اکرام اللہ ۔ ہجومِ خشمگیں سے پرے بیٹھا لکھاری: محمد عمر میمن (ترجمہ: حسین احمد)
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ معاصر اردو تنقید میں اکر ام اللہ کی واضح غیر موجودگی بیک وقت حیران کن اور ناقابلِ فہم واقعہ ہے۔ کچھ یہی حال حسن منظر کا ہے لیکن اکرام اللہ کا واقعہ زیادہ گھمبیر ہے۔ حالانکہ وہ پاکستان کے ایک بڑے ادیب ہیں جنھوں نے کافی کچھ لکھا : جس میں افسانوں کے دو مجموعے ’جنگل‘ اور’بدلتے قالب‘؛ تین افسانوں اور تین ناولٹوں پر مشتمل کتاب ’بارِ دگر‘؛ چار ناولٹوں پر مشتمل ’سوا نیزے پر سورج‘؛ ایک ناولٹ ’گُرگِ شب‘؛ اور حالیہ ناول ’سائے کی آواز‘ شامل ہیں۔نصف صدی کی ادبی مصروفیت میں شاید یہ سب نہایت کم معلوم ہو لیکن حساب سود و زیاں سے بے نیاز اکرام اللہ گو کہ آدم بیزار تو نہیں، لیکن خود میں اس حد تک مگن رہنے والے آدمی ہیں کہ لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا تو کجا ان توقعات کی شمہ برابر تشفی کا خیال تک دل میں نہیں لاتے۔ وہ اپنے لیے لکھتے ہیں یا جارج لوئس بورخیس کے الفاظ میں، ’’شاید چند قریبی دوستوں کے لیے‘‘۔ جب بورخیس کی پہلی کتاب ’ناانصافی کی عالمی تاریخ‘ کے صرف 37 نسخے ہی بک سکے تھے، تو انہوں نے ان خریداروں سے جا کر معذرت کرنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ تو سترہ نسخے، یا سترہ کیوں، صرف سات نسخے بکنے پر بھی مطمئن رہتے کیونکہ یہ لوگ حقیقت میں موجود تو تھے ۔ان میں سے ہر ایک واضح پہچان رکھتا تھا اوردیکھی بھالی گلیوں میں رہتا تھا۔ لیکن دنیا بھر کے لاکھوں لوگ جو ان گنت زبانوں میں اسے پڑھیں گے وہ بورخیس کے اپنے الفاظ میں ’’تخیل کے لیے ناقابل گرفت حد تک زیادہ‘‘ تھے۔ممکن ہے بورخیس مبالغہ یا مذاق کر رہے ہوں(بورخیس بہت عمدہ حس مزاح کے مالک تھے اور سنجیدہ گفتگو میں بھی نہایت تیکھے فقرے چست کرتے تھے)، لیکن بورخیس نے بات بہت پتے کی کہی ہےگرچہ اس سے ہمارے عامیانہ احساسات الجھن میں پڑ سکتے ہیں۔
میں نے بورخیس کا ذکر بہت سے اچھے ادیبوں میں پائی جانے والی خوبی کی نشاندہی کے لیے کیا ہےکہ دُنیاوالوں کی باتوں کو یکسر نظر انداز کر کے محض لکھنے کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔مثلا ولیم فاکنرمیں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی جنہوں نے The sound and the fury کو مختلف اوقات میں پانچ بار لکھا۔مگر انھیں یہی احساس ستاتا رہا کہ کتاب ’’کی تکمیل میں اب بھی بہت کچھ رہتا ہے میں اسےاس حال میں نہیں چھوڑ سکتا اور میں کبھی بھی اسے مکمل قرار نہیں دے سکتا۔اگرچہ میں نے سر توڑ کوشش کی اور مجھے مزید کوشش میں بھی کوئی تامل نہیں ہے اگرچہ غالب گمان یہی ہے کہ میری یہ کوشش بھی رائیگاں جائے گی۔‘‘
کسی کہانی کو چار یا پانچ بار لکھنے کا دقت طلب کام شاید اکرام الله کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، یا وہ بھلے بورخیس جتنا لیے دیے رہنے والے نہ بھی ہوں لیکن وہ بہت سے کھرے ادیبوں کی خصلت سے ضرور مالا مال ہیں اور وہ ہے اشاعتی دنیا کے بکھیڑوں میں خود کو نہ الجھانا اور قاری اور نقاد کی پرواہ نہ کرنا۔وہ ایک مضبوط خود ارادیت اور پر اعتماد خود انحصاری کے اظہار کے ساتھ اپنے کام میں مگن رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پینگوئن ان کے دو ناولٹوں ’پشیمانی‘ اور ’آنکھ اوجھل‘ کو جنوری 2015 میں ایک جلد میں شائع کرنے والا ہے۔جب مدیر نے مجھ سے مصنف کی تصویر اور اور ان کے کام کے تعارف کے حوالے سے کسی مشہورشخصیت کے تصدیقی شذرے کا کہا تاکہ ’’پینگوئن ماڈرن کلاسکس‘‘کتابی سلسلے کی وضع خاص کی پاسداری ہوسکےتو میں شش و پنج میں پڑ گیا۔مجھے اکرام الله کے متعلق انگریزی میں’بدلتے قالب‘ پر سلیم الرحمان کے کچھ اقتباسات اور اردو میں سلیم اختر اور خالد اختر کے کچھ تاثرات – جو اکرام الله کے پہلے افسانوی مجموعے’جنگل‘ اور ناولٹ ’گُرگِ شب‘کے تعارف کے طور پہ لکھے گئے تھے – کے سواکچھ نہیں ملا۔اس کام کے لیے مجھے ان کو خط لکھنے میں بھی تھوڑا ترددتھا۔اور وجہ یہ تھی کہ انہیں اگرچہ معلوم تھا کہ فاروق حسن اور میں 1990کی دہائی کے وسط سے ان کے افسانوں کے تراجم کررہے ہیں، مگر انہوں نے کبھی ہمارے اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کبھی اس حوالے سے بات کی۔ ایک نوع کی بے نیازی جو، میرے تجربے کی حد تک،اردو کے کم ازکم ایک اور لکھاری یعنی نیر مسعود میں موجود تھی ۔بہر حال میں نے اپنے تردد کو رفع کیا اور ان کے ایک دوست کے توسط سے بذریعہ برقی خط(ای میل) ان سے رابطہ کیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا جواب آیا:’’عزیزی میمن صاحب! میں کتاب پر مصنف کی تصویر چھپوانے کے حق میں نہیں ہوں،مشہور ادیبوں کے تاثرات سردست میسر نہیں ہیں اور میں ایسی تحریریں محفوظ نہیں رکھتا۔‘‘ مجھے اس دخل در معقولات پر تھوڑی سبکی تو ہوئی مگر ان کی اس شان استغنا سے زیادہ بددل نہ ہوا۔ بعد میں مجھے سلیم الرحمان کے تعاون سے ان کی تصویر اور توصیفی تعارف مل بھی گیا مگر اکرام الله سے متعلق کم لکھے جانے کا مسئلہ جوں کا توں رہا ۔اور رہے وہ خود تو اکرام الله نام و نمود اور شہرت کے پیچھے بھاگنے والے آدمی ہیں ہی نہیں۔ ’پشیمانی‘اور’آنکھ اوجھل‘ مہارت سے تقسیم کے وقت کے مظالم پرعرصے سے پڑے پردوں کو ہٹاتی ہے، تاہم تقسیم ان کہانیوں میں بہت ہلکے رنگ کی ہمہ جہت موجودگی کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ یہ تقسیم کےمحض اثرات ہی نہیں، اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ اجاگر کرتی ہیں۔ گوکہ تقسیم کے اثرات بھی کم ہولناک نہ تھے اور آج بھی کئی غیر متوقع انقلابات میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اکرام الله کی بے پناہ صلاحیتِ اظہار کو ان کے شایان شان ایک وسیع کینوس درکار ہوتا ہے۔ان کی یہ صلاحیت بہت کم یاب ہے کہ وہ پورے دور کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ دیدۂ بینا کی تابانی سے ایسا طرزِ زندگی جوباریک سے باریک اور نہایت مختصر تفاصیل کےساتھ موجود ہو۔وہ احساس اور ان کہے خیالات کے ہلکے سے ارتعاش کو بہت مہارت سے گرفت میں لاتے ہیں۔ اور ایسا کرتے وقت ، جذبات کے لحاظ سے، خود واقعات سے ایک فاصلے پر رہتے ہیں۔ تقسیم یا کوئی دوسرا مخصوص واقعہ ان کی ان تحاریر کے مرکزی خیال کے طور پر نشان زد نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کا مرکزی خیال تو ’’وقت‘‘ہے ، وقت کی وہ رو جس سے زندگیوں کے پرت کھلتے ہیں اور انفرادی کہانیاں زندگی کی بھول بھلیوں میں نقش ہو تی جاتی ہیں اس سے پہلے کہ بڑے اداکاروں کے منظرسے نکلنے کے ساتھ ہی ذہنوں سے محو ہو جائیں۔
سلیم الرحمان لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں اکرام الله کی کہانیوں میں جدید اردو فکشن کے قریباً تمام انفرادی پہلو واضح طور پر ملتے ہیں۔وہ شہری منظرنامے ہوں یا بڑھتا ہوا تشدد،مایوسی کی تصویریں ہوں یا جادوئی حقیقت نگاری کی مثالیں، یاسیدھی سادھی حقیقت نگاری ہو۔‘‘ لیکن وہ متنازعہ اور ممنوعہ موضوعات پربھی نہایت جرات سے قلم اٹھاتے ہیں: وہ متنازعہ موضوعات جو ان لوگوں کےالمیے ہیں جو معاشرے کے کونوں کھدروں میں بڑی عسرت سے زندگی بسرکرتے ہیں اور اپنی ہی الجھی ہوئی گتھیوں اور غارت شدہ نفسیات کےگمبھیر چکروں میں مدہوش رہتے ہیں۔’ آنکھ اوجھل‘ میں وہ اردو فکشن میں غیرمحسوس طریقے سے نظر انداز کیے گئے ایک موضوع یعنی احمدیوں(قادیانیوں)کے بارے میں لکھتے ہیں، لیکن کہانی کا تحت المتن سرمایہ دارانہ حرص و ہوس کی ایک داستان سناتا ہے جوفرقہ وارانہ حرکیات کے پس منظر پر بڑی چاپک دستی سے بُنی گئی ہے۔
اس سے پہلے کے ایک ناولٹ گُرگِ شب میں، جس پر سینسر نے فحاشی کےالزام میں پابندی لگا دی تھی،اکرام الله محرمات کے جنسی تعلقات کے نتیجےمیں پیدا ہونے والی اولاد کے تہہ در تہہ الجھے ہوئے ذہنی منظر نامے میں اترتے ہیں اور اس اولاد کی،ناجائز پیدائش کی وجہ سے اس پر مرتب ہونے والے، تباہ کن نفسیاتی اثرات سے جان چھڑانے کی کوششوں اور ان میں ناکامی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسےعبدالله حسین کے پہلے افسانے’ندی‘، کا بلانکا ویلیمز جو اپنے بچپن میں گلی کے ایک کنارےپر ایک یخ بستہ صبح لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے –اور پھر بتدریج ناکام ہوتا ہے۔ بلانکا کو تو آبشارِ نیاگرا کابہتا ہوا پانی ابدی سکون سے ہم کنار کر دیتا ہے مگر گُرگِ شب کا ظفر ذہنی خلجان کے خوفناک مراحل سے گزرتا ہے۔بیانِ داستاں میں مصنف کی متکلم اور غائب کے صیغوں کی ادلا بدلی ظفر کی ذہنی پراگندگی کے المیے کو پوری شدت سے ظاہر کردیتی ہے۔ ولد الحرام ہونے کا احساس اس کی زندگی کو اس حد تک متحجر کردیتا ہے کہ کسی عورت سے ملاپ کی تمنا کو اس کی اپنی بے صلاحیتی ہی بے دردی سے روند ڈالتی ہے۔اگرچہ کہانی کا منظر نامہ مرکزی کردار کے ذہنی حادثے سے ترتیب پاتا ہے مگر اسلوب کے لحاظ سےیہ اس کی ماں کی بھی کہانی ہے جو خود اس کہانی کے حاشیوں ہی پرموجودہے۔کہانی میں ایک اضافی موضوع کے ساتھ انصاف برتتے ہوئے کہ کیسےنوجوان لڑکیاں پیسوں یا دوسرے مفادات کی لالچ میں جنسی آسودگی اور محبت سے محرومی کے سپرد کردی جاتی ہیں، مصنف ظفر کی ماں اور اس کی خوب صورت محبوبہ ریحانہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ خاوند سے غیر مطمئن ظفر کی ماں اپنے ہی سوتیلے بیٹے سے جنسی تعلق استوار کر لیتی ہے( جو کہ دنیا کے لیے ظفر کا سوتیلا بڑا بھائی اور حقیقت میں اس کا باپ ہے) دوسری طرف جابرانہ نخوت کے مارے امیر و کبیر اے-بی شیخ کی نوجوان بیوی ریحانہ ظفر کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنا چاہتی ہے۔ مگرجب دونوں کی قربت ہوتی ہے تو ظفر کی غضب ناک ذہنی کش مکش اس پرحاوی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی پیاس بجھا پاتا ہے نہ ریحانہ کو سیراب کر پاتاہے۔ اس منطقی ہیر پھیر – یا شاعرانہ انصاف -کا نتیجہ یہ ہے کہ ماں کی رشتہ ازدواج سے باہر جنسی سکون کی تلاش میں کامیابی اس کےاپنے بیٹے کو غارت کردیتی ہے کہ وہ وہی سکون اپنی محبوبہ کو دینے سےقاصر نظر آتا ہے۔
’سوا نیزے پر سورج‘میں مصنف ایک اور ایسےموضوع کو چھیڑتے ہیں جو اردو فکشن میں بہت تھوڑی جگہ لے پایا ہے: دو مردوں کے مابین آغازِ محبت کا ادراک ۔ ہم جنس پرستی یا اغلام بازی کی اصطلاح اس مبہم لیکن ناقابلِ تردید لرزتے ہوئے نوخیز احساسِ کشش کے لیے زیادہ ہی بلند آہنگ معلوم ہوتی ہےجو کمسن خوبرو ’چوزا‘ اور اس کے دوست ’بوم‘کے مابین موجود ہے۔ دونوں کو یقینی طور پراحساس تھا کہ ان کا تعلق کچھ الگ سا ہے لیکن وہ اسے بیان کرنے میں متذبذب تھے۔قاری فقط تصور ہی کر سکتا ہے کہ اگر ’چوزا‘ اتنا جلدی نہ مرتااور زندہ رہتا تو کیا ہوپاتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اکرام الله اس تعلق کے مستقبل کو خیال میں لانے ہی سے رک گئے ،جیسے وہ دو دوستوں کے درمیان پاکیزہ الفت اور لطیف تعلق کی خام جوش و جذبے کی بے توقیری میں متامل ہوں۔ مثلاً چوزہ کے مرگ سے پہلے کا مکالمہ ملاحظہ کیجیے :
’’چوزے! بوم نے کہا، پائمالِ زمانہ فقرے کو ہزارویں مرتبہ دہراتے ہوئے جیسے وہ اس کرہ ارض پر قدرت کے سربستہ رازوں کو دریافت کرنے اور بیان کرنے والا پہلا آدم زاد ہو۔
بوم: کچھ کہوں، تمہیں برا تو نہیں لگے گا؟
چوزا: کہو!
بوم:پتا نہیں کیوں ؟ مگر مجھے تم سے بہت محبت ہے اگرچہ میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا۔
چوزا: پتا ہے مجھے، پتا ہے کہ کیوں!
یہ ایک ویران ریگ زار ہے جتنا ویران کوئی ریگ زار ہو سکتا ہے۔اور یہ سورج سوا نیزے پر تھا جیسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا نامعلوم منزل کا تھکا دینے والا سفر جیسا کہ تھکا دینے والا،غیر مختتم نامعلوم سفرہمیشہ سے ہوتا ہے۔اور ایک پاگل ہنسی جیسی دیوانگی بھری ہنسی ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔اور صحرا کی بے آب و گیاہ وسعت میں دو آوارہ گرد، تم اور میں،اور بس!
چوزا: بس؟
بوم: ہاں بس
چوزے نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے اپنا بخار سے تپا ہوا ہاتھ اٹھایا اور بوم کےچہرے پر رکھ دیا۔ بوم نے اسے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور وہیں رہنے دیا اور پھر بڑے آرام سے اسے بوسہ دیا اور اپنی چھاتی پر رکھ دیا۔ وہ دونوں بے حس و حرکت، ساکت ، گم سم مدتوں وہاں بیٹھے رہے۔ بوم کے دل کی دھڑکنیں چوزے کے ہاتھ سے جذب ہو کر اس کے وجود کی پنہائیوں میں اترتی رہیں۔‘‘
اکرام الله کے اسلوب کا تنوع محض یہی نہیں ہے۔ ’جنگل‘ اور ’پکنک‘ جیسے افسانے ہمیں ایک ایسے لکھاری کا پتا دیتے ہیں جو کم روایتی اسالیب کے برتنے سے خوف زدہ نہیں ہے۔دونوں افسانوں کے پلاٹ گوکہ کچھ ایسے واضح خدوخال نہیں رکھتے مگر مشاہدے کی گہرائی اور جزئیات نگاری کی مہارت تامہ انہیں معاصر علامتی یا تجریدی فکشن کے خشک اسلوب کی سطح پر گرنے سے بچا لیتی ہے۔سلیم الرحمان نے بالکل درست کہا کہ ’’اکرام الله ادبی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے دباؤ میں آ کر ادبی تخلیق نگاری پر یقین نہیں رکھتے تھے، کوئی اور وجہ نہ بھی ہو تو اکرام الله ’’پاکستانی بورژوائی نظامِ احساس کو للکارنے کی پاداش میں‘‘ پڑھے جانے اور بات کیے جانے کے سزاوار ضرورہیں۔‘‘
ماخذ: ڈان
حسین احمد صاحب کا نمبر چاہیئے ۔