ماسی: محمد عمر میمن (مرتبہ: شاہین الحق)

 In افسانہ
نوٹ:   یہ افسانہ محمد عمر میمن مرحوم کی کتاب ’تاریک گلی‘ (ناشر: سنگِ میل) سے لیا گیا ہے اور انکے خاندان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

وہ شام زندگی کی بہت عجیب شام تھی ۔

 اس شام ماسی نے اپنی دانست میں، بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا :

 نقوی پارک میں پروین اور احمد کی ملاقات کا بندوبست کر کے ماسی ٹھیک اُس لمحے اُن کے درمیان آ دھمکی تھی جب وہ پھولوں کےایک کنج میں اپنی تشنہ محبت کے جادو جگانے کے لیے پر تول رہے تھے۔

 سردیوں کی اُجاڑ، خشک سی شام، پھولوں اور ایسے جاوداں، ایسے با محل لمحے میں ماسی کا اُن کی خلوت کو یوں مکدرکرنا ۔ جھنجھلائے تو بہت لیکن حکمتِ عملی کام آ گئی۔ سر پڑی بلا کو ٹالنے کے لیے ادھر پروین نے جھٹ پٹ اپنا گرم کوٹ اُتارا (جس پر مہینوں سے ماسی کی آنکھوں کا حلقہ آکر ایسا تنگ ہوا تھا کہ ڈھیلا پڑنے کا نام ہی نہ لیتا تھا؛ وہ تو دبی زبان سے دو چار بار اُس کی فرمائش بھی کر چکی تھی) اُدھر احمد نے جیب کی ساری نقدی نکال کرماسی کی ہتھیلی پر اُلٹ دی۔ 

ایسے موقعے تو روز ہی ماسی کی زندگی میں آتے تھے۔ چھوٹے موٹے تحائف روز ہی مل جاتے تھے۔ کسی دن اتفاق سے اگر جھولی خالی رہتی تو وہ اُس دن کو اپنے حق میں بہت منحوس تصور کرتی ۔ گرمیوں کی تعطیل کے بعد جب کالج نیا نیا کھلتا، اور تازہ بتازہ داخلوں کی ریل پیل ہوتی تو ماسی کا کاروبار تھوڑے دنوں کے لیے ٹھنڈا پڑ جاتا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب، بہر حال ماسی کو کمائی کے کئی گر آگئے تھے۔ آنکھوں میں کاروباری چمک کی آب و تاب لیے اور تاجرانہ سوجھ بوجھ کے ساتھ وہ نئی نئی آئی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتی کہ ان کا کوئی راز راز نہ رہتا، بلکہ اُن کے کنوارے، بے تاب سینوں سے مثل سیماب چھلک کر ماسی کے اندھے سینے میں پیوست ہو جاتا۔ محبت کی صبحیں، اُبلتے جذبات کی شامیں بہت دل نواز ہوتیں ۔ عہد و پیمان کے چکر پھر چل نکلتے، اور اُن کی ہر گردش کے ساتھ ماسی کا کشکول کھنکھناتے سکوں کے جل ترنگ سے جھنجھنا اُٹھتا ۔ پھر یہی سکے، ریشمی ،ملبوسات آرائش جمال کے نت نئے سامان ماسی کے کھردرے ہاتھوں سے گذر کر رحیمہ کے گدرائے ہوئے جسم تک آتے اور اُس میں تازگی، شگفتگی، اور لوچ کا اضافہ کر دیتے۔ ایسے بے رحم لمحوں میں رحیمہ کو اپنی راتوں کی اُجاڑ تنہائیوں کا احساس غم زدہ کر دیتا۔ لیکن آج ماسی کی زندگی میں بڑا واقعہ رونما ہوا تھا ۔ آج بلاشبہ بہت بھاری مال غنیمت اُس کے ہاتھ لگا تھا۔

اور اب ماسی شاداں و فرحاں کسی جیتے ہوئے جواری کی طرح مخمور سی تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی گندے نالے کی طرف چلی جارہی تھی۔ راستے بھر طرح طرح کے خیالات اُس کے ذہن میں دھومیں مچاتے رہے۔ ایک ایسا ہی خیال رحیمہ کی شادی کا بھی تھا: آواره، منہ زور، ہٹ دھرم خیال !

ماسی کو اپنے گرد و پیش کا کچھ احساس نہ تھا۔ بتدریج ڈوبتی ہوئی شام ایک آخری ہچکی لے کر رات کی بانہوں میں ڈھیر ہو گئی۔ سڑک پر مقررہ فاصلے سے ایستاده لیمپ پوسٹ برقی قمقموں سے روشن ہوگئے ۔ ماسی کو رات کے یوں دبے قدموں بہت نیچے تک اُتر آنے کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔ اُس کا دھیان تو کہیں اور ہی تھا ۔ قدم گویا خود بخود منزل کی طرف رواں تھے۔ ماسی کو آج گھر لوٹنے میں خلاف معمول بہت دیر ہوگئی تھی۔ لیکن دیر سویر کا حساب کتاب کرنے کا اُسے کہاں ہوش تھا؟ وہ آج بہت خوش تھی۔ سردی سے اُس کے دانت کٹکٹانے لگے تھے، لیکن اُس نے اِس کی ذرا پروا نہ کی۔

ماسی ایک مقامی کالج میں ملازم تھی۔ یہاں اُس کا کام بس اتنا ہی تھا کہ لڑکیوں کے کامن روم کے آگے اسٹول ڈالے بیٹھی بیٹھی اُن کی نگہداشت کیا کرے۔ اُنھیں لڑکوں سے دیر تک بے مقصد بات کرنے سے باز رکھے، یا اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے کوئی ضروری بات کرنا چاہے تو وہ اُسے دروازے پر ٹھہرا کر مطلوبہ لڑکی کو بلوا دے، یا لڑکیوں کی فرمائش پر آس پاس کی دکانوں یا کالج کے کینٹین سے ان کی مطلوبہ چیز لا دیا کرے۔ تنخواہ بھی اُسے اسی کام کی ملتی تھی۔ لیکن اپنی ذمّے داری کو جس طرح ماسی نے سمجھا تھا، جس طرح اُس کی اپنے لیے تشریح کی تھی، اس کی نظیر مشکل ہی سے ملے گی۔

 وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتی کہ کب کوئی لڑکی یا لڑکا ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے ہیں تاکہ اپنا پانسہ پھینکے۔ ملاقات سے باز رکھنا رہا ایک طرف، وہ تو خود درون کالج یا بیرون کالج اُن کی ملاقات کے لیے مواقع فراہم کرنے کی نت نئی ترکیبیں ڈھونڈھتی رہتی۔ گھنٹا لگتے ہی جب لڑکیاں اپنی اپنی کلاسوں کی ہو رہتیں، ماسی میدان صاف پا کر اپنی چوبی مسند سے اُترتی اور دو گھڑی کے لیے اپنے یاروں کے پاس بیٹھ آتی، جو بالعموم آس پاس کے خوانچہ فروش یا دکان داروں پر مشتمل ہوتے ۔ یا پھر ایک آدھ چکر دور کا لگا آتی: کیا پتا کوئی شکار پھنسنے کا منتظر بیٹھا ہو !

 ان جھاڑیوں کی اپنی ایک کہانی تھی۔ مخصوص لب و لہجے کے ساتھ عملی طور پر پیش آنے والی ایک مختصر لیکن بڑی ہی جان دار کہانی! ان جھاڑیوں کا بھی ایک کردار تھا۔ یہ جھاڑیاں جو کالج کے اُفتادہ گوشے میں وقت کی بے اعتنائی کے سبب از خود جی اور پھل پھول رہی تھیں ، ماسی کی زندگی کا، بلکہ اُس کی شخصیت کا بھی، ایک اہم پہلو تھیں ۔ جس طرح پیپل کے پیڑ تلے گیان دھیان کے اذیت ناک مراحل سے گذر کر مہاتما بدھ کا سینہ نور عرفاں سے جگمگایا تھا، بالکل اُسی طرح ان جھاڑیوں کی چھدری چھدری چھاؤں میں ماسی نے بھی خود آگہی کے تمام مراحل طے کیے تھے۔ یہیں اس کی پرانی زندگی نے اپنا چولا بدلا تھا۔

ماسی جگ ماسی تھی۔ اور تو اور خود اپنے محلے میں بھی وہ اب اسی نام نامی سے مشہور ہوگئی تھی۔ کالج کی نوکری سے پہلے وہ سگریٹ سازی کے کسی کارخانے میں ملازم تھی۔ اُس وقت محلے کی عورتیں، کنواری بالیاں، بچے ، غرض  گندے نالے کے ارد گرد بے ہنگمی سے پھیلی، ٹاٹ پھونس اور ٹین کی متعفن جھگیوں پرمشتمل پوری آبادی اُسے چچی نصیین کے نام سے پکارتی تھی۔ لیکن ادھر تین سال سے کالج کی یہ نوکری اُس نے کیا کر لی تھی کہ وہ جگ ماسی بن کر رہ گئی تھی۔ چچی نصیین ۔۔۔ اڑتیس سالہ بد ہیئت بیوہ، زمین پر پھوٹے نصیبے لے کر آنے والی ۔۔۔ دیکھتے دیکھتے اپنی جون اتار کر موجودہ ماسی کے قالب میں اتر آئی تھی۔

گرمیوں میں عموماً ماسی کے جسم پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے ہوتے (جو لڑکیاں اپنی مطلب براری کے لیے تحفتاً یا رشوتاً اُسے دیا کرتیں)  اور سردیوں میں ایک خوب لمبے اور میلے سے کوٹ کا اضافہ اور ہو جاتا جو تین سال پہلے ماسی کو ملا تھا۔ 

ان جھاڑیوں اور کوٹ کی کہانی مشترک تھی۔ یہ ایک غیر منقسم اکائی تھی۔ 

یہ اُن  دنوں کی بات تھی جب ماسی ابھی زمانے کے نشیب و فراز سے پوری طرح آ گاہ نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز وہ یوں ہی تجسسانہ دلچسپی سے کالج کے اسی دور اُفتادہ گوشے میں نکل آئی تھی۔ لیکن جب اُس نے اس خرابے میں، گنجان جھاڑیوں کے عقب میں، اکرم کو رشیدہ پر جھکے دیکھا تو خاصا غل مچا دیا۔ نتیجتاً دو تشنہ جسم جنم جنم کی نا آسودگی کا احساس لیے گھبرا کر ایک دوسرے سے گریزاں ہو گئے۔ اگلے لمحے نے دونوں کو ماسی کے قدموں پر دیکھا۔ لالچ، منتیں، اور خوشامد کائی زدہ دیوار پر گرتی بوندوں کی طرح ماسی پر پڑیں اور اُس میں جذب ہوئے بغیر پھسل گئیں ۔ سادہ لوح ماسی، جسے عمر کے پورے اڑتیس سال گذر جانے کے بعد آج اچانک اپنی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا، ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ آس پاس کوئی موجود نہ تھا ورنہ ماسی کا غل غپاڑا خدا جانے کن اذیتوں کا پیش خیمہ بن جاتا ؟ دونوں لرزه بر اندام سہمے سمٹے ماسی کے حضور کھڑے تھے، اور ماسی کسی طرح قابو میں آکر ہی نہ دے رہی تھی۔ وہ ماسی ہی کیا جو حرام کے تر لقموں پر گذر اوقات کرے! وہ مصر تھی کہ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پرنسپل صاحب سے رپورٹ کے بنا نہ رہے گی ۔ حقیقت میں اُس کا منشا بھی یہی تھا ۔ لیکن جب رشیدہ نے اپنا  قیمتی اونی کوٹ اُتار کر ماسی کے کپکپاتے وجود پر ڈال دیا تو جیسے اُس کی دبیز حرارت اور اُس کے روئیں دار لمس کی گدگداتی لذت نے سکتہ سا طاری کردیا ۔ ماسی کی زبان گنگ ہوگئی اور ہونٹ سل گئے۔ اُس نے مزید کچھ نہ کہا۔ بس کوٹ کو جھاڑیوں میں چھپا دیا اور سرجھکائے کالج کی طرف چل دی۔ 

اگر اُس وقت ماسی اُن سے کچھ بھی طلب کر لیتی تو بغیر دیے چاره نہ ہوتا ۔ لیکن یہ ماسی کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا، اور اس کے ساتھ ناتجربہ کاری کی ساری ہچکچاہٹ بھی ناگزیر تھی۔ اُسے نہیں معلوم تھا کہ اس اجنبی تجربے کے درمیان اس کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ جوملا اسی پر صبر و شکر کر کے وہ چھٹی کے بعد اپنا مال غنیمت وصول کرنے چھپتی چھپاتی جھاڑیوں تک پہنچی، کوٹ نکالا، عقبی دروازے سے نکلی اور خوب لمبا چکر کاٹ کر ایک بالکل ہی مختلف راستے سے گھر پہنچی ۔

راستے بھر رہ رہ کر یہ خیال اُسے ستاتا رہا کہ آج یہ جو اُس نے کیا ہے، تو کچھ اچھا نہیں کیا ۔ لیکن قیمتی کوٹ کی گداز نرماہٹ نے ہر بار آگے بڑھ کر اُس کے اندر اُٹھتی آوازوں کو قتل کر دیا۔ بے خیالی میں وہ کوٹ کی ملائم، روئیں دار سطح پر ہاتھ پھیرتی جاتی، کسی اندرونی سرشاری سے مغلوب ہو کر کوٹ تک اپنے ہونٹ لاتی اور اسے چوم لیتی۔

 شروع کے چند ہفتوں میں ضمیر اور ذہن کی جنگ نے ماسی کوادھ موا کر ڈالا ۔ لیکن پھر اُس نے بڑی پیشہ ورانہ مہارت سے اپنے اندرکی ”نصیین “ کا گلا گھونٹ دیا۔

اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا کہ ارادتاً وقت بے وقت ایک دو چکر ان جھاڑیوں کی ضرور لگا آتی جہاں اس کا آوا گون ہوا تھا ۔ کبھی کبھار اسے اپنے دورے میں خاطر خواہ کامیابی ہوتی: ایک دوسرے میں اترے ہوئے دو وجود سہمتے ، اور سہم کر علیحدہ ہو جاتے ۔ اور اب تو ماسی اتنی دلیر ہو گئی تھی کہ جس کی جو چیز بھا جاتی ، کھڑے کھڑے دھروا لیتی ۔ لڑکیاں بھی ماسی کو سمجھ گئی تھیں۔ اسے خوش رکھنے کے ہزار جتن کر تیں۔ 

اب ماسی کو گھر میں کسی چیز کی تنگی نہ تھی۔ 

پہلے پہل تو رحیمہ ماسی کی لڑکی نے اپنی ماں کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھا، لیکن جب تحائف روز کا معمول بن گئے تو اس کی آنکھوں کا استفہام بھی پگھل کر موم کی طرح بہہ گیا۔ 

ہر عورت کو اپنا شوہر عزیز ہوتا ہے اور پھر اگر وہ مر چکا ہو تو کچھ زیادہ ہی ۔ ماسی کو رحیمہ کے مرحوم شوہر کی واحد نشانی تھی ، جس کے خط و خال میں وہ دونوں ہی منعکس تھے ۔ اکثر ماسی پہروں رحیمہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتی ، پھر جذبے کے ہیجان سے مغلوب ہو کر اس کے رخسار پر بوسوں کی یورش کر دیتی۔ 

ظاہر ہے اسے ان تحفے تحائف سے خود کیا سرو کار ہو سکتا تھا ۔ اس عمر میں بوڑھی گھوڑی لال لگام بن کر خود کو شرمسار تو کرنا نہیں تھا ۔ وہ یہ سب رحیمہ ہی کےلیے تو کر رہی تھی ۔ وہ سارا مالِ غنیمت رحیمہ کے حوالے کر دیتی ۔ اور اسے صاف ستھری رہنے کی تاکید کرتی ۔ رحیمہ سجی سجائی چوتھی کی دلہن بنی رہتی ۔ تمام دن بے کار بیٹھے بیٹھے اس کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ۔ لیکن ماسی کے پاس بھلا اتنا وقت کہاں تھا کہ رحیمہ کی دل جوئی کرتی ۔ اس کی زندگی کی تو جیسے حد بندی ہو گئی تھی ۔ ان حدود کے انتہائی سروں پر گھر اور کالج تھے ۔ صبح تڑکے نکلتی تو شام ڈھلے کہیں جا کر گھر میں واپس قدم رکھتی ۔ شام کے اندھے اور صبح کے دھندلاہٹیں رحیمہ کی آنکھوں میں جھانکنے کے لیے ناکافی تھیں۔ اس کے لیے تو دن کی روشنی درکار تھی جو ماسی پہلے ہی کالج کی دہلیز پر گروی رکھ آئی تھی۔ 

” بس اب ذرا یہ جاڑا گزر جائے تو رحیمہ کے ساتھ پیلے کر دوں۔ “  

کوٹ کی ملائم سطح پر مسرت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ماسی نے سوچا۔ ” ان سردیوں میں وہ پورے بیس سال کی ہو جائے گی۔” 

پھر اس نے سوچا: ” کسی ایرے غیرے نتھو خیر ے کے ہاتھوں رحیمہ کا دامن دینے سے رہی ۔ خیر سے اللہ کا دیا گھر میں سب کچھ ہے۔ ہزار بارہ سو کا زیور، پندرہ بیس جوڑی کپڑے، دو تین سو نقدی ۔ ان سب کے بدلے داماد بھی تو کھاتا پیتا ہی ڈھونڈھنا پڑے گا۔“  

وہ رحیمہ کی شادی کے منصوبے بناتی چلی جا رہی تھی۔ جانے آج رحیمہ کی شادی کا خیال یک بیک کیسے اس کے ذہن میں آ گیا تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ شادی کے بعد رحیمہ اس سے جدا ہو جائے گی تو اسے اپنی حالت غیر ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ” نہیں نہیں “ اس نے چونکتے ہوئے کہا، ” میں رحیمہ کو اپنے سے جدا تو بالکل نہیں ہونے دوں گی۔ ایسا داماد تلاش کروں گی جو میرے گھر ہی پر رہنے پر آمادہ ہو۔ اب کون سا مجھے سوپچاس برس جینا ہے۔ آج مری کل دوسرا دن ۔ زندگی کے باقی پانچ سات سال اکیلی جی کرکیا کروں گی؟ میرا اب کون رہ گیا ہے رحیمہ کے سوا! ان کی واحد نشانی ! “  

بے خیالی میں سامنے پڑے پتھر پر ماسی کی ٹھوکر لگ گئی۔ پیر کے انگوٹھے میں درد کی ٹیس اٹھی اور وہ کراہ کر سب کچھ بھول بھال گئی۔ 

ہاتھوں میں جھولتا ہوا کوٹ جان دار ترین حقیقت تھا اور مٹھی میں بھنچے چند نوٹ مسرتوں کے ضامن! 

کوٹ کی سطح پر اپنے آنسوؤں کی نمی کو محسوس کرتے ہی وہ بری طرح چونک کر بیچ راستے میں ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی ۔ پھر بڑی احتیاط سے اس نمی کو اس نے اپنے دو پٹے میں جذب کیا اور آگے بڑھ گئی۔ 

پہلے جب کبھی اسے اپنی زندگی کو موجودہ روش کا خیال آتا تو وہ تھوڑی دیر کےلیے کانپ جاتی ۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے ”حال“ میں اس درجہ دھنس گئی تھی کہ برائی بھلائی کا تصور اب مشکل ہی سے پاس پھٹکتا۔ اسے اگر کسی بات کا ہوش تھا تو یہی کہ بہر قیمت اپنا الو سیدھا رکھے۔ پھر جہاں نظروں کے تیر چلیں، آگ آگ میں سما جانے کو بے تاب ہو، اور سلگتے جذبات بے اختیار جسم کے نشیب و فراز میں دھومیں مچائیں، پھٹ پڑیں، بہہ جائیں۔۔۔ وہاں تو ماسی کیا کسی الو کا الو بھی سیدھا رہ سکتا ہے۔ 

اب ماسی اپنے دھندے میں اس درجہ منجھ گئی تھی کہ اب سرسری سی نظر میں ہی ہر لڑکی کے آئینہ دل کو برمے کی طرح کاٹ کر آ ر پار نکل جاتی ، اس درجہ مشتاق کہ اچٹتی سی نظر میں پہچان لیتی کون لڑکا اور کون سی لڑکی اس کے الو کے حق میں فرشتہ رحمت بن سکتے ہیں ۔ 

” ماسی ڈیر! پلیز ۔ اچھی ماسی ، ذرا نجمہ کو تو بلا دینا۔ اور لو ، یہ رکھ لو ، دوپہر کو کچھ کھا پی لینا۔“  

” ماسی وہ، وہ اگر کہیں طارق نظر آجائے تو بھیج دینا۔“ دوپٹے کا پلو دانتوں میں چباتی کوئی لڑکی شرماتے لجاتے کہتی تو وہ جھٹ طارق کو کہیں نہ کہیں سے گھیر گھار لاتی، فوراً کامن روم میں گھس جاتی اور نجمہ کو اس کے عاشق کے پاس گھسیٹ لاتی۔ 

”ماسی تم بڑی بہادر ہو۔ اس سڑے گلے کوٹ میں سردی نہیں لگتی؟“ کبھی تمہید یوں باندھی جاتی۔ ”ہاں ذرا محمود کو تو بلا لانا۔ ضروری کام ہے۔ اور ہاں، کل یاد کر کے مجھ سے سوئیٹر لے لینا۔ تمھارا کیا ہے، مر جاؤ گی، بیڑا تو ہمارا غرق ہو گا۔“  

وہ اس ”ضروری“ کام کی نوعیت خوب سمجھتی تھی ۔ لیکن بس یہی ماسی کا کمال تھا کہ وہ اپنے طرزِ عمل سے اپنی آگہی کو کبھی دوسرے پر ظاہر نہ ہونے دیتی۔ ماسی کا سینہ تو وہ بند تہہ خانہ تھا جس کی ہوا تو ماسی کو بھی شاید نہ لگی ہو۔ اس میں داخل ہونے والا ہر راز ساری عمر کےلیے کھلی فضا اور روشنی کو ترس جاتا ۔ 

رات کا اندھیرا دور تک پھیلا ہوا تھا۔

ماسی نے چلتے چلتے اچانک رک کر کوٹ کو اپنے ہاتھوں سے پھر محسوس کیا۔  اسے یقین نہیں آ رہا تھا ڈیڑھ سو روپے کا یہ کوٹ اب تنہا اس کی ملکیت ہے۔ اس کوٹ کےلیے اس نے کیا کیا جتن نہ کیے تھے ۔ 

رشید کا رشوتاً دیا ہوا کوٹ آخر کار کثرتِ استعمال اور موسم کی دراز دستی سے گھس چکا تھا اور سردی کے خلاف قوتِ مدافعت کھو چکا تھا ۔ ادھر اس برس سردی بھی کچھ ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ 

یہی تو وہ موسم ہوتا ہے جس میں کالج راجا اندر کا اکھاڑا بنا ہوتا ہے ۔ وہ وقت جب ماسی کا کاروبار اٹھتا ہے۔ لیکن بہت ہوا تو کسی نے اپنی نئی نویلی محبت کے پودے کو سینچنے کےلیے دل پر پتھر باندھ کر اپنا سوئیٹر، پل اوور، ہلکی سی جیکٹ، یا کوٹی ماسی کی نذر کر دی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ اب بھلا اس کے کھوکھلے جسم میں اتنی حرارت کہاں تھی جو یہ ہلکے پھلکے فیشن ایبل کپڑے اسے گرم رکھ سکتے۔ سرخی چھلکاتے جسم کی حرارت، جس کے آگے سارے کپڑے ہیچ ہوں، وہ اس عمر میں کہاں سے لاتی؟ 

عرصے سے وہ سبک جسموں پر منڈھے نرم اونی کوٹ بڑی للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ لیکن اتنی بڑی قربانی کون دیتا ہے؟ ماسی اس موقعے کی تاک میں رہی جب پرندہ خود ہی پھڑ پھڑا کر زیرِ دام آ جائے گا۔ 

سردی کچھ اور بڑھ گئی تھی ۔ شمال سے آنے والی ہواؤں نے پورے شہر کو منجمد کر دیا۔ ماسی کو محسوس ہوا کہ اب جلد ہی کوئی انتظام کرنا ہو گا ورنہ کسی صبح وہ گندے نالے سے کالج کے راستے میں کہیں ڈھیر ہو کر رہ جائے گی۔ 

اس خیال نے ماسی کی ساری صلاحیتوں کو جھنجھوڑ ڈالا۔ بس تبھی اس نے پروین کا احمد سے زبردست رومان لڑوا دیا۔ وہ سادہ لوح لڑکی ہنوز محبت نا آشنا تھی ۔ احمد بار بار ملتا ، مگر وہ اس کے التفات کے حقیقی معنی سمجھنے سے ہی قاصر رہی۔ ماسی نے بھانپ لیا۔ اٹھتے بیٹھتے احمد کے قصے لے بیٹھتی ۔ یوں پروین کے دل میں محبت کی جوت جگی ۔ جب وہ اپنے خوابیدہ جذبات سے آگاہ ہوئی تو ان کی تندی میں ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ بے ساختہ ماسی کے جال میں آ پھنسی تو ماسی نے بڑی چابکدستی سے رسی کھینچ لی۔ وہ کسمسائی، تڑپی لاکھ منتیں کیں ، احمد سے ملاقات کےلیے کیا کچھ نہ کیا، لیکن ماسی نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ دونوں کو ملنے نہ دے گی۔ جب محبت میں دیوانی ہو کر پروین نے اپنے گلے کا ہار ماسی کی نذر کر دیا تو ماسی کی شفقتوں کے دریا امڈ پڑے۔

ماسی ڈھیل دے کر اس بار کچھ اس طرح پھانسنا چاہتی تھی کہ بنا کوٹ دیے بات نہ بنے۔ ماسی نے پھر ڈور کھینچنی شروع کی۔ وہ جب مجبور ہو کر ماسی کے قدموں پر آ ہی تو ماسی نے ملاقات کرانے کے عوض کوٹ کی خواہش کا برملا اظہار کر دیا۔ 

اپنے خیالات کے عمیق سلسلوں میں گم ماسی اب گندے نالے کے بائیں کنارے پھیلی متعفن ہستی میں داخل ہو چکی تھی۔ ہوا کا شدید دباؤ یہاں بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی جھگیوں میں منتشر ہو کر رہ گیا تھا۔ کھلی سڑک پر ہڈیوں کے اندر تک اتر جانے والی خنکی بھی یہاں کی تھی ۔ ماسی نے اطمینان کا گہرا سانس لیا۔ دانت بجنے بند ہوے ۔ اس نے ایک بار پھر کوٹ کی ملائم سطح پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے قدموں میں تیزی آ گئی۔ 

پیچ در پیچ گلیوں کی بھول بھلیوں سے ماسی کسی مشاق کی طرح راستا طے کرنے لگی ۔ پھونس اور ٹاٹ کے ارتباط سے بنی جھگیوں میں لالٹین کی کم زور سی روشنی دھوئیں کے بادلوں سے ہوتی ہوئی گلی میں آ رہی تھی۔ گیلی لکڑیوں ، کاغذ اور اپلوں کا دھواں فضا پر کسی قہر کی طرح مسلط تھا ۔ ماسی کی آنکھیں جلنے لگیں ۔ وہ الل دیے کی جھونپڑی تک آ پہنچی تھی ۔ پوری جھونپڑی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ہکی ، مدھم سرگوشیوں کی آواز ماسی کے کانوں سے تکرانے لگی ۔ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کو لیے پڑا تھا اور اسے رام کرنے کے جتن کر رہا تھا۔ سرگوشیوں کی سر حد تک آکر ماسی کے قدم آپ ہی اپ رک گئے ۔ کھڑکی سے اندر جھانکا مگر وہاں روشنی کہاں تھی، بس چند سرگوشیاں تھیں ، جذبات کی سرشاری میں کہے جانے والے محبت بھرے الفاظ ماسی دھیرے دھیرے ماضی میں کھو گئی۔کبھی وہ بھی جوان تھی ۔ تب اس کا کریم بھی اس سے کیسی کیسی دیوانی باتیں کیا کرتا تھا۔ کسی مانسوس لذت سے اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو کر جلنے لگیں۔ مگر وہ کریم کی محبت کی تمام تابندہ چراغوں کو اللہ دیے کی چوکھٹ پر گل کر کے آ گے بڑھ گئی۔ 

کوٹ زندہ اور ازلی حقیقت تھا اور اس کی موجودگی میں کچھ اور سوچنا مہا پاپ !

گھر تک آتے آتے اس کے قدم بلا کی تیزی سے اٹھنے لگے ۔ کوٹ پر گرفت سخت ہو گئی۔ ”رحیمہ دیکھے گی تو پھول کی طرح کھل اٹھے گی“ ماسی نے سوچا۔

دروازے پر دستک دینے سے پہلے وہ کھڑی ہو کر اپنی الجھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر اس نے ایک آخری بار کوٹ کو اپنے کھردرے ہاتھوں سے چھوا، ہونٹوں تک لائی، اور بے اختیارانہ چوم لیا۔ 

دستک کی آواز ویرانے کی چیخ کی طرح لمحے بھر کےلیے گونج کر مر گئی۔ 

کچھ دیر توقف کے بعد اس نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مانوس قدموں کی آواز اس کے کانوں میں نہ سنائی دی۔ ”عجیب بے ڈھنگی لڑکی ہے۔ ذرا سی دیر کیا ہو گئی کہ کھا پی کر سوتی بنی“ ماسی نے سوچا اور زور زور سے دروازہ پر ہاتھ مارنے لگی۔ 

” میں ابھی نری احمق ہوں “ اچانک ماسی کو خیال آیا، ” اتی رات گئے جوان جہاں لڑکی بھائیں بھائیں کرتے گھر میں تھوڑی بیٹھی ہو گی۔ “

ماسی یہ سوچتی ہوئی بوا حمیدہ کی جھگی کی طرف مڑی جو تنگ سی گلی میں اس کے گھر کے سامنے ہی تھی۔

بوا حمیدہ کے دروازے پر وہ دستک دینے ہی والی تھی کہ اس کی نظریں اپنے گھر کی کھڑکی پر جا پڑیں : جھتری سے روشنی کی بہت نظریں اپنے گھر کی کھڑکی پر جا پڑیں : جھتری سے روشنی کی بہت باریک سی کرن اندھیرے کے سینے پر اتر رہی تھی۔ وہ غیر اختیاری طور پر کھڑکی تک آئی اور پنجوں کے بل کھڑے ہو کر جھتری سے اندر جھانکنے لگی ۔ کوٹ اس کے ہاتھ میں مردہ لاش کی طرح جھول رہا تھا۔ 

ماسی کا سر چکرا گیا ۔ پتنگے اس کی آنکھوں کے آگے تیزی سے رقص کرنے لگے ۔ عجیب سی دھند چھا گئی۔ دھند کے بیچ اس سحابی منظر میں گویا اکرم رشیدہ پر جھکا ہوا تھا۔ 

ماسی کے قدم لڑکھڑائے ، وہ نیچے آ رہی۔ کوٹ کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ چند مڑے تڑے نوٹ ابھی تک ماسی کی مٹھی میں بھنچے ہوئے تھے ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search