فاؤسٹ (حصہ دوم: آٹھواں باب)

 In ترجمہ

مارگریٹ روڈا کے چوراہے پر شکنجے میں کھڑی کی گئی تھی  ۔ اب اِس بات کو تقریباً ایک سال ہو گیا ۔ یہ سال سختیاں اور مصائب جھیلتے گزرا اور اس کے دن بھی اِس طرح کٹے کہ کسی طرح کاٹے نہ کٹتے تھے ۔ کہنے کو ایک سال مگر اُس کے لیے صدیاں بیت گئیں اور اُس کے لیے زندگی اجیرن ہو گئی ۔ اِس عرصے میں اُس نے بڑے کڑوے کڑوے جام پیے لیکن جہاں جام خالی ہوا  کہ پہلے سے بھی زیادہ کڑوا چھلکتا جام اُس کے لبوں سے لگ جاتا تھا اور وہ اُس کڑوے گھونٹ کو اپنے حلق سے نیچے اُتارنے  پر مجبور ہو جاتی تھی ۔ گرمیاں اور خزاں اُس کے لیے ایسے ہی اُجاڑ اور بدرنگ تھے جیسے اب جاڑا جو ملک پر حکومت کر رہا تھا ۔

اب کے جاڑا بھی غضب کا پڑ رہا تھا ۔ پانچ دن سے برف  کی ایک مسلسل چادر پڑ رہی تھی جس میں سورج کی روشنی تک لپٹ کر رہ گئی تھی۔  گاؤں کے کتنے ہی گھر برف کے نیچے دب چکے تھے ۔ دس دس اور پندرہ پندرہ فٹ موٹے  دَل(ٹکڑوں)   کی تہیں زمین پر چڑھی ہوئی تھیں  اور اُن لوگوں کے لیے جو زمین کے نشیب و فراز سے ناواقف تھے ، ایسے میں گھروں سے نکلنا خطرناک تھا ۔

روڈا سے سات میل کے فاصلے پر ایک پرانا اجڑا ہوا کھلیان تھا ۔ اس سے تین تین میل دور تک کوئی بستی نہیں تھی ۔ دیواروں کے تختے گل سڑ کر بہت سے گر چکے تھے  اور چھت بھی بس یونہی سی کچھ باقی رہ گئی تھی ۔ اِس کھنڈر کے ایک کونے میں ایک تھوڑی سی خشک گھاس پر مارگریٹ سکڑی سکڑائی پڑی تھی ، سرد برفانی ہوا کی سیٹیاں گونج رہی تھیں ۔ اس کے ہاتھوں میں کوئی لپٹی لپٹائی چیز تھی جسے اُس نے سینے سے چمٹا رکھا تھا ۔

وہ زندگی جس کی ساری امیدیں چھن چکی ہوں اِتنی ہی سرد ہوتی ہے جتنی کہ موت ۔ مارگریٹ بھی اپنی  کشمکشِ زندگی کو کبھی کی چھوڑ چکی ہوتی اگر اِس کے دل میں امید کی ایک کجلائی ہوئی چنگاری نہ ہوتی  ۔ وہ محسوس کرتی تھی کہ اس کا عاشق اُسے اِ ن مصائب سے چھٹکارہ دلانے ضرور آئے گا ۔ لیکن مصیبتوں کے کٹھن  دن اُس نے کاٹ دیے تھے ، ان میں سے بعض بعض تو ایسے بھیانک تھے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کا ارادہ ہوتا تھا ، مگر اُس کے محبوب کے آنے کی کوئی صورت نہ نکلی ۔ پھر اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے دل کی چنگاری روشن ہو گئی ۔ شروع  شروع میں اُسے یقین نہ آیا بلکہ اُس میں یہ سمجھ لینے کی جرات  بھی نہ تھی کہ خوشی کا یہ وعدہ اُس کے لیے مقدر ہوا ہے ۔ جھڑکیاں اور مصیبتیں جھیلتے جھیلتے غم و اندوہ کی وہ اس قدر  عادی ہو گئی تھی کہ اُس کی زندگی میں خوشی کا آنا اُسے ناممکن معلوم ہوتا تھا ، بلکہ اِسے ایک ایسی مداخلتِ بے جا تصور کرنے لگی تھی جس کا سدِ باب کرنا اُس کے لیے ضروری تھا ۔

لیکن جیسے جیسے ہفتے گزرتے گئے اُس کے شبہات رفتہ رفتہ دُور ہو گئے اور اس کی دیوانہ وار اُمید ، زندگی میں تبدیل ہو گئی ۔ یہ تھا فاؤسٹ کا جواب اُس کی ساری آہ و زاری اور اُس کے تمام آنسوؤں کا جو تنہائی میں اُس کے دکھے ہوئے دل نے بہائے تھے ۔ یہ اُس کی دعاؤں کا عجیب و غریب جواب تھا کہ اُس کی روح روشن ہو گئی تھی ۔

مارگریٹ کے اندر جو زندگی اُبھر رہی تھی اُسے وہ پروان چڑھاتی رہی اور اسی میں اپنی طاقت صرف کرتی رہی ۔ وہ سوچتی تھی کہ اگر اُس کا محبوب فاؤسٹ مر بھی گیا ہو یا اگر اس کے لیے یہ مقسوم ہو چکا ہے کہ فاؤسٹ کو آئندہ کبھی نہ دیکھے ، پھر بھی اُس کا بیش قیمت تحفہ تو اِس کے پاس تھا جو ان دونوں کے درمیان ایک ابدی کڑی تھی اور اِس تحفے کو وہ دنیا میں لانے والی تھی ۔ باوجود پادریوں اور خدامِ کلیسا کی سخت گوئی اور ظلم کے شاید خدا نے اس کا گناہ معاف کر دیا تھا ۔

سب دوستوں نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا تھا کیونکہ کلیسا نے اُسے ملعون و مردود قرار دیا تھا اور اس وجہ سے بھی کہ عام روایت تھی کہ مارگریٹ کا تعلق ابلیس کے کسی غلام سے رہا ہے ۔

گھر کا سامان سب بِک گیا اور جو تھوڑی سی رقم اُس کے پاس تھی  ، اُسے لے کر اپنے اُس شہر کو چھوڑا جو تکلیف دہ یادوں ، دل کو ٹھیس لگانے والی باتوں اور نامہربان نظروں کا گہوارہ بن گیا تھا ۔ اب اُسے ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں اُسے کوئی نہ جانتا ہو ، اور جہاں محنت مزدوری کر کے اتنا کما سکتی ہو کہ اپنا اور اپنی نوزائیدہ اُمید کا پیٹ پال سکتی ہو ۔ لیکن سکون اُس کی قسمت میں ابھی نہیں تھا ۔ خدامِ کلیسا نے اُس کا کھوج نکال لیا ۔ چونکہ انہیں اس کے عاشق کا نام اور حلیہ معلوم نہ ہو سکا تھا اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ اُسے ویلنٹین کا قاتل سمجھا جا رہا تھا ۔ اس لیے ان شکاری کتوں سے اپنی جان بچانے کے لیے مارگریٹ کو ایک جگہ چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا ۔ ایک گاؤں میں مارگریٹ نے سلائی اور کشیدہ کاری کا کام شروع کر دیا تھا ۔ اُسے کام  بھی ملنے لگا تھا لیکن جب خدامِ کلیسا کی زبانی گاؤں والوں کو معلوم ہوا کہ مارگریٹ کون ہے اور اُس پر کیا گزر چکی ہے تو انہوں نے اُسے اپنے گاؤں سے نکال دیا اور بعض جگہ تو اِس نکالے کے ساتھ جھڑکیاں اور گالیاں بھی ملیں ۔ لیکن اُس جان کی خاطر جس کی وہ محافظ تھی اور جسے وہ اپنے اندر کانپتا محسوس کرتی تھی ، وہ ہر سختی جھیلنے کے لیے آمادہ اور ہر مصیبت برداشت کرنے کو تیار تھی ۔ اُس کی خاطر مشکل سے مشکل اور ناگوار سے ناگوار کام کرنے کو تیار تھی ۔ آخیر میں اُس نے آس پاس کے گاؤں میں پھیری پر پھرنا شروع کیا اور گھروں میں اُوپر کا کام کرنے لگی ۔ کہیں کپڑے دھوتی ، کہیں جھاڑو جھنکار کرتی ، کہیں فرش اور گھر دھلواتی ، غرض گندہ سے گندہ اور ناپاک سے ناپاک کام خندہ پیشانی سے کرتی اور تھوڑی تھوڑی سی تنخواہ ہر گھر سے اُسے ملتی ۔ چند مہینے اسی طرح گزرے ۔ خدا کا شکر ادا کرتی کہ پیٹ کو روٹی اور تن کو کپڑا اُجڑا ، اور یہ سب کچھ اس ننھی سی جان کی خاطر ۔ پیسے جو کچھ بچتے انہیں بڑی احتیاط سے اس گٹھڑی میں چھپا کر رکھتی جس میں چند اُونی اور ریشمی کپڑوں کے ٹکڑے بندھے رہتے ۔ یہ گٹھڑی ہر دم اُس کے ساتھ رہتی تھی ۔

جب وقت قریب آیا تو اُسے یہ خطرہ ہوا کہ اس کا بچہ بالکل غیر لوگوں میں پیدا ہو گا ، اور غیر بھی ایسے کہ اس پر ناک بھَوں چڑھائیں گے اور پرچول (تفتیش )  کریں گے  اور جب انہیں معلوم ہو گا کہ یہ وہی مارگریٹ  ہے تو غالباً گھر سے نکال دیں گے ۔ عین اُس وقت جبکہ اُسے آرام اور دیکھ بھال کی ضرورت سب سے زیادہ ہو گی ۔ اس خطرے نے اس کا آرام اور چین غارت کر دیا اور ایک دن چپکے سے رات کے وقت وہ گھر سے روانہ ہو گئی ۔

اُس نے دل میں کہا کہ خالہ مارتھا کے گھر چلوں اور اُن سے گِڑگِڑا  ،  گِڑگِڑا کر  رحم کی درخواست کروں ۔ گو انہوں نے آخری دفعہ بہت سخت باتیں کہی تھیں لیکن جب وہ میری زدہ(خستہ) حالت دیکھیں  گی تو ان کا دل پسیج جائے گا ۔ بھلا کون ایسا سنگ دل ہو گا کہ جب میں اپنے پیدا ہونے والے معصوم بچے کا واسطہ دوں گی تو انکار کر دے گا ۔ پھر بھلا خالہ مارتھا جو اس قدر نرم دل ہیں اور پہلے مجھے سب سے زیادہ عزیز بھی رکھتی تھیں ، کیسے منہ موڑ لیں گی ؟ بہت دور کا سفر اُسے پیدل طے کرنا تھا کیونکہ روڈا یہاں سے تیس میل تھا ۔ لیکن مارگریٹ کو امید تھی کہ اگر راستہ میں بھیک نہ بھی ملی تب بھی کام کاج اور محنت مزدوری کرتی تین دن میں  روڈا پہنچ جائے گی ۔

مگر خالہ مارتھا کے گھر تک وہ پہنچ ہی نہیں سکی ۔ دوسرے دن کے اختتام پر اُس کی طبیعت بِگڑ گئی اور بڑی مشکل سے گھسٹ گھسٹا کر سڑک کے کنارے ایک خالی جھونپڑی میں پہنچی  ۔ یہاں پہنچ کر بے ہوش ہو گئی ۔

اُسی رات کو اُس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ، لڑکا ، کمزور دُبلا پتلا ۔ اور جب یہ بچہ اپنی باریک نحیف آواز میں رویا تو مارگریٹ  کو ایسا معلوم ہوا کہ اس آواز میں اُس  کے تمام مصائب و آلام کا نوحہ ہے ۔

لیکن مارگریٹ کے لیے یہ بچہ امید کا ستارہ تھا ۔ اُسے محسوس ہوتا تھا کہ اُس کا عاشق اُس کے قریب موجود ہے ۔ زندگی کی مرجھائی ہوئی کلی اب پھر کھِل کر پھول بن گئی ۔ غم یک لخت معدوم ہو گیا اور مسرت اُس پر چھا گئی ۔ ناقابل بیاں خوشی اور چین نے اُس کی طبیعت کو شگفتہ کر دیا ۔ اپنی ساری زندگی کو آغوش میں لیے نیم بیداری کی حالت میں پڑی تھی اور شیریں خیالات اُس کے چاروں طرف سرگوشیاں کر رہے تھے ۔

تین ہفتے بعد مارگریٹ  ایک ٹوٹے ہوئے کھلیان کے کونے میں سُکڑی سُکڑائی اپنے بچے کو سینے سے لگائے پڑی تھی ۔ ٹوٹی ہوئی دیواروں اور سوراخوں میں سے ہوا چیختی ہوئی گھس رہی تھی ۔ جب زور کا کوئی جھونکا آتا تو سارے تختے کھڑکھڑانے لگتے ۔ سردی غضب کی پڑ رہی تھی اور برف کے گالے گر رہے تھے ۔

مارگریٹ کو اپنی تکلیف اور بے سروسامانی کا زیادہ خیال نہیں تھا ۔ سیلی ہوئی پرال (چاول کا  بھُوسہ )  پر وہ سُکڑی ہوئی پڑی تھی  ، سردی جو چیونٹیوں کی طرح اس پر رینگ رہی تھی ، یا بھوک پیاس کی اُسے پروا نہیں تھی ۔ اُس کی تو ساری زندگی بچے سے وابستہ تھی ۔ جس ننھی سی جان کو وہ گود میں لیے ہوئی تھی صرف اُس کے ذریعہ سے اُس کا احساس زندہ تھا ۔ صرف بچے ہی کی وجہ سے اُسے اپنی زبوں حالی محسوس ہو رہی تھی۔ اُس نے سوچا کہ  سر چھپانے اور کھانا پینا حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر پوری پوری کوشش کرنی چاہیے ورنہ رہی سہی طاقت بھی جاتی رہے گی اور بچے کو پال نہ سکے گی ۔ بچے کو اس نے اچھی طرف لپیٹ رکھا تھا ۔ ایک کمبل کا ٹکڑا اُس پر ڈھک دیا  اور مزید احتیاط  کے خیال سے اپنی پیٹی کوٹ اُس کی کمر اور پیروں پر لپیٹ دیا تھا ۔ مارگریٹ نے اُس کے منہ پر سے کپڑا ذرا سا ہٹا کر محبت بھری مسکراہٹ سے دیکھا ۔ وہ نہ تو اُسے اپنے سرد لبوں سے پیار کر سکتی تھی اور نہ ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھ اُس پر پھیر سکتی تھی ۔ بس صرف یہ کر سکتی تھی کہ اُسے گرم رکھنے کے لیے اپنے سینے سے لگائے رہے ۔ جھک کر چپکے سے بولی ، ’’ دل کے ٹکڑے ، ننھے فاؤسٹ ۔ کیا تجھے بھی میرے گناہ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ؟ لیکن نہیں ، میری پیاری ننھی سی جان ۔ ایسا نہ ہو گا ، اِ س کا میں تجھ سے عہد کرتی ہوں‘‘ ۔

ایک دن پہلے کا ذکر ہے، ابھی مارگریٹ  اسی جھونپڑی میں تھی جس میں بچہ پیدا ہوا تھا کہ موسم میں تبدیلی ہوئی ۔ ہوا بند ہو گئی ، برف باری رُک گئی ، بادل چھٹ گئے اور سورج چمکنے لگا ۔ مارگریٹ اپنی خالہ کے ہاں پہنچنے کی جلدی میں تھی ۔ جو کچھ بچا کھچا کھانا تھا ، سمیٹ سماٹ گٹھڑی باندھ سڑک پر چل کھڑی ہوئی ۔ روڈا سے اب وہ دس میل کے فاصلے پر تھی ۔ سوچتی تھی کہ رات سے پہلے شہر میں پہنچ جائے گی ۔ لیکن گھنٹہ بھر چلنے کے بعد ہی سیاہ اُودے بادل پھر گھِر آئے اور ہوا بھی چل پڑے اور دم بہ دم بڑھنے لگی ۔ پھر برفانی ہوا کا جھکڑ چلنے لگا ۔ لیکن اپنی خوش قسمتی اور بچے کے نصیب سے اُسے دو سو گز کے فاصلے پر ایک ٹوٹا ہوا کھلیان دکھائی دے گیا ۔ برف کے گرنے سے کچھ نظر نہ آتا تھا ۔ گرتی پڑتی کسی نہ کسی طرح بے دم ہو کر وہ کھلیان تک پہنچ ہی گئی ۔

خوشی کی ایک چیخ مار کر وہ کھلیان میں داخل ہوئی ۔ بچے کے کپڑوں پر سے جلدی جلدی برف جھاڑی ۔ کونے میں تھوڑی سی سیلی ہوئی پرال نظر آئی ۔ ہانپتی کانپتی اُس پر بیٹھ گئی ، بچے کو سینے سے لگا لیا اور باہر برف کو دیکھتی رہی جس کا دَل بڑھتا جا رہا تھا ۔

ساری رات برف گرتی رہی یہاں تک کہ آدھا کھلیان اِس سے بھر گیا ۔ ڈر کے مارے مارگریٹ کی نیند اُڑ گئی ۔ تیسرے پہر تک برف باری میں کچھ کمی آئی ۔ جھکڑ بھی ہلکا ہو گیا یہاں کہ آہستہ آہستہ مطلع صاف ہو گیا ۔

مارگریٹ  کی طاقت اب جواب دے چکی تھی ۔ کھانا تو بہرحال چاہیے ہی تھا اور گھر اور گرمی کی بھی ضرورت تھی ۔ ہاتھ پاؤں سردی سے اکڑ گئے تھے اور جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ۔ اب بچے نے بھی کمزور آواز میں رونا شروع کیا ۔ اب اُسے یہاں سے چلنا چاہیے تھا تاکہ سر چھپانے کی کوئی جگہ ملے ورنہ خود اور بچہ دونوں کے بھوک اور سردی سے مر جانے کا اندیشہ تھا ۔۔۔

بڑی ہمت کر کے وہ لڑکھڑاتی اُٹھی ۔ ٹانگیں سیدھی کرنے میں کافی دیر لگ گئی ۔ لمبا سفر درپیش تھا جس کے خیال سے ہی دل ڈوبا جاتا تھا ۔ جبر کر کے کھلیان کے دروازے میں سے نکلی اور برف کے تودوں پر سے ہوتی ہوئی اُس سمت میں چلی جہاں اُسے خیال تھا کہ سڑک ہو گی ۔

تھوڑی  ہی دُور چلی تھی کہ یہ معلوم ہونے لگا جیسے مدتوں سے برف کے لامتناہی سلسلے پر چل رہی ہے ۔ اِس سے اُس کے پیر شل ہو گئے تھے اور بار بار گر پڑتی تھی  لیکن آبادی کا کوئی نشان تک اُسے دکھائی نہیں دیا ۔ بالآخر اُسے ایک پھُوس کی چھت والا  گھر دور سے نظر آیا ۔ دیوانہ وار اُس کی طرف دوڑی ۔ کہیں ٹھوکر لگی کہیں گری لیکن بچے کو اِس طرح اٹھائے رہی کہ اُسے کوئی ضرر نہ پہنچے ۔

دروازے تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئی اور اُسے کھٹکھٹایا ۔ کتنی ہی دیر بعد وہ کُھلا اور یہ عرصہ مارگریٹ  کو صدیوں لمبا معلوم ہوا ۔ دروازہ کُھلا تو ایک بدمزاج عورت کا چہرہ نظر آیا جس نے تیز تیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا ۔

مارگریٹ   کے منہ سے الفاظ بھی نہیں نکلتے تھے ۔ بہزار دِقت بولی :-’’ پناہ دیجئے ، مجھے اور میرے بچے کو‘‘۔

عورت نے اُسے گھور کر دیکھا اور بولی :- ’’ اچھا اندر آجا ۔ باہر تو اکڑ کر مر جائے گی‘‘۔

مارگریٹ نے تکلیف سے سانس کھینچ کر شکریہ ادا کیا اور گھر میں لڑکھڑاتی  داخل ہوئی ۔ کمرے میں کیسی اچھی گرمی تھی ! انگیٹھی میں آگ دہک رہی تھی اور چولھے پر جو پتیلی چڑھی ہوئی تھی اس میں سے کیسی اچھی خوشبو آ رہی تھی ۔ اب اپنے بچے کو کس قدر آرام پہنچا سکے گی ! خدا اُسے بھولا نہیں تھا ۔ خدا نے اُسے سزا دی تھی لیکن اب معاف کر دیا تھا ۔

عورت نے ایکا ایکی اُس کے قریب آ کر منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور گھور کر کرخت آواز میں بولی ، ’’اری تو مارگریٹ  ہے نا؟ وہی جو روڈا میں شکنجے میں کھڑی کی گئی تھی ؟ مارگریٹ بیسوا؟‘‘

مارگریٹ  کا منہ کھل گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں گویا اپنی زبانِ خاموش سے کہہ رہی تھی ، ’’خدا کے لیے  رحم کرو ۔ مجھ پر ترس کھاؤ‘‘۔

عورت بولی، ’’نکل یہاں سے مردار ۔ اِس گھر کے لیے تیرا سانس گندہ اور زہریلا ہے‘‘۔

مارگریٹ کے منہ سے الفاظ گویا پھٹ پڑے ،’’ نہیں نہیں  ۔ آپ ایسا نہیں کر سکتیں  ۔ رحم کیجئے  ، میرے بچے پر رحم کیجئے‘‘۔

’’دفعان ہو ، اور اپنے شیطان  کے جائے کو لے کر یہاں سے غارت ہو‘‘۔

مارگریٹ ڈر سے چیخ کر بولی ، ’’نہیں ، اچھی(پیاری)! نہیں ۔ میرا بچہ مر جائے گا ۔ رحم کرو‘‘۔

اِتنا کہہ کر اُس نے وہ گٹھڑی اُس کی طرف دردناک طریقے سے بڑھائی جس میں اُس کا بچہ لپٹا ہوا تھا ۔

’’باہر نکل چڑیل ، جلدی ۔ اِس ملعون کو ساتھ لے جا ، موئی حرام کار‘‘۔

عورت نے اِتنا کہا اور دروازہ کھول کر مارگریٹ کو باہر دھکا دے دیا اور وہ منہ کے بل برف میں جا پڑی ۔

رات کا اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا اور برف باری پھر شدت سے ہورہی تھی ۔ ہوا سے کچھ بچے ہوئے ایک گڑھے میں کوئی تاریک سی چیز دھندلی دھندلی نظر آرہی تھی ۔ اس کے چاروں طرف برف کا چٹیل میدان تھا جس کی میلے نیلے رنگ کی مدھم روشنی چمک رہی تھی ۔

یہ مارگریٹ  تھی ۔ اُس کا سر، کندھے اور بازوؤں کا کچھ حصہ نظر آ رہا تھا ۔ باقی برف سے ڈھکا ہوا تھا ۔ اِس وقت زندگی اور موت کی درمیانی حالت اُس پر طاری تھی ۔

اُسے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ برف کے ناپید کنار فرش پر ہمیشہ چلتے رہنے  کی اُسے سزا ملی ہے ۔ اور یہ فرش اُس کے پیروں تلے سمٹ رہا تھا اور دب رہا تھا۔ ہاتھوں میں کوئی  بہت قیمتی اور نازک سی چیز تھی ۔ اس کا بوجھ بڑھنا شروع ہوا اور اُس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں کہ اسے پھینک دے مگر وہ نہ مانی ۔ اس کا اُسے یقین تھا کہ اس فرش کا سرا ضرور ہے اور اُسے معلوم تھا کہ جب اُس سرے پر پہنچ جائے گی تو وہاں اُسے کون ملے گا ۔ وہاں خدا اپنے تختِ زریں پر جلوہ فرما ہو گا اور اس کی حضور میں فرشتے حمدوثنا کر رہے ہوں گے ۔ اُس کی جناب میں اپنا وہ خزانہ پیش کرے گی جو اتنی دور سے اٹھائے لا رہی تھی اور یقیناً اُسے علم ہو گا کہ یہ خزانہ اُس کا بچہ ہے ۔ وہاں ، اُسے مہر اور رحم کی التجا نہیں کرنی پڑے گی بلکہ ایک لفظ کہنے کی بھی ضرورت نہ ہو گی ۔ بس جب وہ اپنا بچہ پیش کرے گی تو سارے فرشتے اُس پر مسکرانے لگیں گے اور سب باتیں ٹھیک ہو جائیں گی ۔

وہ کانپی اور ایک دم سے چونک پڑی ۔ اب وہ کہاں تھی  ؟ اس کا بچہ کون لے گیا ؟ ہاتھ ایسے سُن ہو ئے تھے کہ ٹٹول  بھی نہیں سکتی تھی ۔ ارے وہ تو گود میں پڑا کمبل میں گرم گرم سو رہا ہو گا ۔ وہ پھر اونگھنے لگی اور سمجھی کہ بچے کو لوری دے کر سُلا رہی ہے ۔

گرنے والی برف کے گھنے گالوں میں سے لٹکی ہوئی لالٹینیں قریب آتی دکھائی دے رہی تھیں ۔ جب لالٹینیں قریب آ گئیں تو مدھم مدھم سی شکلیں بھی نظر آنے لگیں ۔ ہتھیاروں کی جھنکار بھی سنائی دینے لگی ۔

تحکم کی ایک آواز گونجی ، ’’ٹھہرو، سامنے کوئی کالی کالی چیز ہلتی نظر آ رہی ہے‘‘۔

دستے نے اپنا رُخ بدلا اور مارگریٹ  کی طرف سب کے سب بڑھے ۔ یہ خدامِ کلیسا کا شب گرد دستہ تھا ۔ایک سپاہی نے اپنی لالٹین مارگریٹ کے چہرے کے قریب کیا اور بولا ، ’’ارے یہ تو کوئی عورت ہے ۔ برف کے جھکڑ نے اِسے گھیر لیا ۔ برف میں آدھی دب چکی ہے ۔ بچاری اَدھ موئی ہو گئی ہو گی‘‘۔

دستے کے افسر نے آگے بڑھ کر اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں پہچاننے کی چمک پیدا ہوئی ، پھر اطمینان کے لہجے میں بولا ، ’’چلو  اچھا ہوا  ، ہمیں یہ مل گئی ۔ یہ وہی مارگریٹ  ہے جس کا پتہ چلانے کا حکم بڑے پادری صاحب نے دیا ہے ۔ کل اِسے اُن کے سامنے پیش کریں گے ۔ اِسے کھینچ کر باہر نکال لو اور اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔

دو سپاہیوں نے اُس کے بازو پکڑے اور اُٹھا کر کھڑا کر دیا ۔ مارگریٹ  کے ہاتھوں میں سے لپٹا ہوا بچہ چھوٹ کر نیچے قدموں میں گر پڑا ۔

ایک سپاہی  نے اُسے کھول کر دیکھا اور پھر افسر کی طرف دیکھ کر بولا ، ’’بچہ ہے بہت چھوٹا ، مرا ہوا‘‘۔

افسر کی آنکھیں چالاکی سے چمکنے لگیں ۔

’’اِسی کا بچہ ہے ۔ تو یہ کہو کہ اپنی بے حیائی اور گناہ کا ثبوت غارت کرنے کی فکر کر رہی تھی ۔ پکڑو ، اِس خونی ڈائن کو‘‘۔

یہ دستہ روڈا کی طرف پلٹا ۔ دو سپاہی نیم بے ہوش مارگریٹ کو سنبھالےہوئے نہیں بلکہ اٹھائے ہوئے تھے اور ایک سپاہی پیچھے پیچھے اُس کا بچہ اٹھائے چل رہا تھا ۔

یکایک مارگریٹ کے ذہن میں جان پڑ گئی ۔ ڈری ہوئی نظروں سے اپنے گرفتار کرنے والوں کو دیکھا ۔ خوف سے دل اُچھلنے لگا ۔ چیخ کر بولی ، ’’ میرا بچہ کہاں ہے ؟ میری ننھی سی جان کو تم نے کیوں چھین لیا!‘‘۔

’’تجھے خوب معلوم ہے کہ تیرے بچے کو کیا ہوا‘‘۔ افسر نے غرّا کر کہا ۔ ’’اری ڈائن ، اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے تو نے اپنے بچے کو مار ڈالا۔ وہ رہا   ہمارے پاس اِس کا  ثبوت ۔ دیکھ‘‘ ۔ اِتنا کہہ کر اُس نے گٹھڑی کی طرف اشارہ کیا جسے پیچھے پیچھے سپاہی اٹھائے لا رہا تھا ۔

چند لمحوں تک مارگریٹ  گٹھڑی کی طرف گھورتی رہی اور اُن الفاظ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتی رہی جو اُس نے ابھی ابھی سنے تھے ۔ جب اُس کی سمجھ میں آیا کہ بچہ مر گیا تو اُس کی ایک خوفناک چیخ نکلی ، لمبی اور وحشیانہ ۔ پھر اُس نے اُن سپاہیوں کو مارنا شروع کیا جو اُسے پکڑے ہوئے تھے اور اپنے بچے تک پہنچنے کے لیے  مچل گئی ۔ لیکن انہوں نے اُس کے بازو پکڑ کر اٹھایا اور وہ ان کے ساتھ چلنے پر مجبور تھی ۔

اُس کی عقل و تمیز جاتی رہی تھی ۔ ہر چیز اور ہر انسان جس سے اُسے محبت تھی ، اُس سے چھین لی گئی تھی ۔ سب ، سب کچھ جاتا رہا تھا ، اُمید کی آخری چنگاری بھی ، اس کا کمزور غریب بچہ ۔

اُس کا سر پیچھے کو گرا ہوا تھا ، سپاہی اُسے گھسیٹے لیے جا رہے تھے اور وہ چیخیں مار رہی تھی جیسے کوئی پاگل چیخے ۔  چیختے چیختے اُس کے لبوں پر ایک نام آ گیا اور وہ اِس نام ہی کو بار بار وحشیانہ طور پر چیخ رہی تھی :- ’’فاؤسٹ ! فاؤسٹ! فاؤسٹ ! فاؤسٹ! فاؤسٹ!‘‘۔

نواں باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search