فاؤسٹ (حصہ دوم: چوتھا باب)

 In ترجمہ

خالہ مارتھا بیوہ تھیں ، بڑی خوش دل بیوہ ۔ ٹھنگنے قد کی موٹی سی عورت اور اُس کی آنکھوں میں بڑی  شوخی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پہلی  زندگی بھی شوخ گزاری ہو گی ۔

شہر کے عقب میں ایک چھوٹا سا گھر تھا ۔ اس میں وہ رہتی تھی ۔ سامنے ہی تھورنگیا کے جنگل کھڑے جھومتے تھے ۔ گھر کے ارد گرد بھی باغ اور پھل پھلا ری تھے ۔ اس کی دیکھ بھال نہیں ہوتی تھی لیکن بہار کا موسم تھا ۔ نئے نئے پتوں اور پھولوں کی وجہ سے تروتازگی تھی ۔

اِ س وقت وہ اپنے باورچی خانے میں تھی اور یہ باورچی خانہ بھی اپنی مالکہ کی خصوصیات کا آئینہ دار تھا ۔ کشادہ اور ہوادار ، پکا فرش ، صاف ستھرا مگر سامان پھوہڑ پن سے رکھا تھا  ۔ ترکاریوں کے چھلکے اور ٹکڑے پڑے نظر آتے تھے ۔ کانٹوں میں گوشت کی بجائے صافیاں لٹکی تھیں ۔ دُھلے دھلائے برتنوں کے ڈھیر صندوقوں پر لگے تھے ۔

اُس کے مزاج کی بے پرواہی پہلی ہی نظر میں معلوم ہو جاتی تھی ۔ طبیعت مہربان اور بڑی اچھی پائی تھی ۔ مزاج میں آزادای اور تمسخر ، زود اثر اور ضدی ۔ اور اس  سب کے ساتھ  فطرت میں ہمدردی بہت تھی ۔ سختیوں اور مصیبتوں کی کہانیاں سن کر دل فوراً پسیج جاتا تھا ، خصوصاً اُن کہانیوں کو سن کر جن میں کام دیو (کیوپڈ) کی جلوہ فرمائی ہوتی تھی ۔

ایک موٹے  بھدے  سے لڑکے  نے   جسکی عمر اٹھارہ سےکم معلوم ہوتی تھی  گو ڈیل ڈول مردوں کا سا تھا ، دروازہ کھٹکھٹایا  اور نظریں نیچی کیے کھڑا رہا ۔ مارتھا نے دروازے کی طرف دیکھ کر کہا:-’’ اندر آ جاؤ ۔ اندر آ جاؤ۔ کارل فشطے جہاں تم کھڑے  ہو ،وہاں سے میں تمہاری آواز نہیں سن سکتی‘‘۔

وہ کمرے میں بھدے پن سے داخل ہوا ۔ کندھے چڑھاتا اور کچھ گھبرایا ہوا ۔ مارتھا کی طرف اُس نے اچٹتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور چہرے  پر ایک ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی منہ چڑا رہا ہو ۔

مارتھا نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا :-’’ اس پر بیٹھ جاؤ اور جو کچھ تمہیں کہنا ہے ، کہو‘‘۔

وہ نظریں جھکائے بیٹھا رہا اور اپنے خیالات ظاہر کرنے کے لیے الفاظ کی تلاش میں طرح طرح بڑبڑاتا رہا ۔

مارتھا نے اس کی ہمت افزائی کے لیے کہا  :- ’’تھوک چُک (پھینک) اپنے خیالات ۔ دنیا کی کوئی چیز تجھے اس وقت نہیں مل سکتی جب تک تو اسے خود نہ مانگے ۔۔۔ اور اُس دنیا میں بھی‘‘۔

باوجود اِس حوصلہ افزائی کے وہ اب بھی شرمیلے پن سے گونگا بنا رہا ۔

بے صبری سے مارتھا بولی:- ’’ میں جانتی ہوں تجھے کیا کہنا ہے ۔ وہی پرانا رونا ۔ کوئی لڑکی ہو گی ۔ ہے نا؟‘‘

اُس نے تین چار دفعہ زور زور سے سر ہلایا ۔

مارتھا نے کہا :- ’’اور ہ تجھ سے محبت نہیں کرتی‘‘۔

’’ہاں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ نہیں ۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی‘‘۔

اُس نے بڑی مشکل سےگویا سِسک کر کہا ۔

مارتھا نے دلاسا دیتے ہوئے کہا:- آہ ! میرے پیارے لڑکے ، تیری ساری مشکلات کو ختم کرنے کے لیے میرے پاس ایک چیز ہے‘‘۔

یہ کہہ کر وہ لپک کر الماری کے پاس گئی اور اُسے کھول کر اس میں سے ایک شیشی نکالی ۔ اور لا کر اُس کی آنکھوں کے آگے ہلا کر بولی :- ’’دیکھو ، یہ رہی ۔ اس کے تین قطرے اگر تم پی لو گے تو دنیا بھر میں جس عورت کو چاہو گے وہ تم سے محبت کرنے لگے گی ۔ ابھی پی لو ۔ اِسی وقت پی جاؤ ۔ اس کا دل تمہاری طرف سے نرم ہو جائے گا اور تمہارا بھی ۔ اس کا میں تمہیں یقین دلاتی ہوں‘‘۔

اتنا کہہ کر اُس نے ایک پیالے میں تھوڑا سا عرق نکالا اور لڑکے نے بڑے اشتیاق سے ایک ہی گھونٹ میں اُسے اتار لیا ۔

’’میں تجھ سے اس کی کوئی قیمت نہیں لوں گی ، میرے حسین لڑکے ۔ بس صرف ایک بوسہ‘‘۔

یہ کہہ کر بڑے عشوہ و انداز سے مارتھا نے اُس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے ۔ لڑکا اس کی آغوش سے نکلنے کے لیے بھونڈے پن سے تڑپا اور باورچی خانے میں سے نکل کر بے تحاشا بھاگا اور مارتھا اُسے کھڑی نفرت سے دیکھتی رہی کہ باغ میں سے بگٹٹ اڑا  چلا جا رہا ہے ۔ خدا جانے کہاں جا کر دم لیا ۔ مارتھا بڑبڑائی :- ’’ہوں! ہوں ! آج کل لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ! میرے لڑکپن کے زمانے میں اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہو گیا ہے‘‘۔

کھڑکی میں سے ایک شاداب وادی دکھائی دیتی تھی ، جس میں اونچے اونچے درخت کھڑے جھومتے تھے ۔ یہ وادی بڑی حد تک ہموار تھی اور اس میں ڈھلان کم تھا ۔ مارتھا نے آٹھ نو بچوں کو اس میں کھیلتے دیکھا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان بچوں کے قہقہوں اور خوشی کی چیخوں کی آوازیں اُس کے کان میں آتی تھیں ۔ پھر اُس کے دیکھتے دیکھتے اُن سب نے اپنا کھیل ختم کر دیا اور ڈھلان پر سے دوڑتے اور چیختے دکھائی دیے :-

’’مارگریٹ ! مارگریٹ!‘‘

مارگریٹ  موڑ پر سے جلدی جلدی آ رہی تھی اور اُس کی بغل میں کوئی چیز دبی تھی ۔ بچے دوڑ کر اس کے قریب پہنچ گئے اور سب نے اسے گھیر کر کہنا شروع کیا:- ’’مارگریٹ ! آؤ ہمارے ساتھ کھیلو۔ ہم نے ایک نیا کھیل نکالا ہے‘‘۔

’’ابھی آتی ہوں ابھی میرے پیارو۔ لیکن پہلے مجھے اپنی خالہ سے کچھ کہنا ہے‘‘۔

وہ باورچی خانے میں داخل ہوئی ۔ دوڑ کر خالہ کے پاس گئی اور اُسے پیار کیا ۔ پھر اپنی بغل میں سے بکس والا رومال نکالا اور شرما شرما کر اُسے کھولنے لگی۔ جب کھول چکی تو خوشی خوشی بولی:ـ ’’دیکھو خالہ ، میری دراز میں سے مجھے کیا ملا‘‘۔

اتنا کہہ کر اس نے بکس خالہ کی طرف بڑھا دیا اوراُس کا کھٹکا دبا دیا ۔

اس کی خالہ نے تعجب و حیرت سے ٹھٹک کر دیکھا ۔ پھر اس میں سے سونے کی زنجیر نکال کر اُس پر رشک سے ہاتھ پھیرا اور مشتبہ نظروں سے مارگریٹ  کی طرف دیکھا ۔

’’اچھا تو میری ننھی بِلّی ۔ تیرا بھی کوئی دلدار پیدا ہو گیا!‘‘۔

’’نہیں نہیں خالہ! میں نے ابھی ابھی کہا تھا نہ تم سے کہ یہ میری دراز میں رکھا وا تھا ۔یہی وجہ  ہے ک ہ میں نے اماں سے بھی ابھی تک کوئی ذکر نہیں کیا کہ کہیں وہ بھی یہ خیال نہ کر لیں کہ میرا کوئی دلبر پیدا ہو گیا ہے ۔ اور بھائی ویلنٹین سے بھی نہیں کہا ۔ یہ تمہارے لیے نئی خبر ہے خالہ کہ بھائی گھر آئے ہوئے ہیں ۔ ہے نا  نئی خبر؟‘‘

’’ویلنٹین  گھر آیا ہوا ہے ؟ بڑی عجیب خبر ہے یہ تو!‘‘

’’ہاں ۔ دیکھو، یہ کلائی میں جو چاندی کی زنجیر پڑی ہے وہ میرے لیے لائے ہیں‘‘۔

’’بہت بھلی لگتی ہے تیرے ہاتھ میں ۔ اچھا اب ذرا سونے کی زنجیر پہن کر دیکھیں ۔ پہلے میں خود پہن کر دیکھتی ہوں‘‘۔

خالہ مارتھا آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور زنجیر کو اپنے سینے پر مختلف زاویوں سے رکھ کر دیکھا اور ملوکانہ تمکنت سے گردن میں خم ڈال ڈال کر دیکھتی رہی ۔ اُدھر مارگریٹ اُس کے پیچھے کھڑی بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی کہ خود پہن کر دیکھے ۔ خدا خدا کر کے خالہ نے زنجیر چھوڑی اور ایک آہِ سرد بھر کر بولی :- ’’ لے بچی ! اب دیکھ تیرے گلے میں کیسی  کھلتی ہے‘‘۔

مارگریٹ نے بڑی پھرتی سے اُسے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے گلے میں پہن لیا اور سانس روک کر اپنا عکس آئینے میں دیکھا ۔

’’آہا ۔ کیسی خوبصورت ، کیسی اچھی معلوم ہوتی ہے‘‘۔ مارگریٹ نے ہانپ کر کہا ۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور خیال اس کے ذہن پر چھا گیا اور وہ یہ تھا کہ اگر شہزادہ اس کو اِسے پہنے ہوئے دیکھے تو کس قدر خوش ہو ۔ مسرت کی لہر اس کے سر سے پاؤں تک تڑپتی چلی گئی ۔ یہ مسرت جسمانی بھی تھی اور ذہنی بھی ۔ یہ مسرت زندگی کی تھی ۔ آج کا دن ، یہ لمحہ کس قدر مسرت آفریں تھا ۔ اِس انکشاف پر کہ وہ ایک نئی مارگریٹ بن گئی ہے ۔ ایک ایسی مارگریٹ  جو زندگی کی آواز کا جواب دے سکتی تھی ۔ جو زندگی کی آواز پر لرز جاتی تھی ۔ جیسی حالت اس لمحے اس کی تھی، اس میں ایک پُرزور جذبہ موجزن تھا کہ وہ ان تاثرات کو ادا کر سکے جو اُسے کپکپا رہے تھے ۔

باہر بچے گارہے تھے اور اُسے آوازیں دے رہے تھے ۔’’مارگریٹ ، مارگریٹ‘‘۔

مارگریٹ بولی:- ’’ میں آ رہی ہوں بچو! ابھی آ رہی ہوں‘‘۔ اور لپک کر اُن کی طرف چلی ۔ بچوں نے خوشی کی چیخوں سے اُس کا خیرمقدم کیا ، اور وہ بن (جنگل )دیویوں کی طرح آنکھیں چمکاتی ، جسم بہار کی ہو ا سے ٹکراتی ، سورج اور بادِ خنک کے بوسوں سے بے خبر وادی کی طرف بھاگی جا رہی تھی ۔

مارگریٹ کی نئی ہیئت کذائی کو دیکھ کر مارتھا حیران ہو رہی تھی اور اس کی کایا پلٹ کا سبب معلوم کرنے کی کوشش میں منہمک تھی کہ ایک بھاری اور گہری آواز نے اُسے چونکا دیا ۔

اُس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازے  میں ایک شخص کھڑا نظر آیا ، جو خوش اخلاقی سے مسکرا رہا تھا ۔ سر پر ایک سیاہ ٹوپی تھی اور اس میں ایک لمبا سرخ پر  لہرا رہا تھا ۔ یہ شخص کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ بھاری بھرکم آدمی تھا اور اس کا چُغہ کالے رنگ کا تھا جس کے حاشیے سرخ تھے ۔ اُس نے کہا: – ’’حسین خاتون، مجھے معاف کیجئے گا ۔ مجھے مسنر مارتھا کی تلاش ہے‘‘۔

اس کے الفاظ سن کر مارتھا کا دل اچھلنے لگا ۔ غمزہ سے آنکھیں چڑھا کر بولی :- ’’میں ہی ہوں مسنر مارتھا ۔ گو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں شادی شدہ ہوں ۔ میرے عزیز شوہر کا انتقال ہو چکا ہے‘‘۔

’’تب تو میں نہایت خوش نصیب رہا حسین ترین خاتون ۔ مسنر مارتھا کے لیے میں ایک تحفہ لایا ہوں ۔ تو یہ آپ کے لیے ہے‘‘۔

اُس نے اپنے چغہ میں سے سونے کا ایک بھاری سا ہار نکالا جو اشرفیوں کا بنا ہوا تھا ۔

’’لُمبارڈی میں جو آپ کے بھائی ہیں یہ اُن کی طرف سے ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اُس نے ہار اس طرح اپنے ہاتھوں میں لیا گویا مارتھا  کے گلے میں پہنانا چاہتا ہے ۔

اُس نے مایوسی سے نووارد کی طرف دیکھا اور بولی :- ’’ لیکن میرا تو کوئی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

وہ کہتے کہتے رُک گئی اور اُس کے ہاتھوں سے ہار جھپٹ کر آئینہ کی طرف لپکی تاکہ اُسے اپنے گلے میں پہن کر دیکھے ۔ پھر خوشی کی چیخیں مارنے کے بعد بولی:- ’’ میں تو سمجھی تھی کہ اتنے سال گزر جانے پر بھلا اُس نے مجھے کیا یاد رکھا ہو گا ۔ کیسا اچھا بھائی ہے میرا کہ اپنی ننھی مارتھا کو نہ بُھولا ۔ لیکن یہ تو میں بھی بھول گئی کہ میں میزبان ہوں ۔ تشریف رکھیے اور میرے ساتھ شراب پیجئے‘‘۔

نووارد کے چہرے پر خوف کے آثار ظاہر ہوئے ۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتے ہوئے کہا:- ’’ شراب! میں اُسے چھوتا تک نہیں ۔ لیکن اے حسین دوشیزہ ، اگر تم مجھے اجازت دو تو میں اپنے پینے کی چیز خود تیار کر لوں‘‘۔

یہ کہہ کر وہ الماری کی طرف بڑھا جس میں شراب اور پینے کی دووسری چیزیں رکھی تھیں ۔ بڑی پھرتی اور احتیاط سے کئی بوتلوں میں سے اُس نے تھوڑا تھوڑا سا عرق پیالے میں نکالا اور پھر اپنا ہاتھ جام پر رکھ کر اُسے خوب زور سے جھکولے دیے اور بولا:- ’’میں نے یہ فن پیڈو میں سیکھا تھا‘‘۔  یہ کہہ  کر پیالہ میز پر رکھ دیا ۔ وہ چمک رہا تھا اور مارتھا کا جی اُسے دیکھ کر  للچانے لگا  ۔ یہاں تک کہ اُس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگی :- ’’پیڈو  کی اس عجیب و غریب چیز کو میں پینا چاہتی ہوں‘‘۔

یہ کہا اور نازوانداز سے اُسے اٹھا لیا ۔ مہمان نے اسے باز رکھنے کا بہانہ کیا مگر اُس نے ایک بڑا سا گھونٹ لے لیا ۔ ذرا سی دیر بعد اُس نے کھانسنا اور ہانپنا  شروع کیا ۔ تکلیف سے اُس کی آنکھیں اُبل پڑیں ۔ اُ س کے پیٹ میں آگ لگ رہی تھی اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بِھڑوں کا چھتہ لپٹ گیا ہے ۔ نووارد اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔

پھر مارتھا کی حالت بدلی ۔ کھانسی کا دورہ ختم ہوا ۔ غصہ اور ملامت کے آثار چہرے سے جاتے رہے اور ان کی بجائے غمزہ و سرخوشی کی علامات نمایاں ہو گئیں ۔ اُس نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کرسرد آہیں بھرنی شروع کیں ۔ پھر وہ نووارد کی طرف جھکی اور کہنے لگی:- ’’ تمہاری آنکھیں کیسی شریر ہیں‘‘۔

وہ بولا :- ’’ ہاں ہاں ! یہ تو ہے ۔ لیکن اب مجھے اپنے دوست کے پاس جانا ہے ۔ وہ دیکھو ، وہ رہا‘‘۔ اور اُس نے خیاباں کی طرف اشارہ کیا ۔

مارتھا نے اُس طرف دیکھا تو اُسے رئیسانہ لباس پہنے ایک شخص نظر آیا جو ایک درخت کا سہارا لیے کھڑا تھا ۔ اس کا ایک ہاتھ سینے پر زور سے بھنچا ہوا تھا اور وہ مارگریٹ کو دیکھنے میں منہمک تھا جس کے گرد بچے اچھل کود رہے تھے اور گا رہے تھے ۔ وہ درخت کے سائے میں اس طرح کھڑا تھا کہ آنےجانے والے اُسے نہ دیکھ سکیں ۔

’’وہ  ہے میرا دوست ۔ کیوں ہے نا حسین ؟ وہ ایک شہزادہ ہے ، اصل نسلی شہزادہ ۔ ایسا  معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو حسین لڑکی کھڑی ہے اُس پر عاشق ہو گیا ہے ۔ اُسے اپنی دلہن کی تلاش ہے اس لیے ۔۔۔۔‘‘ ۔

’’یہ لڑکی تو میری بھانجی ہے اور اس سے زیادہ حسین لڑکی ۔۔۔۔‘‘۔

’’تمہاری بھانجی ہے ؟ تب تو پیاری خاتون تم میرے دوست کی مدد کر سکتی ہو ۔ شہرادہ تمہاری بھانجی سے یہاں اس طرح مل سکتا ہے کہ کوئی اور ان کی باتوں میں دخل نہ دے‘‘۔

مارتھا  کے منہ سے صرف اتنا نکلا:- ’’شہزادہ ! شہزادہ!‘‘

’’اِس محبت میں مجھے صرف تمہاری امداد کی ضرورت ہے‘‘۔ نووارد نے کہا ۔

مارتھا اُس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے بولی :- ’’ ہاں ہاں ۔ اور تم بھی تو یہاں آیا کرو گے ؟‘‘

’’ہاں ۔ میں تو آتا ہی رہوں گا‘‘۔ اِتنا بڑبڑا کر اُس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کمرے سے چلنے کو ہوا ۔ پیٹھ پھیرتے ہی انتہائی نفرت سے اس کا منہ بگڑ گیا اور وہ گھر سے رخصت ہوا ۔

فاؤسٹ اچھلنے کودنے والوں کا تماشہ کھڑا دیکھتا رہا ۔ اپنی ساری عظیم الشان زندگی میں اُس نے ایسا متاثر کرنے والا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ طلسماتی شان و شکوہ ، عیش و نشاط کی مجلسیں ، شاہی دربار ، ماضی کی سیروتفریح ، زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سحر کے زور سے جو سیاحت کی تھی ، سارے حسین ، حیرت خیز اور پوشیدہ مقامات جو اُس نے دیکھے تھے ۔ غرض سب کچھ اس منظر کے آگے ہیچ تھا ۔ یہ منظر  کیا تھا پرستان کا نظارہ  تھا ۔ وادی میں سبز گھاس کا فرش تھا ، جگہ جگہ پھولوں کی افشاں چُنی ہوئی تھی ۔ سفید تنوں والے اونچے اونچے درخت پہرہ دے رہے تھے  اور بہار کی ہوا چلتی تھی تو مستوں کی طرح جھومنے لگتے تھے ۔ ان کے پیچھے شاہ بلوط کے مضبوط درختوں کی فوج کھڑی تھی اور ان کی ٹہنیاں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں گویا دیو ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں کہ خبردار کو ئی نااہل اِس پرستان میں داخل نہ ہونے پائے ۔

چونچال بچے پھولوں کے ہار پہنے اس طرح ہنس رہے تھے جیسے چاندی کی گھنٹیاں بجتی ہوں ۔ ان سب نے ہاتھ جوڑ کر مارگریٹ  کو گھیرے میں لے لیا اور گاتے جاتے تھے اور چکر کاٹتے جاتے تھے ۔ یہ گویا پرستان کے بالشتیے (بونے) تھے ، سیماب وش (پارہ صفت)، بادپا(ہوا کی طرح تیز رفتار)کہ ذرا سا اشارہ پاتے ہی درختوں کی ٹہنیوں میں روپوش ہو جائیں ۔ مارگریٹ ان کے بیچ میں سُدھ کھڑی تھی ۔ آنکھیں چمک رہی تھیں اور اُن میں سے نور چھن رہا تھا ۔ چہرہ خوشی اور زندگی سے تمتما رہا تھا ۔ اس کا لباس ملائم اور سفید تھا جس میں سبزہ  جھلک رہا تھا ۔ ہوا سے اس کے کپڑے پھڑپھڑا رہے تھے اور اس کے نازک و حسین جسم سے  لپٹے جا رہے تھے ۔ یہ گویا بن دیہی تھی  جو درختوں اور پھولوں کی محافظ تھی ۔

یہ سب مل کر  گھیرے کا کھیل کھیل رہے تھے جو پھولوں سے کھیلا جاتا تھا اور غالباً اب سے صدیوں پہلے سے بھی یہی کھیل کسی نہ کسی شکل میں اِسی وادی میں کھیلا جاتا رہا تھا ۔ بچوں کے گلوں میں پھولوں کے زنجیرے(ہار) پڑے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں پھولوں کے ڈنٹھل (ٹہنیاں) تھے  ۔ مارگریٹ   کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے تھے  اور ان پر ایک گجرا رکھا  تھا تاکہ جب ناچنے والوں کا گھیرا ٹوٹے تو جو دوسرا بادشاہ یا ملکہ بنے اُسے اِس کا تاج پہنا دے ۔

فاؤسٹ ٹکٹکی جمائے سانس روکے اِس پرستان کے منظر کو دیکھ رہا تھا تاکہ اس کے سانس سے یہ تارِ عنکبوت کی طرح ٹوٹ نہ جائے ، اُس کی نظر اب صرف مارگریٹ  پر جمی ہوئی تھی ۔ زندگی کے جتنے شبہات تھے اب سب فنا ہو چکے تھے ۔ اُس کی روح ایک بار پھر جوان ہو گئی تھی اور ان میں وہ تمام امیدیں اور آرزوئیں پیدا ہو گئی تھیں جو شبابِ لطیف کے لیے مخصوص ہوتی ہیں ۔ مارگریٹ کی معصومیت اس میں اس طرح کارفرما ہو رہی تھی جیسے کوئی پاک کرنے والا شعلہ ہو ۔ وہ فاؤسٹ جسے صرف عیش و نشاط ، عیاشی داد باشی کی تلاش رہتی تھی  فنا ہو رہا تھا اور اس کی بجائے ایک ایسا فاؤسٹ مرتب ہو رہا تھا جس میں امید اور معصومیت کی آرزو جاگ رہی تھی ۔

بچوں نے اب گھیرے کا گیت گانا شروع کیا اور اپنے ہاتھوں کو خوب پھیلا کر گھیرا بڑا کیا اور مارگریٹ  کے گرد گھومنے لگے ۔ اس طرح کہ اُن سب کی نظریں اس پر لگی رہیں:-

دولھا کے لیے اِک پھول

اِک پھول اِک پھول

دولھا کے لیے اِک پھول اور

دُلہن کے لیے اِک گجرا

مارگریٹ  کے چہرے پر سوچ کے آثار پیدا ہو گئے ۔ گویا یہ سیدھے سادے الفاظ اُسے ایک پیغام پہنچا رہے تھے ۔ ایک حوصلہ شکن آرزو کے پورا ہونے کی امید دلا رہے تھے ۔

کھیل کے قاعدے کے مطابق اُس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے ۔ یہ گویا گھیرا ٹوٹنے کی تمہید ہوتی تھی ۔ اب بچوں نے پھر گانا شروع کیا اور دوسری سمت میں چکر کاٹنا شروع کیا :-

اُوپر ڈھونڈو نیچے ڈھونڈو

اس کے سر پر تاج رکھو

تاج یہ خوشیاں لائے گا لیکن

بوسہ سے پہلے چھُو تو لو

تیز چیخوں کے ساتھ گھیرا ٹوٹ گیا اور سب تِتر بِتر ہو گئے ۔ سب بچے بھاگ کر درختوں کے سائیوں میں جا چھپے ۔ مارگریٹ  ابھی تک اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے کھڑی تھی ۔

فاؤسٹ بے اختیاری میں آگے بڑھا اور مارگریٹ  کے قریب پہنچ گیا ۔ آنکھوں میں پرستش کی چمک تھی ۔ مارگریٹ کی آنکھیں بند تھیں اور ہاتھوں میں پھولوں کا ہار لیے قہقہہ لگا کر بولی:- ’’ ٹھہرو تو سہی شیطانو ، آئی میں ابھی ۔ دیکھنا میں اپنا تاج کِسے دیتی ہوں‘‘۔

اُس کے پھیلے ہوئے ہاتھ فاؤسٹ سے ٹکرائے اور اُس نے جلدی سے یہ کہہ کر اُس کا بازو پکڑ لیا  کہ ، ’’ میں نے تجھے پکڑ لیا ۔ تو ۔۔۔‘‘۔

پھر اس کی یہ حالت ہوئی جیسے کسی نے اُس پر جادو کر دیا ہو ۔ سر پیچھے کو جھکا ہوا ، حیرت سے آنکھیں پھٹی ہوئیں اور وفورِ مسرت سے سارے جسم میں تشنج ۔ اُس کی انگلیوں نے اُس ہاتھ کو آہستہ سے ٹٹول کر دیکھا تاکہ یقین ہو جائے یہ کوئی فریبِ نظر یا دل کی گھبراہٹ کا نتیجہ نہ ہو۔ اُس نے  مضبوط گرم ہاتھ کو محسوس کیا ، اور جب اس کا یقین ہو گیا وہ اُسی بے  مثل مرد سے ملی کھڑی ہے جس کے لیے اُس نے اپنی ساری زندگی تج دی ہے اور وہ محبت نذر گزران وہی ہے جس کا محرک وہ خود ہوا تھا تو اُس کے چہرے پر گلابی رنگ چھا گیا ۔ اُس کی انگلیاں رُک رُک کر اس کے بازو پر سے پھسلیں اور اس کے ہاتھ پر آ کر ٹکیں ۔ شرما کر اُس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا مگر اُس کے رگ و پے میں بجلی سی کوند گئی ۔ فاؤسٹ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ سر نیچا کر کے اور ایک گھٹنا  ٹکا کر ہلکی مؤثر آواز میں بولا:- ’’ مجھے اپنا تاج دے دو‘‘۔

صرف ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹکی ۔ آہ کی طرح کی ایک آواز اُس کے منہ سے کپکپاتی نکلی ، اور اُس نے جھک کر پھولوں کا تاج فاؤسٹ کے سر پر رکھ دیا ۔ اس کی آنکھوں میں پورا پورا اعتماد اور انتہائی مسرت تھی ۔ فاؤسٹ نے بڑی نرمی سے اُس کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے رُخسار سے لگا لیا ۔

اب انہیں معلوم ہوا کہ چونچال بچے انہیں گھیرے ہوئے چہک رہے ہیں ۔ اُن سب نے مل کر زور زور سے گانا شروع کیا اور چکر کاٹنے لگے ۔ اب انہوں نے اِس کھیل کے گیت کا آخری بند گایا جس میں نئے بادشاہ یا ملکہ کو تسلیم کیا جاتا تھا:-

ایک ، دو ، تین

تم آزاد ہو ۔

ایک بوسہ اُس کے لیے ۔

ایک بوسہ تمہارے لیے

آنکھ جھپکاتے میں وہ سیدھا کھڑا ہو چکا تھا اور مارگریٹ اُس کی آغوش میں تھی ۔ اُس کی پُرشو ق نظریں مارگریٹ  کی آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں اور اُن میں سے اعتماد اور معصومیت جھانک رہی تھی اور خود اس کے جذبات کا عکس بھی اُن میں نظر آ رہا تھا ۔ تمام خوف، شبہ ، خطرہ ، مارگریٹ کے شعلۂ محبت سے جل چکا تھا ۔

گرم جوشی مگر نرمی سے فاؤسٹ نے اُس کے لبوں کو چوما ۔ یہ محبت کا پہلا بوسہ تھا جو اُس کے لبوں پر ثبت کیا گیا تھا ۔ اس لمحہ اُس نے اپنی روح فاؤسٹ کے سپرد کر دی تھی ۔

پھر ہانپ کر وہ فاؤسٹ سے علیٰحدہ ہوئی ۔ چہرے پر عجیب روشنی تھی ۔ چھوٹتے ہی وہ وادی سے  چھلانگیں مارتی درختوں کے سائے میں روپوش ہو گئی ۔ بچے بھی منتشر ہو کر خوشی سے چیخنے لگے گویا جو کچھ ہوا تھا وہ بھی اِس کھیل کا ایک جزو ہی تھا ۔

فاؤسٹ بھی اُس کے پیچھے لپکا ۔ درختوں کے بیچ میں سے اُس کے  سفید لباس کی جھلکیاں دکھائی دے رہی تھیں اور وہ اُڑی چلی جا رہی تھی ۔ بالآخر درختوں کے ایک گھنے جھنڈ کے قریب فاؤسٹ نے اُسے جا لیا ۔ تیز دوڑنے  کی وجہ سے اس کا سانس پھول گیا تھا ۔ ہانپتے ہوئے اس نے التجا کی :- ’’مارگریٹ ، مارگریٹ! تو مجھے سے کیوں بھاگ رہی ہے ؟ تیری تلاش میں تو میری ساری عمر گزری ہے ۔ اور اب جب کہ میں نے تجھے پا لیا ہے تو مجھ سے گریزاں ہے ۔ ٹھہر ، مارگریٹ!‘‘۔

محبت کی سرخوشی نے اس کے چہرے کو نورانی بنا دیا ۔ اس کے ہاتھ خود بخود فاؤسٹ کی طرف پھیل گئے ۔ رُخساروں پر آنسو ڈھلکنے لگے اور لبوں پر لفظ آتے آتے آہیں بن گئے ۔ فاؤسٹ نے اُسے سینے سے لگا لیا اور ایک گرم و طویل بوسہ لبوں پر ثبت کیا۔

آہستہ سے بولا:- ’’تو میرے لیے مقدس ہے ۔ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں مارگریٹ!‘‘۔

پھولوں کا ہار فاؤسٹ کے ہاتھ میں اب تک تھا ۔ اُسے مارگریٹ کے سر پر آراستہ کر کے بولا:- ’’دیکھو ۔ میں تمہیں یہ تاج پہنا کر اپنی ملکہ بناتا ہوں‘‘۔

اور مارگریٹ نے آہستہ سے کہا:- ’’اور تم میرے بادشاہ ہو گے ۔ میں ۔۔۔میں تم سے محبت کرتی ہوں‘‘۔

یہ کہہ کر اپنے لرزتے ہاتھوں سے فاؤسٹ کا سر جھکایا  اور اپنے سینے  پر رکھ کر بڑی نرمی سے اُسے پیار کیا ۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور لبوں پر مسکراہٹ ۔

فاؤسٹ نے سرگوشی کے لہجے میں کہا:- ’’اور  میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ، دل و جان سے محبت کرتا ہوں ۔ تو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتی کہ تو میرے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے ۔ تو میرے لیے امید لائی ہے اور ایک نئی زندگی کا پیغام ۔ میں تیرا ہوں پیاری ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تیرا‘‘۔

پانچواں باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search