ایڈورڈ سعید سے مکالمہ – حسن ایم جعفری ۔ مترجم: کبیر علی

 In ترجمہ

[نوٹ: ایڈورڈ سعید کا یہ انٹرویو معروف پاکستانی رسالے ’ہیرالڈ‘ میں 1992ء میں شائع ہوا تھا۔  اس میں  سعید نے اپنی مشہور  کتاب ’ استشراق ‘ اور اپنی زندگی پر تو بات کی ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ   پاکستان، ضیاءالحق، فیض احمد فیضؔ، اقبال احمد  کا  بھی تذکرہ کیا ہے۔  اس انٹرویو کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظراس کا اردو ترجمہ جائزہ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ترجمہ  مکمل  انٹرویو  کے  قریباً ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے، باقی کے دو تہائی حصے میں موجود مواد کی حیثیت اب بہت کچھ  تاریخی رہ گئی ہے۔ جو احباب مکمل انٹرویو پڑھنا چاہیں ان کے لیے آخر میں  ’ ہیرالڈ ‘ کا لنک دیا  گیا ہے۔ مترجم]

۔۔۔ ’ ہارپر ‘ نامی نیویاک کے ایک رسالے ،مطبوعہ 1984ء ،میں فیض احمد فیضؔ کے بارے میں  ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں:

”کسی شاعر کو جلاوطن دیکھنا- جلاوطنی پہ مبنی شاعری پڑھنے کے برعکس- جلاوطنی کے تضادات کو ایک خاص شدت کے ساتھ  تجسیم  پاتے او ر برداشت ہوتے  ہوئے دیکھنا ہے۔  کئی  برس قبل،  میں نے  عصرِ رواں کے عظیم ترین  اردو شاعر  فیض احمد فیضؔ[1] کے ساتھ کچھ وقت گزارا ۔  انھیں اپنے آبائی وطن پاکستان سے  ضیاء  کی فوجی حکومت کے زمانے میں جلاوطن کیا گیا تھا، اور  انھیں   خانہ جنگی کے شکار  بیروت میں ایک طرح سے خوش آمدید کہا گیا۔  فطری طور پہ ان کے قریب ترین دوست فلسطینی تھے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اگرچہ ان کے درمیان ایک  روحانی قربت ہے، مگر کچھ بھی  یکساں  نہیں ہے-زبان، شعری روایت، یا  داستانِ  حیات۔  صرف ایک بار، جب اقبال احمد، ایک پاکستانی دوست اور  جلاوطن ساتھی، بیروت آئے تو   فیضؔ اپنے مستقل احساسِ   مغائرت پہ قابو پا تے ہوئے نظر آئے۔ ایک رات   ہم تینوں بیروت کے ایک  تاریک ریستوراں  میں بیٹھے اور  فیضؔ نے ہمیں  اپنی نظمیں سنائیں۔ کچھ وقت کے بعد،  انھوں نے اور  اقبال نے میرے  لیے اشعار کا ترجمہ کرنا  روک دیا، لیکن گزرتی شب میں  اس  سے کچھ  فرق نہ پڑا۔   کیونکہ  جو چیز  میں دیکھ رہا تھا اس کے لیے ترجمے کی ضرورت نہ تھی: یہ  وطن واپسی  کی ایک تمثیل تھی جس کا اظہار  مزاحمت اور    خسارے  کے ذریعے کیا گیا تھا، گویا یہ کہا جا رہا ہو کہ ” ضیا! ہم یہاں ہیں”۔ ظاہر ہے کہ اصلاً تو ضیاء ہی  تھا جو آرام سے تھا، اور وہ ان کی  پُر جوش آوازیں نہیں سن رہا تھا۔”[2]

لہذا ہم نے سوچا کہ  اس سے قبل کہ ہم  ایڈورڈ سعید سے ایڈورڈ ہونے کی اہمیت کے بارے میں پوچھیں، ہمیں ان سے فیضؔ  کی  اہمیت  کے بارے میں ان کے خیالات  سے انٹرویو کا آغاز کرنا چاہیے۔

ہیرالڈ: آپ نے لکھا ہے کہ ”بلاشبہ  ضیاء ہی تھا جو آرام سے تھا”۔ لیکن اگر وہ آرام سے تھا، اور ہم  جانتے ہیں کہ  وہ تھا، تو اس میں فیضؔ  کے لیے اہم بات کیا تھی؟ اور اگر پاکستان جیسے ملکوں میں ہمیں  فیضؔ کی طرز کے  مابعد نو آبادیاتی دانشور  ملتے ہیں  تو  آخرِ کار ہم کیا   پاتے اور کیا گنواتے ہیں؟ ہمیں بتائیے کہ  دنیا کو ایک اور فیضؔ کی ضرورت کیوں ہے۔ کیوں ہمیں دنیا کے ضیاؤں   کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے رہنا ہو گا اور  یہ  نعرہ  لگاتے رہنا ہو گا،”ہم یہاں ہیں”۔

ایڈورڈ سعید: سب سے پہلے تو میں کچھ  باتیں کہتا ہوں۔  یہ مضمون 1984ء میں  شائع ہُوا تھا لیکن فیض سے میری ملاقات 1979ء یا  1980ء میں ہوئی تھی ۔ پھر یہ ہے کہ ، اگرچہ  مجھے اُس وقت یہ معلوم نہ  تھا،   میں فیض کا پاکستان   واپس جانا سمجھتا ہوں۔ بلکہ، وہ  فوت بھی پاکستان میں ہی ہوئے۔

اب  مجھے ٹھیک ٹھیک تو معلوم نہیں  کہ انھوں نے 1979ء (یا اس کے آس پاس) پاکستان کیوں چھوڑا، لیکن میرا گمان ہے کہ انھوں نے ایسا  اس لیے کیا کیونکہ ان کی آزادی کو خطرہ تھا۔  ممکن ہے انھیں جیل میں ڈال  دیا جاتا  یا کچھ دیگر طریقوں سے خاموش کروا  دیا جاتا۔  مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ  لوٹس کے مدیر تھے، جو  ایفرو-ایشیائی  لکھاریوں کا رسالہ تھا اور، جہاں تک مجھے معلوم ہے،  وہ فلسطینیوں  کی ذمہ داری تھے۔ وہاں  ایک آدمی تھا جس کا نام  معین بیسیسو تھا، ایک فلسطینی شاعر جو اب وفات پا چکا ہے، جو  رسالے میں کام کرتا تھا اور فیضؔ  کے طنز کو سمجھتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ یہ زمانہ بیروت کی تاریخ میں بالخصوص لاقانونیت کا زمانہ تھا، لہذا میرا خیال ہے کہ اس (بیسیسو) نے  فلسطینیوں کی پناہ حاصل کی تاکہ فیضؔ  کی حفاظت اور آرام کو  یقینی بنایا جا سکے۔

جو میں نے اُس مضمون میں کہا، اور جو نکتہ میں  اب آپ کے سامنے  پیش  کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود جلاوطنی  اتنی بُری شے نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ  اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ایک لکھاری یا  مفکر کو  بعض اوقات   اپنا گھر چھوڑنا  لازمی ہو جا تا ہے اور  کوئی دوسری جگہ تلاش کرنا پڑتی ہے۔  اُس ملاقات کے وقت، مَیں نہیں جانتا تھا کہ فیض  لوٹ جائیں گے، اور میں اُن کی صورتحال کا  اپنی  صورتحال  سے  موازنہ کر نے کی کوشش  کر رہا   تھا۔  میں نے 1947ء میں فلسطین چھوڑا  اور دوبارہ کبھی فلسطین کے اُس حصے میں نہ  گیا جہاں سے میں ہوں، اور جو بعد ازاں  اسرائیل بن گیا۔  میں 1966ء میں ویسٹ بینک پہ تھا، یعنی اسرائیلی قبضے سے ایک سال قبل، لیکن وہاں بھی اُس کے بعد نہیں جا سکا۔

ہیرالڈ:  لیکن اس جوشیلے اور سرکش طنز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جس میں ضیا کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے، ” ہم یہاں ہیں” ایک وسیع تر صورتحال میں،  یعنی  اس  محدود تر  مفہوم سے ہٹ کر  جو یہ نعرہ پاکستان  میں  پیدا کرے  گا۔  ایک عمومی صورتحال میں اس  بیان کا کیا مطلب ہے؟

سعید: دیکھیں، ایک عمومی صورتحال کے طور پہ،  ایک طرف  ہندو پاک اور دوسری طرف عرب لوگ   ایک ہی طرح کا پس منظر رکھتے ہیں یعنی  نوآبادیاتی  جبر   اور اس  کے بعد آزادی  و خود مختاری۔ اور کم از کم ہمارے معاملے میں ، یعنی عربوں  کی بات کر رہا ہوں، ہُوا یہ ہے کہ اگرچہ بیس سے  زائد آزاد عرب ریاستیں ہیں لیکن خود عرب دنیا،  اپنے حکمرانوں، ادوار، سلطانوں اور صدور  کے ساتھ، ایک  بربادی ہے۔

آپ کو ایسے حکمران نظر آئیں گے ، بلکہ چند ایک  کے استثنا کے ساتھ سارے  ہی ایسے ہیں کہ ، جو   انتہائی حد تک  غیر مقبول ہیں۔  آپ کو  مسلمانوں کی مذہبی سیاسی  حسیت  ایک  حیاتِ نو پاتی  نظر آئے گی۔   آپ کے ذہین افراد کا بیرونِ ملک مقیم ہو جانا بہت  اہم ہے؛ بہت لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر، میرے مطابق، آپ کے ہاں ایک ثقافتی  طبقہ ہے ، ہاں ایسا ہی کہنا چاہیے، جو  یا تو خاموش ہے، یا  چھپا ہُوا ہے  یا وہ بیرونِ ملک چلا گیا ہے۔

لہذا ایسی صورتحال میں-  یعنی جب مایوس کن صورتحال ہو-یہ بڑا اہم ہوتا ہے کہ ہم  علامت کی حیثیت اختیار کر جانے والی کسی شخصیت مثلا ایک شاعر، لکھاری یا مفکر  کی جانب رجوع کریں، کسی فیض احمد فیضؔ کی جانب رُخ  کریں، جس پر  قبضہ نہیں ہو سکا، جسے بدعنوانی کا شکار نہیں کیا جا سکا، جسے خاموش نہیں کروایا جا سکا اور  ہم یہ کہیں کہ  یہ آدمی ہمارے لیے جو بھی کر  رہا ہے  کافی ہے۔  بے شک، حقیقت میں وہ کافی نہیں ہے۔ لیکن ہم ان صورت احوال کے متعلق بات کر رہے ہیں  جب  سیاسی تبدیلی کو پیچھے  دھکیل دیا گیا ہو۔  کوئی سیاسی تبدیلی نہ آ رہی ہو۔

ہیرالڈ: آپ خود بھی ایسے لکھاری ہیں جسے اُس کے ملک سے  جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ ہمیں بتائیے کہ آپ کی صورتحال  فیضؔ  سے کس طرح مختلف ہے یا مثلاً،  نگوگی وا تھیونگ سے-اس کینیائی مصنف سے-   جس کا آپ  ذکر کرتے رہتے ہیں؟ کیا امریکہ میں ہونا صورتحال کو نمایاں طور پہ  بدل دیتا ہے؟ میں یہ سوال آپ سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ  آپ نے اپنی کتاب ” دنیا، متن اور  نقاد” کے ایک مضمون میں  ایرک آئیورباخ، اُس یہودی، مغربی تربیت  و تعلیم یافتہ دانشور کے بارے میں بات کی ہے جس نے  ‘میمیسز’ لکھی  تھی۔

آپ نے لکھا ہے کہ  اسے نازیوں نے جلاوطن کر دیا تھا اور اس نے  اپنی کتاب استنبول میں لکھی،   اتنے اہم مغربی کام کے لکھے جانے کے لیے  اتنی عجیب جگہ،  کیونکہ یہ شہر اس وقت  بھی  اس چیز کی نمائندگی کرتا تھا جسے  یورپ ”عثمانی  خطرہ ” کا نام دیتا  تھا۔  پھر آپ  آئیورباخ کی صورتحال کا زیادہ تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔   لیکن کم  وبیش ایسا لگتا ہے کہ  دراصل آپ اپنے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔  آخرش ، آپ خود بھی  عفریت کے پیٹ میں ہیں، ایک ایسا فلسطینی جو امریکہ میں مصروفِ عمل ہے۔  ایسا ہی ہے؟

سعید: خوب۔ ظاہر ہے  کہ بہت سے مشترکات ہیں، لیکن میں  یہ نہیں کہوں گا کہ  میری زندگی بہت مشکل ہے۔ خوش قسمتی بھرے  حالات کے سلسلے کے باعث، میں ایک ایسے شعبے میں ہوں جو مجھے  اجازت دیتا ہے کہ میں ادب پڑھاؤں، ایک پروفیسر کے مقام پہ فائز رہوں، بڑی  آسائش اور سہولت کے ساتھ۔  میرے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ بڑی  شاندار  ملازمت ہے۔  یہ دنیا کی بہترین ملازمت ہے۔  لہذا ان معنوں میں، میں  واقعی کوئی  شکایت نہیں کر سکتا۔   لیکن  مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ  اس بات میں  کوئی دو رائے نہیں  کہ میں ایک اجنبی  ماحول میں رہتا ہوں۔  اور  سو باتوں کی ایک بات،  یہ بہت کٹھن ہے  کیونکہ  ثقافت اور گردوپیش  کے ساتھ میرا تعلق  مخاصمانہ ہے۔ لوگ ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں  کہ میں کچھ  کہوں تاکہ جواب میں وہ  تند وتیز  جملے  کہہ سکیں۔

میری کہی ہوئی  کوئی بھی بات آسانی سے قبول نہیں  کی جاتی،  اس پر پس و پیش ضرور ہوتی ہے۔  اس بات کا ذکر کرنے کی تو شاید ضرورت بھی نہیں کہ مَیں  دنیا کے اس   خطے سے آیا ہوں  کہ جس کے بارے میں یہاں کے اکثر لوگ مکمل طور پر  لاعلم ہیں: عرب دنیا، اسلامی دنیا۔  اس کے بارے میں  کچھ بھی معلوم نہیں۔  اور جو کچھ معلوم ہےـــجیسا کہ میں نے اپنی کتاب  ‘استشراق’ میں دکھانے کی کوشش کی ہےـــوہ  نہایت تخفیف زدہ  ہے اور   احمقانہ  کلیشوں  کا ایک سلسلہ ہے:  متشددانہ  فلاں، ظالمانہ  ڈھمکاں۔ اور پھر، اگر آپ پوچھ  لیں ،  کہ کیا آپ کسی لکھاری کا نام بتا سکتے ہیں، کسی عرب لکھاری کا، تو یہ  لوگ کسی  کا نام  نہیں جانتے۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ  ٹکر ٹکر دیکھنے لگتے ہیں ۔  الغرض یہ بڑی  گھمبیر صورتحال ہے۔

ہیرالڈ: آپ نے ایک موقعے پر بیان کیا تھا ـــ نجیب محفوظ کو  نوبیل انعام ملنے سے قبل ـــ جب  ایک  امریکی پبلشر نے آپ کو فون کیا اور آپ سے مصنفین کی ایک فہرست مانگی تھی۔ کیا آپ ہمارے  قارئین کے لیے وہ واقعہ بیان کر سکتے ہیں؟

سعید: میں  ضرور بتاؤں گا۔  غالباً یہ 1980ء یا 1981ء کی بات ہو گی کہ  ایک پبلشر نے   مجھے فون کیا  اور  مجھ سے تیسری دنیا کے  مصنفین کی ایک فہرست مانگی، کیونکہ وہ  کوئی  قسط وار سلسلہ شروع کرنا  چاہتا تھا، اور میں نے محفوظؔ کا نام سرِ فہرست رکھا۔  کچھ مہینوں بعد یہ پبلشر مجھے کہیں ملا تو میں نے پوچھا کہ  آپ نے کن کن   ناموں کا انتخاب کیا؟ تو اس نے بتایا کہ اس کے منتخب کردہ مصنفین میں محفوظؔ شامل نہیں  ۔  میں نے پوچھا کیوں؟ کیونکہ  بہرحال  محفوظؔ   عظیم ترین عربی مصنف ، اور  بین الاقوامی قد کا حامل شخص تھا۔  اس کا نام کیونکر  قلم زد کیا جا سکتا تھا؟ اس نے جواب دیا:” دیکھئے، بات یہ ہے  کہ  عربی ایک متنازعہ زبان ہے”۔ زبان متنازعہ ہے! مطلب ہم  کیا بات  کر رہے ہیں؟

میں آپ کو ایک اور مثال دوں گا۔ امریکی جامعات میں، ان کے  شعبہ ہائے ادب میں،  قرونِ  وسطیٰ کے مطالعات پہ بہت کام ہُوا ہے:  قرونِ وسطیٰ کی انگریزی، قرونِ وسطیٰ کی  فرانسیسی وغیرہ وغیرہ۔  اور “وسطیٰ ” کا لفظ پورے زمانہء وسطیٰ  پہ محیط تصور کیا جاتا ہے۔   لیکن  مجھے ایک بھی ایسی مثال  معلوم نہیں  کہ  ان کورسز اور پروگرامز میں  کبھی  اندلسی ،  مسلم تہذیب کو شامل  کیا گیا ہو،  جو کہ مثلاً دانتے، چوسر، اَکوائنس  وغیرہم کی  عین  ہم عصر تھی۔  اور یہاں تک کہ چاہے یہ سائنس ہو،  ادب ہو، الہٰیات ہو یا  طبــ اسے کاملاً نظر انداز کیا گیا! پس اگر  آپ اِس کلچر میں رہتے ہیں اور آپ دنیا کے  اُس حصے  (یعنی عرب یا  مسلم  دنیا)  سے  آتے ہیں  تو آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی: وقتی  ناکامی، غالباً یہی کہنا چاہیے۔

ہیرالڈ: اچھا اب، دوسری طرف، آپ  کی اپنی تحریریں مغرب میں  ہر جگہ پہنچی ہوئی ہیں اور  تیسری دنیا میں بھی اتنی ہی مقبول ہیں۔  استشراق  لکھ کر آپ نے  پوری ایک نسل پر  گہرا  حرکت خیز  اثر ڈالا  ہے۔  اس کا سترہ یا اٹھارہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ہم میں  سے بہت سوں کے لیے ، یہ ایک  منشور کی طرح ہے،  ایک   ذہنی   صورتحال کی طرح ہے۔ ہمیں بتائیے کہ  کیا آپ کو وقت ملا کہ،  1978ء میں اس کتاب کی اشاعت کے بعد  اتنے برسوں میں، آپ بیٹھے ہوں  اور اس کتاب کے باعث   طرزِ  احساس میں پیدا ہونے والی  تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہو۔

سعید: اچھا ۔ میرا  خیال ہے کہ اس نے   طرزِ احساس  کو بدلا  ہے۔  مغرب میں، مثال کے طور پہ  کئی شعبوں میں جیسے  بشریات، تاریخ، ثقافتی مطالعات، تانیثی مطالعات میں  اس نے  لوگوں کو  ثقافتوں اور  لوگوں کے مابین  طاقتی تعلقات کے مسائل  پر غور کرنے پر  ابھارا  ہے، جہاں  تسلط   سے مراد ایسی طاقت کا حامل ہونا ہے جو  ترجمانی کرتی  ہے اور   تخلیق کرتی ہے،  کنٹرول  کرتی  ہے اور   استحصال کرتی ہے۔دوسرے لفظوں میں اس نے   صنعتِ  علم   اور طاقت کے باہمی تعلق  کا مقدمہ  اٹھایا کیا ہے۔ اور خاص طور پہ، چونکہ یہ ایک  تاریخی جائزہ تھا،  اس  میں واقعی   استعمار کے پورے دور پہ  نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی  ہے۔

اچھا، اب ایک  امر جس سے مجھے  کچھ پریشانی بھی ہوئی  یہ تھا کہ  مسلم دنیا میں   اس کتاب کا اثر یہ ہُوا کہ  بعض لوگوں نے  اسے  اسلام کے دفاع میں لکھی گئی ایک کتاب سمجھا، جو کہ  یہ ہرگز نہ تھی۔  اسلام پہ بات کرنے کو  میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا؛ میں  اسلام  فی نفسہ کے بجائے،  اسلام کی ترجمانی[3]  کے بارے میں  بات کرتا ہوں۔  میری بلا سے کوئی  شخص  ”اسلامی دنیا میں مغرب کی ترجمانی ” کے موضوع  پر کتاب لکھے، او ر کم و بیش ایسی  ہی  مسخ زدگیوں کو سامنے لے آئے۔  لیکن  جس شے میں  مجھے واقعی دلچسپی  ہے،اپنا نکتہ پیش کرنے کے لیے –   وہ  محض مسخیت نہیں ہے کیونکہ مسخیت تو ہمیشہ ہوتی ہے  – وہ یہ ہے کہ  اس بات کی تفہیم میں کچھ مدد فراہم کروں کہ  یہ مسخیت کس طرح واقع ہوتی ہے اور  اس کی   اصلاح کے لیے کیا کرنا چاہیے۔  یہ تو ہوئی ایک بات۔

دوسری بات یہ  ہے کہ 1978ء میں استشراق کی اشاعت کے بعد سے، خود میں  نے  اورئینٹلزم کے مسئلے پر ایک وسیع تر  تناظر میں  سوچنا شروع کیا ہے۔ 85-1984ء میں میں نے ایک کتاب پہ کام شروع کیا، جو اب قریبا  ًلکھی جا چکی ہے اور اس سال کے آخر تک  آ جائے گی، یہ کتاب  ایک طرح سے استشراق ہی کی دوسری قسط  ہے [4]، لیکن  اس میں مسئلے کو ایک  عالمی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں میں نے  یہ کوشش کی کہ  افریقہ پہ نظر ڈالوں،  مشرقِ وسطیٰ پہ نظر ڈالوں،  بھارت اور پاکستان  کا جائزہ لوں اور یہ دیکھنے کی سعی کروں  کہ  مغرب  کے ہاں  استعمار کی تشکیل میں کلچر  کا  کیا کردار رہا ہے۔  کتاب کے وسط  میں ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ انخلائے استعمار  اور   سامراج کے خلاف  مزاحمت  کے عمل میں  کلچر نے کیا  کردار ادا کیا ہے ــ  بہ الفاظِ دگر، ہندوستان، پاکستان، افریقہ ، جزائر غرب الہند  وغیرہ میں  استعمار کے خلاف مزاحمت  میں کلچر کا  کیا کردار رہا ہے۔

اور پھر آخری باب میں میں  نے جنگِ عظیم دوم میں  پرانی  سامراجی سلطنتوں کے  ڈھے جانے کے بعد  سامنے آنے والے امریکی  کردار  کا جائزہ لیا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ باقی ماندہ واحد استعماری طاقت  کے طور پہ  امریکہ کا غیر معمولی کردار کیا رہا ہے اور  اس کردار کا علم اور  علم کی  صنعت  پہ کیا اثر پڑا ہے۔  اور یہ سب کچھ     استشراق  پر کام کرتے ہوئے  سامنے آیا ہے۔  میں نے اسے  پھیلانے اور  آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے،   یعنی نہ صرف  استعمار  کے جارحانہ پہلوؤں  پہ نظر دوڑائی ہے بلکہ  استعمار کے خلاف اس مزاحمت   کا بھی جائزہ لیا ہے  جو میرے اور آپ جیسے  لوگ کرتے رہے ہیں۔  آخر کار،  استعماری سلطنتیں  قائم نہ رہ سکیں۔   ہندوستان نے 1947ء میں آزادی حاصل کر لی۔  لہذا کچھ تو ہُوا تھا، اور میں نے اپنی کتاب میں  اسی کا جائزہ  لینے کی  کوشش کی ہے۔

ہیرالڈ: دوبارہ آپ کی کتاب ”استشراق” کی جانب لوٹتے ہیں۔ ہمیں بتائیے کہ  کیا  آپ کی زندگی میں کوئی ایسا سلسلہء  واقعات تھا  جو ”استشراق”  کی تصنیف پر  منتج ہوا؟

سعید: جی ہاں۔ بہت  سے عناصر تھے۔  ایک تو اس دور کی بات ہے جب میں بڑا ہو رہا تھا اور ہم لوگ فلسطین چھوڑ کر  مصر میں قیام پذیر تھے۔ اگر چہ  میں کھاتے پیتے  خاندان سے تھااور میں فلسطین اور  مصر میں نوآبادیاتی  سکولوں میں  پڑھا ،  میں   نے جانا کہ –   یہ میں  49-1948ء کے نوآبادیاتی  مصر  کی بات کر رہا ہوں –    میرا خاندان، تعلیم یا زبان جو بھی ہو ، ایک حکمران گورے کے لیے  میں ہمیشہ ایک  کالا ہی رہوں گا۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا جب مجھے اس چیز کا ادراک کروایا گیا۔

میں قاہرہ  کے غزیرہ سپورٹنگ کلب کے میدان میں گھر کو چلا جا رہا تھا- ایک  بڑا نوآبادیاتی  سپورٹنگ کلب ، میرا گھرانہ جس کا رکن تھا۔ ویسے تو یہ کلب  انگریزوں کے لیے  تھا لیکن  وہاں کچھ مقامی لوگوں  کو بھی آنے کی اجازت تھی۔ پس میں گھر  کی سمت چلا جارہا تھا (ہمارا گھر کلب کے قریب ہی تھا) اور میں نے دیکھا کہ  ایک آدمی سائیکل پہ  میری جانب چلا آتا ہے  وہ کلب کا سکتر تھا، ایک انگریز جس کا نام مسٹر پِلی تھا۔  اس نے مجھے روکا اور  کہا: ”لڑکے! تُو یہاں کیا کر رہا ہے” اور میں نے جواب دیا، ” میں گھر جا رہا ہوں۔” اور اس نے کہا: ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ تمھیں  یہاں آنے کی اجازت نہیں” اور میں نے کہا ”ہاں، مجھے یہاں آنے کی اجازت  ہے کیونکہ میرا گھرانہ  یہاں کا ایک رکن ہے۔” اور اس نے کہا ” لڑکے! تمھیں یہاں  آنے  کی اجازت نہیں۔  تم ایک عرب لڑکے ہو۔ نکلو باہر۔”  اب ستم ظریفی ملاحظہ کریں (اور ہاں   میں وہاں سے  نکل گیا: میں  ڈرا ہُوا تھا) کہ  مسٹر پِلی کا بیٹا سکول میں  میرا ہم جماعت تھا۔   تو اس قسم  کے تشکیلی تجربات  ہیں جن سے آپ کو سمجھ میں آتا ہے کہ  نوآبادیاتی  تناظر میں – اس سے  قطع نظر    کہ اور کیا  کیا ہو رہا  ہے –  نسل فیصلہ کن  ہے۔ پس یہ  ان میں سے ایک واقعہ  ہے۔

پھر ایک اور واقعہ 1967ء کا ہے، جب میں  یہاں  آ چکا تھا۔  میں کولمبیا یونیورسٹی میں  پروفیسر تھا۔ میں ذرہ بھر بھی سیاست میں شریک نہ تھا۔  میں  یورپی ادب کا ایک طالبعلم  اور ایک  پروفیسر تھا۔  لیکن جب  جنگ     شروع ہوئی اور مجھے احساس ہوا  کہ  عرب عوام اور عرب دنیا  کے متعلق  کس قدر  ثقافتی نفرت اور  مخالفت پائی جاتی ہے تو  اس  امر نے  مجھے بھی  سیاسی رنگ میں  رنگ دیا۔  کہنے کا مطلب ہے کہ ، ایک عرب ہونے کے ناطے،  میں نے  خود  کو عرب نقصانات   سے جُڑا ہوا پایا اور   میں  اس نتیجے پہ پہنچا کہ  بہت سا نقصان  محض اس  امر کی وجہ سے ہُوا تھا کہ ہم  لوگ   کم تر سمجھے جاتے تھے۔   میں نے یہ جاننے کی سعی  کا آغاز کیا کہ  ہمارے بارے میں جو تاثر وہ رکھتے ہیں  وہ کہاں سے آیا ہے۔

”استشراق”  کے  متعلق آخری نکتہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں، اور   وہ بھی بڑا اہم ہے،  یہ  ہے کہ  میرا نہیں خیال  کہ میں یہ کتاب لکھ پاتا  اگر میں  ایک  جدوجہد سے  سیاسی  طور پہ جُڑا ہوا نہ ہوتا۔  عرب اور فلسطینی  قومیت  پرستی کی جدوجہد اس کتاب کے   سلسلے میں   بہت اہم ہے۔  ”استشراق” اس لیے نہیں لکھی گئی تھی کہ کہ کسی  تاریخی تشکیل    کا  مجرد بیان  کر دیا  جائے بلکہ  یہ ان  متعین ٹھپوں اور اس تسلط سے  آزادی کا ایک حصہ تھی جس کا سامنا  میرے اپنے لوگوں    یعنی عربوں ، یا مسلمانوں  یا فلسطینیوں  کو ہے۔

حواشی

[1]  فیض احمد فیض کے بارے میں ایڈورڈ سعید کی رائے    کو  فیض صاحب کی سیاسی مزاحمت کی ستائش  تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔    فیض صاحب   کے  ادبی مقام کا فیصلہ ہماری زبان کی شعریات ہی میں بامعنی ہو گا۔

[2] مصاحبہ کار نے جو اقتباس دیا ہے وہ رسالے سے دیا ہے اور اس میں  پروف کی   ایک دو ایسی غلطیاں تھیں کہ مجھے  ”جلاوطنی  کے بارے  میں  خیالات اور دوسرے مضامین” کے عنوان سے چھپنے والی سعید کی  کتاب کی طرف رجوع کرنا پڑا جس میں یہ مضمون  بعد ازاں شامل کیا گیا تھا۔   کتاب میں سعید صاحب نے دو تین جگہ  کچھ معمولی تبدیلیاں کی ہیں اور اب  اس اقتباس کے ترجمے کے لیے کتاب پر ہی بھروسہ کیا گیا ہے۔

[3] ترجمانی (Representation) کا یہ تصور ان تین چار بنیادی تصورات میں سے ہے  جنھیں  سعید نے ”استشراق” میں برتا ہے۔    اسی انٹرویو میں  آئیورباخ  اور اس کی کتاب  Mimesis:               The               Representation               of                Reality               in               Western               Literature کا ذکر آ چکا ہے۔ ترجمانی کا  یہ تصور آئیورباخ  کی اسی کتاب میں پیش  کیا  گیا  تھا جسے بعد ازاں ایڈورڈ سعید  کے  علاوہ  کریٹیکل تھیوری  کے کئی دوسرے  بڑے مفکرین نے بھی استعمال کیا۔

[4]ایڈورڈ سعید یہاں   ”کلچر اینڈ امپیریلزم” کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو 1993 ء میں شائع ہوئی۔

ماخذ: ہیرالڈ

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search