ایس کلس کی مثلثیات کا ایک مختصر تعارفی خاکہ (تحریر: عاصم بخشی)
اگر کلاسیکی یونانی ادب کو ایک بوڑھے درخت کے طور پر تصور کیا جائے تو ہسیود اور ہومر کی تخلیقات کی حیثیت اس درخت کی پھیلی ہوئی جڑ اور تنے کی سی ہے۔ اسی تنے میں کچھ کھوئی ہوئی رزمیہ نظمیں بھی شامل کر لیجیے جن کے اب صرف عنوان ہی معلوم ہیں۔ اس تناور درخت کی بنیادی اٹھان تقریبا چھ سو پچاس قبل مسیح تک مکمل ہو جاتی ہے۔ تنے سے منسلک بہت سی شاخوں میں سے تین بنیادی شاخیں ایس کلس، سوفوکلیز اور یوریپیدس ہیں۔ یہ تمام شاخیں ہومری کرداروں ہی سے جڑی کہانیوں کو مزید کھولتی اور پھیلاتی ہیں لہٰذا نامیاتی اعتبار سے جڑ ہی سے پھوٹتی ہیں۔ شاخوں کے اگنے کا یہ سفر کم وبیش اگلے دوسو سال میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان گنت چھوٹی چھوٹی شاخیں اور پتے پھوٹتے ہیں جو اساطیری نظموں، گیتوں اور مختصر ناٹکوں پر مشتمل ہیں۔
اس تناظر میں ایس کلس کی مثلثیات ایک ایسی سہ طرفی شاخ ہے جس کی اپنے تنے سے جُڑت پانچ صد قبل مسیح کے کسی عام یونانی کے لیے کوئی دریافت کا مسئلہ نہیں۔ مثلثیات میں پہلے ناٹک کا مرکزی کردار آگامامنون ہومر کی ایلیاد کا ایک اہم ترین اساطیری ہیرو ہے۔ یہ آگامامنون ہی ہے جو ٹرائے پر چڑھائی کے لیے یونانی افواج کو اکٹھا کرتا ہے۔ ایس کلس شاید اسی لیے آگامامنون سے اپنی مثلثیات کا آغاز کرتا ہے کیوں کہ وہ عوامی تخیل میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ تخیل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں بہرحال اس حد تک قیاس آرائی ممکن ہے ایس کلس سے قبل ڈھائی ہزار سال کی تاریخ میں آگامامنون کا کردار یونانی تخیل میں کچھ خاص ہردلعزیز کردار نہیں۔ سادہ سی بات تو یہی ہے کہ ٹروجان کی لڑائی میں وہ ایک ظالم بادشاہ ہے جو محاصرے اور لوٹ مار میں ہزاروں جانیں گنواتا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ ایلیاد کے اختتام تک ایکلیز کا کردار ذہنوں پر حاوی ہو جاتا ہے جس کی وجوہات معقول ہیں۔ ایکلیز آگامامنون کی بھاوج کی بازیابی کی خاطر شروع ہونے والی جنگ میں بے جگری سے لڑتا ہے۔ جب آگامامنون ناحق اس کی محبوبہ کو اپنے حرم میں داخل کرتا ہے تو ایکلیز کی ناراضگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوج میں کتنا مقبول ہے۔ ایلیاد اختتام کو پہنچتی ہے تو ہیکٹر کو ختم کرتے ہی ایکلیز اور ہیکٹر دونوں یونانی تخیل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔
ان کے برعکس آگامامنون ایس کلس دور کے جمہوری ایتھنز میں یونانی ادب کا سب سے مشہور ظالم بادشاہ ہے۔ یونانی ہونے اور ٹروجان لڑائی جیتنے کے باوجود وہ شہری جمہوریت کے برعکس استبدادی رویے کی علامت ہے۔ ہولناکی کے اس دور کی سب سے بڑی مثال شاید اودیسی کا اختتامیہ ہے جو غیرت کے نام پرقتل و غارت اور خون خرابے سے بھرپور ہے۔ یہ ہومر کی وہ قدیم دنیا ہے جہاں غیرت مند جنگجو جتھے لے کر ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے اور نتیجے میں پیدا ہونے والے غم و الم کے گیتوں میں امر ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیج پر تو اچھا لگتا ہے لیکن ایس کلس کے دور کے یونانی ہر گز اس دور کو جینے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔
لہذٰاایس کلس کے دور تک یونانی تخیل میں ایک نئے سوال کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ نیا سوال اس شک پر مبنی ہے کی کیا تباہی او ربربادی کا المیہ ہی انسانی تقدیر کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی ہومر ی دور کے المیے کی نچلی پرتوں میں مزید بامعنی سلسلے رکھتی ہو جو دریافت کیے جانے کے متقاضی ہوں؟یہ اور اس قسم کے مزید سوالات آژی (ایجین) تہذیب کی تاریخ سے جنم لینے کے باوجود ایک عمومی اہمیت کے حامل بھی ہیں کیوں کہ بالعموم انسانی نفسیات اور جذبوں کی پیچیدگی سے الگ نہیں۔ اس سلسلے میں ایس کلس کی مثلثیات جس پرت کو کھولتی ہیں وہ انتقام سے متعلق ہے۔ انتقام سے جڑی نفسیاتی ماہیت کیا ہے؟ واقعۂ انتقام سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ کیا انسانی تہذیب کو انتقام در انتقام کے ایک لامتناہی سلسلے سے نکالا جا سکتا ہے ؟اگر نہیں تو کیوں نہیں اور اگر ہاں تو کیسے؟ جو حقیقت ایس کلس کی مثلثیات کو بین الاقوامی ادب میں لافانی مقام یعنی کلاسیک کا درجہ عطا کرتی ہے وہ یہ حیرت ہے کہ ظلم و جبر، ذاتی عناد اور جنگ و جدل کے یہ سلسلے ہماری آج کی دنیا میں بھی اپنی بدلی ہوئی شکلوں کے ساتھ بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
یہ وہ مختصر سا خاکہ ہے جو آپ پر ایس کلس کی مثلثیات کا باب کھولنے کے لیے ناگزیر ہے۔ دروازہ کھلنے کے بعد دوسرا چیلنج تفہیم و ترجمانی کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اجنبی تہذیبوں میں جنم لینے والے کلاسیکی حرف و سخن کو اگر مقامی لے میں ڈھالا جائے تو مترجم کی حیثیت سے ترجیح و انتخاب کے اصول کیا ہوں؟ ترجمے سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ راقم نے اس باب میں قبلہ و بزرگوار محمد سلیم الرحمٰن کا مقلدِ محض ہوتے ہوئے ایس کلسی مثلثیات کی شاخ کو کسی قدر تخلیقی انداز میں چھونے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ بطور طالبِ علم اس کاوش کی اٹھان اتنی مستند تو نہیں ہو سکتی جتنی ہمیں ’ جہاں گرد کی واپسی‘ میں نظر آتی ہے۔ چونکہ اردو میں یونانی ادب کا ترجمہ خود انگریزی ترجمے کا محتاج ہے اس لیے ترجیح و انتخاب کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے اور اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ تحقیق کا ایک مستقل باب ہے۔ اس سلسلے میں تمام نظری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ایک اصول یعنی قاری کے لطف کا خیال رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پنگوئن کلاسیک سے شائع ہونے والے رابرٹ فیگلس اور ٹیڈ ہیوز کے جدید ترجمے سے مدد لی گئی ہے۔ دونوں تراجم بہت الگ الگ مزاج رکھتے ہیں لہٰذا کوشش کی گئی ہے اردو میں دونوں کے فضائل منتقل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں ٹیڈ ہیوز کے قریب ترین رہتے ہوئے رابرٹ فیگلس کی مدد سے جزئیات میں کچھ ردّوبدل کیا گیا ہے۔ یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے میں ہندی اساطیر کا ہلکا پھلکا رنگ دکھایا جا سکے گو یہ ایک ضمنی ترجیح ہے جس کا اطلاق صرف اسی حد تک کیا گیا ہے کہ اردو میں منتقل ہونے والی فضا میں ایک قدیمی رنگ نمایا ں ہو سکے۔
اب اگر منصوبہ بندی اور مثلثیات کے ان تینوں ناٹکوں کی داخلی ساخت کی جانب آئیے تو کچھ نکات یقیناً مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن ان نکات کی حیثیت شرح و بسط اور قطب نمائی کی ہے جو شاید بہت سے مشاق قارئین کے لیے غیرضروری ہو۔ ایسے قارئین مندرجہ ذیل سطور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بے جھجک ناٹک کی سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ہماری کوشش صرف اتنی ہے کہ ناٹک کا مکمل ڈھانچہ اور اس کے اجزا میں ابہام کو کھولنے کی خاطر سیاق وسباق فراہم کیا جا سکے۔
پہلے منظر میں دکھائی دینے والا دربان آرگوس میں آگامامنون کی ٹرائے سے واپسی کا منتظر ہے۔ اگر آگامامنون پانچ سو میل کا یہ فاصلہ طے نہ کر سکا تو ایک اور سرما ٹرائے کے گردونواح میں گزرے گا۔ اب تک آرگوس والوں کو خبر نہیں کہ یونانی حملہ آور ٹروجنی افواج کو شکست دے چکے ہیں۔دربان کو نظر آتی روشنی یہ اعلان کرتی ہے کہ ٹرائے کو مات ہوئی اور آگامامنون واپس آ رہا ہے۔اسی اثناء میں آرگوس کے بڑے بوڑھوں کو بھی یہ خبر مل جاتی ہے۔ ناٹک میں بوڑھوں کی یہ گائک منڈلی وہ دن یاد کرتی ہے جب آگامامنون اور اس کا بھائی منیلوس ٹرائے کے لیے نکلے تھے۔ بوڑھوں کو اس حقیقت کا یقین ہے کہ منیلوس کی بیوی ہیلن کو لے اڑنے والا ٹروجنی شاہزادہ پیرس یہ بات بھول گیا تھا کہ جب ناانصافی ہوتی ہے تو تقدیر کی بے آواز لاٹھی ضرور حرکت میں آتی ہے۔
ہیلن کی بہن کلیتم نسترا آگامامنون سے بیاہی تو دو سورما بھائیوں کی دو بہنوں سے شادی ایک ایسا بندھن تھا جو سیاسی تحفظ کی ضمانت تھا۔ پیرس کے ہیلن کو لے بھاگنے سے اس بندھن میں دراڑ پڑ گئی۔ بوڑھی گائک منڈلی کلیتم نسترا کو استھانوں پر شمعیں روشن کرتے دیکھ کر تذبذب کا شکار ہے۔ وہ ایسا کیا جانتی ہے جو گائک منڈلی کو نہیں معلوم؟ یہ بوڑھے اتنا توبخوبی جانتے ہیں کہ کلیتم نسترا اور آگامامنون کا رشتہ اب پہلے جیسا نہیں۔ دس سال میں وہ ایک آزاد اور مضبوط عورت بن چکی ہے۔ گائک منڈلی دس سال قبل کہ اس سفاک واقعے سے بھی واقف ہے جو یونانی افواج کے کوچ کے وقت پیش آیا۔ منڈلی واقف ہے کہ کلیتم نسترا کو آگامامنون کی یہ سفاکی کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ سفاک واقعہ کیا ہے؟ اس واقعے کی تفصیلات آپ خود ہی گائک منڈلی کی زبانی سنیے۔
ٹرائے کی خبر لانے والے شعلے کی مکمل روداد سننے کے بعد گائک منڈلی خود کلامی میں مصروف ہو جاتی ہے اور اس گھرانے کا قصۂ غم سناتی ہے کس طرح ہیلن منیلوس کو دغا دے کر پیرس کے ساتھ فرار ہوئی۔ لیکن یہ قصہ ٔ غم اپنے ساتھ بے دریغ قتل و غارت اور جنگ و جدل کا ایک طوفان لایا۔ آتریوس کے گھرانے نے اپنے ذاتی عناد اور انتقام کی آگ میں آرگوس کے ہر گھر کو دس سالہ طویل جنگ میں جھونک دیا۔ اور اب وہ ہرکارہ آن پہنچتا ہے جس کے پاس ٹرائے کے حالات کی مکمل خبر ہے۔ وہ بتلاتا ہے کہ یونانی سپاہیوں نے کس قدر مشکلات سے یہ دس سال کا محاصرہ گزارا۔ کلیتم نسترا محل سے باہر نکلتی ہے لیکن ہرکارے کو کچھ خاص خاطر میں نہیں لاتی۔ وہ اپنے شوہر کے واپس آنے پر خوش تو ہے لیکن اس خوشی میں کچھ ملا جلا ابہام بھی ہے۔ وہ واپس اندر جاتی ہے تو گائک منڈلی اس ابہام پر کچھ قیاس آرائی کرتی ہے۔ لیکن آخرکار منڈلی منیلوس کی تقدیر اور ہیلن کے بارے میں غوروفکر کرتی ہے۔ کیسے تشدد نسل در نسل تشدد کو جنم دیتا ہے؟ کیسے ظالم و جابر جنگجوؤں کے بیچ عام لوگ زندگی گزارتے ہیں؟ منڈلی کے اسی جاری گیت کے بیچ آگامامنون زروجواہر پر مشتمل مالِ غنیمت کے ساتھ شہر میں داخل ہوتا ہے۔ اس مالِ غنیمت میں سب سے اہم ہیرا کوئی سونے کا بت نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی دوشیزہ ہے۔ یہ ایک شہزادی ہے جس کا نام کاساندرا ہے۔
کلیتم نسترا اپنے شوہر کے خیرمقدم کے لیے محل سے باہر نکلتی اور اس کی تعریف اور غیرموجودگی میں اپنے احوال کے بارے ایک لمبی تقریر کرتی ہے۔ آگامامنون کا جواب ہے کہ ان سرخ قالینوں پر چلنے کا حق صرف دیوتاؤں کا ہے۔سچی تعریف کو قصیدوں کی حاجت نہیں۔ قالینوں پر چلنے کے معاملے پر آگامامنون اور کلیتم نسترا کی طویل بحث ہوتی ہے لیکن آخرکار وہ اس خیرمقدم پر راضی ہو جاتا ہے۔ گائک منڈلی اب الٰہیاتی علل و اثر اور تقدیری معاملات پر کسی قدر طویل کلام کرتی ہے۔ ایسے میں بڑے بوڑھے کسی انجانے خطرے کے پیشِ نظر کچھ پریشان نظر آتے ہیں۔ کلیتم نسترا جو اب تک اندر جا چکی ہے ایک بار پھر باہر نکل کر کاساندرا کو اندر آنے کے لیے کہتی ہے۔ کاساندرا کے لب سلے ہوئے ہیں۔ گائک منڈلی اسے بات کرنے کے لیے کہتی ہے لیکن وہاں بدستورایک سکوت ہے۔ کلیتم نسترا ناراضگی سے واپس اندر لوٹ جاتی ہے۔
اب کاساندر ا اپنی جوتش کے مناظر کا ایک طویل سلسلہ بتانے لگتی ہے جس میں ایک زنانہ ہیولا ایک مردانہ ہیولے کے لیے جال بچھا رہا ہے۔ گائک منڈلی حیران پریشان ہے۔ وہ اس کشف والہام کے سرچشمے کی بابت سوال اٹھاتے ہیں تو کاساندرا انہیں بتاتی ہے کہ یہ اس کے لیے اپالو کا تحفہ ہے۔قصہ مختصر ایک خاطر خواہ مکالمے کے بعد ٹروجنی شہزادی محل کے اندر داخل ہوتی ہے۔محل کے اندر سے شوروغوغا اٹھتا ہے، گائک منڈلی ٹولیوں میں بٹ جاتی ہے، کچھ کی رائے میں محافظوں کو اندر جانا چاہیے، دوسروں کے خیال میں شاید آرگوس میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ اب کلیتم نسترا دکھائی دیتی ہے جو اندر ہونے والے واقعے پر طویل کلام کرتی ہے۔ اندر سے ایک نیا کردار آئگستوس نمودار ہوتا ہے۔ آئگستوس اور آگامامنون کے باپ بھائی تھے۔ آگامامنون کے باپ نے آئگستوس کے چند بھائی بہنوں کو قتل کیا اور اس کے باپ کو دھوکے سے کھلا دیا۔ آئگستوس بڑا ہوا تو اس نے آگامامنون کے باپ کو مار کر اپنا بدلہ لیا۔ آگامامنون کی غیرموجودگی میں اس نے کلیتم نسترا سے پینگیں بڑھائیں جو اپنی بیٹی کے قتل ہونے پر شوہر سے ناراض تھی۔ اب دونوں نے ملی بھگت سے آگامامنون کا قتل کیا۔
آئگستوس مثلثیات کا ایک اہم کردار ہے جو اگلے ناٹک میں بھی ظاہر ہو گا۔ ناٹک کے انجام پر گائک منڈلی یعنی آرگوس کے بڑے بوڑھے آئگستوس کے خلاف بپھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس قتل کا جواب دہ ہے۔ تلواریں نیام سے باہر آ جاتی ہیں لیکن کلیتم نسترا بیچ بچاؤ کرا دیتی ہے۔
ایس کلس اپنی مثلثیات ہی کی طرح یونانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس کی شہرت اپنے المیہ ڈراموں سے کہیں زیادہ یونان و فارس کی جنگوں میں دادِ شجاعت دینے کی وجہ سے ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ وہ اور اس کے ایتھنز کے ساتھی شہری بخوبی واقف تھے کہ تاریخ کا یہ باب ایک جابر بادشاہ کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔ آگامامنون سٹیج پر دکھایا گیا تو ایس کلس تقریباً پینسٹھ برس کا تھا جن میں سے پچاس سال ایتھنز کی جمہوریت میں گزرے تھے۔ ہم ناٹک کے اختتام پر خود سے پوچھنے پر مجبور ہو جاتےہیں کہ کیا اورستیس کی مثلثیات انتقام پر مبنی دوسری کہانیوں، مثلاً ہیملٹ کی طرح بدلے کی خاطر کیے گئے ایک قتل پر ختم ہو نے والی داستان ہے؟ یا انسانوں کی تقدیر خود ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے افعال سے سیکھتے ہوئے اپنی زندگی کی تازہ راہیں متعین کر سکتے ہیں؟ جواب کے لیے ہمیں آگامامنون کے بیٹے اورستیس کی گھر واپسی کا انتظار کرنا ہو گا۔
What a beautiful piece of writing, especially on a subject rarely covered in Urdu
Professor Dr Bakhshi is a treat to read, a true polymath, a renaissance man, and a remarkably original thinker!