مکتوب-بنام احمد جاوید – سلیم احمد

 In یاد نگاری

پیارے جاوید تمہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ نوجوانوں میں میں تمہیں کتنی اہمیت دیتا ہوں اور مجھے اِس بات کی کتنی شدید خواہش ہے کہ تم کچھ لکھو۔اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرو۔میں تمہارے سامنے اور تمہارے پیچھے تمہاری ذہانت،قابلیت،اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا ذکر کرتا رہتا ہوں۔لیکن مجھے تم سے یہ شکایت ہے کہ تم نے اب تک خود کو ضائع کرنے کے سوااور کچھ نہیں کیا۔مجھے نہیں معلوم کہ کوئی آدمی مجھ سے کچھ سیکھتا ہے یا نہیں اور میں کسی کو کچھ سکھانے کا اہل ہوں یا نہیں لیکن میں یہ ضرور چاہتا تھا کہ تم مجھ سے گفتگو کرو۔بحث مباحثہ۔اختلاف واتفاق۔تائید اورتردیدجو کچھ تمہارے دل میں ہےاِسے باہر نکالو۔لیکن تم میرے پاس آتے ہواور خاموش بیٹھ کر چلے جاتے ہو۔اس سے میری طبیعت اُلجھتی ہےاور میری سمجھ میں نہیں آتاکہ اپنی یک طرفہ بک بک کو کب تک جاری رکھوں۔میرا خیال ہےکہ تم ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو گۓ ہواوراس سے زیادہ “ذمہ دار” بننے کی خواہش میں مبتلا ہو۔یہ بھی ‘غرور’ کی ایک قسم ہے۔تم انکسار ظاہر کرنا چاہتے ہو جب کہ اسی کی تم میں شدید کمی ہے۔ارے بھئی نوجوانوں کی طرح غیر ذمہ دار ہو جاؤ جو سمجھ میں آۓ کہو۔جو محسوس کرتے ہو لکھو۔کل خیال اور احساس بدل جاۓ تو تم بھی بدل جاؤ۔اور اپنی کہی ہوئی ہر بات کی تردید کردو۔یہ خیال کہ جب عرفان یا نروان حاصل ہو جاۓ گا تب لکھیں۔ایک بوگس خیال ہے۔ایک غلطی کرنے والا،اور غلطیاں کر کے اُس کی اصلاح کرنے والااِس سے بہتر ہے جو غلطی کرنے کے ڈر سے کوئی کام ہی نہ کرے۔

نقالی کا مسئلہ یہ ہے کہ نقالی کے ڈر سے آزاد ہو جاؤ۔جیسا لکھا جاتا ہےویسا لکھو خواہ اُس میں نقالی ہی کیوں نہ نظر آۓ۔تم جب وہی لکھو گے جیسا لکھ سکتے ہوتو کچھ دن میں دیکھو گے کہ خود بخود تمہارا اسلوب اُبھرنے لگے گا۔نہ بالقصد نقالی کی ضرورت ہے۔نہ نقالی کے خوف میں مبتلا رہنا کوئی اچھی بات ہے۔بس کاغذ اور قلم اُٹھاؤ اور فطری طور پر جو کچھ  سوچتے یا محسوس کرتے ہو ااسے لکھنا شروع کرو۔اسلوب کا خیال کیے بغیر۔البتہ نقالی۔شعوری نقالی اُس وقت کروجب مختلف اسالیب پر قابو پانے کاارادہ کرو۔مثلاً دو صفحے محمد حسین آزاداور دو صفحےرتن ناتھ سرشار کی نقل میں لکھ کر دیکھو۔یہ مشقیں میں نے بہت کی ہیں۔نثر میں اور شاعری میں بھی۔تم چاہو توتم بھی کرو۔

پتہ نہیں تم کراچی کب تک واپس آؤ گے۔اب کے آؤ تو یہ سوچ کر کہ تمہیں مجھ سے لڑنا ہے۔جھگڑنا ہے۔اختلاف کرنا ہے۔یہ سب باتیں محبت اور عزت کو کم کیے بغیر ہو سکتی ہیں۔

تم نے لکھا ہے کہ تم کٹر قسم کے مقلّد ہو۔کاش کہ تم ہوتے۔

تمہارا۔۔۔سلیم بھائی

 

ماخذ : روایت

سنِ اشاعت : ۱۹۸۷

مرتب: محمدسہیل عمر

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search