فاؤسٹ (حصہ دوم: نواں باب)

 In ترجمہ

قید خانے کی کوٹھڑی میں مارگریٹ  خشک گھاس پر پڑی ہوئی تھی ۔ یہ کوٹھڑی بڑے بڑے پتھروں کو چُن کر بنائی گئی تھی ۔ اس میں چاروں طرف اندھیرا تھا ۔ صرف اُوپر چھت کے قریب ایک موکھا (روشن دان ) تھا  جس میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں ۔ ا س میں  سے اندھی اندھی روشنی کوٹھڑی میں آ رہی تھی ۔

کچھ دیر مارگریٹ بے حس و حرکت پڑی رہی ۔ پھر اُس نے گھاس کو نوچنا شروع کیا ، مٹھیاں بھر بھر کر اُٹھاتی اور اُس پر محبت سے ہاتھ پھیر کر کہتی ، ’’خوشنما پھولو ۔ لاؤ اپنے محبوب کے لیے میں تمہارا ایک گجرا گوندھوں ۔ اُس کے لیے بادشاہ کا ایک تاج بنائیں ۔ اس سرفرازی سے تمہاری عزت افزائی ہو گی  نا؟  اُس کی پیشانی پر تمہیں جگہ ملے گی اور وہاں سے جھک کر تم اُس کی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر دیکھو گے‘‘۔

اُس نے بڑی تیزی سے خشک گھاس کو گوندھ کر  گھیرا سا بنایا اور اپنی ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ پھیلا دیے ۔ وہ عجیب شان سے سیدھی کھڑٰی تھی، آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور پتھرائی ہوئی ۔ لیکن ان میں شرم و حجاب کی جھلک تھی  گویا وہ اپنے محبوب کو دیکھ رہی تھی مگر اُس سے بات کرنے کی جسارت نہ رکھتی تھی ۔ پھر گھاس کا تاج اٹھایا اور بڑی تمکنت سے اپنے سر پر رکھ لیا ۔ اور جیسے کوئی بھولی بسری یاد آرہی ہوں، آہستہ آہستہ بولی ، ’’ دیکھو ، میں تمہیں اپنی ملکہ بنا کر تاج پہناتا ہوں‘‘۔

اِتنا کہہ کر دبی ہوئی آواز میں اُس نے وہ گیت گانا شروع کیا جو گھیرے کے کھیل میں بچوں نے وادی میں گایا تھا اور فاؤسٹ آنکھوں میں محبت کی چمک لیے اُس کے قریب آیا تھا :-

’’اُوپر ڈھونڈو ، نیچے ڈھونڈو

اُس کے سر پر تاج رکھو

تاج تو خوشیاں لائے گا لیکن

بوسہ سے پہلے چھو تو لو‘‘

مارگریٹ  نے سر پر سے تاج اُتار لیا اور پھر محبت سے اُس پر ہاتھ پھیر کر بولی ، ’’خوبصورت ۔ آج میرے لیے تو کتنی خوشی لایا ہے ، گو بعض لوگ کہتے ہیں  کہ میں اِس خوشی کی مستحق نہیں ہوں‘‘۔

’’اُوپر ڈھونڈو، نیچے ڈھونڈو۔۔۔۔۔۔‘‘

اُس نے پھر گانا شروع کیا لیکن ایک دم سے رُک گئی اور کہنے لگی ، ’’ فضول سا تھکا دینے والا گیت ہے ۔ بچو  آؤ، ایک اور گیت گائیں‘‘:-

’’ایک دو تین

تم آزاد ہو

ایک بوسہ اُس کے لیے

ایک بوسہ تمہارے لیے‘‘

’’دیکھا پیارے بچو۔ ہے نا ، اچھا سا گیت ! بس اُس نے پیار کیا اور تمہار ا گھیرا ٹوٹا ۔ ایک بوسہ اور پھر میں آزاد ہوں‘‘۔

اُس کے چہرے پر انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی ۔ ہاتھ سے گھاس کا گجرا چھوٹ کر نیچے گر پڑا اور پتھر کی دیواروں کو گھبرا گھبرا کر دیکھنے لگی۔ پھر اُس نے  گرے ہوئے ہار کی طرف دیکھا ۔ اُسے اٹھانے کے لیے جھکی مگر اتنے ہی میں اپنا ارادہ بدل دیا اور گھاس ہی پر دوزانو ہو گئی ۔ گود میں بہت ساری گھاس اُٹھا لی اور اُسے سینے سے لگا کر ہِل ہِل کر لوری دینے لگی :-

’’آنکھیں مُوند، رات کا وقت ہے

آنکھیں کھول ، دن کا وقت ہے

تیرے ابّا آئے ہیں

سونے کی گاڑی میں آئے ہیں

ہم کو لینے آئے ہیں

سو جا ، میرے راج دلارے

سو جا ، میری آنکھوں کے تارے

٭٭٭٭٭٭

پھول کی ڈنڈی ہاتھ میں تیرے

سر پہ  ہے پھولوں کا تاج

جہاں سنہری پھول کھِلے ہیں

بھینی بھینی خوشبو ہے

وہاں تری سُکھ سیج سجے گی

سو جا ، میرے راج دلارے

سو جا ، میری آنکھوں کے تارے‘‘

کوٹھڑی کے باہر قدموں کی آواز سنائی دی ۔ قفل  میں کنجی پھری ، مارگریٹ پیچھے ہٹ کر کونے میں دبک گئی اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگی ۔

دروازہ کُھلا اور محافظ  کنجیوں کا بھاری گچھا لیے اندر آیا ۔ یہ ایک بڈھا آدمی تھا جس کا دل دردناک مناظر دیکھتے دیکھتے سخت ہو گیا تھا ۔ اُس کے پیچھے دروازے کے باہر دو سپاہی کھڑے تھے ۔ محافظ نے بے جذبہ آواز میں کہا ، ’’ عدالتِ کلیسا تمہارے مقدمے کی سماعت کرے گی ۔ اپنے بچے کو مار ڈالنے کی فردِ جرم تم پر لگائی گئی ہے ‘‘۔

مارگریٹ نے ایک چیخ ماری اور محافظ سے لپٹ گئی اور رو رو کر پوچھنے لگی ، ’’تم نے اُسے کہاں چھپا دیا ؟ میرا بچہ ! رحم دل پیرمرد، بتاؤ میرا بچہ کہاں ہے ؟ اُسے کہاں لے گئے ہیں ؟‘‘

محافظ نے اپنا کوٹ اس کے ہاتھوں سے چھڑوایا اور مارگریٹ پھوٹ پھوٹ کر روتی گھاس پر گر پڑی ۔

پھر اس کی طبعیت میں انقلاب سا ہوا ۔ وحشیانہ عجلت کے ساتھ وہ اپنے گھٹنوں پر جھکی اور بڑی تیزی سے گھاس کو ہٹانے اور اچھالنے لگی گویا کسی چیز کو تلاش کر رہی تھی ۔ پھر مسکرانے اور ہنسنے لگی ، اور آپ ہی آپ کہنے لگی ، ’’لو اب یاد آیا ہے ۔ وہ تو برف ۔۔۔۔ کے نیچے آرام سے گرم گرم سو رہا ہے‘‘۔

دسواں باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search