احمد ندیم قاسمی – امجد شاکر
احمد ندیم قاسمی صاحب کو کسی کی ناحق تعریف کرنے کا ڈھنگ نہ آتا تھا۔پہلی بات تو یہ تھی کہ وہ مولویوں کے خاندان سے تھے۔اوپر سے ترقی پسند ہو گۓ۔شاید مولویت اُن کے ذوق جمال پر بار بن گئی تھی۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری ہو گۓ۔قاسمی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ مارکسی نہیں تھے،ترقی پسند تھے۔وہ بزرگ تھے اس لیے اُن کی بات مان لیتے ہیں۔خطاۓ بزرگاں گرفتن خطاست۔ایک بات کہنے سے باز رہنا مجھے بھی مشکل ہو رہا ہے۔مارکسی لوگ اوپن فرنٹ میں دوسروں کو شامل کر لیتے ہیں،مگر سیکرٹری کی پوسٹ پر اپنا بندہ رکھتے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی کی یہی تاریخ ہے۔میری اس بات کو کمیونسٹ پارٹی کا کوئی ذمہ دار غلط ٹھہراۓ تو سر تسلیم خم ہے۔ورنہ ایسی بات ماننا میرے لیے مشکل ہے۔ممکن ہے قاسمی صاحب نیم مارکسی ہوں۔جوانی دیوانی تو ہوتی ہے۔قاسمی صاحب نے بھی چند روز یہی دیوانہ پن اپنا لیا ہو تو کیا بعید ہے۔البتہ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ قاسمی صاحب سےمارکسسٹوں(ترقی پسندوں) کی مولویت برداشت نہ ہو سکی۔کسی باسلیقہ بندے سے کٹڑپن کی سہار کب ہوتی ہے۔قاسمی صاحب نےیہ کٹڑ پن ویسے ہی چھوڑ دیا ہو گا،جیسے اپنے خاندان کی مولویت۔رہا دین سے تعلق توڑنا اور چھوڑنا،یہ تو کسی بھلے آدمی سے ہو نہیں سکتا۔شاید اسی لیے قاسمی صاحب یہ کہہ سکے:
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
مولویت بھی بندے کو جھکا کر رکھتی ہے اور مارکسزم کے مولوی بھی یہ حرکت کرتے ہیں کہ ماننے والا ہمیشہ اُن کے فتوے کے سامنے جھک جاۓ۔دین بندے کو سربلند کرتا ہے،یہی سربلندی قاسمی صاحب کی شخصیت اور شاعری ہے۔قاسمی صاحب تو کسی کا ناحق فیصلہ مان سکتے تھے،نہ ناحق کسی کی تعریف یا مذمت کر سکتے تھے۔انھوں نے تو فیض احمد فیض کی ناحق تعریف نہیں کی۔یہ اُن کی عظمت ہے کہ اُنھوں نے اپنے اور فیض کے درمیان طبقاتی تفاوت اور اس کی نفسیاتی تاثیر کا تذکرہ کیا۔حیرت ہے کہ اچھے بھلے مارکسیوں کو یہ تذکرہ پسند نہ آیا۔حالانکہ عبداللہ ملک اپنی کتاب “لاؤ تو قتل نامہ” میں فیض کو مارکسسٹ کے بجاۓ اشرافیہ ثابت کر چکے تھے۔عبداللہ ملک شریعت مارکسیت میں منصبِ افتا پر فائز تھے، ندیم فائز نہ تھے۔عبداللہ ملک کا قول اُن کا تَفّرد کہلاۓ گا اور کوئی غیر مجتہد تو کیا مجتہد بھی اس پر نقد و جرح کے لیے زبان نہ کھولے گا۔فیض کے بارے میں ندیم نے کوئی ایسی بات نہ کہی تھی جس سے اُن کی عظمتِ فکر و دانش اور رفعتِ شعر و شعور اور کمالِ کردار پر کوئی حرف آۓ۔فیض فیض تھے،وہ شعر میں اپنی انفرادیت کے ساتھ زندہ ہیں اور ندیم کمالاتِ ادب کے ساتھ۔دونوں کے مابین موازنۂ انیس و دبیر لکھنا کوئی اچھی بات نہیں۔
ندیم صاحب میں یہ عادت نہ تھی کہ اُن سے جس کسی کے بارے میں جو چاہے لکھوا لیا جاۓ۔ اگر انھوں نے کوئی تقریباتی مضمون لکھا ہو یا کسی کو فلیپ لکھ کر دیا تو وہ اُسے آسانی سے عاق کر سکتے تھے۔ویسے میرے خیال میں تو وہ فلیپ میں بھی سچ بولنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں حفیظ صدیقی کے ہاں اُن کے دفتر (تحریریں) گیا تو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔یہ اپنی شاعری کی کتاب چھپوا رہے تھے۔اُن کے پاس قاسمی صاحب کا لکھا ہوا فلیپ تھا۔حفیظ صدیقی اس اُلجھن میں تھے کہ یہ فلیپ شاعر کے حق میں ہے یا خلاف۔اس فلیپ میں قاسمی صاحب نے شاعر کی حوصلہ افزائی کی تھی،لیکن اُس کی شاعری کو بڑھاۓ چڑھاۓ بغیر۔اُنھوں نے نوجوان شاعر کی شاعری کو یونیسکو کی شائع کردہ بچوں کی تصاویر سے تشبیہ دی تھی اور یہ درست بھی تھا۔ انہوں نے حق کی پاسداری اور نوجوان کی دلداری کے دونوں فرائض بہت خوش اسلوبی سے ادا کیے تھے۔وہ کلمۂ خیر کہتے تھے،مگر کلمۂ حق کی قیمت پر نہیں۔وہ کلمۂ خیر کو کلمۂ حق کے تابع رکھتے تھے اور یہی اُن کا کمال تھا۔
ماخذ : روایت(خاکے)
سنِ اشاعت :۲۰۱۴
ناشر : سانجھ