عمومی لسانیات کا نصاب۔ تحریر : فرڈی نینڈ سوسیور (مترجمین: ابرار حسین، نعیم عباس)

 In ترجمہ

          تعارف از مترجمین

    بیسویں صدی میں فلسفۂ لسانیات کے  اہم مفکرین میں سے ایک فرڈی نینڈ سوسیئر ہے ۔ 1916ء میں سوسیئر  کی موت کے بعد اس کے شاگردوں نے اس کے نوٹس جمع کرکے پہلی مرتبہ  ایک کتاب Course      in      General      Linguistics کے عنوان سے شائع کی۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سوسیئر کی یہ کتاب بیسویں صدی کی موثر ترین چند کتابوں میں سے ایک ہےجس  نے علوم کے متعدد شعبوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے  ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے  کہ اس نے شعور،حقیقت اور زبان کے  بارے  میں کلاسیکی تصورات کو الٹ کے رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ہے۔  ہماری معلومات کی حد تک اس کتاب کا آج تک اردو میں ترجمہ نہیں ہوا جو کہ یقینا ایک قابل افسوس امر ہے۔ اس کتاب کی اسی اہمیت کے پیش نظر، جناب  ابرار حسین اور نعیم صاحب نے اس کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا ہے جس کو درج ذیل فہرست کے مطابق  قسط وار شیئر کیا جاتا رہے گا ۔

باب اول:      تعارف

لسانیات کی تاریخ پر ایک نظر

جس علم کا تانا بانا زبان کے حقائق کے اردگرد بناگیا تھا وہ اپنے حقیقی اور احتصاصی موضوع تک پہنچنے سے پہلے تین مراحل سے گزرا۔ پہلے مرحلے میں گرامر کا مطالعہ کیا گیا۔ اس مطالعہ کا آغازیونانیوں نے کیا اور بعدازاں اس میں زیادہ تر پیش رفت فرانسیسیوں نے کی۔اس مطالعے کی بنیاد منطق پر تھی۔ یہ مطالعہ سائنسی زاویہ نظر پر مبنی نہیں تھا۔ مزید برآں،اس مطالعے کا اصل موضوع زندہ زبان تھی ہی نہیں۔ اس کا مقصد کچھ اصول و ضوابط وضع کرنا تھا جو زبان کی درست اور نادرست ساختوں کے مابین  امتیاز کر سکیں۔ یہ ایک طرح کی اصول سازی تھی جو حقیقی مشاہدے سے لاتعلق اور اپنے دائرہ کار میں محدود تھی۔

دوسرے مرحلے میں علم لسان کا ظہور ہوا۔ اگرچہ علم لسان سے وابستہ ایک مکتبہ فکر بہت پہلے سکندریہ میں وجود پذیر ہو چکا تھا لیکن اس عنوان کا اطلاق زیادہ تر اس سائنسی تحریک پر کیا جاتا ہے جس کا آغاز فریڈریک آگست ولف(1759ء تا 1824ء) نے 1777ء میں کیا۔ اور جس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ علم لسان کی اس تحریک کی واحد غرض و غایت بالذات زبان نہیں ہے۔ علم اللسان کے ابتدائی ماہرین نے خاص طور پر کوشش کی کہ وہ تحریری متون کی تصیح و تعبیر اور ان پر حاشیہ نگاری کا کام کریں۔ ان ماہرین کے مطالعات نے ادبی تاریخ، رسوم اور اداروں وغیرہم میں بھی دلچسپی کا سامان پیدا کر دیا۔ انہوں نے مختلف طریقہ ہائے تنقید کو اپنے علمی مقاصد کےلیے  برتا۔جب کبھی انہوں نے لسانیات کے سوالوں سے اعتناء کیا بھی،  تو اس کا واضح مقصد مختلف ادوار کے متون کا باہمی تقابل، ہر ایک مصنف کے ہاں زبان کے انفرادی استعمال کا تعین اور متروک اور عسیرالفہم زبانوں میں کندہ عبارتوں کی توضیح و تفہیم کرنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان تحقیقات نے تاریخی لسانیات کی بنیاد گزاری کے لئے راستہ ہموار کیا۔ رشل کے پلوٹس پر مطالعات دراصل لسانیاتی مطالعات ہیں۔تاہم لسانی تنقید کا ابھی تک ایک مسٔلہ یہ ہے کہ یہ اندھا دھند تحریری زبان کا تتبع کرتی ہے اور زندہ زبان کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ مزید یہ کہ اس تنقید کو دور قدیم کی یونانی اور لاطینی زبانوں کے علاوہ کم ہی کسی اور زبان سے دلچسپی ہے۔

  تیسرے مرحلے کا آغاز تب ہوا جب علم لسان کے ماہرین نے یہ دریافت کر لیا کہ مختلف زبانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تقابل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ دریافت تقابلی علم لسان کا نکتہ آغاز ثابت ہوئی۔ 1816ء میں فرانز بوپ (1791ء تا 1867ء) نے اپنی کتاب ’سنسکرت میں افعال سازی کا نظام‘میں سنسکرت کا جرمن،  یونانی اور لاطینی زبانوں کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا۔ بوپ نے ان زبانوں میں موجود مماثلتوں کو قلم بند کیا اور بیان کیا کہ یہ تمام زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ بوپ یہ کام کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا۔ انگریز مستشرق ولیم  جونز (1746ء تا 1794ء) )نے بوپ سے پہلے اسی نوعیت کا کام کیا تھا۔تاہم جونز کے غیر مربوط بیانات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ زبان کے تقابلی مطالعہ کی اہمیت کو 1816ءسے پہلے بالعموم سمجھ لیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ سنسکرت کا ایشیا اور یورپ کی کچھ خاص زبانوں سے تعلق بوپ نے دریافت کیا تاہم اس نے یہ ضرور محسوس کر لیا تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنے والی زبانوں کا تقابلی مطالعہ ایک مستقل علم کا موضوع بن سکتا ہے۔ ایک زبان کو دوسری زبان کے مطالعہ کی روشنی میں سمجھنا اور ایک کی ساختوں کی دوسری زبان کی ساختوں کے ذریعے وضاحت کرنا، یقیناً ایسا کام ہے جو بوپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔

یہ بات مشتبہ ہے کہ کیا سنسکرت کی پیشگی دریافت کے بغیر بوپ تقابلی علم لسان ایجاد کرسکتا تھا اور وہ بھی اس قدر تیزی کے ساتھ۔ یونانی اور لاطینی زبانوں کے ساتھ ساتھ  سنسکرت نے شاہِد ثالث کی حیثیت سے بوپ کو مطالعات کے لیے ایک وسیع اور مضبوط بنیاد فراہم کردی تھی۔کیونکہ زبانوں کے مابین تقابل کے حوالے سے توضیحی کردار ادا کرنے کے لیے ،خوش قسمتی سے سنسکرت  غیر معمولی طور پر موزوں ہے۔

مثال کے طور پر لاطینی کے لفظ genus (جنس) کے مختلف صیغوں(genes, generis, genere, generum, genera) اور یونانی کے الفاظ (Geneos, geneos, genei, geneo, geneon)کے درمیان تقابل سے کچھ بھی منکشف نہیں ہوتا۔تاہم یہ منظر اس وقت بالکل تبدیل ہو جاتا ہے جب ہم ان کے متقابل سنسکرت کے صیغوں(ganas, ganasas, ganasi, ganasu, ganasam) کی فہرست رکھتے ہیں۔ ادنیٰ تامل سے ہی یونانی اور لاطینی صیغوں کے مابین مماثلت واضح ہو جاتی ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اس مفروضے کو تسلیم کرلیں کہ ganas ان صیغوں کی ابتدائی حالت کی نمائندگی کرتا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یونانی زبان کے صیغوں میں جہاں کہیں بھی’ایس ‘ ( s) دو مصوتوں کے درمیان آتا تھا وہاں اس کا افاضہ ہوا ہوگا۔ اس سے دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذکورہ صورت میں لاطینی زبان میں ’ایس ‘ ( s )کا حرف ’آر‘ ( r )سے بدل جاتا تھا۔ سنسکرت میں گرامر کے اعتبار سے گردان ،لفظ کی اصیل اکائی کی نمائندگی کرتی ہے جو متعین اور مستحکم ہے۔ اپنے ابتدائی مراحل میں لاطینی اور یونانی الفاظ کے صیغے بھی سنسکرت سے ملتے جلتے تھے۔ یہاں سنسکرت اس اعتبار سے خاص طور پر کارآمد ہے کہ اس نے تمام ہند-یورپی زبانوں میں استعمال ہونے والے حرف ’ایس ‘ ( s )کو محفوظ رکھا ہے۔  تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سنسکرت دیگر اعتبارات سے اپنے مبداء اشتقاق کی خصوصیات کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہی، مثال کے طور اس نے مصوتی نظام کو منقلب کر دیا۔ لیکن سنسکرت نے بالعموم جن عناصر اصلیہ کو محفوظ رکھا ہے وہ زبانوں کے مابین تقابلی تحقیق کے ضمن میں بہت مددگار ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے سنسکرت کے لیے دیگر زبانوں کے مطالعات میں بہت سے نکات کے ضمن میں توضیحی کردار مقدر کر دیا تھا۔

دیگر ممتاز ماہرہن لسانیات نےجلد ہی تقابل لسان کے میدان میں  بوپ کے کام پر اضافے کیے۔ ان ماہرین میں جیکوب گریم (1785ء تا 1863ء) جو جرمینک مطالعات کا بانی ہے اور  جس کی کتاب’ Deutsche Grammatik ‘  1822ء سے 1836ء تک کے درمیانی عرصے میں چھپی۔ پاٹ جس کے اشتقاقی مطالعات نے ماہرین لسانیات کے لئے معتد بہا مقدار میں تحقیقی مواد فراہم کیا،کوہن جس کی تصنیفات لسانیات اوراساطیر کے تقابلی مطالعے سے بحث کرتی ہیں اور ہندی زبانوں کے عالم بینفے اور اوفروخت وغیرہم شامل ہیں۔

تقابل لسان کے مکتبہ فکر کے آخری نمائندگان میں سے میکس مولر(1823ءتا 1900ء)، جارج کریٹس(1820ءتا 1885ء) اور اگست شلیشر (1821ء تا 1868ء)خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ان تینوں نے مختلف انداز سے تقابلی مطالعات میں پیش رفت کے لیے غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔ میکس مولر نے اپنے شاندار علمی مباحث  (Lessons      in      the      Science      of      Languages,      1861)  کے ذریعے تقابلی مطالعات کو ترویج دی۔ تاہم اس کا مسٔلہ یہ تھا کہ وہ علمی طور پر دیانت دار نہیں تھا۔ ممتاز ماہر علم لسان کرٹیس جو خاص کر اپنی کتاب  (Grundzunge      der      griechischen      Etymologies, 1879) کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ان ماہرین میں سے ہے جنہوں نے پہلے پہل تقابلی علم لسان اور کلاسیکی علم لسان جیسے مکتبہ فکر کے مابین مفاہمت پیدا کی۔ موخر الذکر نے مقدم الذکر کو مشکوک جانا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ شلیشر نے پہلی مرتبہ  تقابلی علم لسان میں ہونے والی تحقیقات کے باہم غیر مربوط اجزاء کو منضبط کیا۔ اس کی کتاب( Compendium      der      vergleichenden      Grammatik      der      indogermanischen   Sprachen،     1861-62) نے بوپ کے بناکردہ تقابلی علم لسان کو کم وبیش ایک نظام کے تابع کردیا۔شلیشر کی اس کتاب نے تقابل لسان کے مکتب فکر کے نسبتا ًوسیع خاکے کا احیاء کردیا جو ہند یورپی لسانیات کی تاریخ میں باب اول کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تقابل لسان کے مکتب فکر میں ایک نئے اور نتیجہ خیز شعبہ علم کی بنیاد گزاری کی صلاحیت تھی۔ تاہم یہ مکتب فکر حقیقی علم لسانیات کی بنیاد گزاری میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ مکتب فکر اپنے موضوع مطالعہ کی دریافت میں بھی ناکام رہا۔ ظاہر ہے کہ اس بنیادی اقدام کے بغیر کوئی علم بھی اپنے طریق تحقیق کی تشکیل نہیں کرسکتا۔

تقابل لسان کے ماہرین کی پہلی غلطی ہی ان کی دوسری تمام غلطیوں کا سبب بنی ہے۔ ہند یورپی زبانوں پر مبنی اپنی تحقیقات میں وہ کبھی اپنے تقابلی مطالعات کی معنویت اور زبانوں کے مابین دریافت کردہ روابط کی اہمیت کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ان کا طریق تحقیق خصوصی طور پر تقابلی تھا نہ کہ تاریخی۔ کسی بھی تاریخی تشکیل نو کے لیے بلاشبہ تقابل کی ضرورت پڑتی ہے تاہم یہ اپنے تئیں حتمی نہیں ہوسکتا۔دو پودوں کی بالیدگی پر غور و فکر کرنے والے ماہر طبیعیات کی طرح انہوں نے جب بھی دو زبانوں کی نشوونما پر غور کیا تو مغالطہ آمیز نتیجہ برآمد ہوا۔مثلا شلیشر کو یہ کہنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ یونانی زبان کے حروف ’ای‘ ( e )اور’اَو‘ ( o )بنیادی مصوتی نظام کے ہی دو درجے ہیں۔ حالانکہ شلیشر ہمیشہ ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں ہند یورپی زبانوں کے مبداء اولین سے آغاز کرنا چا ہیے اور ایسا کہتے ہوئے وہ ایک طرح سے ثقہ مورخ معلوم ہوتا ہے۔ شلیشر کے اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا سبب سنسکرت ہے جس میں مصوتی تبادلات کا ایک نظام کار فرما ہے جو ان کی درجہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ شلیشر نے فرض کرلیا کہ گویا ہر زبان کو الگ الگ ایک ہی انداز میں اس طرح ان درجات سے گزرنا ہوتا ہے جیسے ایک نوع کے متعدد درخت ایک دوسرے سے بے نیاز نشوونما کے مماثل درجات سے گزرتے ہیں۔اس قیاس کی بناء پر شلیشر نے فرض کر لیا کہ یونانی زبان کا حرف’ای‘  ( e )، اس کے حرف’اَو‘ ( o )،اور سنسکرت کا حرف à اس کے حرف ã کا مشدد  صوتی درجہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہند یورپی زبانوں کے مبداء اولین کی صوتی درجہ بندی یونانی اور سنسکرت میں الگ الگ انداز سے منعکس ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے ان زبانوں کے قواعد پر پڑنے والے اثرات بھی متساوی نہیں ہیں۔

اس خصوصی تقابلی طریق کار کی وجہ سے کچھ غلط تصورات رائج ہوگئے۔ان تصورات کا چونکہ حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لہٰذا یہ بیان کے حقائق کو منعکس نہیں کرسکتے تھے۔زبان کو دوسرے شعبہ ہائے علوم سے الگ ایک خاص شعبہ سمجھ لیا گیا جس کی بدولت اس میں استدلال کے ایسے انوکھے طریقے رائج ہوگئے جن کا اطلاق علوم کے دیگر شعبوں میں کیا جاتا تو بہت حیرت کا باعث ہوتا۔ آج کا کوئی بھی آدمی اس زمانے کی لکھی ہوئی چند سطور بھی ان کے طریق استدلال کی لایعنیت اور اس لایعنیت کو جواز دینے کے لیے استعمال کی گئی اصطلاحات میں الجھے بغیر نہیں پڑھ سکتا۔

لیکن طریق تحقیق کے زاویے سے دیکھا جائے تو تقابل لسان کے ماہرین کی غلطیوں کی بھی ایک قدرو قیمت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نوزائیدہ علم کی غلطیاں سائنسی تحقیق کے ابتدائی مراحل میں ہونے والی اغلاط کو مبالغہ آمیز صورت میں پیش کرتی ہیں۔میں موقع بہ موقع اس کتاب میں ان غلطیوں میں سے کئی ایک کو بیان کروں گا۔

1870ءکے لگ بھگ ماہرین نے ان اصولوں کی دریافت کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ، زبانوں کی زندگی جن کے تابع ہوتی ہے۔اس کے بعد ہی انھوں  نے اس کا ادراک کرنا شروع کیا کہ زبانوں کے مابین مماثلتیں لسانی مظہر کی صرف ایک جہت ہے اور یہ کہ تقابل حقائق کی تشکیل نو کا محض ایک ذریعہ یا طریقہ ہے۔

باقاعدہ لسانیات جو تقابلی مطالعات کو ان کی صحیح جگہ پر رکھتی ہے اس کا آغاز جرمینک اور رومانی (لاطینی سے ماخوذ) زبانوں کے مطالعے سے ہوا۔رومانی زبانوں میں مطالعات ڈائز نے شروع کیے۔ اس کی کتاب Granatum      Der      Romanischen       Sprachen کی تاریخ اشاعت 1836 ءسے 1838 ءکے درمیان ہے۔یہ مطالعات لسانیات کو اس کے حقیقی موضوع سے روشناس کرنے کا ذریعہ بنے۔کیونکہ رومانی زبانوں کے ماہرین کو  اس سلسلے میں کچھ آسانیاں حاصل تھیں جن سے ہند یورپی زبانوں کے علماء محروم تھے۔ایک تو انہیں لاطینی زبان تک بلا واسطہ رسائی حاصل تھی جو رومانی زبانوں کا ماخذ ہے اور دوسرے یہ کہ ایسے متون بڑی تعداد میں ان کی دسترس میں تھے جن کی وجہ سے وہ مختلف بولیوں کے وجود میں آنے کی تفصیلات کا سراغ لگا سکتے تھے۔ان دو چیزوں نے تحقیق کے لیےانہیں ٹھوس تناظر فراہم کردیا اور ظن وتخمین پر ان کا انحصار کم سے کم ہوگیا۔جرمینک زبانوں کے ماہرین کی صورتحال بھی یہی تھی۔اگرچہ جرمینک زبانوں کے ماہرین کو ان زبانوں کے مآخذ تک تو رسائی حاصل نہیں تھی تاہم انہیں بھی متعدد متون فراہم تھے جن کے سبب وہ اس قابل ضرور ہوگئے کہ کئی صدیوں کے دوران میں جرمینک زبانوں کے مبداء سے ماخوذ زبانوں کی تاریخ کی بازیافت کرسکیں۔جرمینک زبانوں کے ماہرین چونکہ ہند یورپی زبانوں کے علماء کی نسبت حقیقت سے زیادہ قریب تھے اس لئیے وہ مختلف نتائج پر پہنچے۔

Life      and      growth      of      language (مطبوعہ 1875ء) کے مصنف امریکی ماہر لسان وٹنے(1827ء تا 1894ء) کو اس سلسلے میں شرف اولیت حاصل ہے۔ اس کے بعد نیو گرائمیرین  نے ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔ ان نوجوان ماہرین قواعد کے تمام فکری قائدین جرمن تھے جن میں کارل بر گمان (1849ء تا 1919ء) اور ایچ اوس تھا ف، جرمینک زبانوں کے ماہرین ڈبلیو برنے،ای سورس،ایچ پال اور سلاوی زبانوں کے عالم لیسکن وغیرہم شامل ہیں۔ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تقابلی مطالعات کے نتائج کو ان کے تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھا اور یوں حقائق کو ان کی فطری درجہ بندی سے مربوط کردیا۔یہ انہی کا احسان ہے کہ اب زبان کو ایک ایسا نامیاتی کل نہیں سمجھا جاتا جو اپنی نشوونما میں خود منحصر ہے بلکہ اس کے برعکس اب زبان کو لسانی گروہوں کے اجتماعی شعور کے حاصل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماہرین نے اس بات کا بھی ادراک کرلیا کہ علم لسان اور تقابلی علم لسان کے تصورات کتنے ناکافی اور کس قدر خطا پر مبنی تھے۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوجود یہ نوجوان ماہرین قواعد مسئلے کو مکمل طور پر نہیں سلجھا سکے اور عمومی لسانیات کے بنیادی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔

باب دوم:      لسانیات کا موضوع،دائرہ کار اور دیگر علوم سے اس کا تعلق

لسانیات کا موضوع انسانی کلام کے تمام اظہارات پر مشتمل ہے۔ وہ اظہارات چاہے تہذیب یافتہ یا غیر تہذیب یافتہ قوموں کے ہوں یا ان کا تعلق متروک، کلاسیکی یا زوال پذیر ادوار سے ہو۔ ایک ماہر لسانیات کو چاہیے کہ وہ صرف کلام فصیح  اور ادبی اظہارات کے  بارے  میں ہی غور وفکر نہ کرے بلکہ تمام دوسرے اظہارات کو بھی پیش نظر رکھے۔ چونکہ اکثر وبیشتر وہ اہل لسان کو بلاواسط سماعت نہیں کر سکتا لہذا اس کے لیے صرف خود کو مختلف اظہارات تک محدود کر دینا کافی نہیں ہے۔ ایک ماہر لسانیات کو چاہیے  کہ وہ تحریری متون کو بھی مد نظر رکھے کیونکہ وہ صرف انھیں کے زریعے زبان کے اس محاورے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جس میں زمانی اور مکانی بُعد پایا جاتاہے۔

لسانیات کا دائرہ کار درج ذیل چیزوں سے متعین ہونا چاہیے:

الف)     تمام معروف زبانوں کی توضیح کرنا اور ان کی تاریخ بازیافت کرنا۔ اس کا مطلب ہے زبانوں کے خاندانوں کی تاریخ کی بازیافت اور جہاں تک ممکن ہوان میں سے ہر خاندان کے لسانی مآخذ کی تشکیل نو۔

ب)      تمام زبانوں میں کارفرماں مستقل اور آفاقی قوتوں کا تعین کرنا اور ان عمومی قوانین کا استنباط کرنا جن کا اطلاق تمام   مخصوص تاریخی لسانی مظاہر پر ہو سکے۔

 ت)     لسانیات کا اپنی تعریف و حدود کا تعین کرنا

 لسانیات دوسرے علوم سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔یہ علوم کبھی تو لسانیات سے مواد اخذ کرتے ہیں اور کبھی اسے فراہم کرتے ہیں۔ اس اخذ و تاخذ کے مابین امتیازی خطوط واضح طور پر دکھائی نہیں دیتے۔   مثال کے طور پر لسانیات کو نسلیات اور قبل از تاریخ کے علم سے احتیاط کے ساتھ ممتاز کر دینا چاہیے۔ کیونکہ ان دونوں علوم میں زبان کا کردار صرف یہ ہے کہ ان میں زبان واقعات کی تدوین کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ زبان چونکہ ایک معاشرتی حقیقت ہے اس لیے لسانیات کو بشریات سے بھی الگ سمجھا جانا چاہیے جو انسان کا مطالعہ محض اس کی انواع کے زاویے سے کرتی ہے۔سوال یہ ہےکہ کیا پھر لسانیات کو عمرانیات کے ساتھ یکجا کر دینا چاہیے؟

لسانیات اور سماجی نفسیات کے درمیان کیا تعلق ہیں؟

 مواد اور میکانی اظہارات سمیت زبان میں موجود ہر شے کا تعلق بنیادی طور پر نفسیات سے ہے جیسے کہ صوتی تبدیلیاں۔ چونکہ لسانیات سماجی نفسیات کے لیے ایسا قابل قدر مواد فراہم کرتی ہے تو کیا یہ لسانیات کا لازمی جز نہیں بن جاتی؟ یہاں میں اس سے ملتے جلتے کئی سوالات اٹھاؤں گا جن پر بعد میں تفصیلی بحث کروں گا۔ لسانیات اور آوازوں کے عضویاتی مطالعہ کے درمیان تعلق کے مسئلہ کو سمجھنا قدرے آسان ہے۔ یہ تعلق اس اعتبار سے  یکطرفہ ہے کہ زبانوں کا مطالعہ آوازوں کے عضویاتی علم سے اپنے لیے کئی طرح کی وضاحتیں حاصل کرتا ہے لیکن یہ مطالعہ بدلے میں آوازوں کے عضویاتی علم کو کچھ بھی فراہم نہیں کرتا۔امر واقع کچھ بھی ہو ان دو علوم کو آپس  میں گڈ مڈ نہیں کیا جاسکتا۔جیسے کہ میں بعد میں وضاحت کروں گا کہ جو امر زبان کی تشکیل کرتا ہے وہ تلفظ کی جہت سے لسانی نقوش کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

جہاں تک علم لسان کی بات ہے ہم یہ پہلے ہی متعین کر چکے ہیں کہ بعض نظری اور عملی اشتراکات کے باوجود یہ لسانیات سے الگ تھلگ ایک مستقل علم ہے۔لسانیات کا آخرکار کیافائدہ ہے؟چند لوگ ہی اس بارے واضح تصورات رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ان تصورات کے تعین کا موقع نہیں۔ لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ لسانیاتی سوالات مؤرخین اور علم لسان کے ماہرین جیسے ان تمام لوگوں کو کشش کرتے ہیں جو متون پر تحقیقی کام کریں۔ اور پھر  عمومی تہذیب کے لیے تو لسانیات کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ افراد اور معاشروں کی زندگیوں میں کلام کی اہمیت کسی بھی چیز سے زیادہ ہے۔یہ تو بعید از قیاس ہے کہ لسانیات کے میدان میں کام کرنے کا استحقاق چند ایک ماہرین کو حاصل ہونا چاہیے۔ ہر ایک کا کسی نہ کسی طرح اس سے تعلق ہے۔تاہم ایسا کوئی دوسرا شعبہ نہیں ہے جہاں اتنے زیادہ لایعنی تصورات، تعصبات، غلط فہمیاں اور افسانے وجود میں آئے ہوں اور یہ لسانیات میں دلچسپی کا متضاد نتیجہ ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے تو یہ غلط فہمیاں دلچسپی کی حامل ہیں لیکن ایک ماہر لسانیات کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ اس سے جس حد تک بن پڑے وہ ان غلطیوں کی مذمّت اور تدارک کا سامان کرتا رہے۔

باب سوم:       لسانیات کا معروض

زبان کی تعریف

لسانیات کا ٹھوس اور مستقل معروض کیا ہے؟یہ سوال واقعی مشکل ہے۔اس مشکل کی وجہ ہم بعد میں دیکھیں گے۔ یہاں میرا ارادہ صرف یہ ہے کہ میں اس مشکل کی نشان دہی کروں۔

دیگر علوم کے معروضات پہلے سے موجود ہوتے ہیں جنہیں مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن لسانیات کا معاملہ یہ نہیں ہے۔جب کوئی شخص فرانسیسی لفظ nu ’برہنہ‘ادا کرتا ہے،  تو ایک سطحی سوچ رکھنے والا آدمی اس لفظ کو ٹھوس لسانیاتی معروض کہنے پر مائل ہوتا ہے۔  لیکن اگر اس لفظ کو دقتِ نظر سے دیکھا جائے،  تو منکشف ہوتا ہے کہ اس لفظ میں مرحلہ وار تین یا چار مختلف چیزیں موجود ہیں۔ اس انکشاف کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذکورہ لفظ کو آواز کی حیثیت سے دیکھا جائے، اسے تصور کا اظہار سمجھا جائے یا لاطینی لفظ nudum ’برہنہ‘  کا مساوی خیال کیا جائے۔ اس لفظ کا معاملہ اس معروض جیسا نہیں ہے جو زاویہ نظر پر مقدم ہوتا ہے۔ اس کی بجائے محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہاں زاویہ نظر ،معروض کی تشکیل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا بھی پیشگی علم نہیں ہوتا کہ زیر بحث صورت میں لفظ کی حیثیت کا تعین کرنے والے مختلف زاویہ ہائے نظر میں سے کس زاویے کو دوسروں کے لیے  نظیر قرار دیا جائے یا ان سے برتر سمجھا جائے۔

مزید یہ کہ جو بھی زاویہ نظر ہم اختیار کرتے ہیں اس سے قطع نظر لسانیاتی مظہر ہمشہ دو باہم متعلق جہتوں کا حامل ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قدروقیمت کا تعین دوسرے کی نسبت سے ہوتا ہے۔

  1.  مثال کے طور پر لفظ کے تلفظ میں آنے والے صوتی اجزاء دراصل وہ سمعی تاثرات ہوتے ہیں جن کا کانوں سے ادراک کیا جاتاہے۔ لیکن آوازیں اعضائے تکلم کے بغیر وجود نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر n (’این ‘) کی آواز محض طرفین کے مابین تعلق کی بنا پر وجود پزیر ہوتی ہے۔ ہم نہ تو زبان کو آواز تک محدود کر سکتے ہیں اور نہ ہی آوازوں کو تکلم سے جدا کر سکتے ہیں۔ اس دو طرفہ تعلق کے پیشِ نظر ہم سمعی تاثرات کو ملحوظ رکھے بغیر اعضائے تکلم کی حرکات کی وضاحت نہیں کر سکتے۔
  2.   لیکن فرض کیجئے کہ اگر آواز ایک بسیط چیز ہوتی تو کیا وہ کلام کی تشکیل کر سکتی؟ نہیں بلکہ یہ تو محض فکر کا ایک آلہ ہے جو اپنے تئیں کوئی وجود نہیں رکھتی۔ ایک پیچیدہ سمعی و صوتی اکائی یعنی ایک آواز جب ایک پیچیدہ نفسیاتی و عضویاتی اکائی کی تشکیل کےلئے تصور کے ساتھ پیوست ہوتی ہے تو اس نقطے پر آواز اور فکر کے مابین ایک نیا اور زبردست تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ تاہم ہمارے اس بیان سے بھی ان کے مابین تعلق کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوتی۔
  3. 3)      کلام انفرادی اور سماجی دونوں پہلو رکھتا ہے اور ہم ایک کے بغیر دوسرے کا ادراک نہیں کرسکتے۔
  4. 4)     کلام سے ہمیشہ ایک مستحکم نظام اور ارتقاء کا بیک وقت فہم حاصل ہوتا ہے کیوں کہ یہ اپنے عرصہ وجود کے ہر لمحے میں حال کی نسبت سے قائم ہے اور ماضی کا حاصل ہے۔ نظام اور اسکی تاریخ میں امتیاز قائم کرنا، اس کے ماضی اور حال میں فرق کرنا پہلی نظر میں بہت آسان لگتا ہے۔ دراصل ان دونوں میں اس قدر قریب کا تعلق ہے کہ ہم ان کو مشکل ہی سے الگ الگ رکھ سکتے ہیں۔اگر ہم بچوں کے بول چال کے مطالعہ سے اس کا آغاز کریں تو کیا یہ ممکن ہےکہ ہم لسانیاتی مظہر کے انتہائی ابتدائی مراحل کے مطالعہ کی بنیاد پر اس سوال کی تسہیل کر دیں؟ نہیں ، ہم ایسا نہیں کر سکتے کیوں کہ کلام کے  ساتھ معاملہ کرتے ہوئے  یہ فرض کر لینا کلیتا گمراہ کن ہے کہ اس کی ابتدائی خصوصیات کا مسئلہ اس کی مستقل خصوصیات کے مسئلے سے مختلف ہے۔یہاں پہنچ کر ہم ایک شیطانی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔

ہم جس زاویے سے بھی اس سوال کا احاطہ کریں ہم  لسانیات کے مستقل معروض تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہر کہیں ہمیں مخمصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ہر مسئلے کی صرف ایک جہت پر توجہ مرکوز کریں تو ہمیں مذکورہ بالا ثنویتوں کے ادراک کرنے میں ناکامی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔  جب کہ دوسری طرف اگر ہم بیک وقت متعدد زاویہ ہائے نگاہ سے کلام کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ لسانیات کا معروض گویا متفرق اور باہم غیر متعلق اشیاء کی غیر مربوط کلیت ہے۔ ہر ایک طریقہ کار نفسیات، بشریات، تنفیذی گرامر اور علم اللسان جیسے علوم کے دروازے واہ کر دیتا ہے جو کہ لسانیات سے ممیز و ممتاز ہیں۔ تاہم لسانیات کے ناقص طریقہ کار کی بدولت یہ علوم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ کلام ان کے معروضات میں سے ایک ہے۔

میرے خیال میں مقدم الذکر تمام مشکلات کا صرف ایک ہی حل ہے کہ  ہمیں ابتدا ہی سے اپنی توجہ زبان پر مرکوز کرنی چاہیے اور کلام کے دیگر تمام اظہارات کے لیے زبان کو بطور معیار استعمال کرنا چاہیے۔ دراصل زبان ہی ثنویت کی حامل تمام چیزوں میں وہ واحد شے ہے جو ایک  آزادانہ تعریف قبول کرتی ہے اور وہ اسباب فراہم کرتی ہے جو ذہن  کے لیے اطمینان بخش ہیں۔

مگر خود زبان کیا ہے؟ اگرچہ زبان انسانی کلام کا ہی ایک متعین اور خاص جز ہے تاہم اسے کلام کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئیے۔ دراصل زبان استعداد کلام کا سماجی نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان ضروری رسوم کا مجموعہ ہے جو رسوم ایک معاشرہ اختیارکر لیتا ہے تاکہ افراد اس استعداد کلام کو بروئے کار لا سکے۔ جبکہ مجموعی طور پر دیکھا جاۓ تو کلام کثیر الجہت اور متفرق الاجزاء ہوتا ہے کیوں کہ یہ بیک وقت طبیعی، عضویاتی اور نفسیاتی دائروں تک پھیلا ہوتا ہے۔ یہ فرد اور سماج دونوں سے  تعلق رکھتاہے۔ چوں کہ ہم اس کی وحدت کو دریافت نہیں کر سکتے لہٰذا ہم اسے انسانی حقائق کا مطالعہ کرنے والے علوم کے زمرے میں شمار نہیں کر سکتے۔اس کے برعکس زبان ایک قائم بالذات کُل اور اشیاء کی درجہ بندی کا اصول ہے۔ جوں ہی ہم کلام کے عناصر میں سے زبان کو درجہ اول پر فائز کرتے ہیں تو ہم اس غیر مربوط کلیت میں ایک فطری ترتیب پیدا کر دیتے ہیں جو کلیت دوسری کسی بھی درجہ بندی کو قبول نہیں کرتی.

 درجہ بندی کے اس اصول پر کوئی یہ کہہ کر اعتراض کر سکتا ہےکہ چوں کہ کلام کا استعمال فطری استعداد پر مبنی ہے جب کہ زبان ایک رواجی اور سیکھی ہوئی چیز ہے لہٰذا اسے درجہ اول پر فائز ہونے کی بجائے کلام کی فطری جبلت کے ماتحت ہونا چاہیے۔

یہ اعتراض آسانی سے رد ہو جاتا ہے۔پہلی بات ہے یہ ہے کہ یہ ابھی کسی نے ثابت نہیں کیا کہ کلام اس حیثیت سے مکمل طور پر ایک فطری چیز ہے جس حیثیت سے یہ ہمارے بولتے سمے خود کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بات ابھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی کہ ہمارے اعضائے تکلم بالکل اسی طرح بولنے کے لیے  بنے ہیں جس طرح کہ ہماری ٹانگیں چلنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس مسئلے پر ماہرین لسانیات ابھی تک کوئی متفقہ رائے نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر وٹنے کے نزدیک زبان متعدد سماجی اداروں میں سے ایک ہے۔ وہ اسے محض اتفاق سمجھتا ہے کہ ہم اعضائے تکلم کو اپنی آسانی کے لیے آلہِ زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔حالاں کہ انسان سمعی علامات کی بجائے اشاروں اور بصری علامات کو استعمال کرنے کا انتخاب بھی کر سکتا تھا۔ بلاشبہ اس کا یہ موقف بہت زیادہ اذعانی ہے کیونکہ زبان تمام پہلوؤں سے دوسرے سماجی اداروں کے مماثل نہیں ہے۔ مزید برآں، وٹنے یہ کہنے میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے کہ اعضائے تکلم کا ہمارا انتخاب محض اتفاق ہے اور کم و بیش فطرت نے ہم پر یہ انتخاب مسلط کیا ہے۔بنیادی نقطے کے اعتبار سے وٹنے کی بات ٹھیک ہے کیوں کہ زبان ایک رواجی چیز ہے اور ایک متفقہ اشارہ کی نوعیت اہمیت نہیں رکھتی۔ کلام کے مسئلے کے ضمن میں اعضائے تکلم کا سوال ظاہر ہے کہ ثانوی اہمیت کا حامل ہے۔

ممکن ہے کہ کلام ملفوظ کی ایک تعریف اس نتیجے کا اثبات کرے۔ لاطینی زبان میں articulus کا معنی ہے رکن، جز یا ایک ترتیب کی ذیلی تقسیم۔ جب اس کا اطلاق کلام پر کیا جائے تو عمل تلفظ یا تو سلسلہ کلام کی لفظ کے صوتی اجزاء میں ذیلی تقسیم کی نشان دہی کرتا ہے یا پھر معنی کے سلسلے کی اہم اکائیوں میں ذیلی تقسیم  کو عنوان دیتا ہے۔ Geglieder      Sprachen جرمن میں ایک دوسرے مفہوم استعمال ہوتی ہے۔

دوسری تعریف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت کے لیے جو چیز فطری ہے وہ زبانی کلام نہیں ہے بلکہ تشکیل زبان کی استعداد ہے۔ زبان کی تشکیل کا مطلب ہے مخصوص تصورات سے مطابقت رکھنے والےممیز اشارات پر مشتمل نظام کی تشکیل۔

بروکا نے دریافت کیا کہ استعداد کلام سامنے کی طرف سے دماغ کی تیسری تہہ میں پائی جاتی ہے۔  بروکا کی اس دریافت کو کلام کے فطری صفت سے متصف ہونے کی توثیق کےلئے استعمال کیا گیا۔ لیکن ہمیں معلوم ہےکہ دماغ کا یہ حصہ ہی ہر اس چیز کا مرکز ہے جسے تحریر سمیت کلام سے کچھ بھی لینا دینا ہے۔ مذکورہ بالا بیانات اور افیزیا کے ان مریضوں( جو استعداد کلام کے اعصابی مرکز پر چوٹ لگنے سے اس مرض میں مبتلا ہوئے) کے معائنے پر مبنی مشاہدات سے ظاہر ہوتا ہے :

  1. کلام تقریری کے کئی ایک عوارضات صد ہا انداز میں کلام تحریری کے عوارضات سے منسلک ہوتے ہیں۔
  2. افیزیاکے مریضوں میں کسی متعین آواز کو پیدا کرنے یا اشارے کو تحریر کرنے کی استعداد سلسلہ کلام کے معمول بہا اشارات کو کسی بھی ذریعے سے برتنے کی قابلیت کی نسبت کم متاثر ہوتی ہے۔

اس کا ایک واضح نتیجہ یہ ہے کہ انسان میں مختلف اعضاء تکلم کی فعلیت کے علاوہ نسبتاً ایک عمومی استعداد موجود ہے جو اشارات پر حاکم ہے اور یہی اصل میں لسانی استعداد ہے۔ اس بنیاد پر بھی ہم اسی نتیجے تک پہنچتے ہیں جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

کلام کے مطالعہ میں زبان کی اولیت کے ثبوت کے لیے ہم اب حتمی دلیل پیش کر سکتے ہیں۔ الفاظ کے تلفظ کی استعداد چاہے یہ فطری ہو یا نہ ہو ہم صرف سماج کے پیدا کردہ اور فراہم کردہ ذریعے کی مدد سے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا خام خیالی نہیں ہے کہ زبان ہی کلام کو وحدت مہیا کرتی ہے ۔

 حقائق کلام میں زبان کامقام

کلام کے تمام اجزاء میں سے اس جز کو علیحدہ کرنے کے لیے جس کا تعلق زبان سے ہے ہمیں انفرادی عمل تکلم کا جائزہ لینا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر دائرہ کلام کی تشکیل نو ہو سکتی ہے۔ اس عمل کے لیے کم از کم دو افراد کا ہونا ضروری ہے اور یہ قلیل ترین تعداد ہے جو کلام کے دائرے کی تکمیل کے لیے درکار ہوتی ہے۔

فرض  کیجیے کہ دو افراد ’الف ‘ اور ’ب‘ آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔

فرض کیجیے کہ دائرہ کلام کا مبدا فرد ’الف ‘  کا دماغ ہے جہاں تصورات لسانی دلالتوں  کے قائم مقام ہیں جنہیں ان تصورات کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک معین مدلول خود سے مطابقت رکھنے والے دال کو ذہن میں منکشف کر دیتا ہے۔ اس خالصتاً نفسیاتی مظہر کے بعد ایک عضویاتی عمل  وقوع پذیر ہوتا ہے جس میں دماغ دال سے مطابقت رکھنے والی تحریک کو اعضاء تکلم  تک منتقل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد آواز کی لہریں فرد ’الف ‘ کے منہ سے فرد ’ب‘کے کانوں تک پہنچتی ہیں اور آواز کی لہروں کا یہ سفر خالصتاً ایک طبعی عمل ہے۔ اگلے مرحلے میں فرد ’ب‘  کے ہاں اس دائرہ کلام کا اجراء ہوتا ہے مگر اس کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ اس ترتیب میں آواز کی لہریں کان سے دماغ تک جاتی ہیں جو کہ صوتی اشارے کی عضویاتی منتقلی ہے۔ یہ لسانی اشارے کی خود سے مطابقت رکھنے والے تصور کے ساتھ نفسیاتی وابستگی کا عمل ہے۔ اب اگر فرد’ب‘بات کرے تو اس کے ذہن  سے فرد ’الف ‘ کے ذہن تک ایک نیا عمل ترسیل شروع ہو جائے گا جو پہلے عمل کے مماثل ہو گا اور بالترتیب انہیں مراحل میں سے گزرے گا۔ اس عمل ترسیل کا خاکہ مندرجہ ذیل ہے۔

 مقدم الذکر تجزیہ اس عمل کا مکمل تجزیہ نہیں ہے۔ہم خالص صوتی انگیخت، اس انگیخت کی بلقوہ صوتی اشارہ کے ساتھ مطابقت اور ادائیگی کے وقت پٹھوں کی شکل کو الگ الگ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف ضروری عناصر کو شامل کیا ہے۔ تاہم اس عمل کی تصویر کشی معمولی غور کرنے پر ہی طبعی (صوتی لہروں)، عضویاتی(سماعت اور ادائیگی صوت) اور نفسیاتی(لفظی اشارے اور تصور) اجزاء کے امتیازات کو واضح کر دیتی ہے۔ یقیناً ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ لفظی اشارہ خود آواز سے الگ ہوتا ہے اور یہ اتنا ہی نفسیاتی ہوتا ہے جتنا کہ اس سے وابستہ تصور۔ میں نے جس دائرہ کلام کا خاکہ پیش کیا ہے اس کی مزید تقسیم اس طرح ہو سکتی ہے۔

الف)    اس دائرہ کلام کا ایک بیرونی حصہ ہوتا ہے جس میں ان آوازوں کے ارتعاشات شامل ہوتے ہیں جو آوازیں منہ سے کان تک سفر کرتی ہیں اور اس کا  ایک اندرونی حصہ ہوتا ہے جس میں باقی سب چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ 

ب)      یہ دائرہ کلام نفسیاتی اور غیر نفسیاتی حصوں میں منقسم ہے۔ غیر نفسیاتی حصے میں اعضاء تکلم کے عضویاتی نتائج کے ساتھ ساتھ طبعی حقائق شامل ہیں جو فرد سے الگ خارج میں موجود ہوتے ہیں۔

ج)       اس دائرہ کلام کا ایک حصہ فعال اور ایک منفعل ہے۔ جو چیز متکلم کے مرکز ارتباط سے سامع کے کانوں تک منتقل ہوتی ہے فعال ہے اور ہر وہ شے جو  سامع کے کان سے اس کے اپنے مرکز ارتباط تک جاتی ہے،  منفعل ہے۔

د)       اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ دائرہ کلام کے نفسیاتی حصے میں جو چیز فعال ہے وہ  موثر ہے اور ہر وہ چیز جو اس حصہ میں منفعل ہے وہ متاثر ہے۔

اس تقسم میں ہمیں اس ارتباطی استعداد کو بھی شامل کرنا چاہیے جس کا انکشاف تب ہوتا ہے جب ہم انفرادی اشارات کی بجائے ان کی ترکیب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ استعداد بطور نظام زبان کی تنظیم میں زبردست کردار ادا کرتی ہے۔

لیکن ارتباطی استعداد کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے انفرادی عمل تکلم کو چھوڑ کر جو کہ کلام کا محض ایک ابتدائی مرحلہ ہے ہمیں زبان کو  سماجی حقیقت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

کلام کی وساطت سے باہم متعلق تمام افراد کے درمیان اس کا اوسط درجہ مقرر کر دیا جائے تو وہ افراد تقریباً پہلے اشارات سے ملتے جلتے اشارات پھر سے تخلیق کریں گے جو سابقہ تصورات کے مماثل تصورات سے مربوط ہوں گے۔

زبان کی سماجی تکمیل کیسے وقوع پزیر ہوتی ہے؟ دائرہ کلام کے کون سے اجزاء اس میں شامل ہوتے ہیں؟ کیوں کہ دائرہ کلام کے تمام اجزاء غالباً زبان کی سماجی تکمیل میں مساوی طور پر کردار ادا نہیں کرتے۔

ہم اس بحث کے آغاز سے ہی دائرہ کلام کے غیر نفسیاتی حصے کو بحث سے خارج کر سکتے ہیں۔ جب ہم لوگوں کو ایسی زبان بولتے ہوئے سنتے ہیں جسے ہم نہیں جانتے تو ہم آوازوں کا ادراک تو کر لیتے ہیں لیکن ہم بات چیت کے اس  سماجی عمل کا حصہ نہیں بن سکتے کیونکہ ہم ان لوگوں کو سمجھ نہیں پاتے۔

دائرہ کلام کا نفسیاتی حصہ بھی زبان کو سماجی حقیقت کی حیثیت سے سمجھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس میں جہت مؤثرہ مفقود ہوتی ہے کیونکہ یہ سماج کا وصف نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ ہمیشہ انفرادی اور فرد کی مہارت ہوتی ہے۔ میں اس جہت کو تکلم (parole) کا عنوان دوں گا۔

اثر پذیر اور ارتباطی استعدادوں کی فعلیت کے ذریعے بولنے والوں کے ذہنوں میں یکساں تاثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زبان چوں کہ ایک سماجی تخلیق ہے چنانچہ اس کی تصویر کشی اس انداز میں کیسے کی جا سکتی ہے کہ یہ دیگر تمام چیزوں سے غیر متعلق رہ جائے؟ اگر ہم تمام افراد کے ذہنوں میں محفوظ لفظی اشارات کے مجموعے کا احاطہ کر لیں تو ہم اس سماجی بندھن کو شناخت کر سکتے ہیں جو زبان کی تشکیل کرتا ہے۔ زبان گویا ایک گودام ہے جسے معاشرے کے افراد نے اپنے فعل تکلم سے بھر رکھا ہے۔  یہ گرامر کا ایک نظام ہے جو ہر فرد کے ذہن میں یا متشخص طور پر کہا جائے تو افراد کے ایک گروہ کے ذہنوں میں بالقوہ وجود رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان  کبھی بھی فرد واحد میں مکمل نہیں ہوتی بلکہ ایک گروہ کے اندر مکمل ہوتی ہے۔

جب ہم زبان کو عمل تکلم سے الگ کرتے ہیں تو ہم دراصل اس سماجی پہلو کو انفرادی پہلو  سے اور اس کے جوہری اجزاء کو عارضی اجزاء سے الگ کر رہے ہوتے ہیں۔

زبان اپنی وجود پزیری کے اعتبار سے انفرادی طور پر متکلم کے عمل تکلم کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک سماجی تخلیق ہے جسے ایک فرد لاشعوری طور جذب کرتا ہے۔ زبان کبھی بھی پیشگی غور وفکر کا تقاضا نہیں کرتی۔اس میں سوچ بچار کا عمل صرف درجہ بندی کے مقصد سے بروئےکار آتا ہے جسے ہم بعد میں زیر بحث لائیں گئے۔

  اس کے برعکس تکلم ایک انفرادی عمل  ہوتا ہے جو کہ اپنی نوعیت میں ارادی بھی ہے اور فکری بھی۔ فعل تکلم میں ہمیں دو چیزوں کے درمیان امتیاز کرنا چاہیے یعنی ان مرکبات جن کے ذریعے متکلم اپنے فکر  کو اظہار دینے کے لیے زبان کا ضابطہ استعمال کرتا ہے اور اس عضوی و نفسیاتی میکانکیت کے درمیان جس کے بنا پر وہ ان مرکبات کی بیروں کاری کا عمل بجا لاتا ہے۔

یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ میں نے لفظوں کی بجائے چیزوں کی تعریفات مقرر کی ہیں۔ یہ تعریفات ان مبہم الفاظ کی وجہ سے معرض خطر میں نہیں پڑتیں جو الفاظ مختلف زبانوں میں ایک جیسے معنی کے حامل نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر جرمن زبان کا لفظsprache زبان اور کلام دونوں پر دلالت کرتا ہے جبکہ Rede کا لفظ کلام کا مترادف ہے۔تاہم یہ خاص معنی میں کلامیہ کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ لاطینی زبان کا لفظ Sermoکلام اور عمل تکلم دونوں پر دلالت کرتا ہے جبکہLinguaکا معنی ہے زبان۔ان لفظوں میں سے کوئی لفظ بھی اوپر بیان کیے  گئے تصورات کے ساتھ مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ کی تعریف کی بنیاد پر چیزوں کی تعریف کا تعین کرنا ایک بے سود عمل ہے اور ایک غلط طریقہ کار ہے۔ فی الجملہ، زبان کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

ا)        حقائق کلام کے متفرق الاجزاء مجموعے میں زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی تعریف متعین ہے۔ زبان کو دائرہ کلام کے اس محدود حصے میں رکھا جا سکتا ہے جہاں سمعی اشارہ تصور سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ کلام کا سماجی پہلو ہے اور ایک فرد اپنے تئیں نہ تو اسے تخلیق کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ زبان معاشرے کے افراد کے درمیان ایک طرح کے معاہدے کے سبب وجود پزیر ہوتی ہے۔ مزید برآں ایک فرد کو زبان کی فعلیت کے بارے میں سیکھنے کے لئے ہمیشہ سماجی تلمذ اختیار کرنا پڑتا ہے لہذا بچہ زبان کو تدریجاً جذب کرتا ہے۔ زبان ایک ایسی منفرد چیز ہے کہ تکلم سے محروم آدمی کے اندر بھی اس کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کی شرط یہ ہے کہ وہ جن صوتی اشاروں کو سنتا ہے ان کو سمجھتا بھی ہو۔

2)       کلام کے برعکس زبان ایسی چیز ہے جس کا ہم سماجی تناظر سے ہٹ کے مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ مطالعہ ان متروک زبانوں کا ہو جو اب بولی نہیں جاتیں لیکن ہم آسانی کے ساتھ ان کے لسانیاتی نظام کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ زبان کی علمی تشکیل تبھی ممکن ہے جب  زبان کو دیگر سماجی عناصر سے الگ کر کے دیکھا جائے۔

3)     کلام اپنی نوعیت میں متفرق الاجزاء جبکہ زبان متحدالاجزاء ہے۔ زبان اشارات کا ایسا نظام ہے جس میں صوتی اشارات اور معنی کے درمیان مطابقت کو جوہری حیثیت حاصل ہے اور جہاں صوتی اشارے کے دونوں حصے یعنی دال اور مدلول نفسیاتی ہوتے ہیں۔

4)       زبان کلام کے مقابلے میں کم ٹھوس نہیں ہوتی اور یہ چیز زبان کے ہمارے مطالعے میں معاون ہے۔  لسانی اشارے بنیادی طور پر اگرچہ نفسیاتی ہوتے ہیں لیکن مجرد نہیں ہوتے ہیں۔ لسانی اشارات کے باہمی ارتباطات جنہیں سماجی تائید حاصل ہوتی ہے،  ایسے حقائق ہیں جن کا وجود ذہنی ہے اور یہی ارتباطات مل کر زبان کی تشکیل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، لسانی اشارات حسی ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ہم لسانی اشارات کو روایتی تحریری علامتوں میں تبدیل کردیں جبکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ اجزاء تکلم کو بالتفصیل حسی صورت دی جا سکے۔ چھوٹے سے چھوٹے لفظ کے تلفظ میں غیر متناہی عصابی حرکات موجود ہوتی ہیں جنہیں بمشکل ہی ایک دوسرے سے الگ کر کے تصویری شکل میں منضبط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس زبان میں صرف صوتی اشارات ہوتے ہیں اور انہیں متعین بصری اشارات میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کہ اگر ہم اعصابی حرکات کی اس بڑی تعداد کو ملحوظ نہ رکھیں جو عمل تکلم میں صوتی اشارات کی وجود پزیری کے لیے ضروری ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صوتی اشارہ کچھ محدود عناصر یا کلام کی اساسی اکائیوں یعنی صوتیوں کے مجموعے سے زائد کچھ نہیں ہوتا جنہیں با انداز دیگر تحریری علامتوں کے ذریعے عنوان دیا جا سکتا ہے۔ زبان سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو تصویری شکل میں پیش کرنے کے امکان ہی سے   یہ گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ لغات اور گرامر زبان کو ٹھیک ٹھیک بیان کر سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان صوتی اشارات کا ذخیرہ ہے اور تحریر ان صوتی اشارات کی حسی صورت ہے۔

انسانی حقائق میں زبان کا مقام: علم الاشارات

زبان کی مذکورہ بالا خصوصیات اس کی کہیں زیادہ اہم خصوصیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک دفعہ جب کلامی مواد میں زبان کے حدود متعین ہو جائیں تو اسے انسانی مظاہر میں شمار کیا جا سکتا ہے جبکہ کلام کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔

ہم ابھی یہ دیکھ چکے ہیں کہ زبان ایک سماجی ادارہ ہے لیکن اس کے کئی ایک امتیازات ایسے ہیں جو اسے سیاسی اور قانونی اداروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ زبان کی اختصاصی نوعیت کو اجاگر کرنے کےلئے ہمیں حقائق کی ایک نئی قسم کو متعارف کرنا پڑتا ہے۔

زبان ان اشارات کا ایک نظام ہے جن سے تصورات کا اظہار ہوتا ہے اور اسی لیے زبان کا موازنہ تحریری نظام، گونگے بہروں کےلیے مستعمل حروفِ تہجی، علامتی رسوم، شائستہ کلمات اور فوجی علامات وغیرہ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن زبان  اشارات کے ان تمام نظاموں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

ایسا علم قابل تصور ہے جو سماج میں اشارات کی نمو کا مطالعہ کرے اور سماجی نفسیات اور نتیجتاً عمومی نفسیات کا حصہ ہو۔ میں اس کو علم الاشارات کا نام دوں گا۔ ( سمیالوجی یونانی زبان کے لفظ semeionسے مشتق ہے جس کا معنی ہے اشارہ)۔  علم الاشارات سے یہ پتہ چلے گا کہ اشارات کی تشکیل کس سے ہوتی ہے اور یہ کن اصولوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ چونکہ یہ علم ابھی وجود میں نہیں آیا لہذا اس کی نوعیت کے بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس علم کے وجود میں آنے کا پورا جواز موجود ہے۔ لسانیات عمومی علم الاشارات کا صرف ایک حصہ ہے۔ علم الاشارات کے دریافت کردہ قوانین لسانیات پر لاگو ہوں گے اور لسانیات علم البشریات کے حقائق میں ایک متعین مرتبے کی حامل ہو گی۔

علم الاشارات کے درست مقام کا تعین کرنا ایک ماہر نفسیات کا کام ہے۔ ماہر لسانیات کا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سی چیز زبان کو علم الاشارات کے مواد میں سے ایک خاص نظام کی شکل دیتی ہے۔ اس مسئلے کو بعد میں دوبارہ زیر بحث لایا جائے گا۔ یہاں میں صرف ایک چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اگر میں لسانیات کو علوم  کے درمیان ایک ممتاز حیثیت دینے میں کامیاب ہوا ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے اس کا تعلق علم الاشارات سے قائم کیا ہے۔

 باقی علوم کی طرح علم الاشارات کو ابھی تک اس کے موضوع کی رعایت سے ایک خودمختار علم کے طور پر کیوں تسلیم نہیں کیا گیا۔ ماہرین لسانیات ابھی تک تو دائروں میں گھومتے رہے ہیں یعنی وہ لسانیات میں کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں کر سکے۔ زبان علم الاشارات کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں بہتر بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لیکن زبان کے مطالعے کا موضوع خود زبان ہی کو ہونا چاہیے. اب سے پہلے زبان کا مطالعہ تقریباً ہمیشہ دوسرے علوم کے نقطہ نظر اور دوسری چیزوں کے تعلق سے کیا جاتا رہا ہے۔

اس اعتبار سے سب سے پہلا مسئلہ تو عوام کا زبان کے بارے میں سطحی تصور ہے۔ لوگ باگ سمجھتے ہیں کہ زبان چیزوں کو نام دینے کے نظام کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ہے اور یہ بات زبان کی حقیقی نوعیت کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

دوسرا مسئلہ اس نفسیات دان کا نقطہ نظر ہے جو صرف انفرادی دائرہ میں  اشارات کے نظام کا مطالعہ کرتاہے۔ اگرچہ یہ سب سے آسان طریقہ ہے لیکن یہ انفرادی عمل سے آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی سماجی اشارات تک پہنچ پاتا ہے۔ 

تیسرا مسئلہ اشارات کے سماجی مطالعے کا ہے۔ جو صرف ان خصوصیات پر زور دیتا ہے جو زبان کو دوسرے سماجی اداروں سے جوڑتی ہیں۔ نتیجتاً اصل مقصد عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے اور بالعموم اشاراتی نظام اور بالخصوص زبان کی امتیازی خصوصیات مکمل طور پر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ اشارے کی وہ امتیازی خاصیت جو پہلی نظر میں نمایاں نہیں ہوتی انفرادی یا سماجی مشاہدے کا موضوع نہیں بن پاتی۔

مختصراً وہ خصوصیت جو اشارات کے نظاموں کو دیگر تمام اداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ واضح طور پر صرف زبان میں ظاہر ہوتی ہے اور جن چیزوں میں یہ خصوصیت خود کو ظاہر کرتی ہے وہاں اس کا اظہار ان چیزوں میں ہوتا ہے جو بہت کم مطالعہ کا موضوع بنتی ہیں۔ اسی لیے علم الاشارات کی ضرورت اور قدروقیمت کا ابھی تک واضح طور پر اندازہ نہیں کیا جا سکا۔ لیکن میرے نزدیک زبان کا مسئلہ بنیادی طور پر اشارات سے وابستہ ہے اور علم زبان میں ہونے والی تمام پیش رفت کی اہمیت اسی حقیقت سے ماخوذ ہے۔ اگر ہم زبان کی حقیقی نوعیت دریافت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں زبان اور اشارات کے دیگر تمام نظاموں کے درمیان پائے جانے والے مشترکات کا علم ہونا چاہیے۔ وہ لسانی قوتیں جو پہلی نظر میں اہم معلوم ہوتی ہیں اگر ان کا مصرف صرف یہ ہو کہ وہ زبان کو اشارات کے دیگر نظاموں سے علیحدہ کریں ان کی اہمیت ثانوی ہو جائے گی۔ یہ ضابطہ لسانیات کے مسئلے کی محض توضیح کرنے سے زیادہ کارگر ثابت ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ اشارات کے حیثیت سے رسوم و رواج وغیرہ کے مطالعہ کر کے ہم حقائق پر نئی روشنی ڈال سکتے ہیں اور انہیں اشارات کے علم میں شامل کرنے اور اس کے قوانین کے مطابق ان کی وضاحت کرنے کی ضرورت کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

باب چہارم: لسانیات زبان و تکلم

کلام کے مجموعی مطالعہ میں زبان کے علم کو مرتب کرتے ہوئے،  میں نے ساری لسانیات کا خاکہ بنا دیا ہے۔ کلام کے دیگر تمام اجزاء جو تکلم کی تشکیل کرتے ہیں خود پہلے علم کا موضوع بنتے ہیں اور لسانیات کے اجزاء اسی کی بدولت اپنا فطری مقام حاصل کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر تکلم کے لیے  ضروری آوازوں کے پیدا ہونے کے عمل پر غور کیجیے۔ اعضائے تکلم زبان کی حقیقت سے اسی طرح خارج ہیں جس طرح مورس کوڈ کی ترسیل میں استعمال ہونے والے برقی آلات خود کوڈ  کی حقیقت سے خارج ہیں اور صوتیات (صوتی اشارے کی ترسیل کا عمل) کسی طور بھی نظام الاصوات پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے زبان کا موازنہ سمفنی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ سمفنی کی حقیقت بھی پرفارمنس سے علیحدہ ہوتی ہے۔ اسی لیے سازندے اس پرفارمنس میں جن غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں وہ سمفنی کی حقیقت کو مجروح نہیں کرتیں۔

صوتیاتی تبدیلیاں کو زبان اور صوتیات میں تفریق کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔وہ تبدیلیاں جو عمل تکلم کے دوران آوازوں میں رونما ہوتی ہیں اور زبان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں یہ دکھاوا کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ زبان صوتی تبدیلیوں سے مبرّا کوئی  وجود رکھتی ہے؟ ہاں، ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کیوں کہ صوتی تبدیلیاں صرف لفظ کے مادی جوہر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔اگر وہ صوتی تبدیلیاں زبان کو نظام الاشارات کی حیثیت سے متاثر کرتی بھی ہیں تو ان کی یہ تاثیر الفاظ کی تصریف میں متاخرالوقوع تغیرات کے سبب بلواسطہ ہوتی ہے اور لسانی مظہر کی ماہیت میں صوتیات کا دخل نہیں ہوتا۔    

صوتی تبدیلیوں کی وجوہات کا تعین کرنا دلچسپی کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے آوازوں کا مطالعہ مددگار ہوتا ہے۔ لیکن ان وجوہات کی نوعیت جوہری نہیں ہے۔ ہمیں زبان کے علم میں آوازوں کے تحولات کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات کا اندازہ لگانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

 میں صوتیات کے بارے میں جو کہہ چکا ہوں اس کا اطلاق تکلم کے دیگر تمام اجزاء پر بھی ہوتا ہے۔ متکلم کے عمل تکلم کا مطالعہ ان متعدد شعبوں میں ہونا چاہیے جو اصلا لسانیات کے دائرہ کار سے خارج ہیں اگرچہ زبان سے ان کے تعلق کی بدولت لسانیات میں ان کی ایک اہمیت ہے۔

کلام کا مطالعہ  دو حصوں پر مبنی ہے۔اس کے بنیادی حصے کا معروض زبان ہوتی ہے اور زبان انفرادی کی بجائے خالصتاً سماجی ہے۔ کلام کا یہ بنیادی حصہ مکمل طور پر نفسیاتی ہوتا ہے۔ کلام کا ثانوی حصہ جس کا موضوع کلام کا انفرادی پہلو ہوتا ہے(یعنی تکلم بشمول صوتیات) وہ نفسیاتی و طبعی ہوتا ہے۔

بلا شبہ کلام کے ان دونوں حصوں کے معروض کا آپس میں قریبی تعلق ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اگر تکلم کو قابل فہم بننا ہے اور اثرات مرتب کرنے ہیں تو اس کے لیے زبان کا وجود ضروری ہے۔ لیکن خود زبان کے وجود کے لیے تکلم کا وجود لازمی ہے۔ تاریخی اعتبار سے کلام کا وجود ہمیشہ زبان کے وجود پر مقدم ہوتا ہے۔ اگر ایک متکلم کو فعل تکلم میں پیشگی ربط کا تجربہ نہ ہو تو وہ تصور کو لفظی اشارہ کے ساتھ مربوط کرنے کی زمہ داری کیسے لے سکے گا؟ مزید برآں ہم اپنی مادری زبان دوسروں کو سن کر سیکھتے ہیں اور ان گنت تجربات کے بعد ہی یہ ہمارے ذہن کی تحویل میں آتی ہے۔تکلم ہی بالآخر وہ چیز ہے جو زبان کے ارتقاء کا سبب بنتی ہے۔ دوسروں کو سن کر ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے تاثرات ہماری لسانی عادتوں کو تبدیل کرتے ہیں۔ زبان اور تکلم ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ مقدم الذکر موخر الذکر کا آلہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ تاہم ان کا باہمی انحصار ان کے ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کو مانع نہیں ہے۔

زبان تاثرات کے مجموعے کی شکل میں سماج کے ہر فرد کے ذہن میں محفوظ ہوتی ہے جس طرح کہ ایک ڈکشنری جس کی ایک جیسی نقول افراد میں تقسیم کر دی گئی ہوں۔ زبان کا وجود اگرچہ ہر فرد میں انفرادی سطح پر ہوتا ہے تاہم یہ سب کے لیے یکساں ہوتی ہے۔ زبان اپنے حاملین کے انفرادی ارادے سے متاثر نہیں ہوتی۔زبان کے اسلوب وجود کا اظہار درج ذیل فارمولے سے ہوتا ہے۔

1+1+1+1……= 1             (ہیت اجتماعی)

تکلم ایک ہی سماج میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ یہ لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور درج ذیل دو چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں۔

 ا)               آوازوں کے انفرادی مرکبات جو متکلمین کی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں

ب)           یکساں طور پر ارادی صوتی افعال جو ان مرکبات کو رو بہ عمل لانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

پس ، تکلم اجتماعی آلہ نہیں ہے اس کے اظہارات انفرادی اور لمحاتی ہوتے ہیں۔ تکلم صرف مخصوص افعال کا مجموعہ ہوتا ہے جس طرح درج ذیل فارمولے سے ظاہر ہے۔

‘1+’1+’1+’1……   

مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ زبان اور تکلم کو ایک ہی زاویہ نگاہ سے دیکھنا خام خیالی ہے۔ کلام کو اس کی کلیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ متحدالاجزاء کلیت نہیں ہے۔ ہم نے اس کے جس امتیاز اور ماتحتی کو یہاں تجویز کیا ہے اس سے اس مسئلے کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ کلام کے بارے میں نظریہ سازی کرتے ہوئے ہمیں اس نوعیت کی پہلی تقسیم (زبان اور کلام کے درمیان)سے پالا پڑتا ہے۔ ہمیں دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جن پر بیک وقت اکٹھے نہیں چلا جا سکتا۔

اگر ضروری ہو تو زبان اور کلام میں سے ہر ایک پر لسانیات کی اصطلاح کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور لسانیات تکلم کی بات بھی ہو سکتی ہے۔لیکن حقیقی لسانیات جس کا واحد موضوع زبان ہے لسانیات تکلم کو اس کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے صرف زبان کی لسانیات سے معاملہ رہے گا اور اگر میں نے کسی نقطے کی وضاحت کے لیے ضمنی طور پر تکلم سے متعلقہ مواد کو استعمال کیا بھی تو میں ان دو شعبوں کے درمیان تفریق کرنے والے حدود کو مٹانے کی کبھی کوشش نہیں کروں گا۔

باب پنجم : زبان کے داخلی اور خارجی عناصر

میں نے زبان کی جو تعریف کی ہے وہ اس پیشگی مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر وہ چیز جو زبان کے نظام سے خارج ہے وہ اس کی تعریف میں شامل نہیں ہے یعنی ہر وہ چیز جسے خارجی لسانیات کی حیثیت سے جانا جاتا ہے وہ زبان کی تعریف سے خارج ہے۔ لیکن خارجی لسانیات کا تعلق ان بہت ساری اہم چیزوں سے ہے جن کا تصور ہم کلام کے مطالعے کے آغاز میں کرتے ہیں۔

ان چیزوں میں اولین اور اہم ترین وہ نقاط ہیں جہاں لسانیات کی سرحدیں نسلیات سے مل جاتی ہیں یعنی وہ تمام تعلقات جو ایک زبان کی تاریخ کو ایک نسل یا تہذیب کی تاریخ سے مربوط کر دیتے ہیں۔ زبان اور نسلیات کا باہمی تعامل ان تعلقات کو حد ادراک میں لے آتا ہے جو حقیقی لسانیاتی مظاہر میں ربط پیدا کرتے ہیں۔ ایک قوم کی ثقافت اس کی زبان پر اثرات مرتب کرتی ہے اور دوسری طرف زبان بہت حد تک قوم کی تشکیل کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

دوسری چیز زبان اور سیاسی تاریخ کے درمیان تعلق ہے۔رومیوں کی فتح جیسے عظیم تاریخی واقعات کثیر لسانیاتی حقائق پر بے شمار اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نوآبادیات جو کہ فتح کی ایک صورت ہے زبان کے محاورے کو مختلف ماحول میں منتقل کر کے اس میں تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہے۔ تمام انواع کے حقائق کو بنیادی ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ناروے کا ڈنمارک کے ساتھ سیاسی اتحاد ہوا تو اس نے ڈینش زبان کو اختیار کر لیا اور آج ناروے کے لوگ اس لسانی اثر سے نکلنے کے لئے کوشاں ہیں۔ زبان کی زندگی کے لیے ریاستوں کی اندرونی سیاست کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ سویس کی طرح کی کچھ حکومتیں کثیر اللسانی پالیسی اختیار کرتیں ہیں جبکہ فرانس جیسی کچھ دوسری حکومتیں لسانی وحدت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تہذیب کی ترقی یافتہ شکل تخصیصی زبانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے مثلاً عدالتی زبان اور سائنسی اصطلاحات وغیرہ۔

تیسری چیز زبان اور ہر قسم کے سماجی اداروں مثلاً چرچ اور سکول وغیرہ کے درمیان تعلق ہے۔ ان تمام اداروں کا زبان کی ادبی نشوونما سے قریبی تعلق ہے جو ایک ایسا عمومی مظہر ہے جو سیاسی تاریخ سے کبھی بھی الگ نہیں ہوتا۔ ادب جن حدود کا تعین کرتاہے ادبی زبان ہر پہلو سے ان حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ اس سلسلے میں صرف اتنا ضروری ہے کہ ہم ادبی بیٹھکوں، دربار اور قومی اکادمیوں کے زبان پر اثرات کو ملحوظ رکھیں۔ مزید برآں، ادبی زبان مقامی بولیوں اور اپنے درمیان اختلافات کے حوالے سے اہم سوال سامنے لاتی ہے۔ ایک ماہر لسانیات کو ادبی اور مقامی زبانوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ہر ادبی زبان ثقافت کی پیداوار ہونے کی وجہ سے بالآخر اپنے فطری دائرے یعنی بول چال کی زبان سے الگ ہو جاتی ہے۔

آخری چیز یہ ہے کہ زبانوں کے جغرافیائی پھیلاؤ اور مقامی بولیوں کی تقسیم سے منسوب ہر چیز خارجی لسانیات سے تعلق رکھتی ہے۔ چوں کہ جغرافیائی مظہر زبان کے وجود سے بہت قریبی تعلق رکھتا ہے چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں داخلی اور خارجی لسانیات کے درمیان امتیاز متناقص معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جغرافیائی پھیلاؤ اور مقامی بولیوں کی تقسیم دراصل لسانی محاورے کے داخلی نظام کو متاثر نہیں کرتے۔

کچھ ماہرین کے مطابق مذکورہ بالا مسائل کو زبان کے باقاعدہ مطالعہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نقطہ نظر خاص طور پر تب سے غالب رہا ہے جب سے زندگی کے مادی حقائق، اشیاء اور معروضات کی صورتوں اور جہتوں (Realia) پر بہت زیادہ زور دیا جانے لگا۔ جس طرح ایک درخت کا اندرونی عضویاتی نظام بیرونی قوتوں مثلاً زمین اور آب و ہوا کی وجہ سے تبدیل ہوتا ہے کیا اسی طرح گرامر کا نظام مستقلاً لسانیاتی تبدیلی کی خارجی قوتوں پر منحصر نہیں ہوتا؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم تکنیکی اصطلاحات اور مستعار الفاظ (جو زبان میں اچھی خاصی مقدار میں پائے جاتے ہیں)کی نشوونما کو ملحوظ رکھے بغیر مشکل ہی سے کوئی تسلی بخش وضاحت پیش کر سکتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم زبان کے محاورے کی فطری اور اندرونی نشوونما کو خارجی اور غیر فطری قوتوں کے زیر اثر وجود میں آنے والی اس کی مصنوعی صورتوں مثلاً ادبی زبان سے ممیز کر سکیں؟ عمومی زبانیں ہمیشہ علاقائی بولیوں کے پہلو بہ پہلو نشوونما پاتی ہیں۔

مجھے تسلیم ہے کہ خارجی لسانیاتی مظاہر کا مطالعہ بہت ہی فائدہ مند ہے۔لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ہم اس مطالعہ کے بغیر داخلی لسانیاتی نظام کو نہیں سمجھ سکتے۔ مثال کے طور پر دوسری زبانوں سے الفاظ مستعار لینے کے عمل کو سامنے رکھیے۔ ہم آغاز ہی سے اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ کسی زبان کے زندہ رہنے کے لئے الفاظ مستعار لینا مستقل محرک نہیں ہے۔ بڑی آبادیوں سے الگ تھلگ کچھ علاقوں میں ایسی مقامی بولیاں پائی جاتی ہیں جنہوں نے دوسری زبانوں سے کبھی کوئی ایک لفظ بھی اخذ نہیں کیا۔ کیا ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اس طرح کی مقامی بولیاں معمول کے کلام کی شرائط سے خارج ہیں اور یہ اسی حساب سے غیر معمولی مطالعے کا تقاضا کرتیں ہیں جس قدر یہ اجنبی الفاظ کی آمیزش سے پاک ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب بھی کسی نظام کے تناظر میں ایک مستعار لفظ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو بالذات اس لفظ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، بلکہ کسی بھی دوسرے حقیقی اشارے کی طرح یہ لفظ بھی صرف خود سے وابستہ دوسرے الفاظ کے ساتھ تضاد یا ترادف کی نسبت سے وجود پذیر ہوتا ہے۔عمومی طور پر ان حالات کا علم ناگزیر نہیں ہوتا جو کسی زبان کے ارتقاء میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ژند اور قدیم سلاوی زبانوں کی طرح کچھ مخصوص زبانیں ہیں جن کے اولین بولنے والوں کی شناخت نامعلوم ہے۔لیکِن یہ عدم معلومات ان زبانوں کے داخلی نظام اور ان رونما ہونے والے تغیرات کے مطالعے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ بہرحال ان دو نقطہ ہائے نظر میں تمیز قائم کرنا ضروری ہے اور جس قدر سختی سے ان دونوں کو الگ رکھا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

ان دو نقطہ ہائے نظر میں تمیز کرنے کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک مطالعے کا مختلف منہج تشکیل دیتا ہے۔ خارجی لسانیات نظام کے شکنجے میں جکڑے بغیر اس کی توضیح کے لیے تفصیلات فراہم کر سکتی ہے۔ ہر ماہر لسانیات ایک علاقے سے باہر زبان کے پھیلاؤ سے متعلق معلومات کی درجہ بندی اپنے نقطہ نظر سے کرے گا۔ اگر مقامی بولیوں کے علاوہ ادبی زبان کی تخلیق کرنے والی قوتیں اس کے پیش نظر ہوں تو وہ مخص تعداد شماری کا طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔ اگر وہ ان حقائق کو ایک نظام کے تحت مرتب کرتا ہے تو وہ صرف وضاحت کی خاطر ایسا کرے گا۔ داخلی لسانیات کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ یہاں ہر قسم کی ترتیب کارآمد نہیں ہو سکتی۔ زبان خود ایک نظام ہے جس کی اپنی ایک ترتیب ہے۔ زبان کے نظام کا شطرنج کے کھیل کے ساتھ موازنہ اس نقطے کو واضح کر دیتا ہے۔ شطرنج کے کھیل میں داخلی اور خارجی کے درمیان قدرے آسانی سے تمیز کی جا سکتی ہے۔ یہ بات کہ یہ کھیل ایران سے یورپ کو منتقل ہوا خارجی حقیقت ہے۔ اس کے برخلاف اس کھیل کے نظام اور قواعد سے تعلق رکھنے والی ہر چیز داخلی ہے۔ اگر میں لکڑی کے مہروں کی بجائے ہاتھی دانت کے مہروں کو استعمال کروں تو اس کھیل کے نظام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر میں مہروں کی تعداد میں کمی بیشی کر دوں تو یہ تبدیلی اس کھیل کے قوائد پر گہرا اثر مرتب کرے گی۔ داخلی اور خارجی عناصر میں ہمیشہ فرق کرنا چاہیے۔ اس اصول کا اطلاق کر کے ہر چیز کی نوعیت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ہر چیز جو نظام میں تبدیلی پیدا کر دے وہ داخلی ہے۔

Recommended Posts
Comments
  • ڈاکٹر عمران ازفر
    جواب دیں

    اس مضمون کا انگریزی متن کیسے مل سکتا ہے۔ساسئیر کی کتاب تو 250 سے زیادہ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ یہ ترجمہ نہایت مختصر ہے تو کیا یہ اختصاریہ ہے یا ترجمہ؟
    اگر یہ ترجمہ ہے تو اس کا انگریزی متن یہاں شئیر کر دیں۔۔۔

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search