہاتھ سے الوداعی اشارہ کیا۔

” چچا لائٹر ہے؟ “ پھل فروش سے میں نے لائٹر  لے کر سگریٹ سلگائی اور اپنا وٹس ایپ کھول کر اسے بلاک کر دیا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search