ھلال پینٹر۔ تحریر: سجاد خالد
لڑکپن میں میرے رومانس میں جنسِ مخالف کی کشش کے ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی شامل تھیں جو مجھے انسانوں کی بھیڑ سے الگ کرتی تھیں۔ اُن میں سے ایک تھی خوشنویسی۔ اچھے لکھے ہوئے لفظ کو دیکھ کر میں گویا پروانہ بن جاتا۔ یہ شعلہ اوائلِ عمر ہی میں میری روح کے رقص کا محور بن گیا تھا۔ اگر میں بڑا ہو رہا تھا تو یہ شعلہ بھی الاؤ بن رہا تھا۔ جیسے بادل ہمارے تصور میں موجود شکلوں کو بناتے مٹاتے رہتے ہیں ایسی ہی شوق کی آگ اپنے الاؤ میں چہرے مصور کرتی رہتی ہے۔
ان میں سے ایک تصویر ھلال پینٹر کی ہے۔ یہ تصویر اُن سے ملاقات سے تقریباً دو برس پہلے بن گئی تھی اور ملاقات کے بعد ہر روز اس کی دلنوازی میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک انسان کا اکیلا دل کتنے حُسن کو اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے آج بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ ہر بار وفور کی کیفیت ہوتی اور اگلی بار اُس سے زیادہ۔ حکمت، خلوص، فن، محنت، عزتِ نفس، قربانی، اعتراف، اعتباراور ایمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اتنی فراوانی سے یکجا ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہ ملتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فٹ پاتھ سے دس بارہ فٹ کی بلندی ہر سبز بیک گراؤنڈ پر دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی قد آدم پینٹنگز کے درمیان نستعلیق لاہوری میں لکھا تھا ’شمع ٹیلرز‘ جسے دیکھ کر دل زور سے دھڑکا تھا۔ ایک سحر تھا کہ سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سودا تھا جو لئے لئے پھرتا تھا۔
شمع ٹیلرز کے سائن بورڈ سے کچھ فاصلے پر رائل بلُو پس منظر پر ’گلزار فوٹو سٹوڈیو‘ تحریر تھا۔ اب تحریر کا لفظ چھوٹا پڑ رہا ہے کہ اس کے دامن میں علامتوں کی وہ کثرت نہیں جو مصوری، تحرک، بانکپن، بے خودی و ہشیاری کے ساتھ خوشبو اور درجہ ہائے حرارت میں سے کسی ایک کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دے۔
سامنے اورنج بیک گراؤنڈ پرنستعلیق ہی میں ’عاصم ٹیلرز‘ لکھا تھا۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم کو معلوم نہیں تھا کہ اس جان کو کتنی بار قربان ہونا ہے۔ غرض میں دیکھتا چلا گیا اور لوحِ قلب پر سب کچھ نقش ہوتا چلا گیا۔ دردِ دل نے اب ایک دُھن کی صورت اختیار کر لی تھی جس پر مسلسل رقص ہو رہا تھا۔
جذب ہے اِک دوام سے لب ریز / درد ہے اور درد کامِل ہے (سجاد)
میں حال میں تھا یا خواب میں ۔۔۔۔۔ یا خواب میرا حال بن گئے تھے ۔۔۔ کچھ یقین نہیں ۔ ہاں اُن دنوں مجھے صرف ایک خواب آتا تھا کہ ھلال پینٹر نے مجھے اپنا شاگرد بنا لیا ہے۔
میں نے ابو سے کہا کہ آپ نے ’ھلال پینٹر‘ کا کام دیکھا ہے تو ابو کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔
’ بیٹا تمہیں معلوم نہیں تم نے کس کا ذکرکیا ہے۔ اُن کا نام حسن شیخ ہے اور وہ اس وقت سترسال کے ہوں گے۔ حسن صاحب انڈین فلم انڈسٹری کے ساتھ تقسیم ہند سے پہلے سے وابستہ تھے۔ فلمی بینرز اور بورڈز پر مصوری کرنے والے چوٹی کے فنکاروں میں اِن کا شمار ہوتا تھا۔ پاکستان میں اس فن کے اساتذہ اُن کا بہت احترام کرتے ہیں۔‘
ابو لیکن میں نے تو اُن کی خطاطی دیکھی ہے، مصوری نہیں۔ وہ کہنے لگے ’شمع ٹیلرز‘ کے ساتھ دلیپ اور سائرہ کی تصویریں بھی تو انہی کے ہاتھ سے بنی ہیں۔
میں نے بے صبری سے کہا ’ابو! کیا وہ مجھے اپنا شاگرد بنا سکتے ہیں؟‘
’مجھے وجہ تو معلوم نہیں ہے لیکن وہ اب کسی کو شاگرد نہیں بناتے‘ ایک کانٹا سا چُبھ گیا۔
میں خاموش رہنے لگا لیکن میرا ہاتھ بے اختیار ھلال پینٹر کی تقلید کرنے لگا ۔۔۔۔ میں بیعت ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ مرید ہو گیا تھا
’شَیخ‘ یا حسن شیخ کو معلوم نہیں تھا کہ حلقہ ارادت میں ایک نالائق بھی شامل ہو گیا ہے۔ محبت اپنی سمت میں یک طرفہ اور وجہِ محبت ملٹی ڈائمینشنل ہوتی ہے۔ نویں جماعت کے کلاس انچارج جناب محمد یعقوب قریشی کے حکم پر میں نے سکول کی دیواروں پر برش سے کچھ اشعار لکھے۔ ایک دو ماہ بعد ایک پینٹر کو ہمارے سکول کا سائن بورڈ دوبارہ تیار کرنے کے لئے بلایا گیا۔ میرے لکھے ہوئے اشعار دیکھے تو مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ قریشی صاحب اس بات پر خوش ہوئے کہ پینٹر اُن کی کلاس کے لڑکے سے ملنا چاہتے ہیں۔
مترنم آواز، خوش لباس اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک امجد پینٹر میرے سامنے کھڑے تھے۔ یہ وہ صاحب تھے جن کے لکھے ہوئے سائن بورڈز کی تعداد ہمارے علاقے میں سب سے زیادہ تھی۔ اِن کے خط میں باریکی، نفاست اور ذوق نمایاں تھا۔ کہنے لگے آپ نے کس سے سیکھا ہے۔ میں نے کہا تھوڑا سا اپنے والد کی نقل کر کے اور کچھ مشہور پینٹروں کی تقلید کر کے۔ھلال پینٹر کا ذکر آیا تو امجد صاحب نے ایک آہ بھری۔ اور تفصیل یہ تھی کہ نہ صرف وہ بلکہ اُن کے اُستاد ’جاوید پینٹر‘ بھی ھلال صاحب کے شاگرد بننے کی خواہش رکھتے تھے لیکن وہ تو کسی کو شاگرد رکھتے ہی نہیں۔
دِل میں چبھا کانٹا گہرا ہو رہا تھا۔
گورنمنٹ ہائی سکول شاد باغ کے گیٹ کے سامنے ’سجاد برادرز‘ کے نام سے ایک دکان تھی جسے میں صبح سات بجے کھول کر بیٹھ جاتا۔ سٹیشنری اور جنرل سٹور کا مختصر سا سامان کچھ پھیلا کر رکھا تھا جیسے کم سروسامان والی نیم شہری بیٹھکوں کے شو کیس میں نئے برتنوں کو چوڑائی کی جانب سے سجایا جاتا تھا۔ سکول کی گھنٹی بجتے ہی میں دکان کا شٹر ڈاؤن کر دیتا اور بھاگ کر سکول میں داخل ہو جاتا۔ دکان کی نمایاں جگہ پر میرے ہاتھ سے ’ساجی آرٹس‘ جلی حروف میں لکھ کر لگایا ہؤا تھا۔ اسے پڑھ کر سکول کے لڑکے اپنی پریکٹیکل کی کاپیاں اور چارٹس بنوا لیتے۔ اور ہمسایہ دکاندار کم سے کم پیسوں میں اپنے اشتہاری بورڈ بھی مجھ سے لکھوا لیتے۔
ابو کے ساتھ مجھے مہینے میں ایک یا دو بار دکان کے سامان کی خریداری کے لئے لاہور کے مشہور کاروباری مراکز یعنی اکبری منڈی، موچی دروازہ، شاہ عالمی اور اُردو بازار جانا پڑتا۔ یہ میری تربیت کا حصہ تھا۔ میں ابو کی سائیکل کے کیرئر پر بیٹھا دکانوں کے سائن بورڈز اور دیواروں پر چسپاں پوسٹرز دیکھتا چلا جاتا۔ ٹریفک کتنی زیادہ تھی، کون سا موڑ خطرناک تھا، کہاں کیچڑ یا کھڈا تھا یا کہیں لڑائی جھگڑا ہو رہا تھا، مجھے بالکل خبر نہ ہوتی۔ اِن بورڈوں کی مدد سے میں شمالی لاہور سے وسطی لاہور تک کے پینٹرز سے غائبانہ متعارف ہو چکا تھا۔ جو نام مجھے آج بھی یاد ہیں وہ تھے، امجد، جاوید، رازی، ھلالِ نو، عالم، رحمٰن، حیات بیگ، راکا، انور گِل، مبارک، محمد حُسین، سردار، شالیمار، فیض سنز اور ھلال پینٹر۔
میں اُن دکانوں کو یاد رکھتا جن پر بڑا بڑا ’پینٹرز‘ لکھا ہوتا۔ یہ میرے نزدیک چھوٹے بڑے آستانے تھے اور راستے کھلی ہوادار آرٹ گیلریاں تھیں جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر حیرت کدے بھی تھے۔ میں ہر بار راستے میں ان سائن بورڈوں سے ملتا تھا اور وہ بھی میرا انتظار کرتے تھے۔ ذرا وقفہ زیادہ ہؤا تو سائن بورڈ کا رنگ پھیکا پڑ جاتا تھا اور وہ لمحہ تو جان لیوا ہوتا جب کوئی بورڈ اپنے مقام سے ہٹ چکا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو دھیان سے دیکھنا تھا اُسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو
کبھی کسی بورڈ کو رُک کر دیکھنے کو جی چاہتا تھا لیکن میں جانتا تھا اگر ابو نے سائیکل روک دی تو دوبارہ زور لگانا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاص طور پہ گھاٹیوں پر۔سائیکل چلتی رہتی اور میں واپسی پر کچھ دیر پہلے ہی اس مقام پر نظریں گاڑ دیتا جہاں وہ شاہکار تھا۔
راستے میں آنے والے آستانوں میں سے ایک پر سے گزرتے ہوئے میری سانسیں خود کو مرتب کرنے کی کوشش میں مزید بے ترتیب ہو جاتیں۔ آستانے کا دروازہ کھلا ہوتا اور اندر نیم تاریکی میں مجھے کوئی بھی دکھائی نہ دیتا۔ دُکان پر دو چشمی ’ھ‘ کے ساتھ انتہائی جلی خطِ ثُلث میں ’ھلال‘ لکھا تھا اور لام کی معنوی گود میں ’پینٹرز‘ کا لفظ خطِ نستعلیق میں سجایا گیا تھا۔
پہلی تاریخوں کا چاند آج بھی مجھے ھلال نہیں لگتا اور اگر کبھی یاد آ جائے کہ اسے ھلال کہتے ہیں تو گہری نیلی چادر کی جگہ ایک سائن بورڈ پھیل جاتا ہے جو آسمان کا رنگ سُرخ کر دیتا ہے اور اپنے چاند تارے بڑے اہتمام سے جما دیتا ہے۔
بے ذوق اگرچہ نہیں فطرت / جو اُس سے نہ ہو سکا، وہ تو کر(اقبال رح)
اس بورڈ کو دیکھنے کے لئے خصوصی طور پر جانے والوں کی کتنی ہی روایتیں بعد میں جمع ہوئیں۔ اِن راویوں میں میرے اساتذہ میں سے حضرت صوفی خورشید عالم خورشید رقم رحمہ اللہ، صوفی عبدالرشید لطیف رقم رحمہ اللہ، حافظ یوسف سدیدی رحمہ اللہ، اکرام الحق مرحوم رحمہ اللہ، اور جانشینِ سدیدی خالد جاوید یوسفی بھی شامل ہیں۔
جب ابو کو کچھ یقین ہو گیا کہ میں دکان کے لئے خریداری بھی کر سکتا ہوں اور سائیکل بھی ٹھیک سے چلا لیتا ہوں تو مجھے سامان لانے کو کہا.ایک تو دور تک اکیلے سائیکل دوڑانے کا موقع اور وہ بھی رہِ شہرِ آرزو پر.
تو اس بار جاتے ہوئے سائیکل تیز چل رہی تھی اور واپسی پر سامان کے بوجھ کے باوجود اُڑ رہی تھی. مجھے رک کر تاریک آستانے میں اپنے خواب کی سچائی کو پرکھنا تھا.
چوک ناخدا سے وسن پورہ میں داخل ہوں تو سو گز کے فاصلے پر ایک چوراہا آ جاتا تھا۔ مین روڈ کو جو گلی کراس کر رہی تھی وہ بھی اتنی ہی کشادہ تھی۔ بائیں کونے پر تقریباً چار فُٹ کا دروازہ تھا جو متلاشی آنکھوں کے لئے طلسمی دُنیا کا فریم تھا۔
فٹ پاتھ کے نیچے ایک چھوٹے نالے جیسی بدرَو تھی جس پر چھت ڈال کر چلنے والوں کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔ گلی میں مڑتے ہی یہ کھلی نالی کی شکل اختیار کر لیتی۔ نالی پر دروازے سے دو قدم دور لکڑی کا ایک پھٹّا عارضی طور پر جمایا گیا تھا۔ پھٹے کے اوپر چار فٹ کے فاصلے پر ایک ایک اینٹ دھری تھی۔ ان اینٹوں پر ایک بورڈ پڑا تھا جس پر ’انجمن اصلاحِ معاشرہ‘ کے لفظ چاک سے لکھے گئے تھے۔
انیمل رنگ کے نشانوں اور سلوٹوں سے بھرے کُرتے والے ایک باریش بزرگ جن کی چاندی سی گردن پر شبنم جیسا پسینہ دمک رہا تھا۔ ایک جانب سے براؤن عینک کا فریم دِکھ رہا تھا۔ مختصر سے لکڑی کے سٹُول پر بیٹھے ہوئے بھی وہ بلند قامت لگ رہے تھے۔ سٹول کے دائیں جانب زمین پر رنگ بھرنے والے برش رنگ کے ایک پرانے کوارٹر میں ترتیب سے پڑے تھے۔
میں ملنے سے زیاد ہ انہیں کام کرتے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ حرف کیسے بنتے ہیں جو ایک حُسن پرست نوجوان کو پری پیکروں سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ دستِ ہنر وہ لفظ کیسے تراشتا ہے جو ہر بُتِ کافر ادا سے بیگانہ کر دیں۔ جمال کا خالق اپنے وجود میں حُسن سے آگے کی کسی دنیا کا باسی ہوتا ہے۔ آج دُکانوں کی پیشانیاں انگلی پکڑ کر مجھے خدایانِ جمال کی ایک جھلک تک لے آئی ہیں۔ ان لمحات میں مجھے اپنے موجود ہونے کا احساس ہی نہیں رہا۔ منظر کہیں آگے بڑھ چکا تھا اور میں چاندی سی گردن پر پسینے کے موتی سے خیرہ آنکھوں میں کچھ خواب زندہ کر چکا تھا۔ ایسے میں خدائے جمال کی جانب سے ایک آواز آئی
اوئے ! کیا دیکھ رہے ہو؟
آپ ہی فرمائیں ۔ ۔ ۔ کوئی کچھ بول سکتا تھا ۔ ۔ ۔ میں بس ڈر سا گیا تھا اور حیرت سے ایک نظر اُن پر پڑ گئی۔۔۔ سُرخ و سپید کشمیری چہرہ، جس پر آراستہ سفید بُراق لمبی داڑھی۔۔۔ منڈھی ہوئی مونچھوں کے نیچے دو گداز ہونٹ ۔۔۔ کشادہ دمکتی پیشانی۔۔۔ باوقار متناسب سی ناک پر دھرے میلے شیشوں، رنگ کے دھبوں سے سجے فریم سے جھانکتی دو دلنواز اور خود شناس سبز آنکھیں ۔۔۔ میں نے محبوب، بادشاہ اور جنت سب ایک ہی نظر میں دیکھ لیے۔ آواز آئی
بھاگ جاؤ۔۔۔
اور بے اختیار میرے ہاتھ دُکان کے سامان سے لدی اپنے ابو کی سائیکل کے ہینڈل پر جم گئے ۔۔۔۔۔ کچھ یاد نہیں کہ ایسے میں سلام کر سکا تھا یا نہیں لیکن تعمیلِ ارشاد میں اپنی دُکان کی طرف پیڈل مار رہا تھا۔ سائیکل کی گدی پر کوئی لڑکا نہیں، ایک قطرہِ خونِ جگر ٹِکا ہؤا تھا جسے ایک سِل کو صرف اپنے لئے دل بنانے کی آرزو تھی۔
لطف یہ ہے کہ بھاگ جاؤ کے لفظ نے میرے اندر اس تعلق کو اب یکطرفہ نہیں رہنے دیا تھا۔ یہ احساس کہ وہ مجھے بلکہ میرے شوق کو دیکھ چکے ہیں۔ ان دو لفظوں میں اور اس لہجے میں نفرت، غرور، بے اعتنائی یا لا تعلقی کی بجائے کرب، رحم، رشتہ اور محبت جیسی کیفیتیں نہ جھلک رہی ہوتیں تو میں خوفزدہ، اور مایوس ہو جاتا لیکن ایسا نہیں تھا۔ استاد کو پھر سے دیکھنے کی تمنا زور پکڑ رہی تھی۔
آرزو اول تو پیدا ہی نہیں ہوتی کہیں / اور اگر پیدا بھی ہو جائے تو رہ جاتی ہے خام
میں خام آرزو کو انجانے میں دل کی بھٹی میں سینک سینک پختہ کیے جا رہا تھا۔ یہ تجزیے تو اس زمانے میں ممکن نہ تھے بس ایک شعلے سے پروانے کے تعلق جیسی کیفیت تھی یا پھر کچھ بڑھ کر۔
یہ بات بھی آپ سے آپ طے ہو گئی کہ ان کو چھپ کر دیکھنا ہے مگر پریشان نہیں کرنا۔ کم عمری کی معصومیت کی خیر ہو کہ یہ دانشوروں کی دلیلوں پر بھاری اور سیانوں کی معقولیت سے قیمتی ہوتی ہے۔
خواب کے کسی خانے میں کبھی نہ مٹنے والا پہلا رنگ بھرا لیکن کوئی تصویر کبھی مکمل بھی ہوتی ہے، مجھے خبر نہ تھی اور آج تک خبر نہیں۔ شکر بس اتنا ہے کہ خواب معقول نہیں ہوتے، خواب تلخ حقائق کو خاطر میں نہیں لاتے اور اگر دیکھنے والے کو دن کی روشنی میں اپنی گرفت میں لے لیں تو بحرِ ظلمات کے پار اتار آتے ہیں۔
اب میری سائیکل اور میں اس وقت کی تلاش میں رہتے جب وہاں کسی نہ کسی بہانے پہنچا جا سکتا تھا۔ یہ علاقہ ھلال پینٹر کی سلطنت تھی جہاں جا بہ جا ان کے فن پارے آویزاں تھے۔ نظر ٹھہرتی بھی نہیں تھی اور ہٹتی بھی نہیں تھی۔ وسن پورہ کے ڈاکخانے کے بعد ایک چھوٹے سے بورڈ پر ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھا تھا۔ نستعلیق کی کس کس ادا کی اسیری ان چار لفظوں نے ممکن بنا دی تھی، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مکمل تصور کا بھی امکان نہیں۔ یہ تو اب آ کر احساس ہؤا کہ فنپارہ اپنے خالق کا ایک عکس ہوتا ہے۔ جب ایک عکس اتنا گھائل کر سکتا ہے تو وہ خود کیا ہو سکتا ہے، کون بتا سکتا ہے۔
میں کچھ دور سائیکل لاک کر کے آستانے کے قریب سے راہگیر کے انداز سے بار بار گزرتا تاکہ اپنے لیے محفوظ جگہ منتخب کر سکوں۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ شوق برہنہ ہوتا ہے سو دوسری بار بھی دھر لیا گیا۔
اوئے۔۔۔۔ بھاگ جا۔ چل ۔۔۔ دوڑ جا
یہ سلسلہ چل نکلا اور ایک دن۔۔۔۔ اُس دن۔۔۔ مجھے نسبتاً نرم لہجے میں پاس بلا لیا۔ چشمے نے پیاسے سے پوچھا۔۔۔ تمہارا نام کیا ہے۔ نام عرض کیا۔ پھر پوچھاوالد کیا کرتے ہیں۔ بتایا کہ ہماری سٹیشنری کی دکان ہے۔ کس کلاس میں پڑھتے ہو، کہا نویں میں ہوں۔ مضمون کون سے رکھے ہیں؟ بتایا۔۔۔ سائنساچھے گھر کے ہو ۔۔ اپنے ابو کو میرے پاس بھیجنا۔اور اب جاؤ۔ جب تک وہ نہ آئیں، یہاں نہ آنا
آج بہت دن بعد ملے ہیں / گہری پیاس اور پانی
لیکن یہ کیسی پیاس ہے جو پیالے کے کنارے پر لب ٹھہرنے نہیں دیتی ، ایک حضوری لاکھوں حاضریوں کی تمہید، ایک دیدار ہل من مزید کا سلسلہ، ایک آواز جس پر پہلی ہر لذتِ گوش فدا۔۔۔عشق میں رہرو، راستہ ، سواری اور منزل کون یکجا کر دیتا ہے۔ اس نے چاہنے کا کیسا تجربہ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔ (جاری)