سلیم احمد-خطوط کے آئینے میں – انور سدید

 In یاد نگاری

سلیم احمد کی سماجی زندگی اور ادبی زندگی میں کوئی نمایاں تضاد نہیں تھا۔اُن کے بیشتر لمحاتِ زندگی مطالعہ اور مشاہدہ میں صرف ہوتے تھے۔علم اُن کے نزدیک عرفان کا وسیلہ تھا۔وہ عرفان کی تلاش میں ہمہ وقت محو رہنے اور کبھی نہ نکلنے والے ادیب تھے۔اہم بات یہ کہ انہوں نے ادبی مسائل پر اظہارِ راۓ میں اپنی ایک مخصوص بوطیقا مرتب کررکھی تھی ۔اوروہ اس بوطیقا کے اصولوں پر بڑی سختی سے عمل کرتے،ستائشِ باہمی ایک قابلِ مذمت رجحان ہےلیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس رجحان کی افزائش ہمارے اس عہد میں سب سے زیادہ ہوئی ہےاور آج کا ادیب جتنا بڑا ہے،ستائش طلبی میں اتنا ہی حریص ہےاور وہ منافقت کے اس جھوٹ کو قبول کرنے پر بھی آمادہ ہے جواس سے کمتر درجے کے ادیب کتابوں،تعارفی تقریبوں اور “ایک شام” کی محفلوں میں برملا مصنّف کے سامنے بولتے ہیں۔ سلیم احمد اس قسم کی بے معنی، مبالغہ آمیز ،غیر مدلّل اور بے جواز مداحی سے گریز کرتے تھے۔وہ دوستوں کو ایک دوسرے کی خامیاں عیاں کرنے کی دعوت دیتےاور اگر اُن کے خلاف کوئی دوست قلم اُٹھاتا یا ترکی بہ ترکی جواب دیتا تو خفا نہ ہوتے۔نظیر صدیقی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :

“قابلِ تعریف باتوں کے سلسلے میں ہمارے درمیان ایک بن لکھا معاہدہ ہونا چاہیے کہ ان کے وجود کو تسلیم شدہ سمجھا جاۓ ان باتوں کا ذکر ہم کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کریں گے اوروہ بھی حاشیے میں۔اصل بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو بے دھڑک ایک دوسرے پر ظاہر کریں۔”

سلیم احمد کو اس بات کا احساس بھی تھاکہ راۓ کا آزادانہ اظہار خوفِ فساد خلق کے علاوہ دوستوں کا ناطہ توڑنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔چنانچہ وہ دوسروں کو بھی دعوت دیتے کہ وہ اُن کا منہ توڑ جواب دیں اور اُن کے اعتراضات کو من وعن تسلیم نہ کریں۔لکھتے ہیں کہ:

“یہ گفتگو میرے اور آپ کے درمیان ہے ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں اور تبدیلیٔ راۓ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔آپ میرے اعتراض کی سختی سے تردید کیجیےتو مجھے خوشی ہو گی،میں بھی انشاءاللہ سخت جواب دوں گا۔اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کواپنے خیالات لکھتے رہیں گے۔باہمی خط و کتابت کا مقصد اگر یہ نہیں ہے تو پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں،دو لکھنے والوں کو جب وہ ایک دوسرے کو سچ مچ کا لکھنے والا ہی سمجھتے ہوں تو اس سے کم پر راضی نہ ہونا چاہیے۔خدُا کرے  آپ برُا مان جائیں اور مجھے کوئی ایساخط لکھ دیں جو آپ کے مضامین کی طرح متوازن نہ ہو۔پھر ہم ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک آ جائیں گے!”

بالفاظِ دیگر اختلافِ راۓ اور خامیوں کی نشاندہی سلیم احمد کے نزدیک ایک صحت مند عمل ہے۔وہ اس عمل کو خود بھی آزماتے تھے اور دوسروں کو استعمال میں لانے کی کھلی اجازت بھی دیتے تھے۔اپنی بات کہنے کے لیے وہ مکمل آزادی کے طلبگار تھے۔لیکن انہیں دوسروں کی زبان بندی  بھی گوارا نہیں تھی اور اگر ان کی تنقید کا کسی گوشے سے جواب آ جاتا تو جیسے شانت ہو جاتے کہ ان کی بات سنی گئی،اُس پر غور کیا گیا اور تنقید الیہ نے اس کا مناسب جواب فراہم کر کےاپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کر دی۔دوسری طرف اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بھی بے حد تعجب انگیز ہے کہ اُن کے اختلافِ راۓ کا جواب نہ آتا تو وہ قدرے پریشان بھی ہو جاتےاور سوچنے لگتے کہ اُن کی تحریر سے شاید فریقِ مخالف کو تکلیف پہنچ گئی ہے۔چنانچہ وہ قطع تعلق کی بجاۓ مکالمے کی راہ نکالتے اور تعلقات کی ڈور کو ٹوٹنے نہ دیتے۔نظیر صدیقی کا مضمون “اظہار یا ابلاغ “شائع ہوا تو سلیم احمد نے اس کے بہت سے نکات سے شدید اختلاف کیا،اس اختلاف کے پسِ پشت بھی ایک صحت مند جذبہ کام کررہا تھا۔چنانچہ انہوں نے صدیقی کو لکھا:

“میں تمہاری طرف سے کافی تشویش میں ہوں،یعنی تمہاری تحریروں کی طرف سے۔جب سے تم کراچی آۓ ہو اور تم نے جو کچھ لکھااس میں واضح طور پر ایک انحطاط تھا۔میں اسے شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ جس نفسیاتی کیفیت میں ہو اگر اُس پر قابو نہیں پاؤ گے تو اندیشہ ہے کہ تحریر پر بھی برُااثر پڑے گااور مطالعے کی رفتار بھی متاثر ہو گی۔سچ پوچھو تو جو مضمون میں نے تمہارے خلاف لکھا۔اس کے پیچھے میرا ایک تجزیہ ہےجس کی روشنی میں میں تمہیں ایک شاک لگانا چاہتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے اندر جو محرکات براۓ عمل ہیں اُن میں ایک عملی ناآسودگی ہےجسے تم علمی تشنگی سمجھتے ہواور زندگی کی تلافی ادب سے کرنا چاہتے ہو۔یہ ذہنی کیفیت میرے نزدیک خطرے سے خالی نہیں ہے۔اس لیے میں تم سے باربار کہتا رہا کہ کچھ عرصے کے لیے ارادی طور پر لکھنا پڑھنا دونوں بند کر دو۔اس میں ارادی کی شرط ہے۔تم نے میرے تجزیے سے اتفاق نہیں کیا دوست کون ہے؟اس کا اندازہ آگے چل کر ہی ہو سکے گا۔بہر حال میری تمہاری دوستی کسی منافقت پر تو قائم ہے نہیں جو کوئی اندیشہ ہو۔میں تم سے ہر بات کہہ سکتا ہوں اور تمہاری ہر بات کو سن سکتا ہوں۔زندگی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن سے میرا اتنا کھلاُ ہوا ذہنی تعلق ہے”۔

خوبی کی بات یہ ہے کہ سلیم احمد اختلافِ راۓ کا پسِ منظر بیان کرنے اور مکتوب الیہ کے انحطاط کا تجزیہ کرنے کے بعد بھی مطمئن نہ ہوۓ اور نظیر صدیقی کو دعوت دی کہ وہ اس کا سخت سے سخت جواب لکھیں۔تاکہ سلیم احمد کے دل سے یہ کھٹک نکل جاۓ کہ متذکرہ اختلافی مضمون سے نظیر صدیقی کو تکلیف پہنچی ہےاس طرف اشارہ کرتے ہوۓ سلیم احمد لکھتے ہیں :

“جب سے گۓ ہو بہت یاد آۓ ہو،افسوس اس کا ہے کہ تم ایک ایسے وقت میں روانہ ہوۓ۔جب میں یہ نامعقول مضمون لکھ چکا تھا۔کچھ لوگ اسے طرح طرح کے رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس کا سخت سے سخت جواب دے دو تاکہ میرے دل سے یہ خیال نکل جاۓ کہ میں نے تمہیں کوئی تکلیف پہنچائی ہےاورایسی تکلیف جو میرا منشا نہیں گالیاں کھانا تو میرا پیشہ ہے۔جتنی چاہو دو،اوراب تو یہ تمہارا حق ہے۔”

اورایک دفعہ سلیم احمد نے یہ اعتراف بھی کیا کہ

“اس میں شک نہیں ہے کہ تم جتنے بڑے میرے نکتہ چین ہو،اتنے ہی بڑے میرے قدردان بھی ہو،مجھے تمہارے اختلافات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو لیکن میں نے انہیں ہمیشہ پرُ خلوص دیانتدارانہ اور قابلِ توجہ سمجھا ہےاور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ خدا نے مجھے ایک ایسا دوست دیا ہے جو میرا اتنا کڑا ناقد اور میرااتنا کڑا مداح ہے۔”

سلیم احمد کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظیر صدیقی نے سلیم احمد کی سب باتوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنے نقطۂ نظر کا دفاع اپنے ہتھیاروں سے کیا اور یہ اختلاف چونکہ فکری اور علمی تھااور ذاتیات  کی حدود میں داخل نہیں ہوتا تھااس لیے ترکِ تعلق پر منتج ہونے کے بجاۓ دوستی کے رشتے کو مضبوطی سے قائم رکھنے میں بھی معاون بنا۔وجہ یہ تھی کہ سلیم احمد با معنی اختلاف کو بے معنی اتفاق سے زیادہ قیمتی تصور کرتے تھے۔چنانچہ ایک خط میں اس طرف اشارہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :

“میرے مضامین کے بارے میں تمہاری جو کچھ راۓ ہو اسے معلوم کر کے مجھے خوشی ہو گی،میرےاور تمہارے درمیان بہت سے اختلافات ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔لیکن با معنی اختلاف بے معنی اتفاق سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی کچھ تحریروں سے تمہیں دکھ پہنچایا ہے۔لیکن شاید یہ اچھا ہوا کہ تم نے جواب دے دیااور بات وہیں ختم ہوگئی۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ میں تمہیں دوست اور عزیز رکھتا ہوں”۔

سلیم احمد کے نزدیک ذاتی خط کا مقصد صرف مداحی نہیں تھا بلکہ وہ خط کو حقیقت کا آئینہ بنانے اور دوست کو اس آئینے میں وہ چہرہ دیکھنے کی دعوت دیتے جو سلیم احمد پر منعکس ہوا تھا۔اپنی راۓ کے اظہار میں سلیم احمد بہت کھردرے ،بے ریا،بے دھڑک اور بے باک نظر آتے ہیں اور اکثر اوقات تو محسوس ہوتا ہےکہ انہوں نے ادب کی قدروں کو دوسری تمام قدروں پر فوقیت دے رکھی ہے اور دوستوں کی تحریروں کے مطالعے کے دوران انہیں جہاں بھی خامی نظر آتی ہے،اُس پر فوراًانگلی رکھ دیتے ہیں،یہ صورت نظیر صدیقی کے نام لکھے گۓ خطوط سے بھی عیاں ہوتی ہے۔چنانچہ اُن کی کتاب “تاثرات اور تعصبات”شائع ہوئی تو ایک خط میں اُنھوں نے اس کتاب کی رسید ان تحسین آمیز الفاظ میں دی :

“کتاب کا نام مجھے پسند آیااور چونکہ رسم کا صاحبِ رسم پر گہرا اثر پڑتا ہے اس لیے یقین ہے کہ خود کتاب بھی پسند آۓ گی۔ویسے آپ کی نثرونظم اکثر رسالوں میں دلچسپی سے دیکھتا رہتا ہوں۔سادگی تواس زمانے کی بہت سی نثر میں مل جاۓ گی۔مگر فقرے میں جان ہونااور بات ہے۔آپ کی تحریر جاندار ہے اور  آپ متوازن راۓ رکھتے ہیں۔”

لیکن جب سلیم احمد اس کتاب کے مطالعے سے گزرے تو انہیں مصنف کی کئی ناہمواریاں بھی نظر آ گئیں اورایک دوسرے خط میں اُنہوں نے ان ناہمواریوں کو بھی بلا کم وکاست اُجاگر کر دیا۔انہوں نے لکھا

“میں نے “تاثرات وتعصبات” کے کئی مضامین دیکھ ڈالے۔یگانہ،ناسخ،ؔفیضؔ اور عالیؔ تفصیلاً پڑھ چکا ہوں۔باقی پر ابھی سرسری نظر ڈالی ہے۔خیر دیگ کا اندازہ تو ایک چاول سے بھی ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔مجھے آپ کی کتاب میں تاثرات تو ملے مگر تعصبات ہاتھ نہیں آۓ تعصب غیر منطقی اور غیر استدلالی چیز ہے۔یہ اپنی شدت سے پہچانا جاتا ہےاور بیشتر جوہری یا عنصری ہوتا ہے۔آپ انسان کا استدلال اس سے نہیں چھین سکتے۔تعصب نہیں چھین سکتے۔آپ کے تعصبات اگرہیں بھی تو آپ نے انہیں پالتو قسم کی چیز بنا دیا ہے۔جو مضامین میں نے پڑھے ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی توازن ہے۔لیکن اس توانائی کی آپ نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔اس نے آپ کے خیالات کو اور ساتھ ہی طرزِ بیان کو بہت رسمی بنا دیا ہے۔ان سے مصنف کی معقولیت کا اظہارتو ہوتا ہےلیکن ادب کی کسی بھی صنف کو صرف معقولیت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ان میں کسی اضطراب کا،تلاش کا،جمی جمائی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دینے کا تاکہ نئی معنویت کا سراغ ملے یا اس سنّتِ ابراہیمی کا جو ادب میں مسلّم اقدار کے بتوں کی ناک کاٹتی ہے تاکہ کسی نئی وحدت کی طرف اشارہ کرے  کوئی سراغ نہیں ملتا۔سب معلوم باتیں کہی گئی ہیں،کہنے کا انداز سلجھا ہوا ہے،سلاست،روانی،وضاحت سب کچھ موجود ہے۔مگر کوئی ایسی چیز غائب ہے جس کے بغیر تحریر تو بن جاتی ہےوہ چیز نہیں بنتی جسے میں ادب میں ڈھونڈتا ہوں۔پتا نہیں اپنی بات کہہ سکا ہوں یا نہیں۔لیکن اپنا مجموعی تاثر میں ایک جملے میں ادا کر سکتا ہوں۔ان مضامین میں مجھے “درسی مضامین” کی بوُ آتی ہے۔رائیں صحیح اور درست ہیں،محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔پتا چلتا ہے کہ لکھنے والے کا ذوقِ سلیم ہے۔وہ کمیاب چیز بھی موجود ہے جسے ادبی دیانت کہتے ہیں،زبان اور بیان پر بھی قدرت معلوم ہوتی ہے۔مگر مضامین کی روح مدرسانہ ہے۔یہ بڑا سخت آزار ہے۔کیا آپ اس سے نکل نہیں سکتے؟”

ماخذ :روایت

سنِ اشاعت :۱۹۸۷

مرتب: محمدسہیل عمر

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search