نبراسِ نظر۔ تصنیف: محمد دین جوہر (تبصرہ: ابرار حسین)

 In تاثرات

جناب محمد دین جوہر کی کتاب ’نبراس نظر‘ کے بارے میں چند معروضات:

یقیناً یہ میری خوش نصیبی ہے کہ کچھ روز پہلے مجھے جناب محمد دین جوہر کی طرف سے ان کی حال ہی میں شائع شدہ عہد آفریں کتاب ’نبراس نظر‘ کا دستخطی نسخہ موصول ہوا۔ اس کرم فرمائی پر میں ان کا ازحد شکر گزار ہوں۔ ہماری ناگفتہ بہ فکری اور تہذیبی صورت حال میں ’نبراس نظر‘ کی اشاعت برصغیر پاک و ہند کی اردو دنیا کا ایک نہایت غیر معمولی اور اہم واقعہ ہے۔ میں شرحِ صدر کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ ’نبراس نظر‘ پچھلی دو صدیوں میں مسلم تہذیب پر اردو زبان میں لکھی گئی دو چار بہترین اور بے مثل کتابوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے اجتماعی شعور میں اگر فکر و علم کی معمولی سی رمق بھی باقی ہے تو یہ طے ہے کہ ہماری تہذیب پر کوئی تحریر اب ’نبراس نظر‘ کے اتفاقی یا اختلافی حوالے کے بغیر اعتبار حاصل نہیں کر پائے گی۔ ’نبراس نظر‘ کی متعدد معنوی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کتاب سطر بہ سطر قاری کے شعور کو سیراب کرنے اور اسے تونگر بناتے چلے جانے کی بے پناہ قوت رکھتی ہے بشرطیکہ قاری فکر و تہذیب کے معیاری مباحث سے فطری مناسبت رکھتا ہو اور آمادگی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے۔ ’نبراس نظر‘ میں مابعد استعمار مسلم تہذیبی مسائل کی گھڑی گھڑائی اور بنی بنائی تشخیصات و تجاویز کی فہرستیں درج نہیں کی گئیں۔ اگر آپ ’نبراس نظر‘ سے اس نوع کی توقعات رکھتے ہیں تو کتاب کھولنے سے پہلے ہی جان لیجیے کہ آپ مایوس ہوں گے کیونکہ یہ کتاب آپ کے لیے نہیں لکھی گئی۔ بدقسمتی سے اب ہم بے روح مکتبی تحقیقات کے زیر اثر کسی بھی صاحب علم و فن سے ایسی ہی مبنی بر حل المشکلات قسم کی فہرستوں کی فراہمی کی توقع کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ گزارش ہے کہ ’نبراس نظر‘ مسلم تہذیبی مسائل پر لکھی گئی خالص علمی کتاب ہے جو ادراک و اظہار کی تاحال نایافت مگر انتہائی نادر سطحوں کو محیط ہے۔ یہ نہ تو کسی قومی اخبار کا اداریہ ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی پالیسی رپورٹ۔ ’نبراس نظر‘ سے ایسی ’ناجائز‘ توقعات وابستہ کرنے والا قاری فکری اعتبار سے سادہ لوحی کا شکار ہے۔ اسے شاید اندازہ نہیں کہ آتش بداماں عصر جدید کے روبرو انسانی احساس و شعور کے فطری سانچے بالعموم کتنی شدت سے تڑخ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد ہمارا استعماری تجربہ ہے جس نے ہماری تہذیب کے مطلوبہ وجودی احوال اور شعوری مواقف کو پامال کرکے طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ہے۔ اس صورت حال میں کسی بھی جینوئن صاحب فکر کے سامنے اصل مسئلہ شعور کی فطری بناوٹ اور اس کے تقدیری داعیات کو پوری قوت کے ساتھ سامنے لانا ہے۔ اگر صاحب فکر کا تعلق کسی استعمار زدہ سماج و تہذیب سے ہو تو اسے اضافی طور پر بین التہذیب امتیازات کو قائم کرنے کی ذمہ داری بھی نبھانی پڑتی ہے۔ ’نبراس نظر‘ کو اس سیاق و سباق میں رکھ کر پڑھا جائے تو اس کی اصل قدر و معنویت کا ادراک کرنا چنداں مشکل نہیں رہے گا۔
ہمارا تہذیبی شعور اور ارادہ دونوں ہی مکمل معدومیت کی حالت میں ہیں۔ لگ بھگ دو صدیوں سے ہماری کل متاع خود نفرینی ہے اور ہم خود شکنی کی ہر منزل سے گزر کر استعماری آقاؤں کی نظر میں خود انہی کی شرائط پر استناد حاصل کرنے کی بے کار اور ناگوار مشق کیے چلے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا ’کمال‘  یہ ہے کہ ہم سرسید کے تتبع میں استعماری مرادات پر ڈھلنے کو ہی اپنے دین کا بھی تقاضا مانتے چلے آرہے ہیں۔ لاریب ہم بڑی ’قدرتوں‘ کے مالک ہیں۔ ہمارے نہ تو کوئی تہذیبی اہداف باقی رہ پائے ہیں اور نہ ہی تاریخ سے ہم کوئی زندہ مطالبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں میسر قوت کی تشکیل اور سرمائے کی پیدائش کے ذرائع استعماری جدیدیت کی ‘عطا‘ ہیں اور ہمارا تہذیبی ارادہ نجات اور بقاء کے درمیان معلق ہے۔ اس صورت حال سے نجات کے لیے مستند علمی شعور درکار ہے جو ہمیں استعماری اوضاع کے مقابل حق و باطل کے دینی تناظر میں رد و قبول کے لائق بنا دے۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ علم کا وجود فکر سے ہے اور فکر کا ہمارے ہاں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ عرصہ ہوا کہ ہمارا طائر فکر استعمار کے خونیں پنجوں میں پھڑپھڑاتا جاں کنی کے آخری مراحل بھی طے کرچکا ہے۔ اب ہم اپنی ’خوش ذوقی‘ کے سبب جسے فکر وغیرہ سمجھ کر دل بہلاتے پائے جاتے ہیں وہ فی الواقع استعماری جدیدیت کا مرغ دست آموز ہے اور ہمارے تہذیبی شعور کی شکستگی کے مصدقہ آثار میں سے ہے۔
’نبراس نظر‘ میں جوہر صاحب استعماری جدیدیت سے ہمارے بامعنی تہذیبی تعامل کے لیے درکار فکری وسائل فراہم کرنے کی جستجو میں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے لخت لخت مسلم شعور کی بخیہ گری کرنے کی ناقابلِ یقین حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ جیمز جوائس کے شاہکار ناول A    Portrait    of    the    Artist    as    a    Young    Man کا مرکزی کردار سٹیفن جب مرگ آسا کیتھولک اخلاقی اور تہذیبی اوضاع سے مایوس ہوکر آئرلینڈ کو چھوڑنے اور پیرس میں جاکر بسنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ غالباً اپنی ڈائری میں لکھتا ہے؛”I    go    to    encounter    for    the    millionth    time    the    reality    of    experience    and    to    forge    in    the    smithy    of    my    soul    the    uncreated    conscience    of    my    race”۔ جوہر صاحب نے ‘نبراس نظر‘ میں ایک مختلف سطح پر دراصل ہمارے لیے یہی کام کرنے کا بِیڑا اٹھایا ہے۔ انہیں خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کہ گم شدہ مسلم تہذیبی شعور کی بازیافت اور حاضر تاریخ کے امکانات کی شناخت ہی سے ہمارے پاؤں بار دگر وقت کے ظغیان میں جم سکتے ہیں۔
جدیدیت کا سرطان ہو،مغربی استعمار کی طرف ہمارا فدویانہ رویہ ہو،جدید ریاست کے میکینکس ہوں، تعیلم و تعلم کا نوآبادیاتی بندو بست ہو،نظام و تنظیم کے آزار ہوں یا دین حق کی جدیدیت زدہ تعبیرات یعنی ’جدید اسلام‘ ہو جوہر صاحب نے ’نبراس نظر‘ میں ان میں سے ہر ایک کی تفہیم، تجزیے اور رد و قبول کا اصولی تناظر قائم کر دیا ہے۔ بڑے ذہن کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ مستقل تناظرات ایجاد کرتا ہے اور وقت کے سیل رواں میں شعور کو قدم جمانے کے لائق بنا دیتا ہے۔ کسی نظریے کی تشکیل کے لئے مستقل تناظر درکار ہوتا ہے جو نظریے پر مقدم ہوتا ہے اور عقل کو اس کی حرکت علمی کا نکتۂ آغاز فراہم کرتا ہے۔ جوہر صاحب نے ‘نبراس نظر‘ میں ایسے ہی تناظرات ایجاد کیے ہیں جن کی بدولت ہمارے لیے کئی ایک تاریخی اور ثقافتی مسائل تک رسائی کی بابت عقل کی درست angling ممکن ہوگئی ہے۔ معلوم ہے کہ ان مسائل پر گفتگو کی جو سطح ہمارے ہاں متعارف ہے اسے سن اور دیکھ کر شعور کو ابکائی آتی ہے اور آنکھ اپنی قوتِ دید پر شرمندہ ہوتی ہے۔ اس میں مذھبی اور غیر مذھبی کی تفریق کا تکلف کرنے کی میرے خیال میں قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارا وہم ہے کہ صرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہی استعمار زدہ ہے اور ہمارے مذھبی علماء استعمار کی غارت گری سے بالکلیہ مامون رہے ہیں۔ پچھلی دو صدیوں کی مذھبی علمی کارگزاری پیش نظر ہو تو آدمی ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اس عرصے میں مآل کار ہماری مذھبی دانش کا کل کارنامہ علم کشی اور استعماری جدیدیت کے پیدا کردہ نام نہاد تہذیبی اداروں کی دینی جواز جوئی کے سوا کیا ہے۔
جوہر صاحب کے ذہن کی بناوٹ اصلا مفکرانہ ہے جس پر ان کی شان خلاقی مستزاد ہے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ ہمارے ’معتبر‘ علمی اور فکری حلقوں میں جوہر صاحب کو ابھی تک وہ تحسین و پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ بلامبالغہ مستحق ہیں۔ میرا خیال ہے یہ کسی بھی صاحب عظمت سے بونوں کا خراج ہے جو جوہر صاحب نے چکایا ہے۔ صرف افراد ہی نہیں تہذیبیں بھی نفس ناطقہ کی حامل ہوتی ہیں جو تاریخ کے سیل رواں میں ادراک و اظہار کی نت نئی اور کٹھن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی مشقت اٹھاتا ہے۔ مسلم تہذیب کا نفس ناطقہ مدت ہوئی فنا کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ گزارش ہے کہ نیا خیال صرف تازہ اسلوبِ اظہار ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات یہ نئی لفظیات کی تشکیل کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ جوہر صاحب نے مسلم تہذیبی نفس ناطقہ کے گونگے پن کا اِزالہ کرنے کی ناقابلِ تحمل ذمہ داری اٹھائی ہے۔ ’نبراس نظر‘ میں آپ ایک ایسے اسلوبِ اظہار اور نو بنو اصطلاحات و لفظیات سے روشناس ہوں گے جو ایک دائرے میں اردو زبان کے علمی مرتبے اور اس کی تہذیبی وقعت میں اضافے کا یقینی سبب ہیں۔ میں جوہر صاحب کی صلاحیت ادراک اور طاقت گفتار کے آثار دیکھتا ہوں تو رشک و حیرت سے ان کی جناب میں آداب بجا لاتا ہوں۔ جوہر صاحب نے محض علمی نثر نہیں لکھی کرامات کی ہیں بلکہ قیامتیں اٹھائی ہیں اور وہ بھی مکمل حشر سامانی کے ساتھ۔
عقل کی علمی حرکت کا اولین ہدف اشیاء کی درست تعریفات مقرر کرنا ہے۔ عقل اگر اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہ جائے تو شعور چند ایک بے ربط تصورات کی آماجگاہ بن کر رائیگانی کی تصویر بن جاتا ہے۔مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں ہے کہ جوہر صاحب کا ذہن اشیاء کے اعماق وجود میں اتر کر ان کے باہمی امتیازات و اشتراکات کو متعین کرنے کی حیران کن صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی علمیت کے تحقق کے لیے تو ان کی یہی صلاحیت کافی ہے تاہم وہ اس سے بہت آگے بڑھ کر تناظرات ایجاد کرنے کی قابلِ رشک قابلیت کے مالک ہیں۔ ’نبراس نظر‘ کو کہیں سے بھی پڑھ دیکھیے، آپ چند پیروں کو دیکھ کر ہی اس امر کی تصدیق کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے کہ جس آدمی کے شعور نے یہ علمی آثار پیدا کیے ہیں اس کے ذہنی ملکات کا کیا عالم ہے۔
جدید تاریخ تغیر بکف ہے کیونکہ تغیر تہذیب جدید کا خمیر ہے۔ اب کسی شے کو ثبات نہیں؛نہ معنی کو اور نہ قدر کو۔ آفاق تغیر مسلسل کے گرداب میں لت پت ہے اور انفس نا پیدا کنار بہاؤ کی زد پر ہے۔ ایسے میں معنی کو استقلال نصیب ہو تو کیونکر اور اقدار مستحکم ہوں تو کیسے۔ علم اور قدر کی نسبتیں بھی انسان کی تقدیری شناخت کی گم شدگی طرح کہیں کھو گئی ہیں۔ علم اب محض جبلتوں کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کی مزدوری پر کمربستہ ہے اور انسان کے اعلی عقلی اور روحانی مطالبات اس سے مکمل طور پر خارج ہیں۔جدید انسان آفاق کو مسخر کرتے کرتے انفس کو گنوا بیٹھا ہے اور اسے اس خسارے کا نہ کوئی شعور ہے اور نہ ملال۔ یہ انسانی تاریخ میں انسان کے مسخ ہوتے چلے جانے کا عجیب بے نسب مرحلہ ہے جس کی طوالت زمانوں کو محیط ہے۔ افسوس یہ ہے کہ شاید یہی اب جدید آدمی کی تقدیر ہے الا کہ وہ اپنے کائناتی تکبر سے چھٹکارا پائے اور اپنے خالق و مالک کے دامن رحمت میں پناہ کا خواستگار ہو۔ دور جدید کے انفس و آفاق روایتی جہان علم و عمل سے تضاد و تباین کی نسبت رکھتے ہیں۔ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا ایمان شناس عقل کی کار فرمائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ عقل محض کے ہنڈولے میں جھولتا ہوا جہان بے ثبات ہے جہاں ’مقید مقید میں محصور ہوکر اسی تنگ زنداں کی حد ناپتا ہے‘۔
مسلم علمی اور تاریخی شعور مسخ ہونے کے اس مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ اب اس پر مسخرگی کا گمان کیا یقین ہونے لگا ہے۔ اس کے تارو پود کب کے بکھر چکے ہیں۔ چنانچہ اس کی مہیب درزوں میں چمگادڑوں کا بسیرا ہے جو تاریکی کے سایوں میں رقص کنا ہیں اور زندہ شعور کا منہ چڑاتی ہیں۔ استعمار نے ہمارے زمان تاریخی کا چوکھٹا بکھیر دیا ہے اور ہمارے تہذیبی شعور پر شکست خوردگی کی مہر ثبت کرکے ہمارے کاسۂ شعور کو ریگ ذلت سے بھر دیا ہے۔ میرے قلم میں اے کاش اس سے زیادہ قوت ہوتی اور میں فکر و احساس کی ناقابلِ رسائی گہرائیوں کو بیان میں لاکر بتا سکتا کہ گذشتہ دو صدیوں میں کون سی قیامتیں ہمارے سروں سے گزری ہیں۔
جدید مغربی استعمار نے ہمارے انفس و آفاق کو جس طرح تاراج کیا ہے اس کے مقابل پچھلی دو صدیوں سے ہمارے پاؤں نہیں جم سکے۔ ہمارے شعوری اور وجودی سانچے پوری آمادگی کے ساتھ استعماری مرادات پر ڈھلتے چلے گئے ہیں۔ مسلم سوسائٹی کی ہمہ قسم تہذیبی اوضاع خود ہمارے لیے اجنبی ہوکر غیر متعلق سی ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی تہذیبی تاریخ میں اس قسم کی صورت حال کا سامنا اس سے پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا۔ ہم ابھی تک بدستور اس غیر معمولی حادثے کے اثرات کی گرفت میں ہیں۔ ہماری پچھلی دو صدیوں کی ’علمی اور تہذیبی کارگزاری‘ استعماری جدیدیت کے زائیدہ افکار اور اداروں کے سامنے اپنی سرنگونی کو دینی متن سے مدلل کرنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہے۔ ’نبراس نظر‘ مسلم تہذیب کی اسی مابعد استعمار صورت حال پر ایک وقیع اور بے مثل knowledge    statement ہے۔ مسلم سوسائٹی کو درپیش تہذیبی صورت حال سے نکالنے کا پہلا مرحلہ استعماری تصورات و حرکیات کو ان کے درست مطالب کے ساتھ سمجھنا ہے اور اگلا مرحلہ انفرادی اور اجتماعی دائروں میں اپنے دینی اہداف کو مستحضر رکھتے ہوئے ایسے علمی اور وجودی مواقف کا قیام ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیبی احیاء کی راہ ہموار ہوسکے۔ ’نبراس نظر‘ میں جوہر صاحب نے ہمیں ان دونوں مرحلوں کو طے کرنے کے لیے کم از کم لازمی اور بنیادی وسائل فراہم کردیے ہیں۔ اگر ہم ان وسائل کو کام میں لانے کا معیاری ذوق پیدا کرسکیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے موجودہ تہذیبی ادبار کا خاتمہ نہ ہو اور ہم ایک آزاد اور خود مختار تہذیبی شخصیت کے ساتھ بروئے کار آنے کے لائق نہ بن جائیں۔
خاص طور پر دینی علوم کے ہر طالب علم کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ’نبراس نظر‘ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت بہم پہنچائے اور دقت نظر سے اس کا مطالعہ کرے۔ اگر طالب علم اس کے محتویات پر ایک عرصہ مراقب رہ سکے تو اسے فکر و تہذیب کے لیے درکار معیاری شعور کی علمی تشکیل کے لیے ضروری وسائل فراہم ہو جائیں گے۔ ملحوظ خاطر رہے کہ سردست ہمارا مسئلہ ’نبراس نظر‘ میں مندرج نتائج فکر سے فوری اتفاق یااختلاف نہیں ہے بلکہ پیچیدہ علمی و تہذیبی مسائل کو معیاری سطح پر take up کرنے کا ہنر سیکھنا ہے۔ ہمارا اجتماعی تہذیبی شعور اس وقت واضح طور پر جس اتھلے پن کا شکار ہے اس کا اثر یہ ہے کہ بڑے سے بڑا خیال ہمارے شعور کی تحویل میں آتے ہی vulgarize ہو جاتا ہے۔ ’نبراس نظر‘ کو جذب کیجیے۔اسے مادۂ فکر بنائیے آپ کے وجود و شعور دونوں کی سطح بلند ہو جائے گی۔ اس طرح شاید ہم علمی اور فکری اعتبار سے اس عمومی اور سطحی پن سے نکلنے میں کامیاب ہو سکیں جس میں ہم گرفتار ہیں۔
عکس پبلیکیشنز کے روح و رواں جناب محمد فہد نے ’نبراس نظر‘ کی طباعت میں جس خوش ذوقی اور مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی داد نہ دینا حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اشاعتی اداروں کی تجارتی اور کمرشل ترجیحات نے ہمارے ہاں طباعتی معیارات کو بہت پست اور طباعت کی جمالیات کو یکسر پس انداز کردیا ہے۔ ’نبراس نظر‘ کے صوری جمال نے اس کے معنوی کمالات سے استفادے کو آسان بلکہ قاری کی نظر میں مرغوب بنادیا ہے۔ چنانچہ ’نبراس نظر‘ نے مسلم تہذیبی مسائل پر غور کرنے کی حقیقی معنوں میں ایک معیاری سطح کو ہی قائم نہیں کیا بلکہ طباعت کا بھی ایک بلند معیار قائم کردیا ہے.
والله تعالیٰ اعلم باالصواب
نوٹ: نبراس نظر ’عکس پبلیکیشنز‘ لاہور سے چھپی ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے درج ذیل فون نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
0300-4827500

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search